آپکا یہ دعوی محل نظر ہے۔ آپ ان علماء کے اسمائے گرامی بیان فرمائیں جنھوں نے اپنے ساتھ لفظ اہل حدیث کے استعمال کو واجب یا فرض کہا ہو۔اگر آپ کی مراد فرض اور واجب کے اصلاحی معنوں کی نہیں بلکہ صرف مبالغہ کے لئے ان الفاظ کو استعمال کیا ہے تو برائے مہربانی ایسے الفاظ کے استعمال سے پرہیز فرمائیں۔اس بارے اہل الحدیث اہل علم کا اختلاف ہے کہ اہل حدیث نام اپنے ساتھ لگانا ضروری ہے یا نہیں؟
بعض اس کو ضروری سمجھتے ہیں یعنی واجب یا فرض کا درجہ دیتے ہیں
جی درست فرمایا۔اصل چیز اہل حدیث کی فکر اور منہج ہے لیکن یہ منہج جن ناموں سے موجودہ دور میں مشہور ہے یعنی اہل حدیث، سلفی، اثری وغیرہ ان ناموں کا اعلانیہ انکار کہاں تک درست ہے؟ پھر یہ کہہ دینا کہ ہمارا تعلق کسی خاص جماعت یا گروہ سے نہیں نہ ان کا دفاع ہماری ترجیح ہے جبکہ حقیقت میں کسی خاص جماعت سے تعلق رکھنا اور اعلانیہ اور ڈھٹائی سے اس کا انکار۔ اس دوغلی اور منافقانہ پالیسی کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ یاد رہے کہ یہی اصل نقطہ اعتراض ہے جس کی وجہ سے یہ موضوع معرض وجود میں آیا ہے۔جبکہ بعض کے نزدیک اصل چیز اہل حدیث کی فکر اور منہج ہے، یہ ہونی چاہیے، چاہیے نام کچھ بھی ہو، اس سے فرق نہیں پڑتا
ویسے تو آپ عالم ہیں اور آپکا علم مجھ سے زیادہ ہے لیکن میں یہ کہنے کی جسارت کرونگا کہ ان کا نام سید احمد بریلی تھا نہ کہ بریلوی اور یہ نسبت علاقے کی طرف تھی ناکہ بریلوی مذہب کی طرف۔جیسا کہ سید احمد شہید بریلوی اپنے نام کے ساتھ بریلوی لگاتے تھے
اہل حدیث جب خود کو سلفی کہتا ہے تو اس سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی طرف نسبت ہوتی ہے لیکن جب ایک حنفی خود کو سلفی کہتا ہے تو اس سے مراد صحابہ کرام کی طرف نسبت نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ اور ان کے رفقاء کی طرف نسبت ہوتی ہے دیکھئے: وقال فی حاشیۃ الھدایۃ باب الشھادۃ (2-163) ابوحنیفہ وا صحابہ سلفنا والصحابۃ والتابعون سلف لابی حنیفۃ۔اور اب کچھ حنفی علماء نے اپنے ناموں کے ساتھ سلفی لگانا شروع کر دیا ہے کہ دعوی یہ کیا ہے کہ اصل سلفی، حنفی ہیں۔
جب ہم محض اہل حدیث نام کو نجات کا ذریعہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی کہیں اور کبھی بھی میں نے ایسی کوئی بات کہی ہے تو پھر اسکا ذکر چہ معنی دارد؟ ہم لفظ اہل حدیث، سلفی یا اثری وغیرہ کو صرف اور صرف اہل باطل کے درمیان امتیاز کے لئے استعمال کرتے اور اسے ضروری سمجھتے ہیں تاکہ مخالفین کے درمیان بھی ہمیں ایک خاص پہچان حاصل ہو کہ جب قرآن و حدیث اور فہم سلف صالحین کا نام آئے تو ان کے ذہن میں اہل حدیث، سلفی، اثری یا محمدی کے علاوہ کوئی اور نام نہ آئے۔ ہم اس بات کو دعوت کی راہ میں روکاوٹ نہیں بلکہ آسانی سمجھتے ہیں کہ کسی کو سمجھانے کے لئے یا اپنی دعوت پیش کرنے میں بہت مشکل پیش نہیں آئے گی بلکہ کئی لوگ پہلے ہی آپ کے خاص نام کی وجہ سے آپکے منہج اور اصول و عقائد سے واقف ہونگے۔