محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
هههههههههاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا (اور کوشش کی) ہم انہیں ضرور سیدھے راستے کی ہدایت دیں گے‘ اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
(سورۃ العنکبوت)
مقلدین کہتے ہیں قرآن کو سمجھنا بہت مشکل ہے
جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’بلاشبہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان بنایا ہے‘ تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے‘‘ (سورۃ القمر)
شریعت میں کوئی الجھن نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’کیا تم اس طرح الجھن میں مبتلا ہو‘ جس طرح یہود و نصاریٰ‘ تحقیق میں تمہارے لئے روشن و صاف شریعت لے کر آیا ہوں‘‘ (مسند احمد۔ ابن ماجہ)
شریعت میں الجھن کے وجود کو تسلیم کرنا ہی خلاف شریعت ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ کی قسم میں نے تمہیں روشن شریعت پر چھوڑا ہے‘ اس کی رات اور اس کا دن دونوں روشنی میں برابر ہیں‘‘(مسند احمد۔ ابن ماجہ)
قرآن و حدیث میں شک و شبہ مومن کی صفت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک و شبہ میں نا پڑے۔‘‘ (سورۃ الحجرات)
جب کہ تقلید کرنے سے شک واقع ہوتا ہے
‘ حنفی مذہب کی معتبر کتاب مسلم الثبوت میں مرقوم ہے ’’یعنی علمی دلائل کو چھوڑ کر تقلید کی طرف جانا معقولات کے برخلاف ہے‘ کیسے خلاف نا ہو تقلید کرنے سے شک واقع ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جس چیز میں شک ہو‘ اس کو ترک کردو اور جو یقینی بات ہو اس پر عمل کرو۔‘‘ (مسلم الثبوت)
امام ابوحنیفہ کی ولادت 80 ہجری اور انتقال 150 ہجری کو ہوا۔ امام صاحب نے خود کوئی کتاب نہیں لکھی ۔ امام ابوحنیفہ فرماتے تھے ’’کہ لوگ ہدایت پر رہیں گے جب تک کہ ان میں حدیث کے طلباء ہوں گے جب حدیث چھوڑ کر اور چیزیں طلب کریں گے تو بگڑ جائیں گے۔‘‘ (میزان شیرانی)
حنفی مذہب ہزاروں افراد کی رائے قیاس اور کئی مذاہب کا مجموعہ ہے جسے حنفی مقلدین بڑے فخر سے امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ لیکن سنداً ثابت کرنا ان کے بس کا روگ نہیں۔ حنفی مذہب کی جن کتابوں پر دن رات حنفیوں کا عمل ہے دیکھتے ہیں وہ کب لکھی گئیں۔
قدوری ۔ پانچویں صدی ہجری
ہدایہ۔ قاضی خاں۔ دلواجیہ ۔ چھٹی صدی ہجری
منیہ۔ قنیۃ ۔ ساتویں صدی ہجری
طحطاوی ۔ شرح وقایہ۔ نہایہ۔ کنز۔ عنایہ۔ جامع الرموز ۔ آٹھویں صدی ہجری
فتح القدیر ۔ بذازیہ ۔ حلیہ ۔ خلاصہ کیلانی ۔ نویں صدی ہجری
فتاویٰ خیریہ ۔ درمختار۔ گیارہویں صدی ہجری
فتاویٰ عالمگیری ۔ بارہویں صدی ہجری
ملابد ۔ عمدۃ الرعایہ ۔ مراقی الفلاح ۔ تیرہویں صدی ہجری
حنفی مذہب ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’آج میں نے تمہارا دین کامل کردیا‘ اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی‘ اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا‘‘ (سورۃ المائدہ)
عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں ’’کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی اس کے بعد حلال و حرام کو کوئی حکم نہیں اترا۔‘‘
