اس کی مثال صحابہ اور تابعین ہیں جو ایک فکر، منہج اور عقیدے کے حامل تھے لیکن انہوں نے اپنا کوئی مخصوص جماعتی نام نہیں رکھا ہوا تھا۔
دیکھئے محترم یہاں آپ نے اس بات کا صاف لفظوں میں انکار کیا ہے کہ صحابہ اور تابعین کوئی مخصوص جماعتی نام نہیں رکھتے تھے لیکن دوسری جگہ آپ اس کے برخلاف اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ قرون اولی کے مسلمان یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین اہل حدیث تھے۔آپ نے لکھا:
ہم اہل حدیث یعنی قرون اولی کے اہل الحدیث کے منہج پر ہیں۔
ہم قرون اولی کے اہل الحدیث کے عقیدہ و منہج پر ہیں
کیا اہل حدیث جماعتی نام نہیں؟ آپ ہی کی تحریر سے صحابہ اور تابعین کا اہل حدیث ہونا ثابت ہوگیا اور یہ بھی کہ وہ اہل باطل میں امتیاز کے لئے ایک مخصوص جماعتی نام رکھتے تھے۔لہذا میرا آپ سے سوال جوں کا توں موجود ہے۔
لیکن ابولحسن علوی حفظ اللہ اورباذوق حفظہ اللہ نے جس حکمت عملی کا اظہار فرمایا ہے کہ نام لئے بغیر ایک مخصوص فرقے کے منہج کو فروغ دیا جائے یقینی طور پر ایک نئی چیز ہے جس کی ماضی میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی یا کم از کم میرے علم میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص دین و مذہب میں کسی نئی چیز کا دعویدار ہوگا اصولاً دلائل فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہوگی ناکہ اس سے اختلاف کرنے والوں کی؟
ہم پہلے بھی یہ عرض کر چکے ہیں کہ نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ یہ تعارف کے لیے ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ
اگر تو اہل حدیث نام کا اصل مقصود اہل الرائے کے بالمقابل اپنا تعارف ہو تو ہم اس معنی میں یہ نام اپنے لیے استعمال کرتے ہیں یعنی ہم سے اگر کوئی سوال کرے کہ آپ اہل الرائے میں سے ہیں یا اہل الحدیث میں سے یعنی فقہ حنفی کے عقیدہ و منہج پر ہیں یا ائمہ ثلاثہ اور محدثین عظام کے عقیدہ و منہج پر تو ہمیں یہ جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ہے کہ ہم اہل حدیث یعنی قرون اولی کے اہل الحدیث کے منہج پر ہیں۔
یہ ہمارے اور آپ کے درمیان نقطہ اتفاق ہے۔ جب آپ خود ضرورت کے تحت اپنے اہل حدیث ہونے کا اقرار کرتے ہیں تو ہم بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ چاہے ہر وقت خود کو اہل حدیث نہ کہو لیکن ضرورت کے وقت تو سچائی کا اقرار کرتے ہوئے اپنا اہل حدیث ہونا تسلیم کر لو۔ بس پھر آپ مجھ سے کس بات پر بحث فرما رہے ہیں؟ یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس موضوع پر میں آپ کی اکثر باتوں سے متفق ہوں۔ اصل جھگڑا تو باذوق صاحب کے بیان پر ہے کہ موصوف ایک خاص مسلک سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی اعلانیہ اس کا انکار کر رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ حکمت عملی عبث اور فضول ہے کہ باذوق صاحب خود تو کسی بھی خاص مسلک سے تعلق پر انکاری ہیں لیکن ان کی باتوں اور پوسٹس سے مجھ سمیت ہر شخص حتی کہ مخالفین بھی موصوف کی ایک خاص مسلک سے وابستگی سے خوب واقف ہیں۔ پھر بھلا اس ڈرامے بازی کی ضرورت ہی کیا ہے؟
محل نزاع آج کی جمعیت اہل حدیث ہے جو بدقسمتی سے اب ایک فرقہ بن چکی ہے جبکہ اس جماعت کے اکابر نے اسے ایک منہج اور فکر کے طور متعارف کروایا تھا۔
