• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ائمہ اربعہ کے علاوہ کوئی مجتہد نہیں ؟؟؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آگے عامی کے لیے ابن تیمیہؒ نے کیا فرمایا ہے؟ میں نے وہ بھی تو لکھا ہے۔ وہ نہیں نظر آیا پیارے بھائی؟
پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اگر کسی جماعت میں کچھ لوگ کوئی غلط کام کریں تو اس سے وہ جماعت غلط نہیں ہو جاتی۔
جناب آپ اس کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہو، جب امام ابن تیمیہ کے نزدیک عامی کےلیے بھی امام معین کی تقلید ایک بہت بڑا جرم ہے تو تم یہ جرم کیوں کر رہے ہو اور میں تو کہتا ہوں کہ تمہیں امام صاحب کا یہ قول قطعا بھی پیش نہین کرنا چاہیے ورنہ امام صاحب کے نزدیک تو تمہارا خون حلال ہے، یہ وہی بات ہوئی :
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی جہاں تک مذاہب کے زندہ رہنے کا تعلق ہے تو یہ صرف اس لیے ہے کہ جو مذاہب زیادہ پھیلے ہوے ہیں ان کو "ظل سلطانی" میسر آتا رہا ہے ، اس لیےمذہب حنفی کے فروغ کا سبب اسکا ذاتی کمال نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی ہے اور اگرابویوسف رحمہ اللہ نہ ہوتے تو حنفی مذہب کا جاننے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔ اور حقیقت بھی یہی کہ فقہ حنفی باقی تین مسالک کے مقابلے میں حدیث سے زیادہ دور اور اسکے ماننے والوں کی حالت بھی ایسی ہی ہے کہ صحیح ترین احادیث مل جانے کے بعد بھی ''میں نہ مانوں'' کی رٹ لگاتے ہیں۔
اور جہاں تک آپ کا صحابہ کرام کے مذہب کا یا موقف کا مدون نہ ہونا تو یہ صرف آپ کی خام خیالی ہے ، آپ نے فقہ کی کتابوں کو پڈھا ہی نہیں ہے ،شاید امام صاحب کے اقوال کی سند بھی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن صحابہ کرام کے اقوال و آثار کی اسناد ایک بڑی مقدارمیں موجود ہیں اور شاید آپ کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ امام ابن حزم کی کتابوں کا کیا حشر کیا گیا جس کی وجہ سے ان کے مذہب کو گمنام ہونا پڑا


ایک بات تو یہ کہ آپ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ حکومت میں رہنے سے کوئی مذہب غلط ہوجاتا ہے۔ اس طرح تو اہل سنت کا مذہب بنسبت معتزلہ و شیعہ کے حکومت میں زیادہ رہا ہے بلکہ خوارج تو نہ ہونے کے برابر حکومت میں آئے اور وہ بھی صحابہ کرام کے مقابلے میں۔ تو کیا اہل سنت غلط ہو گئے اور یہ سب درست ہو گئے؟
دوسری بات آپ کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ صرف یہی وجہ تھی مذاہب اربعہ کے باقی رہنے کی حالاں کہ فقہ حنفی و مالکی کے مقابلے میں فقہ شافعی اور حنبلی اکثر حکومت میں نہیں رہے۔ ان مذاہب کے مشہور ہونے کے جو وجہ آپ نے بتائی وہ جن معنوں میں آپ نے لی غلط ہے۔ در حقیقت جب دنیائے اسلام میں ان ہی کی اکثریت تھی تو اسلامی حکومتوں کا دار و مدار انہی پر ہونا تھا۔
پھر یہ ایک مزید حقیقت ہے کہ بسا اوقات غالی افراد کی وجہ سے ان مذاہب میں سے ایک ایک کو حکومتی استبداد کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن یہ پھر بھی باقی رہے تو اب اس کی وجہ حکومت میں ہونا تو نہیں ہو سکتی۔
آپ نے فرمایا کہ اگر ابو یوسفؒ نہ ہوتے۔۔۔۔ یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ احناف کے ائمہ اپنی اپنی جگہ پر انتہائی اہمیت رکھتے تھے۔ کیا مجھے آپ سے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ امام محمدؒ کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے اونٹوں کے بوجھ جتنا علم حاصل کیا تو اگر یہ صرف ابو یوسف کی قضا کی وجہ تھی تو شافعی جیسا عالم محمدؒ کے علم کے بارے میں یوں رطب اللسان کیوں ہے؟
امام صاحب اور صحابہ کرام کے مذاہب کی تدوین کے بارے میں آپ کا ارشاد آپ کی اپنی قلت نظر و کم فہمی پر دال ہے۔
کیا آپ مجھے مرغی کی گردن مکمل کٹ جانے کی صورت میں فیصلہ عمر رض کے قول یا اصول کے مطابق بتا سکتے ہیں؟ میں تو آپ کو چاروں فقہ کے فقہاء کے اصولوں کے مطابق معلوم کر کے دے سکتا ہوں۔ یاد رکھیے یہ ضروری نہیں کہ ہر کام صحابہ کرام رض نے کیا ہو۔ اللہ پاک نے بہت سے کام بعد والوں سے ان کے زمانے کے مطابق لیے جو صحابہ کے زمانے میں نہیں ہو سکتے تھے۔

