• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کہیں تقلید اپنے امام کی عبادت تو نہیں؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پیارے بھائیو میں نے ابھی تک جتنی بحث ہوئی وہ پڑھی آگے کتنی بحث ہو گی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔بہرحال میں ناچیز تو آپ بھائیوں کے درمیان کچھ سیکھنے کے لئے آتا ہوں۔میں نے اس بحث کو پڑھنے کے بعد بہت کچھ سیکھا۔شروع میں شاہد نزیر بھائی نے اچھے انداز میں وضاحت کی بعد میں ابن آدم بھائی نے بھی بہت اچھے انداز میں اصلاح کے ایک اچھے پہلو کی طرف شاہد نزیر بھائی کی نشاندہی فرمائی ۔اور دوسرے صفحے پر موجود پہلی پوسٹ جو کہ ابو الحسن علوی بھائی کی ہے وہ پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا ۔واقعی علوی بھائی کا بتایا ہوا طریقہ بہت اچھا ہے ایک علم والے انداز میں خوبصورت طریقے سے اصل بات کو واضح کر دیا گیا ہے۔نا تو بات کو چھپایا گیا ہے نا ہی غلط انداز استعمال کیا گیا ہے اور نا ہی بے علموں والی روش اپنائی گئی ہے۔جزاک اللہ خیرا علوی بھائی۔
اور پھر علوی بھائی کے بعد انس بھائی جان نے بھی شاہد نزیر بھائی اور ابن آدم بھائی کی باتوں کا بہت ہی اچھے انداز میں خلاصہ بیان کر دیا ہے۔جزاک اللہ خیرا انس بھائی جان۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
کہیں تقلید اپنے امام کی عبادت تو نہیں؟

۴۔ مفتی تقی عثمانی دیوبندی رقم طراز ہیں:

(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)

(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)

(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)

انا اللہ وانا علیہ راجعون! تقی عثمانی صاحب کی اس تحریر سے یہ واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک امام کی مخالفت میں قرآن اور حدیث پرعمل کرنا گمراہی ہے جبکہ اس کے برعکس قرآن اور حدیث کی مخالفت میں امام کے قول پر عمل کرنا عین حق اور صراط مستقیم ہے۔استغفراللہ۔ یہ لوگ شاید اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہوگئے ہیں جو مسلمانوں پر حدیث کو چھوڑنااور امام کے قول کو لازم پکڑنا فرض قرار دے رہے ہیں۔ثابت ہوگیا کہ حنفی قرآن اور حدیث کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بلکہ چھوڑ چکے ہیں لیکن اپنے امام کے قول کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔

اس کے بعد بھی کیا یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ واقعی یہ لوگ اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں؟! ۔
السلام علیکم،
آپ کا یہ مراسلہ دیکھ کر مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کی کتاب "تقلید کی شرعی حیثیت" میں نے خاص طور پر پڑھی ہے۔ آپ نے متعلقہ مقام کو شاید پورے سیاق و سباق کے ساتھ نہیں دیکھا ورنہ اس قدر شدید الفاظ استعمال نہ کرتے۔ وہاں بات ہی کچھ اور بیان ہوئی ہے۔
و لا یجرمنکم شنئان قوم علی ان لا تعدلوا
والسلام علیکم
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم،
آپ کا یہ مراسلہ دیکھ کر مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کی کتاب "تقلید کی شرعی حیثیت" میں نے خاص طور پر پڑھی ہے۔ آپ نے متعلقہ مقام کو شاید پورے سیاق و سباق کے ساتھ نہیں دیکھا ورنہ اس قدر شدید الفاظ استعمال نہ کرتے۔ وہاں بات ہی کچھ اور بیان ہوئی ہے۔
و لا یجرمنکم شنئان قوم علی ان لا تعدلوا
والسلام علیکم
محترم یقیناً آپ نے تقی عثمانی کی کی کتاب تقلید کی شرعی حیثیت پڑھی ہوگی لیکن جانب داری کی عینک لگا کر ورنہ آپ کو حق تک پہنچنے میں دقت نہ ہوتی۔ اگر کوئی بھی شخص جو تعصب اور جانب داری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تقی عثمانی کی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور محبت ابوحنیفہ سے بڑھ کر ہو تو یقیناً وہ تقلید پر بھی اس کتاب پر بھی ہزار ہا لعنت بھیجے گا۔