پس میرے خیال میں اگر آپ کا عقیدہ اور منہج اہل حدیث کا ہے تو بھلے آپ اپنے نام کے ساتھ بریلوی لگائیں یا اہل حدیث، اس سے آپ کی اخروی نجات متاثر نہیں ہو گی۔ اور اگر آپ کا عقیدہ و منہج اہل الحدیث کا نہیں ہے اور آپ اپنے آپ کو اہل حدیث یا سلفی وغیرہ لکھتے ہیں تو اس صورت میں یہ نام آپ کو آخرت میں کچھ بھی کام نہ آئیں گے۔ پس اصل نام نہیں ہے بلکہ فکر و عمل یا عقیدہ و منہج ہے، وہ درست ہونا چاہیے۔
معاف کیجئے گا ہم نے تو نام پر کوئی مناظرہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی اہل حدیث عالم کے بارے میں معلوم ہے کہ اس نے ایسا کیا ہو۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ہر جگہ اپنے نام کا ڈھنڈورا پیٹو اور وقت بے وقت لوگوں کو بتاتے پھرو کہ ہم اہل حدیث ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کم از کم جب ضرورت پڑ جائے تب تو اپنے اہل حدیث ہونے کا انکار مت کرو۔ اسی بات پر مجھے باذوق بھائی اور صراط الہدی کے پالیسی جملے پر اعتراض ہے کہ یہ لوگ اعلانیہ اپنے اہل حدیث، سلفی یا اثری ہونے کا انکار کر رہے ہیں بلکہ ان کے دفاع کے روادار بھی نہیں۔ نجانے پھر یہ لوگ کس منہ سے فہم سلف صالحین اور ان کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں جبکہ سلف صالحین کی تعلیمات لفظ سلفی، اثری اور اہل حدیث جیسے ناموں ہی سے موسوم رہی ہے اور ہے۔اہل کتاب میں بھی ایک وقت میں ناموں کے بارے حساسیت بہت بڑھ گئی تھی، یہاں تک کہ اپنے باہمی اختلافات کی بدولت جب وہ فرقوں میں بٹ گئے تو اب ان فرقوں میں کسی داخل یا خارج کرنے کا کام اور اس پر مناظرہ کرنا ہی دین کی اصل خدمت قرار پائی۔
اہل حدیثوں میں ایسا کب اور کہاں ہوتا ہے؟ ایک آدھ مثال کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر اور جماعتی سطح پر ایسا کچھ بھی نہیں۔ زرا اس دعوے کے ساتھ چند امثال بھی ذکر فرمادیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔مسلمان کے علاوہ کسی گروہ یا جمعیت یا انجمن یا قبیلے کا نام رکھنے کی نہ تو ممانعت ہے اور نہ ہی ممنوع ہے۔ بات یہ ہے کہ جب ان ناموں کے بارے حساسیت بڑھ جاتی ہے اور ان ناموں کا اسلام کا مترادف قرار دیے جانے کی سوچ بڑھ جاتی ہے تو پھر یہ چیز شریعت اسلامیہ کی نظر میں مذموم ہے۔
اہل باطل کی کثرت کے درمیان اپنی پہچان کے لئے تو لازمی مسلمان کو اپنا صفاتی، جماعتی یا منہجی نام بتانا پڑے گا ورنہ آپ رنگ برنگے مسلمانوں میں اپنا صحیح تعارف کیسے کرواو گے؟ اور یہ کوئی نئی بات نہیں صحابہ کے دور میں بھی اہل باطل سے امتیاز اور اپنے تعارف کے لئے لفظ اہل سنت کا استعمال ہوا ہے پھر اہل الرائے کے پیدا ہونے کے بعد انہیں اہل سنت نے اپنا ایک اضافی نام اہل حدیث رکھا اور اسی کو اپنی پہچان کے لئے استعمال کیا پھر آج اہل حدیث کا یہی مسلک و منہج اثری و سلفی کے ناموں سے بھی متعارف ہے۔ صحابہ نے ضرورت پڑنے پر پہچان کے لئے اپنا ایک صفاتی نام رکھا پھر اہل الرائے کے مقابلے میں اہل حدیث کا نام رکھا گیا جب کل یہ نام ضرورت تھے تو آج یہ اتنے غیر ضروری کیسے ہوگئے کہ کچھ لوگ ان ناموں سے جان چھڑانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف عمل ہیں!بہر حال یہ دلیل درست نہیں ہے کہ قادیانی یا منکرین حدیث بھی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لہذا مسلمان کے علاوہ بھی لازما کوئی سابقہ یا لاحقہ ہونا چاہیے۔ کل کلاں، بلکہ کل کیا آج ہی یہ ہو رہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے اپنے آپ کو سلفی کہنا شروع کر دیا ہے اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب بریلوی اور دیوبندی بھی اپنے ناموں کے ساتھ اہل حدیث کا اضافہ کر لیں گے تو پھر آپ کو ضرورت پڑے گی کہ آپ اپنے نام کے ساتھ اس سابقہ یا لاحقہ کا اضافہ کریں کہ 'اصلی اہل حدیث' جیسا کہ اصلی اہل سنت یا اصلی سلفی کی اصطلاحات تو معروف ہو چکی ہیں کیونکہ مدمقابل فکر رکھنے والوں نے بھی اپنے آپ کو ان ناموں سے معروف کر دیا تھا۔ پھر اصلی اہل حدیث میں بھی کئی ورژن آئیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
آپ کے اس مشورے سے میں متفق ہوں۔میرے خیال میں کوشش کریں کہ قرون اولی کے اہل الحدیث یعنی صحابہ، تابعین، ائمہ ثلاثہ اور محدثین عظام کی فکر و عقیدہ اور منہج و عمل کو اپنانے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں، اور کوئی آپ کو اہل حدیث کہتا ہے یا نہیں، یا مانتا ہے یا نہیں، یا اہل حدیث جماعت میں داخل کرتا ہے یا نہیں، اس سے صرف نظر کرتے ہوئے بس کام کرتے جائیں۔
یہ غلط سوچ اور ناپسندیدہ عمل ہے اس سے دھوکے بازی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ جھوٹ کے ذریعے دعوت پھیلانا کوئی اچھا عمل نہیں ایک شخص اپنا تعارف بریلوی کہہ کر کروائے اور اس دھوکے میں وہ اہل حدیث کی دعوت دے۔ مجھے تو یہ تقیہ سے ملتی جلتی چیز لگتی ہے۔میرے تلامذہ میں بیسیوں ایسے دیوبندی اور بریلوی ہیں کہ تدریس کی بدولت ان کا عقیدہ اہل حدیث کا بن گیا اور انہوں نے نماز و دیگر مسائل میں احادیث صحیحہ کے مطابق عمل شروع کر دیا لیکن وہ اپنا تعارف بطور اہل حدیث کروانا پسند نہیں کرتے ہیں اور اس کی ان کے نزدیک کچھ وجوہات ہیں بلکہ بعض اہل حدیث تو میں نے ایسے بھی دیکھے ہیں جو اپنے نام کے ساتھ جان بوجھ کر بریلوی لگاتے ہیں کیونکہ وہ سابقہ بریلوی تھے اور اب بریلویوں میں دعوت و تبلیغ کا کام بریلوی نام سے کر رہے ہیں۔
اسے ہم دھوکے بازی کا نام دیتے ہیں اور یہی لفظ اس مذموم عمل پر صادق آتا ہے۔اسے آپ حکمت کہیں یا کچھ اور نام دیں لیکن مجھے بہر حال اہل حدیث نام استعمال کرنے میں کوئی حساسیت نہیں ہے۔
اس قسم کی بحثیں آپ کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں وہاں عبرت حاصل نہیں ہوتی؟!اس قسم کی بحثیں دیکھ کر بڑی عبرت حاصل ہوتی ہے !
