• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اہل حدیث نام اپنے آگے لگانا ضروری ہے؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم اہل حدیث نام کے تعارف کے بغیر اہل حدیث فکر کو پھیلانا اور عام کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کے پاس وہ کون سی شرعی دلیل ہے کہ جس کے مطابق اہل حدیث نام رکھ کر ہی اس دعوت و فکر کو پھیلانا ہمارے لیے واجب یا فرض ہے۔
انسان کا تعلق جس بھی مسلک یا فرقہ سے ہو اس کا اظہار کرنا اور اعلانیہ اس کی دعوت دینا فطری ہے۔ جسے اپنے مسلک کے حق پر ہونے کا یقین ہوگا وہ فخریہ اور اعلانیہ اس مسلک سے تعلق کا اظہار کرے گا۔ اور علمائے امت یہی کرتے آئے ہیں۔ٹھوک بجا کر اپنے مسلک اہل حدیث سے تعلق کو بیان کرتے رہے ہیں اور اس کی طرف دعوت کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ لیکن ابولحسن علوی حفظ اللہ اورباذوق حفظہ اللہ نے جس حکمت عملی کا اظہار فرمایا ہے کہ نام لئے بغیر ایک مخصوص فرقے کے منہج کو فروغ دیا جائے یقینی طور پر ایک نئی چیز ہے جس کی ماضی میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی یا کم از کم میرے علم میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص دین و مذہب میں کسی نئی چیز کا دعویدار ہوگا اصولاً دلائل فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہوگی ناکہ اس سے اختلاف کرنے والوں کی؟

ہمارے پاس تو اپنی دلیل کے طور پر علمائے سلف کا عمل موجود ہے۔ اب ابوالحسن علوی اور باذوق صاحب اپنے دلائل ذکر کر دیں۔
 

عامر

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
827
پوائنٹ
86
السلام علیکم محترم شیخ ابوالحسن علوی حفظہ اللہ،

سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہونگا کہ آپ کسی ایک کا کے عمل کو لیکر پورے اہلیحدیثوں کو نہیں کیہ سکتے۔ جہاں پر آپنے ایسے لوگ دیکھیں ہیں وہاں پر ضرور ایسے لوگ بھی دیکھے ہونگے جو بڑے متقی ہیں۔

یہ اپنے جتنے شبھات یا سوالات اہلیحدیث نام پر وارد کئیے ہیں یہ کم سے کم میرے لئیے بالکل نئیے ہیں بلکہ اسکے خلاف میں نے علماے اہلیحدیث کو اس نام کے دفع میںتحریراً و ثقریراً کام کرتے ہوے پایا چاہے شیخ بدیع الدین شاہ ہو ں یا علامہ احسان الہی ہو یا ابراھیم سیالکوٹی یا پر ثنا اللہ امرتسری اللہ یا پھر پروفیسر عبداللہ بہاولپوری ہوں ان تما علماے کرام پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل کرے آمین سے لیکر آجتک جنمیں شیخ زبیر علی زئیحفظہ اللہ ہیں۔

جب لوگ کم تھے تو ہمارے علماے کرام نے اس مصلحت کو نہیں اپنایا اور اللہ کے فضل سے لوگ اس مسلک حقہ کو قبول کرتے جارہے ہیں تو پتہ نہیں ہم کیں مصلحت کا شکار ہوگئیے۔

کیامیں یہ جان سکتا ہوں کہ ماضی قریب یا بعید میں آپ کسی اہلیحدیث عالم کے ایسے خیالات کا حوالہ دے سکتی ہیں جنہوں نے نام کی مخالفت کی ہو اور پھر اس نام پر وہی سوالات یا شبھات وارد کیا ہوں جہ آپ محترم نے کئیے ہیں؟

آپنے اپنی پہلی تحریر میں لکھا تھا کے بعض کے نزدیک یہ نام رکھنا واجب یا فرض ہے میں محترم شیخ سے گزارش کرونگا کہ وہ دلائل پیش کریں؟

اور آپنے لکھا کہ بعض کے نزدیک اصل چیز اہل حدیث کی فکر اور منہج ہے اسکے بھی دلایل مہیا کردیں؟

میں لکھنا تو بہت چاہتا تھا مگر نا وقت اس چیز کی اجازت دیتا ہے نا پڑھنے والے اتنا وقت شاید نکال سکیں۔

اور اس بات کو بھی واضح کر یں مدلل کہ اس بارے اہل الحدیث اہل علم کا اختلاف ہے کہ اہل حدیث نام اپنے ساتھ لگانا ضروری ہے یا نہیں؟

میں نے جو پوسٹ کیا تھا اسمیں شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے اجماع پر دلائل تھے گزارش کرونگا کوئی میرا بھائی یہاں وہ پیش کردے۔

اور دوسرا شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی مدلل ثقریر تھی۔

اور ان شآاللہ ان دونوں علماے کرام سے ان سوالات کو جو آپ محترم نے لکھے ہیں مزید مشاورت کی کوشش کی جائیگی تا کہ وہ ان سوالات کا اور اس فکر کا مدلل جواب دے سکیں پر انشآاللہ یہاں پر بھی پیش کردیا جایگا اگر اجازت باقی رکھی گئی تو۔

