• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
وعلیکم السلام !
بھائ عابدالرحمن کی پوسٹ میں ، ایک نہیں کئ سوال ہیں :
فی الحال ، کچھ سوالات ، کے جواب درج ذیل ہیں ، باقی جوابات دوسری کسی پوسٹ میں مہیا کردیے جائیں گے ۔ ان شآء اللہ
شاید ، اشکال اس بات پر ہے کہ ، اللہ تعالی کی ذات نے ، تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) کیا ہوا ہے ،
تو کوئ اور مخلوق کس طرح تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) ،کرسکتی ہے ، جیسے کہ شعاع یا ریز (laser)؟؟؟؟؟
میرے علم کے مطابق ، اسوقت جتنی بھی شعاع یا ریز (laser) دریافت ہوچکی ہیں ، انکی حدود ہیں ( یعنی کام کرنے کی حد)
اور اگر ہر شعاع یا ریز (laser) کی ( یعنی کام کرنے کی حد) ہے تو بیک وقت تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) ،کرنا ، کسی بھی شعاع یا ریز (laser) کے بس کی بات نہیں ہے ۔
اور میرے علم کے مطابق ، کوئ بھی ایسی شعاع یا ریز (laser) آج تک دریافت نہیں ہوئ ، جس کے لیے ، کوئ بھی رکاوٹ نہ ہو۔
دنیا یا آسمان و زمین میں موجود تمام شعاع یا ریز (laser) کے لیے رکاوٹ ، یا توڑ موجود ہے ۔
لہذا بیک وقت تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) ،کرنا ، کسی بھی شعاع یا ریز (laser) یا کسی اور مخلوق کے بس کی بات نہیں ہے ۔
صرف اللہ تعالی کی ذات نے ، تمام مخلوق کا بیک وقت احاطہ (گھیرا) کیا ہوا ہے ، اور اللہ تعالی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
باقی جوابات آئندہ پوسٹ میں ۔ ان شآء اللہ
السلام علیکم
آپ میرےموقف کو صحیح طریقہ سے سمجھ گئے ہیں :
بیشک ’’الکٹرونک ترنگوں ‘‘ کا توڑ ہے اور ان کے کام کرنے کی حدود ہیں اور ان کو فنا بھی ہونا ہے کیوں کہ تخلیق ہیں خالق نہیں ہے۔ لیکن ان کی جتنی بھی حدود ہیں اس احاطے کو محیط ہوتی ہیں
چاند ہے اس کی روشنی اپنے متعلقہ احاطے کو محیط ہوتی ہے اسی طرح سورج کی حالت ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ مخلوق ہیں اس لیے ان کو فنا بھی ہے لیکن یہ اپنے متعینہ حدود کو محیط ہوتی ہیں
اللہ تعالیٰ مخلوق نہیں ہے بلکہ خالق ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی کیفیت کیا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی جہت کیا ہے اور نہ ہی اس بارے میں تجسس کی ضرورت ہے بلکہ اس طرح کی باتیں ایمان کے منافی ہیں اور ایمان کو خطرے میں ڈالنے کا ذریعہ ہیں
جب یہ تخلیقات اپنے مقررہ احاطے کا احاطہ کرسکتی ہیں تو کیا وہ مولیٰ کریم جب خود یہ فرما رہا ہے کہ میں ہر جگہ ہوں، یعنی اس کی قدرت کاملہ ہر جگہ ہے اگر ہم یہ کہیں (نعوذ باللہ ) کہ وہ ہر جگہ نہیں یا یوں کہیں کہ وہ اپنی تخلیق پر حاوی ،قابض ، قدرت والا،یا ان سے باخبر نہیں ہے یا یوں کہیں کہ حاضر ناظر نہیں ہے تو اس طرح کی سوچ اللہ تعالیٰ کی الٰہیت میں نقص پیدا کرنے والی ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک بے عیب ہے وہ عظیم قدرت والا ہے اس کے مثل کوئی شئی نہیں۔اس بات کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے
جب کوئی بندہ نماز پڑھتا ہے تو اس کی نیت اور عقیدہ یہ ہوتا ہے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوں اور مجھے دیکھ رہا ہے (اس بارے میں حدیث شریف بھی ہے)
