اس تحریر میں مسئلہ تقدیر پر نقد کیا گیا ہے ، مسلمانوں کا یہ نظریہ ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے ، اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ، جبکہ اس تحریر میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ محض اتفاقی چیزیں ہیں ، ان میں ( نعوذ باللہ ) اللہ تعالی کا کوئی عمل دخل نہیں ۔
نتیجتا یہ کہا گیا کہ : اللہ پر ایمان رکھنے والے محنت و کوشش نہیں کرتے ، بلکہ تقدیر پر ایمان کے بھروسے بیٹھے رہتے ہیں ، گویا جو لوگ تقدیر پر ایمان نہیں رکھتے خوب محنت کرتے ہیں وغیرہ ۔ خود ان کے الفاظ ملاحظہ کرلیں :
’’تقدیر پر ایمان تمام تر انسانی مہارتوں کو زنگ لگا دیتا ہے، کہ جو ماتھے پر لکھا ہے اسے آنکھ ضرور دیکھے گی اور انسانی کی زندگی کی تمام تر تفصیلات پہلے ہی ایک کتاب میں لکھ دی گئی ہیں۔۔ یہ ایمان طالب علموں، مزدوروں اور افسران کی ذہنیت تباہ کردیتا ہے، وہ تقدیر پر ایمان رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے محنت نہیں کرتے، ایسے عقیدے کے ہوتے ہوئے جوہرِ قابل اور نابغہ روزگار پیدا ہی نہیں ہوسکتے!!
اس وجود کی ہر چیز اتفاقات پر قائم ہے، چنانچہ ہمیں اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے کی پہلے سے تیاری کرتے ہوئے مستقبل کے سیناریو وضع کرنے چاہئیں کیونکہ اس طرح سرپرائز کا عنصر باقی نہیں رہتا کیونکہ اچھے یا برے نتائج کی پہلے سے توقع اور اس کے لیے تیاری ہوتی ہے، اسے کرائسز مینجمنٹ کہتے ہیں جو علمِ مستقبلیات کی ایک شاخ ہے، لیکن اگر آپ نے عقلیت پسندی سے تیاری کرنے کی بجائے معاملات کو خدا پر چھوڑ دیا تو یقین کر لیں کہ آپ کو ناکامی سے خدا بھی نہیں بچا سکے گا۔‘‘
ملحدین کا یہی مسئلہ ہے کہ صرف اعتراض کھرے کرنے کے لیے مطلب کی بات کو افسانہ بنا کر لکھ دیتے ہیں ۔
حالانکہ تقدیر کے حوالے سے شریعت میں مکمل رہنمائی موجود ہے ، اور کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ ہاتھ باندھ کر بیٹھ جاؤ ، اور کوئی محنت نہ کرو ، بلکہ تقدیر پر ایمان کے ساتھ ساتھ محنت ، اور وسائل بروکار لانے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔ انسان جو بوئے گا وہی کاٹے گا ، ہاں البتہ اللہ تعالی کو پتہ ہے کہ انسان بوئے گا کیا اور کاٹے گا کیا ہے ، اس لیے اللہ نے یہ سب چیزیں پہلے سے لکھ کر رکھ دی ہیں ۔
اگر مسلمان کا تقدیر پر ایمان لانا کوئی خرابی یا خامی ہوتا تو اسلام چودہ ، پندرہ صدیوں بعد بھی اس شکل میں موجود نہ ہوتا ، بلکہ پہلے چند سالوں میں ہی بقول ملحدین اتفاقات کی نظر ہوجاتا ۔
آج بھی ایسے بے شمار مسلمان موجود ہیں ، جن کا تقدیر پر ایمان بھی مضبوط ہیں ، لیکن وہ وسائل کو بروئے کار لانے میں ، محنت و مشقت کرنے میں کسی منکر خدا یا منکر تقدیر سے کم تر نہیں ہیں ۔
اگر مسلمان کا تقدیر پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہوتا ، جو ملحدین لے رہے ہیں ، تو آج وہ ملحدین کے رد کے لیے پر عزم نہ ہوتے ، بلکہ یہ سوچ رکھ لینا کافی تھا کہ اگر اللہ کو ضرورت ہوئی تو خود اپنی حیثیت منوا لے گا ، ہمیں کوئی تگ و دو کرنے کی ضرورت نہیں ۔
لیکن الحمد للہ بہت سارے مسلمان تقدیر پر ایمان کے باوجود اسلام کے خلاف زہر اگلنے والی زبانوں کا مقابلہ کررہے ہیں ، اور اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی دے رہے ہیں ۔