• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اس حدیث سے علم غیب ثابت ہوتا ہے؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

''تابوت سکینہ'' ان چند چیزوں میں سے ایک ہے، جو شیعہ بارہ امامیہ روافض کے نزدیک ان کے ''امام منتظر'' اپنے ساتھ لے کر غَیبت کبری میں چلے گئے ہیں، جیسے کہ بقول شیعہ بارہ امامیہ روافض کے نزدیک وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ تحریف سے پاک قرآن بھی ساتھ ہی لے گئے ہیں۔ یہ چیزیں اسی وقت ''ظہور پزیر'' ہوں گی جب امام منتظر کا انتظار ختم ہو گا اور وہ ظہور پزیر ہوں گے۔
ما هو تابوت السكينة ؟
هو التابوت الذي كان آيةً لبني إسرائيل وكان عند نبي الله موسى عليه السلام وكان يحمله معه عند حروبه فإذا فتحه أنزل الله السكينة في قلوبهم وأيدهم بالنصر ، وسيستخرجه الإمام المهدي عليه السلام ويعرضه على اليهود فيؤمنون به بعد ذلك.

ذكرت بعض الروايات أن المهدي (ع) يرسل جيشاً لقتال الروم عند أنطاكية ويرسل فيه بعض أصحابه فيستخرجون تابوت السكينة من غار بأنطاكية
.
الربط


على ماذا يحتوي ؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جنت دوزخ کی کچھ غیب کی خبریں، قیامت کا قائم ہونے کی غیب کی خبر، ماضی کے غیب کی کچھ خبریں اللہ تعالیٰ کے قرآن میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں راود ہوئی ہیں، اور ہم بھی جانتے ہیں! کہ قیامت واقع ہو گی۔
لیکن معاف کیجئے گا آپ جیسے کچھ کہہ رہے اس کے بارے میں حضرت عمر تو یہ فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے " ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گےکی خبر ہمیں دی یعنی جو ہوچکا اس کی خبر بھی دی اور جو ہوگا اس کی بھی ساری خبر ارشاد فرمادی اب یہ آپ کی چوائس ہے کہ آپ اپنے نفس کی مانتے ہیں یا صحیح حدیث کو
اب کو ئی منچلا خود کو''عالم الغیب'' سمجھنے لگے کہ دیکھو دیکھو ، قیامت تو مستقبل میں واقع ہو گی یہ تو غیب کی بات ہے، مجھے بھی معلوم ہے!!
بس اسی طرح کا معاملہ یہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عالم الغیب کشید کرنے کا ہے! یہ اسے اس منچلے کا استدلال کہا جاسکتا ہے! فتدبر!!
ویسے داؤد راز نے بھی کسی منچلے جیسا ہی استدلال کیا ہے اس حدیث میں بریکٹ لگا کے "(وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا)" اب کسی اور منچلے کی بات آپ نہ مانو یا نہ مانو لیکن داؤد راز کی ہی مان لو
یہ شعر کس منچلے کا ہے؟ اگر معلوم ہو تو بتا دیں!
یہ شعر عبید رضا کا ہے ایسی تعت شریف کا ایک شعر اورہے جو حسب حال ہے اس لئے عرض کئے دیتا ہوں
منافقوں کا عقیدہ، وہ غیب دان نہیں
صحابیوں کا عقیدہ حضور جانتے ہیں

اس کی دلیل
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو
سورہ توبہ : 65
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )

اس آیت کی شان نزول کے بارے میں امام طبری اپنی تفسیر طبری میں فرماتے ہیں کہ کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی ، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا او نٹنی فلاںجنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا '' محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ ''
اس پراﷲ عزوجل نے یہ آیت کریمہ اتاری کہ کیا اﷲ ورسول سےٹھٹھاکرتے ہو ، بہانے نہ بناؤ، تم مسلمان کہلاکر اس لفظ کے کہنے سے کافرہوگئے ۔
اس کے علاوہ دیگر مفسیرین اکرام نے بھی اس آیت کے شان نزول کے بارے میں اس روایت کو پیش کیا ہے
یہ منافقین کا عقیدہ ہوا کہ " منافقوں کا عقیدہ، وہ غیب دان نہیں "
اب دیکھتے ہیں صحابہ کا عقیدہ کیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے جب بھی کوئی بات معلوم کرتے تو ان جواب یہی ہوتا کہ الله ورسوله أعلم‏یعنی اللہ اور اس کے رسول جانتے ہیں مثلا حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یا معاذ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں، یا رسول اللہ! آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم ہے اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حق ہیں؟ میں نے عرض کیا
الله ورسوله أعلم‏ اللہ اور اس کے رسول جانتے ہیں
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 5967
صحابیوں کا عقیدہ حضور جانتے ہیں
اب آپ کی چوائس ہے کہ آپ صحابہ کا عقیدہ اپنائیں یا منافقین کا
خدا ہی جانے عبید اُن کو ہے پتا کیا کیا
ہمیں پتا ہے بس اتنا حضور جانتے ہیں

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم :

بھائی یہ تابوت سکینہ کیا ہے ؟؟؟؟
وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
سورہ بقر : 248
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسی ٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے ، بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو،

اب جو دل ایمان سے خالی ہو اس کے لئے اس تابوت سکینہ میں کوئی نشانی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیکن معاف کیجئے گا آپ جیسے کچھ کہہ رہے اس کے بارے میں حضرت عمر تو یہ فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے " ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گےکی خبر ہمیں دی یعنی جو ہوچکا اس کی خبر بھی دی اور جو ہوگا اس کی بھی ساری خبر ارشاد فرمادی اب یہ آپ کی چوائس ہے کہ آپ اپنے نفس کی مانتے ہیں یا صحیح حدیث کو
ویسے داؤد راز نے بھی کسی منچلے جیسا ہی استدلال کیا ہے اس حدیث میں بریکٹ لگا کے "(وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا)" اب کسی اور منچلے کی بات آپ نہ مانو یا نہ مانو لیکن داؤد راز کی ہی مان لو
یہی تو سمجھا رہے ہیں کہ منچلے کے استدلال کے مطابق تو پھر و ہ صحابہ بھی عالم الغیب ہوئے، کہ انہیں بھی غیب کی خبر دی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے!
یہ شعر عبید رضا کا ہے ایسی تعت شریف کا ایک شعر اورہے جو حسب حال ہے اس لئے عرض کئے دیتا ہوں
منافقوں کا عقیدہ، وہ غیب دان نہیں
صحابیوں کا عقیدہ حضور جانتے ہیں

اس کی دلیل
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو
سورہ توبہ : 65
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )

اس آیت کی شان نزول کے بارے میں امام طبری اپنی تفسیر طبری میں فرماتے ہیں کہ کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی ، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا او نٹنی فلاںجنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا '' محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ ''
اس پراﷲ عزوجل نے یہ آیت کریمہ اتاری کہ کیا اﷲ ورسول سےٹھٹھاکرتے ہو ، بہانے نہ بناؤ، تم مسلمان کہلاکر اس لفظ کے کہنے سے کافرہوگئے ۔
اس کے علاوہ دیگر مفسیرین اکرام نے بھی اس آیت کے شان نزول کے بارے میں اس روایت کو پیش کیا ہے
یہ منافقین کا عقیدہ ہوا کہ " منافقوں کا عقیدہ، وہ غیب دان نہیں "
اب دیکھتے ہیں صحابہ کا عقیدہ کیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے جب بھی کوئی بات معلوم کرتے تو ان جواب یہی ہوتا کہ الله ورسوله أعلم‏یعنی اللہ اور اس کے رسول جانتے ہیں مثلا حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یا معاذ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں، یا رسول اللہ! آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم ہے اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حق ہیں؟ میں نے عرض کیا
الله ورسوله أعلم‏ اللہ اور اس کے رسول جانتے ہیں
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 5967
صحابیوں کا عقیدہ حضور جانتے ہیں
اب آپ کی چوائس ہے کہ آپ صحابہ کا عقیدہ اپنائیں یا منافقین کا
خدا ہی جانے عبید اُن کو ہے پتا کیا کیا
ہمیں پتا ہے بس اتنا حضور جانتے ہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اب ان منچلے شاعر و تفسیر نگار کے لئے، حنفیوں کی عقیدہ کی کتاب، شرح فقہ الاکبر اور المساعرة کا فتوی پیش خدمت ہے، جو بلکل ان منچلے شاعر و تفسیر نگار پر وارد ہوتا ہے۔


