• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ابو حنیفہ نے جوتے کی پوجا کو جائز قرار دیا تھا؟ غلط فہمی کا ازالہ

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
راوی کےدفاع سے کیامقصود ہوتاہے؟کیایہ بھی بتانے کی ضرورت ہے؟
وہ دس شرطیں تنکیل کے مقدمہ میں ہی موجود ہیں،
میرے اس مراسلہ کا مقصد یہ تھاکہ آپ نے معلمی کے جس تحریر کے مطالعہ کامشورہ دیاہے وہ آپ یہاں نقل کردیں۔معلمی نے صرف اس پر بات کی ہے کہ اس سند کے روات ثقہ ہیں لیکن اس پر تومعلمی نے سرے سے بات ہی نہیں کی ہے کہ یحیی بن حمزہ اورامام ابوحنیفہ کے درمیان کبھی کوئی گفت وشنید بھی ہوئی تھی ۔علاوہ ازیں، قال کا جوصیغہ ہے وہ انقطاع کا صیغہ ہے، قال سے یہ پتہ نہیں چلتاکہ ک جس کا قول نقل کیاجارہاہے، اس سے بیان کرنے والے نے سنابھی ہے یاجس مجلس میں یہ بات ہوئی اس میں یہ شریک بھی تھا،میں نے اسی کے بارے میں کہاتھاکہ یحیی بن حمزہ اور امام ابوحنیفہ کی گفت وشنید کے تعلق سے اگرمعلمی نے کچھ کہاہوتووہ یہاں پیش کردیں۔ وباللہ التوفیق
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اگر آپ صرف نشر الصحیفہ، اور الصحیفہ جیسی کتب ہی پڑھیں گے تو یقینا آپ کو جرح اور طعن وتشنیع کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔
ان کتابوں پر علمی نقد کریں ، صرف زبانی کلامی ایک جملے میں مکمل کتاب کو دیوار کے ساتھ لگادینے سے کوئی فائدہ نہیں ، کیونکہ آپ کی یا میری بات کی کوئی حیثیت نہیں ، علمی کام کی اہمیت اور دلیل کا وزن لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے ۔
امام صاحب کے دفاع میں کہیں دوسری لائن پر نہ چل نکلیے گا ، جس طرح دفاع کا حق کوثری صاحب نے ادا کیا ہے ۔ ابتسامہ ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
تقلیدی سلفی کا لفظ استعمال کیا جا رہا محض اہل حدیث سے بغض کے بنیاد پہ۔۔
ہمارے ہی بھائیوں میں جب تقلید اور تعصب پایا جائے تو یہی کہیں گے یہ تو نہیں کہ ان کی غلطی کو نظر انداز کر کے خود بھی انہی کی طرح بن جائیں۔ غلط بات کبھی سلفیت کا حصہ نہیں ہو سکتی لہٰذا اسے اہل حدیث سے بغض کا نام دے کر اسے دفاع نہیں کرنا چاہیے۔

رہی آپ کی یہ بات کہ:
رہی اس قول کی کہ ابو حنیفہ جوتے کے پجاری تھے یا نہیں ۔۔ تو میاں آپ نے صرف قیاس آرائی کی ہے کوئی دلیل یا قرینہ پیش نہیں ۔۔۔ حب کے آپ یہ قبول کر رہے ہیں کی اس کی سند صحیح ہے۔۔۔۔ سو آپ وہ قرینہ پیش کر دیں۔
تو لگتا ہے آپ نے ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں۔ برائے مہربانی پھر سے پڑھیں اور دھیان لگا کر پڑھیں۔ آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
تیسری عرض یہ کہ : (لو أن رجلا عبد هذه النعل ) کے بارے محقق شہیر علامہ عبد الرحمن المعلمی کی ’’ التنکیل ‘‘ کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ فرمائیں ،
وعلیکم السلام ورحمۃ وبرکاتہ محترم
آپ ہی ان کا کلام نقل کر دیں یہاں پر، اور کیا انہوں نے اس انقطاع کا جواب دیا ہے یا نہیں یہ بھی بتا دیں۔

اور جہاں تک آپ کا ’’ یحیی بن حمزہ ‘‘ کو یہ مشورہ کہ اسے قاضی کے پاس جا کر یہ بتانا تھا نہ کہ مجلس روایت میں بیان کرنا ۔
تو اس کے متعلق عرض ہے کہ :

