اگر امام بخاری علیہ الرحمہ نے ادب اور تعظیم مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ فعل نہیں کیا تو آپ ایسی حدیث پیش کردیں جس میں لکھا ہوکہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دو رکعت نماز پڑھو؟
محترم -
بات صرف اتنی سی ہے کہ انسانی کام لامحدود ہیں - قرآن و احادیث نبوی نے چند افعال و اعمال کو چھوڑ کر باقی تمام کے تمام افعال کا نام لئے بغیر ان کے حرام و حلال یا جائز و ناجائز یا مستحب و منکر کا ایک خاص ضابطہ بیان کردیا ہے- اور اسی ضابطے کے تحت جو کام ناپسندیدہ ہیں وہ شریعت نبوی میں بھی ناجائز ہیں اور جو کام انسانی فطرت کے تحت پسندیدہ ہیں وہ کام شریعت محمّدی میں بھی جائز اور باعث ثواب ہیں- احادیث نبوی لکھنے سے پہلے غسل و وضو کرنا اور دو رکعات الله کے حضور ادا کرنا بظاہر ایک مستحسن عمل ہے - اس لئے اس کو عید میلاد النبی کے جائز ہونے کے جواز میں بدعت سے منسوب کرنا کوئی دانشمندی کی بات نہیں ہے- عید میلاد منانا ایک اسرافی کام ہے- اور قرآن و احادیث نبوی اسراف سے منع کرتے ہیں اور اور اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیتے ہیں- جب کہ ایک نیک کام سے پہلے دو رکعات نماز ادا کرنا اس احادیث نبوی کے اس ضابطے سے ثابت ہو رہی ہے کہ "
تم ميں سے كوئى ايك شخص كام كرنا چاہے تو وہ فرض كے علاوہ دو ركعت ادا كر كے يہ دعاء پڑھے" (آگے دعا استخارہ):
اگر آپ کے بیان کردہ اصول کے تحت چلا جائے تو بہت سی نشہ اور چیزیں استمعال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے- قرآن و احادیث نبوی میں کہیں بھی چرس، افیون ، ہیروئن وغیرہ استمعال کرنے پر پابندی نہیں لگائی گئی - تو کیا اب اس سے یہ تمام چیزیں جائز قرار پائیں گی ؟؟- آج کا ماڈرن طبقہ اسی اصول کے تحت "
موسیقی " کو جائز قرار دیتا ہیں کہ لفظ موسیقی یا ناچ گانے کا لفظ نہ قرآن میں ہے اور نہ احادیث نبوی میں ہے- قرآن میں صرف
لَهْوَ الْحَدِيثِ کا لفظ ہے -جب کہ احادیث نبوی میں ساز کا ذکر ہے- البتہ ان الفاظ کی شرع سے مفسرین نے موسیقی اور ناچ گانے کو حرام قرار دیا ہے- لیکن آپ کے اصول فقہ کے مطابق آج کا ماڈرن طبقہ مموسیقی کو جائز کہتا ہے - صرف اس لئے کہ لفظ موسیقی قرآن میں کہیں مذکور نہیں-
الله ہم سب کو اپنے سیدھے راستے کی طرف گامزن کرے (آمین)