آپ سے درخواست ہے کہ وہ سیاق و سباق واضح فرمادیں جو ہماری نظروں سے اوجھل رہا اور آپ کو سمجھ میں آگیا۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
محترم یقیناً آپ نے تقی عثمانی کی کی کتاب تقلید کی شرعی حیثیت پڑھی ہوگی لیکن جانب داری کی عینک لگا کر ورنہ آپ کو حق تک پہنچنے میں دقت نہ ہوتی۔ اگر کوئی بھی شخص جو تعصب اور جانب داری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تقی عثمانی کی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور محبت ابوحنیفہ سے بڑھ کر ہو تو یقیناً وہ تقلید پر بھی اس کتاب پر بھی ہزار ہا لعنت بھیجے گا۔

آپ سے درخواست ہے کہ وہ سیاق و سباق واضح فرمادیں جو ہماری نظروں سے اوجھل رہا اور آپ کو سمجھ میں آگیا۔
السلام علیکم،
میں نے یہ کتاب الحمدللہ کسی تعصب کے بغیر پڑھی ہے۔ خوامخواہ کی بحث سے میں اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہوں اس لیے متعلقہ صفحات دیکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیں کہ جس اقتباس کی بنیاد پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عبادت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے وہ اصل میں کیا ہے۔ مکمل کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک یہ ہے:
http://www.archive.org/download/TaqleedKiShariHaisiyatByShaykhMuftiTaqiUsmani/TaqleedKiShariHaisiyatByShaykhMuftiTaqiUsmani.pdf



 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم،
میں نے یہ کتاب الحمدللہ کسی تعصب کے بغیر پڑھی ہے۔ خوامخواہ کی بحث سے میں اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہوں اس لیے متعلقہ صفحات دیکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیں کہ جس اقتباس کی بنیاد پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عبادت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے وہ اصل میں کیا ہے۔ مکمل کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک یہ ہے:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ!

محترم یہ کتاب میں نے بھی مکمل پڑھی ہے اور اس بات کا پورا خیال کیا ہے کہ کوئی ایسی بات مصنف کی جانب جان بوجھ کر منسوب نہ کی جائے جو اسکی تحریر سے ثابت نہ ہوتی ہو اور وہی بات بیان کی جائے جو صاحب کتاب کی تحریر سے واضح ہے۔یہ آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ نے مجھ پر جو الزام عائد کیا ہے کہ میں نے سیاق و سباق سے ہٹ کر عبارت پیش کی اور اس کے معنی بیان کئے ہیں، اس کو ثابت کرتے لیکن اس کے برعکس آپ نے خود کچھ بیان کرنے کے بجائے الٹا مجھے ہی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ میں تو پہلے ہی کتاب پڑھ چکا ہوں اور مجھے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ملی جس سے آپکا بے بنیاد دعویٰ ثابت ہوتا ہو۔

معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے حنفیوں پر ابوحنیفہ کی عبادت کا الزام نہیں لگایا بلکہ اسے دلائل سے ثابت کیا ہے کیونکہ یہی حقیقت ہے۔ جس شخص کو اس سے اختلاف ہے اسے چاہیے کہ ایک ایک حوالہ نقل کرکے اس کا رد کرے ورنہ خالی خولی اسے الزام کہہ کر حقیقت سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔

تقی عثمانی کی عبارتیں جو احادیث کی تحقیر اور قول امام کی بڑائی پر مبنی ہیں ایک مسلمان کے لئے انتہائ تکلیف کا باعث ہیں۔لیکن مقلدین کے لئے اس لئے باعث تکلیف نہیں کہ مقلدین کے اندر تعصب اتنا رچ بس گیا ہے کہ وہ تعصب کو بھی اعتدال سمجھ کر دوسروں پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے دل سے احادیث رسول کی محبت ختم ہو چکی ہے اور قول امام کی محبت عروج پر ہے۔ ایسے ہی تھوڑی تقلید کو جہالت اور مقلد کو جاہل اور غبی کہا گیا ہے۔

اب کچھ بات تقلیدی تقی عثمانی کی عبارات پر کرتے ہیں۔ تقی عثمانی صاحب نے عوام مقلدین کے لئے جو شرمناک احکامات صادر کئے ہیں انہیں بیان کرنے سے پہلے ہم یہ بتا دیں کہ مقلد تقی عثمانی کے نزدیک عوام مقلدین میں کون کون آتا ہے۔