کہیں آپ مجھے بھی جمعیت اہل حدیث کا نمائندہ تو نہیں سمجھ رہے؟ الحمداللہ میں جب سے اہل حدیث ہوا ہوں میں نے اہل حدیث کی کسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ میں تمام جماعتوں سے بالاتر ہوکر منہج اہل حدیث پر عمل پیرا ہونے کو پسند کرتا ہوں۔ اس مسئلے میں، میں امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ اور حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے ساتھ ہوں۔ اس انتہائی اہم مسئلہ پر امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی کتاب
سیاسی و مذہبی تنظیموں سے وابستگی کا حکم بھی میں نے صراط الہدی فورم پر نقل کی ہے۔
موجودہ زمانے میں اہل حدیث ہونے کا مطلب رد حنفیت ہے اور جو حنفیت کا جس قدر رد کرنے والا ہے وہ جماعت میں اس قدر معروف اور قابل احترام ہے
میں بلکہ بہت سے اہل حدیث اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتے۔آپ کے اس جملے سے محسوس ہوتا ہے جیسے اہل حدیث متعصب اور تنگ نظر ہیں اور احناف اور حنفیت سے زاتی عناد و دشمنی رکھتے ہیں اس لئے ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ رد حنفیت کے علاوہ بھی اہل حدیث کا قابل قدر کام رد مرزایت، رد پرویزیت وغیرہ پر موجود ہے جو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اہل حدیث صرف رد حنفیت کا نام نہیں۔ پھر آپ رد حنفیت کے بجائے رد باطل کیوں نہیں کہتے کیونکہ اہل حدیث کا اصل مقصد تو رد باطل ہے اب معاشرے میں سب سے زیادہ باطل حنفیت کی شکل میں موجود ہے تو اس میں اہل حدیث کا کیا قصور؟
فروعی مسائل میں بعض اوقات ایک سے زیادہ اقوال کی گنجائش نکلتی ہے لہذا ہمیں سختی نہیں کرنی چاہیے
جن اقوال سے گنجائش نکلتی ہے اگر تو اس کی بنیاد دلائل پر ہے تو یقینی طور پر ایسے معاملات میں پھر سختی نہیں کرنی چاہیے۔لیکن جب فروعی مسائل میں اختلاف کا سبب دلائل نہیں بلکہ مسلکی تعصب ہو تو وہاں گنجائش کی بات کرنا قابل مذمت ہے جیسے رفع الیدین اور ترک رفع الیدین کا اختلاف ہے۔رفع الیدین چونکہ متعددصحیح احادیث سے ثابت ہے اس کے برعکس ترک رفع الیدین کی ایک بھی دلیل نہیں تو ایسی صورت میں دونوں کو صحیح کہنا یا گنجائش کا فتوی دینا دو صورتوں سے ہرگز خالی نہیں اول یہ کہ فتوی دینے والا جاہل ہے دوسرا تعصبی، ہٹ دھرم اور سنت سے دشمنی رکھنے والا ہے۔
تو وہ نوجوان مجھے کہنے لگے کہ شیخ بن باز کون ہوتا ہے، جب حدیث میں ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس پر میں نے اپنے کچھ اساتذہ کا تذکرہ کیا جو رکوع کی رکعت کے قائل تھے
سلفی منہج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں کسی عالم، مفتی،امام وغیرہ کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جیساکہ امام شافعی کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کا قول رد بھی کیا جاسکتا ہے اور قبول بھی۔ یہی بنیادی اصول ہر نئے اہل حدیث کو سکھایا جاتا ہے۔ جب یہی اصول کوئی نوجوان آپ علماء کے سامنے پیش کرکے آپ کے فتوے کو رد کرتا ہے تو اس میں برا ماننے والی کون سی بات ہے؟
اگلے دن وہ صاحب چار مناظر اپنے ساتھ لے آءے مجھے سمجھانے کے لیے، چار رکعات تراویح کے بعد مجھے انہوں نے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور سمجھانا شروع کر دی۔ ایک صاحب کی داڑھی نہیں تھی، پیشے سے مزدور لگتے تھے لیکن بحث میں حصہ لے رہے تھے۔ جو مناظرہ میں سب سے آگے تھے، انہیں ترجمہ قرآن بھی نہ آتا تھا، بس اردو کی کتابیں پڑھی ہوئی تھی۔ میں نے انہیں کئی بار سمجھایا کہ میں مناظرے کے میدان کا آدمی نہیں ہوں،