اگر میرے اس پوسٹ سے کوئی بات آپکو نا گوار گزرے تو میں پیشگی معافی چاہتا ہوں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: ابو الحسن علوی پیغام دیکھیے
ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم اہل حدیث نام کے تعارف کے بغیر اہل حدیث فکر کو پھیلانا اور عام کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کے پاس وہ کون سی شرعی دلیل ہے کہ جس کے مطابق اہل حدیث نام رکھ کر ہی اس دعوت و فکر کو پھیلانا ہمارے لیے واجب یا فرض ہے۔
اس میں کوئی شق نہیں کہ ابو الحسن علوی صاحب نے جو کہا وہ بالکل ٹھیک کہا،
لیکن ابولحسن علوی حفظ اللہ اورباذوق حفظہ اللہ نے جس حکمت عملی کا اظہار فرمایا ہے کہ نام لئے بغیر ایک مخصوص فرقے کے منہج کو فروغ دیا جائے
شاہد بھائی علوی صاحب نے کس طرح نئے فرقے کی شروعات کی ؟؟ وضاحت کرے..
بھائی جان جہاں تک میری ناقص علم کے مطابق "اہل حدیث " نام بھی بعد میں دیا گیا. تو کیا یہ بھی ایک نئی چیز ہے؟؟
اگر نام رکھنے کا ہی ہو تو اہل سنت ولجماعت بھی تو کہہ سکتے ہے. جو کہ دور نبوی ﷺ میں بھی رکھا گیا تھا.
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
نام لئے بغیر ایک مخصوص فرقے کے منہج کو فروغ دیا جائے یقینی طور پر ایک نئی چیز ہے جس کی ماضی میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی یا کم از کم میرے علم میں ایسی کوئی مثال نہیں۔
اس کی مثال صحابہ اور تابعین ہیں جو ایک فکر، منہج اور عقیدے کے حامل تھے لیکن انہوں نے اپنا کوئی مخصوص جماعتی نام نہیں رکھا ہوا تھا۔

ہم پہلے بھی یہ عرض کر چکے ہیں کہ نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ یہ تعارف کے لیے ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَ‌فُوا ۚ إِنَّ أَكْرَ‌مَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ
اگر تو اہل حدیث نام کا اصل مقصود اہل الرائے کے بالمقابل اپنا تعارف ہو تو ہم اس معنی میں یہ نام اپنے لیے استعمال کرتے ہیں یعنی ہم سے اگر کوئی سوال کرے کہ آپ اہل الرائے میں سے ہیں یا اہل الحدیث میں سے یعنی فقہ حنفی کے عقیدہ و منہج پر ہیں یا ائمہ ثلاثہ اور محدثین عظام کے عقیدہ و منہج پر تو ہمیں یہ جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ہے کہ ہم اہل حدیث یعنی قرون اولی کے اہل الحدیث کے منہج پر ہیں۔

محل نزاع آج کی جمعیت اہل حدیث ہے جو بدقسمتی سے اب ایک فرقہ بن چکی ہے جبکہ اس جماعت کے اکابر نے اسے ایک منہج اور فکر کے طور متعارف کروایا تھا۔ اس جمعیت کے افراد کے کچھ اپنے اخلاقی معیارات، ترجیحات، مقاصد، مناہج دعوت، اسالیب تبلیغ اور باہمی جماعتی نزاعات و اختلافات ہیں جن سے ہمیں اتفاق نہیں ہے لہذا اس نام کا اپنے اوپر لیبل چسپاں کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں ان تمام باتوں میں اس جمعیت کے ساتھ اتفاق ہے مثلا موجودہ زمانے میں اہل حدیث ہونے کا مطلب رد حنفیت ہے اور جو حنفیت کا جس قدر رد کرنے والا ہے وہ جماعت میں اس قدر معروف اور قابل احترام ہے جبکہ ہمارے نزدیک اس احترام و سیادت کی بنیاد رد حنفیت کی بجائے تقوی و للہیت ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن نے کہا ہے۔ مثلا ایک مثال سے واضح کرتا ہوں، اس دفعہ رمضان میں اپنی جامعہ میں نماز تراویح کے ساتھ خلاصہ قرآن بیان کرنے کا اتفاق ہوا۔ ایک دن خلاصہ قرآن میں راقم نے یہ کہا :
فروعی مسائل میں بعض اوقات ایک سے زیادہ اقوال کی گنجائش نکلتی ہے لہذا ہمیں سختی نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ ہمارے ہاں اہل حدیث اہل علم میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے مثلا بعض تشہد کی حالت میں ایک دفعہ انگلی کا شارہ کرنا کافی سمجھتے ہیں جبکہ بعض مسلسل حرکت دینے کا فتوی جاری کرتے ہیں۔ بعض رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا فتوی دیتے ہیں جبکہ بعض رکوع کے بعد ہاتھ کھولنے کا کہتے ہیں۔ اسی طرح بعض رکوع کی رکعت کے قائل ہیں اور بعض قائل نہیں ہیں۔
چار رکعات کے بعد مجھے ایک نواجون ملا اور کہنے لگا کہ آپ نے یہ کیا بیان کر دیا ہے کہ رکوع کی رکعت ہو جاتی ہے۔ میں نے کہا : پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تو یہ بیان نہیں کیا کہ رکوع کی رکعت ہو جاتی ہے بلکہ یہ کہا کہ بعض اہل حدیث علماء کے نزدیک رکوع کی رکعت ہو جاتی ہے مثلا شیخ بن باز رحمہ اللہ وغیرہ۔ تو وہ نوجوان مجھے کہنے لگے کہ شیخ بن باز کون ہوتا ہے، جب حدیث میں ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس پر میں نے اپنے کچھ اساتذہ کا تذکرہ کیا جو رکوع کی رکعت کے قائل تھے لیکن وہ صاحب بضد تھے کہ آپ کو یہ بات کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے، بیان نہیں کرنی چاہیے تھی۔ میں نے حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ والی روایت سنائی لیکن وہ بضد رہے کہ آپ غلط ہیں۔ اب اس میں اس نوجوان کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ اسے اہل حدیث کرنے والوں کے نزدیک اہل حدیث ۸ یا ۱۰ مسائل کا نام ہے اور جب پوری اہل حدیثیت اسی کے گرد گھومتی ہو تو اس کی حساسیت خود بخود بڑھ جائے گی۔ جب اسے اہل حدیث کے نام پر چار پانچ مسائل کے دلائل رٹوا کر مناظرے کے میدان میں اتار دیا گیا تو اب اس کی زندگی کا اصل مقصود انہی مسائل کا دفاع اور ان کے لیے لڑنا مرنا قرار پایا۔