قسم اوّل: ان افراد کی ہے جو عربی زبان سے ناواقف ہیں
قسم دوم: ان افراد کی ہے جو عربی تو جانتے ہیں لیکن باقاعدہ مدارس سے فارغ التحصیل نہیں ہیں
قسم سوم: ان افراد کی ہے جو اسلامی علوم تو باقاعدہ پڑھے ہوئے ہیں لیکن تفسیر، حدیث اور فقہ کے اصولوں میں اچھی استعداد اور بصیرت نہیں رکھتے۔

ان اقسام کے بیان کے بعد ہمیں یہ بتانے کی چندہ ضرورت نہیں کہ عوام مقلدین میں عام علماء بھی شامل ہیں۔

اب عوام اور علماء کو تقی عثمانی صاحب اپنے امام کی اندھی تقلید اور عبادت کی جو پٹی پڑھارہے ہیں اسے دیکھئے لکھتے ہیں:
بلکہ ایسے شخص (یاد رہے کہ ایسے اشخاص میں عوام کے علاوہ علماء بھی شامل ہیں) کو اگراتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے۔(تقلید کی (غیر) شرعی حیثیت، ص ٨٧)

ہم ان علماء سوء سے یہ پوچھتے ہیں کہ خلاف قول امام آجانے والی حدیث کو ٹھکرا دینے کا اور اپنے امام کے قول کو سینے سے لگا لینے کا فریضہ مقلد پر کس نے عائد کیا ہے؟ کیا اللہ نے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ کیا خود ابوحنیفہ نے؟
نہیں بلکہ یہ تقی عثمانی جیسے غالی مقلدین کی ہی سوچ ہے۔ جس سے بچنے کی ہر مسلمان کو ضرورت ہے۔

ملاحظہ فرمائیں تقلیدی مولوی تقی عثمانی صاحب یہاں کیا فرما رہے ہیں:
اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی مجتہد کو متعین کرکے ہر معاملے میں اسی کے قول پر اعتماد کرتا رہے۔ (تقلید کی (غیر) شرعی حیثیت، ص ٨٧)

یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ ہر انسان علاوہ نبی علیہ السلام کے خطا کا پتلا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی مجتہد ہو یا امام غلطی نہ کرے۔ لیکن تقی عثمانی کا ہر معاملے میں صرف امام ہی کے قول پر اعتماد اور عمل کا مشورہ و حکم دینا یہ بتا تا ہے کہ ان کے نزدیک ان کے امام معصوم عن الخطاء تھے۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو مقلد کو اپنے امام کی ہر صحیح اور غلط بات پر عمل کرنے کا حکم دینا اس مقلد کو اسکے امام کی عبادت پر لگانا نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اندھی تقلید بھی اس کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے؟ ہر معاملے میں بغیر سوچے سمجھے اندھا دھند کسی کے ہر غلط اور صحیح اقوال پر عمل کرنا اور نصوص کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنا ہی اس کی عبادت کرنا ہے۔ بلکہ صاف صاف کہا جارہا ہے کہ اگر کوئی حدیث بھی تمہارے سامنے آجائے جس سے تمھیں پتا چل جائے کہ تمہارے امام کا قول خلاف حدیث ہے تو پھر بھی اندھے اور نابینا بنے رہنا اور حدیث چھوڑ دینا لیکن امام کا قول مت چھوڑنا تاکہ آخرت کی بربادی میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ ہم ایسے علماء سو سے جو لوگوں کو اپنی کتابوں اور تحریروں کے زریعے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔

امام کی عبادت کی ایک اور بدترین مثال دیکھئے: عثمانی صاحب تقلید کے کالے قوانین کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔(تقلید کی (غیر) شرعی حیثیت، ص ٨٧)

ان لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جس حدیث کو مقلد اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر چھوڑے گا وہ صحیح ہے یا ضعیف بس اس حدیث کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ امام کے مسلک کے خلاف ہے۔کہاں مقلدین کا ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنے کا جھوٹا دعویٰ اور کہاں یہ کلام کے ہر حدیث چھوڑ دو جو تمہارے امام کے خلاف ہو۔ نہ جانے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء کو رب بنا لینا اور ان کی عبادت کرنا اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے؟
مقلدین کی جسارت ملاحظہ ہو کہ حدیث پر عمل کو تو سنگین گمراہی قرار دے رہے ہیں لیکن امام کے مسلک پر عمل چاہے وہ لاکھ قرآن و حدیث کے خلاف ہو کو عین ہدایت بتا رہے ہیں۔

