آپ کو یہ کس نے کہا ہے کہ یہ تمام اصول امام کرخی نے خود بنائے ہیں؟؟
دوسری بات یہ کہ امام کرخی ان آیات سے استدلال کیوں نہیں کر سکتے؟؟ آپ کے منع کرنے کی وجہ سے؟؟
تیسری بات یہ کہ جو محدث امام صاحب کے 50 سال بعد پیدا ہوا ہے اس نے احادیث کو صرف لکھا ہے بنایا نہیں ہے۔ وہی حدیث اس کے استاد کے زمانے میں بھی موجود تھی، ان کے شیخ کے زمانے میں بھی اور ان کے شیخ کے زمانے میں بھی۔ کیوں کہ یہی لوگ اس حدیث کو روایت کر رہے ہیں۔ اب آپ "اپنی" عقل کو ذرا سا استعمال کر کے بتائیے کہ امام صاحب کے زمانے میں جب وہ حدیث موجود بھی تھی اور علماء کو معلوم بھی تھی تو اس سے دلیل کیوں نہیں دی جا سکتی؟؟
مثال کے طور پر: امام مسلم کی یہ سند ہے:۔
حدثنا زهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، - قال إسحاق: أخبرنا، وقال الآخران - حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن عبد الله
اب یہ حدیث زہیر، عثمان، اسحاق کو بھی معلوم تھی، پھر ان سے پہلے جریر کو، ان سے پہلے منصور کو، ابو وائل کو اور عبد اللہ رض کو بھی معلوم تھی۔ اور سیدھی سی بات ہے کہ صرف ان کو معلوم نہیں تھی بلکہ ان کے زمانے میں اوروں کو بھی معلوم تھی کیوں کہ احادیث چپکے چپکے کانوں میں نہیں سنائی جاتی تھیں۔ مسلم نے تو اس کو لکھا ہے صرف۔
نہ مانیں۔ لیکن کیا آپ کے ہاں یہ بھی لازم ہے کہ ابو حنیفہ سے صراحتا یہ بھی ثابت ہو کہ میں نے یہ مسئلہ فلاں حدیث سے نکالا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس منجدھار میں آپ اکیلے کھڑے رہ جائیں گے کیوں کہ صحابہ اور تابعین سے بغیر مستدل بتائے فتاوی ثابت ہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ انہیں یہ معلوم نہ ہو اور آپ کو معلوم ہو۔
آپ کیسے عجیب آدمی ہیں؟؟ آپ کو اس مسئلہ کا بھی علم نہیں جس پر آپ اعتراض کر رہے ہیں۔ لاحول نہ پڑھوں تو کیا کروں؟؟
دن کی روشنی میں اگر معلوم ہو کہ قبلہ غلط تھا تو جو صحیح جانب ہے اس طرف رخ کیا جائے گا۔
ہاں اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ رات والی نماز واپس لوٹائی جائے گی یا نہیں لیکن یہ الگ مسئلہ ہے۔
کیا بات ہے کہ امام نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ چلیں مان لیتا ہوں۔ آپ ذرا یہ بتائیں کہ جن محدثین کا آپ نام لیتے ہیں ان سے پہلے والے کیا کرتے تھے اگر احادیث پر ان کی اجارہ داری ہے؟؟
باقی آپ نے فرمایا تھا کہ کوئی استدلال نہیں کرسکتا تو میں نے صرف یہ دکھایا ہے کہ علماء نے استدلال کیا ہے۔ آپ کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
آپ کہتے ہیں کہ ساری کتابیں دیکھ لوں حدیث کی۔ تو میرے پیارے بھائی۔
پہلی بات تصنیف حدیث الگ کام ہے اور استنباط مسائل الگ۔ محدثین کا اصل کام تصنیف حدیث تھا تو انہوں نے وہ احادیث لکھی ہیں۔ ان سے مسائل کا استنباط ان کا کام نہیں تھا انہوں نے نہیں کیا۔ فقہاء نے یہ دوسرا کام کیا ہے اور پہلا نہیں کیا۔
دوسری بات بخاری اٹھائیے۔ آپ حضرات کے پسندیدہ محدث اپنے تراجم میں حدیث سے استدلال کر کے "اپنی باتیں" کہہ رہے ہیں۔ اب ان کو آپ کیا کہیں گے؟ آپ تو بڑی مضبوطی سے کہتے ہیں کہ "محدثین کوئی بات اپنی نہیں کہے ہیں"۔
تیسری بات آپ ﷺ نے بعض کاموں سے ایک بار منع کیا اور دوسری بار اجازت دی۔ محدثین نے دونوں کو لکھ دیا ہے۔ اب میں کیا کروں؟؟؟
چوتھی بات آپ اگر مذہب حنفی کو اتنا ہی جانتے تھے جتنا آپ کی پوسٹس سے اندازہ ہو رہا ہے تو پھر اچھا ہی ہے کہ آپ حنفی نہیں رہے۔ فتنہ کا سبب بھی بن سکتے تھے۔
ذرا سنیے۔
ابو حنیفہ کی پیروی عام مسائل میں نہیں کی جاتی جن میں نصوص واضح ہیں کیوں کہ ان میں ابو حنیفہ کی پیروی کی تک ہی نہیں بنتی۔ بلکہ ان کی پیروی مسائل غیر منصوصہ، منصوصہ مشترکہ مشکلہ اور منصوصہ مختلفہ وغیرہ میں کی جاتی ہے۔
جہاں ایک جگہ ایک تشہد اور دوسری جگہ دوسرا تشہد مروی ہو نا وہاں ابو حنیفہ کے فہم پر اعتماد کر کے ان کی وجوہ ترجیح کو قبول کیا جاتا ہے۔ سمجھے کچھ؟؟ آپ کیا کریں گے؟ دونوں پر عمل کریں گے ایک ہی وقت میں؟؟؟
۔آپ مجھے ذرا صحیح اور غلط کا پیمانہ تو بتائیے اپنا تاکہ میں اس کے لحاظ سے صحیح بات بتاؤں۔
یہ آپ کی مجھ سے بحث کی پہلی پوسٹ تھی۔ اس کے بعد آپ سے درخواست ہے کہ تھریڈ کا موضوع پڑھ کر اگر اس کے متعلق کوئی بات کر سکتے ہیں تو کیجیے گا ورنہ غیر متعلق بات نہیں کیجیے گا۔ جزاک اللہ خیرا
السلام علیکم!
