السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ میں حقداری و حصہ داری کے انکار کو اللہ و رسول کے کلام میں لفظی و معنوی تحریف کے ذریعہ اخذ شدہ معنی و مفہوم اور اس سے مستنبط حکم کو چونکہ آپ نے اللہ کا دین و شریعت سمجھ لیا ہے اور یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث ثابت کرنے کی کوششوں کو دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت جان رکھا ہے اسی لئے آپ یہ خدمت بہت سارے لوگوں کی طرح انجام بڑے شد و مد سے دےرہے ہیں۔
اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب آپ سطحیت کا شکار ہو رہے ہیں اور ادب و تمیز کا دامن آپ سے چھوٹ رہا ہے اور میرے خیال میں آپ مجھے نام نہاد اہل قرآن منکر حدیث سمجھ کر مجھ سے مخاطب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے کہا : (اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو! بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے!)
اس طرح آنجناب مجھ ناچیز کو جہالت، بیوقوفی کم علمی اور کج فہمی جیسے القاب و آداب سے نواز رہے ہیں ۔ یہ الفاظ ہمیں بھی لکھنا آتا ہے لیکن ہم ان جیسے الفاظ کا استعمال کسی علمی مباحثے میں جائز نہیں سمجھتے۔ یہ ایک علمی مباحثہ ہے جو ادب و تہذیب کے دائرے میں ہی ہو تو بہتر ہے ۔
یہ تو آپ کا تجاہل عارفانہ ہے، کہ آپ ہمیں اس بات پر مطعون کرنا چاہتے ہیں، کہ ہم نے آپ کے لئے، جہالت، کم علمی اور کج فہمی کے الفاظ استعمال کئے، اور خود کو یاد نہیں رہتا، کہ خود کیا کچھ رقم کر آئے ہیں!
بطور نمونہ آپ کے الفاظ پیش کرتا ہوں:
ایسا کہنا قطعا غلط بے بنیاد جھوٹ اور فریب ہے نیز اللہ و رسول کے فرمان کے منافی ہے اور اللہ و رسول پر کھلی افتراء پردازی ہے۔
اب جب آپ اپنی کم علمی، کج فہمی اور جہالت میں دوسروں پر جھوٹ، فریب، اور اللہ اور رسول اللہ پر افترا پردازی کی تہمت دھرتے ہیں، تو اسے آپ کی کم علمی، کج فہمی اور جہالت ہی کہا جائے گا!
یہ تو آپ نے اپنی کم علمی، کج فہمی اور جہالت کی بنا پر کہہ دیا! لیکن آپ یہ جو مستقل، اللہ اور رسول اللہ کے کلام میں لفظی اور معنوی تحریف کہ تہمت دھرتے جا رہے ہیں، اس میں معنوی تحریف کی تہمت تو آپ نے اپنی کم علمی، کج فہمی اور جہالت کی بنا پر لگا دی! لیکن یہ ''لفظی'' تحریف کی تہمت دھرنا، تو بالکل بیوقوفی ہے!
اب آپ سے اگر کہا جائے، کہ اس پورے تھریڈ سے اس عبارت کا اقتباس پیش کریں، کہ جہاں کوئی اللہ اور اس کے کلام میں ''لفظی'' تحریف کا مرتکب ہوا ہو! تو آپ قطعاً وہ عبارت پیش نہیں کر سکتے!
تو میرے بھائی!
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ﴿﴾ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
آنجناب کی جو بہترین عربی یا اردو دانی اور قرآن و حدیث سے جو اعلیٰ علمی واقفیت اور اعلیٰ فہم ہے وہ آپ کی تحریروں سے صاف عیاں ہے آپ کبھی آپ سے مخاطب کرتے کرتے تم پر آجاتے ہیں
آپ پھر جھوٹ بول رہے ہیں! ویسے میں نے یہاں، ''آپ پھر جھوٹ بول رہے ہو!'' ہی لکھا تھا، اور ''جھوٹ بول رہے ہو'' میں ہی زیادہ وزن ہے، لیکن یوپی کی نزاکت بھری اردو والے شاید اس وزن کواٹھا نہ سکیں، تو ''ہو'' کے بجائے ''ہیں'' کردیا!