ایک دودھ دونے والا ہے ایماندار مومن دودھ میں پانی اس لیے نہیں ڈالتا ہے کیوں کہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی دیکھ رہا ہے ( قرون اولیٰ میں اس کی مثال ملتی ہیں)
ایک بچہ کئی منزلہ عمارت سے گرتا ہے اور محفوظ رہتا ہے اور ایک پہلوان کھڑا کھڑا گرجاتا ہے یاجسم میں فریکچر واقع ہوجاتا ہے ( کوئی تو ہے جو اس طرح کے امور انجام دے رہا ہے)
ان باتوں سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے اپنے کام میں یا اپنے طریقہ کار میں خود مختار ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں سب اس کی محتاج ہیں اسے کسی فرشتہ وغیرہ کی ضرورت نہیں وہ مالک ’’کن فیکون‘‘ جب اس کون و مکان میں کچھ بھی نہیں تھا وہ تب بھی اللہ تھا اور بے نیاز تھا اور عرش و فرش سے مبرا تھا اس کو نہ پہلے عرش فرش کی ضرورت تھی اور نہ اب ہے اس لیے جس کو کسی شئی کی حاجت ہوتی ہے وہ محتاج ہے اور جو محتاج ہو تا ہے وہ رب ہونے قابل نہیں اور نہ ہی ہم محتاج کو رب مانتے ہیں
ہمیں تو اتنا معلوم ہے اس نے جب چاہا’’ کن فیکون ‘‘کہا اور یہ دنیا وجود میں آگئی اور پھر اس پر اپنا تسلط قائم کردیا اور تسلط کے لیے لازم ہے کہ اس پر مکمل کنٹرول ہو ہمہ جہت سے ۔اور یہ بات بھی سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ کنٹرول کرنے والا مقام کے اعتبار سے اعلیٰ وارفع ہی ہوتا ہے ۔جس طرح اس دنیاوی نظام کے عارضی حکمراں کو کہا جاتا ہے ’’اوپر والے ‘‘ تو کیا اس لفظ اوپر والے کہنے سے کہیں وہ آسمان میں معلق تھوڑی ہوگئے ۔ معلوم یہ ہوا ’’ناظم اعلیٰ ‘‘ مرتبہ کے اعتبار سب سے اوپر ہوتا ہے ۔اور جہاں کا حاکم ہوتا ہے اس کو اس پورے خطے پر حکمرانی یا نگرانی حاصل ہوتی ہے ۔وہ اس وقت بھی حاکم ہوتا ہے جب وہ اپنی کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے اور اس وقت بھی حاکم ہوتا ہے جب وہ ریتیلے میدان میں گرد وغبار میں بھرا ہوتا ہے اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی ’’کرسی ‘‘ایک اصطلاحی لفظ ہے حکومت کرنے کے لیے اس معنوی کرسی کی ضرورت نہیں بلکہ حکومت کرنا ایک مرتبہ اور مقام ہے ۔ایک حاکم کہیں سے بھی کوئی احکام جاری کردے اس پر عمل کرنا تمام رعایا پر لازم ہوجاتا ہے ۔ یعنی اس کا حکم ہر جگہ چل رہا ہے اور ہر جگہ سے چل رہا ہے چاہے وہ ہوائی جہاز میں ہو یا ریگستان میں کرسی پر ہو یا چار پائی پر کھڑا ہو یا بیٹھا۔
تو جب ان دیناوی حاکموں کا یہ حال ہے تو اس مالک حقیقی اور حقیقی بادشاہ اور حاکم کا کیا حال ہوگا
سبحانہ ما اعظم شانہ ولا الہ غیرہ فاستغفروا اللہ وتوبوا الیہ
اللہ لا الٰه الّا ھو ۔ الحی القیّوم ۔ لا تاخذہ سنة وّلا نوم ۔ له ما فی السّمٰوٰت وما فی الارض ۔ من ذا الّذی یشفع عندہ الّا باذنه ۔ یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم ۔ ولا یحیطون بشیء مّن علمه الّا بما شاء ۔ وسع کرسیّه السّمٰوٰت والارض ۔ ولا يئُوده حفظھما ۔ وھو العلیّ العظیم
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
محترم عابد الرحمن صاحب ! آپ کا انداز بیان یقینا قابل تعریف ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

