• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جنرل ضیاء الحق نے حرم شریف میں لوگوں کی امامت کرائی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم یوسف ثانی صاحب ، اللہ آپ کو خوش رکھے ، ایماندار اور نڈر صحافی کے متعلق آپ نے انتہائی گرانقدر معلومات سے نوازا ، جزاکم اللہ خیرا ، جو مضامین چپکائے ہیں ، وہ پڑھے نہیں جارہے ، یونیکوڈ یا ایسی حالت میں نہیں مل سکتے کہ صاف پڑھا جاسکے ؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
محترم یوسف ثانی صاحب ، اللہ آپ کو خوش رکھے ، ایماندار اور نڈر صحافی کے متعلق آپ نے انتہائی گرانقدر معلومات سے نوازا ، جزاکم اللہ خیرا ، جو مضامین چپکائے ہیں ، وہ پڑھے نہیں جارہے ، یونیکوڈ یا ایسی حالت میں نہیں مل سکتے کہ صاف پڑھا جاسکے ؟
جزاک اللہ خیرا برادر
”اصل مضمون“ تو یہاں موجود ہے۔ باقی مضامین اور خبریں ایک اخبار کی کلپنگ ہے۔ اسے یونی کوڈ میں تبدیل نہیں کیا ہے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مجھے پاکستان میں دو ہی صحافی پسند ہیں اور دونوں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو چکے ہیں صلاح الدین، اور مجید نظامی
جزاکم اللہ خیرا میں ان کی شخصیت کے کچھ نجی پہلو بھی جانتا ہوں سو اسی اعتبار سے لکھا اور ایم کیو ایم کی مخالفت پر ان کا موقف اور ردعمل اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے
اگر ان پہلوؤں کو عام کرنے میں کوئی قباحت نہ ہو تو ان کے بارے میں ضرور لکھئے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یوسف ثانی بھائی دی کریڈٹ گوز ٹو برادر مقبول سلفی حفظہ اللہ
انہوں نے ایک موضوع شروع کیا اور بات سے بات نکلتی گئی اور ایک مرد جری کا تذکرہ خیر سامنے آگیا
میرے پاس تو ان کے حوالے سے کچھ ہی باتیں ہیں لیکن ان کے ساتھ کچھ ایسے پہلو ہیں جو یہاں لکھ نہیں سکتا اور کوئی فائدہ بھی نہیں کبھی ملاقات ہو گی تو پھر
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
یوسف ثانی بھائی دی کریڈٹ گوز ٹو برادر مقبول سلفی حفظہ اللہ
انہوں نے ایک موضوع شروع کیا اور بات سے بات نکلتی گئی اور ایک مرد جری کا تذکرہ خیر سامنے آگیا
میرے پاس تو ان کے حوالے سے کچھ ہی باتیں ہیں لیکن ان کے ساتھ کچھ ایسے پہلو ہیں جو یہاں لکھ نہیں سکتا اور کوئی فائدہ بھی نہیں کبھی ملاقات ہو گی تو پھر
جزاک اللہ خیرا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مجھے پاکستان میں دو ہی صحافی پسند ہیں اور دونوں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو چکے ہیں صلاح الدین، اور مجید نظامی
جزاکم اللہ خیرا میں ان کی شخصیت کے کچھ نجی پہلو بھی جانتا ہوں سو اسی اعتبار سے لکھا اور ایم کیو ایم کی مخالفت پر ان کا موقف اور ردعمل اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے
پاکستان کے (سابقہ) ”دائیں بازو“ کے ”اسلام پسند“ صحافیوں کی فہرست میں مجید نظامی کا بڑا نام ہے۔ روزنامہ نوائے وقت نے بلا شبہ پاکستانی صحافت میں ”اسلام اور پاکستان“ کے حوالہ سے ایک اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ:
  1. نوائے وقت کا اجراء مجید نطامی کے بڑے بھائی حمید نظامی نے کیا تھا اور وہی اس اخبار کے مالک تھے۔ حمید نظامی کی وفات کے وقت ان کے فرزند عارف نظامی بہت چھوٹے تھے جبکہ مجید نظامی نوائے وقت کی ادارت اور انتظامیہ میں شامل تھے۔ بعد ازاں انہوں نے عارف نظامی کو بھی نوائے گروپ میں شامل کیا لیکن اخبار پر انہوں نے اپنا ”قبضہ“ برقرار رکھا۔ اور ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے عارف نظامی کو ان کے اپنے والد کے اس صحافتی گروپ سے ہی نکال باہر کیا۔ عارف نظامی عدالت میں بھی گئے اور غالباً اب تک ان کا مقدمہ چل رہا ہے۔