ہم نے ایک مراسلہ میں آپ سے سوال کیا تھا! کہ ہم نے کب آپ کو ''تم'' کہہ کر مخاطب کیا ہے!
تو آپ نے جواب دیا کہ:
آپ نے جب محروم کیا اور محروم رکھا کی تعبیر کے سلسلہ میں نکتہ چینی کی تو اسی پر میں نے آپ کی تعبیر اور انداز تخاطب کی غلطی کہ جانب اشارہ کیا کہ یہ کوئی قابل گرفت بات نہ تھی اور اس سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لہذا میرے بھائی اس طرح کی نکتہ چینیاں نہیں کرنی چاہئے۔ آپ نے کہا(تو اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کیئے، جا رہے ہو!) تو یہ اردو ادب انداز تخاطب درست نہیں ہے اس سے مخاطب غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے جملہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کئے جارہے ہیں۔
آپ نے یہاں قبول کیا ہے، کہ یہ آپ کی غلط فہمی تھی! لیکن پھر بھی آپ اس جھوٹے الزام کو دہرا رہے ہیں!
ویسے یہ بھی زبردست بات ہے، کہ خود کہتے ہیں کہ اس طرح کی نکتہ چینیاں نہیں ہونی چاہیئے، اور خود نے اپنی غلط فہمی میں ہمارے بیان کردہ ایک اہم نکتہ کو نکتہ چینی سمجھ کر جواباً واقعتاً نکتہ چینی کی، اور اب پھر اسے دہرا بھی رہے ہیں!
اور کبھی ہیں سے ہو پر آجاتے ہیں
دیکھیں! یہ بات درست ہے کہ ''آپ'' کے ساتھ أصلا اردو میں ''ہیں'' کا لفظ ہے، لیکن ''ہو'' بھی مستعمل ہے، اور اردو ادب میں بھی مستعمل ہے، گو کہ کم ہے!
اب میں برصغیر کے مختلف اردو لہجوں کا کیا تعارف کرواں! اردو لغت اور ادب محض اتر پردیش پر منحصر نہیں!
ایک شعر پیش خدمت ہے!
مجھ سے کہتے ہو کیا کہیں گے آپ ﴿﴾ جو کہوں گا تو کیا سنیں گے آپ
اور پھر اب آپ تو اس سطح پر آگئے ہیں کہ آپ نے ناچیز کو جاہل، بے وقوف، کم علم، کج فہم سب کچھ کہہ ڈالا خیر ہمیں اس سے کوئی گلہ شکوہ اور بحث نہیں ہے ۔ ہم آپ کی اعلیٰ فہم و فراست کے چند اعلیٰ نمونے پیش کریں گے یہاں ہم آپ سے بس اتنا کہنا چاہیں گے کہ اللہ رب العالمین کا یہ فرمان یاد رکھیں: (وجادلہم بالتی ہی احسن) الایۃ۔ نیز آپ مخاصمت کا طریقہ اختیار کر کے اللہ کے رسول کے اس فرمان کے مصداق نہ بنیں: (اذا خاصم فجر)۔
آپ اس پر گلہ شکوہ کرنے کا حق رکھتے بھی نہیں! کیوںکہ آپ نے ہی گفتگو کو اس طرز لے گئے ہیں!
رب العالمین کا یہ فرمان اور رسول اللہ کی یہ حدیث آپ کو اس وقت یاد نہیں آئی؟ جب آپ ''ہانکنے'' پر آگئے تھے! اب جب ہم نے آپ کے ''ہانکنے'' پر جواب دیا ہے، تو آپ کو وجادلهم بالتي احسن یاد آئے گا!
آپ آئندہ سے اس طرز میں گفتگو نہیں کریں گے، اور تہمتیں دھرنےے سے باز رہیں گے، تو آپ کو اس طرح جواب بھی نہیں ملے گا!
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
یہ ہے گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
زیر بحث مسئلہ میں بات بس اتنی سی ہے کہ آیا دادا کے ترکہ میں اس کے یتیم پوتے کا اس کے چچا تائے کے ہوتے حق و حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں بنتا ہے تو اس کی دلیل قرآن کی کون سی آیت ہے یا کون سی حدیث ہے؟ ۔ اور یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے یا نہیں؟ ۔ کیا یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے یا اس کے اقرباء میں سےہے؟۔ اور قرآن و حدیث کی کون سے دلیل سے یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا؟۔
جی! یہ زیر بحث مسئلہ ہے!
