• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کہیں تقلید اپنے امام کی عبادت تو نہیں؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاک اللہ انس بھائی جان۔ وضاحت کے لئے مشکور ہوں۔ لیکن علوی بھائی کا مضمون حرفاً حرفاً پڑھ لینے کے بعد آپ کی درج بالا باتوں سے کچھ خلش پیدا ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے میرے سمجھنے میں غلطی ہو۔ علوی بھائی بھی موجود ہیں اور آپ بھی ہیں تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ذہنی خلشار کو دور کر لینا چاہتا ہوں۔ ویسے اسی تعلق سے آفتاب بھائی بھی سوال کر چکے ہیں جس پر مفصل گفتگو بھی رہی۔
وایاک بھائی! اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کا فہم عطا کریں اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دیں!

شاکر بھائی! آپ کی حالیہ پوسٹ کے آخری پیرا گراف سے یہ بات واضح ہے کہ میری اور آپ کی بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تعبیر کا فرق ہو سکتا ہے۔ در اصل میں نے آپ کی جس بات سے اختلاف رائے کیا تھا وہ آپ کا یہ کہنا تھا کہ
دوسری بات یہ کہ عامی کو کہیں بھی صحیح حدیث نظر آئے تو اس کو اس پر عمل کرنا چاہئے یا نہیں۔ اس بارے میں میرے خیال میں اہلحدیث اور احناف میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس پر اسے عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس موضوع پر ابو الحسن علوی بھائی جان کا مضمون اہل سنت کا تصور سنت بہت مفید ہے۔ اور غالباً عبداللہ حیدر بھائی بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہے ہوں، واللہ اعلم!
یہ اہل الحدیث کا موقف نہیں ہے!!!
عامی کو صحیح وصریح حدیث پر عمل کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی؟ قرآن واحادیث ہیں ہی عمل کرنے اور حرزِ جان بنانے کیلئے، علمائے کرام کیلئے بھی، عوام کیلئے بھی۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ﴾ ... سورة الأعراف: 3 کہ ’’تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو۔‘‘ یہ اور اس مفہوم میں دیگر بہت سے نصوص اُمت کے مخصوص افراد کیلئے نہیں بلکہ پوری اُمت کیلئے ہیں۔

البتہ جن نصوص کو سمجھنا عامی کیلئے مشکل ہے، تو وہ انہیں علماء سے سمجھے گا ﴿ فاسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ﴾ یعنی وہ علماء سے ان نصوص کی تشریح وتوضیح سمجھے گا نہ کہ ان کی ذاتی رائے (کہ بغیر دلیل کے ان کی تقلید شروع کر دے۔) اس سلسلے میں علماء کی رائے اور ان کا اجتہاد شریعت کا درجہ اختیار نہیں کرے گا، بلکہ وہ اجتہاد ہی رہے گا جو صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اگر اسی وقت یا بعد میں وہ اجتہاد دیگر نصوص کے مخالف نکلا تو اسے چھوڑ کر نصوص پر ہی عمل کرنا ہوگا۔ (سورة النساء: 59)

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن وحدیث پر عمل کرنا ہر مسلمان کیلئے لازمی ہے، نہ کہ صرف علماء پر! بعض وہ نصوص جو عامی کیلئے مشکل ہوں ان پر وہ علماء سے سمجھ کر تعصّب کے بغیر عمل کرے گا۔

صحیح بخاری میں قطعی الدّلالہ اور صریح حدیث موجود ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ اب ہر عامی کو معلوم ہے کہ فتویٰ بیٹھ کر پیشاب کرنے کا ہی ہے۔ تو کیا اس عامی کو صحیح بخاری میں یہ حدیث پڑھ کر علمائے کرام سے رجوع کرنے کی بجائے فوری طور پر اس حدیث پر عملدرآمد شروع کرنے کو کہا جا سکتا ہے؟
اس طرح کی کئی مثالیں ہیں کہ جس میں حدیث تو صحیح صریح ہے لیکن مثلاً منسوخ ہے یا راجح نہیں ہے۔ یا صرف خاص حالات کے لئے ہی لائق عمل ہے یا اس پر سنت سمجھ کر عمل کرنا درست نہیں۔ جس کی بہت ساری مثالیں اہل سنت کا تصور سنت مضمون میں موجود ہیں۔
اولاً: کسی بھی اُصول کو مثالوں سے طے کرنے کی بجائے دلائل کی روشنی میں فائنل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتاب وسنت کی اتباع کا حکم فرمایا ہے، جو ہر شخص (عالم وعامی) کیلئے ہے۔ البتہ اگر کسی نص کی وضاحت کیلئے گہرائی میں اترنا پڑے جو عامی کے بس کی بات نہ ہو تو پھر علماء سے سوال کرنے کا حکم ہے۔ (یہ واضح رہے کہ لا علمی یا سمجھ نہ آنے کی صورت میں علماء سے سوال کا مطلب ان سے ’ذاتی طور پر‘ تحلیل وتحریم کا فیصلہ کرانا نہیں بلکہ شریعت کی مراد کو سمجھنا ہے، جس کی بنیاد بھی قرآن وسنت کے دلائل ہی ہوں گے۔

ثانیا: یہاں بات ہو رہی ہے کہ جب فتویٰ صحیح وصریح نص کے مخالف ہو تو عالم کیلئے تو نص پر عمل کرنا ہے، جبکہ عامی کیلئے فتویٰ پر، حالانکہ اس سلسلے میں نص پر عمل کرنے کیلئے عالم وعامی کی کوئی تفریق کتاب وسنت میں موجود نہیں، البتہ لا علمی یا مشکل کی صورت میں ان سے سوال کرنے کا حکم ضرور ہے اور آپ کی پیش کردہ صورتیں مشکل نصوص ہی کے متعلق ہیں!