  2. سن ستر اسی تک پاکستانی اردو صحافت کی دنیا جنگ اور نوائے وقت تک محدود تھی۔ سندھ اور بلوچستان میں جنگ کا بول بالا تھا جبکہ پنجاب میں نوائے وقت کی اجارہ داری تھی۔ سن اسی میں جنگ کے بانی اور مالک میر خلیل الرحمٰن نے اپنے نوجوان بیٹے میر شکیل الرحمٰن کو لاہور سے جنگ نکالنے کو بھیجا۔ تب اخبارات کتابت کے ذریعہ چھپا کرتے تھے۔ جنگ لاہور نے پہلی مرتبہ اردو کمپیٹرائزڈ کمپوزنگ کا آغاز کیا۔ کہتے ہیں کہ خلیل صاحب نے اپنے بیٹے کو 5 کروڑ روپے (جو اس وقت ایک خطیر رقم تھی) دیئے کہ تم اس رقم کو ”ڈبو“ کر اگر جنگ لاہور کو نوائے وقت کے مقابلہ پر لے آئے تو میں سمجھوں گا کہ تم کامیاب رہوگے۔ کمپیوٹر پر تیار ہونے کے سبب رنگ و روپ میں جنگ نوائے وقت سے بازی لے گیا۔ پھر اس نے حسب روایت اس نے اپنے اخباری میگزین کے سر ورق پر خواتین ماڈلز کو چھاپ چھاپ کر لاہوریوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور نوائے وقت کی سرکولیشن گرنے لگی تو مجید نظامی کو ان کے ملازم صحافیوں نے یہ تجویز دی کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ پہلے تو وہ انکار کرتے رہے لیکن پھر راضی ہوگئے اور یوں نوائے وقت بھی جنگ کی طرح ”آن بان“ سے شائع ہونے لگا۔
  3. ویسے تو پاکستان بھر میں (سوائے ڈیلی ڈان کے) صحافیوں کی ملازمت کے مروجہ قوائد و ضوابط انتہائی شرمناک ہیں۔ سوائے گنتی کے چند مشہور و معروف اور ”ویج بورڈوالے مستقل صحافیوں“ کے، باقی تمام صحافی اپنے اپنے اداروں میں ”غلامانہ ملازمت“ کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہی ”ٹرینڈ“ نوائے وقت میں بھی ہے، جو نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام کا علمبردار اخبار کہلاتا ہے۔ اس کا مجھے بھی ذاتی تجربہ اس وقت ہوا جب میں نوائے وقت کراچی میں ملازمت کے لئے منتخب ہوا۔ نوائے وقت کراچی اس وقت شروع ہوا تھا، جب میں ایم ایس سی کررہا تھا اور اخبارات میں لکھتا لکھاتا بھی تھا۔ نوائے وقت کراچی میں ایک نیا اخبار تھا، لہٰذا اس میں بھی میں نے خوب لکھا۔ اور میری ہر تحریر اس میں چھپتی رہی۔ نوائے وقت کراچی کے ادبی ایڈیشن میں ”یوسف ثانی کی انشائیہ نگاری“ پر بھی ایک تفصیلی اور رنگین فیچر شائع ہوا تھا۔ خیر میں ذکر کر رہا تھا کہ میں نوائے وقت کے ڈیسک کے لئے ”منتخب“ ہوگیا تو مجھے کہا گیا کہ آپ کل سے جوائن کرلیجئے۔ تب میں پی پی آئی نیوز ایجنسی کی اردو نیوز اینڈ فیچر سروس کا نگراں تھا۔ میں نے جب اپوائنٹ منٹ لیٹر کا پوچھا تو جواب ملا کہ وہ تو لاہور سے ائے گا اور اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، اپ جوائن کرلیجئے۔ میں ڈیسک پر جاکر وہاں موجود صحافیوں سے بات چیت کی تو پتہ چلا کہ وہاں نئے صحافی کئی کئی مہینوں سے کام کررہے ہیں اور انہیں تاحال اپوائنٹ منٹ تو دور کی بات ہے، تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں۔ اور یہان یہ ایک ”معمول“ کی بات ہے۔ یہ سن کر میں الٹے پاؤں واپس آگیا۔ اور کچھ عرصہ بعد جب جنگ میں سیلیکٹ ہوا اور وہاں سے باقائدہ اپوائنٹمنٹ لیٹر ملا تو تو تنخواہ میری توقع سے کم تھی۔ چنانچہ میں نے جوائننگ سے انکار کردیا۔ جنگ والوں کے لئے یہ ایک بالکل ”نیا رد عمل“ تھا۔ وہاں بھی بہت سے صحافی بغیر لیٹر کے ”ملازمت“ کررہے تھے۔ خیر گفت و شنید کے بعد میری تنخواہ بڑھا دی گئی اور مجھے نیا لیٹر دیا گیا، تب میں نے جوائن کیا۔ گو کہ مجموعی طور پر نوائے وقت گروپ، جنگ گروپ سے بہت بہتر ہے۔ لیکن صحافیوں کے شرائط ملازمت میں نوائے وقت بھی کوئی مثبت مثال قائم نہیں کرسکا اور اس گروپ نے بھی ”بدنام زمانہ اور بے دین صحافیوں“ کو اپنے دامن میں پناہ دیتا رہا ہے۔
abc.GIF
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
طارق اسماعیل ساگر نے ایک ناول لکھا ہے ( نام فی الوقت یاد نہیں آرہا ) جس میں نوائے وقت گروپ کی خوب خبر لی ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آپ کی یہ باتیں تقریبا میرے علم میں ہیں میں مجید نظامی کو اس کی ذاتی حیثیت سے پسند کرتا ہوں اور یہ ضروری نہیں باقی کے لیے حجت ہو ہر شخص اپنی رائے قائم کرنے میں آزاد ہے