اگلے دن وہ صاحب چار مناظر اپنے ساتھ لے آءے مجھے سمجھانے کے لیے، چار رکعات تراویح کے بعد مجھے انہوں نے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور سمجھانا شروع کر دی۔ ایک صاحب کی داڑھی نہیں تھی، پیشے سے مزدور لگتے تھے لیکن بحث میں حصہ لے رہے تھے۔ جو مناظرہ میں سب سے آگے تھے، انہیں ترجمہ قرآن بھی نہ آتا تھا، بس اردو کی کتابیں پڑھی ہوئی تھی۔ میں نے انہیں کئی بار سمجھایا کہ میں مناظرے کے میدان کا آدمی نہیں ہوں، میں نے یہ بیان کیا ہے، اس میں زیادہ حساسیت کی ضرورت نہیں ہے لیکن بات ان کے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ اس دوران تراویح کی نماز ہوتی رہی تقریبا بیس منٹ کا قیام انہوں نے میرا بھی ضائع کروایا اور اپنا بھی کیا اور یہ اصحاب بیس تقریبا ۱۵ کلومیٹر کا سفر کر کے یہاں آئے تھے مجھے سمجھانے کے لیے۔ بہر حال میں نے ان سے معذرت کی اور کہا کہ ہمیں نماز تراویح پڑھنی چاہیے کہ جس پر ہم سب کا اتفاق ہے کہ وہ نیکی کا کام ہے لیکن وہ صاحب اس پر بضد تھے کہ میں نماز کی بجائے ان سے مناظرہ کروں۔ اب نہ علم اور نہ ہی بظاہر شریعت پر عمل تو ان مناظروں کا فائدہ۔ میں معذرت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا جب وہ حضرات تقریبا آدھا گھنٹہ پیچھے بیٹھ کر آپس میں گفتگو کرتے رہے لیکن انہیں نماز تراویح میں شامل ہونے کی توفیق نہ ملی۔ اسے میں یہ کہتا ہوں کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں، مسئلے مسائل یا تقوی و للہیت اور نوافل و عبادات۔ بس ایک مثال بیان کی ہے۔ کیا ہمارا حال یہ نہیں ہو گیا کہ مچھر چھانتے ہیں اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہیں۔

باقی میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوا کہ آج کا نوجوان اور طالب علم برصغیر میں اہل الحدیث کے بنیاد رکھنے والے اہل علم کے منہج سے ہٹ چکا ہے۔ ہمارے شاہد بھائی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو دشمن اسلام قرار دیتے ہیں جبکہ مولانا اسماعیل سلفی امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کو اہل الحدیث کا امام اور مجتہد قرار دیتے ہیں۔ میں اپنے بھائی کو مولانا اسماعیل سلفی صاحب کی کتاب تحریک آزادی فکر پڑھنے کا مشورہ ضرور دوں گا۔ یہ اہل حدیث فکر و منہج سے دوسرے فرقوں کی طرح کا ایک فرقہ کیسے بن گیا اور اعتدال سے تشدد کی راہ پر ہمارا نوجوان کیسے چل پڑا۔ ان شاء اللہ اس پر ایک مفصل مضمون میں بحث کروں گا جس میں برصغیر کے متقدمین اہل حدیث اہل علم اور معاصر اہل علم کی سوچ اور فکر کے تقابلی مطالعہ سے ایک تو جوہری فروق کو واضح کروں گا اور دوسرا یہ کہ یہ تبدیلی کب اور کیسے اور کن وجوہات سے آئی ہے، اس بارے بھی گزراش کروں گا۔

