وعلیکم السلام ورحمۃ وبرکاتہ محترم
آپ ہی ان کا کلام نقل کر دیں یہاں پر، اور کیا انہوں نے اس انقطاع کا جواب دیا ہے یا نہیں یہ بھی بتا دیں۔
یہ ایک الزامی جواب تھا اور اسے یہ فرض کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ یحیی بن حمزہ نے امام ابو حنیفہ کے اس قول کو خود سنا ہو۔ لیکن آپ نے اس اصل مدعے کا جواب دیے بغیر دوسری الزامی باتوں کا جواب دے دیا جس کا یہاں کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ یحیی بن حمزہ اگر دمشق کے قاضی تھے تو بفرض انہوں نے کوفہ جا کر یہ بات سنی ہو، تو کیا وہ کوفہ میں بھی وہی اختیار رکھتے تھے یا کوفہ کا قاضی کوئی اور تھا؟
تیسری بات یہ کہ آپ خود ہی فرما رہے ہیں کہ منصور نے 153 میں بڑے تعریفی کلمات کے ساتھ انہیں اس عہدہ پر مقرر کیا، جب کہ امام ابو حنیفہ تو 150 میں فوت ہو گئے تھے۔ گویا قاضی بننے سے پہلے ہی وہ قاضی کے اختیارات رکھتے تھے!؟
یہ بات بہت عجیب ہے! لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ نے بے دھیانی میں ایسا کیا ہوگا، اس لئے کوئی بات نہیں۔
بھائی اب میں نے امام ابو حنیفہ کا دفاع کیا کر لیا سب لوگ مجھے حنفی سمجھنے لگے ہیں، ابتسامہ۔ یقینا السنہ ثابت ہے۔ لیکن میرا کہنے کا مقصد ہے کہ ہر ایک قول کی تحقیق کرنی چاہیے ان اقوال کے پیچھے کے واقعات اور کہانیوں کو تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور پھر نہ صرف تنقیدی اقوال بلکہ ہر قسم کے اقوال کو جان کر پرکھ کر اور پھر ان تمام کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان میں تطبیق و ترجیح کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہیے۔
میں نے اپنی پوسٹ کے شروع اور آخر میں عرض کی تھی کہ میری گذارشات محض ایک طالب علم کے نقطہ نظر سے ہیں؛
بہرحال عرض ہے کہ : آپ نے کہا :
آپ ہی ان کا کلام نقل کر دیں یہاں پر، اور کیا انہوں نے اس انقطاع کا جواب دیا ہے یا نہیں یہ بھی بتا دیں۔
علامہ عبد الرحمن المعلمی لکھتے ہیں ::
264- يحيى بن حمزة بن واقد الحضرمي الأصل الدمشقي. في (تاريخ بغداد)
13 / 372 من طريق «يعقوب بن سفيان حدثني علي بن عثمان بن نفيل حدثنا أبو مسهر حدثنا يحيى بن حمزة وسعيد يسمع أن أبا حنيفة قال: لو أن رجلاً عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله لم أر بذلك بأساً. فقال سعيد: هذا الكفر صراحاً» . قال الأستاذ ص 39 «يحيى بن حمزة قدري لا يتخذ قوله ضد أئمة السنة حجة» .
أقول: أما قوله من رأيه فربما، وأما روايته فلا وجه لردها كما مر تحقيقه في القواعد، وقد وثقه ابن معين ودحيم وأبو داود والنسائي ويعقوب بن شيبة وغيرهم، واحتج به الشيخان في (الصحيحين) وسائر الأئمة ولم يغمز بشيء سوى القدر، ولم يكن داعية، وقد توبع في هذه الحكاية كما مر في ترجمة القاسم بن حبيب - والله أعلم.
روایت نقل کرنے کےبعد معلمی ؒ فرماتے ہیں :یحی بن حمزہ کی روایت کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔جیسا کہ اس کی تحقیق کا قواعد میں اس کا بیان گزر چکا ۔اور یحی کو ابن معین ،دحیم ،ابوداود ،النسائی اور یعقوب بن شیبہ وغیرہم محدثین نے ثقہ کہا ہے ۔اور بخار و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں اس سے احتجاج کیا ہے ۔اور عقیدہ قدر کے علاوہ کسی ان کی کوئی خرابی نہیں بتائی ۔اور قدر میں بھی وہ داعی نہ تھے ۔اور امام ابوحنیفہ کے بارے حکایت میں بھی ان کا تابع موجود ہے ۔
یہاں انہوں نے پہلے تو ۔۔ یحی بن حمزہ کی توثیق بیان کی اور پھر ساتھ اس کا متابع بھی بتایا کہ۔۔قاسم بن حبیب۔۔نے بھی یہ حکایت بیان کر رکھی ہے ۔
اور قاسم بن حبیب نہ صرف کوفی ہیں ،بلکہ امام ابوحنیفہ کے ہم عصر بھی ہیں ۔ان کی روایت علامہ معلمی نے یوں نقل کی ہے :
القاسم بن حبيب. في (تاريخ بغداد) 13 / 373 من طريق «ابن فضيل عن القاسم بن حبيب قال: وضعت نعلي في الحصى ثم قلت لأبي حنيفة: أرأيت رجلا صلى لهذه النعل حتى مات إلا أنه يعرف الله بقلبه؟ فقال: مؤمن»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی یحی بن حمزہ کے قاضی ہونے سے میرا مقصود یہ تھا کہ اس درجہ ثقہ شخص جو خلیفہ وقت کے مطابق اہل اسلام کے اعتماد پر پورا اترتا ہو ۔اور ’’ صحیحین ‘‘ کا راوی ہونے کا شرف رکھتا ہو ۔ایسا شخص جب کوئی بات نقل کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہ ہو ؟؟
بالخصوص جب اس کی متابعت بھی موجود ہو ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے فرمایا :
میں امام صاحب کا کوئی دفاع نہیں کرتا۔ جو ان سے ثابت ہے وہ ثابت ہے۔ اور ان کے متعلق میرا عین وہی موقف ہے جو امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور دیگر عرب علماء کا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ امام صاحب سے ثابت نہیں ہے یا جو ان کی متفقہ طور پر صالح متقی عادل اور متبع شخصیت کے خلاف ہے اس کا رد کرنا بھی ضروری ہے۔
عرض ہے کہ آپ ضرور ان کا دفاع کریں۔ یہ آپ کا حق ہے ،اس سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا ۔