• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ائمہ اربعہ کے علاوہ کوئی مجتہد نہیں ؟؟؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
امام مالک بن انس رحمہ اللہ مدینہ کے مشہور امام ہیں آپکی پیدائش ٩٣ھ ہجری کی ہے آپکی کتاب ''موطا'' ہے جس میں آپ نے نبی کریم ﷺ کی احادیث نہایت اعلیٰ اسانید کیساتھ جمع کی ہیں البتہ اس میں آپکے فتاوٰی بھی موجود ہیں ،اسی وجہ سے جب خلیفہ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ میں چاھتا ہوں کہ آپ کی کتاب پر لوگوں کو جمع کردوں اور اسکے نسخے لکھوا کر ہر شہر میں ایک نسخہ بھجوادوں اور لوگوں کو حکم دے دوں کہ ''مؤطا'' پر عمل کریں۔ تو امام مالک رحمہ اللہ نے اُسے منع کیا اور کہا :
ان الناس قد جمعوا واطلعو علی اشیاء لم نطلع علیہا (بے شک لوگ بہت سی روایات کو جمع کرچکے اور بہت سی چیزوں پر مطلع ہوچکے کہ جن پر ہم مطلع نہیں) (ذکرہ ابن کثیر فی اختصار علوم الحدیث ص ٤٠ طبع دارالسلام مع الباعث الحثیث، وذکرہ الشاہ ولی اﷲ الدہلوی فی حجة اﷲ البالغہ بزیادت نقلاً عن السیوطی۔ حجة اﷲ البالغہ ١/١٤٥)
یعنی میرا علم کامل نہیں کہ میں لوگوں کو اپنے فتاویٰ کا پابند بناؤں۔ اس سے معلوم ہو اکہ امام مالک رحمہ اللہ نے لوگوں کو اپنی تقلید سے روکا ہے۔انکا مشہور قول ہے:
لیس احد بعد النبی ۖ لا ویؤخذ من قولہ ویترک لاّ النبی ۖ۔ (جامع بیان العلم ٢/٩١ فتاویٰ الدین الخالص ١/١٢، عقد الجید لشاہ ولی اﷲ ص ١٢٢ طبع محمد سعید اینڈ سنز)(نبی کریم ﷺکے علاوہ ہر ایک کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور چھوڑی بھی جاسکتی ہے)
یعنی دلیل کے ساتھ ہو تو لی جائے گی ورنہ چھوڑدی جائے گی۔
اسی طرح آپ فرمایا کرتے تھے:
ا نما انا بشراخطیٔ وأصیب، فانظروا فی رأیی کل ما وافق الکتاب والسنة فخذوا بہ، وما لم یوافق الکتاب والسنة فاترکوہ۔(القول المفید للشوکانی ص ٢٣٥، فتاویٰ الدین الخالص ١/١٢)(بے شک میں بشر ہوں غلطی بھی کرسکتا ہوں اور درست بات بھی کہہ سکتا ہوں لہٰذا تم میری آراء پر تحقیقی نظر ڈال لیاکرو ، جو بات بھی کتاب وسنت کے موافق ہو اُسے لے لو، اور جو بات کتاب وسنت کے مخالف ہو اُسے چھوڑ دو۔)
ثابت ہوا کہ امام صاحب اندھی تقلید کے مخالف ہیں اور انکا منہج یہی ہے کہ کتاب وسنت کی پیروی کی جائے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
حافظ بهائی اگر كوئی یہ کہتا ہے کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ مجتہد موجود ہی نہیں ہیں یا ان کے علاوہ کوئی مجتہد نہیں تھا تو یہ درست نہیں۔ صحابہ کرام رض، فقہائے سبعہ، ائمہ اربعہ، ثوری، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور ان کے علاوہ کئی مجتہدین گزرے ہیں۔ البتہ ان کے مذاہب مدون حالت میں باقی نہیں رہے۔ جیسے امام شافعیؒ کے مطابق لیث مالک سے بھی زیادہ فقیہ تھے لیکن آگے ان کو ایسے شاگرد نہیں ملے جو ان کے مذہب کو مدون کرتے یا ان کے مسائل کو روایت کرتے چنانچہ ان کا مذہب ختم ہو گیا۔ ائمہ اربعہ کے مذاہب مدون اور محرر حالت میں ہیں۔ اہل ظواہر میں سے ابن حزم کا مذہب کسی حد تک محرر و مدون بھی ہے لیکن ان کے اصول و قواعد کو سمجھ کر علماء نے باقی نہیں رکھا اس لیے آج وہ صرف کتابوں میں موجود ہے اور کسی نئے مسئلے کو اس کی مدد سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
