• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام بخاری علیہ الرحمہ بدعتی تھے

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
محمد طارق عبداللہ صاحب !میری بات کا یہ جواب نہیں جو آپ نے دیا ہے۔
اگر آپ ترجمہ نہیں کرسکتے تو کویٔ بات نہیں ، اپنے کسی عالم دین سے کرالیں، یا کسی عربی ٹیچر سے،میں بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
بات آپ نے شروع کی ہے محترم رانا صاحب لیکن عربی متن کا ترجمہ آپ کو ہی کرنا چاہئے ، میرا نقطئہ نظر یہ ہیکہ آپ نے عربی عبارت کی بنیاد پر هی ایسےعنوان کی تخلیق کی ہے ۔ لازمی آپ نے اسے سمجہا ہوگا تو ہمیں بہی لا علم نہ رکہیں ۔ ترجمہ پیش کردیں ۔
آپ کا احترام ہم سب پر واجب ہے، ہم نے کیا بہی ہے اور اللہ نے چاہا تو کرتے رہینگے تو کیا آپ ہم سب پر اتنا سا کرم فرمانے میں بخل سے کام لینگے !؟
جزاک اللہ ، علم بانٹئے ہم منتظر ہیں ۔ اب کتنے میری رائے سے اتفاق رکہتے ہیں وہ بہی آپ سے التماس کرینگے اور اگر اس فورم کے ذمہ دار آپ کے فیصلہ سے راضی ہوں کہ آپ بات ختم کرنا چاہتے ہیں تو یہ وہ جانیں ۔ میں مقاصد جاننا چاہتا تہا فقط اور یہ بہی کہ آپ نے کہاں سے بات لائی ۔
اللہ جانتا ہے کہ میں آپکی قدر کرتا ہوں ، میرا مقصد محض وضاحت طلب کرنا ہے ۔
والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
متعلقہ خط کشیدہ عبارت سے ترجمہ جو آتا ہے وہ لکھ دیتا ہوں
جب تو نے یہ جان لیا تو آپ جان گئے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ہی جماعت کو معین یا خاص کیا تھا اور اسکو بدعت نام دیا تھا اور جو انکا نعم البدعۃ والا قول ہے پس (پہلے تو یہ سمجھ لو کہ) بدعت میں کوئی ایسی چیز نہیں جسکی تعریف کی جائے بلکہ تمام بدعت گمراہی ہوتی ہے اور جان لو کہ (انہوں نے جو اچھی بدعت کہا ہے تواسکی تاویل یہ ہے کہ) انہوں نے اپنے قول "بدعت" کو انکے جماعت کو خاص کرنے اور اسپر ہمیشگی کرنے کے ساتھ متعین کیا ہے بجائے اسکے کہ انکا جماعت کو بدعت کہنے کا ارادہ ہو کیونکہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس جماعت پہ تو ) انکو جمع کیا جیسا کہ تو نے (پہلے) جانا

اسکے بعد اما الکمیۃ سے پھر تعداد کی بحث شروع ہو جاتی ہے اس ترجمہ کی اصلاح کر کے اس کو میرے اوپر والی پوسٹ کے مطابق دیکھیں شرکیہ
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اگر میرے ترجمہ میں آپ کو بریکٹ والی باتوں پہ اعتراض ہو تو اس پہ آپ کو ترجمہ کا اصول سمجھا دوں کہ
1۔کسی آیت کا جو لفظی ترجمہ ہوت ہے پہلے وہ کر دیا جاتا ہے
2۔پھر جو جو بریکٹ لگانے کے احتمالات ہو سکتے ہیں جس سے لفظی ترجمہ کے خلاف نہ ہو نہ عقل کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ تمام احتمالات درست ہو سکتے ہیں
3۔ البتہ ان احتمالات سے اس احتمال کو فوقیت ہو گی جو دوسرے دلائل اور قرئن سے درست ثابت ہو رہا ہو