بالجملة، العلم الغيب أمر تفرد به سبحانه ولا سبيل للعباد إليه إلا بإعلام منه و إلهام بطريق المعجزة أو الكرامة أو إرشاد إلی الإستدلال بالأمارات فيما يمكن فيه ذلك، ولهذا ذكر في الفتاوی أن قول القائل عند رؤية هالة القمر، أي دائرته يكون مطر: مدعيا علم الغيب لا بعلامة كفر. ومن اللطائف ما حكاه بعض أرباب الظرائف أن منجما صلب فقيل له: هل رأيت هذا في نجمك؟ فقال: رأيت رفعة ولکن ما عرفت أنها فوق خشبة.
ثم اعلم أن الأنبياء عليهم الصلاة والسلام لم يعلموا المغيبات من الأشياء إلا ما أعلمهم الله تعالی أحيانا.
وذكر الحنفية تصريحا بالتكفير بإعتقاد ان النبي عليه الصلاة والسلام يعلم الغيب لمعارضة قوله تعالي: «قل لا يعلم من في السماوات والارض الغيب إلا الله» كذا في المسائرة.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 422 جلد 01 شرح الفقه الأكبر - ملا علی القاري الحنفي - دار البشاءر الاسلامية للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 137 جلد 01 - شرح الفقه الأكبر - ملا علي القاري الحنفي - دار الكتب العربية الكبرى - مصر

(وكذا علم المغيبات) أي وكعدم علم بعض المسائل عدم علم المغيبات فلا يعلم النبي منها (الا ما أعلمه الله تعالی به أحيانا وذكر الحنفية) في فروعهم (تصريحا بالتكفير باعتقاد أن النبي يعلم الغيب لمعارضة قوله تعالی «قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ» والله اعلم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 202 جلد 01 المسامرة شرح المسايرة في العقائد المنجية في الآخرة -أبو المعالي المقدسي - كمال الدين ابن الهمام - مطبعة الكبری الاميرية ببولاق - مصر
 
Last edited:

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہی تو سمجھا رہے ہیں کہ منچلے کے استدلال کے مطابق تو پھر و ہ صحابہ بھی عالم الغیب ہوئے، کہ انہیں بھی غیب کی خبر دی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے!
ایک بات بتائیں یہ غیب کہتے کیسے ہے ؟
کیونکہ آپ تو ابتداء خلق سے لے کر جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں تک کی خبر کو اور داؤد راز کے مطابق وہاں تک کی ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایاغیب نہیں مانتے تو پھر یہ بتا دیا جائے کہ غیب کس چیز کا نام ہے ؟؟
اب ان منچلے شاعر و تفسیر نگار کے لئے، حنفیوں کی عقیدہ کی کتاب، شرح فقہ الاکبر اور المساعرة کا فتوی پیش خدمت ہے، جو بلکل ان منچلے شاعر و تفسیر نگار پر وارد ہوتا ہے۔
اہل سنت کی تفسیر قرآن تفسیر طبری اور اہل سنت کی صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ بھی اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے کے مقابلے پر " قول امام "
یعنی دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت
منافقوں کا عقیدہ، وہ غیب دان نہیں
صحابیوں کا عقیدہ حضور جانتے ہیں