میں نے یہ اچھی طرح واضح کر دیا ہے کہ معاصر اہل حدیث نام کو استعمال نہ کرنا ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھنا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں یہ کہنے یا دعوی کرنے یا اس پر مضمون لکھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ ہم قرون اولی کے اہل الحدیث کے عقیدہ و منہج پر ہیں اور ہم یہ دعوی دھڑلے سے کرتے ہیں۔ راقم نے قرون اولی کے اہل الحدیث کا منہج ایک مضمون میں مفصل طور بیان کر دیا ہے اور اسے ذرا فراغت میں اس فورم پر شائع کر دیا جائے گا۔ باقی رہی معاصر اہل حدیث جمعیت سے وابستگی تو ہمیں ان کے عقیدہ و منہج سے تو وابستگی ہے اور اس کے داعی بھی ہیں لیکن جمعیت کے ایک رکن کی حیثیت سے اپنا تعارف کروانے کے لیے میں ابھی تک اپنے آپ کو مطمئن نہیں کر سکا ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
کتاب کا نام : مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ حیات وخدمات
مؤلفین : ڈاکٹر صہیب حسن،ڈاکٹر سہیل حسن
ناشر : محمد سرور عاصم
اشاعت : دسمبر ٢٠١٠ء
صفحات : ٥٩٧
قیمت : درج نہیں
تبصرہ نگار : ابو الحسن علوی
ملنے کا پتہ : مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار ، لاہور۔ فون : ٣٧٢٤٤٩٧٣۔٠٤٢

مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ تعالیٰ کا شمار عصر حاضر کے نامور اور معروف علمائے محدثین میں شمار ہوتا ہے ۔ یہ کتاب بعنوان'' مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ : حیات وخدمات'' ان کی حالات زندگی، تذکرہ ایام اور سوانح ِحیات پر مشتمل ہے۔ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک عالم دین اور مرد مجاہد کی آب بیتی ہی نہیں بلکہ ایک عالَم کی تاریخ ہے اور پیش لفظ، تین حصوں اور ضمیہ جات پر مشتمل ہے۔

کتاب کا پہلا حصہ
کتاب کے پہلے حصہ میں مولانا عبد الغفار حسن صاحب کے خاندان، ابتدائی تعلیم وتربیت، جماعت اسلامی سے وابستگی کے سولہ سال،مدینہ یونیورسٹی میں بطور مدرس ١٦ سال قیام، اسلامی نظریاتی کونسل کے نو سال اور ان کے غیر ملکی اسفار کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔اس حصہ میں ان کے نامور مشائخ اور شاگردوں کا بھی تعارف کروایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس حصہ میں نامور علماء،معروف مشائخ اور مذہبی رہنماؤںکی ایک بڑی تعداد کے ساتھ مولانا کی ملاقاتوں، تعلقات اور یادداشتوں کو جمع کیا گیا ہے۔مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ نے جماعت اسلامی میں تقریباً ١٦ سال گزارے اور بعد ازاں مولانا مودودی رحمہ اللہ سے کچھ اصولی اختلافات کی وجہ سے جماعت سے علیحدہ ہو گئے۔ مولانا نے جماعت سے اپنی علیحدگی کے تین اسباب کا ذکر کیا ہے:
'' میں نے اپنے استعفیٰ کے تین اسباب لکھے تھے:١۔ انقلاب ِ قیادت کا نعرہ اور الیکشن کی مہم جماعت کی اصل بنیادی پالیسی کے خلاف ہے بلکہ صریح اس سے انحراف ہے۔ مولانا مودودی مرحوم کا مقالہ '' اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟'' اور '' تجدید احیاء دین'' میں ''سید احمد شہید رحمة اللہ علیہ کی ناکامی کے اسباب'' کے عنوان سے جو تحریر درج ہے، دونوں کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ٥١ ء سے جماعت نے فکری انقلاب اور اصلاح معاشرہ کے بجائے انقلاب ِ قیادت یا سیاسی انقلاب کا راستہ اپنایا ہے، نتیجہ واضح ہے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔٢۔ ترجمان القرآن دسمبر ٥٦ء میں پریکٹیکل وزڈم کے بارے جو مقالہ شائع ہوا ہے ۔ وہ یکسر قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک سیاسی دین ہے یعنی دین، سیاست کے تابع ہے۔ حالانکہ معاملہ برعکس ہونا چاہیے یعنی ہمیں'سیاسی دین' کی بجائے' دینی سیاست' کی ضرورت ہے، جس میں سیاست دین کے تابع ہو۔٣۔ امیر جماعت کی طرف سے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے نام جو نوٹ ارسال کیا گیاتھاوہ اسلامی عدل اور جمہوری تقاضوں کے یکسر خلاف تھا۔'' (ص١٦٣۔١٦٤)

