ہم اس مکمل متن صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں اور اس کا مرادی مفہوم بھی بتاتے ہیں ۔ان شاء اللہ العزیز۔۔وما توفیقی الا باللہ
عن انس رضي الله عنه قال: سالوا النبي صلى الله عليه وسلم حتى احفوه بالمسالة"فصعد النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم المنبر فقال: لا تسالوني عن شيء إلا بينت لكم فجعلت انظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف راسه في ثوبه يبكي فانشا رجل كان إذا لاحى يدعى إلى غير ابيه فقال: يا نبي الله من ابي فقال: ابوك حذافة ثم انشا عمر فقال: رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا نعوذ بالله من سوء الفتن فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما رايت في الخير والشر كاليوم قط إنه صورت لي الجنة والنار حتى رايتهما دون الحائط فكان قتادة يذكر هذا الحديث عند هذه الآية: يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101.
(صحیح البخاری :حدیث نمبر: 7089 )
ویسے صحیح بخاری میں ایک جگہ اور یہ حدیث بیان ہوئی کہ
أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم خرج حين زاغت الشمس فصلَّى الظهر ، فلما سلم قام على المنبر ، فذكر الساعة ، وذكر أن بين يديها أمورا عظاما ، ثم قال : ( من أحب أن يسأل عن شيء فليسأل عنه ، فوالله لا تسألوني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا ) . قال أنس : فأكثر الناس البكاء ، وأكثر رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يقول : ( سلوني ) . فقال أنس : فقام إليه رجلٌ فقال : أين مدخلي يا رسولَ اللهِ ؟ قال : ( النار ) . فقام عبد الله بن حذافة فقال : من أبي يا رسولَ اللهِ ؟ قال : ( أبوك حذافة ) . قال : ثم أكثر أن يقول : ( سلوني ، سلوني ) . فبرك عمر على ركبتيه فقال : رضينا بالله ربا ، وبالإسلام دينا ، وبمحمد صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ورسولا . قال : فسكت رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حين قال عمر ذلك ، ثم قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( أولى ، والذي نفسي بيده ، لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا في عرض هذا الحائط ، وأنا أصلي ، فلم أر كاليومَ في الخير والشر ) .
الراوي : أنس بن مالك | المحدث :البخاري | المصدر : صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم: 7294 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]
اردو ترجمہ شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا : جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوزخ میں۔ پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو،
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
اگر آنکھوں پر شرکیہ عقیدہ کی پٹی نہ بندھی ہو اور عقل پر تعصب کے پردے نہ ہوں تو اس حدیث کا متن پکار ،پکار کر بتا رہا ہے ،کہ رسول اکرم ﷺ یہ باتیں وحی کی بنیاد پر بتا رہے تھے ،اس حدیث میں ایک جملہ ہے :
(( فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما رايت في الخير والشر كاليوم قط إنه صورت لي الجنة والنار حتى رايتهما دون الحائط ))
(( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خیر و شر آج جیسا دیکھا، کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرے سامنے جنت و دوزخ کی صورت پیش کی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے قریب دیکھا۔ ))
یعنی اس وقت براہ راست اوپر رابطہ تھا ،جس کے ذریعے پوشیدہ حقائق بیان کیئے جارہے تھے ۔۔
اسی لئے تو واقعہ کے بعد اللہ تعالی نے ایسے سوال کرنے والوں کو تنبیہ کی (( يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم ))
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ صحیح بخاری کی مذکورہ بلا روایت سے آپ کا مرادی مفہوم باطل ہوگیا ہے ؟؟
کیوں آپ یہ فرمارہے ہیں جب جنت و دوزخ کی صورت پیش کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیوار کے قریب دیکھا یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطاب فرمارہے تھے جب کہ مذکورہ بالا روایت میں یہ صریح طور سے بیان ہوا کہ یہ معاملہ اس وقت کا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرمارہے تھے حدیث کے الفاظ
أولى ، والذي نفسي بيده ، لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا في عرض هذا الحائط ، وأنا أصلي ، فلم أر كاليومَ في الخير والشر
ویسے آپ کے یہ الفاظ بھی کافی قابل غور ہیں طلب ہیں کہ
اس وقت براہ راست اوپر رابطہ تھا
براہ راست کا مطلب یہی ہے نہ کہ حضرت جبریل علیہ السلام کے واسطے کے بغیر
جس وقت کی یہ روایت ہے اگر اس وقت کوئی وہابی وہاں موجود ہوتا تو حضرت عمر کا مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہونا بہت برا لگتا اور شاید وہابی حضرت عمر کے اس فعل پر شرک کا فتویٰ بھی لگا دیتا کیا خیال ہے آپ کا ؟؟