اپنی باتوں کی نامعقولیت کا تقی عثمانی صاحب کو بھی پورا پورا احساس ہے۔اور انہیں بخوبی علم ہے کہ مسلمانوں کو تقلید کے نام پر ہم کس راستے پر ڈال رہے ہیں جو سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے اسی لئے موصوف مقلدین کو اسلام سے بغاوت اور امام کی اندھی تقلید اور اس کی عبادت کا مشورہ دینے کے بعد لکھتے ہیں: بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ مجتہد کے مسلک کو قبول کر لیا جائے اور حدیث میں تاؤیل کا راستہ اختیار کیا جائے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جس درجے کے مقلد کا بیان ہورہا ہے اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔(تقلید کی (غیر) شرعی حیثیت، ص ٨٧)

ہم ایک مرتبہ پھر یاد دلا دیں کہ یہاں تقی عثمانی صاحب جس درجے کے مقلد کا ذکر کر رہے ہیں اس میں جاہل عوام کے علاوہ عام علماء بھی شامل ہیں۔ جاہل عوام کو تو چھوڑیے جب ان کے علماء بھی ایسی حرکات کرینگے کہ احادیث کو رد کرینگے اور قرآن اور حدیث کے مقابلے پر اپنے امام کی اندھی تقلید کرینگے اور امام کی حلال کردہ چیز کو حلال اور حرام کردہ چیز کو حرام جانیں گے تو کیا اس کو بھی امام کی عبادت سے تعبیر نہیں کیا جائے گا؟

اب تو یقیناً عبداللہ حیدر صاحب کا یہ شکوہ دور ہو گیا ہوگا کہ ہم نے تقی عثمانی کی عبارات کا غلط مطلب لیا کیونکہ تقی عثمانی تو خود بھی اپنی عبارات کا وہی مطلب بیان کررہے ہیں جو ہم نے بیان کیا ہے۔والحمداللہ

ہم نے تقی عثمانی کی صرف تین عبارتوں کی وضاحت اور تشریح کی ہے۔ عبد اللہ حیدر صاحب صرف انہیں کا جواب عنایت فرما دیں تو بڑی بات ہے۔ اگر ہماری تشریح غلط ہے اور تقی عثمانی کی عبارات کا سیاق و سباق کی رو سے کوئی اور مطلب بنتا ہے تو برائے مہربانی اس سیاق و سباق کا ذکر ضرور کیجئے گا اور دلیل سے اپنی بات ثابت کیجئے گا ورنہ بلاوجہ کے لفظی اختلاف سے پرہیز فرمائیے گا۔ والسلام
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
شاہد نذیر بھائی،
پہلی بات تو یہ کہ عبداللہ حیدر بھائی مقلد نہیں ہیں۔ اہل توحید میں سے ہیں، الحمدللہ۔
دوسری بات یہ کہ عامی کو کہیں بھی صحیح حدیث نظر آئے تو اس کو اس پر عمل کرنا چاہئے یا نہیں۔ اس بارے میں میرے خیال میں اہلحدیث اور احناف میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس پر اسے عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس موضوع پر ابو الحسن علوی بھائی جان کا مضمون اہل سنت کا تصور سنت بہت مفید ہے۔ اور غالباً عبداللہ حیدر بھائی بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہے ہوں، واللہ اعلم!