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
ایک بات بتائیں یہ غیب کہتے کیسے ہے ؟
کیونکہ آپ تو ابتداء خلق سے لے کر جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں تک کی خبر کو اور داؤد راز کے مطابق وہاں تک کی ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایاغیب نہیں مانتے تو پھر یہ بتا دیا جائے کہ غیب کس چیز کا نام ہے ؟؟
ثابت علم الغیب آپ کرنے بیٹھے ہو اور ابھی یہ بھی نہیں پتا کہ علم الغیب کہتے کسے ہیں!!
جناب من ! یہ منچلا کا استدلال کیسا ہے وہ تو بتا دیا، کہ پھر تو سبھی عالم الغیب ٹھہرے!! کوئی معقول استدلال لے کر آؤ!!
اہل سنت کی تفسیر قرآن تفسیر طبری اور اہل سنت کی صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ بھی اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے کے مقابلے پر " قول امام "
یعنی دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت
منافقوں کا عقیدہ، وہ غیب دان نہیں
صحابیوں کا عقیدہ حضور جانتے ہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
میاں جی! یہ تو ان منچلے شاعر و تفسیر نگار کے لئے، ان کا ہی جوتا ان کا سر والی بات تھی! یہ کفر کا فتوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ماننے پر حنفیہ نے بصراحت لگایا ہے! اور ان منچلے شاعر کو کوئی اس کے اپنے فقہاء کے فتاوی دکھلا دو، کہ یہ شاعر صاحب فقہائے احناف کے فتاوی کی رو سے کفر سے زد میں آتے ہیں!!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
وروى عيسى،‏‏‏‏ عن رقبة،‏‏‏‏ عن قيس بن مسلم،‏‏‏‏ عن طارق بن شهاب،‏‏‏‏ قال سمعت عمر ـ رضى الله عنه ـ يقول قام فينا النبي صلى الله عليه وسلم مقاما،‏‏‏‏ فأخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل أهل الجنة منازلهم،‏‏‏‏ وأهل النار منازلهم،‏‏‏‏ حفظ ذلك من حفظه،‏‏‏‏ ونسيه من نسيه‏.‏