اور حقیقت بھی یہی کہ فقہ حنفی باقی تین مسالک کے مقابلے میں حدیث سے زیادہ دور اور اسکے ماننے والوں کی حالت بھی ایسی ہی ہے کہ صحیح ترین احادیث مل جانے کے بعد بھی ''میں نہ مانوں'' کی رٹ لگاتے ہیں۔
ایک آپ کا قول ہے اور ایک مسند الہند شاہ ولی اللہؒ کا قول ہے جو فیوض الحرمین ص 150 پر منقول ہے:۔
"مجھے ایسانظرآتارہاکہ مذہب حنفی میں کوئی خاص بات اوراہم راز ہے ۔میں برابر اس مخفی راز کو سمجھنے کیلئے غوروفکر کرتارہاحتی کہ مجھ پر وہ بات کھل گئی جسے بیان کرچکاہوں۔میں نے دیکھاکہ معنی دقیق کے اعتبار سے اس مذہب کو ان دنوں تمام مذاہب پر غلبہ وفوقفیت حاصل ہے۔ اگرمعنی اولیٰ کے اعتبار سے بعض دوسرے مذاہب اس پر فائق بھی ہیں۔اورمیرے سامنے یہ بات بھی آئی کہ یہی وہ راز ہے جس کابسااوقات بعض ارباب کشف کسی درجہ میں ادراک کرلیتے ہیں اورپھراس کو تمام مذاہب کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں اوربعض مرتبہ یہی رازتصلب وپختگی کی بابت الہام کے طورپر اورکبھی خواب کی صورت میں اس طورپر ظاہر ہوتاہے کہ اس سے اس مذہب پر عمل کے سلسلہ میں تحریض ہوتی ہے"۔
(فیوض الحرمین105،بحوالہ فقہ ولی اللہی150)

(ترجمہ بحوالہ رحمانی بلاگ (از جمشید بھائی غالبا)، الفاظ خود ملاحظہ کیے گئے۔)
کچھ ایسا ہی تجربہ میرا ہے۔ اب میں آپ کی بات مانوں یا ان کی؟ اگر آپ کی سمجھ میں ایک بات نہیں آ سکتی تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ دنیائے اسلام کا ایک بڑا حصہ ہر دور میں گمراہ رہا ہے۔