سوره
الۡمَعَارِجِ

آیت نمبر ٣ اور ٤

.مِّنَ اللّٰہِ ذِی الۡمَعَارِجِ
تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ

اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے
جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے‏


سوره السجدہ



آیت نمبر ٥




یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ


وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے. پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔


ان دونوں آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے اور روح پچاس ہزار برس کا سفر کر کے اللہ کے پاس پونچتے ہیں


اور


امر یعنی کام اللہ کی طرف ایک ہزار سال میں سفر کرتا ہے


اور ان دونوں آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ


اللہ کی ذات ہر جگہ موجود نہیں بلکہ اس کی ذات تک پونچنے کے لیے طویل ترین سفر کرنا پڑتا ہے











 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

قرآن کی واضح آیات آپ کے سامنے موجود ہیں احادیث آپ کے سامنے موجود ہیں اس کے باوجود اگر کوئی انکار کرے اور پھر اپنے آپ کو اہلسنّت کیسے کہ سکتا ہے​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ایک بات اور میری یہی بحث چل رہی ہے ایک اور فورم پر جس کا لنک یہ ہے

Where Is Allah, According To Quran ? | Page 2 | Tafreeh Mela - Pakistani Urdu Forum | urdu shayari | Urdu Novel | Urdu Islam

یہاں ناصر نومان جو دیوبندی ہیں جب ان کے سامنے یہی قرانی آیت اور صحیح احادیث پیش کی گئی ہیں تو جواب دیتے ہیں

معاذاللہ انکار کسی کو نہیں ۔۔
۔۔اوپر جمیع اہلسنت والجماعت کے اکابرین کا موقف صراحت سے واضح ہے
ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے
کیا قرآن و حدیث صرف آپ اور آپ کے مولوی ہی سمجھے ہیں
باقی جمیع اہلسنت والجماعت اکابرین ایسی آیات اور احادیث پاک نہیں سمجھ سکے جوآپ جیسے اورلولی جیسے دین کی ناسمجھ رکھنے والے بھی سمجھ گئے ؟؟؟؟؟


ناصر دیوبندی نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے نزدیک اپنے امام کا قول زیادہ اہم ہے قرآن اور صحیح احادیث کی کوئی ضرورت نہیں

خود فیصلہ کر لیں

اللہ ایسے لوگوں کو ھدایت دے

اور اگر ھدایت نصیب میں نہیں ہے تو ان کو غرق کر دے

آمین
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
لولی صاحب!
یہاں عبداللہ ہارون صاحب اور عابد الرحمن صاحب بڑے خوبصورت انداز میں اس موضوع پر گفتگو کررہے ہیں، ان کے درمیان ڈسٹرب نہ کریں۔
کیونکہ آپ کاپی پیسٹ ماسٹر ہیں بغیر سوچے سمجھے کاپی پیسٹ کرتے رہتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ جو باتیں عبداللہ ہارون صاحب اور عابد الرحمن صاحب نے کیں ہیں وہ آپ کے سر سے گذرگئیں ہونگیں۔
میرے بھائی آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ قرآن و احادیث کے الفاظ کا لفظی ترجمہ لے کر کاپی پیسٹ شروع کردیتے ہیں،
اگر یہاں علمائ کرام کے درمیان اس موضوع پر اچھے انداز میں گفتگو ہورہی ہے تو کاپی پیسٹ سے موضوع کو ڈسٹرب نہ کریں۔
شکریہ
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
محترم عابد الرحمن صاحب ! آپ کا انداز بیان یقینا قابل تعریف ہے۔
مفتی صاحب پر اللہ کا خصوصی فضل ہے۔اور یہ علوم میں شرح صدر کی علامت ہے اور یہ صاحب علم ہونے کا ثبوت ہے۔مفتی صاحب عبد اللہ ہارون صاحب سے گذارش ہے کہ مختصر سے لفظوں میں یہ بتا دے کہ ایک عام مسلمان جو حدیث بھی نہیں جانتا عربی سے بھی ان واقف ہے وہ کیا عقیدہ رکھے۔؟؟؟؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
لولی صاحب!
میرے بھائی آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ قرآن و احادیث کے الفاظ کا لفظی ترجمہ لے کر کاپی پیسٹ شروع کردیتے ہیں،
اگر یہاں علمائ کرام کے درمیان اس موضوع پر اچھے انداز میں گفتگو ہورہی ہے تو کاپی پیسٹ سے موضوع کو ڈسٹرب نہ کریں۔
شکریہ
سلام

میرے بھائی مجھے ذرا یہ والی احادیث تفصیل سے بتا دیں کہ فرشتے آسمان پر کیوں جاتے ہیں

اگر اللہ ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے تو این احادیث کا کیا مطلب ہے ۔

امید ہے کہ آپ مجھے تفصیل سے بتایں گے ۔ تا کہ یہاں سب کے علم میں اضافہ ھو



اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ساتھ ہر جگہ موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کے اللہ کی طرف چڑھنے کا ذکر نہ فرماتے ، بلکہ کچھ یوں کہا جاتا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے لہذا فرشتوں کو کہیں سے کہیں ، کسی طرف جانے ، چڑھنے اترنے کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی
أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا

يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِى صَلاَةِ الْفَجْرِ وَصَلاَةِ الْعَصْرِ ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِى فَيَقُولُونَ تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ

رات کے فرشتے اور دِن کے فرشتے تُم لوگوں میں ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور نمازِ عصر اور نمازِ فجر کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں(یعنی فرشتوں کا ایک گرو ہ فجر کے وقت آتا ہے اور عصر تک رہتا ہے ، یہ دِن کے فرشتے ہیں اور دوسرا گروہ عصر کے وقت آتا ہے اور فجر تک رہتا ہے یہ رات کے فرشتے ہیں )پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے درمیان رات گذاری ہوتی ہے(یعنی عصر کے وقت آنے والے فرشتے ) اُوپر ( اللہ کی طرف) چڑھتے ہیں تو(وہاں )اُن کا رب اُن سے پوچھتا ہے، جبکہ وہ بندوں کے بارے میں فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے ، تُم نے میرے بندوں کو کِس حال میں چھوڑا ؟ تو فرشتے کہتے ہیں جب ہم نے اُنہیں چھوڑا تو وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم اُن کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے)

صحیح مُسلم / حدیث632/کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ / باب 37 کی پہلی حدیث ،صحیح البُخاری / حدیث 555 / کتاب مواقیت الصلاۃ / باب 16کی دوسری حدیث ، صحیح ابنِ خزیمہ/حدیث 321 /کتاب الصلاۃ / باب12 ذكر اجتماع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر وصلاة والعصر جميعا ودعاء الملائكة لمن شهد الصلاتين جميعا کی پہلی حدیث، صحیح ابن حبان /حدیث 1736/کتاب الصلاۃ/باب9،مؤطامالک/حدیث416/کتاب قصر الصلاۃ/ باب24 ،مُسند احمد /مُسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ ،سنن النسائی /حدیث489/ کتاب الصلاۃ/باب21۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا

إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلاَئِكَةً سَيَّارَةً فُضْلاً يَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ حَتَّى يَمْلَئُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ - قَالَ - فَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِى الأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ

بے شک اللہ کے کچھ ایسے فرشتے ہیں جو (زمین میں)چلتے پھرتے ہی رہتے ہیں ،اور(اللہ کے) ذِکر کی مجلسوں کی تلاش میں رہتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جِس میں (اللہ کا)ذِکر ہو رہا ہو تو وہ ذِکر کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پَروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں تک کہ اُن کے اور دُنیا والے آسمان کے ساری جگہ میں وہ فرشتے بھر جاتے ہیں ، اور پھر جب الگ ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف چڑھتے اور بُلند ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مزید فرمایا ۔تو(وہاں )اللہ عزّ و جلّ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ """ تُم سب کہاں سے آئے ہو ؟ """ جبکہ اللہ فرشتوں کے بارے میں خود اُن سے زیادہ جانتا ہے، تو فرشتے جواباًعرض کرتے ہیں """ہم آپ کے اُن بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین میں آپ کی پاکیزگی ، اور آپ کی بڑائی ، اور الوھیت میں آپ کی واحدانیت ،اور آپ کی تعریف بیان کرتے ہیں ، اور آپ سے سوال کرتے ہیں

)صحیح مُسلم /حدیث 7015/کتاب الذکر و الدُعاء والتوبہ/باب 8 (

قارئین کرام ،ملاحظہ فرمائیے ، اور بغور ملاحظہ فرمایے کہ ان دونوں احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کا اللہ کی طرف چڑھنے کا ذِکر فرما رہے ہیں ، اور غور فرمایے کہ چڑھا اوپر کی طرف جاتا ہے یا کِسی اور طرف ؟؟؟
اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ساتھ ہر جگہ موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کے اللہ کی طرف چڑھنے کا ذکر نہ فرماتے ، بلکہ کچھ یوں کہا جاتا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے لہذا فرشتوں کو کہیں سے کہیں ، کسی طرف جانے ، چڑھنے اترنے کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
لولی صاحب!
یہاں عبداللہ ہارون صاحب اور عابد الرحمن صاحب بڑے خوبصورت انداز میں اس موضوع پر گفتگو کررہے ہیں، ان کے درمیان ڈسٹرب نہ کریں۔
کیونکہ آپ کاپی پیسٹ ماسٹر ہیں بغیر سوچے سمجھے کاپی پیسٹ کرتے رہتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ جو باتیں عبداللہ ہارون صاحب اور عابد الرحمن صاحب نے کیں ہیں وہ آپ کے سر سے گذرگئیں ہونگیں۔
میرے بھائی آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ قرآن و احادیث کے الفاظ کا لفظی ترجمہ لے کر کاپی پیسٹ شروع کردیتے ہیں،
اگر یہاں علمائ کرام کے درمیان اس موضوع پر اچھے انداز میں گفتگو ہورہی ہے تو کاپی پیسٹ سے موضوع کو ڈسٹرب نہ کریں۔
شکریہ
اسلام و علیکم

کسی کی اگر کوئی اچھی بات کاپی پیسٹ کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں -

حضرت علی رضی الله عنہ کا قول ہے شاید :

"یہ مت دیکھو کہ کون که رہا ہے -بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا که رہا ہے "
 
Top