اسی لیے شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں:۔

أن هذه المذاهب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة - أو من يعتد به منها - على جواز تقليدها إلى يومنا هذا، وفي ذلك من المصالح ما لا يخفى لا سيما في هذه الأيام التي قصرت فيها الهمم جدا، وأشربت النفوس الهوى وأعجب كل ذي رأي برأيه
"یہ مذاہب اربعہ جو مدون اور تحریر شدہ ہیں ان کی تقلید کے جائز ہونے پر امت یا ان کے معتد بہ حصے کا اجماع ہے۔ اور اس میں وہ مصالح ہیں جو مخفی نہیں ہیں خصوصا اس زمانے میں جب ہمتیں بہت زیادہ کم ہو گئی ہیں اور دلوں میں خواہشات گڑ گئی ہیں اور ہر رائے والے شخص کو اپنی رائے اچھی لگنے لگی ہے۔"


خلاصہ کلام یہ کہ ائمہ اربعہ کی طرح اور بھی مجتہدین تھے لیکن ان کے اصول و فروع کسی بھی وجہ سے باقی نہ رہے جس کی وجہ سے ہم ان کی عزت تو کرتے ہیں لیکن تقلید نہیں کر سکتے۔
آپ نے اوپر جتنے اعتراض کیے ان کا دارومدار اسی پر ہے کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کوئی مجتہد نہیں جب کہ اس کے ہم قائل نہیں۔

فواتح الرحموت میں مجتہد کے موجود ہونے نہیں ہونے کی ادلہ کے تحت بحث ہے۔ جسے ہم آسان الفاظ میں ہو سکنا یا نہ ہو سکنا کہہ سکتے ہیں۔ ادلہ کی روشنی میں ہم ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی زمانہ مجتہد سے خالی گزرا ہے۔ لیکن فی الواقع یعنی دنیا میں ہمارے سامنے طویل عرصے سے کوئی مجتہد مطلق نہیں آیا تو ہم یہ کہتے ہیں کہ مجتہد موجود ہو تو سکتا ہے لیکن موجود نہیں ہے۔ ممکن ہے اپنی ذات میں کوئی مجتہد ہو اور اپنے مسائل پر خود عمل کرتا ہو لیکن اس کے مسائل و مذہب شائع (مشہور، عام) نہیں ہوئے ہوں۔
اسی وجہ سے امام ابن صلاح شہرزوری، علامہ نووی، شاہ ولی اللہ دہلوی اور علامہ حصکفی نے طویل زمانے سے مجتہد مطلق کے وجود سے انکار کیا ہے۔

ویسے اگر ہم صاحب فواتح الرحموت کی بات کو یوں بھی سمجھ لیں کہ ہر زمانے میں مجتہد موجود رہا ہے (جو کہ ان کی بات کے سباق کے خلاف ہے) تب بھی یہ چاروں شوافع اور احناف کے چوٹی کے علماء ہیں اور ان میں رافعی کا اضافہ کرلیں تو پانچ ہو جاتے ہیں۔ ان کی بات کو بھی اہمیت دینا لازمی ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
امام صاحب جب کوئی فتویٰ دیتے تو یہ بھی کہتے تھے:
ہٰذا رأی النعمان بن ثابت یعنی نفسہ وہواحسن ماقدرنا علیہ فمن جآء بأحسن فھواولیٰ بالصواب (حجة اﷲ البالغة ١ /١٥٧ طبع :میر محمد)(یہ نعمان بن ثابت کی رائے ہے اور یہ بہترین بات ہے جسکی ہم قدرت رکھتے ہیں البتہ جو اس سے بھی بہتر بات لے آئے تو اسکی بات صواب( یعنی درست) کہلائے جانے کی زیادہ حقدار ہے)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من یری ان قول ھٰذا المعین ہو الصواب الذی ینبغی اتباعہ دون قول المام الذی خالفہ۔ من فعل ھٰذا کان جاھلاً ضالا، بل قد یکون کافراً۔فنہ متی اعتقد انہ یجب علی الناس اتباع واحد بعینہ من ھؤلاء الأ ئمة دون المام الآخر فنہ یجب ن یستتاب فن تاب ولا قتل