مگر یہاں ایک سوال اور بھی ہے، کہ کیا تمام ذریت حقیقی أولاد ہے؟
ساری بحث کا محور بس یہ چند نکات ہیں جس کے تعلق سے میں نے چند آیات اور احادیث کو بطور دلائل پیش کیا اور اس سلسلہ میں صحیح بخاری کا یتیم پوتے اور یتیم پوتی کے اس کے دادا کے ترکہ سے حق و حصہ ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اس پر اللہ کے رسول کا فرمان اور فیصلہ بھی پیش کیا جس میں اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی ساتھ ساتھ ایک سے زیادہ بیٹیوں کا جو حصہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے اسی میں سے دیا ہے۔
اور ہم نے اس بتلایا ہے کہ نہ امام بخاری سے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آپ کے موقف پر ثبوت و دلیل ہے، بلکہ وہ آپ کے موقف کے بطلان پر ثبوت ودلیل ہیں!
آپ کا کہنا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ ایک سے زیادہ بیٹیوں کا جو حصہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے اسی میں سے دیا، بالکل باطل ہے!
کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو نصف دیا، جو کہ ایک بیٹی ہونے کی صورت میں اس کا حصہ اللہ نے مقرر کیا ہے، اگر پوتی کا شمار بیٹیوں میں کیا جاتا، تو دونوں کو یعنی پوتی اور پھوپی کو برابر کا حصہ ملنا چاہیئے تھا! مگر ایسا ہے نہیں!
علمائے اہل حدیث سے چند سوالات:
تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھی؟ اور کیا اللہ کے رسول کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے، اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟ یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔
میرے یہ سوالات صرف آپ سے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔ میں مشکور ہونگا اور وہ آخرت میں اجر ثواب کے مستحق ہونگے ۔ اور اللہ کے اس فرمان کو سامنے رکھ کر دیں جو اس نے آیات مواریث کے ضمن میں فرمایا ہے: (وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10)[سورة النساء])
دیکھیں: جواب تو آپ کو دیا گیا ہے، مگر آپ یا تو اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، یا تسلیم کرنے سے گریزاں! خیر ایک بار پھر کوشش کریں گے!
میں نے صرف اتنی سی بات کہی تھی کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی حقیقی اولاد و ذریت میں سے ہے
آپ کی یہ ''اتنی سی بات'' باطل ہے، اور اسی باطل کی بنیاد پر آپ نے باطل موقف قائم کررکھا ہے!
اور اس کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے۔ اور اس کا دادا اس کا حقیقی والد و باپ ہے ۔
اور اس کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے۔
اب اگر باپ، تایا ، چچا میں سے چچا بھی دادا کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے، تایا بھی دادا کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے، اور باپ بھی دادا کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے، اور ''اسی طرح'' اگر پوتے کو بھی ''بیٹوں میں سے بیٹا'' مانا جائے! تو لازم آتا ہے کہ باپ کے حیات ہوتے ہوئے دادا کی وراثٹ تایا، اور اسے کے بیٹوں، چچا اور اس کے بیٹوں، باپ اور اس کے بیٹوں میں برابر تقسیم کی جائے۔ کیونکہ پوتا بھی باپ کی طرح بیٹا ہے!
اور اس کا دادا اس کا حقیقی والد و باپ ہے ۔
دادا پوتے کا حقیقی والد نہیں! یہ بات بالتفصیل گزشتہ مراسلہ میں بیان ہوئی!
جس طرح اس کے باپ کی عدم موجودگی میں اس کا دادا بمنزلہ والد و باپ کے اس کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے اس کا یتیم پوتا بھی اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد و بیٹے کے اپنے باپ کی جگہ اس کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
اول تو یہ سمجھنا چاہیئے، کہ جب ''بمنزلہ والد و باپ'' کہا ہے، تو لازم آتا ہے کہ دادا حقیقی والد اور باپ نہیں! کیونکہ ''حقیقی'' کو ''بمنزلہ'' ہونے کی حاجت نہیں ہوتی، اور جو ''بمنزلہ'' ہو وہ ''حقیقی'' نہیں ہوتا!
