• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جنت اور جہنم بھی ایک دن فنا ہوجائیں گی..؟

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
سرفراز فیضی بھائی اگر برا نہ منائیں تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کو بھی ایک عالم دین ہونے کے ناطے اس اہم موضوع کی شروعات ڈاکٹر زاکر نائیک حفظہ اللہ کی شخصیت پر تنقید کرنے سے نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ قرآن و حدیث کے مطابق صحیح موقف جاننے کے لیے علماء سے گزارش کرنی چاہیے تھی
شیخ سرفراز فیضی حفظہ اللہ تو خود عالم ہیں- اللہ ان کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تھریڈ کا عنوان انتظامیہ کی طرف سے طے کیا گیا ہے ۔ اس عنوان سے میں اپنی براءت کا اظہار کرتا ہوں ۔ جنت اور جہنم کی ابدیت امت کا اجماعی موقف ہے ۔ اور اس اجماعی موقف کے خلاف کسی کو بات کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ حق۔ گرچہ اپنے زعم میں اس کے پاس کتنے ہی دلائل کیوں نہ ہو۔ کیونکہ دلائل کو مقصود بھی بہر حال امت کے اجتماعی فہم کے مطابق ہی طے ہوگا۔ اور جنت و جہنم کی ابدیت جہاں تک میرے علم کی دسترس ہے امت میں کبھی اختلافی مسئلہ نہیں رہی۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سرفراز فیضی بھائی اگر برا نہ منائیں تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کو بھی ایک عالم دین ہونے کے ناطے اس اہم موضوع کی شروعات ڈاکٹر زاکر نائیک حفظہ اللہ کی شخصیت پر تنقید کرنے سے نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ قرآن و حدیث کے مطابق صحیح موقف جاننے کے لیے علماء سے گزارش کرنی چاہیے تھی،اسی لیے ابھی تک محض اس تھریڈ میں زاکر نائیک صاحب کی شخصیت پر تو بحث ہو رہی ہے،لیکن اہم موضوع پر کچھ روشنی نہیں ڈالی جا رہی۔میں محدث فورم پر موجود علماء سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس موضوع پر روشنی ڈالیں۔جزاکم اللہ خیرا
بھائی اس تھریڈ سے میرا مقصد ہی ڈاکٹر ذاکر نائک کی شخصیت اور اجماعی مسائل میں ان کی بے جا دخل اندازی پر تنقید کرنا تھا۔ رہا جنت اور جہنم کی ابدیت کا مسئلہ تو میرے حساب سے اس میں بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں کیونکہ جنت اور جہنم کی ابدیت امت کا اجماعی موقف ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اہل علم کے دو گروہ ہیں ایک تو وہ جو جنت اور جہنم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سمجھتے ہیں اور ایک گروہ وہ ہے جو جنت کو تو ہمیشہ کا گھر سمجھتا ہے لیکن جہنم کے فنا ہو جانے کا قائل ہے،اور پھر مصنف نے لکھا ہے کہ حافظ ابن قیم (تلمیذ ابن تیمیہ) بھی اسی موقف کے قائل ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں بھی اس موقف کا زکر کیا ہے۔
اور ان کی دلیل یہ حدیث قدسی ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ کی رحمت اللہ کے غضب پر غالب ہے۔
میں یہ بات پڑھ کر حیران ہو گیا کیونکہ میں نے فرسٹ ٹائم ایسی بات پڑھی تھی پھر سوچا کہ محدث فورم پر ایک سوال اسی موضوع کے متعلق پوسٹ کروں گا جو ابھی تک لکھا ہوا ہے لیکن پوسٹ نہیں کیا ابھی تک کہ اس تھریڈ پر نظر پڑ گئی۔
سرفراز فیضی بھائی اگر برا نہ منائیں تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کو بھی ایک عالم دین ہونے کے ناطے اس اہم موضوع کی شروعات ڈاکٹر زاکر نائیک حفظہ اللہ کی شخصیت پر تنقید کرنے سے نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ قرآن و حدیث کے مطابق صحیح موقف جاننے کے لیے علماء سے گزارش کرنی چاہیے تھی،اسی لیے ابھی تک محض اس تھریڈ میں زاکر نائیک صاحب کی شخصیت پر تو بحث ہو رہی ہے،لیکن اہم موضوع پر کچھ روشنی نہیں ڈالی جا رہی۔میں محدث فورم پر موجود علماء سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس موضوع پر روشنی ڈالیں۔جزاکم اللہ خیرا