شاہ صاحب کی بات کا حوالہ عنایت فرما دیں
حجۃ اللہ البالغہ

آپ نے جتنی بھی باتیں لکھی ہیں ان میں ایک کا بھی حوالہ موجود نہیں ہے اور اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپ کی تمام گفتگو دلائل سے دور ہے جس میں صرف آپ کی راے کی بھرمار نظر آرہی ہے
یہ جتنی باتوں سے میرے محترم کونسی باتیں مراد ہیں؟
اور اگر کہیں میری رائے ہے تو اس کا دلائل سے رد کردیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
امام ابن تیمیہ کا قول پیش کرنے والے اپنی اس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا کریں گے:
فلعنة ربنا عداد رمل علی من رد قول ابی حنیفة (ردالمختار ١/٤٧)
(ہمارے رب کی لعنتیں ہوں ریت کی ذرات کے برابر اس شخص پر جو ابو حنیفہ کے قول کو رد کرے۔)
سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔ (ایضاح الادلہ ص: ٢٧٦
کیا یہ ایک امام کی تقلید میں غلو سے بھی بڈھا ہوا درجہ نہیں ہے؟
اگر اس قول کو آپ عبد اللہ بن مبارکؒ سے تسلیم کرتے ہیں تو آپ کی بات ان کی جانب جائے گی۔ اور اگر تسلیم نہیں کرتے تو ناقل نے ان کے بارے میں نقل کیا ہے۔
البتہ میں یہ کہتا رہتا ہوں کہ اگر کسی نے غلو کیا ہے تو اس نے غلطی کی ہے۔ لیکن یہاں یہ تو کسی نے بھی نہیں کہا کہ صحیح مذہب وہی ہے جو امام صاحبؒ نے فرمایا ہے اور باقی سب باطل ہیں۔ ابن تیمیہؒ نے فرمایا ہے:۔
من یری ان قول ھٰذا المعین ہو الصواب الذی ینبغی اتباعہ دون قول الامام الذی خالفہ
جو یہ سمجھتا ہو کہ کہ یہ معین شخص کا قول ہی درست ہے اسی کی اتباع کرنی چاہیے۔
"قول ہی درست ہے"۔ ایسا نہیں ہوتا۔ اپنے دلائل کی روشنی میں جو قول درست نظر آتا ہے اسے درست کہا اور سمجھا جاتا ہے لیکن مخالف کو سرے سے باطل نہیں سمجھا جاتا۔
ایضاح الادلہ میں کیا اشکال ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا امام بخاری ،امام مسلم اور دیگر محدثین مجتہد نہیں ہیں ؟ کیا ان کی فقہ مدون اور محرر نہین ہے ؟ کیا امام بخاری سید الفقہا و المحدثین نہیں ہیں؟ کیا امام ابن تیمیہ ، امام ابن قیم ، ابن کثیر وغیرہم مجتہد مطلق نہیں ہیں؟ کیا ان کی فقہ اور فتاوی کتابی شکل میں نہیں ہیں ؟ اس لیے آپ کی یہ خام خیالی حقیقت سے کوسوں دور ہے کہ باقی مذہب اور فقہ نا پید ہو گئی ہیں
امام بخاری و مسلم و دیگر مجتہد مطلق منتسب ہیں۔ مجتہد مطلق منتسب وہ ہوتا جو اصول میں کسی امام کے متبع ہوتا ہے اور بوقت ضرورت اختلاف بھی کرتا ہے۔ یہ تقسیم ابن صلاح، نووی اور شاہ صاحب کی کی ہوئی ہے۔
شاہ صاحب نے ہی انہیں مجتہد مطلق منتسب میں شمار کیا ہے۔ دیکھیئے الانصاف۔
امام بخاری کو سید الفقہاء و المحدثین کہنا بذات خود ان کی محبب میں غلو ہے۔ آخر ان کے سید الفقہاء ہونے پر کیا دلیل ہے؟
ابن تیمیہؒ کو جہاں علامہ شوکانی نے مجتہد مطلق کہا ہے وہیں شیخ الحنابلہ بھی کہا ہے (دیکھیے مقدمہ نیل الاوطار)۔ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے الٹ ہیں الا یہ کہ اس سے مجتہد مطلق منتسب مراد لیا جائے۔ اسی طرح ابن قیم و دیگر ہیں۔ ان کے اصول کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں جو انہوں نے یا ان کے شاگردوں نے مرتب کیے ہوں؟
حقیقت یہ ہے کہ آپ کی یہ خوش فہمی کہ یہ سب مجتہد مطلق تھے اور سب اپنے الگ الگ اصول و فروع رکھتے تھے درست نہیں اور "حقیقت سے کوسوں دور ہے"۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
لو ذرا اس بارے میں علامہ عبد الحی لکھنوی کا موقف بھی پیش خدمت ہے:
فواتح الرحموت میں لکھا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنھوں نے کہا ہے کہ علامہ نسفی کے بعد زمانہ مجتہد سے خالی ہے اور اس سے وہ اجتہاد فی المذاہب مراد لیتے ہیں اور اجتہاد مطلق کے بعد وہ کہتے ہیں کہ وہ ائمہ اربعہ پر ختم ہو چکا ہے یہاں تک انھوں نے امت پر چاروں میں سے ایک کی تقلید واجب قرار دے دی لیکن یہ ان کی ہوس میں سے ایک ہوس ہے ان کے کلام کا کوئی اعتبار نہین ہے یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے رسول اللہ نے فرمایا :
انھوں نے بے علمی اور جہالت میں فتوی دیا سو وہ خود بھی گمراہ ہوگئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا "
اور یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس قسم کی باتیں ان پانچ چیزوں میں ہیں جن کے بارے اللہ کے دوسرا کوئی نہیں جانتا،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد مطلق کے انقطاع کا مدعی ہے وہ غلطی اور خبط میں مبتلا ہے کیوں کہ اجتہاد اللہ تعالی کی رحمت ہے اور وہ کسی خاص فرد یا مخصوص زمانہ پر منحصر نہیں ہے