اگرچہ بعض اہل حدیث علماء مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ سے یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کی رکنیت کی وجہ سے اپنا اہل حدیث ہونے کا تشخص برقرار نہ رکھ سکے تھے لیکن مولانا ان اہل حدیث علماء کی اس نقد سے متفق نہیں ہیں۔ ایک جگہ ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:
'' سوال: کیا آپ جماعت اسلامی میں رہ کر مسلک اہل حدیث پر قائم رہے؟ جواب : جماعت اسلامی میں میرا اہل حدیث تشخص قائم رہا، نعیم صدیقی صاحب سے بعض اوقات بحث ہو جاتی تھی۔ وہ کہتے تھے رفع الیدین چھوڑ دو، کیا حرج ہے۔میں نے کہا داڑھی کیوں نہیں بڑھاتے، ڈاڑھی کٹا کر خود سنت کی خلاف ورزی کرتے رہو اور ہمیں کہتے ہو رفع الیدین نہ کریں۔ میں نے مولانا مودودی سے انکے مسلک اعتدال کے بارے میں باقاعدہ بحث کی ہے، مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ فقہ کا مسلک، محدثین کے مسلک سے قوی ہے۔ میں نے اس پر بحث کی خط وکتابت کے ذریعے، وہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ نعیم صدیقی صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ کارکنان کو مسلک اعتدلال کا بھی مطالعہ کرایا جائے ۔ میں نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ یہاں اہل حدیث بھی ہیں حنفی بھی ہیں۔ مسلک اعتدلال خالص مولانا مودودی کا نظریہ ہے۔ ہم سب اسکے حامی نہیں ہیں۔ اس لیے مسلک اعتدلال کی تبلیغ یہاں نہیں ہو سکتی۔ میں نے فروعی مسائل جو حدیث کے خلاف ہیں ان کو بھی نہ مانا، باقاعدہ جماعت کی تربیت گاہوں میں اعلان کرتا رہا کہ ہم مسلک اعتدلال کو نہیں مانتے۔ بڑی جھڑہیں ہوئیں، بڑی بحثیں ہوئیں میں نے بہت کچھ برداشت کیا۔ میں نے جماعت کے مرکز میں رہ کر اہل حدیث تشخص کو برقرار رکھا۔'' (ص٤٤٣)

جماعت اسلامی سے علیحدگی کے کچھ عرصہ بعد مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کے ١٦ سال مدینہ یونیورسٹی میں تدریس کرتے ہوئے گزارے۔ مدینہ کے قیام کے دوران تقریباً تمام مسالک کے رہنما علماء سے ان کی ملاقات رہتی تھی۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' میرے مدینہ کے قیام کے دوران جن لوگوں سے تجدید ملاقات ہوئی ان میں شامل ہیں: مولانا عبد اللہ بہاولپوری ، مولانا عطاء اللہ حنیف، شیخ عبد اللہ کشمیری، ارشاد الحق حقانی، احسان الٰہی ظہیر، عبد الاحد بلتستانی اور علماء سعودیہ میں سے شیخ محمد بن سبیل، شیخ حمید، شیخ عبد العزیز بن صالح، شام کے محمد المبارک اور مصطفی الزرقاء سے ملاقات رہی ۔ جو حضرات میری دعوت پر گھر تشریف لائے ان میں چند ایک نام یہ ہیں: مفتی محمد شفیع، تقی عثمانی، شہابیہ سیالکوٹ کے محمد علی، مولانا غلام اللہ، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا عبید اللہ مبارکپوری، مولانا مختار احمد ندوی،مفتی محمود، حکیم عبد الرحیم اشرف، ڈاکٹر اسرار احمد، چچا عبد الوکیل خطیب، مولانا ابو الحسن ندوی، مولانا منظور نعمانی، مولانا سمیع الحق۔'' (ص١٩٣۔١٩٤)

مدینہ کے قیام کے دوران انہوں نے مشقت اور تکالیف میں انتہائی صبر کامظاہرہ کیا۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ قیام کے دوران کوئی تیرہ کے قریب کرائے کے مکان بدلے ہوں گے:
'' میں نے سولہ سال میں کوئی تیرہ مکان بدلے ہوں گے، سوائے ایک مالک مکان کے سب کے ہاں وعدہ خلافی پائی اور یہ مالک مکان بخاری تھے، اوپر نیچے کا مکان تھا، غالبا گارے کی دیواریں تھیں۔ فرش میں اکثر بچھو دیکھے یہاں تک کہ مکان میں بلی کے بچے تھے جنہیں ان بچھوؤں نے کاٹ ڈالا۔ ایک دفعہ تعطیل گزار کر آئے تو دیکھا کہ سب کتابوں کو دیمک لگ چکی ہے۔ میزان الاعتدلال اور نصب الرایہ دونوں کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کا ''پوتے کی میراث'' کے موضوع پر ایک قلمی نسخہ تھا۔ شیخ عبد الکریم مراد نے مانگا بھی لیکن میں نے نہیں دیا۔ وہ 'معارف' میں چھپنے کے لیے بھیجا لیکن انہوں نے شائع نہیں کیااور یہاں وہ دیمک کی نذر ہو کر رہ گیا۔اس مکان کو قبل از وقت خالی کر دیاتو مالک مکان نے باقی مدت کا کرایہ واپس کر دیا۔'' (ص١٩٤)