اور جہاں تک نوائے وقت اور جنگ کے مابین موازانہ کی بات ہے تو یہ ایک طرح سے وسائل کی جنگ بھی تھی اور اب تک ہے
جنگ گروپ کے وسائل لامحدود کہ اس کے سپورٹرز لا تعداد اور نوائے وقت ایک نظریاتی اخبار محدود وسائل سے بلکہ ناکافی وسائل سے کام کرنے والا
لیکن یہ نوائے وقت میں پائی جانے والی انتظامی خامیوں کے لیے کوئی ایکسکیوز نہیں ہے
وسائل نہ ہونا اور موجودہ وسائل کا منظم استعمال کرنا دو الگ امور ہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حکیمانہ انداز میں ،بات یہ ہے کہ ساری بیماریوں کی جڑ قبض ہوتی ہے اور جڑ سب سے لمبی خربوزے کی ہوتی ہے اور خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اور رنگ سب سے پیارا گلاب کا ہوتا ہے اور گلاب سے گلقند بنتی ہے اور گلقند قبص کشا ہوتی ہے۔۔۔۔ابتسامہ!
نفسِ مضمون کی طرف واپس آجائیں۔۔۔۔ابتسامہ!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
طارق اسماعیل ساگر نے ایک ناول لکھا ہے ( نام فی الوقت یاد نہیں آرہا ) جس میں نوائے وقت گروپ کی خوب خبر لی ہے ۔
طارق اسماعیل ساگر
معروف ناولٹ ، جرنلسٹ، ڈرامہ نگار اور کالمسٹ طارق اسمٰعیل ساگر 16اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد غلام جیلانی گورنمنٹ ملازم تھے اور ضلع اٹک کے رہنے والے تھے ۔ ملازمت کے سلسلہ میں لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ طارق اسماعیل ساگر اپنی دو بہنوں اور پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ انہوں نے 1968ء میں سنٹرل ماڈل سکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1970ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹراور 1975ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ کالج یونیورسٹی کے زمانے ہی سے صحافتی خدمات سرانجام دینے لگے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ انہیں انگریزی، پنجابی اردو، ہندکو، گور مکھی، ہندی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ برسوں تک ’’نوائے وقت‘‘ کے میگزین ایڈیٹر اور ’’جنگ‘‘ کے سینئر ایڈیٹر کے عہدہ پر کام کیا۔ روزنامہ نوائے وقت کے انچارج ایوان وقت رہے۔ سابقہ ایڈیٹر سیارہ ڈائجسٹ، سابقہ ڈپٹی ایڈیٹر ماہنامہ حکایت، سابقہ ڈپٹی ایڈیٹر قومی ڈائجسٹ رہے ہیں۔ بطور صحافی اور مصنف درجنوں ایوارڈز وصول کر چکے ہیں۔ اب تک ان کی ساٹھ سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔
طارق اسماعیل ساگر کی چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں۔
۱۔ میں ایک جاسوس تھا
۲۔ کمانڈو
۳۔وطن کی مٹی گواہ رہنا
۴۔ لہو کا سفر
۵۔ دہشت گرد
۶۔سازش
۷۔ یلغار
۸۔ ڈبل کراس
۹۔ کراس فائز
۱۰۔وادی لہو رنگ
۱۱۔ مسافت
۱۲۔ بھٹکا ہوا راہی
۱۳۔RAW
۱۴۔ بلوچستان کا آتش فشاں
۱۵۔ خفیہ ایجنسیوں کی حکومت
۱۶۔ جاسوس کیسے بنتا ہے
۱۷۔ اے راہ حق کے شہیدو
۱۸۔ گرفت
۱۹۔ محاصرہ
۲۰۔ مسلمانوں کا عروج و زوال
اب تک کئی ڈرامے ، ڈرامہ سیریل خصوصی پلے لکھ چکے ہیں۔ چند سیریز جو آن ائر ہو چکے ہیںان میں سازش، آسمان سے آگے، کانٹے، آخر کب تک؟، روشنی، للکار، ویزہ( پنجابی)، آندھی وغیرہ شامل ہیں۔
طارق اسماعیل ساگر پر اب تک پنجاب یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ان پرایم اے کے تھیسس لکھے جا چکے ہیں۔ مختلف ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ ’’نقار خانہ ‘‘ کے نام سے مختلف اخبارات میں کالم لکھتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آج کل ہفت روز ہ نیا جہان اور ماہنامہ ساگر ڈائجسٹ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور میں اپنا ایک پبلی کیشنز ادارہ بھی چلا رہے ہیں۔
 
Top