ترجمہ داؤد راز
اور عیسیٰ نے رقبہ سے روایت کیا، انہوں نے قیس بن مسلم سے، انھوں نے طارق بن شہاب سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔
َصحیح بخاری ،حدیث نمبر: 3192
الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسولہ وعلی اصحابہ الکرام
صحیح بخاری کی اس حدیث میں جس تفصیل کا ذکر ہے ،وہ نبی مکرم ﷺ کی نبوت پر دلیل ہے ،کیونکہ یہ تفصیل تو صرف اللہ کے علم میں ہے ،اس لئے اللہ اپنے پیمبر ﷺ کو ایسی باتوں سے آگاہ فرماتا ہے ،اور جناب نبی کریم ﷺ ایسی باتیں امت کو پہنچا دیتے تھے ،بہر حال وحی کے بغیر یہ تفصیل نہیں بتائی جا سکتی ؛
تو اس طرح ایسی باتیں بتانے سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ واقعی سچے نبی اور رسول ہیں ؛؛
حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں اس حدیث تحت لکھتے ہیں :
(( وفي تيسير إيراد ذلك كله في مجلس واحد من خوارق العادة أمر عظيم ويقرب ذلك مع كون معجزاته لا مرية في كثرتها أنه صلى الله عليه وسلم أعطي جوامع الكلم ومثل هذا من جهة أخرى ما رواه الترمذي من حديث عبد الله بن عمرو بن العاص قال خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي يده كتابان فقال للذي في يده اليمنى هذا كتاب من رب العالمين فيه أسماء أهل الجنة وأسماء آبائهم وقبائلهم ثم أجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم أبدا ثم قال للذي في شماله مثله في أهل النار وقال في آخر الحديث فقال بيديه فنبذهما ثم قال فرغ ربكم من العباد فريق في الجنة وفريق في السعير ، وإسناده حسن ))
یعنی ایک ہی مجلس میں ابتدائے خلق سے تا آخر کی تفصیل کا بیان ممکن ہونا ،یقیناً ایک عظیم معجزہ ہے ،(اور یہ حقیقت تو مسلمہ ہے کہ معجزہ اللہ کی قدرت ،اور اختیار سے صادر ہوتا ہے ، تبھی تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ہستی کو اللہ نے بھیجا ہے )۔اور نبی اکرم ﷺ کو جوامع کلمات عطا کئے گئے تھے
اور جوامع الکلم سے مراد ’’ قلیل ترین الفاظ میں بڑی سے بڑی حقیقت کا بیان کرنا )
حافظ صاحب مزید فرماتے ہیں :: اور اسی طرح کی تفصیل بیان کرنے کی حدیث دوسرانداز میں بھی وارد ہے ،سنن الترمذی میں عبد الله بن عمرو سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں :
کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک بار) ہماری طرف نکلے اس وقت آپ کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں۔ آپ نے پوچھا: ”تم لوگ جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا ہیں؟“ ہم لوگوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ آپ ہمیں بتا دیں۔ داہنے ہاتھ والی کتاب کے بارے میں آپ نے فرمایا: ”یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جنتیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر آخر میں ان کا میزان ذکر کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہو گا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہو گا“، پھر آپ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ”یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جہنمیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور آخر میں ان کا میزان ذکر کر دیا گیا ہے، اب ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہو گا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر عمل کس لیے کریں جب کہ اس معاملہ سے فراغت ہو چکی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”سیدھی راہ پر چلو اور میانہ روی اختیار کرو، اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ جنتی کے عمل پہ ہو گا، اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے اور جہنمی کا خاتمہ جہنمی کے عمل پہ ہو گا اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔۔۔۔ اس حدیث کے آخر میں فرمایا: ”تمہارا رب بندوں سے فارغ ہو چکا ہے، ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک فریق جہنم میں جائے گا“۔
حافظ فرماتے ہیں اس حدیث کی سند حسن ہے ‘‘
تو ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ تفصیل ان کتابوں سےحاصل کرکے بتائی ۔۔نہ کہ اپنے ذاتی علم غیب کی بنیاد پر بتائی ۔۔
اس لئے بخاری کی سیدنا عمر ؓ والی اس حدیث کو علم غیب کی دلیل بنانا نری جہالت ہے ۔۔
یہ تو نبوت کی صداقت کی دلیل ہے یعنی وحی کا ثبوت ہے ۔۔کیونکہ ایسی تفصیلی معلومات صرف وحی کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہر حال وحی کے بغیر یہ تفصیل نہیں بتائی جا سکتی ؛
یہی بات تو اس شعر میں بھی کہی گئی ہے لیکن اس کو نہیں ماننا وجہ کچھ سمجھ سے باہر ہے
جو ہو چکا جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں اس حدیث تحت لکھتے ہیں :
جب ہم اس بات پر متفق ہیں یہ غیب کا علم اللہ کی عطاء سے ہے تو پھر قول امام کی حا جت ہی کہاں رہتی ہے ویسے بھی صحیح احادیث کے مقابلے پر قول امام کی آپ انتہائی سخت الفاظ میں مذمت فرماتے رہے ہیں
تو ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ تفصیل ان کتابوں سےحاصل کرکے بتائی ۔۔نہ کہ اپنے ذاتی علم غیب کی بنیاد پر بتائی ۔۔
اس لئے بخاری کی سیدنا عمر ؓ والی اس حدیث کو علم غیب کی دلیل بنانا نری جہالت ہے ۔۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے

نری جہالت تو یہ کہ کوئی کسی کی طرف ایسے الفاظ منسوب کردے جو اس نے کبھی لکھے ہی نہیں جیسا کہ لکھا گیا کہ " ذاتی علم غیب " جبکہ ہم تو اتنا ہی کہتے ہیں کہ " تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں "
حافظ صاحب مزید فرماتے ہیں :: اور اسی طرح کی تفصیل بیان کرنے کی حدیث دوسرانداز میں بھی وارد ہے ،سنن الترمذی میں عبد الله بن عمرو سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں :
کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک بار) ہماری طرف نکلے اس وقت آپ کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں۔ آپ نے پوچھا: ”تم لوگ جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا ہیں؟“ ہم لوگوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ آپ ہمیں بتا دیں۔ داہنے ہاتھ والی کتاب کے بارے میں آپ نے فرمایا: ”یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جنتیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر آخر میں ان کا میزان ذکر کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہو گا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہو گا“، پھر آپ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ”یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جہنمیوں، ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور آخر میں ان کا میزان ذکر کر دیا گیا ہے، اب ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہو گا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر عمل کس لیے کریں جب کہ اس معاملہ سے فراغت ہو چکی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”سیدھی راہ پر چلو اور میانہ روی اختیار کرو، اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ جنتی کے عمل پہ ہو گا، اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے اور جہنمی کا خاتمہ جہنمی کے عمل پہ ہو گا اگرچہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔۔۔۔ اس حدیث کے آخر میں فرمایا: ”تمہارا رب بندوں سے فارغ ہو چکا ہے، ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک فریق جہنم میں جائے گا“۔
حافظ فرماتے ہیں اس حدیث کی سند حسن ہے ‘‘
ویسے کچھ باتیں پوچھنی تھی کہ اس روایت میں جن دو کتابوں کا ذکر ہے اس میں ایک جنتیوں کے ناموں کا ذکر ہے اور ایک میں جہنمیوں کے ناموں لیکن ابتداء خلق کس طرح ہوئی کیا یہ بھی کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء کی گئی تھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ؟
دوسری بات یہ کہ اب یہ دونوں کتابیں کہاں ہیں ؟
تیسری بات یہ کہ کیا ان کتابوں کو بھی جلادیا گیا تھا جس طرح مصحف عثمانی کے علاوہ تمام مصحف جلا دئیے گئے تھے ؟ چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لکھوایا ہوا مصحف ہو یا حضرت ابو بکر کا لکھوایا ہوا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صح کتاب بعد کتاب اللہ سے !!!!!یعنی تابوت سکینہ فی ۔۔۔۔۔

حدثنا يوسف بن موسى،‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ عن بريد بن أبي بردة،‏‏‏‏ عن أبي بردة،‏‏‏‏ عن أبي موسى الأشعري،‏‏‏‏ قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أشياء كرهها،‏‏‏‏ فلما أكثروا عليه المسألة غضب وقال ‏"‏ سلوني ‏"‏‏.‏ فقام رجل فقال يا رسول الله من أبي قال ‏"‏ أبوك حذافة ‏"‏‏.‏ ثم قام آخر فقال يا رسول الله من أبي فقال ‏"‏ أبوك سالم مولى شيبة ‏"‏‏.‏ فلما رأى عمر ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغضب قال إنا نتوب إلى الله عز وجل‏.‏

ترجمہ داؤدراز
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کر دیا تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا پوچھو! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں۔ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بار گاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 7291
صحیح بخاری میں یہ حدیث تین چار مقامات پر مختلف ابواب میں نقل ہوئی ،،،کہیں مختصر اور کہیں مفصل ؛
مطلب براری کیلئے یہاں اس کا مختصر متن نقل کرکے کام چلانے کی کوشش کی گئی ہے ؛

ہم اس مکمل متن صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں اور اس کا مرادی مفہوم بھی بتاتے ہیں ۔ان شاء اللہ العزیز۔۔وما توفیقی الا باللہ

