- کیا وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے اس قول کو سننے کے بعد، قاضی کو شکایت کرنے کی بجائے، اور بنا کوئی شور کیے یحیی بن حمزہ شام میں بیٹھ کر اطمینان سے ایک مجلس میں سعید کو یہ بات سنا رہے ہیں!؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
سب سے پہلے تو اتنا عرصہ غیر حاضری کے بعد فورم پر خوش آمدید
دوسری بات یہ کہ ’’ علم الروایہ ‘‘ سے تعلق و محبت کے سبب آپ نے ہمیں اپنی معلومات سے مستفید کرنا ہے ،نہ کہ ہم نے آپ کو ؟۔۔ زادک اللہ علماً و فضلاً
تیسری عرض یہ کہ : (
لو أن رجلا عبد هذه النعل ) کے بارے محقق شہیر علامہ عبد الرحمن المعلمی کی ’’ التنکیل ‘‘ کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ فرمائیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جہاں تک آپ کا ’’ یحیی بن حمزہ ‘‘ کو یہ مشورہ کہ اسے قاضی کے پاس جا کر یہ بتانا تھا نہ کہ مجلس روایت میں بیان کرنا ۔
تو اس کے متعلق عرض ہے کہ :
علامہ الذہبی رحمہ اللہ ’’ سیر اعلام النبلاء ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ : یحیی بن حمزہ تو خود دمشق کے قاضی تھے ۔ منصور نے (153 ھ ) میں بڑے تعریفی کلمات کے ساتھ انہیں اس عہدہ پر مقرر کیا ۔
يَحْيَى بنُ حَمْزَةَ بنِ وَاقِدٍ الحَضْرَمِيُّ
الإِمَامُ الكَبِيْرُ، الثِّقَةُ، أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الحَضْرَمِيُّ مَوْلاَهُم، البَتَلْهِيُّ، الدِّمَشْقِيُّ، قَاضِي دِمَشْقَ.))الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تاریخ ابن عساکر میں ہے :کہ منصور اور مھدی دونوں کے دور میں دمشق کے قاضی رہے ۔
يحيى بن حمزة بن واقد أبو عبد الرحمن الحضرمي (1) من أهل بيت لهيا (2) قاضي دمشق للمنصور والمهدي قرأ على يحيى بن الحارث بحرف ابن عامر وروى عن الأوزاعي وعروة بن رويم وعطاء الخراساني والنعمان بن المنذر وأبي وهب عبيد الله بن عبيد الكلاعي والعلاء بن الحارث والزبيدي (3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- کیا وجہ ہے کہ اگر امام ابو حنیفہ نے ایسا کہا ہو اور ان کے تمام تلامذہ، دوستوں، حتی کہ دشمنوں کو بھی اس کا علم نہ ہو! اور انہوں نے خاموشی اختیار کی ہو۔ نیز ان کے کسی معروف تلمذ نے اس کا ذکر تک نہ کیا ہو!؟
اس زیر بحث قول کا تو پتا نہیں ۔البتہ امام ابوحنیفہ کے ایسے ’’ بدیع ‘‘ اقوال پر اہل علم نے خاموشی اختیار نہیں۔۔بلکہ بہت کچھ کہا ۔۔۔میرے خیال میں اس موضوع پر ’’ عبد اللہ بن احمد ؒ ‘‘ کی ’’ السنہ ‘‘ تو مطالعہ سے گزری ہوگی ۔۔۔اگر ’’ السنہ ‘‘ آپ کے نزدیک صحیح ثابت ہو تو یہ سوال ختم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ سطور پیش خدمت ہیں ۔