جناب آپ کے یہ سارے جوابات بے کار ہیں کیونکہ حدیث میں صاف لکھا ہے کل بدعۃ ضلالۃ
ساری رات ہیر رانجھا سنا سنا کے صبح پوچھتا ہے کہ یہ ہیر رانجھا بہن بھائی تھے
بھئی ہم نے کب کہا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہوتی یہی تو ہمارا دعوی ہے اس حدیث کی بنیاد پر
البتہ بدعت کہتے کس کو ہیں وہ میں نے پچھلی پوسٹوں میں سمجھایا ہے اگر سمجھ نہیں آیا تو بتا دیں دوبارہ سمجھا دیتا ہوں اور اگر غلط سمجھایا ہے یا فراڈ کیا ہے تو آپ بہتر سمجھا دیں کہ کیا چیز بدعت ہوتی ہے اور کیا چیز بدعت نہیں ہوتی
اور اسی حدیث کی بنا پر آپ لوگ حضرت فاروق اعظم سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
بدعتی قرار دے چکے ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
15867 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 15868 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
بھئی مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو بدعتی کہا ہو اگر آپ کو اس سے لگ رہا ہے کہ واما قولہ بدعۃ فلیس فی البدعۃ ما یمدح بل کل بدعۃ ضلالۃ
تو یہ سمجھنے کی غلطی ہے دیکھیں فلیس فی البدعۃ ما یمدح کہنے کے دو احتمال ہو سکتے ہیں
1-ایک یہ کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ پہ اعتراض کر رہے ہوں کہ انہوں نے جو اچھی بدعت کی بات کی ہے تو عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا غلط ہے کیونکہ ہر بدعت ہی گمراہی ہوتی ہے پس اس سے یہ کوئی گمان کر سکتا ہے کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو بھی وہ بدعتی سمجھ رہے ہوں
2-یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ کہ رہے ہوں کہ عمر رضی اللہ نے جو بدعت کے اچھا ہونے کی بات کی ہے تو اسکا مطلب کچھ اور ہے تم لوگ غلطی سے اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ کچھ بدعت اچھی بھی ہو سکتی ہے اور عمر رضی اللہ عنہ نے جماعت کو بدعت نہیں کہا کیونکہ اس پہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ رضی اللہ عنھم جمع ہوئے تھے بلکہ اس کو اس طرح متعین اور ہمیشگی سے کرنے کو بدعت کہا ہے
پس سیاق و سباق اور مصنف کی باقی تحریروں سے مجھے تو یہی پتا چلتا ہے کہ وہ دوسری بات کر رہے ہیں کہ لوگوں کو یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ کوئی اس حدیث کی غلط تشریح کرتے ہوئے کہیں یہ نہ سمجھ لے کہ کوئی بدعت اچھی بھی ہو سکتی ہے
البتہ یہ بات ہے کہ شاید انہوں نے ایک چیز اس میں صحیح نہیں سمجھائی اسکی وجہ بھی یہ نہیں کہ ان کا علم کم تھا بلکہ اس وقت مخالف کی طرف سے وہ اشکال نہیں آئے تھے جو اب پیش کیے جاتے ہیں پس اب اسکی میں کچھ مزید وضاحت کر دینا چاہتا ہوں غلطی کی اصلاح کر دیں
جیسا کہ اوپر میں نے بتایا ہے کہ
1-بدعت نفس عبادت متعین کرنے سے بھی ہو سکتی ہے اگر وہ عبادت حدیث میں نہیں
2-بدعت طریقہ یا وقت متعین کرنے سے بھی ہو سکتی ہے اگر وہ پہلے حدیث میں متعین نہیں
3-البتہ بعض موقعوں پہ وقت متعین کرنے کی خواہش تو ہوتی تھی مگر بعض وجوہات کی وجہ سے وہ وقت متعین نہیں کیا گیا مثلا ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دینے کی خواہش تو تھی مگر امت کی آسانی کے لئے یہ نہ کیا گیا کہ کہیں فرض ہی نہ ہو جائے پس اس پہ اگر کوئی مسواک کو ہر نماز سے لازمی کر لیتا ہے تو یہ بدعت نہیں ہو گی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خؤاہش تو تھی اسی طرح تراویح کو تین دن پڑھنے کے بعد چوتھے دن خواہش ہونے کے باوجود نہ نکلنے کی وجہ جب بتا دی تو اسکو ہمیشہ کرنا بدعت نہ ہو گی کیونکہ خؤاہشِ رسول تو موجود ہے اور دوسرا تراویح میں ایک اور بات بھی ہے کہ علیکم ب سنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین
پس جب صحابہ کا اس پہ اجماع ہو گیا تو پھر بھی اس حدیث کے مطابق یہ من عمل عملا لیس علیہ امرنا کے تحت تو نہیں آئے گی