کتاب کا نام : مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ حیات وخدمات
مؤلفین : ڈاکٹر صہیب حسن،ڈاکٹر سہیل حسن
ناشر : محمد سرور عاصم
اشاعت : دسمبر ٢٠١٠ء
صفحات : ٥٩٧
قیمت : درج نہیں
تبصرہ نگار : ابو الحسن علوی
ملنے کا پتہ : مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار ، لاہور۔ فون : ٣٧٢٤٤٩٧٣۔٠٤٢
مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ تعالیٰ کا شمار عصر حاضر کے نامور اور معروف علمائے محدثین میں شمار ہوتا ہے ۔ یہ کتاب بعنوان
'' مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ : حیات وخدمات'' ان کی حالات زندگی، تذکرہ ایام اور سوانح ِحیات پر مشتمل ہے۔
کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک عالم دین اور مرد مجاہد کی آب بیتی ہی نہیں بلکہ ایک عالَم کی تاریخ ہے اور پیش لفظ، تین حصوں اور ضمیہ جات پر مشتمل ہے۔
کتاب کا پہلا حصہ
کتاب کے پہلے حصہ میں مولانا عبد الغفار حسن صاحب کے خاندان، ابتدائی تعلیم وتربیت، جماعت اسلامی سے وابستگی کے سولہ سال،مدینہ یونیورسٹی میں بطور مدرس ١٦ سال قیام، اسلامی نظریاتی کونسل کے نو سال اور ان کے غیر ملکی اسفار کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔اس حصہ میں ان کے نامور مشائخ اور شاگردوں کا بھی تعارف کروایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس حصہ میں نامور علماء،معروف مشائخ اور مذہبی رہنماؤںکی ایک بڑی تعداد کے ساتھ مولانا کی ملاقاتوں، تعلقات اور یادداشتوں کو جمع کیا گیا ہے۔مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ نے جماعت اسلامی میں تقریباً ١٦ سال گزارے اور بعد ازاں مولانا مودودی رحمہ اللہ سے کچھ اصولی اختلافات کی وجہ سے جماعت سے علیحدہ ہو گئے۔ مولانا نے جماعت سے اپنی علیحدگی کے تین اسباب کا ذکر کیا ہے:
'' میں نے اپنے استعفیٰ کے تین اسباب لکھے تھے:١۔ انقلاب ِ قیادت کا نعرہ اور الیکشن کی مہم جماعت کی اصل بنیادی پالیسی کے خلاف ہے بلکہ صریح اس سے انحراف ہے۔ مولانا مودودی مرحوم کا مقالہ '' اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟'' اور '' تجدید احیاء دین'' میں ''سید احمد شہید رحمة اللہ علیہ کی ناکامی کے اسباب'' کے عنوان سے جو تحریر درج ہے، دونوں کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ٥١ ء سے جماعت نے فکری انقلاب اور اصلاح معاشرہ کے بجائے انقلاب ِ قیادت یا سیاسی انقلاب کا راستہ اپنایا ہے، نتیجہ واضح ہے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔٢۔ ترجمان القرآن دسمبر ٥٦ء میں پریکٹیکل وزڈم کے بارے جو مقالہ شائع ہوا ہے ۔ وہ یکسر قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک سیاسی دین ہے یعنی دین، سیاست کے تابع ہے۔ حالانکہ معاملہ برعکس ہونا چاہیے یعنی ہمیں'سیاسی دین' کی بجائے' دینی سیاست' کی ضرورت ہے، جس میں سیاست دین کے تابع ہو۔٣۔ امیر جماعت کی طرف سے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے نام جو نوٹ ارسال کیا گیاتھاوہ اسلامی عدل اور جمہوری تقاضوں کے یکسر خلاف تھا۔'' (ص١٦٣۔١٦٤)
اگرچہ بعض اہل حدیث علماء مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ سے یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کی رکنیت کی وجہ سے اپنا اہل حدیث ہونے کا تشخص برقرار نہ رکھ سکے تھے لیکن مولانا ان اہل حدیث علماء کی اس نقد سے متفق نہیں ہیں۔ ایک جگہ ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:
'' سوال: کیا آپ جماعت اسلامی میں رہ کر مسلک اہل حدیث پر قائم رہے؟ جواب : جماعت اسلامی میں میرا اہل حدیث تشخص قائم رہا، نعیم صدیقی صاحب سے بعض اوقات بحث ہو جاتی تھی۔ وہ کہتے تھے رفع الیدین چھوڑ دو، کیا حرج ہے۔میں نے کہا داڑھی کیوں نہیں بڑھاتے، ڈاڑھی کٹا کر خود سنت کی خلاف ورزی کرتے رہو اور ہمیں کہتے ہو رفع الیدین نہ کریں۔ میں نے مولانا مودودی سے انکے مسلک اعتدال کے بارے میں باقاعدہ بحث کی ہے، مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ فقہ کا مسلک، محدثین کے مسلک سے قوی ہے۔ میں نے اس پر بحث کی خط وکتابت کے ذریعے، وہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ نعیم صدیقی صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ کارکنان کو مسلک اعتدلال کا بھی مطالعہ کرایا جائے ۔ میں نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ یہاں اہل حدیث بھی ہیں حنفی بھی ہیں۔ مسلک اعتدلال خالص مولانا مودودی کا نظریہ ہے۔ ہم سب اسکے حامی نہیں ہیں۔ اس لیے مسلک اعتدلال کی تبلیغ یہاں نہیں ہو سکتی۔ میں نے فروعی مسائل جو حدیث کے خلاف ہیں ان کو بھی نہ مانا، باقاعدہ جماعت کی تربیت گاہوں میں اعلان کرتا رہا کہ ہم مسلک اعتدلال کو نہیں مانتے۔ بڑی جھڑہیں ہوئیں، بڑی بحثیں ہوئیں میں نے بہت کچھ برداشت کیا۔ میں نے جماعت کے مرکز میں رہ کر اہل حدیث تشخص کو برقرار رکھا۔'' (ص٤٤٣)
جماعت اسلامی سے علیحدگی کے کچھ عرصہ بعد مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کے ١٦ سال مدینہ یونیورسٹی میں تدریس کرتے ہوئے گزارے۔ مدینہ کے قیام کے دوران تقریباً تمام مسالک کے رہنما علماء سے ان کی ملاقات رہتی تھی۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' میرے مدینہ کے قیام کے دوران جن لوگوں سے تجدید ملاقات ہوئی ان میں شامل ہیں: مولانا عبد اللہ بہاولپوری ، مولانا عطاء اللہ حنیف، شیخ عبد اللہ کشمیری، ارشاد الحق حقانی، احسان الٰہی ظہیر، عبد الاحد بلتستانی اور علماء سعودیہ میں سے شیخ محمد بن سبیل، شیخ حمید، شیخ عبد العزیز بن صالح، شام کے محمد المبارک اور مصطفی الزرقاء سے ملاقات رہی ۔ جو حضرات میری دعوت پر گھر تشریف لائے ان میں چند ایک نام یہ ہیں: مفتی محمد شفیع، تقی عثمانی، شہابیہ سیالکوٹ کے محمد علی، مولانا غلام اللہ، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا عبید اللہ مبارکپوری، مولانا مختار احمد ندوی،مفتی محمود، حکیم عبد الرحیم اشرف، ڈاکٹر اسرار احمد، چچا عبد الوکیل خطیب، مولانا ابو الحسن ندوی، مولانا منظور نعمانی، مولانا سمیع الحق۔'' (ص١٩٣۔١٩٤)
مدینہ کے قیام کے دوران انہوں نے مشقت اور تکالیف میں انتہائی صبر کامظاہرہ کیا۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ قیام کے دوران کوئی تیرہ کے قریب کرائے کے مکان بدلے ہوں گے:
'' میں نے سولہ سال میں کوئی تیرہ مکان بدلے ہوں گے، سوائے ایک مالک مکان کے سب کے ہاں وعدہ خلافی پائی اور یہ مالک مکان بخاری تھے، اوپر نیچے کا مکان تھا، غالبا گارے کی دیواریں تھیں۔ فرش میں اکثر بچھو دیکھے یہاں تک کہ مکان میں بلی کے بچے تھے جنہیں ان بچھوؤں نے کاٹ ڈالا۔ ایک دفعہ تعطیل گزار کر آئے تو دیکھا کہ سب کتابوں کو دیمک لگ چکی ہے۔ میزان الاعتدلال اور نصب الرایہ دونوں کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کا ''پوتے کی میراث'' کے موضوع پر ایک قلمی نسخہ تھا۔ شیخ عبد الکریم مراد نے مانگا بھی لیکن میں نے نہیں دیا۔ وہ 'معارف' میں چھپنے کے لیے بھیجا لیکن انہوں نے شائع نہیں کیااور یہاں وہ دیمک کی نذر ہو کر رہ گیا۔اس مکان کو قبل از وقت خالی کر دیاتو مالک مکان نے باقی مدت کا کرایہ واپس کر دیا۔'' (ص١٩٤)
ان کے مدینہ یونیورسٹی کے شاگردوں میں سے