ان کے مدینہ یونیورسٹی کے شاگردوں میں سے علامہ احسان الٰہی ظہیر، شیخ ضیاء الرحمن اعظمی،شیخ عبد الرحمن عبد الخالق، شیخ ربیع ھادی المدخلی، شیخ عبد القادر حبیب اللہ سندھی، مولانا حسن جان، مولانا عبد الرزاق اسکندر، ڈاکٹرسہیل حسن، حافظ عبد السلام کیلانی، حافظ ثناء اللہ عیسی خان ، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی، ڈاکٹر عبد الرحمن بن عبد الجبار فریوائی، حافظ مسعود عالم، مولانا عبد الرحمن مدنی وغیرہ نمایاں ہیں۔ علاوہ ازیں شیخ عاصم الحداد، حافظ عبد الوحید سلفی، مولانامحمد بشیر سیالکوٹی، مولاناعبد العزیز علوی، مولاناعبد اللہ عفیف اور مولانامحمود احمد غضنفر وغیرہ کا شمار بھی ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔

جماعت اسلامی اور مدینہ یونیورسٹی کے علاوہ جماعت اہل حدیث اور علمائے اہل حدیث کے ساتھ مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ کے تعلقات کی بھی ایک پوری تاریخ اس کتاب میں موجود ہے۔ مولانا اگرچہ صحیح معنوں میں منہج اہل حدیث پر قائم تھے یعنی کتاب وسنت کی روشنی میں فقہا کے اقوال میں سے اقرب الکتاب والسنة کو اختیار کرتے تھے لیکن وہ اہل حدیث کی انتخابی سیاست میں شمولیت اور مسلکی مسائل میں غلو کو ناپسند جانتے تھے، جس کی وجہ سے بعض اہل حدیث علماء ان سے ناراض تھے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' ایک دن ( جسٹس)تنزیل الرحمن نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ آپ کے خلاف بہت سی شکایات آ رہی ہیں، خاص طور پر اہل حدیث حلقوں سے کہ یہ تو اہلحدیث نہیں ہے، اسے اہل حدیث سیٹ پر کیوں نامزد کیا گیا ہے۔ میں نے کہا کہ انہی سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ کیا وجہ ہے؟۔ ایک دن اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ سیاسی اور مذہبی تنظیمیں قائم کرنا شرعاً درست ہیں یا نہیں، میں نے اپنا نظریہ پیش کیا کہ ہر دو قسم کی تنظیمیں شرعاً ناجائز ہیں چونکہ اس سے امت میں افتراق پیدا ہوتا ہے بلکہ ہو رہا ہے۔ جب میں نے یہ وضاحت کی تو جسٹس صاحب بولے کہ اب میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ میرا اپنا طریق کار یہ رہا ہے کہ ہر مسئلہ پر قرآن و حدیث کی روشنی میں غور کرتا ہوں خواہ میری تحقیق کسی مسلک کے خلاف پڑے یا موافق۔ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میری رائے سلفی مسلک کے خلاف ہو جاتی ہے اور کبھی حنفیہ کے خلاف۔'' (ص٢٠١۔٢٠٢)

ایک جگہ مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ کی پوتی ڈاکٹر رملہ حسن اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
'' مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں دادا کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور دادا ابا کسی کی بھیجی ہوئی کتاب ''حقیقت تقلید'' دیکھ رہے تھے۔ اس کتاب کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے دادا ابا نے اس کا عنوان دیکھتے ہی فورا کہا کہ جولوگ مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید کر رہے ہیں ا س پر کوئی نہیں لکھتا، یہ لوگ کم از کم دین کی ہی تقلید کر رہے ہیں۔'' (ص٣٩٩)

مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ منہج اہل حدیث پر اس قدر سختی سے قائم تھے کہ وہ غیر مقلد اور اہل حدیث میں بھی فرق کرتے تھے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' غیر مقلد عام ہے یعنی غیر مقلد تو ہر وہ شخص ہو جاتا ہے جو تقلید ترک کر دے مگر اہلحدیث اس وقت ہو سکتا ہ جب وہ محدثین کے مکتب فکر کو اپنا لے اور عقیدہ و عمل سے لے کر قوانین وضوابط تک ہر چیز کی بنیاد کتاب وسنت پر رکھے۔ اسی لیے مولانا امین احسن اصلاحی ، کسی حد تک مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا حنیف ندوی وغیرہ یہ لوگ غیر مقلد توہیں مگر اہلحدیث نہیں۔'' (ص٥٩٠)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک وقت میں اس کتاب پر ایک تبصرہ کیا، اس تبصرہ میں کچھ باتیں اس موضوع سے متعلق تھی لہذا اس تبصرہ کا ایک حصہ یہاں شیئر کیا ہے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
Shahid Nzir sahab. Salam. Kia aap bata sakte hen k Nooh pbuh se Muhammad pbuh tak tamam ambeea k kia muslak tha. Ehl e Hadees kuch nahee hota. Allah ne hamara nam muslim rakha ha (surah22ayah78
Kon muslim ha es ka fesla aap nahee kar sakte ye fesla Allah karey ga. Allah ne hamara nam muslim rakha ha or hamey hukm deea ha k ham Milla e Ibrahim kee itteba karen sura 3 ayah 95
Muslak orr Deen mey firqey gumrahee k siwa kuch nahee ha. Logon ne elm aaney k baad aapas kee zid behass se ikhtilaaf kar leea ha surah 2 ayah 213.
Poorey Quran mey Ehl e hadees k koi zikr mey ne nahee dekha. Bhai tamam Prophets orr Rasoolon kee jo Quran mey mention hen perwee karnee farz ha.
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
Kio bhee muslim gher muqallid nahee ho sakta, sub ko Ambeea kee taqleed karna lazim ha reference surah 6 ayah 90 Ehl e Hadees orr deeger tamam mualk logon ne banaey hen Allah ney inn kee koi sanad nazil nahee kee. Herat ha log firqoon se baaz q nahee atey.
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