النافع الکبیر:107۔ 108


آپ کے دیے گئے حوالے پر اعتماد کر کے اصل جگہ پر دیکھے بغیر دوبارہ عرض کرتا ہوں:۔

فواتح الرحموت میں مجتہد کے موجود ہونے نہیں ہونے کی ادلہ کے تحت بحث ہے۔ جسے ہم آسان الفاظ میں ہو سکنا یا نہ ہو سکنا کہہ سکتے ہیں۔ ادلہ کی روشنی میں ہم ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی زمانہ مجتہد سے خالی گزرا ہے۔ لیکن فی الواقع یعنی دنیا میں ہمارے سامنے طویل عرصے سے کوئی مجتہد مطلق نہیں آیا تو ہم یہ کہتے ہیں کہ مجتہد موجود ہو تو سکتا ہے لیکن موجود نہیں ہے۔ ممکن ہے اپنی ذات میں کوئی مجتہد ہو اور اپنے مسائل پر خود عمل کرتا ہو لیکن اس کے مسائل و مذہب شائع (مشہور، عام) نہیں ہوئے ہوں۔
اسی وجہ سے امام ابن صلاح شہرزوری، علامہ نووی، شاہ ولی اللہ دہلوی اور علامہ حصکفی نے طویل زمانے سے مجتہد مطلق کے وجود سے انکار کیا ہے۔