معذرت ! شاید میں آپ کو نہیں جانتا۔ البتہ جہاں تک میری یادداشت کا معاملہ ہے ، نیٹ کی دنیا میں شروع دن سے ہی میرا یہی موقف رہا ہے۔ بطور ثبوت چار سال پرانی ایک تحریر کا حوالہ پیش خدمت ہے (یہ مراسلہ ہمارے آپ کے واقفکار شاکر بھائی کے قلم سے تحریر کردہ ہے) :آپ علماے اہلیحدیث کا اس سلسلہ میں موقف پیش کریں کہ وہ لوگ تو اس نام اور اس پر اٹھنے والے سوالات کا دندان شکن جواب دیا اور دے رہے ہیں اور آپ اور ہم انکو پڑھتے اے ہیں اور اگے بھیجتے بھی اے ہیں مگر اج ہم حکمت اختیار کر نا چاہتے ہیں۔ اس نام سے بچنا چاہتے ہیں۔ لیبل برا لگتا ہے۔
اور بڑا ہی افسوس ہوا آپکے اقتباس سے کہ جسے نیٹ کی دنیا میں اہلیحدیث کا حامی جانا جاتا ہے اور پہچانا جاتا ہے اور آپکے ان آرٹیکلس کی بدولت جو اپنے مسلک اہلیحدیث کے دفع میں لکھے ہیں کہ اپ ہی اس نام کے خلاف ہو گئیے بلکہ اسکے خلاف لکھنا شروع کردیا آپ سے ایسی توقع نہ تھی باذوق بھائی۔
اب ضد ہٹ دھرمی کا تو کوئی علاج نہیں ہے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
میرے اس نظریے کی تشریح عمدہ الفاظ میں علوی بھائی نے (مراسلہ #9) جو کی ہے اس کی تحسین شاکر بھائی بھی اب کر چکے ہیں ، لہذا اب آپ ان سے دریافت کر سکتے ہیں کہ اس موضوع پر میرا ان سے جو اختلاف تھا ، وہ اب بھی ہے یا ختم ہو چکا ہے ؟ :)میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ باذوق نے کون سا تھریڈ یا پوسٹ آج تک ایسی لکھی ہے جس میں مسلک اہلحدیث کی حمایت کی ہو۔ اللہ تعالٰی کو گواہ بنا کر اس کی ذات کی قسم اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ باذوق سے میری اس موضوع پر بحث بھی ہو چکی ہے۔ وہ نہ صرف فورم پر بلکہ ذاتی گفتگو میں بھی اپنے آپ کو اہلحدیث نہیں کہتے۔ مجھے ان سے اس بات پر اختلاف بھی ہے۔ کیونکہ میں خود اہلحدیث ہوں۔
بحوالہ : پوسٹ #24
P.Sکیا یہ badge یا لیبل لگا کر ہی آدمی قرآن و سنت پر عمل کر سکتا ہے ، قرآن و سنت کی تبلیغ کر سکتا ہے ۔۔۔ ورنہ نہیں ؟
میرے خیال میں تو اس میں کوئی عبرت والی بات نہیں ہے۔ معلوم نہیں آپ کس عبرت کی بات کر رہے ہیں ؟ اگر اصلاح احوال اور افہام و تفہیم اور اعتدلال کے حصول کے لیے کسی فکر و منہج کے قائلین کے مابین مکالمہ ہو تو وہ مفید بات ہے۔ یہاں ایک ہی فکر و منہج کے قائلین کی دو رائے ہیں اور ہر کوئی اپنے رائے پر عمل کر رہا ہے اور اس کے مطابق مطلوبہ نتائج حاصل کر رہا ہے۔اس قسم کی بحثیں دیکھ کر بڑی عبرت حاصل ہوتی ہے !
