اسلام علیکم
ایک روایت ہمارے چند علماء اور ان کی تقلید میں طلباء اکثر پیش کرتے ہیں کہ:
خبرنا محمد بن الحسين بن الفضل القطان , قال أخبرنا عبد اللہ بن جعفر بن درستويہ , قال حدثنا يعقوب بن سفيان , قال حدثني علي بن عثمان بن نفيل , قال حدثنا أبو مسهر , قال حدثنا يحيى بن حمزة , وسعيد يسمع , أن أبا حنيفة قال : لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا , فقال سعيد : هذا الكفر صراحا
ترجمہ: يحيى بن حمزہ نے سعيد کے سامنے يہ بات بيان کي کہ أبو حنيفہ نے کہاہے: اگر کوئي شخص اس جوتے کي عبادت کرے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کي نيت سے تو ميں اس ميں کوئي حرج نہيں سمجھتا ۔تو سعيد (بن عبد العزيز التنوخي ) نے (يہ سن کر ) کہا : يہ تو صريح کفر ہے۔
(المعرفۃ والتاریخ للفسوی ص 368، وتاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 372 وغیرہ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جہاں تک اس روایت کی سند کی بات ہے تو اس کی سند حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اور رفیق طاہر حفظہ اللہ کے نزدیک درست ہے اور ظاہر ہے کہ ذکر کردہ علماء کا مقام علم و تحقیق میں آپ سے بہت اونچا ہے۔ مزید تفصیل خود رفیق طاہر اور کفایت اللہ برادران ہی بتا سکیں گے۔
سند کی بحث سے پہلے ابوحنیفہ کو بچانے کے لئے جو کلام آپ نے کیا ہے وہ بھی تو صرف تاویل ہی ہے اور وہ بھی پرتکلف تاویل۔ جبکہ لوگوں کی تاویلات پر آپ شکوہ کناں بھی ہیں! یہ کیا انصاف ہے؟ اگر دوسرے تاویل کریں تو غلط اور اگر آپ ابوحنیفہ کے دفاع میں بعید تاویلات کریں تو درست! اگر ایسا کوئی حکم ابوحنیفہ کے بارے میں شریعت نے دیا ہے تو ہمیں بھی مطلع فرمادیں کہ ابوحنیفہ کے کردار اور اعمال کو اجاگر کرتی ہوئی کوئی صحیح روایت بھی آجائے تو اسے یہ کہہ کر رد کردو کہ ابوحنیفہ سے یہ محال ہے اور اگر یہ سچ بھی ہے تو قابل تاویل ہے۔
ابوحنیفہ کی عبادت ریاضت کردار کی پاکیزگی، تقویٰ وغیرہ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے آپ سمیت بہت لوگوں کو دیکھا ہے لیکن کوئی بھی مرد میدان ابوحنیفہ کی اس خیالی تقویٰ اور بزرگی کو ثابت نہیں کرسکا۔ میرے بھائی خیالی دنیا سے باہر نکلو اور ابوحنیفہ کے دفاع کا شوق ہے تو کوئی صحیح روایت لاؤ۔ اگر بالفرض اس روایت کی سند ضعیف بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ دسیوں ایسی صحیح روایات موجود ہیں جن میں محدثین نے ابوحنیفہ کو گمراہ،جاہل،یہودی،کذاب اور اسلام کا دشمن وغیرہ قرار دیا ہے۔ ایسی روایت ثابت کرتی ہیں کہ ابوحنیفہ جیسا شخص جوتے کی عبادت کے جواز کا فتویٰ بھی دے سکتا ہے اس میں اچھنبے اور نہ ماننے والی کوئی بات نہیں ہے۔ رضامیاں کی خدمت میں عرض ہے کہ ابوحنیفہ کی مذمت کرنے والے محدثین کا حکم بھی بیان کردیں کہ کیا وہ بھی ابوحنیفہ سے حسد اور جلن رکھتے تھے؟ ابوحنیفہ کا ناجائز دفاع کرنے والے اہل حدیثوں کو دوغلی پالیسی چھوڑ دینی چاہیے یہ ایک طرف تو ابوحنیفہ کو سچا اور پکا مسلمان قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ان محدثین کے ایمان میں بھی شک نہیں کرتے جو ابوحنیفہ کے کفر کو بیان کرتے ہیں۔ اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ متضاد باتوں میں دونوں فریق ہی سچے ہوں۔ اگر ابوحنیفہ سچا، پاکباز،متقی اور مومن تھا تو یقینا محدثین اس پر الزام لگانے میں جھوٹے ہیں اور اگر محدثین سچے ہیں تو پھر یقینا ابوحنیفہ ہی مشکوک الاسلام تھا۔ ایک کشتی میں سوار ہوجائیں بیک وقت دو کشتیوں کی سواری خطرناک ہے۔