امت میں جنت اور جہنم دونوں کی ابدیت کبھی موضوع بحث نہیں رہی ہے ۔ البتہ جہنم کے فنا کے متعلق بعض حضرات کا قول ملتا ہے ۔ لیکن آپ ڈاکٹر ذاکر نائک کی ویڈیو کلپ دوبارہ دیکھیں ۔ اس میں انہوں جنت اور جہنم دونوں کے فنا کا فتویٰ دیا ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
میرے خیال میں مسئلہ کے دو پہلو ہیں:

ایک تو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا ایک ایسے موقف کا حامل ہونا جو کہ سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔ مکالمہ کے بعض مشارکین کا کہنا ہے کہ ذاکر نائیک صاحب کا ایسا موقف نہیں ہے صالحین کی رائے کے خلاف ہو البتہ انہوں نے الفاظ کا چناو صحیح نہیں کیا ہے جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا موقف سلف صالحین کے اجماعی موقف کے خلاف ہے اور ان کا یہ موقف ان کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ جو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا دفاع کر رہے ہیں وہ اس بات کا دفاع نہیں کر رہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک جنت و جہنم کے فنا ہونے کے قائل ہیں اور پھر بھی ان کا دفاع ہمیں کرنا چاہیے بلکہ وہ دفاع اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکت نائیک صاحب کے الفاظ سے ان کا یہ عقیدہ صراحتا ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ وہ جنت و جہنم کے فنا کے قائل ہیں البتہ انہوں نے کچھ الفاظ ایسے استعمال کیے ہیں جو ذو معنی ہیں یا اشکال پیدا کرنے والے ہیں جن کا استعمال نہ کرنا بہتر تھا۔ جبکہ دوسرا گروہ جو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب پر نقد کر رہا ہے تو وہ اس بنیاد پر کر رہا ہے کہ جنت و جہنم کے فنا ہونے کے نائیک صاحب قائل ہیں۔ میرے خیال میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے یہ الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے امام ابن قیم رحمہ اللہ نے شفاء العلیل میں جہنم کے بارے استعمال کیے ہیں۔ جن کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہ ان کا کوئی متعین عقیدہ تو نہیں ہے لیکن کچھ علمی سوالات اور ذہنی الجھنیں ہیں جنہیں ایک ذہین دماغ حل نہیں کر پا رہا ہے۔ ایسے سوالات ہمارے اہل علم کے ایک بڑے طبقے مثلا امام غزالی، امام رازی رحمہما اللہ وغیرہ کو بھی پیش رہے ہیں۔ یہ ذہنی الجھنیں بعض اوقات لاشعوری طور سوالیہ یا استعجابیہ انداز میں زبان یا قلم کے ذریعے تقریر یا تحریر کا حصہ بن جاتی ہیں جس بنیاد پر بعض دوسرے اہل علم ان اقوال و تحریروں کی نسبت کوئی فتوی صادر کر دیتے ہیں جیسا کہ امام رازی اور امام غزالی رحمہما اللہ کے بارے بھی بعض فتاوی مل جاتے ہیں۔

دوسری بات جو میرے نزدیک زیادہ اہم ہے کہ بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ایسے الفاظ ان کے کسی پختہ سوچے سمجھے عقیدہ کے طور صادر ہوئے ہیں تو اس صورت میں ہمیں ان پر نقد کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ جس شخص میں خیر کا پہلو غالب ہو تو اس کی شخصیت یا اس کی دیگر مساعی کی تنقیص لازم نہ آنے پائے۔ اہل علم کے شذوذات کا ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کیا جا سکتا ہے لیکن ان سے صرف نظر اسی وجہ سے کیا جاتا ہے کہ ان میں خیر کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر شخص میں خیر اور شر دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں۔ میں اگر گناہ کرتا ہوں تو یہ میرے اندر شر کا پہلو ہے جو ظاہر ہوتا ہے۔ میں دراصل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شذوذات تو امام ابن حزم یا علامہ البانی رحمہما اللہ وغیرہ کے بھی ہیں لیکن اہل علم ان پر نقد کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو مسخ نہیں ہونے دیتے ہیں کیونکہ ان میں خیر کا پہلو بہت غالب ہے۔ پس ذاکر نائیک صاحب کے بارے راقم کا موقف یہ ہے کہ ان سے اختلاف ہونا چاہیے، ان پر نقد بھی ہو لیکن چونکہ ان کا خیر کا پہلو بہت غالب ہے لہذا یہ نقد اس اسلوب میں ہو کہ ان کی شخصیت مسخ نہ ہونے پائے اور ہماری نقد ان کی ذات سے پھیلنے والی خیر میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ جزاکم اللہ خیرا
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
جزاک اللہ ابوالحسن بھائی
آپ نے بات کو بڑے اچھے انداز میں کھول کھو ل کر بیان کر دیا اب ایک عام آدمی بھی بات کو اچھی طرح سمجھ لے گا . کے جس میں خیر کا پہلو زیادہ ہو اس کی شخصیت کا لحاف ضروری ہوتا ہے
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
میرے خیال میں مسئلہ کے دو پہلو ہیں:
ایک تو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا ایک ایسے موقف کا حامل ہونا جو کہ سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔ مکالمہ کے بعض مشارکین کا کہنا ہے کہ ذاکر نائیک صاحب کا ایسا موقف نہیں ہے صالحین کی رائے کے خلاف ہو البتہ انہوں نے الفاظ کا چناو صحیح نہیں کیا ہے جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا موقف سلف صالحین کے اجماعی موقف کے خلاف ہے اور ان کا یہ موقف ان کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ جو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا دفاع کر رہے ہیں وہ اس بات کا دفاع نہیں کر رہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک جنت و جہنم کے فنا ہونے کے قائل ہیں اور پھر بھی ان کا دفاع ہمیں کرنا چاہیے بلکہ وہ دفاع اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکت نائیک صاحب کے الفاظ سے ان کا یہ عقیدہ صراحتا ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ وہ جنت و جہنم کے فنا کے قائل ہیں البتہ انہوں نے کچھ الفاظ ایسے استعمال کیے ہیں جو ذو معنی ہیں یا اشکال پیدا کرنے والے ہیں جن کا استعمال نہ کرنا بہتر تھا۔
کیا دفاع کرنے والے علوی بھائی کی ترجمانی سے متفق ہیں ؟
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
جبکہ دوسرا گروہ جو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب پر نقد کر رہا ہے تو وہ اس بنیاد پر کر رہا ہے کہ جنت و جہنم کے فنا ہونے کے نائیک صاحب قائل ہیں۔ میرے خیال میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے یہ الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے امام ابن قیم رحمہ اللہ نے شفاء العلیل میں جہنم کے بارے استعمال کیے ہیں۔ جن کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہ ان کا کوئی متعین عقیدہ تو نہیں ہے لیکن کچھ علمی سوالات اور ذہنی الجھنیں ہیں جنہیں ایک ذہین دماغ حل نہیں کر پا رہا ہے۔ ایسے سوالات ہمارے اہل علم کے ایک بڑے طبقے مثلا امام غزالی، امام رازی رحمہما اللہ وغیرہ کو بھی پیش رہے ہیں۔ یہ ذہنی الجھنیں بعض اوقات لاشعوری طور سوالیہ یا استعجابیہ انداز میں زبان یا قلم کے ذریعے تقریر یا تحریر کا حصہ بن جاتی ہیں جس بنیاد پر بعض دوسرے اہل علم ان اقوال و تحریروں کی نسبت کوئی فتوی صادر کر دیتے ہیں جیسا کہ امام رازی اور امام غزالی رحمہما اللہ کے بارے بھی بعض فتاوی مل جاتے ہیں۔