ویسے اگر ہم صاحب فواتح الرحموت کی بات کو یوں بھی سمجھ لیں کہ ہر زمانے میں مجتہد موجود رہا ہے (جو کہ ان کی بات کے سباق کے خلاف ہے) تب بھی یہ چاروں شوافع اور احناف کے چوٹی کے علماء ہیں اور ان میں رافعی کا اضافہ کرلیں تو پانچ ہو جاتے ہیں۔ ان کی بات کو بھی اہمیت دینا لازمی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جناب آپ اس کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہو، جب امام ابن تیمیہ کے نزدیک عامی کےلیے بھی امام معین کی تقلید ایک بہت بڑا جرم ہے تو تم یہ جرم کیوں کر رہے ہو اور میں تو کہتا ہوں کہ تمہیں امام صاحب کا یہ قول قطعا بھی پیش نہین کرنا چاہیے ورنہ امام صاحب کے نزدیک تو تمہارا خون حلال ہے، یہ وہی بات ہوئی :
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
ابن تیمیہ کے الفاظ دوبارہ پڑھیں:۔
بل غاية ما يقال إنه يسوغ أو ينبغي أن يجب على العامي أن يقلد واحد لا بعينه من غير تعيين زيد ولا عمرو
"بلکہ انتہا درجے کی بات یہ ہے کہ گنجائش ہے یا مناسب ہے عامی پر واجب ہو کہ وہ ایک کی تقلید کرے غیر معین کی یعنی زید و عمرو کی تعیین کے بغیر۔"
ابن تیمیہؒ کی مراد یہ ہے کہ ایک کی تقلید کی جائے لیکن یہ لازم نہ کیا جائے کہ سب لوگ فلاں کی ہی تقلید کریں گے۔ جیسا کہ آگے ذکر ہے:۔
وأما أن يقول قائل إنه يجب على الأمة تقليد فلان أو فلان فهذا لا يقوله مسلم
"اور کوئی کہنے والا یہ کہے کہ امت پر فلاں کی تقلید یا فلاں کی واجب ہے تو یہ کوئی مسلمان نہیں کہتا۔"