تاریخ بغداد میں سند ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن الحسين بن الفضل القطان، أخبرنا عبد الله بن جعفر بن درستويه ، حدّثنا يعقوب بن سفيان، حدثني علي بن عثمان بن نفيل، حدّثنا أبو مسهر، حَدَّثَنَا يَحْيَى بن حمزة- وَسَعِيد يسمع- أَنَّ أَبَا حنيفة قَالَ: لو أَنَّ رجلا عَبْد هذه النعل يتقرب بها إلى الله، لم أر بذلك بأسا. فَقَالَ سَعِيد: هَذَا الكفر صراحا
سند میں عبد الله بن جعفر بن درستويه ہے جو ضعیف ہے
خطیب بغدادی نے البرقاني کے حوالے سے اس کی تضعیف نقل کی ہے
—-
الفسوي «المعرفة والتاريخ» (ج2ص784): میں کہتے ہیں-
حدثنا علي بن عثمان بن نفيل قال حدثنا أبو مسهر قال حدثنا يحيى بن حمزة وسعيد يسمع أن أبا حنيفة قال: لو أن رجلاً عبد هذه النعل يتقرب بها إلى لم أر بذلك بأساً.
فقال سعيد: هذا الكفر صراحاً.
يحيى بن حمزة اور سعید بن عبد العزيز کا سماع امام ابو حنیفہ سے نہیں ہے
—
خبرنا الثقفى قال : حدثنا أحمد بن الوليد الكرخي قال : حدثنا الحسن بن الصباح قال : حدثنا محفوظ بن أبى ثوبة قال : حدثنى ابن أبى مسهر قال : حدثنا يحيى ابن حمزة وسعيد بن عبد العزيز قالا : سمعنا أبا حنيفة يقول : لو أن رجلا عبد هذا البغل تقربا بذلك إلى الله جل وعلا لم أر بذلك بأسا
كتاب المجروحين – ابن حبان ج 3 ص 73
اس کی سند میں محفوظ بن أبى ثوبة ضعیف ہے
—
یہ پروپگنڈا دو افراد يحيى بن حمزة بن واقد الحضرمي الأصل الدمشقي اور سعيد بن عبد العزيز بن أبى يحيى التنوخى
الدمشقى کا ہے
يحيى بن حمزة بن واقد الحضرمي الأصل الدمشقي سن ١٠٨ ہجری میں پیدا ہوئے عباسی خلیفہ المَنْصُوْرُ کے دور میں سن ١٥٣ ہجری میں دمشق کے قاضی بھی رہے سن ١٨٣ ہجری میں فوت ہوئے المنصور ان کو جوان کہتے
سیر الاعلام النبلاء ج ٨ س ٣٥٥ پر
سعيد بن عبد العزيز بن أبى يحيى سن ١٦٧ ہجری میں فوت ہوئے سن ٩٠ میں پیدا ہوئے مشھور مدلس ہیں آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے
إمام أبو حنیفہ ٨٠ میں پیدا ہوئے اور ١٥٠ میں فوت ہوئے
یعنی یہ دونوں حمزہ اور سعید دمشقی دونوں امام صاحب کے ہم عصر تو تھے لیکن ان دونوں کو اکتساب علم کے لئے ابو حنیفہ کے منہ لگنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اہل دمشق کی یہ منفرد روایت منکر ہے جو ان سے زیادہ معتبر ابو حنیفہ پر تعصب عصری کی مثال ہے
اہل دمشق میں سے ان دو کا سماع امام صاحب سے کب کیسے ہوا کہاں ملاقات ہوئی امام ابو حنیفہ کا دمشق جانا کسی نے بیان نہیں کیا
مخالفین نے اس قسم کے بے سروپا اقوال کو قبول کیا ہے لیکن جو اہل انصاف و عدل ہیں ان کے نزدیک یہ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں
یا کسی وہم کا شکار ہیں