مسئلہ ہمارا ''باپ'' کے لفظ پر نہیں! مسئلہ ''والد'' کے لفظ کا ہے،
دوم کہ باپ کی عدم موجودگی میں دادا کا وارث ہونا، صحیح حدیث سے ثابت ہے، جبکہ محض باپ کی عدم موجودگی میں پوتے کا وارث ہونا نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ حدیث سے ثابت ہے، بلکہ دادا کی وراثت میں پوتے کے وارث ہونا ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے، وہ یہ کہ دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!
ویسے تو یہ تفصیل سے بیان ہوا ہے! پھر بھی آگے مزید تفصیل آئے گی!
قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تائے ہیں یا نہیں ۔ چونکہ اس کا واسطہ اس کا باپ تھا جو اب موجود نہیں رہا تو بمنزلہ اولاد میت کے اپنے باپ کی جگہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
پہلے تو آپ اس بات کا فیصلہ کر لیں، کہ آپ پوتے کو دادا کی ''حقیقی أولاد'' مانتے ہیں، یا ''بمنزلہ أولاد''
دوم یہ آپ کامدعا ہے، جس پر قرآن وحدیث سے کوئی دلیل نہیں!
اس پر بین دلیل اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا ہے۔ اس کے بر خلاف ایسی کوئی دلیل قرآن و سنت میں نہیں پائی جاتی ہے۔ لہذا اس مسئلہ پر بحث و تحقیق ہونی چاہئے؟
اس حدیث میں میت کی یعنی دادا کی مذکر أولاد کے نہ ہونے کی شرط پوری ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کو دادا کی مذکر أولا کے ہوتے ہوئے بھی پوتے پوتی کی وراثت پر دلیل بنانا باطل ہے!
چونکہ نام نہاد اہل قرآن، منکرین حدیث حضرات نے اس مسئلہ کو اچھال کر احادیث و سنت رسول کی حجیت کا انکار کیا اور احادیث کے مصدر تشریع ہونے کا انکار کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ احادیث حجت اور مصدر تشریع نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر یہ حجت ہوتیں تو اس مسئلہ کا بھی اس حل موجود ہوتا؟ تو ہم نے اس کے جواب میں ہم نے قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرنے کی ایک ادنیٰ کوشش کی کہ احادیث رسول بھی حجت دین اور مصدر تشریع ہے جس طرح قرآن ہے۔ اور ان کا انکار کرے وہ حقیقی کافر ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (150) أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (151) وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (152) [سورة النساء]
الحمدللہ! کہ آ پ حدیث کو حجت مانتے ہیں!
معاملہ یہ ہے کہ، منکرین حدیث نے اس مسئلہ میں وارد احادیث کے حکم کا انکار کیا!
لیکن یہ بات نہیں کہ احادیث میں اس مسئلہ کا حل موجود نہیں! احادیث میں اس مسئلہ کا حل موجودہے، لیکن منکرین حدیث کو وہ قبول نہیں!
اور اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پوتا دادا کی وراثت کا اسی وقت حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو! یہی اس مسئلہ کا حکم قرآن وحدیث میں ہے، اور یہی اس کا حل ہے!
آپ نے بھی زبردست کوشش کی، کہ ''حل'' منکرین حدیث کی فکر کے مطابق لے کر اسے قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی ٹھان لی!
مگر، ایں خیال است و محال است و جنوں!
ابن داودنے کہا:
آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے! اور آپ خود ہی قرآن و حدیث کے معنی ومفہوم میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہو، اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو! بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے! تو میرے بھائی! یہ آ پ نے بلا سوچے سمجھے شیخ @کفایت اللہ کے متعلق تحریر کر دیا ہے، انہوں نے آپ کے متعلق جو تحریر فرمایا وہ قطعی طور پر بلا سوچے سمجھے نہیں! اور آپ کیا کوئی آسمانی ٹپکی مخلوق ہیں! کہ آپ تو دوسروں پر بے بنیاد قرآن وحدیث میں تحریف اور وہ بھی لفظی ومعنوی تحریف کی تہمت لگانے کا حق لیئے پیدا ہوئے ہیں، لیکن آپ کو آپ کی گمراہی اور قرآن و حدیث کی بے سروپا، بے بنیاد من گھڑت تاویلیں کرنے پر گمراہ نہیں کہا جا سکتا!
