• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ابو حنیفہ نے جوتے کی پوجا کو جائز قرار دیا تھا؟ غلط فہمی کا ازالہ

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
کیونکہ یہ بات تو خود امام صاحب بتا سکتے ہیں کہ اہل السنہ سے ان کا ایمان میں اختلاف محض لفظی ہے ۔یا۔حقیقی ہے ، صوری ہے
یہ کیابات ہوئی،کیابعد کے اہل علم دلائل میں روشنی میں اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
قاسم بن حبیب کہتے ہیں :
عن القاسم بن حبيب قال: وضعت نعلي في الحصى ثم قلت لأبي حنيفة: أرأيت رجلا صلى لهذه النعل حتى مات إلا أنه يعرف الله بقلبه؟ فقال: مؤمن»
قاسم بن حبیب کہتے ہیں :
میں نے اپنا جوتا پتھروں میں گاڑکر ابو حنیفہ سے پوچھا :بتایئے ۔۔ایک آدمی ساری زندگی اس جوتے کی نماز پڑھتا رہے ،حتی اسی عقیدہ پر اسے موت آئے ،اور ساتھ ہی وہ دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی رکھتا ہو ۔(اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟) ۔۔۔فرمایا :وہ مومن ہے ۔)
اور دوسری روایت ہے :
"لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا"
’’ امام صاحب فرماتے ہیں :اگر کوئی تقرب الی اللہ کیلئے جوتے کی عبادت کرتا رہے ،اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘
آپ نے پھر سے یہ دونوں روایتیں ایک ساتھ ذکر کیں ہیں جس سے لگتا ہے کہ شاید آپ کو ان دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ تو برائے مہربانی ان دونوں الفاظ کو ہم معنی ثابت کر دیں۔ اگر نہیں تو پھر یحیی بن حمزہ والی ضعیف و منکر روایت کو دوبارہ پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

چلیں اس سے دو تین باتیں تو سمجھ میں آئیں ۔
ایک تو یہ کہ ’’ جوتے کی عبادت کرنے والا مومن بھی ہوتا ہے ۔‘‘
اگر تو آپ مرجئہ من الفقہاء اور فقہاء اہل سنت کے لفظ ایمان پر اس اختلاف سے واقف ہیں تو آپ جان جائیں گے کہ میں كيا کہنا چاہتا ہوں۔ ہمارے نزدیک چونکہ لفظ ایمان کا اطلاق اعمال پر بھی ہوتا ہے اس لئے ہمارے نزدیک ایسا شخص مؤمن نہیں ہے۔ جبکہ مرجئ فقہاء جو دراصل اہل سنت والجماعت کا ہی حصہ ہیں ان کے نزدیک چونکہ اعمال سرے سے ایمان کا حصہ نہیں ہیں اس لئے جب تک کوئی شخص دل سے اللہ کی تصدیق اور اقرار کرتا رہے گا ان کے نزدیک وہ مؤمن ہے چاہے کیسے بھی عمل کرے، لیکن وہ اعمال کی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں چاہے ان کے نزدیک وہ ایمان کا حصہ نہیں! ایسے کتنے ہی جلیل القدر ائمہ وسلف ہیں جو اس عقیدے کے قائل ہیں مگر پھر بھی وہ اہل سنت کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ایسا شخص صالح متقی اور امام نہیں ہو سکتا، بالکل غلط ہے۔ اس طرح ہم کئی ائمہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

السؤال ما الفرق بين المرجئة ومرجئة الفقهاء؟

الجواب الحمد لله، اسم المرجئة مأخوذ من الإرجاء، وهو التأخير وسمي المرجئة بذلك لتأخيرهم الأعمال عن مسمى الإيمان، وهم طوائف كثيرة، وأشهرهم الغلاة، وهم الذين يقولون: إن الإيمان هو المعرفة ـ أي معرفة الخالق ـ.

وهذا هو المشهور عن جهم بن صفوان إمام المعطلة نفاة الأسماء والصفات، وإمام الجبرية، وغلاة المرجئة.