ثالثا: آپ نے پیشاب کی مثال دی تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اگر تو فتویٰ یہ ہے کہ بیٹھ کر پیشاب کرنا ہے اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ہر صورت میں ناجائز یا مکروہ ہے جبکہ صحیح وصریح حدیث میں مخصوص حالت میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا جواز موجود ہے تو اس صورت میں آپ کی رائے کے مطابق فتویٰ پر عمل ہونا چاہئے، حالانکہ اللہ کے حکم کے مطابق نبی کریمﷺ کا عمل ہمارے لئے حجت ہے۔ کیا ایسا نہیں؟!
البتہ اگر فتویٰ ہی یہ ہے کہ بیٹھ کر پیشاب کرنا چاہئے، البتہ بعض مخصوص حالات میں کھڑے ہو کر کرنے کا بھی جواز ہے، تو یہ حدیث مبارکہ اس کے مخالف ہے ہی نہیں۔

رابعا: اپنی بات کو واضح کرنے کیلئے میں نے دلائل کے ساتھ ساتھ کچھ مثالیں بھی پیش کی تھیں (نمازِ استسقاء، نور وبشر، علم الغیب وغیرہ) اس سلسلے صحیح وصریح نصوص پر عمل ہوگا یا فتووں پر؟؟!!

اس مضمون کے مطالعے کے بعد میں نے جو اخذ کیا تھا وہ یہ تھا کہ اگر ایسی کوئی صحیح حدیث کسی عامی کو نظر آتی ہے کہ جس پر اس کا عمل نہیں ہے ( یا دیگر الفاظ میں جس کے مخالف فتویٰ موجود ہے) تو تقی عثمانی صاحب کی فکر پر حدیث کو نظر انداز کرنے یا امام کے پاس معارض قوی دلیل کا اعتقاد رکھنے کی بجائے اسے حدیث لے کر کسی متبع کتاب و سنت عالم دین سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ وہ اس کو اس حدیث کا درست موقع و محل سمجھا دے۔ اور زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے بعض مضامین سے میں نے یہ فکر اخذ کی کہ عامی کا اجتہاد یہی ہے کہ وہ متبع کتاب و سنت عالم دین ڈھونڈے۔ اور اس پر متعصب نہ ہو اگر دیگر کسی ذریعہ سے اس پر حق واضح ہو جائے تو پیروی حق ہی کی کرے نہ کہ کسی خاص فقہ و مسلک یا عالم دین یا امام کی۔
کیا درج بالا اخذ کردہ نتیجہ غلط ہے؟
میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں کہ مشکل کی صورت میں تو عامی کو علماء سے رجوع کرنا ہوگا، اصل اختلاف تو تب ہے جب مسئلہ ہی اتنا واضح ہو لیکن عامی پھر بھی اپنے مسلک یا اپنے عالم یا استاد کے موقف پر ڈٹا رہے۔
محترم زبیر علی زئی صاحب والی بات اور میری بات میں کوئی تضاد نہیں ہے، اگر نص کو سمجھنا مشکل نہیں تو عامی نص پر عمل کرے گا اور اگر سمجھنا مشکل ہے تو علماء کرام سے سوال کرے گا، اگر بعد میں غلطی واضح ہوگئی تو پھر حق ہی کی پیروی کرے گا نہ کہ خاص فقہ وغیرہ کی۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اصل مسئلہ یہ ہے کہ تقی عثمانی صاحب یہاں پر ایسے عامی کو تحقیق کی بھی اجازت نہیں دیتے نا کوئی اشارہ ہی کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ فرماتے ہیں کہ اتفاقاً ایسی کوئی حدیث نظر بھی آ جائے تو حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں سمجھ نہیں سکا یا امام کے پاس اس کے معارض کوئی قوی دلیل ہوگی۔
بالکل صحیح کہا آپ نے، جزاکم اللہ خیرا!
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شاہد نذیر بھائی،
پہلی بات تو یہ کہ عبداللہ حیدر بھائی مقلد نہیں ہیں۔ اہل توحید میں سے ہیں، الحمدللہ۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ!

غالباً اہل توحید سے آپ کی مراد اہل حدیث ہے کیونکہ عذاب قبر کے منکروں کو بھی عرف عام میں توحیدی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ خود کو اہل توحید کہتے ہیں۔وہ اہل توحید یا اہل حدیث کیسا اہل توحید یا اہل حدیث ہوگا جس کے مسلک کی گواہی دوسروں کو دینی پڑے جبکہ خود ان کی اپنی تحریر گواہی دیتی ہے کہ یہ کسی اہل حدیث کی نہیں بلکہ کسی مقلد کی تحریر ہے۔ صرف خود کو زبانی اہل حدیث کہنے سے کوئی اہل حدیث کب ہوتا ہے جب تک اس کی تحریر اس کی تقریر اور اس کے اعمال سے اس کا اہل حدیث ہونا ثابت نہ ہو۔ زبانی دعوے تو بے کار کی چیز ہیں۔

