السلام علیکم،
میں نے یہ کتاب الحمدللہ کسی تعصب کے بغیر پڑھی ہے۔ خوامخواہ کی بحث سے میں اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہوں اس لیے متعلقہ صفحات دیکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیں کہ جس اقتباس کی بنیاد پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عبادت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے وہ اصل میں کیا ہے۔ مکمل کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک یہ ہے:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ!
محترم یہ کتاب میں نے بھی مکمل پڑھی ہے اور اس بات کا پورا خیال کیا ہے کہ کوئی ایسی بات مصنف کی جانب جان بوجھ کر منسوب نہ کی جائے جو اسکی تحریر سے ثابت نہ ہوتی ہو اور وہی بات بیان کی جائے جو صاحب کتاب کی تحریر سے واضح ہے۔یہ آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ نے مجھ پر جو الزام عائد کیا ہے کہ میں نے سیاق و سباق سے ہٹ کر عبارت پیش کی اور اس کے معنی بیان کئے ہیں، اس کو ثابت کرتے لیکن اس کے برعکس آپ نے خود کچھ بیان کرنے کے بجائے الٹا مجھے ہی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ میں تو پہلے ہی کتاب پڑھ چکا ہوں اور مجھے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ملی جس سے آپکا بے بنیاد دعویٰ ثابت ہوتا ہو۔
معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے حنفیوں پر ابوحنیفہ کی عبادت کا الزام نہیں لگایا بلکہ اسے دلائل سے ثابت کیا ہے کیونکہ یہی حقیقت ہے۔ جس شخص کو اس سے اختلاف ہے اسے چاہیے کہ ایک ایک حوالہ نقل کرکے اس کا رد کرے ورنہ خالی خولی اسے الزام کہہ کر حقیقت سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔
تقی عثمانی کی عبارتیں جو احادیث کی تحقیر اور قول امام کی بڑائی پر مبنی ہیں ایک مسلمان کے لئے انتہائ تکلیف کا باعث ہیں۔لیکن مقلدین کے لئے اس لئے باعث تکلیف نہیں کہ مقلدین کے اندر تعصب اتنا رچ بس گیا ہے کہ وہ تعصب کو بھی اعتدال سمجھ کر دوسروں پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے دل سے احادیث رسول کی محبت ختم ہو چکی ہے اور قول امام کی محبت عروج پر ہے۔ ایسے ہی تھوڑی تقلید کو جہالت اور مقلد کو جاہل اور غبی کہا گیا ہے۔
اب کچھ بات تقلیدی تقی عثمانی کی عبارات پر کرتے ہیں۔ تقی عثمانی صاحب نے عوام مقلدین کے لئے جو شرمناک احکامات صادر کئے ہیں انہیں بیان کرنے سے پہلے ہم یہ بتا دیں کہ مقلد تقی عثمانی کے نزدیک عوام مقلدین میں کون کون آتا ہے۔
قسم اوّل: ان افراد کی ہے جو عربی زبان سے ناواقف ہیں
قسم دوم: ان افراد کی ہے جو عربی تو جانتے ہیں لیکن باقاعدہ مدارس سے فارغ التحصیل نہیں ہیں
قسم سوم: ان افراد کی ہے جو اسلامی علوم تو باقاعدہ پڑھے ہوئے ہیں لیکن تفسیر، حدیث اور فقہ کے اصولوں میں اچھی استعداد اور بصیرت نہیں رکھتے۔
ان اقسام کے بیان کے بعد ہمیں یہ بتانے کی چندہ ضرورت نہیں کہ عوام مقلدین میں عام علماء بھی شامل ہیں۔
اب عوام اور علماء کو تقی عثمانی صاحب اپنے امام کی اندھی تقلید اور عبادت کی جو پٹی پڑھارہے ہیں اسے دیکھئے لکھتے ہیں:
بلکہ ایسے شخص (یاد رہے کہ ایسے اشخاص میں عوام کے علاوہ علماء بھی شامل ہیں) کو اگراتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے۔(تقلید کی (غیر) شرعی حیثیت، ص ٨٧)
ہم ان علماء سوء سے یہ پوچھتے ہیں کہ خلاف قول امام آجانے والی حدیث کو ٹھکرا دینے کا اور اپنے امام کے قول کو سینے سے لگا لینے کا فریضہ مقلد پر کس نے عائد کیا ہے؟ کیا اللہ نے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ کیا خود ابوحنیفہ نے؟
نہیں بلکہ یہ تقی عثمانی جیسے غالی مقلدین کی ہی سوچ ہے۔ جس سے بچنے کی ہر مسلمان کو ضرورت ہے۔
ملاحظہ فرمائیں تقلیدی مولوی تقی عثمانی صاحب یہاں کیا فرما رہے ہیں:
اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی مجتہد کو متعین کرکے ہر معاملے میں اسی کے قول پر اعتماد کرتا رہے۔ (تقلید کی (غیر) شرعی حیثیت، ص ٨٧)
یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ ہر انسان علاوہ نبی علیہ السلام کے خطا کا پتلا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی مجتہد ہو یا امام غلطی نہ کرے۔ لیکن تقی عثمانی کا ہر معاملے میں صرف امام ہی کے قول پر اعتماد اور عمل کا مشورہ و حکم دینا یہ بتا تا ہے کہ ان کے نزدیک ان کے امام معصوم عن الخطاء تھے۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو مقلد کو اپنے امام کی ہر صحیح اور غلط بات پر عمل کرنے کا حکم دینا اس مقلد کو اسکے امام کی عبادت پر لگانا نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اندھی تقلید بھی اس کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے؟ ہر معاملے میں بغیر سوچے سمجھے اندھا دھند کسی کے ہر غلط اور صحیح اقوال پر عمل کرنا اور نصوص کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنا ہی اس کی عبادت کرنا ہے۔ بلکہ صاف صاف کہا جارہا ہے کہ اگر کوئی حدیث بھی تمہارے سامنے آجائے جس سے تمھیں پتا چل جائے کہ تمہارے امام کا قول خلاف حدیث ہے تو پھر بھی اندھے اور نابینا بنے رہنا اور حدیث چھوڑ دینا لیکن امام کا قول مت چھوڑنا تاکہ آخرت کی بربادی میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ ہم ایسے علماء سو سے جو لوگوں کو اپنی کتابوں اور تحریروں کے زریعے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔
امام کی عبادت کی ایک اور بدترین مثال دیکھئے: عثمانی صاحب تقلید کے کالے قوانین کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔(تقلید کی (غیر) شرعی حیثیت، ص ٨٧)
ان لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جس حدیث کو مقلد اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر چھوڑے گا وہ صحیح ہے یا ضعیف بس اس حدیث کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ امام کے مسلک کے خلاف ہے۔کہاں مقلدین کا ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنے کا جھوٹا دعویٰ اور کہاں یہ کلام کے ہر حدیث چھوڑ دو جو تمہارے امام کے خلاف ہو۔ نہ جانے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء کو رب بنا لینا اور ان کی عبادت کرنا اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے؟
مقلدین کی جسارت ملاحظہ ہو کہ حدیث پر عمل کو تو سنگین گمراہی قرار دے رہے ہیں لیکن امام کے مسلک پر عمل چاہے وہ لاکھ قرآن و حدیث کے خلاف ہو کو عین ہدایت بتا رہے ہیں۔
اپنی باتوں کی نامعقولیت کا تقی عثمانی صاحب کو بھی پورا پورا احساس ہے۔اور انہیں بخوبی علم ہے کہ مسلمانوں کو تقلید کے نام پر ہم کس راستے پر ڈال رہے ہیں جو سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے اسی لئے موصوف مقلدین کو اسلام سے بغاوت اور امام کی اندھی تقلید اور اس کی عبادت کا مشورہ دینے کے بعد لکھتے ہیں:
بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ مجتہد کے مسلک کو قبول کر لیا جائے اور حدیث میں تاؤیل کا راستہ اختیار کیا جائے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جس درجے کے مقلد کا بیان ہورہا ہے اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔(تقلید کی (غیر) شرعی حیثیت، ص ٨٧)
ہم ایک مرتبہ پھر یاد دلا دیں کہ یہاں تقی عثمانی صاحب جس درجے کے مقلد کا ذکر کر رہے ہیں اس میں جاہل عوام کے علاوہ عام علماء بھی شامل ہیں۔ جاہل عوام کو تو چھوڑیے جب ان کے علماء بھی ایسی حرکات کرینگے کہ احادیث کو رد کرینگے اور قرآن اور حدیث کے مقابلے پر اپنے امام کی اندھی تقلید کرینگے اور امام کی حلال کردہ چیز کو حلال اور حرام کردہ چیز کو حرام جانیں گے تو کیا اس کو بھی امام کی عبادت سے تعبیر نہیں کیا جائے گا؟
اب تو یقیناً عبداللہ حیدر صاحب کا یہ شکوہ دور ہو گیا ہوگا کہ ہم نے تقی عثمانی کی عبارات کا غلط مطلب لیا کیونکہ تقی عثمانی تو خود بھی اپنی عبارات کا وہی مطلب بیان کررہے ہیں جو ہم نے بیان کیا ہے۔والحمداللہ
ہم نے تقی عثمانی کی صرف تین عبارتوں کی وضاحت اور تشریح کی ہے۔ عبد اللہ حیدر صاحب صرف انہیں کا جواب عنایت فرما دیں تو بڑی بات ہے۔ اگر ہماری تشریح غلط ہے اور تقی عثمانی کی عبارات کا سیاق و سباق کی رو سے کوئی اور مطلب بنتا ہے تو برائے مہربانی اس سیاق و سباق کا ذکر ضرور کیجئے گا اور دلیل سے اپنی بات ثابت کیجئے گا ورنہ بلاوجہ کے لفظی اختلاف سے پرہیز فرمائیے گا۔ والسلام