عبداللہ حیدر بھائی،
اصل اختلافی بات یہ نہیں کہ حدیث نظر آئے تو اس پر عمل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تقی عثمانی صاحب یہاں پر ایسے عامی کو تحقیق کی بھی اجازت نہیں دیتے نا کوئی اشارہ ہی کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ فرماتے ہیں کہ اتفاقاً ایسی کوئی حدیث نظر بھی آ جائے تو حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں سمجھ نہیں سکا یا امام کے پاس اس کے معارض کوئی قوی دلیل ہوگی۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
مخالفین کے کلام کو سیاق و سباق کا لحاظ رکھے بغیر خود ساختہ مفاہیم کے لیے استعمال کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ افسوس، برصغیر کا کوئی مذہبی گروہ اس کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہا۔ ایمان، اسلام، قرآن، حدیث اور فقہ کے کتنے ہی علمبردار ہیں جو اس میدان میں آتے ہی سب سے پہلے علمی دیانت کا چولا اتار کر پھینک دیتے ہیں۔ اہل حق سے اس کا صدور دوسروں کے مقابلے میں شدید تر ہے کیونکہ حق کو جھوٹی الزام تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
والسلام علیکم
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
شاہد نذیر بھائی،
پہلی بات تو یہ کہ عبداللہ حیدر بھائی مقلد نہیں ہیں۔ اہل توحید میں سے ہیں، الحمدللہ۔
کسی شخص کی رائے پر تبادلہ خیال میں اصل توجہ نفس رائے پر ہونی چاہئے نہ کہ صاحب الرائے کے متعلّق! (اگرچہ صاحب الرّائے کے اپنے اعتقادات اور شخصیت بھی اس سلسلے میں اہمیت ہے، وہ اس کے موقف کو سمجھنے میں ممد ومعاون ہو سکتے ہیں)
اگر ایک بدعتی شخص کسی سنّت کی طرف دعوت دیتا ہے، تو کیا اس کی بات پر توجہ کی جائے کہ اس کے بدعتی ہونے پر؟؟!! اسی طرح اگر عمومی طور پر سنت پر عمل کرنے والا کبھی کسی بدعت کی دعوت دے تو کیا اس کی بدعت کو غلط کہنے کی بجائے یہ کہا جائے گا کہ وہ سُنّی شخص ہے؟؟!! معروف مقولہ ہے: انظر إلى ما قال ولا تنظر إلى من قال
والله أعلم بحقيقة الحال



دوسری بات یہ کہ عامی کو کہیں بھی صحیح حدیث نظر آئے تو اس کو اس پر عمل کرنا چاہئے یا نہیں۔ اس بارے میں میرے خیال میں اہلحدیث اور احناف میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس پر اسے عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس موضوع پر ابو الحسن علوی بھائی جان کا مضمون اہل سنت کا تصور سنت بہت مفید ہے۔ اور غالباً عبداللہ حیدر بھائی بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہے ہوں، واللہ اعلم!
شاکر بھائی! میں اس سلسلے میں آپ سے متفق نہیں! میری ناقص رائے میں اس بارے میں احناف اور اہلحدیث کا کافی اختلاف ہے۔
اہل الحدیث کے نزدیک مستقل حیثیت شریعت (کتاب وسنت) کو حاصل ہے نہ کہ اجتہاداتِ فقہاء کو۔
اگر وہ حدیث صحیح ہے اور اپنے معنیٰ میں بالکل صریح (قطعی الدّلالہ) ہے تو عامی شخص کیلئے بھی فتویٰ کے بجائے اس پر عمل کرنا لازم ہوگا۔ مثلاً اگر فتویٰ نمازِ استسقاء کی بدعت کا ہو اور صحیح وصریح حدیث میں موجود ہو کہ نبی کریمﷺ نے نمازِ استسقاء پڑھی ہے: أن النبي ﷺ خرج إلى المصلى، فاستسقى فاستقبل القبلة، وقلب رداءه، وصلى ركعتين ... صحیح بخاری: 1012، صحیح مسلم: 894 کہ ’’نبی کریمﷺ استسقاء کیلئے مصلیٰ کی طرف نکلے، قبلہ رخ ہوئے، اپنی چادر پلٹائی اور دو رکعتیں پرھائیں۔‘‘
تو کیا اس صورت میں عامی کو فتویٰ پر ہی عمل کرنا چاہئے یا صحیح وصریح حدیث پر؟؟!!
اسی طرح فتویٰ اگر نبی کریمﷺ کے نور ہونے اور عالم الغیب ہونے کا ہے، اور قرآن کریم کی صریح آیات نبی کریمﷺ کے بشر ہونے اور عالم الغیب نہ ہونے کی ہیں: ﴿ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ‌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ﴾ ... سورة الكهف: 110 اور ﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ﴾ ... سورة النمل: 65
تو عامی کو کس پر عمل کرنا چاہئے؟؟!!