اب چند سوالات درج ذیل ہیں۔
امید ہے طالب حق مقلدین تلاش حق میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کریں گے‘ اور حق (قرآن و حدیث) کو فراخ دلی سے قبول کریں گے ۔ (آمین)
کیا یہ صحیح ہے کہ قرآن و حدیث میں تقلید سے متعلق منع کیا گیا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اثبات تقلید کی دلیل دیجیئے‘ لیکن مقلد تو اپنے امام کے قول کی دلیل دیکھنے کا بھی مجاز نہیں تو امام کی تقلید سے متعلق کیسے دلیل دے سکتا ہے؟ جب کہ چاروں امام نے اپنی اور دوسروں کی تقلید کرنے سے سخت منع کیا ہے۔ بالفرض آپ کی پیش کردہ دلیل تسلیم کرلی جائے تب بھی کسی امام کی تقلید ثابت نہیں ہوتی۔
آپ کی پیش کردہ دلیل مدنظر رکھی جائے تو زیادہ سے زیادہ صحابہ کرام کی تقلید ثابت ہوگی‘ وہ بھی وقتی اور مطلق جامد نہیں۔ اور یہاں سوال تقلید جامد (شخصی) کا ہے‘ مطلق کا نہیں۔ لیکن صحابہ کرام کا مقلد تو کوئی بھی نہیں‘ آپ بھی نہیں‘ کیا صحابہ کرام کی تقلید منسوخ ہوچکی ہے؟ اگر بقول مقلدین صحابہ کرام کی تقلید منسوخ ہوچکی ہے تو اس کی کیا دلیل اور اگر نہیں ہوئی تو پھر ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟ اور ان چاروں امام سے قبل و بعد جو ہزاروں امام و مجتہدین گزرے ہیں ان کی تقلید مشروع ہے یا ممنوع؟ اگر مشروع ہے تو ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر ممنوع ہے تو اس کی کیا دلیل؟ اور ان چاروں امام کی تقلید کس دلیل کی بنیاد پر کی جاتی ہے؟ مناسب ہوگا وہ دلائل جس سے بقول مقلدین صحابہ کرام کی تقلید ثابت ہوتی ہے‘ آپ چوں کہ چار امام کی تقلید کے قائل اور ایک امام کے مقلد ہیں‘ اور آپ صحابہ کرام کی تقلید کے قائل نہیں اور نا ہی کسی ایک صحابی کے مقلد ہیں۔ اس لئے بہت ضروری ہے صرف وہ دلائل دیجیئے جس سے صرف ان چار امام کی تقلید واضح طور پر ثابت ہوجائے اور پھر چار امام میں سے تین کو شجر ممنوعہ سمجھ کر ان سے اجتناب اور ایک امام کی تقلید جامد کیوں؟ اور کس دلیل کی بنیاد پر؟ کیا مقلدین کی طرف سے پیش کردہ اثبات تقلید سے متعلق دلائل سے علاوہ ان چار مذاہب کے دیگر مذاہب کے مقلدین بھی استفادہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟‘ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر کرسکتے ہیں تو پھر ’’چاروں مذاہب برحق‘‘ کا نقارہ بند تو نہیں ہوجائے گا؟ بقول مقلدین چاروں مذہب برحق ہیں‘ تو کیا مقلد مجتہد بھی ہوسکتا ہے؟ اگر ہوسکتا ہے تو پھر تقلید کی کیا ضرورت؟ اگر صرف مقلد (جاہل) ہے تو اس لاعلم کو علمی بحث سے سخت اجتناب کرنا چاہیئے‘ جب منہ میں دانت نہیں تو اخروٹ کھانے کی ضد اچھی بات نہیں۔
چاروں امام کا قول ہے ’’صحیح حدیث میرا مذہب ہے‘‘ (میزان شعرانی)اور مروجہ ایک مذہب مکمل حق نہیں ہوسکتا ‘ یہی وجہ ہے کہ ان چاروں امام نے اپنے سے افضل کی بھی تقلید نہیں کی۔ بلکہ بعد والوں کو اپنی اور دوسروں کی تقلید سے سخت منع کیا ہے۔ ثابت ہوا ان کی تقلید تحقیق ہے تقلید نہیں۔
سمجھ سے بالاتر ہے اگر تقلید مطلق کی جائے تو کس مسئلے میں کس کی؟ اور کس مسئلے میں کس کی؟
