امام عمادالدین ابن کثیر دمشقی علیہ الرحمہ نے یعلم کا لفظ لکھا ہے، یعلم علم الغیب، یعلم کا معنی جاننا ہی ہے،اطلاع کے بعد جاننا ہی ہوتا ہے،
جی میں نے کہا ہے کہ الفاظ کا ہی فرق ہے اس میں نہ الجھیں البتہ یہ یاد رکھیں کہ اطلاع کے بعد جاننا تو پھر کاہنوں کے لئے بھی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے اور اسی طرح کافروں اور مشرکین مکہ کے لئے بھی ہے کیونکہ وہ قیامت کے بارے جانتے تھے کہ وہ کون سے دن آئے گی یا حوض کوثر کس دن آئے گا پس اس جاننے میں مسلمان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے یہ تو کوئی بھی جان سکتا ہے اس پہ کوئی آپ کو اعتراض ہے تو بتائیں کہ کاہن کیسے غیب نہیں جانتے تھے اور کافر مشرکین مکہ کیسے غیب نہیں جانتے تھے
خود بخود جاننے کا عقیدہ قرآن کے خلاف ہے۔قرآن نے صاف کہا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر میں غیب جانتا تو بہت سی بھلائیاں اکٹھی کر لیتا۔
جی بالکل درست بات کی ہے آپ نے
کاہنوں اور کافروں کو کوئی علم غیب نہیں دیا گیا، قرآن نے کہا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں کرتا۔
اللہ کے نبی ، اللہ کے اذن اور مشیت کے تحت ہی ہوتے ہیں۔
بھائی جی الل تو فرشتوں کو مطلع کرتا ہے پھر فرشتہ نبی کو مطلع کرتا ہے آگے نبی کسی امتی کو مطلع کرتا ہے اس امتی سے کسی مسلمان یا کافر کو پتا چلتا ہے پس اللہ نے جب مطلع کر دیا تو پھر وہ غیب جاننا سب کے لئے ہو گیا چاہے وہ نبی ہو چاہے وہ فرشتہ ہو چاہے وہ مسلمان ہو چاہے وہ کافر ہو اس میں فرق نہیں ہے ہاں اگر اللہ کے نبی کوئی بات نہ بتائیں تو پھر وہ غیب انہیں تک محدود رہے گا
لیکن پھر میں کہتا ہوں کہ اوپر کوئی بھی بات اصل محل نزاع نہیں ہے
اصل اختلاف یہ ہے کہ کیا نبی ہر وقت جب چاہے کسی بھی بات کے بارے وفات سے پہلے بھی اور بعد میں بھی جان لیتے ہیں تو اس پہ میرا موقف یہی ہے کہ نہیں
آپکو اس پہ کوئی اعتراض ہے تو بتا دیں