علامہ الذہبی رحمہ اللہ ’’ سیر اعلام النبلاء ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ : یحیی بن حمزہ تو خود دمشق کے قاضی تھے ۔ منصور نے (153 ؁ ھ ) میں بڑے تعریفی کلمات کے ساتھ انہیں اس عہدہ پر مقرر کیا ۔
يَحْيَى بنُ حَمْزَةَ بنِ وَاقِدٍ الحَضْرَمِيُّ
الإِمَامُ الكَبِيْرُ، الثِّقَةُ، أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الحَضْرَمِيُّ مَوْلاَهُم، البَتَلْهِيُّ، الدِّمَشْقِيُّ، قَاضِي دِمَشْقَ.))الخ
یہ ایک الزامی جواب تھا اور اسے یہ فرض کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ یحیی بن حمزہ نے امام ابو حنیفہ کے اس قول کو خود سنا ہو۔ لیکن آپ نے اس اصل مدعے کا جواب دیے بغیر دوسری الزامی باتوں کا جواب دے دیا جس کا یہاں کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ یحیی بن حمزہ اگر دمشق کے قاضی تھے تو بفرض انہوں نے کوفہ جا کر یہ بات سنی ہو، تو کیا وہ کوفہ میں بھی وہی اختیار رکھتے تھے یا کوفہ کا قاضی کوئی اور تھا؟
تیسری بات یہ کہ آپ خود ہی فرما رہے ہیں کہ منصور نے 153 میں بڑے تعریفی کلمات کے ساتھ انہیں اس عہدہ پر مقرر کیا، جب کہ امام ابو حنیفہ تو 150 میں فوت ہو گئے تھے۔ گویا قاضی بننے سے پہلے ہی وہ قاضی کے اختیارات رکھتے تھے!؟
یہ بات بہت عجیب ہے! لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ نے بے دھیانی میں ایسا کیا ہوگا، اس لئے کوئی بات نہیں۔

اس زیر بحث قول کا تو پتا نہیں ۔البتہ امام ابوحنیفہ کے ایسے ’’ بدیع ‘‘ اقوال پر اہل علم نے خاموشی اختیار نہیں۔۔بلکہ بہت کچھ کہا ۔۔۔میرے خیال میں اس موضوع پر ’’ عبد اللہ بن احمد ؒ ‘‘ کی ’’ السنہ ‘‘ تو مطالعہ سے گزری ہوگی ۔۔۔اگر ’’ السنہ ‘‘ آپ کے نزدیک صحیح ثابت ہو تو یہ سوال ختم ۔
بھائی اب میں نے امام ابو حنیفہ کا دفاع کیا کر لیا سب لوگ مجھے حنفی سمجھنے لگے ہیں، ابتسامہ۔ یقینا السنہ ثابت ہے۔ لیکن میرا کہنے کا مقصد ہے کہ ہر ایک قول کی تحقیق کرنی چاہیے ان اقوال کے پیچھے کے واقعات اور کہانیوں کو تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور پھر نہ صرف تنقیدی اقوال بلکہ ہر قسم کے اقوال کو جان کر پرکھ کر اور پھر ان تمام کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان میں تطبیق و ترجیح کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہیے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ان کتابوں پر علمی نقد کریں ، صرف زبانی کلامی ایک جملے میں مکمل کتاب کو دیوار کے ساتھ لگادینے سے کوئی فائدہ نہیں ، کیونکہ آپ کی یا میری بات کی کوئی حیثیت نہیں ، علمی کام کی اہمیت اور دلیل کا وزن لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے ۔
امام صاحب کے دفاع میں کہیں دوسری لائن پر نہ چل نکلیے گا ، جس طرح دفاع کا حق کوثری صاحب نے ادا کیا ہے ۔ ابتسامہ ۔
خضر بھائی میرا مقصد ان کتب کو دیوار پر مارنا نہیں تھا بلکہ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ جیسا کہ میں نے اوپر اسحاق سلفی بھائی کو بھی کہا ہے کہ، محض تنقید والی روایات اور کتب کو پڑھ کر ہی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر پہلو اور ہر قسم کے واقعات اور حالات کو دیکھ کر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔

امام صاحب کے دفاع میں کہیں دوسری لائن پر نہ چل نکلیے گا ، جس طرح دفاع کا حق کوثری صاحب نے ادا کیا ہے ۔ ابتسامہ ۔
ابتسامہ، میں امام صاحب کا کوئی دفاع نہیں کرتا۔ جو ان سے ثابت ہے وہ ثابت ہے۔ اور ان کے متعلق میرا عین وہی موقف ہے جو امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور دیگر عرب علماء کا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ امام صاحب سے ثابت نہیں ہے یا جو ان کی متفقہ طور پر صالح متقی عادل اور متبع شخصیت کے خلاف ہے اس کا رد کرنا بھی ضروری ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت کو گھٹایا نہیں جا سکتا؛خطائیں تمام انسانوں سے ہوتی ہیں!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام ورحمۃ وبرکاتہ محترم
آپ ہی ان کا کلام نقل کر دیں یہاں پر، اور کیا انہوں نے اس انقطاع کا جواب دیا ہے یا نہیں یہ بھی بتا دیں۔

یہ ایک الزامی جواب تھا اور اسے یہ فرض کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ یحیی بن حمزہ نے امام ابو حنیفہ کے اس قول کو خود سنا ہو۔ لیکن آپ نے اس اصل مدعے کا جواب دیے بغیر دوسری الزامی باتوں کا جواب دے دیا جس کا یہاں کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ یحیی بن حمزہ اگر دمشق کے قاضی تھے تو بفرض انہوں نے کوفہ جا کر یہ بات سنی ہو، تو کیا وہ کوفہ میں بھی وہی اختیار رکھتے تھے یا کوفہ کا قاضی کوئی اور تھا؟
تیسری بات یہ کہ آپ خود ہی فرما رہے ہیں کہ منصور نے 153 میں بڑے تعریفی کلمات کے ساتھ انہیں اس عہدہ پر مقرر کیا، جب کہ امام ابو حنیفہ تو 150 میں فوت ہو گئے تھے۔ گویا قاضی بننے سے پہلے ہی وہ قاضی کے اختیارات رکھتے تھے!؟
یہ بات بہت عجیب ہے! لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ نے بے دھیانی میں ایسا کیا ہوگا، اس لئے کوئی بات نہیں۔

بھائی اب میں نے امام ابو حنیفہ کا دفاع کیا کر لیا سب لوگ مجھے حنفی سمجھنے لگے ہیں، ابتسامہ۔ یقینا السنہ ثابت ہے۔ لیکن میرا کہنے کا مقصد ہے کہ ہر ایک قول کی تحقیق کرنی چاہیے ان اقوال کے پیچھے کے واقعات اور کہانیوں کو تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور پھر نہ صرف تنقیدی اقوال بلکہ ہر قسم کے اقوال کو جان کر پرکھ کر اور پھر ان تمام کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان میں تطبیق و ترجیح کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہیے۔
میں نے اپنی پوسٹ کے شروع اور آخر میں عرض کی تھی کہ میری گذارشات محض ایک طالب علم کے نقطہ نظر سے ہیں؛
بہرحال عرض ہے کہ : آپ نے کہا :
آپ ہی ان کا کلام نقل کر دیں یہاں پر، اور کیا انہوں نے اس انقطاع کا جواب دیا ہے یا نہیں یہ بھی بتا دیں۔
علامہ عبد الرحمن المعلمی لکھتے ہیں ::
264- يحيى بن حمزة بن واقد الحضرمي الأصل الدمشقي. في (تاريخ بغداد)
13 / 372 من طريق «يعقوب بن سفيان حدثني علي بن عثمان بن نفيل حدثنا أبو مسهر حدثنا يحيى بن حمزة وسعيد يسمع أن أبا حنيفة قال: لو أن رجلاً عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله لم أر بذلك بأساً. فقال سعيد: هذا الكفر صراحاً» . قال الأستاذ ص 39 «يحيى بن حمزة قدري لا يتخذ قوله ضد أئمة السنة حجة» .
أقول: أما قوله من رأيه فربما، وأما روايته فلا وجه لردها كما مر تحقيقه في القواعد، وقد وثقه ابن معين ودحيم وأبو داود والنسائي ويعقوب بن شيبة وغيرهم، واحتج به الشيخان في (الصحيحين) وسائر الأئمة ولم يغمز بشيء سوى القدر، ولم يكن داعية، وقد توبع في هذه الحكاية كما مر في ترجمة القاسم بن حبيب - والله أعلم.