علامہ احسان الٰہی ظہیر، شیخ ضیاء الرحمن اعظمی،شیخ عبد الرحمن عبد الخالق، شیخ ربیع ھادی المدخلی، شیخ عبد القادر حبیب اللہ سندھی، مولانا حسن جان، مولانا عبد الرزاق اسکندر، ڈاکٹرسہیل حسن، حافظ عبد السلام کیلانی، حافظ ثناء اللہ عیسی خان ، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی، ڈاکٹر عبد الرحمن بن عبد الجبار فریوائی، حافظ مسعود عالم، مولانا عبد الرحمن مدنی وغیرہ نمایاں ہیں۔ علاوہ ازیں شیخ عاصم الحداد، حافظ عبد الوحید سلفی، مولانامحمد بشیر سیالکوٹی، مولاناعبد العزیز علوی، مولاناعبد اللہ عفیف اور مولانامحمود احمد غضنفر وغیرہ کا شمار بھی ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی اور مدینہ یونیورسٹی کے علاوہ جماعت اہل حدیث اور علمائے اہل حدیث کے ساتھ مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ کے تعلقات کی بھی ایک پوری تاریخ اس کتاب میں موجود ہے۔
مولانا اگرچہ صحیح معنوں میں منہج اہل حدیث پر قائم تھے یعنی کتاب وسنت کی روشنی میں فقہا کے اقوال میں سے اقرب الکتاب والسنة کو اختیار کرتے تھے لیکن وہ اہل حدیث کی انتخابی سیاست میں شمولیت اور مسلکی مسائل میں غلو کو ناپسند جانتے تھے، جس کی وجہ سے بعض اہل حدیث علماء ان سے ناراض تھے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' ایک دن ( جسٹس)تنزیل الرحمن نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ آپ کے خلاف بہت سی شکایات آ رہی ہیں، خاص طور پر اہل حدیث حلقوں سے کہ یہ تو اہلحدیث نہیں ہے، اسے اہل حدیث سیٹ پر کیوں نامزد کیا گیا ہے۔ میں نے کہا کہ انہی سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ کیا وجہ ہے؟۔ ایک دن اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ سیاسی اور مذہبی تنظیمیں قائم کرنا شرعاً درست ہیں یا نہیں، میں نے اپنا نظریہ پیش کیا کہ ہر دو قسم کی تنظیمیں شرعاً ناجائز ہیں چونکہ اس سے امت میں افتراق پیدا ہوتا ہے بلکہ ہو رہا ہے۔ جب میں نے یہ وضاحت کی تو جسٹس صاحب بولے کہ اب میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ میرا اپنا طریق کار یہ رہا ہے کہ ہر مسئلہ پر قرآن و حدیث کی روشنی میں غور کرتا ہوں خواہ میری تحقیق کسی مسلک کے خلاف پڑے یا موافق۔ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میری رائے سلفی مسلک کے خلاف ہو جاتی ہے اور کبھی حنفیہ کے خلاف۔'' (ص٢٠١۔٢٠٢)
ایک جگہ مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ کی پوتی ڈاکٹر رملہ حسن اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
'' مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں دادا کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور دادا ابا کسی کی بھیجی ہوئی کتاب ''حقیقت تقلید'' دیکھ رہے تھے۔ اس کتاب کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے دادا ابا نے اس کا عنوان دیکھتے ہی فورا کہا کہ جولوگ مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید کر رہے ہیں ا س پر کوئی نہیں لکھتا، یہ لوگ کم از کم دین کی ہی تقلید کر رہے ہیں۔'' (ص٣٩٩)
مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ منہج اہل حدیث پر اس قدر سختی سے قائم تھے کہ وہ غیر مقلد اور اہل حدیث میں بھی فرق کرتے تھے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' غیر مقلد عام ہے یعنی غیر مقلد تو ہر وہ شخص ہو جاتا ہے جو تقلید ترک کر دے مگر اہلحدیث اس وقت ہو سکتا ہ جب وہ محدثین کے مکتب فکر کو اپنا لے اور عقیدہ و عمل سے لے کر قوانین وضوابط تک ہر چیز کی بنیاد کتاب وسنت پر رکھے۔ اسی لیے مولانا امین احسن اصلاحی ، کسی حد تک مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا حنیف ندوی وغیرہ یہ لوگ غیر مقلد توہیں مگر اہلحدیث نہیں۔'' (ص٥٩٠)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وقت میں اس کتاب پر ایک تبصرہ کیا، اس تبصرہ میں کچھ باتیں اس موضوع سے متعلق تھی لہذا اس تبصرہ کا ایک حصہ یہاں شیئر کیا ہے۔