عن انس رضي الله عنه قال:‏‏‏‏ سالوا النبي صلى الله عليه وسلم حتى احفوه بالمسالة"فصعد النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم المنبر فقال:‏‏‏‏ لا تسالوني عن شيء إلا بينت لكم فجعلت انظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف راسه في ثوبه يبكي فانشا رجل كان إذا لاحى يدعى إلى غير ابيه فقال:‏‏‏‏ يا نبي الله من ابي فقال:‏‏‏‏ ابوك حذافة ثم انشا عمر فقال:‏‏‏‏ رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا نعوذ بالله من سوء الفتن فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ما رايت في الخير والشر كاليوم قط إنه صورت لي الجنة والنار حتى رايتهما دون الحائط فكان قتادة يذكر هذا الحديث عند هذه الآية:‏‏‏‏ يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101.
(صحیح البخاری :حدیث نمبر: 7089 )
انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے سوالات کئے آخر جب لوگ باربار سوال کرنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر ایک دن چڑھے اور فرمایا کہ آج تم مجھ سے جو سوال بھی کرو گے میں تمہیں اس کا جواب دوں گا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں دائیں بائیں دیکھنے لگا تو ہر شخص کا سر اس کے کپڑے میں چھپا ہوا تھا اور وہ رو رہا تھا۔ آخر ایک شخص نے خاموشی توڑی۔ اس کا جب کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا دوسرے باپ کی طرف پکارا جاتا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ فرمایا تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ سامنے آئے اور عرض کیا ہم اللہ سے کہ وہ رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ وہ رسول ہیں راضی ہیں اور آزمائش کی برائی سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خیر و شر آج جیسا دیکھا، کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرے سامنے جنت و دوزخ کی صورت پیش کی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے قریب دیکھا۔
قتادہ نے بیان کیا کہ یہ بات اس آیت کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم‏» کہ ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری معلوم ہوں۔“انتہی

اگر آنکھوں پر شرکیہ عقیدہ کی پٹی نہ بندھی ہو اور عقل پر تعصب کے پردے نہ ہوں تو اس حدیث کا متن پکار ،پکار کر بتا رہا ہے ،کہ رسول اکرم ﷺ یہ باتیں وحی کی بنیاد پر بتا رہے تھے ،اس حدیث میں ایک جملہ ہے :
(( فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ما رايت في الخير والشر كاليوم قط إنه صورت لي الجنة والنار حتى رايتهما دون الحائط ))
(( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خیر و شر آج جیسا دیکھا، کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرے سامنے جنت و دوزخ کی صورت پیش کی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے قریب دیکھا۔ ))
یعنی اس وقت براہ راست اوپر رابطہ تھا ،جس کے ذریعے پوشیدہ حقائق بیان کیئے جارہے تھے ۔۔
اسی لئے تو واقعہ کے بعد اللہ تعالی نے ایسے سوال کرنے والوں کو تنبیہ کی (( يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم ))
(( اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ ))
یعنی ہماری جناب میں ایسے سوال مت کرو ،جنکے جواب تمہارے لئے تکلیف دہ ہوں ۔۔کیونکہ ہم نے تو عین واقعہ کے مطابق جواب دینا ہے ؛؛

اس سے واضح ہے کہ ان سوالوں کے جواب ’’ ذاتی علم کی بنا پر نہیں ،بلکہ وحی کی روشنی میں دیئے گئے ؛
اور ان جوابات سے پیارے نبی ﷺ کی نبوت کی حقانیت پر دلیل سامنے آئی کہ واقعی ان پر وحی کا نزول ہوتا ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ثابت علم الغیب آپ کرنے بیٹھے ہو اور ابھی یہ بھی نہیں پتا کہ علم الغیب کہتے کسے ہیں!!
غیب کی لغوی تعریف
غیب کا معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ۔

المنجد، 892

امام راغب فرماتے ہیں غیب مصدر ہے۔ سورج آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو کہتے ہیں غابت الشمس سورج غائب ہو گیا۔

کل غائب عن الحاسه وعما یغیب عن علم الانسان بمعنی الغائب یقال للشئ غیب وغائب باعتباره بالناس لا باﷲ تعالی فانه لا یغیب عنه الشئ قوله عالم الغیب والشهادة أی ما یغیب عنکم وما تشهدونه والغیب في قوله ’’یومنون بالغیب‘‘ ما لا یقع تحت الحواس ولا تقتضیه بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیاء علیهم السلام وبدفعه یقع علی الانسان اسم الالحاد

مفردات راغب : 367

’’جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔ کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ اﷲ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے اﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یومنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جا سکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں۔ ‘‘
نبی کا معنی
عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے۔ غیب کی خبریں دینے والا اور ظاہر ہے کہ غیب کی خبر وہی دے گا جسے غیب کا علم ہو گا بغیر علم کے خبر جھوٹی ہوتی ہے جبکہ نبی کی خبر قطعی سچی ہوتی ہے۔ عربی کی لغت کی معتبر کتاب المنجد میں ہے۔