دوسری بات یہ کہ عامی کو کہیں بھی صحیح حدیث نظر آئے تو اس کو اس پر عمل کرنا چاہئے یا نہیں۔ اس بارے میں میرے خیال میں اہلحدیث اور احناف میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس پر اسے عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
مسلک و منہج اہل حدیث سے اس قدر بے خبری اور لاعلمی! شاکر بھائی آپ نے تو مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ تقابل مسالک کی کتابیں نہ پڑھنے کا نتیجہ ہے۔ میں آپکو مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ راسخ العقیدہ اور اصولی و منہجی علماء کی کتابیں پڑھیں خاص طور پر علامہ ابن تیمیہ اور امام ابن القیم رحمہ اللہ کی تاکہ آپکو معلوم ہے کہ اہل حدیث اور احناف کے مابین کس چیز میں کیا فرق ہے۔ آپکو خاص طور پر اہمیت حدیث اور تقلید کے موضوع پر بہت کچھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔

شاکر بھائی آپ نے تقلیدی مولوی تقی عثمانی کی وہ عبارتیں جو کہ یہاں موضوع بحث ہیں توجہ سے نہیں پڑھیں انہیں دوبارہ بلکہ سہہ بارہ غور سے پڑھیں ان میں صاف صاف مذکور ہے کہ احادیث کو صرف اس وقت چھوڑا جائے گا جب وہ امام کے مسلک کے خلاف ہوں۔ یعنی مقلدین کے ہاں احادیث کا ٹھکرایا جانا مذہب امام سے ٹکراؤ کے ساتھ مشروط ہے۔ ورنہ بقول تقی عثمانی اگر مقلد نے حدیث کو نہیں ٹھکرایا اور امام کے قول کو نہ پکڑا تو معاشرے میں شدید گمراہی پھیل جائے گی۔ اللہ جانے یہ کون سا بد مذہب ہے جس میں حدیث پر عمل سے تو انسان گمراہ ہوجاتا ہے لیکن قول امام پر (غلط ہو یا صحیح) عمل سے انسان صراط مستقیم پر رہتا ہے۔ شاید تقی عثمانی نے بے ہوشی کے عالم میں یہ ہفوات لکھے ہیں۔ واللہ اعلم ورنہ ایک ذی ہوش مسلمان کبھی کسی ایرے غیرے امام کے قول کے لئے حدیث کو ٹھکرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

اب آپ مجھے یہ بتادیں کہ شاکر بھائی کیا اہل حدیث بھی احناف کی طرح کسی بھی حدیث کو جب وہ امام کے خلاف آجائے بے دردی سے رد کر دیتے ہیں؟ اور کیا احناف کی طرح اہل حدیث کے ہاں بھی حدیث کا یہی مقام و مرتبہ ہے جو تقی عثمانی کی عبارات سے نمایاں ہے؟ آپ نے یہ بات کسی بنیاد اور دلیل کی بنا پر کہی کہ عامی کو ہر صحیح حدیث پر عمل کی اجازت نہ دینے پر اہل حدیث اور احناف متفق ہیں؟؟؟ معاف کیجئے گا محترم آپ نے یہ بات کہہ کر تو اہل حدیثوں کو گستاخوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔

درست ہے کہ ہر صحیح حدیث جو کہ منسوخ شدہ ہو قابل عمل نہیں ہوتی لیکن ہر غیر منسوخ شدہ صحیح حدیث سو فیصد قابل عمل ہوتی ہے اور اس پر عمل کا ایک وقت ہوتا ہے جیسے آپ نماز اپنی مرضی سے کسی بھی وقت ادا نہیں کرسکتے کیونکہ ہر نماز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے جس پر اسے ادا کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح ہر صحیح حدیث پر عمل کا ایک وقت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص پیشاب کی حاجت رکھتا ہے لیکن ایسا کوئی مقام دستیاب نہیں جہاں بیٹھ کر وہ اپنے جسم اور کپڑوں کو خراب کئے بغیر اپنی حاجت پوری کرسکے۔ اب یہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی صحیح حدیث پر عمل کا بالکل صحیح وقت اور موقع ہے۔

اسی طرح اونٹ کا پیشاب پینے والی حدیث کی بات ہے کہ جس خاص بیماری میں مبتلا افراد کے لئے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ علاج تجویز فرمایا کہ وہ اونٹنی کا دودھ اور اس کا پیشاب ملا کر پیئں۔ اگر آج بھی کوئی شخص اس خاص بیماری میں مبتلا ہو جائے تو اس کے لئے اس صحیح حدیث پر عمل کرنے کا یہ بہترین وقت ہوگا۔
نوٹ: وہ لوگ مدینہ کی آب و ہوا کے موافق نہ آنے کی وجہ سے ہاتھ پاؤں سوکھ جانے، چہرے زرد پڑنے اور پیٹ بڑے ہوجانے کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ دیکھئے: اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں، صفحہ٩٥

اس وضاحت کے بعد کون کہتا ہے کہ ہر صحیح حدیث پر عمل نہیں ہوسکتا!!! ہاں البتہ اگر کوئی شخص ہر صحیح حدیث پر عمل کرنے کا مطلب یہ سمجھتا ہے کہ ہر صحت مند انسان کو اونٹ کا پیشاب پینے کو کہا جائے اور جس شخص کے پاس بیٹھ کر پیشاب کرنے کی سہولت موجود ہو اسے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو کہا جائے۔ تو اسے کسی دماغی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ پس معلوم ہوا کہ ہر صحیح حدیث قابل عمل ہوتی ہے لیکن اس پر عمل کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔والحمداللہ۔

یاد رہے کہ ہر حدیث ہر وقت قابل عمل نہیں ہوتی جیسے سفر سے متعلق احادیث میں وارشدہ رعایت پر حضر میں عمل نہیں ہوسکتا یا عذر جیسے بارش، سفر اور شدید بیماری میں جمع بین الصلاتین کی سہولت سے عام حالات میں بغیر عذر کے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
شاہد نذیر بھائی،
پچھلی پوسٹ میں میں نے اپنی بات کی کچھ وضاحت کر دی تھی۔ اسے میری کم علمی ہی کہیں کہ مجھے واقعی یہ بات اب تک سمجھ نہیں آ سکی ہے یا شاید میں ہی درست طور پر سمجھانے سے قاصر ہوں۔ جو مثال اوپر انس بھائی کے سامنے پیش کی تھی۔ آپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں۔ اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے ، کہ اس کی بنیاد میرے ساتھ ہونے والے ایک حقیقی واقعہ سے منسلک ہے۔
میں ایک عامی ہوں۔ حنفی یا اہلحدیث کچھ بھی فرض کریں۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ پیشاب بیٹھ کر کرنا چاہئے۔ (یعنی حنفی ہونے کی صورت میں یہ بات امام سے اور اہلحدیث ہونے کی صورت میں کتاب و سنت سے یہ بات میرے نزدیک ثابت ہے) اب میں صحیح بخاری میں یہ پڑھ لیتا ہوں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
اس حدیث میں مخصوص حالات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ میرا پوائنٹ یہ تھا کہ ایسی صورت میں کسی عالم دین سے رابطہ کئے بغیر، مجھے حدیث سے جو یہ سمجھ آیا ہے کہ پیشاب تو کھڑے ہو کر کیا جانا چاہئے، کیا مجھے حدیث پر پہلے عملدرآمد شروع کر دینا چاہئے؟ یا اپنے مسلک پر کاربند رہتے ہوئے، حدیث سے جو مفہوم میری سمجھ میں آیا ہے، اس پر عمل کرنے سے پیشتر کسی صاحب علم سے مکمل تحقیق کر لینی چاہئے؟

دراصل ابو الحسن علوی بھائی کا مضمون پڑھیں تو اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول اور ہر ہر فعل واجب الاتباع سنت نہیں ہے۔
یعنی جب مجھ عامی کو یہ نہیں معلوم کہ کون سی صحیح صریح حدیث ناسخ ہے اور کون سی منسوخ ہو چکی ہے۔ راجح کیا ہے اور مرجوح کیا ہے۔ کون سی حدیث میں بیان کردہ سنت مخصوص حالات پر منطبق ہوتی ہے اور کون سا عمومی عمل ہے۔ اگر میں کسی مترجم حدیث کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی بالکل صحیح صریح حدیث پر اطلاع پاؤں جو کہ میرے مسلک سے متصادم ہو، تو علمائے کرام سے تحقیق کئے بغیر میں بھلا براہ راست اس حدیث پر کیسے عامل ہو سکتا ہوں؟ کیا اس سے واقعتاً گمراہی اور فتنہ پیدا نہیں ہوگا؟ کیونکہ ایسی صورت میں عامی دراصل عمل اس حدیث پر نہیں کر رہا ہوگا، بلکہ اس حدیث سے لئے جانے والے اپنے خود ساختہ مفہوم پر عامل ہوگا۔

باقی علمائے کرام سے تحقیق کرتے وقت حنفی اور اہلحدیث کا فرق یقیناً نمایاں ہو جائے گا۔

ابھی فورم پر حال ہی میں ایک دلچسپ مثال سامنے آئی۔ ارسلان بھائی نے ایک سوال کیا۔ ابوالحسن علوی بھائی نے اس کے جواب میں وضاحت کی:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمل اور فعل اس بات كى دليل ہے كہ فوت شدہ نمازوں كى ادائيگى ميں ترتيب واجب ہے.
اب اس ترتیب پر ارسلان بھائی نے پھر سوال کیا کہ:
محترم بھائی یہ بتائیے کہ ایک دن میں چار نمازیں قضا ہو جائیں مثلا،فجر،ظہر،عصر،مغرب اور پھر عشاء کی نماز با جماعت ادا کرنے کے بعد پہلے مغرب پھر عصر پھر ظہر اور پھر فجر قضا کی جائے یا پہلے فجر پھر ظہر پھر عصر پھر مغرب۔
یعنی عام آدمی تو صریح حدیث پا لینے اور اس کو عالم سے سمجھ لینے کے باوجود تفہیم میں اس قدرغلطی کا شکار ہو سکتا ہے تو اس پر حدیث دیکھتے ہی کسی عالم سے رابطہ کئے بغیر عمل کرنے کو کہنا تو زیادہ سنگین مسائل کا دروازہ نہ کھول دے گا؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم،
مخالفین کے کلام کو سیاق و سباق کا لحاظ رکھے بغیر خود ساختہ مفاہیم کے لیے استعمال کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ افسوس، برصغیر کا کوئی مذہبی گروہ اس کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہا۔ ایمان، اسلام، قرآن، حدیث اور فقہ کے کتنے ہی علمبردار ہیں جو اس میدان میں آتے ہی سب سے پہلے علمی دیانت کا چولا اتار کر پھینک دیتے ہیں۔ اہل حق سے اس کا صدور دوسروں کے مقابلے میں شدید تر ہے کیونکہ حق کو جھوٹی الزام تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
والسلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ!