والثانية: هم من يعرفون بمرجئة الفقهاء، وهم الذين يقولون: إن الإيمان هو تصديق بالقلب، أو هو التصديق بالقلب واللسان يعني مع الإقرار، وأما الأعمال الظاهرة والباطنة؛ فليست من الإيمان، ولكنهم يقولون: بوجوب الواجبات، وتحريم المحرمات، وأن ترك الواجبات أو فعل المحرمات مقتضي للعقاب الذي توعد الله به من عصاه، وبهذا يظهر الفرق بين مرجئة الفقهاء، وغيرهم خصوصا الغلاة، فإن مرجئة الفقهاء يقولون: إن الذنوب تضر صاحبها، وأما الغلاة فيقولون:لا يضر مع الإيمان ذنب، كما لا ينفع مع الكفر طاعة. والله أعلم.


الشيخ عبد الرحمن بن ناصر البراك

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

" إرجاء الفقهاء " جماعة هم عند الأمة أهل علم ودين. ولهذا لم يكفر أحد من السلف أحدا من " مرجئة الفقهاء " بل جعلوا هذا من بدع الأقوال والأفعال؛ لا من بدع العقائد فإن كثيرا من النزاع فيها لفظي لكن اللفظ المطابق للكتاب والسنة هو الصواب فليس لأحد أن يقول بخلاف قول الله ورسوله لا سيما وقد صار ذلك ذريعة إلى بدع أهل الكلام من أهل الإرجاء وغيرهم وإلى ظهور الفسق فصار ذلك الخطأ اليسير في اللفظ سببا لخطأ عظيم في العقائد والأعمال فلهذا عظم القول في ذم " الإرجاء "
(مجموع الفتاوی ج 7 ص 349)

مزید فرماتے ہیں:
ومما ينبغي أن يعرف: أن أكثر التنازع بين أهل السنة في هذه المسألة هو نزاع لفظي، وإلا فالقائلون بأن الإيمان قول من الفقهاء كحماد بن أبي سليمان وهو أول من قال ذلك، ومن اتبعه من أهل الكوفة وغيرهم متفقون مع جميع علماء السنة على أن أصحاب الذنوب داخلون تحت الذم والوعيد، وإن قالوا: إن إيمانهم كامل كإيمان جبريل، فهم يقولون: إن الإيمان بدون العمل المفروض، ومع فعل المحرمات، يكون صاحبه مستحقاً للذم والعقاب، كما تقوله الجماعة. ويقولون أيضًا بأن من أهل الكبائر من يدخل النار كما تقوله الجماعة، والذين ينفون عن الفاسق اسم الإيمان من أهل السنة متفقون على أنه لا يخلد في النار. فليس بين فقهاء الملة نزاع في أصحاب الذنوب إذا كانوا مقرين باطناً وظاهراً بما جاء به الرسول، وما تواتر عنه أنهم من أهل الوعيد، وأنه يدخل النار منهم من أخبر الله ورسوله بدخوله إليها، ولا يخلد منهم فيها أحد، ولا يكونون مرتدين مباحي الدماء، ولكن الأقوال المنحرفة قول من يقول بتخليدهم في النار، كالخوارج، والمعتزلة. وقول غلاة المرجئة الذين يقولون: ما نعلم أن أحداً منهم يدخل النار، بل نقف في هذا كله. وحكى عن بعض غلاة المرجئة الجزم بالنفي العام.
(الایمان 233)