جب کوئی شخص کسی اہل حدیث عالم سے اختلاف کرتا ہے تو وہ عالم کبھی بھی یہ اعتراض نہیں کرتا کہ اختلاف کرنے والا تو عربی سے بھی ناواقف ہے، اس کی داڑھی بھی نہیں، یہ تو نماز بھی نہیں پڑھتا۔وغیرہ وغیرہ میں پہلی مرتبہ کسی اہل حدیث عالم کے منہ سے اس طرح کی باتیں سن رہا ہوں جبکہ یہ باتیں تو امین اوکاڑوی اور الیاس گھمن جیسے لوگ ہی کرتے ہیں جن کے پاس دلائل نام کی تو کوئی چیز نہیں ہوتی البتہ زاتی و شخصی برائیوں کو اجاگر کرکے اختلاف کی شدت کم کرنے اور سامنے والے کو چپ کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجھے بھی اور میرے ساتھیوں کو بھی ایسی صورتحال سے کئی مرتبہ سابقہ پڑا ہے۔اہل حدیث ہونے کے بعد میں نے جب اپنے آفس کے دیگر ساتھیوں کو دعوت دی تو اس میں سے ایک ساتھی نےمجھے کسی سے ملانے کا کہہ کر اپنے محلے کے ایک دیوبندی سے ملادیا جس نے مجھ سے کچھ دیر بحث کرنے کے بعد یہ کہہ کر مزید بات کرنے سے انکار کردیا کہ اسے تو عربی بھی نہیں آتی اور احادیث اور قرآن تو عربی میں ہے۔ پہلے عربی سیکھو اس کے بعد ہم سے بات کرنا۔ ہمارا ایک اور ساتھی جو حال ہی میں بریلوی سے اہل حدیث ہوا ہے کو کئی مرتبہ مجبورا ً بریلوی علماء کا سامنا کرنا پڑا جس میں جب بریلوی علماء نے دیکھا کہ وہ کمزور پڑ رہے ہیں تو فورا ً یہ اعتراض اٹھایا کہ اس شخص کی تو داڑھی بھی نہیں ہےیہ دین پر کیا بات کرے گا۔
باقی میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوا کہ آج کا نوجوان اور طالب علم برصغیر میں اہل الحدیث کے بنیاد رکھنے والے اہل علم کے منہج سے ہٹ چکا ہے۔ ہمارے شاہد بھائی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو دشمن اسلام قرار دیتے ہیں جبکہ مولانا اسماعیل سلفی امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کو اہل الحدیث کا امام اور مجتہد قرار دیتے ہیں
اگر اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی اس بات کو قبول کر لیا جائے کہ ابوحنیفہ، ابویوسف وغیرہ اہل حدیث کے امام تھے تو لامحالہ ان محدیثین کرام، ائمہ کرام کو جھوٹا کہنا پڑے گا جو ابوحنیفہ اینڈ پارٹی کو اہل الرائے کہتے تھے۔ اور رائے بھی ایسی جو خود بقول امام ابوحنیفہ پل پل بدلتی رہتی تھی۔ اہل الرائے اور اہل الحدیث تو اصول اور منہج میں ایک دوسرے کے مخالف تھے پھر بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک اہل الرائے اہل حدیث کا امام ہو۔ پھر محدیثین و ائمہ کرام نے ابوحنیفہ کے بارے میں جو جو گواہی دی ہے اس کے بعد امام صاحب کا کوئی اچھا کردار سامنے نہیں آتا۔صحیح حدیث ہے کہ پانی جب دو مٹکے ہوں تو ناپاک نہیں ہوتا تو یہ حدیث سنا کر ابوحنیفہ نے کہا میرے شاگرد پیشاب کریں تو دو مٹکے ہو جاتا ہے۔(تاریخ بغداد) استغفراللہ دیکھا آپ نے کس بے ہودگی سے ابوحنیفہ نے حدیث رسول کو رد کردیا ہے۔ امام سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں: ابوحنیفہ اللہ تعالیٰ پر بڑی جرات کرتے تھے حدیث رسول کو مثالوں سے رد کر دیتے تھے(تاریخ بغداد)
جس شخص کی نظر میں احادیث رسول کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں تھی ایسا شخص کیا اہل حدیث کا امام ہوسکتا ہے؟! ہم ایسے تصور سے بھی اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