(مختصر الفتاوی المصریہ ، ص: ٤٢) (جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلان معین امام کا قول ہی درست ہے اور باقی تمام ائمہ کو چھوڑ کر ایک ہی کی بات کی پیروی کرنی چاھیئے تو جو بھی یہ عقیدہ رکھے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض اوقات تو کافر بھی ہو جاتا ہے(یعنی اگر متشدد ومتعصب ہے) اس لیے جب کوئی یہ عقیدہ بنالے کہ لوگوں پر تمام ائمہ میں سے ایک ہی امام کی پیروی کرنا واجب ہے تو ضروری ہے کہ اس شخص سے توبہ کروائی جائے، توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ جہاں سے حق مل جائے اُسے قبول کرلینا چاہیے جس امام کا قول دلیل کی بنیاد پر ہو اُس کی بات مان لی جائے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا بلکہ ایک ہی کو پکڑ لیتا ہے کہ صحیح کہے تب بھی، غلط کہے تب بھی اُسی کی بات ماننی ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک وہ جاہل، گمرا ہ اور واجب القتل ہے۔ اسی بات کو آپکے ذہن کے قریب کرنے کیلئے میں ایک مثال دونگا کہ مثلاً قرآن مجید اﷲ کا دین ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے اسکی حفاظت کا بندوبست کیا ہے اسی طرح حدیث ہے یہ بھی سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اب اگر کوئی قرآن مجید میں ایک حرف کا اضافہ کردے یا ایک حرف کی کمی کردے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جزاک اللہ خیرا
حافظ بھائی اس کے فورا آگے عامی کا حکم کچھ یوں ذکر ہے:۔
بل غاية ما يقال إنه يسوغ أو ينبغي أن يجب على العامي أن يقلد واحد لا بعينه من غير تعيين زيد ولا عمرو
"بلکہ انتہا درجے کی بات یہ ہے کہ گنجائش ہے یا مناسب ہے عامی پر واجب ہو کہ وہ ایک کی تقلید کرے غیر معین کی یعنی زید و عمرو کی تعیین کے بغیر۔"
ابن تیمیہؒ کی مراد یہ ہے کہ ایک کی تقلید کی جائے لیکن یہ لازم نہ کیا جائے کہ سب لوگ فلاں کی ہی تقلید کریں گے۔ جیسا کہ آگے ذکر ہے:۔
وأما أن يقول قائل إنه يجب على الأمة تقليد فلان أو فلان فهذا لا يقوله مسلم
"اور کوئی کہنے والا یہ کہے کہ امت پر فلاں کی تقلید یا فلاں کی واجب ہے تو یہ کوئی مسلمان نہیں کہتا۔"
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جزاک اللہ خیرا
حافظ بھائی اس کے فورا آگے عامی کا حکم کچھ یوں ذکر ہے:۔
بل غاية ما يقال إنه يسوغ أو ينبغي أن يجب على العامي أن يقلد واحد لا بعينه من غير تعيين زيد ولا عمرو
"بلکہ انتہا درجے کی بات یہ ہے کہ گنجائش ہے یا مناسب ہے عامی پر واجب ہو کہ وہ ایک کی تقلید کرے غیر معین کی یعنی زید و عمرو کی تعیین کے بغیر۔"
ابن تیمیہؒ کی مراد یہ ہے کہ ایک کی تقلید کی جائے لیکن یہ لازم نہ کیا جائے کہ سب لوگ فلاں کی ہی تقلید کریں گے۔ جیسا کہ آگے ذکر ہے:۔
وأما أن يقول قائل إنه يجب على الأمة تقليد فلان أو فلان فهذا لا يقوله مسلم
