صح کتاب بعد کتاب اللہ سے !!!!!یعنی تابوت سکینہ فی ۔۔۔۔۔
حدثنا يوسف بن موسى، حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن أبي بردة، عن أبي بردة، عن أبي موسى الأشعري، قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أشياء كرهها، فلما أكثروا عليه المسألة غضب وقال " سلوني ". فقام رجل فقال يا رسول الله من أبي قال " أبوك حذافة ". ثم قام آخر فقال يا رسول الله من أبي فقال " أبوك سالم مولى شيبة ". فلما رأى عمر ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغضب قال إنا نتوب إلى الله عز وجل.
ترجمہ داؤدراز
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کر دیا تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا پوچھو! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں۔ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بار گاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 7291
صحیح بخاری میں یہ حدیث تین چار مقامات پر مختلف ابواب میں نقل ہوئی ،،،کہیں مختصر اور کہیں مفصل ؛
مطلب براری کیلئے یہاں اس کا مختصر متن نقل کرکے کام چلانے کی کوشش کی گئی ہے ؛
ہم اس مکمل متن صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں اور اس کا مرادی مفہوم بھی بتاتے ہیں ۔ان شاء اللہ العزیز۔۔وما توفیقی الا باللہ
عن انس رضي الله عنه قال: سالوا النبي صلى الله عليه وسلم حتى احفوه بالمسالة"فصعد النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم المنبر فقال: لا تسالوني عن شيء إلا بينت لكم فجعلت انظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف راسه في ثوبه يبكي فانشا رجل كان إذا لاحى يدعى إلى غير ابيه فقال: يا نبي الله من ابي فقال: ابوك حذافة ثم انشا عمر فقال: رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا نعوذ بالله من سوء الفتن فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما رايت في الخير والشر كاليوم قط إنه صورت لي الجنة والنار حتى رايتهما دون الحائط فكان قتادة يذكر هذا الحديث عند هذه الآية: يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101.
(صحیح البخاری :حدیث نمبر: 7089 )
انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے سوالات کئے آخر جب لوگ باربار سوال کرنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر ایک دن چڑھے اور فرمایا کہ آج تم مجھ سے جو سوال بھی کرو گے میں تمہیں اس کا جواب دوں گا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں دائیں بائیں دیکھنے لگا تو ہر شخص کا سر اس کے کپڑے میں چھپا ہوا تھا اور وہ رو رہا تھا۔ آخر ایک شخص نے خاموشی توڑی۔ اس کا جب کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا دوسرے باپ کی طرف پکارا جاتا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ فرمایا تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ سامنے آئے اور عرض کیا ہم اللہ سے کہ وہ رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ وہ رسول ہیں راضی ہیں اور آزمائش کی برائی سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خیر و شر آج جیسا دیکھا، کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرے سامنے جنت و دوزخ کی صورت پیش کی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے قریب دیکھا۔
قتادہ نے بیان کیا کہ یہ بات اس آیت کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے
«يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» کہ ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری معلوم ہوں۔“انتہی
اگر آنکھوں پر شرکیہ عقیدہ کی پٹی نہ بندھی ہو اور عقل پر تعصب کے پردے نہ ہوں تو اس حدیث کا متن پکار ،پکار کر بتا رہا ہے ،کہ رسول اکرم ﷺ یہ باتیں وحی کی بنیاد پر بتا رہے تھے ،اس حدیث میں ایک جملہ ہے :
(( فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما رايت في الخير والشر كاليوم قط إنه صورت لي الجنة والنار حتى رايتهما دون الحائط ))
(( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خیر و شر آج جیسا دیکھا، کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرے سامنے جنت و دوزخ کی صورت پیش کی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے قریب دیکھا۔ ))
یعنی اس وقت براہ راست اوپر رابطہ تھا ،جس کے ذریعے پوشیدہ حقائق بیان کیئے جارہے تھے ۔۔
اسی لئے تو واقعہ کے بعد اللہ تعالی نے ایسے سوال کرنے والوں کو تنبیہ کی
(( يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم ))
(( اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ ))
یعنی ہماری جناب میں ایسے سوال مت کرو ،جنکے جواب تمہارے لئے تکلیف دہ ہوں ۔۔کیونکہ ہم نے تو عین واقعہ کے مطابق جواب دینا ہے ؛؛
اس سے واضح ہے کہ ان سوالوں کے جواب ’’ ذاتی علم کی بنا پر نہیں ،بلکہ وحی کی روشنی میں دیئے گئے ؛
اور ان جوابات سے پیارے نبی ﷺ کی نبوت کی حقانیت پر دلیل سامنے آئی کہ واقعی ان پر وحی کا نزول ہوتا ہے