الجواب:
ابن داود صاحب آپ کی ان بے تکی باتوں کا تو جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتا البتہ کچھ باتیں ایسی ہیں کہ اس کا جواب دیا جانا ضروری ہے:
آپ جواب دے بھی نہیں سکتے، کہ آپ نے ''معنوی تحریف'' کا الزام لگایا ہے، وہ آپ کی کم علمی، کج فہمی، اور جہالت ہی ہے! اس کا آپ کیا جواب دے سکتے ہیں! کچھ بھی نہیں!
اور جو آپ نے ''لفظی تحریف'' کا الزام لگایا ہے، یہ تو بیوقوفی ہے!
اگر یہ آپ کی بیوقوفی نہیں! تو اس تھریڈسے کسی کا بھی ایک اقتباس پیش کریں، جہاں کوئی ''لفظی تحریف'' کا مرتکب ہوا ہو!
میں علی الإعلان اپنے الفاظ واپز لیتے ہوئے، آپ سے معذرت کروں گا! اور معافی طلب کروں گا!
آپ نے کہا: آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے!
الجواب:
اس کا جوب ہے: جی ہاں ہمارے پاس اللہ و رسول کی جانب سے آسمانی سند اور دلیل ہے یعنی قرآنی آیات اور احادیث نبویہ
آپ سے پوچھا کیا گیا ہے، آپ جواب کیا دے رہے ہیں!
اس کو کہتے ہیں، سوال گندم، جواب چنا!
سوال آپ سے یہ تھا:
آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے،
ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ ''آپ کے پاس کیا کوئی آسمانی سند ہے''
بلکہ ہم نے یہ کہا تھا کہ ''آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے!
اور وہ سند یہ بتلاتی ہو کہ قرآن وحدیث سے متعلق آپ کا ہی فرمان قرآن وحدیث کا اصل مفہوم ہے!
تو میرے بھائی! ایسی کوئی سند آپ کے حق میں نازل نہیں ہوئی، نہ ہمارے حق میں!
لہٰذا آپ کا اپنی فہم پر نقد ورد کو قرآن وحدیث کا انکار وتحریف باور کروانا بالکل باطل ہے!
جو اس بات پر دلیل واضح اور حجت قاطع ہے کہ بیٹا، پوتا بیٹی پوتی نواسے نواسیاں سبھی انسان کی اولاد اور اس کی شاخیں ہوتی ہیں جنہیں اولاد، ذریت اور فرع کہا جاتا ہے اور بالاجماع سب کے سب لفظ اولاد کے مفہوم میں شامل ہیں اور لفظ اولاد سب کا جامع ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے باپ، دادا، پردادا، دادی پردادی، نانا نانی وغیرہ سب والدین کے لفظ کے عموم میں داخل اور سب کو شامل اور یہ لفظ سب کا جامع ہے۔
یہ آپ کا وہم ہے، گزشتہ مراسلہ میں یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت کی جا چکی ہے!
اتنی معمولی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہیں آرہی ہیں اور آپ اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں پارہے ہیںاور آپ کٹھ حجتی کئے جا رہے ہیں اور ایک بے بنیاد بات کو توڑ مڑور کر صحیح ٹھہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اصل موضوع بحث سے ہٹ کر ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں۔
آپ کی ''اتنی معمولی سی بات'' کو ہم سمجھ کر ہی باطل قرار دے رہے ہیں! یہ آپ کا وہم ہے کہ ہمیں آپ کی بات سمجھ نہیں آرہی! ہم آپ کی بات سمجھ بھی رہے ہیں،اور اس کے مقتضی کو بھی سمجھتے ہیں! مگر آپ خود اپنی ہی بات کے مقتضی سے غافل ہیں!