الحمداللہ سابقہ پوسٹ میں ہم نے یہ ثابت کردیا کہ ہمارا بیان شدہ مطلب خود ساختہ نہیں بلکہ تقی عثمانی کے ظاہر الفاظ اور سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے بالکل درست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہماری سابقہ پوسٹ کا تعاقب کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی اپنا دعویٰ دلیل سے ثابت کرسکے البتہ باتیں کرنا بہت آسان ہے جو کہ آپ نے اس پوسٹ میں بھی کی ہیں لیکن کیا کریں کہ باتیں بنانے سے کچھ ثابت نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مدمقابل نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور ’’میں نہ مانوں‘‘ والے موڈ میں ہے۔

ہم نے تو آپ سے درخواست کی تھی کہ میدان میں نکل کر دلائل سے ہمارا مقابلہ کریں لیکن آپ نے چھپ کر سابقہ الزامات کے تیر پھینکنا شروع کر دئے۔چونکہ آپ ان الزامات کو ثابت نہیں کرسکے جو کہ آپ نے ہم پر عائد کئے تھے اس لئے ہم آپ ہی کے جملے آپ کو واپس لوٹا رہے ہیں کیونکہ آپ ہی اب ان جملوں کے زیادہ مستحق ہیں۔
ایمان، اسلام، قرآن، حدیث اور فقہ کے کتنے ہی علمبردار ہیں جو اس میدان میں آتے ہی سب سے پہلے علمی دیانت کا چولا اتار کر پھینک دیتے ہیں۔ اہل حق سے اس کا صدور دوسروں کے مقابلے میں شدید تر ہے کیونکہ حق کو جھوٹی الزام تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم،
اس کتاب کے صفحہ ١٠٤ پر ہے:
"ایک متبحر عالم اگر کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں اور ان کے دلائل کا احاطہ کرنے کے بعد کم از کم اس مسئلہ میں اجتہاد کے درجہ تک پہنچ گیا ہو (خواہ وہ پوری شریعت میں مجتہد نہ ہو) تو وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ میرے امام مجتہد کا مسلک فلاں صحیح حدیث کے خلاف ہے، ایسے موقع پر اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ امام کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرے"
آپ حضرات کو یہ موقف کیوں نظر نہیں آتا؟
جزوی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی مذکورہ کتاب میں معتدل موقف اختیار کیا گیا ہے جسے روایتی ضد بازی کا نشانہ بنا دینا قابل افسوس ہے۔
والسلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ!

محترم عبداللہ حیدر صاحب آپ کیوں جان بوجھ کر خلط مبحث سے کام لے کر مسئلے کو الجھانے کی سعی فرما رہے ہیں؟ امید ہے آئیندہ دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بحث کو الجھانے کی کوشش نہیں کرینگے۔

جناب اعلیٰ سب سے پہلے تو عرض یہ ہے کہ تقی عثمانی صاحب نے مقلدین کے کچھ درجے متعین کئے ہیں جس میں پہلا درجہ عوام مقلدین کا ہے اور یہ وضاحت پہلے ہی کی جاچکی ہے کہ عوام مقلدین میں عام علماء بھی شامل ہیں مطلب یہ کہ پچانوے فیصد احناف اس درجے کے تحت آتے ہیں شاید خود تقی عثمانی صاحب بھی۔ اس درجے کے مقلدین کے بارے میں تقی عثمانی صاحب نے یہ شرمناک قانون متعارف کر وایا ہے کہ اس درجہ کے مقلدین کا فریضہ امام کی اندھی تقلید ہے اور یہ اس قدر اندھی تقلید ہے کہ اگر ایسے مقلد کے سامنے احادیث بھی آجائیں جس سے اس کے امام کے مذہب کا باطل ہونا اس پر ظاہر ہوجائے لیکن پھر بھی اسے اس بات کی ہر گز اجازت نہیں کہ وہ حدیث پر عمل کرلے اور اپنے امام کے مذہب کو ترک کردے۔ کیونکہ حدیث پر عمل کرنے سے وہ گمراہ ہوجائے گا لیکن اپنے امام کے باطل اقوال پر عمل پیرا رہنے سے ہدایت پر باقی رہے گا۔انااللہ وانا الیہ راجعون

تقی عثمانی صاحب کا بیان کردہ یہی وہ ’’ایمان افروز‘‘ موقف ہے جسے خیر سے آپ معتدل موقف قرار دے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ آپ نئے نئے مسلک اہل حدیث میں داخل ہوئے ہیں اسی لئے اب بھی تقلید کے جراثیم موجود ہیں۔ لیکن اگر آپ پرانے اہل حدیث ہیں تو آپ سخت متساہل ہیں کیونکہ حق اور باطل میں فرق بھی نہیں کر پارہے۔ ایسا موقف جس سے ایمان ضائع ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہو اسے آپ افراط و تفریط سے ہٹ کر معتدل موقف قرار دے رہے ہیں۔سبحان اللہ!