روایت نقل کرنے کےبعد معلمی ؒ فرماتے ہیں :یحی بن حمزہ کی روایت کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔جیسا کہ اس کی تحقیق کا قواعد میں اس کا بیان گزر چکا ۔اور یحی کو ابن معین ،دحیم ،ابوداود ،النسائی اور یعقوب بن شیبہ وغیرہم محدثین نے ثقہ کہا ہے ۔اور بخار و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں اس سے احتجاج کیا ہے ۔اور عقیدہ قدر کے علاوہ کسی ان کی کوئی خرابی نہیں بتائی ۔اور قدر میں بھی وہ داعی نہ تھے ۔اور امام ابوحنیفہ کے بارے حکایت میں بھی ان کا تابع موجود ہے ۔
یہاں انہوں نے پہلے تو ۔۔ یحی بن حمزہ کی توثیق بیان کی اور پھر ساتھ اس کا متابع بھی بتایا کہ۔۔قاسم بن حبیب۔۔نے بھی یہ حکایت بیان کر رکھی ہے ۔
اور قاسم بن حبیب نہ صرف کوفی ہیں ،بلکہ امام ابوحنیفہ کے ہم عصر بھی ہیں ۔ان کی روایت علامہ معلمی نے یوں نقل کی ہے :
القاسم بن حبيب. في (تاريخ بغداد) 13 / 373 من طريق «ابن فضيل عن القاسم بن حبيب قال: وضعت نعلي في الحصى ثم قلت لأبي حنيفة: أرأيت رجلا صلى لهذه النعل حتى مات إلا أنه يعرف الله بقلبه؟ فقال: مؤمن»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی یحی بن حمزہ کے قاضی ہونے سے میرا مقصود یہ تھا کہ اس درجہ ثقہ شخص جو خلیفہ وقت کے مطابق اہل اسلام کے اعتماد پر پورا اترتا ہو ۔اور ’’ صحیحین ‘‘ کا راوی ہونے کا شرف رکھتا ہو ۔ایسا شخص جب کوئی بات نقل کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہ ہو ؟؟
بالخصوص جب اس کی متابعت بھی موجود ہو ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے فرمایا :
میں امام صاحب کا کوئی دفاع نہیں کرتا۔ جو ان سے ثابت ہے وہ ثابت ہے۔ اور ان کے متعلق میرا عین وہی موقف ہے جو امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور دیگر عرب علماء کا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ امام صاحب سے ثابت نہیں ہے یا جو ان کی متفقہ طور پر صالح متقی عادل اور متبع شخصیت کے خلاف ہے اس کا رد کرنا بھی ضروری ہے۔
عرض ہے کہ آپ ضرور ان کا دفاع کریں۔ یہ آپ کا حق ہے ،اس سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا ۔
 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
القاسم بن حبيب. في (تاريخ بغداد) 13 / 373 من طريق «ابن فضيل عن القاسم بن حبيب قال: وضعت نعلي في الحصى ثم قلت لأبي حنيفة: أرأيت رجلا صلى لهذه النعل حتى مات إلا أنه يعرف الله بقلبه؟ فقال: مؤمن»
اب اس روایت سے ہمیں اصل کہانی کا پتہ چلتا ہے۔ آپ اس روایت کو یحیی بن حمزہ کی روایت سے ملا کر دیکھیں اور دیکھیں دونوں میں کتنا واضح فرق ہے۔ اُس روایت کہ الفاظ ہیں:
"لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا"
گویا امام صاحب جوتے کی پوجا کو اللہ کے قرب کے لئے جائز قرار دے رہے ہیں۔

جبکہ اس روایت میں ہے کہ امام ابو حنیفہ ایسے شخص کو محض "مؤمن" قرار دے رہے ہیں اگرچہ ان کے نزدیک یہ ایک کبیرہ گناہ اور کفریہ عمل ہے۔ اس روایت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب عمل کے ایمان کا حصہ ہونے والے اختلافی مسئلے پر اپنا موقف بیان کر رہے ہیں۔