کیونکہ یہ بات تو خود امام صاحب بتا سکتے ہیں کہ اہل السنہ سے ان کا ایمان میں اختلاف محض لفظی ہے ۔یا۔حقیقی ہے ، صوری ہے یا جوہری ؛
بس پھر امام بخاری کے منہج پر محدثین نے جو اتنی محنت سے کتب لکھی ہیں، امام احمد اور دیگر محدثین کی کے منہج اور عقائد پر کتب لکھی ہیں سب بکواس ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر حصہ تو استنباط اور تتبع کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ فقہ الحدیث کی کیا ضرورت ہے کیونکہ اکثر فقہی اصول تو مستنبط ہیں جو خود نبی نے صراحتا نہیں کہے ہوتے۔ سب کچھ دیوار پر مار دیں!
امام ابو حنیفہ کے دیگر اقوال میں جو اعمال کی اہمیت نظر آتی ہے اور اس بارے میں جو دیگر قرائن اور اقوال نقل کیے جاتے ہیں ان سے ان محدثین کا کیا تعلق وہ تو سب جاہل ہیں! ہمیں تو صراحتا ابو حنیفہ کا اپنا قول چاہیے!
ٹھیک ہے میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں! ابتسامہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
آپ نے پھر سے یہ دونوں روایتیں ایک ساتھ ذکر کیں ہیں جس سے لگتا ہے کہ شاید آپ کو ان دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ تو برائے مہربانی ان دونوں الفاظ کو ہم معنی ثابت کر دیں۔ اگر نہیں تو پھر یحیی بن حمزہ والی ضعیف و منکر روایت کو دوبارہ پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
دراصل مجھے یہاں تو قاسم بن حبیب والی روایت نقل کرنا تھی ، لیکن سھواً یحی بن حمزہ والی بھی درج کردی ۔گو میرے نزدیک بقول معلمی یحی بن حمزہ کی روایت کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ؛
یعنی درج ذیل ہی نقل کرنا مقصود:
عن القاسم بن حبيب قال: وضعت نعلي في الحصى ثم قلت لأبي حنيفة: أرأيت رجلا صلى لهذه النعل حتى مات إلا أنه يعرف الله بقلبه؟ فقال: مؤمن»
قاسم بن حبیب کہتے ہیں :
میں نے اپنا جوتا پتھروں میں گاڑکر ابو حنیفہ سے پوچھا :بتایئے ۔۔ایک آدمی ساری زندگی اس جوتے کی نماز پڑھتا رہے ،حتی اسی عقیدہ پر اسے موت آئے ،اور ساتھ ہی وہ دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی رکھتا ہو ۔(اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟) ۔۔۔فرمایا :وہ مومن ہے ۔)
اسی روایت کے پیش نظر گذارش کی تھی کہ :
چلیں اس سے دو تین باتیں تو سمجھ میں آئیں ۔
ایک تو یہ کہ ’’ جوتے کی عبادت کرنے والا مومن بھی ہوتا ہے ۔‘‘
دوسری بات یہ کہ ایسا فتوی دینے والا :


متفقہ طور پر صالح متقی عادل اور متبع شخصیت
یعنی ’’ امام ‘‘ ہوتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ان الفاظ کے جواب میں آپ نے پتا نہیں کیوں لکھ دیا کہ :

لہٰذا یہ کہنا کہ ایسا شخص صالح متقی اور امام نہیں ہو سکتا، بالکل غلط ہے۔ اس طرح ہم کئی ائمہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر آپ نے ’’ مرجئۃالفقہاء ‘‘ کا موضوع چھیڑدیا ۔۔اور معاف کیجئے گا شیخ ناصر البراک کی عبارت شاید پڑھے بغیر نقل فرمادی ،
شیخ کہتے ہیں :

فإن مرجئة الفقهاء يقولون: إن الذنوب تضر صاحبها، وأما الغلاة فيقولون:لا يضر مع الإيمان ذنب، كما لا ينفع مع الكفر طاعة. والله أعلم
کہ ’’ مرجئۃالفقہاء ‘‘ کا کہنا ہے کہ گناہ فاعل کیلئے نقصان دہ ہیں ،اور غالی مرجئہ کا عقیدہ ہے کہ : ایمان کے ساتھ گناہ ہرگز نقصان نہیں دیتے ،جیسے کفر کے ساتھ نیک اعمال فائدہ مند نہیں ہوتے ‘‘ انتہی
اب تھوڑا ساغور کریں ۔۔جوتی کی عبادت کرنے والا مومن ہے ۔۔۔’’ مرجئۃالفقہاء ‘‘کا عقیدہ ہے یا ۔۔غلاۃ المرجئہ ۔۔کا ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور شیخ الاسلام کی درج ذیل عبارت ۔۔قابل توجہ ہے ،اس لئے اس کا ترجمہ ساتھ لکھیں