جواب قسط نمبر 3
میرے بھائی اب آپ یہ لکھے ہیں کہ یہ اصول امام کرخی کے نہیں ہوتے۔ مگر نام اصول کرخی تو ہے نا؟ جیسے آپ امام ابو حنیفہ کو نہیں مانتے اور حنفی کہلاتے ہیں۔ میرے بھائی آخر آپ مانتے کسکو ہیں، یہ سارے حنفیوں کو بتلا کیوں نہیں دیتے۔بیچارے سمجھتے ہیں کہ انکا مذہب ٖقرآن و حدیث ہے۔
جواب دوسی بات کا : بھائی آپلوگوں کا استدلال ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ قرآن کی ''فانصتو '' والی آیت سے آپ لوگ استدلال لیتے ہیں کہ نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھو۔جیسے یہ آیت آپ پر اتری ہے۔ اللہ کی قسم ہے نہ تو یہ اللہ تعالیٰ کو بتانا اس سے مقصود ہے اور نہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم اسکا یہ معنی بتائے ہیں۔ اپنے من پسند کے لوگوں کو چن کر انکو رسول بناتے ہیں اور اپنی من پسند کو قرآن بنا کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔کیا کیا بتاؤں بھائی۔
دوسرا سوال کہ حدیثیں تو تھیں کیا انکو معلوم نہیں تھیں؟ اسکے جواب میں چند جملے میری معلومات کے حساب سے ملاحظہ ہو۔
۔ ساری حدیثیں ابو بکر رض اور عمر رض کو نہیں معلوم تھیں تو دوسروں کی بات کو چھوڑیں۔
۔ امام ابو حنیفہ کو جتنی حدیثیں آپ فرمائے ہیں جتنی بھی معلوم تھیں تو اسکو محدثین ضرور لیتے تھے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انکی حدیثیں نہیں لئے کیا ان سے دشمنی تھی؟ نہیں۔ اصل بات تو یہ تھی کہ کوئی اس قابل نہیں سمجھا انکو کہ ان سےکوئی حدیث لی جائے۔
۔ ہمارا مذہب ظن پر نہیں یقین پر ہے۔ انکو بھی معلوم تھا ہونگا نا؟ یہ باتیں دین میں نہیں چلتی۔
۔ امام صاحب کا ایک دن بھی حدیث کا علم کا سیکھنا ثابت نہیں ہے۔ میری معلومات کے حساب سے۔ حماد بن ابی سلیمان سے اور دوسروں سے فقہ سیکھے ہیں۔ حدیث نہیں۔
ان ہی باتوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ لکھنے کو تو بہت ہے۔
دوسری بات کا جواب میں یہ کہونگا کہ دین اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے لانے والے انبیاء ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آخری نبی کی ایک ایک بات کو محفوظ کردیا ہے صرف اس پر چلنا ہی اسلام ہے دوسری بات اسلام نہیں ہے۔
آپ یہ فرمارہے ہیں کہ قبلہ، دن کی روشنی میں مان لیتے ہیں صرف یہ مسئلہ ہے کہ رات کی نماز لوٹائی جائیگی کیا نہیں۔ یہ اسٹیٹمیٹ غلط ہے۔ مسئلہ قبلہ کا ہے دن کی روشنی میں بھی قبلہ کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسکی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے افطار کب کرنے کا فرمایاہے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ غروب آفتاب پر۔ یہان تک کہ یہ بھی معلوم ہے کہ افطار کرنے میں جلدی کرنا ہے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں یہ بھی ہمارے پیارے نبی نے فرمادیا۔ غروب آفتاب کب ہوتا ہے یہ مسلمانوں کو ہی نہیں ساری دنیا کے ذی عقل کو معلوم ہے۔ اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے افطار دیر سے کرنا یہودیوں کی نشانی قرار دیا ہے۔ مدوجزر ایک الگ چیز ہے یہ بھی سب کو معلوم ہے۔
اب یہ فرمائیے کہ آپکے مذہب میں 5 منٹ دیر سے افطار کرنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا دن کی روشنی میں قبلہ معلوم ہوا یا نہیں پھر بھی آپ رات والے قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے ہیں۔ اللہ سے ڈرو اور فالتو مذہب پر لاحول پڑھو مجھ پر نہیں۔ یہ جان جسم چھوڑنے سے پہلے ایمان صحیح کیجئے۔
ان شآء اللہ باقی جواب آئیندہ
سید منیر الدین