گو میرے نزدیک بقول معلمی یحی بن حمزہ کی روایت کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ؛
علامہ معلمی نے محض یحیی بن حمزہ کی توثیق پر بحث کی ہے، انقطاع کا انہوں نے ذکر تک نہیں کیا، اوپر سے اس روایت میں الفاظ ہی مختلف ہیں جس کے معنی بہت خطرناک بنتے ہیں، پھر بھی آپ فرما رہے ہیں کہ اس روایت کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی!
جبکہ میں آپ کو پہلے بھی گذارش کر چکا ہوں کہ، "برائے مہربانی ان دونوں الفاظ کو ہم معنی ثابت کر دیں۔" مگر آپ نے اس کا بھی جواب نہیں دیا!
اسی روایت کے پیش نظر گذارش کی تھی کہ :
چلیں اس سے دو تین باتیں تو سمجھ میں آئیں ۔
ایک تو یہ کہ ’’ جوتے کی عبادت کرنے والا مومن بھی ہوتا ہے ۔‘‘
دوسری بات یہ کہ ایسا فتوی دینے والا :
↑
متفقہ طور پر صالح متقی عادل اور متبع شخصیت
یعنی ’’ امام ‘‘ ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ان الفاظ کے جواب میں آپ نے پتا نہیں کیوں لکھ دیا کہ : لہٰذا یہ کہنا کہ ایسا شخص صالح متقی اور امام نہیں ہو سکتا، بالکل غلط ہے۔ اس طرح ہم کئی ائمہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
مجھے آپ کا کہنے کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ آپ نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ ایسا شخص عادل اور امام بھی ہو سکتا ہے!! گویا آپ امام ابو حنیفہ کے امام اور عادل وغیرہ ہونے کا انکار کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اعمال کو ایمان کا حصہ نہیں بتایا۔ تو اس کے جواب میں میں نے وہ پوری عبارت کہی۔ تو اس پر پتہ نہیں آپ نے "پتہ نہیں" کیوں کہا، اس کا مجھے پتہ نہیں، ابتسامہ
پھر آپ نے ’’ مرجئۃالفقہاء ‘‘ کا موضوع چھیڑدیا ۔۔اور معاف کیجئے گا شیخ ناصر البراک کی عبارت شاید پڑھے بغیر نقل فرمادی ،
شیخ کہتے ہیں :
کہ ’’ مرجئۃالفقہاء ‘‘ کا کہنا ہے کہ گناہ فاعل کیلئے نقصان دہ ہیں ،اور غالی مرجئہ کا عقیدہ ہے کہ : ایمان کے ساتھ گناہ ہرگز نقصان نہیں دیتے ،جیسے کفر کے ساتھ نیک اعمال فائدہ مند نہیں ہوتے ‘‘ انتہی
اب تھوڑا ساغور کریں ۔۔جوتی کی عبادت کرنے والا مومن ہے ۔۔۔’’ مرجئۃالفقہاء ‘‘کا عقیدہ ہے یا ۔۔غلاۃ المرجئہ ۔۔کا ؟؟
گناہ اور ثواب کی بات ہی نہیں ہے بلکہ محض لفظ ایمان کی بات ہے۔ مرجئہ فقہاء اور غالی مرجئہ دونوں کے نزدیک اعمال ایمان کا حصہ نہیں ہیں فرق صرف یہ ہے کہ مرجئہ فقہاء کے نزدیک اعمال ایک اہم جزء ہیں لیکن لفظ ایمان کا حصہ نہیں ہے، یعنی گناہ فاعل کو نقصان دہ ہیں لیکن اس سے اس کے ایمان پر فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا اگر کوئی جوتے کی پوجا کرتا ہے جبکہ اللہ پر اس کا ایمان ہے تو ابو حنیفہ کے نزدیک وہ مؤمن باللہ ہے اگرچہ اس کا یہ عمل نقصان دہ ہے۔
امام ابو حنیفہ کا اپنا ہی موقف اس بارے میں سن لیتے ہیں، ابو بطیع البلخی (ضعیف) امام ابو حنیفہ کا موقف نقل کرتے ہوئے کہتا ہے، "
وَلَا نقُول إِن الْمُؤمن لَا تضره الذُّنُوب وَلَا نقُول إِنَّه لَا يدْخل النَّار وَلَا نقُول إِنَّه يخلد فِيهَا وَإِن كَانَ فَاسِقًا بعد ان يخرج من الدُّنْيَا مُؤمنا وَلَا نقُول إِن حَسَنَاتنَا مَقْبُولَة وسيئاتنا مغفورة كَقَوْل المرجئة"
(فقہ الاکبر ص 47)
بہرحال بحث پتہ نہیں کہاں سے کہاں جا رہی ہے۔ اصل مدعہ یہی تھا کہ یحیی بن حمزہ کی روایت ضعیف ومنکر ہے اور قاسم کی روایت سے بہت مختلف ہے، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلی میں امام ابو حنیفہ جوتے کے توسل کو اپنے دین کا حصہ بتا رہے ہیں اور اسےایک جائز عمل قرار دے رہے ہیں جو بہرحال کسی بھی مسلمان سے تصور نہیں کیا جا سکتا، جبکہ دوسری روایت میں اعمال کے ایمان کا حصہ ہونے نہ ہونے پر بحث ہے۔
اسی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات بظاہر صحیح نظر آنے والے اقوال بھی ایسے پیش کیے جاتے ہیں کہ ان کا معنی ہی بدل جاتا ہے اس لئے اقوال کے پیچھے کے حالات اور کہانیوں کو بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور ظاہری صحت کو دیکھ کر ہی فورا حکم نہیں لگا دینا چاہیے، جیسا کہ میں نے اپنی سب سے پہلی پوسٹ میں ذکر کیا ہے۔
جہاں تک بات ہے اس کی:
یہ سطور آپ نے چونکہ غصہ اور ناراضگی میں لکھی ہیں ۔۔اسی لئے میری گذارش سے بالکل غیر متعلق ہیں ،
تو سب سے پہلے یہ غصہ نہیں تھا۔ اگر غصہ لگا تو معذرت۔ بلکہ یہ میری اکتاہٹ تھی۔ کیونکہ بہت لوگ یہاں جانتے ہیں کہ مجھے لمبی بحثیں پسند نہیں ہیں۔ اس لئے جب میں تھک جاتا ہوں تو بس جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
دوسری بات یہ کہ یہ عین آپ کی گذارش کا ہی جواب تھا۔ اس لئے غیر متعلق ہرگز نہیں ہے۔