امام بخاری رحمہ اللہ کےہر حدیث نبوی درج کتاب کرنے سے پہلے دو رکعت بطور استخارہ پڑھنے کے جواز میں محترم بھائی محمد شاکر صاحب نے بہترین جواب دیا ہے ؛
کہ:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔
اب یہ کھلی چھوٹ ہے اور آپ کا تقویٰ ہے کہ آپ کتنے کاموں سے پہلے استخارہ کر سکتے ہیں۔ امام بخاری کے نزدیک ہر حدیث کی صحت و ضعف کا حکم لگانا ایک اہم معاملہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اللہ سے مدد مانگی اور ہر حدیث سے پہلے استخارہ کیا تو اس حدیث کی روشنی میں بالکل جائز ہے۔ ہاں یہ جائز عمل بھی تب ناجائز ہو جاتا، جب امام بخاری اس پر اصرار کرتے کہ جو شخص بھی جب بھی حدیث لکھے وہ استخارہ کیا کرے، ورنہ اس کا عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا، یا اپنے اس عمل کو جائز سے واجب کا درجہ دیتے ، جو حدیث لکھنے سے قبل استخارہ نہ کرتا اس پر فتویٰ وغیرہ لگا دیتے۔ جیسا کہ مبتدعین اپنی ایجاد کردہ بدعات کے ساتھ رویہ اپناتے ہیں۔
ہم دوبارہ اس حدیث کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ :
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب بھی تم میں سے کوئی شخص کسی (مباح ، جائز ) کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔‘‘
اور یہاں
’’اذا ھم ‘‘ کی ترکیب وہی معنی دے رہی ہے ،(یعنی جب بھی ارادہ کرے )
جیسے آیت وضوء میں
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ ) میں ’
’إِذَا قُمْتُمْ ‘‘جب بھی نماز کیلئے اٹھو تو وضوء کرلو۔۔۔
اور استخارہ کی اس حدیث کے شروع میں سیدنا جابر فرماتے ہیں :
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الأُمُورِ كُلِّهَا، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ القُرْآنِ
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ ‘‘
یعنی استخارہ تمام اہم اور ضروری معاملات میں مفید و مشروع ہے ۔
اور ہر صاحب ایمان جانتا ہے کہ امت کیلئے احادیث نبویہ کی تدوین کتنا اہم اور ضروری کام ہے ۔
تو اس بنیاد پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ہر حدیث کو اتنا اہم سمجھا کہ اس ساتھ
استخارہ کیا ،تو اس میں بجائے ان کی تعریف کے الٹاان کوبدعتی ہی بنادیا ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو وہی بات کہ چور مچائے شور
اپنی بدعات پر پردہ ڈالنے کیلئے ۔۔۔شور مچادیا کہ امام بخاری بھی تو بدعت شریف کیا کرتے تھے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور جہاں تک بات ہے نواب صدیق حسن صاحب کی ۔۔۔
تو ان کی کتاب ’’ الانتقاد الرجيح في شرح الاعتقاد الصحيح ‘‘ کی اس عبارت کا ترجمہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ،جس سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بدعتی ہونا
کشید کیا جا سکے ۔
محولہ صفحہ کا پورا ترجمہ الزام لگانے والے کے ذمہ قرض ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