آپ میری اس بات کا جواب دیں جس کا میں آپ سے بار بار مطالبہ کر رہا ہوں وہ یہ کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں حصہ دیا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں باقاعدہ دو باب ہے ایک یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا اور دوسرا یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا۔
آپ میری اس بات کا جواب تو دے نہیں رہے ہیں اور الٹا مجھ ناچیز کو بے وقوف، ناسمجھ، کم فہم، کم علم اور کج فہم قرار دے رہے ہیں۔
اس کا جواب دیا جا چکا ہے، اور آپ کو متعدد بار یہ بات بتلائی ہے، کہ اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو پھوپھی کے ساتھ ترکہ میں حصہ میت کی مذکر أولاد کی عدم موجودگی میں دیا تھا!
صحیح بخاری میں پہلا بات پوتے کی وراثت کے مشروط اثبات کا ہے، کہ جب میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!
اور دوسرے باب میں میں بھی مذکر أولاد کی عدم موجودگی میں پوتی کو وراثت کا حق ثابت کیا ہے
اگر آپ اپنے الفاظ (جہالت وبیوقوفی) کا شکار نہیں ہیں اور بے وقوف، ناسمجھ، کم فہم، کم علم اور کج فہم نہیں ہیں اور آپ کے حق میں کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہوگا۔تو برائے مہربانی پیش کریں۔
نہیں! ہمارے حق میں ایسی کوئی آسمانی سند نازل نہیں ہوئی کہ ہمارا بیان کردہ مفہوم ہی قرآن وحدیث کا اصل اور درست مفہوم ہو گا!
ورنہ آپ کی ساری باتیں بے تکی بے بنیاد خلاف کتاب و سنت قرار پائیں گی۔
اگر ایسا ہے!
تو آپ صرف قرآن وحدیث کا متن تحریر فرمائیں! اور آپ کو بھی اس سے کوئی استدلال استنباط کرتے ہوئے، کچھ بھی بیان کرنے کی اجازت نہیں! اورآپ کی منطق کے مطابق آپ کا تمام کلام بے تکا اور بے بنیاد اور خلاف کتاب وسنت قرار پاتا ہے!
لہٰذا آپ پھر ایسا کیجیئے کہ آپ صرف قرآن وسنت کا متن پیش تحریر کیا کیجیئے!
دیکھیں: ایسی بے تکی باتوں سے گریز کریں! یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ پر کوئی نقد کیا جاتا ہے، تو آپ نے بھی ٹھانی ہوئی ہے، کہ اسی طرح کا نقد آپ نے مخالف پر کرنا ہے، جیسے آپ نے ''نکتہ چینی'' کے ضمن میں کیا تھا! لیکن یہ خیال نہیں رہتا، کہ خود اس نقد کے اول مصداق ٹھہرتے ہیں!
تو برائے مہربانی الزام تراشی چھوڑیئے
بالکل! یہی ہم آپ سے کہہ رہے ہیں! کہ الزام تراشی چھوڑیئے! اور خواہ مخواہ، بے بنیاد لفظی اور معنوی تحریف کے الزام تراشی نہ کیجیئے!
ور اصل مدعا پر آکر میرے اس سوال کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا۔ اور اس سے متعلق دیگر سوالات کا جواب دیجئے۔ادھر ادھر کی نہ ہانکئے۔
ویسے تو یہ بیان ہو چکا ہے، مگر جیسے کہا ہے کہ ایک بار پھر بیان کریں گے!
اور آپ ''ہانکنے'' سے باز نہیں آرہے!
اور دوسروں کے لئے، فوراً منافق کی علامت کا اطلاق کر دیتے ہیں!