کیا مقلد اپنے امام سے بڑھ کر اجتہاد کے اعلیٰ منصب پر فائز ہے؟ کہ وہ یہ معلوم کرسکے کہ کس امام سے کس مسئلے میں اجتہاد میں خطا ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر تقلید جامد کی جائے تو افضل کی یا مفضول کی؟ افضل تو صحابہ کرام تھے ‘ جب ان کی تقلید مقلدین نے منسوخ کردی تو مفضول کی اب تک کیوں؟ کیا تقلید انتقال پذیر ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو صحابہ کرام کی تقلید کیوں انتقال پذیر ہوگئی؟ اگر ہوتی ہے تو ان چاروں امام کی تقلید کیوں جامد ہوگئی؟
مقلدین ان چاروں امام کی تقلید کو فرض اور واجب کہتے ہیں جب کہ یہی مقلدین صحابہ کرام کی تقلید کو فرض کہتے ہیں اور نا ہی واجب ۔ اگر تقلید فرض یا واجب ہے تو کس کی اور کیوں؟ جامد یا مطلق دلیل دیجیئے۔
اور دین میں تحقیق کرنے والے غیر مقلدین کے لئے قرآن و حدیث میں کیا وعید آئی ہے اس کی دلیل ضرور‘ مگر سمجھ کر دیجیئے گا؟؟؟؟
قرآن و حدیث میں تقلید کا لفظ انسانوں کے لئے نہیں بلکہ جانوروں کے لئے آیا ہے۔ اگر اب بھی تقلید کے سوا چارہ نہیں تو پھر امام کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ ناممکن ہے۔ اب درپیش مسائل میں قرآن و حدیث والوں (اہل حدیث) کی طرف کیوں نا رجوع کیا جائے کیوں کہ مقلد تو کہتے ہی اسے ہیں جو صرف اپنے امام کے قول کا پابند ہو‘ قرآن و حدیث سے دلیل دینا تو درکنار اپنے امام کے قول کی دلیل کا مطالبہ تک نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ تقلیدی مذہب میں دلیل کا تقاضا مقلد کو دائرہ تقلید سے خارج کردیتا ہے۔ اور تقلید کہتے ہیں کسی کی بات عدم علم اور تحقیق کے مان لینا ‘ اگر دلیل دی تو (مسئلہ ثابت ہوا یا نہیں) تقلید کہاں رہی۔ اگر مقلدین کو علم و تحقیق کی جستجو ہوتی تو ’’ تق ۔ لید‘‘ میں پھنستے ہی کیوں؟ مقلدین اثبات تقلید سے متعلق قرآن و حدیث سے جو دلائل دیتے ہیں کیا آپ کے امام نے بھی ان دلائل کی روشنی میں اثبات تقلید سے متعلق کچھ کہا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر کہا ہے تو کیا کہا ہے؟
اگر مقلدین امام ابوحنیفہ کا باسند قول اثبات تقلید سے متعلق ان کی اپنی دلیل سے ثابت نہیں کرسکے تو مقلدین کی طرف سے اثبات تقلید سے متعلق دلائل کا کیا مفہوم سمجھا جائے؟ قرآن و حدیث پر افتراء یا اپنے امام اعظم پر فضیلت؟
کہا جاتا ہے چاروں مذاہب برحق ہیں‘ جب کہ چاروں مذہب میں شدید اختلافات ہیں۔ ایک مذہب کہتا ہے یہ چیز حلال تو دوسرا مذہب کہتا ہے حرام ۔ ایک مذہب کہتا ہے یہ جائز دوسرا مذہب کہتا ہے ناجائز۔ ایک مذہب کہتا ہے اس طرح طلاق ہوگئی تو دوسرا مذہب کہتا ہے نہیں ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ اسلام کے ایک اہم رکن نماز سے متعلق ایک مذہب کہتا ہے اس طرح نماز ہوگئی تو دوسرا مذہب کہتا ہے نہیں ہوئی۔ مقلدین کو حق کہنے کا حق تو نہیں پھر بھی مقلدین جسے حق کہتے ہیں اگر یہی حق ہے تو عجیب حق ہے بیک وقت حلال بھی حق‘ حرام بھی حق‘ جائز بھی حق ناجائز بھی حق‘ طلاق ہوگئی حق‘ نہیں ہوئی حق‘ نماز ہوگئی حق‘ نہیں ہوئی حق۔ چاروں تقلیدی مذاہب کے ہزاروں اختلافی مسائل میں اگر یہ بھی حق اور وہ بھی حق اور حق تو ہے ہی حق اگر اس کی ضد باطل بھی حق تو میرا یہ حق ہے کہ مجھے کسی پاگل خانہ میں جمع کرادو۔