یہ تو تھی پہلے درجے کے مقلدین کی تقلید کی وضاحت۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں نے اپنے مضمون میں تقی عثمانی صاحب کے جو اقتباسات پیش کئے تھے وہ پہلے درجے کے مقلدین کی تقلید کے بارے میں تھے۔ جس کے بارے میں عبداللہ حیدر صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ ان اقتباسات کا معنی و مفہوم سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے لیکن موصوف اپنے دعوے کو ثابت کرنے سے قاصر رہے۔ آپ پہلے درجے کی تقلید سے متعلق سارے صفحات پڑھ جائیں آپ پر واضح ہوجائے گا کہ پچانوے فیصد حنفی عوام و علماء کو احادیث پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ اگر وہ احادیث امام کے مذہب کے خلاف ہوں تو مقلدین کا فرض ہے کہ احادیث کو رد کردیں۔کیونکہ قول امام کو رد کرنا آخرت کی بربادی کا سبب ہے البتہ احادیث کو رد کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ امام کی اندھی تقلید اور قرآن و حدیث کی مخالفت کے سبب جاہل مقلدین کے لئے جنت پکی ہے!!!

تقلید کی شرعی حیثیت کے صفحہ نمبر ١٠٤ سے محترم عبداللہ حیدر صاحب نے جو ادھوری عبارت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متبحر عالم کے لئے اجازت ہے کہ اگر وہ کوئی ایسی حدیث پائے جو کہ اس کے امام کے خلاف ہو تو وہ حدیث پر عمل کرے اور قول امام کو ترک کردے۔ اس بات کو تقی عثمانی صاحب نے تقلید کے دوسرے درجے کے تحت بیان کیا ہے جسے متبحر عالم کی تقلید کا نام دیا ہے۔ اوّل تو متبحر عالم کے لئے اس بات کی اجازت میں کہ قول امام اگر حدیث کے خلاف ہو تو ترک کر دیا جائے خود احناف کے ایک گروہ کا اختلاف ہے۔ اس گروہ کے مطابق متبحر عالم کا فرض بھی اندھی تقلید ہے اور اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ حدیث دیکھ کر قول امام چھوڑ دے۔ جیسا کہ تقی عثمانی نے لکھا ہے:
علماء کے ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ ’’متبحرفی المذہب‘‘ چونکہ رتبہ اجتہاد تک نہیں پہنچا، اس لئے مذکورہ صورت میں بھی اسے اپنے امام کا مذہب نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ امام مجتہد کی نظر ایسی دلیل کی طرف پہنچی ہو جہاں اس کی نظر نہیں گئی۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ ٩٧)

اگرچہ یہ موقف بیشتر حنفی علماء کا نہیں ہے بلکہ وہ متبحر عالم کو اپنے امام کے قول کے خلاف کرنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن ساتھ میں اتنی کڑی شرط لگاتے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ متبحر عالم بھی کسی صحیح حدیث کو دیکھ کر اپنے امام کے مذہب کو چھوڑ سکے۔ تقی عثمانی صاحب نے متبحر عالم کو اپنے امام کا مذہب چھوڑنے سے پہلے پانچ کڑی شرائط کا پابند کیا ہے۔ ضروری ہے کہ ان سخت شرائط کا مطالعہ کر لیا جائے دیکھئے تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ ٩٧ تا ١٠٨

بطور نمونہ ان پانچ شرائط میں سے پہلی شرط یہ ہے۔
پہلی شرط تو یہی ہے کہ وہ خود متبحر عالم ہو جس کی صفات شروع میں بیان کی گئی ہیں۔(تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ ٩٧)

شروع میں بیان کی گئیں اس کی صفات یہ ہیں: متبحر فی المذہب وہ شخص ہے جو اپنے (امام مجتہد کے) مذہب کی کتابوں کا حافظ ہو۔۔۔۔اس کی شرط یہ ہے کہ وہ صحیح الفہم ہو، عربی زبان اور اس کے اسالیب سے باخبر ہو،اور (امام مجتہد کے مختلف اقوال میں) ترجیح کے مراتب پہچانتا ہو، فقہاء کے کلام کے معنی خوب سمجھتا ہو، اور ایسی عبارتیں بظاہر مطلق ہوتی ہیں لیکن ان میں کوئی قید ملحوظ ہوتی ہے یا جو بظاہر مقید ہوتی ہیں لیکن ان سے مراد اطلاق ہوتا ہے اور اس پر عمومی طور سے مخفی نہ رہ سکیں۔(تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ ٩٥)

باقی باتیں تو چھوڑیں ایک متبحر عالم کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں پہلی ہی بات ایسی ہے جو موجودہ زمانے میں کسی حنفی عالم میں موجود نہیں یعنی امام کے مذہب کی کتابوں کا حافظ ہونا۔ پس ثابت ہوا کہ موجودہ زمانے میں ہر مقلد چاہے وہ عالم ہو مفتی ہو یا ایک عام عامی اس کا فریضہ امام کی اندھی تقلید ہے اور قول امام کے خلاف ہر حدیث سے جان چھڑانا بھی اس کے دینی فرائض میں شامل ہے۔ یقیناً جس کے اندر انصاف ہوگا وہ اس بات کے اقرار پر مجبور ہوگا کہ مقلدین اپنے امام کی غیر مشروط تقلید کے ذریعے عوام کو ان کی عبادت پر لگانے کا کام کر رہے ہیں۔

الحمداللہ محترم عبداللہ حیدر صاحب کے مغالطے کا جواب مکمل ہوا۔ ہم نے ویسے ہی دوسرے درجے کے مقلدین کے بارے میں اتنی وضاحت کردی ورنہ ہم تو صرف پہلے درجے کے مقلدین کی تقلید پر بحث کر رہے تھے جو کہ احناف مقلدین کا پچانوے فیصد حصہّ ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ!۔
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
تقی عثمانی صاحب نے متبحر عالم کو اپنے امام کا مذہب چھوڑنے سے پہلے پانچ کڑی شرائط کا پابند کیا ہے۔ ضروری ہے کہ ان سخت شرائط کا مطالعہ کر لیا جائے دیکھئے تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ ٩٧ تا ١٠٨
یعنی ہر شخص بغیر استعداد پیدا کیے مسئلے اخذ کرنا شروع کر دے؟ انا للہ و انا الیہ راجعون
بطور نمونہ ان پانچ شرائط میں سے پہلی شرط یہ ہے۔
پہلی شرط تو یہی ہے کہ وہ خود متبحر عالم ہو جس کی صفات شروع میں بیان کی گئی ہیں۔(تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ ٩٧)