وإلا فالقائلون بأن الإيمان قول من الفقهاء كحماد بن أبي سليمان وهو أول من قال ذلك، ومن اتبعه من أهل الكوفة وغيرهم متفقون مع جميع علماء السنة على أن أصحاب الذنوب داخلون تحت الذم والوعيد، وإن قالوا: إن إيمانهم كامل كإيمان جبريل، فهم يقولون: إن الإيمان بدون العمل المفروض، ومع فعل المحرمات، يكون صاحبه مستحقاً للذم والعقاب، كما تقوله الجماعة. ويقولون أيضًا بأن من أهل الكبائر من يدخل النار كما تقوله الجماعة، والذين ينفون عن الفاسق اسم الإيمان من أهل السنة متفقون على أنه لا يخلد في النار. فليس بين فقهاء الملة نزاع في أصحاب الذنوب إذا كانوا مقرين باطناً وظاهراً بما جاء به الرسول، وما تواتر عنه أنهم من أهل الوعيد، وأنه يدخل النار منهم من أخبر الله ورسوله بدخوله إليها، ولا يخلد منهم فيها أحد، ولا يكونون مرتدين مباحي الدماء، ولكن الأقوال المنحرفة قول من يقول بتخليدهم في النار، كالخوارج، والمعتزلة. وقول غلاة المرجئة الذين يقولون: ما نعلم أن أحداً منهم يدخل النار، بل نقف في هذا كله. وحكى عن بعض غلاة المرجئة الجزم بالنفي العام.
(الایمان 233)


 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بس پھر امام بخاری کے منہج پر محدثین نے جو اتنی محنت سے کتب لکھی ہیں، امام احمد اور دیگر محدثین کی کے منہج اور عقائد پر کتب لکھی ہیں سب بکواس ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر حصہ تو استنباط اور تتبع کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ فقہ الحدیث کی کیا ضرورت ہے کیونکہ اکثر فقہی اصول تو مستنبط ہیں جو خود نبی نے صراحتا نہیں کہے ہوتے۔ سب کچھ دیوار پر مار دیں!
یہ سطور آپ نے چونکہ غصہ اور ناراضگی میں لکھی ہیں ۔۔اسی لئے میری گذارش سے بالکل غیر متعلق ہیں ،
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
گو میرے نزدیک بقول معلمی یحی بن حمزہ کی روایت کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ؛
علامہ معلمی نے محض یحیی بن حمزہ کی توثیق پر بحث کی ہے، انقطاع کا انہوں نے ذکر تک نہیں کیا، اوپر سے اس روایت میں الفاظ ہی مختلف ہیں جس کے معنی بہت خطرناک بنتے ہیں، پھر بھی آپ فرما رہے ہیں کہ اس روایت کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی!
جبکہ میں آپ کو پہلے بھی گذارش کر چکا ہوں کہ، "برائے مہربانی ان دونوں الفاظ کو ہم معنی ثابت کر دیں۔" مگر آپ نے اس کا بھی جواب نہیں دیا!

اسی روایت کے پیش نظر گذارش کی تھی کہ :
چلیں اس سے دو تین باتیں تو سمجھ میں آئیں ۔
ایک تو یہ کہ ’’ جوتے کی عبادت کرنے والا مومن بھی ہوتا ہے ۔‘‘
دوسری بات یہ کہ ایسا فتوی دینے والا :


متفقہ طور پر صالح متقی عادل اور متبع شخصیت
یعنی ’’ امام ‘‘ ہوتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ان الفاظ کے جواب میں آپ نے پتا نہیں کیوں لکھ دیا کہ : لہٰذا یہ کہنا کہ ایسا شخص صالح متقی اور امام نہیں ہو سکتا، بالکل غلط ہے۔ اس طرح ہم کئی ائمہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
مجھے آپ کا کہنے کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ آپ نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ ایسا شخص عادل اور امام بھی ہو سکتا ہے!! گویا آپ امام ابو حنیفہ کے امام اور عادل وغیرہ ہونے کا انکار کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اعمال کو ایمان کا حصہ نہیں بتایا۔ تو اس کے جواب میں میں نے وہ پوری عبارت کہی۔ تو اس پر پتہ نہیں آپ نے "پتہ نہیں" کیوں کہا، اس کا مجھے پتہ نہیں، ابتسامہ