پس میری بریکٹ والا ترجمہ بھی ایک درست احتمال ہے جس سے لفظی ترجمہ میں کوئی فرق نہیں آتا البتہ یہ بہت سے احتمالوں میں سے ایک احتمال ہے اس میں آپ کی مرضی کا احتمال بھی فٹ کیا جا سکتا ہے جس سے لفظی ترجمہ پر بھی فرق نہ آئے
مگر میرے احتمال پہ مولف کی باقی زندگی اور تحریریں گواہ ہیں کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کی کتنی عزت کرتے ہیں پس اس سلسلے میں اعتراض نہیں کیا جا سکتا
ہاں اگر میری بریکٹ سے لفظی ترجمہ ہی غلط ہو رہا ہے تو پھر بتائیں
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
مجھے اس پر اطمنان ہیں ،،پوسٹ 12
حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔

اب یہ کھلی چھوٹ ہے اور آپ کا تقویٰ ہے کہ آپ کتنے کاموں سے پہلے استخارہ کر سکتے ہیں۔ امام بخاری کے نزدیک ہر حدیث کی صحت و ضعف کا حکم لگانا ایک اہم معاملہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اللہ سے مدد مانگی اور ہر حدیث سے پہلے استخارہ کیا تو اس حدیث کی روشنی میں بالکل جائز ہے۔ ہاں یہ جائز عمل بھی تب ناجائز ہو جاتا، جب امام بخاری اس پر اصرار کرتے کہ جو شخص بھی جب بھی حدیث لکھے وہ استخارہ کیا کرے، ورنہ اس کا عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا، یا اپنے اس عمل کو جائز سے واجب کا درجہ دیتے ، جو حدیث لکھنے سے قبل استخارہ نہ کرتا اس پر فتویٰ وغیرہ لگا دیتے۔ جیسا کہ مبتدعین اپنی ایجاد کردہ بدعات کے ساتھ رویہ اپناتے ہیں۔
آج عید میلاد کو جیسے آپ حضرات دیگر شرعی و ثابت شدہ عیدوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اسے زیادہ بڑا اسلامی تہوار سمجھتے ہیں۔ عید میلاد جیسی بدعت سے بچنے والوں پر فتوے لگائے جاتے ہیں، اس جیسی بدعات کے ثبوت کے لئے ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہیں، قرآن و حدیث میں لغوی تحریف سے بھی باز نہیں آتے۔ یہ عمل کسی مباح کام کو بھی ناجائز قرار دینے کے لئے کافی ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام بخاری رحمہ اللہ کےہر حدیث نبوی درج کتاب کرنے سے پہلے دو رکعت بطور استخارہ پڑھنے کے جواز میں محترم بھائی محمد شاکر صاحب نے بہترین جواب دیا ہے ؛
کہ:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔

اب یہ کھلی چھوٹ ہے اور آپ کا تقویٰ ہے کہ آپ کتنے کاموں سے پہلے استخارہ کر سکتے ہیں۔ امام بخاری کے نزدیک ہر حدیث کی صحت و ضعف کا حکم لگانا ایک اہم معاملہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اللہ سے مدد مانگی اور ہر حدیث سے پہلے استخارہ کیا تو اس حدیث کی روشنی میں بالکل جائز ہے۔ ہاں یہ جائز عمل بھی تب ناجائز ہو جاتا، جب امام بخاری اس پر اصرار کرتے کہ جو شخص بھی جب بھی حدیث لکھے وہ استخارہ کیا کرے، ورنہ اس کا عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا، یا اپنے اس عمل کو جائز سے واجب کا درجہ دیتے ، جو حدیث لکھنے سے قبل استخارہ نہ کرتا اس پر فتویٰ وغیرہ لگا دیتے۔ جیسا کہ مبتدعین اپنی ایجاد کردہ بدعات کے ساتھ رویہ اپناتے ہیں۔
ہم دوبارہ اس حدیث کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ :
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب بھی تم میں سے کوئی شخص کسی (مباح ، جائز ) کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔‘‘

اور یہاں ’’اذا ھم ‘‘ کی ترکیب وہی معنی دے رہی ہے ،(یعنی جب بھی ارادہ کرے )
جیسے آیت وضوء میں (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ ) میں ’’إِذَا قُمْتُمْ ‘‘جب بھی نماز کیلئے اٹھو تو وضوء کرلو۔۔۔