"اور کوئی کہنے والا یہ کہے کہ امت پر فلاں کی تقلید یا فلاں کی واجب ہے تو یہ کوئی مسلمان نہیں کہتا۔"
اس کا مطلب ہے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک آپ تو گمراہ ٹھہرے کیوں کہ امام صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ معین امام کی تقلید کفر اور قابل گردن زنی ہے ۔ کیا احناف اس معاملے میں متشدد نہیں ہیں دن رات اپنے امام کے قول کو ثابت کرنے کے لیے احادیث میں تحریف سے بھی بعض نہیں آتے ، امام ابن تیمیہ تو ایسے لوگوں کے بارے یہ فرما رہے ہیں:
(مختصر الفتاوی المصریہ ، ص: ٤٢) (
جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلان معین امام کا قول ہی درست ہے اور باقی تمام ائمہ کو چھوڑ کر ایک ہی کی بات کی پیروی کرنی چاھیئے تو جو بھی یہ عقیدہ رکھے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض اوقات تو کافر بھی ہو جاتا ہے(یعنی اگر متشدد ومتعصب ہے) اس لیے جب کوئی یہ عقیدہ بنالے کہ لوگوں پر تمام ائمہ میں سے ایک ہی امام کی پیروی کرنا واجب ہے تو ضروری ہے کہ اس شخص سے توبہ کروائی جائے، توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ جہاں سے حق مل جائے اُسے قبول کرلینا چاہیے جس امام کا قول دلیل کی بنیاد پر ہو اُس کی بات مان لی جائے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا بلکہ ایک ہی کو پکڑ لیتا ہے کہ صحیح کہے تب بھی، غلط کہے تب بھی اُسی کی بات ماننی ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک وہ جاہل، گمرا ہ اور واجب القتل ہے۔ اسی بات کو آپکے ذہن کے قریب کرنے کیلئے میں ایک مثال دونگا کہ مثلاً قرآن مجید اﷲ کا دین ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے اسکی حفاظت کا بندوبست کیا ہے اسی طرح حدیث ہے یہ بھی سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اب اگر کوئی قرآن مجید میں ایک حرف کا اضافہ کردے یا ایک حرف کی کمی کردے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
کیا تم صرف ایک امام کی تقلید کو واجب نہیں کہتے ؟کیا تم امام صاحب کی تقلید کو ثابت کرنے کے لیے شافعیوں سے جنگیں نہیں لڑتے رہے ہو؟ کیا تم خود کو ایک معین انسان کی طرف منسوب نہیں کیا ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حافظ بهائی اگر كوئی یہ کہتا ہے کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ مجتہد موجود ہی نہیں ہیں یا ان کے علاوہ کوئی مجتہد نہیں تھا تو یہ درست نہیں۔ صحابہ کرام رض، فقہائے سبعہ، ائمہ اربعہ، ثوری، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور ان کے علاوہ کئی مجتہدین گزرے ہیں۔ البتہ ان کے مذاہب مدون حالت میں باقی نہیں رہے۔ جیسے امام شافعیؒ کے مطابق لیث مالک سے بھی زیادہ فقیہ تھے لیکن آگے ان کو ایسے شاگرد نہیں ملے جو ان کے مذہب کو مدون کرتے یا ان کے مسائل کو روایت کرتے چنانچہ ان کا مذہب ختم ہو گیا۔ ائمہ اربعہ کے مذاہب مدون اور محرر حالت میں ہیں۔ اہل ظواہر میں سے ابن حزم کا مذہب کسی حد تک محرر و مدون بھی ہے لیکن ان کے اصول و قواعد کو سمجھ کر علماء نے باقی نہیں رکھا اس لیے آج وہ صرف کتابوں میں موجود ہے اور کسی نئے مسئلے کو اس کی مدد سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