محترم! ماضی میں جب آپ نے تحقیق شروع کی اس وقت آپ نے دین کی کون کونسی بنیادی کتب پڑھ رکھی تھیں؟کیا تقلید ضروری ہے؟
میں کچھ عرصہ قبل تقلید کی پرخار اندھیری وادی میں بھٹک رہا تھا‘ بفضل تعالیٰ دل میں جستجو حق کی کرن طلوع سحر میں تبدیل ہوگئی‘ صراط مستقیم میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئیں‘ تقلید کے سیاہ بادل چھٹ گئے اور ہر طرف روشنی ہوگئی‘ قرآن و حدیث کے مطالعے سے تقلید (جہالت) سے دامن چھوٹ گیا‘ میں نے ماضی میں دوران تحقیق جب اپنے حنفی علماء سے پوچھا ۔
ہم چوں کہ اجتہادی مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو صواب پر سمجھتے ہوئے ان کی تقلید کرتے ہیں اس لئے حنفی کہلاتے ہیں۔ جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کوصواب پر سمجھتے ہیں وہ شافعی کہلاتے ہیں، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو صواب پر سمجھنے والے حنبلی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو صواب پر سمجھنے والے مالکی۔ہم حنفی کیوں ہیں؟
قرآن و حدیث سے مسائلِ فقہیہ اخذ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہیں۔میں نے پوچھا ہم مقلد کیوں ہیں؟
قرآن و حدیث سے لاعلمی نہیں بلکہ اس سے فقہی مسائل کا استنباط کر نے کی صلاحیت ہر کسی میں نہیں۔میں نے پوچھا قرآن و حدیث سے لاعلمی کی وجہ؟
میں نے کہا بقول آپ کے قرآن مشکل اور احادیث میں اختلاف کی وجہ سے حنفی مذہب اختیار کیا گیا ہے ‘ لیکن حنفی مذہب میں جو شدید اختلافات ہیں تو پھر اب کون سا مذہب اختیار کیا جائے؟ اور حنفی مذہب میں آپ کی طرح دیگر علماء بھی حنفی مذہب کے مقلد ہیں‘ تو یہ علماء حنفی مذہب کے عالم تو ہوئے کیا انہیں عالم دین بھی کہا جاسکتا ہے؟
حنفی ایک مذہب (یعنی چلنے کا طریقہ) ہے الگ سے کوئی دین نہیں۔ دین کہتے ہیں ضابطہ کو اور حنفی کاضابطہ حیات اسلام ہے۔ مذہب کہتے ہیں عمل کے طریقہ کو جو اجتہادی فقہی مسائل میں اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ اختلاف فہم میں فرق کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ لہٰذا یہ حنفی علماء عالم دیں ہی ہیں اس سے الگ نہیں ہیں۔اگر حنفیت ہی دین ہے تو باقی تین مذاہب کیا ہیں؟ اگر یہ بھی دین ہیں تو دین کے چار حصے کیوں؟ اور ان میں زبردست اختلافات کیوں؟ دین تو 10 ہجری کو کامل ہوگیا تھا‘ جب کہ ان چاروں مذاہب کا وجود بھی نہیں تھا۔
مجتہد سے خطا ممکن ہے مگر جان بوجھ کر خطا کرتا نہیں۔ اسی لئے آقا علیہ السلام کے فرمان سے مجتہد مخطی کو بھی اجر ہی ملتا ہے۔میں نے مزید پوچھا امام (مجتہد) سے خطا ہوتی ہے یا نہیں؟ امام نے خود تقلید کی ہے یا نہیں؟ امام نے اپنی تقلید سے متعلق کچھ کہا ہے یا نہیں؟ اور امام صاحب کی اپنی لکھی ہوئی کوئی کتاب دنیا میں موجود ہے یا نہیں؟