میں نے قرآن کی یہ آیت (وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾)
کو یہ دکھانے کے لئے پیش کیا تھا کہ اولاد میں بیٹا بھی آتا ہے اور پوتا بھی جیسا کہ ابراہیم کی بیوی کو اسحاق بیٹے اور اس کے توسط سے پیدا ہونے والی اولاد پوتے یعقوب کی خوشخبری دی گئی۔
ظاہر سی بات ہے کہ اسحاق کے بیٹے یعقوب جو کہ ابراہیم کے پوتے ہیں ان کی بیوی کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ اسحاق کی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے۔
اس آیت میں کہاں یعقوب علیہ السلام کو ابراہیم علیہ السلام کی ''ولاد'' اور وہ بھی '' حقیقی أولاد'' کہا گیا ہے؟
اور آپ نے اس آیت کو اپنے اس موقف پر پیش کیا تھا:
رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے (ادعوہم لآبائہم ہو اقسط عند اللہ) الآیۃ یعنی انہیں ان کے آباء (واسطوں) سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قابل انصاف بات ہے۔ نیز فرمایا : (من وراء اسحاق یعقوب) الآیۃ یعنی اسحاق کے بعد اس کے پیچھے اس کا بیٹا یعقوب۔
اس پر ہم نے آپ پر اعتراض وارد کیا ہے، کہ انبیاء کی تو مالی وراثت ہی نہیں ہوتی، آپ نے اسے وراثت کی تقسیم بالترتیب پر کیسے دلیل بنا لیا؟
آپ کی اعلیٰ فہم اور قرآن و حدیث دانی کا یہ عالم ہے کہ آپ اتنی معمولی بات کو سمجھ نہ سکے اور لگے انبیاء کی وراثت جاری ہوتی ہے یا نہیں پر بحث کرنے۔
جناب من! آپ کی ''اتنی معمولی بات'' قرآن کی اس آیت میں نہیں ہے!
اور اس وہم کا علاج کروا لیں کہ ہم آپ کی بات نہیں سمجھ رہے! ہم آپ کی بات کو سمجھ کر ہی باطل کہہ رہے ہیں!
چنانچہ یوں رقم طراز ہیں: دیکھیں! قرآن میں یوں ہے: وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾
اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری﴾
اور آپ! اپنے تئیں، جو شیطان نے دل میں ڈالا اسے قرآن و حدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کیئے جا رہے ہو!
جناب من! إسحاق علیہ السلام نبی ہیں، اور یعقوب علیہ السلام میں بھی نبی ہیں!
اورمعلوم ہونا چاہیئے کہ انبیاء کی مالی وراثت نہیں ہوتی! اور آپ قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے إسحاق علیہ السلام اور پھر إسحاق علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت، سے پوتوں، پوتیوں اور ان کی ذریت کو ، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، اور اب انہیں اس حق سے محروم کرتے ہو؟
یہ ہے آپ کا مبلغ علم اور اعلیٰ فہم و فراست؟ ...... آگے اور کیا کہا جائے!
جناب من! تو بتلائیے بھی!
یہ ہماری فہم نہیں، بلکہ آپ کی فہم کا مقتضی ہے! کیونکہ آپ پوتوں پوتیوں اور ان کی ذریت کو، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، آپ انہیں ان کے حق سے محروم کیوں کرتے ہیں؟
اسی طرح میں نے یہ واضح کرنے کے لئے کہ اولاد کی نسبت اور پہچان اس کے والدین کے توسط سے ہوتی ہے۔ نہ کہ چچا تائے کے توسط سے یا کسی منہ بولے بیٹے کی نسبت اور پہچان اس کے منہ بولے باپ سے نہیں کی جاتی جیسا کہ عہد جاہلیت میں ہوتا تھا۔ لہذا کسی کی نسبت اس کے باپ، دادا، پردادا سے کی جانی چاہئے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ انہیں ان کے باپ کے واسطوں سے نسبت کر کے پکارو۔
شکر ہے آپ کواس بات کا ادراک تو ہوا، کہ یہ نسبت کے لئے ہے!
جس کے جواب میں آپ طول طویل بحث کرنے میں لگ گئے۔ اور اس سلسلہ میں حدیث جبرئیل پیش کی جس میں یا محمد اور یا عمر کا لفظ آیا ہوا ہے۔ اس میں اس لفظ سے پکارنے سے مقصود یہ ہے کہ مخاطب کو اس کا نام لیکر اس کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ نہ یہ کہ کس کی طرف اس کی نسبت ہے کون اس کا باپ دادا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ''بات بنتی نہیں تو بناتے کیوں ہو!''
ہم نے یہ کہا تھا :
معلوم ہوا کہ یہاں حکم در اصل اس کے والد کے نسب ونسبت سے پکارنے کے لزوم کا حکم نہیں، بلکہ والد کے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارنے کی نفی کا حکم ہے! یعنی کہ یہ لازم نہیں کہ کسی شخص کو اس کے والد کے نسب ونسبت سے ہی پکارا جا سکتا ہے، اور والد کے نسب ونسبت کے بغیر پکارنا ممنوع قرار پائے، بلکہ ممنوع یہ قرار پاتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے والد کے بجائے کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارا جائے!