مسلم صاحب آپ کے ایک جملے سے لگتا ہے کہ آپ حنفی مقلد ہیں۔ بھائی آپ نے لکھا ہے:
کوئی بھی مسلم غیر مقلد نہیں ہوسکتا
اسکا مطلب ہے کہ طحاوی اور اشرف علی تھانوی سمیت دیگر علماء نے جو امام ابوحنیفہ کے غیر مقلد ہونے کی صراحت کی ہے تو آپ کے اس فارمولے کے مطابق تو امام صاحب غیر مسلم تھے؟!
تنبیہ:یاد رہے کہ اہل حدیث کا نام غیر مقلد مخالفین نے رکھا ہے ورنہ ہم غیر مقلد نہیں ہیں اور نہ ہی اس نام کو پسند کرتے ہیں۔

پھر آپ نے یہ ارشاد بھی فرمایا ہے:
سب کو انبیاء کی تقلید کرنا لازم ہے
اس کا مطلب ہے کہ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی نہیں بلکہ مقلد تھے۔ بھائی آپ نے انبیاء علیہ السلام کی تقلید کے لازم ہونے پر جو قرآن کی آیت پیش کی ہے اس سے یہ خود ساختہ مطلب آپ ہی نے اخذ کیا ہے یا یہ کسی عالم کا کارنامہ ہے؟ میرے علم کے مطابق تو انبیاء علیہ السلام کی تقلید کا قائل کوئی بھی نہیں ہے۔

آپ خود اندازہ فرمائیں کہ کس طرح کی لایعنی اور فضول باتیں آپ کی انگلیوں سے سرزد ہوئی ہیں۔ میرے بھائی اس تھریڈ میں کوئی کمنٹس پاس کرنے سے پہلے ضروری تھا کہ آپ اس کا اول تا آخر مطالعہ فرماتے اور پھر اظہار خیال کرتے۔ بھائی آپ کی باتیں بے ربط اور موضوع سے غیر متعلق ہیں اس لئے میں ان کا جواب دینے سے قاصر ہوں کیونکہ مجھے ابھی اسی موضوع پر کئی جوابات دینے ہیں۔ برا مت مانیے گا۔
 

بشیراحمد

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
101
ری ایکشن اسکور
459
پوائنٹ
115
مشہور حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے 72 فرقے تھے میری امت کے 73 فرقے ہو جائینگے۔(مفہوم حدیث) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امت محمدیہ کئی فرقوں، جماعتوں یا گروہ میں تقسیم ہو جائے گی اور ان جماعتوں یا فرقوں میں ایک حق والی جماعت ہوگی اور باقی فرقے، جماعتیں یا گروہ گمراہ ہونگے۔ مطلب یہ کہ امتی چاہے گمراہ ہو یا حق پر ہر حال میں اس کا تعلق کسی خاص گروہ، جماعت یا فرقے سے ہوگا۔ اس روشنی اور وضاحت میں اگر آپ کے اس جملے کا جائزہ لیا جائے جو آپکے یعنی صراط الہدی اور محدث فورم کے قوانین میں شامل ہے تو ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب صراط الہدی کا تعلق مسلمانوں کے کسی بھی خاص فرقے، جماعت یا گروہ سے نہیں ہے۔ تو کیا کسی غیرمذہب سے تعلق ہے اورکیا مسلمانوں کے درمیان کسی نئے فرقے کے عقائد وغیرہ کی ترویج و اشاعت کے لئے اسے منظر عام پر لائا گیا ہے؟ یہ تو بالکل وہی بات ہو گئی جو جماعت المسلمین والے کرتے ہیں کہ ہمارا کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں جب کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ایک نیا فرقہ ہی ہیں۔
قرآن و حدیث اور فہم سلف صالحین پر مکمل عمل کا اعزاز شروع سے بلا شرکت غیرے فرقے اہل حدیث کو حاصل ہے۔ جب اہل حدیث فرقے سے بھی آپ کے فورم کا کوئی تعلق نہیں تو آخر کون سے مذہب کی اشاعت آپ کے فورم سے ہوتی ہے؟
آپ کے اور ارسلان کے تاثرات اور ان پر دیئے لائیکس دیکھ یہ شعر ہی یاد آتا ہے کہ :
پلٹے جو تیر کھا کر کمیں گاہ کی طرف تو
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی ۔
آپ کے تبصرے پر چند سوالات ہیں :
اگر کوئی شخص قرآن وسنت پر ایک سو فیصد عمل پیرا ہوتا ہے اپنے لیکن وہ اپنے آپ کو کسی فرقے سے منسلک نہیں کرتا تو
آپ کے نزدیک اس شخص کا کیا حکم ہے ؟
اگر کوئی فورم قرآن وسنت کی تعلیمات پر ایک 100 فیصد عمل پیرا بھی اور قائل ہے لیکن دعوتی مصلحت کیلئے کوئی فرقیوارنہ تاثر نہیں دیتا تو
اس طرزعمل کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے ؟
کیا صرف لفظ اھل حدیث ہی نجات کا معیار ہے یا نظریہ ومنھج اور عمل ؟ کیا لفظ اھل حدیث ذاتی نام ہے یا صفاتی اگر صفاتی ہے نام ہے تو ذاتی نام کون سا ہے ؟
امید کرتا ہوں کہ آپ روایتی مناظرہ بازی اور جذباتی پن سے ہٹ کر سنجیدگی سے قرآن وسنت کی روشنی میں جوابات مرحمت فرمائیں گے ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شاہد نذیر بھائی ! اب ایسا تو ہر مکتب فکر والا یونہی اس سلسلہ میں اپنا نمبر سب سے آخر میں اسی طرح پیش کرے گا کہ "اہل حدیث" کا لفظ ہٹا کر اپنی پسند کا لفظ لکھ لے گا۔
آپ دوسرے مکتب فکر والوں کی فکر چھوڑیں۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ کون سے مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں؟ سلف صالحین کے مکتب فکر سے؟ لیکن اس مکتبے کا تو ایک خاص نام ہے جس سے وہ اہل الرائے کے مقابلے میں مشہور ہے!