اور ایمان کے متعلق ان کا یہ اختلاف محض لفظی ہے۔ امام ابن ابی العز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والاختلاف الذي بين أبي حنيفة والأئمة الباقين من أهل السنة - اختلاف صوري . فإن كون أعمال الجوارح لازمة لإيمان القلب ، أو جزءا من الإيمان ، مع الاتفاق على أن مرتكب الكبيرة لا يخرج من الإيمان ، بل هو في مشيئة الله ، إن شاء عذبه ، وإن شاء عفا عنه - : نزاع لفظي ، لا يترتب عليه فساد اعتقاد . والقائلون بتكفير تارك الصلاة ، ضموا إلى هذا الأصل أدلة أخرى . وإلا فقد نفى النبي صلى الله عليه وسلم الإيمان عن الزاني والسارق وشارب الخمر والمنتهب ، ولم يوجب ذلك زوال اسم الإيمان عنهم بالكلية ، اتفاقا .
آپ مزید فرماتے ہیں:
فالإمام أبو حنيفة رضي الله عنه نظر إلى حقيقة الإيمان لغة مع أدلة من كلام الشارع . وبقية الأئمة رحمهم الله نظروا إلى حقيقته في عرف الشارع ، فإن الشارع ضم إلى التصديق أوصافا وشرائط ، كما في الصلاة والصوم والحج ونحو ذلك .

جبکہ امام ابن عبد البر اور ابن ابی العز رحمہم اللہ وغیرہ نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے آخری عمر میں ارجاء سے توبہ کر لی تھی۔

واللہ اعلم۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ب اس روایت سے ہمیں اصل کہانی کا پتہ چلتا ہے۔ آپ اس روایت کو یحیی بن حمزہ کی روایت سے ملا کر دیکھیں اور دیکھیں دونوں میں کتنا واضح فرق ہے۔ اُس روایت کہ الفاظ ہیں:
"لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا"
گویا امام صاحب جوتے کی پوجا کو اللہ کے قرب کے لئے جائز قرار دے رہے ہیں۔

جبکہ اس روایت میں ہے کہ امام ابو حنیفہ ایسے شخص کو محض "مؤمن" قرار دے رہے ہیں اگرچہ ان کے نزدیک یہ ایک کبیرہ گناہ اور کفریہ عمل ہے۔ اس روایت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب عمل کے ایمان کا حصہ ہونے والے اختلافی مسئلے پر اپنا موقف بیان کر رہے ہیں۔
قاسم بن حبیب کہتے ہیں :
عن القاسم بن حبيب قال: وضعت نعلي في الحصى ثم قلت لأبي حنيفة: أرأيت رجلا صلى لهذه النعل حتى مات إلا أنه يعرف الله بقلبه؟ فقال: مؤمن»
قاسم بن حبیب کہتے ہیں :
میں نے اپنا جوتا پتھروں میں گاڑکر ابو حنیفہ سے پوچھا :بتایئے ۔۔ایک آدمی ساری زندگی اس جوتے کی نماز پڑھتا رہے ،حتی اسی عقیدہ پر اسے موت آئے ،اور ساتھ ہی وہ دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی رکھتا ہو ۔(اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟) ۔۔۔فرمایا :وہ مومن ہے ۔)
اور دوسری روایت ہے :
"لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا"
’’ امام صاحب فرماتے ہیں :اگر کوئی تقرب الی اللہ کیلئے جوتے کی عبادت کرتا رہے ،اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں اس سے دو تین باتیں تو سمجھ میں آئیں ۔
ایک تو یہ کہ ’’ جوتے کی عبادت کرنے والا مومن بھی ہوتا ہے ۔‘‘
دوسری بات یہ کہ ایسا فتوی دینے والا :