شروع میں بیان کی گئیں اس کی صفات یہ ہیں: متبحر فی المذہب وہ شخص ہے جو اپنے (امام مجتہد کے) مذہب کی کتابوں کا حافظ ہو۔۔۔۔اس کی شرط یہ ہے کہ وہ صحیح الفہم ہو، عربی زبان اور اس کے اسالیب سے باخبر ہو،اور (امام مجتہد کے مختلف اقوال میں) ترجیح کے مراتب پہچانتا ہو، فقہاء کے کلام کے معنی خوب سمجھتا ہو، اور ایسی عبارتیں بظاہر مطلق ہوتی ہیں لیکن ان میں کوئی قید ملحوظ ہوتی ہے یا جو بظاہر مقید ہوتی ہیں لیکن ان سے مراد اطلاق ہوتا ہے اور اس پر عمومی طور سے مخفی نہ رہ سکیں۔(تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ ٩٥)
یعنی آپ کے نزدیک جاہل آدمی جو فقہ اور ائمہ کےکام کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو، صحیح الفہم ہونا بھی لازم نہیں، کتب احادیث کے تراجم پر گزارا کرتا ہو عربی زبان اور اس کے اسالیب سے بے خبر ہو، راجح اور مرجوح سے لاعلم ہو، مطلق، مقید، خاص اور عام کی پہچان نہ رکھتا ہو، اسے پورا حق حاصل ہے کہ جس طرح چاہے دینی احکامات کی کتربیونت کرتا رہا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
والسلام علیکم
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

محترم عبداللہ حیدر صاحب شاید آپ عالم ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو میں آپ سے اس طرح کے جوابات کی توقع نہیں رکھتا جس طرح آپ مسلسل خلط مبحث کے ذریعے موضوع بحث کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بات شروع ہوئی تھی آپ کے مجھ پر عائد کئے گئے الزام سے کہ میں نے سیاق و سباق سے ہٹ کر تقی عثمانی کی عبارتیں پیش کی ہیں اور ان کا غلط مطلب اخذ کیا ہے۔ لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی آپ اپنے الزام کو ثابت نہیں کر پائے۔ اگر آپ اپنے دعوے کے حق میں دلائل نہیں رکھتے تو کیا بہتر نہیں کہ الٹے سیدھے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کی جائے۔

آپ نے پوسٹ نمبر ٢٣ پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ تقی عثمانی صاحب ایک متبحر عالم کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ حدیث کے خلاف آنے والے قول امام کو چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن بہت افسوس کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے دانستہ یا نا دانستہ عبارت کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا اور یوں دھوکہ دہی کے مرتکب ہوئے۔ بہرحال ہم نے ثابت کیا ہے تقی عثمانی کی دیگر عبارات سے آپ کے پیش کئے گئے حوالے کا وہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا جو آپ نے اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے ہماری اس پوسٹ کا بھی کوئی جواب نہیں دیا بلکہ موضوع سے ہٹ کر کہا:

یعنی ہر شخص بغیر استعداد پیدا کیے مسئلے اخذ کرنا شروع کر دے؟ انا للہ و انا الیہ راجعون

یعنی آپ کے نزدیک جاہل آدمی جو فقہ اور ائمہ کےکام کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو، صحیح الفہم ہونا بھی لازم نہیں، کتب احادیث کے تراجم پر گزارا کرتا ہو عربی زبان اور اس کے اسالیب سے بے خبر ہو، راجح اور مرجوح سے لاعلم ہو، مطلق، مقید، خاص اور عام کی پہچان نہ رکھتا ہو، اسے پورا حق حاصل ہے کہ جس طرح چاہے دینی احکامات کی کتربیونت کرتا رہا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میرے نزدیک جاہل آدمی کو کیا حق حاصل ہے اور کیا نہیں یہ نہ تو آپ کا مسئلہ ہے اور نہ ہی ایسی کوئی بات یہاں زیر بحث ہے۔ یہاں تقی عثمانی کی عبارات زیر بحث ہیں جن کے مطابق کسی بھی متبحر عالم کے لئے امام کے قول کو رد کرنے کے لئے تو بڑی کڑی شرائط ہیں جبکہ عامی اور عام عالم کو سرے سے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ امام کے قول کو رد کرسکے لیکن فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کرنے کے لئے کوئی شرط نہیں بس اتنا کافی ہے کہ وہ فرمان امام کے قول کے خلاف ہو۔ یہ ادب ہے مقلدین اور عبداللہ حیدر جیسے لوگوں کے ہاں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔

ہم جاہل شخص کو یہ اجازت ہر گز نہیں دیتے کہ جب امام ابوحنیفہ کا فتوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ٹکرا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو تو صرف اس لئے ٹھکرا دیا جائے کہ جاہل شخص راجح مرجوع، خاص عام اور مطلق مقید سے واقف نہیں۔اور اس کے برعکس امام ابوحنیفہ کا فتویٰ بغیر کسی علم کے قبول کر لیا جائے۔ بلکہ ایک جاہل شخص کے علم میں اگر یہ بات آجائے کہ امام ابوحنیفہ کا فتویٰ کسی صحیح حدیث کے خلاف ہے تو ایمان کی سلامتی اسی بات میں ہے کہ امام ابوحنیفہ کے فتوے کو دیوار پر دے مارا جائے اور حدیث کو سینے سے لگا لیا جائے۔
لیکن مقلدین اور عبداللہ حیدر صاحب کو اس بات سے بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ قول امام کو رد کردیا جائے اور اس بات سے دلی سکون حاصل ہوتا ہے کہ اندھی تقلید میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھکرا دیا جائے۔ تف ہے ایسی سوچ پر!
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم!