اور استخارہ کی اس حدیث کے شروع میں سیدنا جابر فرماتے ہیں :
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الأُمُورِ كُلِّهَا، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ القُرْآنِ
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ ‘‘
یعنی استخارہ تمام اہم اور ضروری معاملات میں مفید و مشروع ہے ۔
اور ہر صاحب ایمان جانتا ہے کہ امت کیلئے احادیث نبویہ کی تدوین کتنا اہم اور ضروری کام ہے ۔
تو اس بنیاد پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ہر حدیث کو اتنا اہم سمجھا کہ اس ساتھ
استخارہ کیا ،تو اس میں بجائے ان کی تعریف کے الٹاان کوبدعتی ہی بنادیا ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو وہی بات کہ چور مچائے شور
اپنی بدعات پر پردہ ڈالنے کیلئے ۔۔۔شور مچادیا کہ امام بخاری بھی تو بدعت شریف کیا کرتے تھے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور جہاں تک بات ہے نواب صدیق حسن صاحب کی ۔۔۔

تو ان کی کتاب ’’ الانتقاد الرجيح في شرح الاعتقاد الصحيح ‘‘ کی اس عبارت کا ترجمہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ،جس سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بدعتی ہونا
کشید کیا جا سکے ۔
محولہ صفحہ کا پورا ترجمہ الزام لگانے والے کے ذمہ قرض ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا
اللہ آپ کے علم میں برکت فرمائے ۔
جہاں تک عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو عربی اقتباس پیش کیا گیا اسکا مفہوم ہی غلط لیا ۔ توجہ دلوانے کے بعد بہی اور آخری پوسٹ میں بہی انکا انداز تبدیل نہ ہو سکا ۔
اسحاق بہائی آپ رانا صاحب کی آخری پوسٹ میں جو دلائل ہیں ان پر بہی توجہ فرمائیں ، لکہا ہے کہ عبدہ بہائی آپ مانیں نہ مانیں ، سارا معاملہ طنز ہی ہے ، دلیل دی ہے : انکی بات عقل سلیم رکہنے والوں کیلیئے کافی ہے یعنی جو رانا صاحب نے فرمایا ۔
دوسرا معاملہ استخارہ کی نماز کے تعلق سے نئے معانی لیئے گئے ہیں ، اور بخاری رحمہ اللہ علیہ کے عمل کو تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا گیا ، مزید اس عمل کو نہ صرف یہ کے بدعت قرار دیا بلکہ ایک اور جدید تعریف پیش کی ۔ امام بخاری کے بہترین عمل کو بدعت حسنہ قرار دیا اور اس عمل خیر کو بدعت حسنہ اعلانیا خود کہا ۔ صرف نواب صدیق صاحب کی بات نہیں ، نواب صاحب کی عربی عبارتوں کا تو ترجمہ ہی نا پیش کر سکے ۔ وہ تو عبدہ صاحب نے پیش کیا ہے ۔ عبدہ صاحب کے ترجمہ کو بنیاد بنا کر عبدہ صاحب کو کہا کہ آپ مانیں نہ مانیں ۔
دلیل جو ہے اس آخری مراسلہ میں وہ هے عقل سلیم رکہنے والوں ہی کی فہم میں انکی باتیں آسکتی ہیں ۔
یہ تو صرف آخری پوسٹ کی ہلکی پہلکی باتیں میں نے بتائی ہیں ۔
فیصلہ قارئین پر چهوڑا جائے تو عقل سلیم والے جتنے بهی ہیں وہ رانا صاحب کیطرف اور وہ سب جو اختلاف رکہتے ہوں وہ پاگل ورار دئیے جائینگے ، ایسا ہی انصاف رانا صاحب اور ان جیسی فکر رکہنے والوں کا امتیاز ہے ۔
میں نے سوچا تہا ، اعتراف ہوگا ، ندامت ہوگی اور اللہ تعالی سے عفو کے طلبگار ہونگے ۔ ایک پوسٹ میں کہا تہا چیلنج دیتے ہوئے کہ وہ ضد (میں تو زیادتی ہی سمجہتا ہوں) چہوڑ دینگے ۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
حدیث لکھنا ثواب کا کام ہے اور ثواب کے کام میں استخارہ نہیں ہوتاکہ اے اللہ میں یہ ثواب کا کام کروں یا نہ کروں،امام بخاری علیہ الرحمہ کے بیان میں کہیں نہیں کہ میں نے یہ کام حدیث کی صحت یا ضعف معلوم کرنے کے لئے کیا۔
 
Top