والنبوه الاخبار عن الغیب أو المستقبل بالهام من اﷲ الاخبار عن اﷲ وما یتعلق به تعالی

المنجد، 784

’’نبوت کا مطلب ہے اﷲ کی طرف سے الہام پا کر غیب یا مستقبل کی خبر دینا۔ نبی کا مطلب اﷲ اور اس کے متعلقات کی خبر دینے والا۔ ‘‘
النبی المخبر عن اﷲ لانه انباء عن اﷲ عزوجل فعیل بمعنی فاعل.

لسان العرب لابن منظور، افریقی، 14 : 9

’’نبی کا معنی اﷲ کی خبر دینے والا کیونکہ نبی نے اﷲ کی خبر دی۔ فعیل فاعل کے معنی میں۔ ‘‘

النباء (محرکه الخبر) وهما مترادفان وفرق بینهما بعض وقال الراغب النباء خبر ذو فائده عظیمة یحصل به علم او غلبة الظن ولا یقال للخبر فی الاصل نباحتی یتضمن هذه الاشیاء الثلاثة ویکون صادقا و حقه ان یعتری عن الکذب کالمتواتر و خبر اﷲ وخبر الرسول صلی الله علیه وآله وسلم و نتضمنه معنی الخبر یقال انباته بکذا او لتضمنه معنی العلم یقال انباته کذا والنبی المخبر عن اﷲ فان اﷲ تعالی اخبره عن توحیده واطلعه علی غیبه واعلمه انه نبیه.

تاج العروس شرح القاموس للزبیدی، 1 : 121


’’نبا (حرکت کے ساتھ) اور خبر مترادف ہیں۔ بعض نے ان میں فرق کیا ہے۔ امام راغب کہتے ہیں نبا بڑے فائدے والی خبر ہے۔ جس سے علم قطعی یا ظن غالب ہے جس سے علم قطعی یا ظن غالب حاصل ہو جب تک ا ن تین شرائط کو متضمن نہ ہو خبر کو نبا نہیں کہا جاتا اور یہ خبر سچی ہوتی ہے۔ اس کا حق ہے کہ جھوٹ سے پاک ہو جیسے متواتر اور اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر چونکہ نبا خبرچونکہ نبا خبر کے معنی کو مضمن ہوتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے میں نے اسے خبر بتائی اور چونکہ معنی علم کو متضمن ہوتی ہے اس لئے کہاجاتا ہے کہ میں نے اسے یوں خبر بتائی۔ نبی اﷲ کی طرف سے خبر دینے والا، بے شک اﷲ نے آپ کو اپنی توحید کی خبر دی اور آپ کو اپنے غیب پر اطلاع دی اور آپ کو آپ کا نبی ہونا بتایا۔ ’‘

کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ نماز، زکوٰۃ، حج، حج کے مہنے دن جگہ، زکوٰۃ کی شرح و شرائط، اور نماز (صلوٰۃ) کی شکل و صورت سب غیب تھا صرف اور صرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے ہمیں ان کی تفسیر و تشریح معلوم ہوئی۔ جو شخص نبی کے علم غیب کا انکار کرے وہ ان شرعی احکام کو قرآن یا لغت کی مدد سے ثابت کر کے دکھائے۔ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہنے سے پہلے کہ نبی کو اﷲ نے غیب کا علم نہیں دیا۔ اس کے نتائج اور اپنی عاقبت پر نگاہ رکھے۔ امت کو گمراہ نہ کرے۔ رہی یہ حقیقت کہ علم اﷲ کی عطا سے ہے تو ہم ہزار بار اعلان کرتے ہیں کہ کسی مخلوق کی نہ ذات مستقل ہے نہ کوئی صفت، سب اﷲ کی عطا و کرم سے ہے مگر جو ہے اسے تسلیم تو کرنا فرض ہے۔ یہی ایمان ہے، یہی دیانت ہے۔
 
Top