کیا ہم یہ کہتے ہیں کہ سب پر ابو حنیفہ کی تقلید ہی واجب ہے شافعی یا مالک کی کوئی نہیں کرسکتا؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اسی لیے شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں:۔أن هذه المذاهب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة - أو من يعتد به منها - على جواز تقليدها إلى يومنا هذا، وفي ذلك من المصالح ما لا يخفى لا سيما في هذه الأيام التي قصرت فيها الهمم جدا، وأشربت النفوس الهوى وأعجب كل ذي رأي برأيه
"یہ مذاہب اربعہ جو مدون اور تحریر شدہ ہیں ان کی تقلید کے جائز ہونے پر امت یا ان کے معتد بہ حصے کا اجماع ہے۔ اور اس میں وہ مصالح ہیں جو مخفی نہیں ہیں خصوصا اس زمانے میں جب ہمتیں بہت زیادہ کم ہو گئی ہیں اور دلوں میں خواہشات گڑ گئی ہیں اور ہر رائے والے شخص کو اپنی رائے اچھی لگنے لگی ہے۔"
جو حضرات باب اجتہاد کی بندش کا موقف رکھتے ہیں ، ان کے اس قول کی توجیہ کرتے ہوے مولانا محمف حنیف ندوی رقم طراز ہیں:
"اسی طرح بعض متاخرین نے جو اجتہاد و قیاس کے دروازوں کو بند سمجھا تو اس کی وجہ اس وقت کے حالات کی یہ بے راہ روی تھی کہ حکومتیں کمزور اور غیر اسلامی رجحانات کی حامل ہو رہی تھیں ، عوام میں ہوس دنیا کا غلبہ تھ ا،عقلی فتنوں نے عقیدوں کی استواری میں کئی کئی رخنے ڈال دیے تھے اور جاہل و بد عقیدہ آدمی کو حق حاصل تھ اکہ دین کے بارے میں جو چاہے کہے اور جس طرح کی تفسیر چاہے کرے ، اس نزاکت احوال کو دیکھ کر فقہا نے دو فتنوں میں سے جو اہون تھا اس کو پسند کیا اور ملحدانہ اجتہاد کے مقابلے میں تقلید و تقید کی قباحتوں کو ترجیح دی اس کا کھلا ثبوت یہ حقیقت ہے کہ خود فقہاے کرام جنھوں نے اجتہاد کے دروازوں کو سختی سے بند کای ،مسائل میں ترجیح ادلہ سے کام لیتے رہے اور راجح کو مرجوح سے ممیز ٹھہراتے رہے" (مسئلہ اجتہاد:148
بہر حال یہ ایک وقتی تدبیر تھی لیکن دائمی طور پر اسی جو اختیار کیے رکھنا اس مسئلہ کا صحیح حل نہیں ہے، بلکہ باب اجتہاد کو مستقلا مسدود کرنے سے بھی وہی مفسدہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس کی وجہ سے اسے بند کیا گیا ہے ،اس لیے کہ جب اجتہاد پر مطلق پا بندی عائد کر دی جاے گی تو نا اہل لوگ بھی اس میدان میں کود پڑیں گے کہ مسائل کا حل بہر حال درکار ہوتا ہے، اگر صحیح حل میسر نہ ہو تو لوگ غلط کی طرف رجوع کریں گے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ کے دیے گئے حوالے پر اعتماد کر کے اصل جگہ پر دیکھے بغیر دوبارہ عرض کرتا ہوں:۔اسی وجہ سے امام ابن صلاح شہرزوری، علامہ نووی، شاہ ولی اللہ دہلوی اور علامہ حصکفی نے طویل زمانے سے مجتہد مطلق کے وجود سے انکار کیا ہے۔
ویسے اگر ہم صاحب فواتح الرحموت کی بات کو یوں بھی سمجھ لیں کہ ہر زمانے میں مجتہد موجود رہا ہے (جو کہ ان کی بات کے سباق کے خلاف ہے) تب بھی یہ چاروں شوافع اور احناف کے چوٹی کے علماء ہیں اور ان میں رافعی کا اضافہ کرلیں تو پانچ ہو جاتے ہیں۔ ان کی بات کو بھی اہمیت دینا لازمی ہے۔
آپ کی اس بات سے یہ کس طرح ثابت ہورہا ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے مستقل مجتہد کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اب مطلق اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کے لیے مقفل ہو چکا ہے ، ذرا سوچ سمجھ کر بات کیا کریں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ کی اس بات سے یہ کس طرح ثابت ہورہا ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے مستقل مجتہد کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اب مطلق اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کے لیے مقفل ہو چکا ہے ، ذرا سوچ سمجھ کر بات کیا کریں!
کیا میں نے یہ کہا ہے؟ سوچ سمجھ کر بات کیا کریں!
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ابن تیمیہ کے الفاظ دوبارہ پڑھیں:۔

کیا ہم یہ کہتے ہیں کہ سب پر ابو حنیفہ کی تقلید ہی واجب ہے شافعی یا مالک کی کوئی نہیں کرسکتا؟
جی ہاں آپ لوگ ببانگ دہل یہ کہتے ہو کہ ہم پر اپنے امام کا قول واجب ہے‘ کیا آپ اس بات کا انکار کرتے ہو کہ تم پر امام کی تقلید واجب نہیں ہے؟ اور تم ہر گز اس بات کا انکار نہین کر سکتے اور جب تم نے ایک امام معین امام کی تقلید کو خود پر واجب کر لیا ہے ،اس لیے تم پر امام ابن تیمیہ کا قول صادق آرہا ہے:
"بلکہ انتہا درجے کی بات یہ ہے کہ گنجائش ہے یا مناسب ہے عامی پر واجب ہو کہ وہ ایک کی تقلید کرے غیر معین کی یعنی زید و عمرو کی تعیین کے بغیر۔"
کیا آپ غیر معین کی تقلید کرتے ہو ؟
اب گزارش ہے کہ اصل موضوع کی طرف آو اور جب بات کرتے ہو تو حوالہ بھی فراہم کر دیا کرو جزاک اللہ خیرا
 
Top