البتہ اگر قرآن کریم یا حدیث مبارکہ اپنے مفہوم میں صریح نہیں (ظنی الدلالہ ہیں)، اور مفہوم سمجھنے کیلئے گہرائی میں اترنا ضروری ہے جو عامی کیلئے مشکل ہے تو علماء کی طرف رجوع کرنا ہوگا، لیکن بعد میں کسی اور عالم سے یا کسی اور ذریعہ سے علم ہوگیا کہ پچھلا فتویٰ قرآن وحدیث کے منافی ہے تو عامی کیلئے بھی (سورۃ النساء آیت نمبر 59 کے مطابق) قرآن وحدیث کی طرف رجوع لازمی ہوگا، کیونکہ یہ آیت کریمہ صرف علماء کیلئے خاص نہیں!

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
اس کتاب کے صفحہ ١٠٤ پر ہے:
"ایک متبحر عالم اگر کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں اور ان کے دلائل کا احاطہ کرنے کے بعد کم از کم اس مسئلہ میں اجتہاد کے درجہ تک پہنچ گیا ہو (خواہ وہ پوری شریعت میں مجتہد نہ ہو) تو وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ میرے امام مجتہد کا مسلک فلاں صحیح حدیث کے خلاف ہے، ایسے موقع پر اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ امام کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرے"
آپ حضرات کو یہ موقف کیوں نظر نہیں آتا؟
جزوی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی مذکورہ کتاب میں معتدل موقف اختیار کیا گیا ہے جسے روایتی ضد بازی کا نشانہ بنا دینا قابل افسوس ہے۔
والسلام علیکم
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ انس بھائی جان۔ وضاحت کے لئے مشکور ہوں۔ لیکن علوی بھائی کا مضمون حرفاً حرفاً پڑھ لینے کے بعد آپ کی درج بالا باتوں سے کچھ خلش پیدا ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے میرے سمجھنے میں غلطی ہو۔ علوی بھائی بھی موجود ہیں اور آپ بھی ہیں تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ذہنی خلشار کو دور کر لینا چاہتا ہوں۔ ویسے اسی تعلق سے آفتاب بھائی بھی سوال کر چکے ہیں جس پر مفصل گفتگو بھی رہی۔

اگر وہ حدیث صحیح ہے اور اپنے معنیٰ میں بالکل صریح (قطعی الدّلالہ) ہے تو عامی شخص کیلئے بھی فتویٰ کے بجائے اس پر عمل کرنا لازم ہوگا۔
صحیح بخاری میں قطعی الدّلالہ اور صریح حدیث موجود ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ اب ہر عامی کو معلوم ہے کہ فتویٰ بیٹھ کر پیشاب کرنے کا ہی ہے۔ تو کیا اس عامی کو صحیح بخاری میں یہ حدیث پڑھ کر علمائے کرام سے رجوع کرنے کی بجائے فوری طور پر اس حدیث پر عملدرآمد شروع کرنے کو کہا جا سکتا ہے؟
اس طرح کی کئی مثالیں ہیں کہ جس میں حدیث تو صحیح صریح ہے لیکن مثلاً منسوخ ہے یا راجح نہیں ہے۔ یا صرف خاص حالات کے لئے ہی لائق عمل ہے یا اس پر سنت سمجھ کر عمل کرنا درست نہیں۔ جس کی بہت ساری مثالیں اہل سنت کا تصور سنت مضمون میں موجود ہیں۔

اس مضمون کے مطالعے کے بعد میں نے جو اخذ کیا تھا وہ یہ تھا کہ اگر ایسی کوئی صحیح حدیث کسی عامی کو نظر آتی ہے کہ جس پر اس کا عمل نہیں ہے ( یا دیگر الفاظ میں جس کے مخالف فتویٰ موجود ہے) تو تقی عثمانی صاحب کی فکر پر حدیث کو نظر انداز کرنے یا امام کے پاس معارض قوی دلیل کا اعتقاد رکھنے کی بجائے اسے حدیث لے کر کسی متبع کتاب و سنت عالم دین سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ وہ اس کو اس حدیث کا درست موقع و محل سمجھا دے۔ اور زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے بعض مضامین سے میں نے یہ فکر اخذ کی کہ عامی کا اجتہاد یہی ہے کہ وہ متبع کتاب و سنت عالم دین ڈھونڈے۔ اور اس پر متعصب نہ ہو اگر دیگر کسی ذریعہ سے اس پر حق واضح ہو جائے تو پیروی حق ہی کی کرے نہ کہ کسی خاص فقہ و مسلک یا عالم دین یا امام کی۔
کیا درج بالا اخذ کردہ نتیجہ غلط ہے؟
 
Top