قرآن و حدیث کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ زمین پر اکثریت ہمیشہ اہل باطل کی ہوتی ہے اور حق والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کفر وشرک بھی ہمیشہ زوروں پر ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی علمائے سلف، محدیثین اور علمائے اہل حدیث وغیرہ آپس میں کئی مسائل پر اختلاف کی وجہ سے باہم بحث و مباحثہ کرتے رہے ہیں اس بات کا خیال کئے بغیر دنیا میں کفرو شرک عام ہے لہذا آپس کے اختلافات بھلا کر صرف کفر و شرک پر سارا زور دیں۔انہوں نے ان چیزوں کو ساتھ ساتھ چلایا ہے جس کی ماضی قریب میں مثال رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے کے اختلاف کی ہے۔ جس پر علمائے اہل حدیث کی جانب سے بہت کچھ لکھا گیا۔ارسلان بھائی اس وضاحت سے آپ کو یہ تو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ کسی مسئلے میں اختلاف کی صورت میں آپس ہی میں الجھ جانا اور بحث و مباحثہ کرنا (تاکہ فریقین میں سے ایک فریق کی کمزوری سامنے آجائے اور حق واضح ہوجائے) کوئی مذموم عمل نہیں بلکہ یہ عمل بہت پرانا بھی ہے اور قابل تحسین بھی کیونکہ ایک عام شخص کے لئے اس سے تحقیق میں آسانی ہوجاتی ہے اور وہ ایک موقف کو دلائل کی بنیاد پر رد کرتا ہے اور دلائل ہی کی بنیاد پر قبول کرتا ہے۔السلام علیکم
اہلحدیث مسلک کا سب سے بڑا منہج اور دعوت "عقیدہ توحید" ہے لہذا سبھی بھائیوں سے گزارش ہے کہ توحید کے موضوع پر زیادہ سے زیادہ مواد شئیر کریں اور آپس کے اختلاف سے بچیں۔اس قسم کی بحث سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔باذوق بھائی کی یہ بات ٹھیک ہے کہ یوں بحث در بحث کا سلسلہ چلتا جائے گا۔دنیا میں کفر و شرک اتنا عام ہے کہ لوگوں کے عقیدے دیکھیں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔بجائے آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے اس قیمتی وقت کو قیمتی تحاریر لکھنے میں صرف کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
میری بات سے کسی بھائی کو تکلیف پہنچی ہو تو معذرت۔
جزاک الله خیر شاہد بھائی جان،اگر آپ اپنے اندرورنی مسائل کو صرف اسلئے نظر انداز کر دینگے کہ باہر شرک کی کثرت ہے تو آج ایک مسئلہ ہے کل کئی ایک مسائل سر اٹھائے کھڑے ہونگے۔جس سے جماعت جب اندر سے کمزور ہوگی تو بیرونی محاز پر بھی کفرو شرک کی تردید اچھی طرح نہیں کر پائے گی۔مختصر یہ کہ آپ اسی وقت کفر،شرک و بدعت کے خلاف بہتر کام کر پائیں گے جب آپ کے اختلافات کم سے کم ہونگے یا اختلافات کو حل کرلینگے۔(اختلاف حل کر لینے کا یہ مطلب نہیں کہ مخالف کو زیر کر لیں اور وہ ضرور آپ کی بات مان لے بلکہ یہ ہے کہ اس کے موقف کی کمزوری کو سامنے لے آئیں پھر چاہے مخالف نہ بھی مانے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔) اگراپنے اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے اور ان پر بات کرنے کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے آپ اہل باطل کو دعوت دینگے تو ضرور وہ یہ کہینگے کہ پہلے اپنے گھر کے مسائل تو حل کرلو اس کے بعد ہمارے مسائل حل کرنا۔ اس اعتراض سے دعوت کی افادیت بھی کم ہوگی اور آپ کے پاس اس مضبوط اعتراض کا کوئی جواب بھی نہیں ہوگا۔