پھر آپ نے ’’ مرجئۃالفقہاء ‘‘ کا موضوع چھیڑدیا ۔۔اور معاف کیجئے گا شیخ ناصر البراک کی عبارت شاید پڑھے بغیر نقل فرمادی ،
شیخ کہتے ہیں :


کہ ’’ مرجئۃالفقہاء ‘‘ کا کہنا ہے کہ گناہ فاعل کیلئے نقصان دہ ہیں ،اور غالی مرجئہ کا عقیدہ ہے کہ : ایمان کے ساتھ گناہ ہرگز نقصان نہیں دیتے ،جیسے کفر کے ساتھ نیک اعمال فائدہ مند نہیں ہوتے ‘‘ انتہی
اب تھوڑا ساغور کریں ۔۔جوتی کی عبادت کرنے والا مومن ہے ۔۔۔’’ مرجئۃالفقہاء ‘‘کا عقیدہ ہے یا ۔۔غلاۃ المرجئہ ۔۔کا ؟؟
گناہ اور ثواب کی بات ہی نہیں ہے بلکہ محض لفظ ایمان کی بات ہے۔ مرجئہ فقہاء اور غالی مرجئہ دونوں کے نزدیک اعمال ایمان کا حصہ نہیں ہیں فرق صرف یہ ہے کہ مرجئہ فقہاء کے نزدیک اعمال ایک اہم جزء ہیں لیکن لفظ ایمان کا حصہ نہیں ہے، یعنی گناہ فاعل کو نقصان دہ ہیں لیکن اس سے اس کے ایمان پر فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا اگر کوئی جوتے کی پوجا کرتا ہے جبکہ اللہ پر اس کا ایمان ہے تو ابو حنیفہ کے نزدیک وہ مؤمن باللہ ہے اگرچہ اس کا یہ عمل نقصان دہ ہے۔

امام ابو حنیفہ کا اپنا ہی موقف اس بارے میں سن لیتے ہیں، ابو بطیع البلخی (ضعیف) امام ابو حنیفہ کا موقف نقل کرتے ہوئے کہتا ہے، "وَلَا نقُول إِن الْمُؤمن لَا تضره الذُّنُوب وَلَا نقُول إِنَّه لَا يدْخل النَّار وَلَا نقُول إِنَّه يخلد فِيهَا وَإِن كَانَ فَاسِقًا بعد ان يخرج من الدُّنْيَا مُؤمنا وَلَا نقُول إِن حَسَنَاتنَا مَقْبُولَة وسيئاتنا مغفورة كَقَوْل المرجئة"
(فقہ الاکبر ص 47)

بہرحال بحث پتہ نہیں کہاں سے کہاں جا رہی ہے۔ اصل مدعہ یہی تھا کہ یحیی بن حمزہ کی روایت ضعیف ومنکر ہے اور قاسم کی روایت سے بہت مختلف ہے، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلی میں امام ابو حنیفہ جوتے کے توسل کو اپنے دین کا حصہ بتا رہے ہیں اور اسےایک جائز عمل قرار دے رہے ہیں جو بہرحال کسی بھی مسلمان سے تصور نہیں کیا جا سکتا، جبکہ دوسری روایت میں اعمال کے ایمان کا حصہ ہونے نہ ہونے پر بحث ہے۔
اسی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات بظاہر صحیح نظر آنے والے اقوال بھی ایسے پیش کیے جاتے ہیں کہ ان کا معنی ہی بدل جاتا ہے اس لئے اقوال کے پیچھے کے حالات اور کہانیوں کو بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور ظاہری صحت کو دیکھ کر ہی فورا حکم نہیں لگا دینا چاہیے، جیسا کہ میں نے اپنی سب سے پہلی پوسٹ میں ذکر کیا ہے۔

جہاں تک بات ہے اس کی:
یہ سطور آپ نے چونکہ غصہ اور ناراضگی میں لکھی ہیں ۔۔اسی لئے میری گذارش سے بالکل غیر متعلق ہیں ،
تو سب سے پہلے یہ غصہ نہیں تھا۔ اگر غصہ لگا تو معذرت۔ بلکہ یہ میری اکتاہٹ تھی۔ کیونکہ بہت لوگ یہاں جانتے ہیں کہ مجھے لمبی بحثیں پسند نہیں ہیں۔ اس لئے جب میں تھک جاتا ہوں تو بس جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
دوسری بات یہ کہ یہ عین آپ کی گذارش کا ہی جواب تھا۔ اس لئے غیر متعلق ہرگز نہیں ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
امام ذہبی کا ایک خوبصورت قول ملا ہے، ملاحظہ فرمائیں:

أما مسعر بن كدام فحجة إمام: ولا عبرة بقول السليماني: كان من المرجئة: مسعر، وحماد بن أبي سليمان، والنعمان، وعمرو بن مرة، وعبد العزيز ابن أبي رواد، وأبو معاوية، وعمرو بن ذر ... وسرد جماعة.
قلت: الارجاء مذهب لعدة من جلة العلماء، لا ينبغي التحامل على قائله.

(میزان الاعتدال ج 4 ص 99)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
لہٰذا اگر کوئی جوتے کی پوجا کرتا ہے جبکہ اللہ پر اس کا ایمان ہے تو ابو حنیفہ کے نزدیک وہ مؤمن باللہ ہے اگرچہ اس کا یہ عمل نقصان دہ ہے۔
زبر دست ۔۔۔۔
وجزاکم اللہ خیراً ۔۔وزاد کم اللہ علماً ۔۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میرے خیال میں یہ اسی طرح ہے جیسے قبر کی پرستش کرنے والوں کو کافر نہیں کہا جاتا کہ وہ تاویل کرتے ہیں؛اسی طرح جوتے کی عبادت کا بھی معاملہ ہے جو بہ ظاہر تاویل ہی کی وجہ سے ہوگی از راہ توسل وٍیرہ کیوں کہ مقصود اس کا تقرب الی اللہ ہے؛یہ تاویل اگرچہ باطل ہے لیکن امام ابو حنیفہؒ نے شبہہے کی بنا پر تکفیر سے احتراز کیا ہے؛واللہ اعلم (واضح رہے کہ یہ ایک توجیہ ہے اوربات تکفیرمعین کی ہے!)
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
امام ابوحنیفہ کا علم اورمقام ومرتبہ اس سے بالاتر ہے کہ ان کی جانب ایسے کلمات کی نسبت کی جائے،جب کہ ان کلمات کاتعلق ایمان وعقائد سے ہو،
امام ابوحنیفہ سے بسند صحیح یحیی بن معین نے اپنی تاریخ ،صیمیری نے بسند صحیح اخبار میں ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایاکہ میں کسی مسئلہ کواولآقران میں تلاش کرتاہوں، وہاں نہ ملے تو احادیث رسول میں دیکھتاہوں ہوں اوروہاں نہ ملے توصحابہ کرام کے آثارمیں تلاش کرتاہوں، اگرصحابہ کرام نے کسی ایک رائے پر اتفاق کیاہے توان کے قول سے باہر نہیں جاتا اوراگر ان کے درمیان اختلاف ہے تو پھر ترجیح کی بنائ پر کسی ایک کے قول کو اختیار کرتاہوں ،جہاں تک بات تابعین کی ہے تو ہمیں بھی ان کی طرح اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے۔
کیادینی مسائل کے باب میں جس شخص کا منہج یہ ہو اس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ اس نے ایسی بات کہی ہوگی،کیاامام ابوحنیفہ سے منقول مسائل جو ان کے شاگردوں ابویوسف اورامام محمد نے نقل کیے ہیں، کیااس کے مشابہ کوئی اورقول ملتاہے،اگرنہیں ملتاہے تومحض ایک ضعیف راوی اورایک دور کے شخص کی بات کی بنیاد پر ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔
رضاصاحب قاسم بن حبیب التمارالکوفی کے قول کوامام ابوحنیفہ کاقول قراردینے کی کوشش کررہے ہیں،اس بنیاد پر کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اوراس کے کرنے سے انسان گناہ گار ہوتاہے لیکن کافر نہیں ہوتا،لیکن سوال یہ ہے کہ عبادت اگرکسی دوسرے کیلئے کی جائے خواہ وہ جوتاہویاغیراللہ ہو وہ سرے سے شرک ہے اوراس بات سے احناف کی کتب فقہ اورفتاوی بھری پڑی ہیں،
 
Top