جنت اور جہنم کے فنا ہونے کے متعلق اس موقف کی دلیل محض یہ ویڈیو ہی نہیں ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس موقف کا اعادہ کویت کے حالیہ کسی مجلس میں بھی کیا تھا۔ جہاں موجود سلفی علماء نے ان کے اس موقف پر ان کی تردید بھی کی تھی ۔ بعض حضرات نے آئی آر ایف کی آفس سے رابطہ کرکے وہاں اسٹاف سے بھی ذاکر نائک کے اس موقف کے متلق سوال کیا تھا۔ وہاں سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ذاکر صاحب اس طرح کا موقف رکھتے ہیں ۔
جس وقت یہ تھریڈ شروع کی گئی اس وقت ممبئی میں ڈاکٹر صاحب کے اس فتویٰ کو لے کر ممبئی کی عوام میں بڑا خلفشار تھا۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
دوسری بات جو میرے نزدیک زیادہ اہم ہے کہ بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ایسے الفاظ ان کے کسی پختہ سوچے سمجھے عقیدہ کے طور صادر ہوئے ہیں تو اس صورت میں ہمیں ان پر نقد کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ جس شخص میں خیر کا پہلو غالب ہو تو اس کی شخصیت یا اس کی دیگر مساعی کی تنقیص لازم نہ آنے پائے۔ اہل علم کے شذوذات کا ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کیا جا سکتا ہے لیکن ان سے صرف نظر اسی وجہ سے کیا جاتا ہے کہ ان میں خیر کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر شخص میں خیر اور شر دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں۔ میں اگر گناہ کرتا ہوں تو یہ میرے اندر شر کا پہلو ہے جو ظاہر ہوتا ہے۔ میں دراصل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شذوذات تو امام ابن حزم یا علامہ البانی رحمہما اللہ وغیرہ کے بھی ہیں لیکن اہل علم ان پر نقد کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو مسخ نہیں ہونے دیتے ہیں کیونکہ ان میں خیر کا پہلو بہت غالب ہے۔ پس ذاکر نائیک صاحب کے بارے راقم کا موقف یہ ہے کہ ان سے اختلاف ہونا چاہیے، ان پر نقد بھی ہو لیکن چونکہ ان کا خیر کا پہلو بہت غالب ہے لہذا یہ نقد اس اسلوب میں ہو کہ ان کی شخصیت مسخ نہ ہونے پائے اور ہماری نقد ان کی ذات سے پھیلنے والی خیر میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ جزاکم اللہ خیرا
علوی بھائی! میرا مقصد قطعا نہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو مسخ کرنا ہے اور نہ ہی ان کے دیگر مساعی کی تنقیص مقصود ہے ۔ اعوذ باللہ ان اکون من الجاھلین۔ میں بات پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ:
غیر مسلمین میں دعوت کا جو کام ڈاکٹر ذاکر نائک کررہے ہیں اس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
لیکن وہ مجتہد بلکہ عالم دین بھی نہیں ہیں ۔ ان کو اپنی حدوں سے آگاہ رہنا چاہیے۔ جو وہ نہیں ہیں۔
مسئلہ یہ ہیکہ بڑی شخصیتوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں ۔ جن کے اچھے کام کی تعریفیں کرنے والے لوگ زیادہ ہوتے ہیں ان کے برے کاموں کی تقلید کرنے والوں لوگ بھی کم نہیں ہوتے ۔ لہذا ان کے اچھے کاموں کی تعریف جتنے پرزور انداز میں ہو ان کے برے کاموں پر تنقید بھی اتنی شدومد کے ساتھ ہونی چاہیے۔
میں اور میرے ساتھ اہل علم کا ایک بڑا گروہ اس بات کو بہت سختی کے ساتھ محسوس کررہا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے تئیں لوگوں کی دیوانگی آہستہ آہستہ شخصیت پرستی کے ایک بہت بڑے فتنہ کی شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہے ۔ حالت یہاں تک پہچ چکی ہے کہ ان کے مداح ان کی بڑی سے بڑی غلطی کو غلطی تک تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
 
Top