اگر ہر مکتب فکر والا اہل حدیث کا لفظ ہٹا کر اپنی پسند کا لفظ لکھ بھی لے گا تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ اگر بریلوی کہے کہ میں مواحد ہوں تو اس سے حقیقت تو نہیں بدلے گی۔ اب قادیانی بھی تو خود کو مسلمان کہتے ہیں تو کیا آپ قادیانیوں کے دعوے اسلام کو قبول کر کے انہیں مسلمان تسلیم کر لیتے ہیں؟ یقیناً نہیں تو پھر قرآن و حدیث کے راہ سے بھٹکا ہوا فہم سلف صالحین کا دشمن اگر آخر میں اپنے نام کا اضافہ کر بھی لے اور قرآن و حدیث پر چلنے کا دعوی کر بھی دے تو بیکار ہے اس کی بات پر کان کون دھرے گا۔ کیونکہ اس کے لئے تو دلائل کی ضرورت ہے جو ظاہر ہے کہ کسی بدعتی کے پاس نہیں ہوسکتے۔

پھر ہم آپ ایک لمبی بحث لے کر آ جائیں گے کہ نہیں بھائی ! یہ اہل حدیث ہی ہیں جو قرآن وحدیث پر فہم سلف صالحین کی روشنی میں عمل کرتے ہیں۔ جواب میں فریق مخالف بھی یہی راگ الاپے گا۔ پھر بحث در بحث سلسلہ چلے گا اور یوں نہ آپ قائل ہوں گے اور نہ وہ۔
کمال ہے! کیا باقی ہر معاملے میں بھی فریق مخالف اسی طرح راگ نہیں الاپتا؟ جب آپ اسے دوسرے مقامات پر نظر انداز کرتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں؟!
ہمیں فریق مخالف کو قائل کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ہمارا کام تو باطل تاویلات کی الائش سے حق کو صاف کرکے واضح کردینا ہے اب اس حق کو کوئی قبول کرے یا نہ کرے قائل ہو یا نہ ہو، اس بات کی فکر کرنا فضول ہے۔

اس لیے گذارش ہے کہ یوں کسی خاص لقب پر لٹھ لے کر اصرار کرنے کے بجائے سلف الصالحین کی ان تعلیمات کی پیشکشی پر توجہ فرمائیں جس سے ہر کسی کے علم میں اضافہ ہو اور وہ عمل کی جانب بھی راغب ہوں۔
ہم نہ تو کسی خاص لقب کے پیچھے لٹھ کے پر پڑے ہیں اور نہ ہی اصرار کر رہے ہیں ہم تو آپ سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب آپ کا اور آپ کے زیر انتظام فورم کا تعلق مسلمانوں کی کسی جماعت یا گروہ سے نہیں تو سلف صالحین کی تعلیمات کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟ اور اگر ذکر کرتے ہیں تو سلف صالحین کی تعلیمات جن عنوانات کے تحت آتی ہے جیسے اہل حدیث، اثری، سلفی، محمدی وغیر اس کا اعلانیہ انکار کیوں کرتے ہیں؟ آخر یہ دوہری اور دھوکے بازی کی پالیسی کیوں؟
 
Top