عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
السلام علیکموعلیکم السلام !
بھائ عابدالرحمن کی پوسٹ میں ، ایک نہیں کئ سوال ہیں :
فی الحال ، کچھ سوالات ، کے جواب درج ذیل ہیں ، باقی جوابات دوسری کسی پوسٹ میں مہیا کردیے جائیں گے ۔ ان شآء اللہ
شاید ، اشکال اس بات پر ہے کہ ، اللہ تعالی کی ذات نے ، تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) کیا ہوا ہے ،
تو کوئ اور مخلوق کس طرح تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) ،کرسکتی ہے ، جیسے کہ شعاع یا ریز (laser)؟؟؟؟؟
میرے علم کے مطابق ، اسوقت جتنی بھی شعاع یا ریز (laser) دریافت ہوچکی ہیں ، انکی حدود ہیں ( یعنی کام کرنے کی حد)
اور اگر ہر شعاع یا ریز (laser) کی ( یعنی کام کرنے کی حد) ہے تو بیک وقت تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) ،کرنا ، کسی بھی شعاع یا ریز (laser) کے بس کی بات نہیں ہے ۔
اور میرے علم کے مطابق ، کوئ بھی ایسی شعاع یا ریز (laser) آج تک دریافت نہیں ہوئ ، جس کے لیے ، کوئ بھی رکاوٹ نہ ہو۔
دنیا یا آسمان و زمین میں موجود تمام شعاع یا ریز (laser) کے لیے رکاوٹ ، یا توڑ موجود ہے ۔
لہذا بیک وقت تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) ،کرنا ، کسی بھی شعاع یا ریز (laser) یا کسی اور مخلوق کے بس کی بات نہیں ہے ۔
صرف اللہ تعالی کی ذات نے ، تمام مخلوق کا بیک وقت احاطہ (گھیرا) کیا ہوا ہے ، اور اللہ تعالی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
باقی جوابات آئندہ پوسٹ میں ۔ ان شآء اللہ
آپ میرےموقف کو صحیح طریقہ سے سمجھ گئے ہیں :
بیشک ’’الکٹرونک ترنگوں ‘‘ کا توڑ ہے اور ان کے کام کرنے کی حدود ہیں اور ان کو فنا بھی ہونا ہے کیوں کہ تخلیق ہیں خالق نہیں ہے۔ لیکن ان کی جتنی بھی حدود ہیں اس احاطے کو محیط ہوتی ہیں
چاند ہے اس کی روشنی اپنے متعلقہ احاطے کو محیط ہوتی ہے اسی طرح سورج کی حالت ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ مخلوق ہیں اس لیے ان کو فنا بھی ہے لیکن یہ اپنے متعینہ حدود کو محیط ہوتی ہیں
اللہ تعالیٰ مخلوق نہیں ہے بلکہ خالق ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی کیفیت کیا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی جہت کیا ہے اور نہ ہی اس بارے میں تجسس کی ضرورت ہے بلکہ اس طرح کی باتیں ایمان کے منافی ہیں اور ایمان کو خطرے میں ڈالنے کا ذریعہ ہیں
جب یہ تخلیقات اپنے مقررہ احاطے کا احاطہ کرسکتی ہیں تو کیا وہ مولیٰ کریم جب خود یہ فرما رہا ہے کہ میں ہر جگہ ہوں، یعنی اس کی قدرت کاملہ ہر جگہ ہے اگر ہم یہ کہیں (نعوذ باللہ ) کہ وہ ہر جگہ نہیں یا یوں کہیں کہ وہ اپنی تخلیق پر حاوی ،قابض ، قدرت والا،یا ان سے باخبر نہیں ہے یا یوں کہیں کہ حاضر ناظر نہیں ہے تو اس طرح کی سوچ اللہ تعالیٰ کی الٰہیت میں نقص پیدا کرنے والی ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک بے عیب ہے وہ عظیم قدرت والا ہے اس کے مثل کوئی شئی نہیں۔اس بات کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے
جب کوئی بندہ نماز پڑھتا ہے تو اس کی نیت اور عقیدہ یہ ہوتا ہے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوں اور مجھے دیکھ رہا ہے (اس بارے میں حدیث شریف بھی ہے)
ایک دودھ دونے والا ہے ایماندار مومن دودھ میں پانی اس لیے نہیں ڈالتا ہے کیوں کہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی دیکھ رہا ہے ( قرون اولیٰ میں اس کی مثال ملتی ہیں)
ایک بچہ کئی منزلہ عمارت سے گرتا ہے اور محفوظ رہتا ہے اور ایک پہلوان کھڑا کھڑا گرجاتا ہے یاجسم میں فریکچر واقع ہوجاتا ہے ( کوئی تو ہے جو اس طرح کے امور انجام دے رہا ہے)
ان باتوں سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے اپنے کام میں یا اپنے طریقہ کار میں خود مختار ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں سب اس کی محتاج ہیں اسے کسی فرشتہ وغیرہ کی ضرورت نہیں وہ مالک ’’کن فیکون‘‘ جب اس کون و مکان میں کچھ بھی نہیں تھا وہ تب بھی اللہ تھا اور بے نیاز تھا اور عرش و فرش سے مبرا تھا اس کو نہ پہلے عرش فرش کی ضرورت تھی اور نہ اب ہے اس لیے جس کو کسی شئی کی حاجت ہوتی ہے وہ محتاج ہے اور جو محتاج ہو تا ہے وہ رب ہونے قابل نہیں اور نہ ہی ہم محتاج کو رب مانتے ہیں
ہمیں تو اتنا معلوم ہے اس نے جب چاہا’’ کن فیکون ‘‘کہا اور یہ دنیا وجود میں آگئی اور پھر اس پر اپنا تسلط قائم کردیا اور تسلط کے لیے لازم ہے کہ اس پر مکمل کنٹرول ہو ہمہ جہت سے ۔اور یہ بات بھی سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ کنٹرول کرنے والا مقام کے اعتبار سے اعلیٰ وارفع ہی ہوتا ہے ۔جس طرح اس دنیاوی نظام کے عارضی حکمراں کو کہا جاتا ہے ’’اوپر والے ‘‘ تو کیا اس لفظ اوپر والے کہنے سے کہیں وہ آسمان میں معلق تھوڑی ہوگئے ۔ معلوم یہ ہوا ’’ناظم اعلیٰ ‘‘ مرتبہ کے اعتبار سب سے اوپر ہوتا ہے ۔اور جہاں کا حاکم ہوتا ہے اس کو اس پورے خطے پر حکمرانی یا نگرانی حاصل ہوتی ہے ۔وہ اس وقت بھی حاکم ہوتا ہے جب وہ اپنی کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے اور اس وقت بھی حاکم ہوتا ہے جب وہ ریتیلے میدان میں گرد وغبار میں بھرا ہوتا ہے اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی ’’کرسی ‘‘ایک اصطلاحی لفظ ہے حکومت کرنے کے لیے اس معنوی کرسی کی ضرورت نہیں بلکہ حکومت کرنا ایک مرتبہ اور مقام ہے ۔ایک حاکم کہیں سے بھی کوئی احکام جاری کردے اس پر عمل کرنا تمام رعایا پر لازم ہوجاتا ہے ۔ یعنی اس کا حکم ہر جگہ چل رہا ہے اور ہر جگہ سے چل رہا ہے چاہے وہ ہوائی جہاز میں ہو یا ریگستان میں کرسی پر ہو یا چار پائی پر کھڑا ہو یا بیٹھا۔
تو جب ان دیناوی حاکموں کا یہ حال ہے تو اس مالک حقیقی اور حقیقی بادشاہ اور حاکم کا کیا حال ہوگا
سبحانہ ما اعظم شانہ ولا الہ غیرہ فاستغفروا اللہ وتوبوا الیہ
اللہ لا الٰه الّا ھو ۔ الحی القیّوم ۔ لا تاخذہ سنة وّلا نوم ۔ له ما فی السّمٰوٰت وما فی الارض ۔ من ذا الّذی یشفع عندہ الّا باذنه ۔ یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم ۔ ولا یحیطون بشیء مّن علمه الّا بما شاء ۔ وسع کرسیّه السّمٰوٰت والارض ۔ ولا يئُوده حفظھما ۔ وھو العلیّ العظیم