محترم میں نے آپ کے درج بالا سوالات کے مدلل جوابات دیئے ہیں (دوبارہ ملاحظہ فرما لیں)۔ دراصل محترم ہوتا یہ ہے کہ آدمی مکاری کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے جس کے جواب دینا فضول ہوتے ہیں۔ میں نے آپ کے سارے سوالات کے جواب دیئے ہیں کیا آپ اس اندھی تقلید کا پٹہ اتار کر ہیرے جواہرات کا ہار پہننا پسند کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟بس دوران تحقیق چند سوالات کرنے کی دیر تھی پھر جو جوابات ملے سوالات کے نہیں بلکہ سوالات کرنے پر کہ تم غیر مقلد ہو‘ گستاخ ہو‘ وہابی ہو‘ اور مزید عزت افزائی کی گئی۔ جو میں لکھنے سے معذرت خواہ ہوں۔ آپ مذکورہ بالا سوالات ان سے کیجئے۔ تقلید کی کیا حیثیت ہے معلوم ہوجائے گا۔ اور عزت افزائی؟ بھی خوب ہوگی۔
یہ آپ کی اپنی اختراع ہے قرآن کے فقہی مسائل بغیر احادیث کے سمجھنا مشکل ہی نہیں بہت دشوار ہے۔ ہاں البتہ اس سے نصیحت حاصل کرنا بہت ہی آسان ہے اگر کوئی نصیحٹ حاصل کرنا چاہے تو۔یاد رہے قرآن کو سمجھنا مشکل نہیں ہے اور نا ہی احادیث میں اختلاف ہے۔ آپ فہم قرآن و حدیث کے لئے کوشش تو کریں چند مسائل میں اگر مشکل پیش آئے تو علمائے اہل حدیث سے رجوع کریں‘ ان شاء اللہ وہ مشکل بھی حل ہوجائے گی۔
جو آدمی جہالت سے نکل کر قرآن و سنت کی طرف آجائے ،اس سے یہ سوال کرنا کہ تم نے ’’ قرآن و سنت ‘‘ قبول کرنے سے پہلے کون سی کتبمحترم! ماضی میں جب آپ نے تحقیق شروع کی اس وقت آپ نے دین کی کون کونسی بنیادی کتب پڑھ رکھی تھیں؟
محترم! کسی حدیث میں لفظ ’’تقلید‘‘ آجائے تو تقلید مذمت ثابت ہو جاتی ہے!!!!!! یا کسی حدیث میں ’’آٹھ‘‘ کا عدد آجائے تو آپ لوگوں کی آٹھ تراویح ثابت ہو جاتی ہیں!!!!!!!عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنے دین کے بارے میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ جب وہ کسی بات پر ایمان لاتا ہے تو وہ بھی ایمان لاتا ہے جب وہ کسی بات کا انکار کرتا ہے تو وہ بھی انکار کرتا ہے۔
ترجمہ: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے قریب ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تم مجھے کہتے ہو ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے۔
آج بھی بالکل یہی حال مقلدین کا ہے جب امام سے کوئی بات منقول نہ ہو تو وہ اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اسی طرح کوئی بات اگر حدیث کے خلاف امام سے منقول ہو پھر اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ الٹا کہتے ہیں کیا ہمارے امام کو یہ حدیث نہیں ملی تھی ؟ جب انہوں نے اس حدیث کو نہیں لیا تو ہم کیوں لیں۔ بالفاظ دیگر یعنی ہمارے امام سے نبی کریم ﷺ کی کوئی بھی حدیث نہیں چھوٹی ۔[/31QUOT3
محترم! اب تک جو بھی اختلافی مسائل میں دلائل دیئے گئے وہ قرآن اور حدیث سے دیئے گئے ہیں۔
اگر قرآن اور حدیث سے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی تصدیق ہورہی ہے تو کیا ہم قرآن اور حدیث کو چھوڑ دیں کہ یہ تو ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے طرف دار ہیں؟