اشماریہ بھائی جہاں تک مذاہب کے زندہ رہنے کا تعلق ہے تو یہ صرف اس لیے ہے کہ جو مذاہب زیادہ پھیلے ہوے ہیں ان کو "ظل سلطانی" میسر آتا رہا ہے ، اس لیےمذہب حنفی کے فروغ کا سبب اسکا ذاتی کمال نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی ہے اور اگرابویوسف رحمہ اللہ نہ ہوتے تو حنفی مذہب کا جاننے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔ اور حقیقت بھی یہی کہ فقہ حنفی باقی تین مسالک کے مقابلے میں حدیث سے زیادہ دور اور اسکے ماننے والوں کی حالت بھی ایسی ہی ہے کہ صحیح ترین احادیث مل جانے کے بعد بھی ''میں نہ مانوں'' کی رٹ لگاتے ہیں۔
اور جہاں تک آپ کا صحابہ کرام کے مذہب کا یا موقف کا مدون نہ ہونا تو یہ صرف آپ کی خام خیالی ہے ، آپ نے فقہ کی کتابوں کو پڈھا ہی نہیں ہے ،شاید امام صاحب کے اقوال کی سند بھی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن صحابہ کرام کے اقوال و آثار کی اسناد ایک بڑی مقدارمیں موجود ہیں اور شاید آپ کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ امام ابن حزم کی کتابوں کا کیا حشر کیا گیا جس کی وجہ سے ان کے مذہب کو گمنام ہونا پڑا
اسی لیے شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں:۔
شاہ صاحب کی بات کا حوالہ عنایت فرما دیں
فواتح الرحموت میں مجتہد کے موجود ہونے نہیں ہونے کی ادلہ کے تحت بحث ہے۔ جسے ہم آسان الفاظ میں ہو سکنا یا نہ ہو سکنا کہہ سکتے ہیں۔ ادلہ کی روشنی میں ہم ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی زمانہ مجتہد سے خالی گزرا ہے۔ لیکن فی الواقع یعنی دنیا میں ہمارے سامنے طویل عرصے سے کوئی مجتہد مطلق نہیں آیا تو ہم یہ کہتے ہیں کہ مجتہد موجود ہو تو سکتا ہے لیکن موجود نہیں ہے۔ ممکن ہے اپنی ذات میں کوئی مجتہد ہو اور اپنے مسائل پر خود عمل کرتا ہو لیکن اس کے مسائل و مذہب شائع (مشہور، عام) نہیں ہوئے ہوں۔
آپ نے جتنی بھی باتیں لکھی ہیں ان میں ایک کا بھی حوالہ موجود نہیں ہے اور اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپ کی تمام گفتگو دلائل سے دور ہے جس میں صرف آپ کی راے کی بھرمار نظر آرہی ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
"بلکہ انتہا درجے کی بات یہ ہے کہ گنجائش ہے یا مناسب ہے عامی پر واجب ہو کہ وہ ایک کی تقلید کرے غیر معین کی یعنی زید و عمرو کی تعیین کے بغیر۔"
ابن تیمیہؒ کی مراد یہ ہے کہ ایک کی تقلید کی جائے لیکن یہ لازم نہ کیا جائے کہ سب لوگ فلاں کی ہی تقلید کریں گے۔ جیسا کہ آگے ذکر ہے: وأما أن يقول قائل إنه يجب على الأمة تقليد فلان أو فلان فهذا لا يقوله مسلم
"اور کوئی کہنے والا یہ کہے کہ امت پر فلاں کی تقلید یا فلاں کی واجب ہے تو یہ کوئی مسلمان نہیں کہتا۔"
امام ابن تیمیہ کا قول پیش کرنے والے اپنی اس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا کریں گے:
فلعنة ربنا عداد رمل علی من رد قول ابی حنیفة (ردالمختار ١/٤٧)
(ہمارے رب کی لعنتیں ہوں ریت کی ذرات کے برابر اس شخص پر جو ابو حنیفہ کے قول کو رد کرے۔)
سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔ (ایضاح الادلہ ص: ٢٧٦
کیا یہ ایک امام کی تقلید میں غلو سے بھی بڈھا ہوا درجہ نہیں ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حافظ بهائی اگر كوئی یہ کہتا ہے کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ مجتہد موجود ہی نہیں ہیں یا ان کے علاوہ کوئی مجتہد نہیں تھا تو یہ درست نہیں۔ صحابہ کرام رض، فقہائے سبعہ، ائمہ اربعہ، ثوری، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور ان کے علاوہ کئی مجتہدین گزرے ہیں۔ البتہ ان کے مذاہب مدون حالت میں باقی نہیں رہے۔ جیسے امام شافعیؒ کے مطابق لیث مالک سے بھی زیادہ فقیہ تھے لیکن آگے ان کو ایسے شاگرد نہیں ملے جو ان کے مذہب کو مدون کرتے یا ان کے مسائل کو روایت کرتے چنانچہ ان کا مذہب ختم ہو گیا۔ ائمہ اربعہ کے مذاہب مدون اور محرر حالت میں ہیں۔ اہل ظواہر میں سے ابن حزم کا مذہب کسی حد تک محرر و مدون بھی ہے لیکن ان کے اصول و قواعد کو سمجھ کر علماء نے باقی نہیں رکھا اس لیے آج وہ صرف کتابوں میں موجود ہے اور کسی نئے مسئلے کو اس کی مدد سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
کیا امام بخاری ،امام مسلم اور دیگر محدثین مجتہد نہیں ہیں ؟ کیا ان کی فقہ مدون اور محرر نہین ہے ؟ کیا امام بخاری سید الفقہا و المحدثین نہیں ہیں؟ کیا امام ابن تیمیہ ، امام ابن قیم ، ابن کثیر وغیرہم مجتہد مطلق نہیں ہیں؟ کیا ان کی فقہ اور فتاوی کتابی شکل میں نہیں ہیں ؟ اس لیے آپ کی یہ خام خیالی حقیقت سے کوسوں دور ہے کہ باقی مذہب اور فقہ نا پید ہو گئی ہیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
فواتح الرحموت میں مجتہد کے موجود ہونے نہیں ہونے کی ادلہ کے تحت بحث ہے۔ جسے ہم آسان الفاظ میں ہو سکنا یا نہ ہو سکنا کہہ سکتے ہیں۔ ادلہ کی روشنی میں ہم ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی زمانہ مجتہد سے خالی گزرا ہے۔ لیکن فی الواقع یعنی دنیا میں ہمارے سامنے طویل عرصے سے کوئی مجتہد مطلق نہیں آیا تو ہم یہ کہتے ہیں کہ مجتہد موجود ہو تو سکتا ہے لیکن موجود نہیں ہے۔ ممکن ہے اپنی ذات میں کوئی مجتہد ہو اور اپنے مسائل پر خود عمل کرتا ہو لیکن اس کے مسائل و مذہب شائع (مشہور، عام) نہیں ہوئے ہوں۔
لو ذرا اس بارے میں علامہ عبد الحی لکھنوی کا موقف بھی پیش خدمت ہے:
فواتح الرحموت میں لکھا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنھوں نے کہا ہے کہ علامہ نسفی کے بعد زمانہ مجتہد سے خالی ہے اور اس سے وہ اجتہاد فی المذاہب مراد لیتے ہیں اور اجتہاد مطلق کے بعد وہ کہتے ہیں کہ وہ ائمہ اربعہ پر ختم ہو چکا ہے یہاں تک انھوں نے امت پر چاروں میں سے ایک کی تقلید واجب قرار دے دی لیکن یہ ان کی ہوس میں سے ایک ہوس ہے ان کے کلام کا کوئی اعتبار نہین ہے یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے رسول اللہ نے فرمایا :