شاکر بھائی یہ وہ جملہ ہے جس کی بنا پر میں آپکے رد میں کچھ لکھنے پر مجبور ہوا۔ ملاحظہ ہو:
دوسری بات یہ کہ عامی کو کہیں بھی صحیح حدیث نظر آئے تو اس کو اس پر عمل کرنا چاہئے یا نہیں۔ اس بارے میں میرے خیال میں اہلحدیث اور احناف میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس پر اسے عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اس جملے کا تعاقب کرتے ہوئے ہم نے وضاحت کی تھی کہ مقلدین کے ہاں کسی حدیث پر عمل سے عوام و علماء کو روکنا امام کے قول سے مخالفت اور ٹکراؤ کی صورت کے ساتھ مشروط ہے۔ جبکہ ہر ذی ہوش شخص اس بات کو جانتا ہے کہ اہل حدیث ایسی اندھا دھند تقلید نہیں کرتے۔ پھر آخر وہ کون سی دلیل ہے جس کی بنا پر ایک عامی کے ہر صحیح حدیث پر عمل نہ کرنے اجازت میں اہل حدیث اور احناف کا اتفا ق ہے؟؟؟؟

اگر آپ کا دعویٰ درست ہے تو اس پر دلیل قائم کریں ورنہ ہماری بات کو تسلیم کرلیں کہ یہ دعویٰ حقائق کی دنیا میں غلط اور بے بنیاد ہے۔

جہاں تک آپ کے عامی سے متعلق سوالات کا تعلق ہے تو اس کا لاجواب جواب محترم انس نضر حفظہ اللہ تعالیٰ نے الحمداللہ کیا ہی خوب دیا ہے۔ انصاف یہ ہے کہ انس نضر بھائی کے جواب کو پڑھ لینے کے بعد آپ کے تمام اشکالات دور ہو جانے چاہیے۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ آپ جیسا متبع سنت شخص ایک اہل حدیث عالم کی سلجھی ہوئی بات تو سمجھنے سے قاصر ہے لیکن تقی عثمانی کے باطل کلام نے اس کے دل میں ایسا گھر کیا ہے کہ حق بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی۔

میں عامی سے متعلق یہ مختصر وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ایک اہل حدیث عامی اور ایک حنفی عامی میں بعد المشرقین ہے۔ اہل حدیث مسلک یہ نہیں کہ ہر شخص اپنے طور پر قرآن و حدیث کھول کر بیٹھ جائے اور جو سمجھ میں آئے اس پر عمل کرنا شروع کردے بلکہ مسلک اہل حدیث نام ہے قرآن و سنت پر عمل کا سلف صالحین کے فہم کے مطابق۔ پس اگر عامی اہل حدیث ہوگا تو اوّل تو اس پر ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ کسی بھی حدیث یا مسئلہ پر اس وقت تک عمل نہ کرے جب تک وہ اس مسئلہ اور حدیث کے بارے میں سلف صالحین کا عمل و فہم نہ جان لے۔ اس طرح اہل حدیث عامی اس طرح کے کسی مسئلہ کا شکار نہیں ہوگا جس کی جانب آپ نے اشارہ کیا ہے۔ لیکن اگر اس نے کسی حدیث یا مسئلہ پر علماء سے رجوع سے پہلے ہی عمل شروع کر دیا تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا جیسے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی کوئی عامی حدیث پڑھ لے اور اس پر عمل کرلے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عمل ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ عامی علماء سے رجوع کرے گا تو یقیناً اپنی تصحیح کرلے گا۔ اب وہ کوئی جنگل میں تو ہے نہیں کہ علماء سے رجوع ممکن نہ ہو اور وہ ساری زندگی کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں گزار دے۔

شاکر بھائی حدیث کو سمجھنا کسی عامی کے لئے بھی اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا آپ سمجھ رہے ہیں عام طور پر اس حدیث میں ہی پوری وضاحت موجود ہوتی ہے اور عامی کے غلطی کرنے کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔ جیسے آپ نے کہا:

اب میں صحیح بخاری میں یہ پڑھ لیتا ہوں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
اس حدیث میں مخصوص حالات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
محترم اگر آپ صحیح بخاری کی اس حدیث کو غور سے پڑھیں تو اس میں صاف طور پر اس بات کا ذکر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ پر کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا۔ پس ایک عامی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل خاص حالت سے تعلق رکھتا ہے۔ اب ظاہر ہے اس عامی کو جب بھی وہ خاص ضرورت و حالت لاحق ہوگی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق عمل کرے گا اور جب عام حالات ہونگے تو اس فعل پر عمل پیرا ہوگا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں عمل پیرا تھے۔
 
Top