متفقہ طور پر صالح متقی عادل اور متبع شخصیت
یعنی ’’ امام ‘‘ ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک آپ نے فرمایا کہ :
اور ایمان کے متعلق ان کا یہ اختلاف محض لفظی ہے۔ امام ابن ابی العز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس کی سمجھ نہیں آئی ؛
کیونکہ یہ بات تو خود امام صاحب بتا سکتے ہیں کہ اہل السنہ سے ان کا ایمان میں اختلاف محض لفظی ہے ۔یا۔حقیقی ہے ، صوری ہے یا جوہری ؛
ابن ابی العز رحمہ اللہ نے امام صاحب کا کوئی موصول قول نقل نہیں فرمایا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جہاں تک آپ کا یہ کہنا کہ :
جبکہ امام ابن عبد البر اور ابن ابی العز رحمہم اللہ وغیرہ نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے آخری عمر میں ارجاء سے توبہ کر لی تھی۔
اگر یہ بات باسناد موجودہے تو بڑے کام کی بات ہے ،اس لئے اسے یہاں نقل فرمادیجئے۔تاکہ ہم ایسے بھی مستفید ہوں ۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
القاسم بن حبيب. في (تاريخ بغداد) 13 / 373 من طريق «ابن فضيل عن القاسم بن حبيب قال: وضعت نعلي في الحصى ثم قلت لأبي حنيفة: أرأيت رجلا صلى لهذه النعل حتى مات إلا أنه يعرف الله بقلبه؟ فقال: مؤمن»
یہ توآپ بتاناہی بھول گئے کہ قاسم بن حبیب التمار الکوفی کا جرح وتعدیل میں کیامرتبہ ہے،عبدالرحمن المعلمی نے جس طرح سے ان کو ابن معین کی جرح سے بری کیاہے وہ نہایت دلچسپ ہے،کیاعبدالرحمن المعلمی کا خیال یہ ہےکہ ابن معین نے محض ایک روایت کی بناء پر ان پر جرح کردی جب کہ علم حدیث میں یہ بات مسلم ہے کہ غلطی سے کوئی راوی بری نہیں چاہے ۔وہ امام مالک،اوریحیی بن سعید القطان ہی کیوں نہ ہوں،بہرحال ان کی توثیق صرف اورصرف ابن حبان سے ثابت ہے اور ابن حبان کی توثیق کا حال اہل علم جانتے ہی ہیں۔
اگرکبھی بھی ابن حبان اور یحیی بن معین کے اقوال میں تعارض ہو توبھی فن کا تقاضایہ ہے کہ یحیی بن معین کے قول کو ترجیح دیاجائے گاکیونکہ وہ راوی سے ابن حبان کی بہ نسبت قریب العہد اورقریب البلددونوں ہیں، التنکیل میں معلمی نے بعض مقامات پر کسی قول کی وجہ ترجیح میں اس کو بھی ذکر کیاہے لیکن یہاں اپنایہ اصول خود بھول گئے۔
پھربات صرف ابن حبان کی نہیں ہے، حافظ ذہبی کے سامنے ابن معین اور ابن حبان دونوں کے اقوال موجود تھے لیکن انہوں نے ترجیح ابن معین کے قول کو دی اور وہ تاویل جو معلمی نے کی ہے، بے چارے ذہبی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آئی،چنانچہ ذہی نے المغنی فی الضعفاء اور دیوان الضعفادونوں میں قاسم بن حبیب کا ذکر کیاہے۔حافظ ابن حجر نے ان کو لین قراردیاہے۔اس مختصر تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی قاسم بن حبیب ضعیف راوی ہیں
اب ہم اس روایت پر غورکرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ قاسم بن حبیب کی روایت ان کی وجہ سے ضعیف ہے،یحیی بن حمزہ ثقہ ہیں لیکن ان کی امام ابوحنیفہ سے ملاقات اورگفت وشنید ثابت نہیں،نتیجہ کیانکلا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
پھرغورکیجئے کہ آج کا مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے اس طرح کی بات سننے کاروادار نہیں، توکیا اس دور کے مسلمانوں کا خون اتناہی ٹھنڈاتھاکہ کوئی کچھ بھی کہہ دے اوروہ چپ چاپ برداشت کرلیں، پھر غورکیجئے،قاضی ابن ابی لیلی،قاضی شریک کی پرخاش امام ابوحنیفہ سے کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں،خلیفہ وقت کا امام ابوحنیفہ سے عناد کوئی مخفی بات نہیں،کوفہ میں امام ابوحنیفہ کے مخالفوں کی کمی نہیں، ان سب کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ایک بات کہتے ہیں کہ کوئی جوتا کی عبادت کرلے تو کوئی مضائقہ نہیں یاجوتاکی عبادت کرنے کے باوجود وہ مومن ہے اورکسی ’’رجل رشید‘‘ کو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے۔
حقیقت یہ ہے کہ بقول شیخ ابوزہرہ امام ابوحنیفہ کو حضرت عیسی اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی وراثت نصیب ہوئی ہے ،جہاں کچھ نے ان کے حق میں افراط سے کام لیاہے توان کے حق میں تفریط کرنے والوں کی بھی کمی نہیں رہی ۔
 
Top