انھوں نے بے علمی اور جہالت میں فتوی دیا سو وہ خود بھی گمراہ ہوگئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا "
اور یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس قسم کی باتیں ان پانچ چیزوں میں ہیں جن کے بارے اللہ کے دوسرا کوئی نہیں جانتا،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد مطلق کے انقطاع کا مدعی ہے وہ غلطی اور خبط میں مبتلا ہے کیوں کہ اجتہاد اللہ تعالی کی رحمت ہے اور وہ کسی خاص فرد یا مخصوص زمانہ پر منحصر نہیں ہے

النافع الکبیر:107۔ 108
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس کا مطلب ہے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک آپ تو گمراہ ٹھہرے کیوں کہ امام صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ معین امام کی تقلید کفر اور قابل گردن زنی ہے ۔ کیا احناف اس معاملے میں متشدد نہیں ہیں دن رات اپنے امام کے قول کو ثابت کرنے کے لیے احادیث میں تحریف سے بھی بعض نہیں آتے ، امام ابن تیمیہ تو ایسے لوگوں کے بارے یہ فرما رہے ہیں:
(مختصر الفتاوی المصریہ ، ص: ٤٢) (
جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلان معین امام کا قول ہی درست ہے اور باقی تمام ائمہ کو چھوڑ کر ایک ہی کی بات کی پیروی کرنی چاھیئے تو جو بھی یہ عقیدہ رکھے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض اوقات تو کافر بھی ہو جاتا ہے(یعنی اگر متشدد ومتعصب ہے) اس لیے جب کوئی یہ عقیدہ بنالے کہ لوگوں پر تمام ائمہ میں سے ایک ہی امام کی پیروی کرنا واجب ہے تو ضروری ہے کہ اس شخص سے توبہ کروائی جائے، توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ جہاں سے حق مل جائے اُسے قبول کرلینا چاہیے جس امام کا قول دلیل کی بنیاد پر ہو اُس کی بات مان لی جائے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا بلکہ ایک ہی کو پکڑ لیتا ہے کہ صحیح کہے تب بھی، غلط کہے تب بھی اُسی کی بات ماننی ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک وہ جاہل، گمرا ہ اور واجب القتل ہے۔ اسی بات کو آپکے ذہن کے قریب کرنے کیلئے میں ایک مثال دونگا کہ مثلاً قرآن مجید اﷲ کا دین ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے اسکی حفاظت کا بندوبست کیا ہے اسی طرح حدیث ہے یہ بھی سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اب اگر کوئی قرآن مجید میں ایک حرف کا اضافہ کردے یا ایک حرف کی کمی کردے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
کیا تم صرف ایک امام کی تقلید کو واجب نہیں کہتے ؟کیا تم امام صاحب کی تقلید کو ثابت کرنے کے لیے شافعیوں سے جنگیں نہیں لڑتے رہے ہو؟ کیا تم خود کو ایک معین انسان کی طرف منسوب نہیں کیا ہے؟
آگے عامی کے لیے ابن تیمیہؒ نے کیا فرمایا ہے؟ میں نے وہ بھی تو لکھا ہے۔ وہ نہیں نظر آیا پیارے بھائی؟
پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اگر کسی جماعت میں کچھ لوگ کوئی غلط کام کریں تو اس سے وہ جماعت غلط نہیں ہو جاتی۔
 
Top