محترم بشیر بھائی !آپ نے میرا نام یہاں کس وجہ سے لکھا ہے۔میری باتو ں سے کون سی ایسی بات پر آپ کو اعتراض ہے کہ آپ نے اس کو پڑھ کر مجھ پر تنقید کرنا شروع کر دی۔مجھے آپ کے اس عمل سے سخت دکھ پہنچا۔میں نے جو لکھا اس کو ایک مرتبہ بغور پڑھیئے۔میں تو اس بحث میں پڑا ہی نہیں میرا ایک بھی مراسلہ اہلحدیث نام کہلوانے یا نہ کہلوانے پر دکھا دیں۔میں نے تو ایک جنرل بات کی ہے کہ نام کے پیچھے مت پڑیں بلکہ اہلحدیث کا جو اصل منہج و فکر اور دعوت ہے یعنی "عقیدہ توحید" اس پر توجہ کریں۔اس میں تو ایسی کوئی بات قابل مذمت نہیں تھی پھر آپ نے کیوں اعتراض کیا ؟آپ کے اور ارسلان کے تاثرات اور ان پر دیئے لائیکس دیکھ یہ شعر ہی یاد آتا ہے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہقرآن و حدیث کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ زمین پر اکثریت ہمیشہ اہل باطل کی ہوتی ہے اور حق والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کفر وشرک بھی ہمیشہ زوروں پر ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی علمائے سلف، محدیثین اور علمائے اہل حدیث وغیرہ آپس میں کئی مسائل پر اختلاف کی وجہ سے باہم بحث و مباحثہ کرتے رہے ہیں اس بات کا خیال کئے بغیر دنیا میں کفرو شرک عام ہے لہذا آپس کے اختلافات بھلا کر صرف کفر و شرک پر سارا زور دیں۔انہوں نے ان چیزوں کو ساتھ ساتھ چلایا ہے جس کی ماضی قریب میں مثال رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے کے اختلاف کی ہے۔ جس پر علمائے اہل حدیث کی جانب سے بہت کچھ لکھا گیا۔ارسلان بھائی اس وضاحت سے آپ کو یہ تو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ کسی مسئلے میں اختلاف کی صورت میں آپس ہی میں الجھ جانا اور بحث و مباحثہ کرنا (تاکہ فریقین میں سے ایک فریق کی کمزوری سامنے آجائے اور حق واضح ہوجائے) کوئی مذموم عمل نہیں بلکہ یہ عمل بہت پرانا بھی ہے اور قابل تحسین بھی کیونکہ ایک عام شخص کے لئے اس سے تحقیق میں آسانی ہوجاتی ہے اور وہ ایک موقف کو دلائل کی بنیاد پر رد کرتا ہے اور دلائل ہی کی بنیاد پر قبول کرتا ہے۔
اگر آپ اپنے اندرورنی مسائل کو صرف اسلئے نظر انداز کر دینگے کہ باہر شرک کی کثرت ہے تو آج ایک مسئلہ ہے کل کئی ایک مسائل سر اٹھائے کھڑے ہونگے۔جس سے جماعت جب اندر سے کمزور ہوگی تو بیرونی محاز پر بھی کفرو شرک کی تردید اچھی طرح نہیں کر پائے گی۔مختصر یہ کہ آپ اسی وقت کفر،شرک و بدعت کے خلاف بہتر کام کر پائیں گے جب آپ کے اختلافات کم سے کم ہونگے یا اختلافات کو حل کرلینگے۔(اختلاف حل کر لینے کا یہ مطلب نہیں کہ مخالف کو زیر کر لیں اور وہ ضرور آپ کی بات مان لے بلکہ یہ ہے کہ اس کے موقف کی کمزوری کو سامنے لے آئیں پھر چاہے مخالف نہ بھی مانے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔) اگراپنے اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے اور ان پر بات کرنے کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے آپ اہل باطل کو دعوت دینگے تو ضرور وہ یہ کہینگے کہ پہلے اپنے گھر کے مسائل تو حل کرلو اس کے بعد ہمارے مسائل حل کرنا۔ اس اعتراض سے دعوت کی افادیت بھی کم ہوگی اور آپ کے پاس اس مضبوط اعتراض کا کوئی جواب بھی نہیں ہوگا۔
آگے نہیں تو کیا پیچھے لگائیں گے۔(ابتسامہ)کیا اہل حدیث نام اپنے آگے لگانا ضروری ہے؟