محترم! امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ، ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ ـــــــــــ تمام محدثین نے کیا (ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش) تمام صحابہ کرام سے ملاقات کی تھی؟ اگر کہتے ہو کہ کی تھی تو یہ جھوٹ روزِ روشن کی طرح واضح ہے اور اگر کہتے ہو کہ نہیں کی تھی اور یقینا نہیں کی تھی تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ تمام حدیثیں بھی ان کو نہیں ملی تھیں۔اب ان سے کوئی پوچھے کیا آپ کے امام نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش تمام صحابہ کرام سے ملاقات کی تھی؟ اگر کہتے ہو کہ کی تھی تو یہ جھوٹ روزِ روشن کی طرح واضح ہے اور اگر کہتے ہو کہ نہیں کی تھی اور یقینا نہیں کی تھی تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ تمام حدیثیں بھی ان کو نہیں ملی تھیں
محترم! اندھی تقلید چھوڑیں اور عقل استعمال کریں تب آپ بات سمجھنے کے قابل ہوسکیں گے۔تو پھر سوال یہ ہو گا کہ جو حدیثیں آپ کے مسلک کے خلاف امام مالک رحمہ اللہ کے پاس ہیں یا امام شافعی رحمہ اللہ کے پاس ہیں یا امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے پاس ہیں یا امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ اور دیگر محدثین کے پاس ہیں انہوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہیں یا ان کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کوئی دشمنی تھی یا ان کے خلاف اپنا مذہب اور جماعت تیار کرنا مقصود تھا حالانکہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں کسی صحابی کا فعل بھی حجت نہیں ہے۔
ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ اور بزرگ تابعین سےبراہِ راست اکتسابِ علم کیا ہے اور دوسرے فقہا نے احادیث سے فقہ مدون کی۔ اب احادیث میں چونکہ کہیں معنوی اور کہیں نسخ کی وجہ سے اختلاف پایا جاتا ہے تو اس کے فہم میں اختلاف ہونا لازم تھا۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی باتیں بھی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عارضہ کی وجہ سے کیں وہ حدیث میں تو ہیں لیکن سنت نہیں۔ یہ بہت سے اوامر ہیں جن کی وجہ سے اختلاف ہے کسی کو احادیث پہنچنے اور نہ پہنچنے کی وجہ سے نہیں۔
ایک اور اہم بات: آجکل جن احادیث کو’ضعیف‘ کہا جاتا ہے کیا وہ اس مذکورہ راوی سے پہلے بھی ’ضعیف‘ تھیں؟
مثلاً: ابوداؤد کی یہ حدیث؛حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ الْكُوفِيِّ عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ اس میں ’’عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ ‘‘ کو ضعیف کہا گیا ہے۔یہ سیار ابی الحکم سے روایت کر رہے ہیں۔ سیار ابی الحکم کی وفات 122 ہجری کی ہے۔ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 150 ہجری ہے۔ عبد الرحمن بن اسحاق کا ’ضعف‘ ابو حنفہ رحمۃ اللہ علیہ کو کیسے پہنچ گیا؟
محترم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے خلاف کیا کسی صحابی کا قول ہو سکتا ہے؟ اگر ہو تو بتائیں اور اس صحابی پر بھی فتویٰ لگائیں تاکہ ڈھول کا پول کھلے۔اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک بھی نبی کریم ﷺ کی حدیث کے سامنے کسی صحابی کا قول یا فعل حجت نہیں تھا۔
والسلام