مختصراً مقصود یہ ہے کہ مخاطب کو اس کے والد کے نسب کے علاوہ کسی اور نسب سے منسوب کر کے نہ پکارا جائے!
اور صرف پکارنا ہی نہیں، اس طرح منسوب کرنا اور سمجھنا بھی ممنوع ہے!
اتنی معمولی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہیں آرہی ہے اور نہ سمجھ پارہے ہیں اور الٹی پلٹی ہانکے جارہے ہیں۔ اور ہم نے جس نکتے پر توجہ چاہی تھی وہ پس پشت ڈال کر یہ طول طویل بات لکھ ماری:
میرے بھائی! ہم نے آپ سے جو سوال کیا تھا اس کا جواب دینے کے بجائے کوسنے دینا شروع!
میں وہ سوال دوبارہ پیش کرتا ہوں:
کسی شخص کو اس کے والد کی نسبت سے پکارنے سے وہ اپنے دادا کی وراثت سے کیونکہ محروم قرار پاتا ہے؟
جب کہ یہ حکم تو سب کے لئے ثابت ہے، کہ اسے اس کے والدکے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے نہیں پکارا جائے!
کسی بھی شخص کا نسب ونسبت اس کے والد کی حیات میں بھی وہی ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ والد کی وفات کے بعد یتیم ہونے کی صورت میں تبدیل ہوتا ہے! تو یتیم ہونے اور نہ ہونے میں اس امر میں تو کوئی فرق نہیں آتا!
یعنی کہ یہ کسی کو پکارنے کا حکم تو یتیم اور غیر یتیم دونوں کے لئے قائم ہے!تو پھر بقول آپ کے، ان پوتے پوتوں اور ان کی ذریت کو دادا کی وراثت سے محروم کر کے آپ کےبقول، اللہ تعالی کے حکم اور عائد کردہ فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر کیوں کرتے ہو!
اس کا جواب دیں!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑
اور اللہ کا حکم اور فرمان ہے : ﱡوَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا ﱠ [سورة النساء: 33]
(ہر ایک کےلئے ہم نے موالی (وارث، حقدار، حصہ دار) بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔ اور ان لوگوں کے بھی جن سے تم نے عقد یمین کیا ہو تو انہیں ان کے حصے دیدو۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد و گواہ ہے۔)۔ [۴/النساء:۳۳]
ہمارا اس آیت سے استدلال یہ تھا کہ: اس آیت میں بھی پہلے والدان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے پھر الاقربون کا لفظ استعمال ہوا جس سے یہ واضح اور ثابت ہوا کہ ترکہ دو طرح کا ہے ایک والدین کا دوسرے اقرباء کا ۔ تو چونکہ دادا والدین میں سے ہے اور اس کا ترکہ والد کا ترکہ ہے اور اس کا پوتا اس کی اولاد و ذریت میں سے ہے اس لئے اس کے ترکہ میں جس طرح اس کے بیٹے بیٹیوں کا حق وحصہ بنتا ہے اسی طریقہ سے اس کے پوتے پوتیوں کا بھی حق حصہ بنتا ہے۔
جس کے جواب میں آپ نے لکھا:
جب آپ نے قرآن کی اس آیت سے پوتوں، پوتیوں،اور ان کی أولاد و ذریت کو اسی طرح دادا کی رواثت حقدار ٹھہرایا ہے، جیسے میت کے بیٹے، بیٹیاں، یعنی پوتے کے ابا، چچا، پھپی دادا کی وراثت میں حقدار ہیں، تو پھر آپ آگے ان میں سے کسی کو بھی وراثت کے حق سے محروم کرنے کے در پر کیوں ہیں؟ پھر ان سب کو وراثت میں حصہ دییجئے! اور کسی کو محروم کرتے ہوئے! اللہ کی وصیت، اللہ کے عائد کردہ فریضہ، اور تاکیدی حکم کی مخالفت کرت ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑
رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا
ابن داود نے کہا:
جیسے میت کے بیٹے اور پوتے بیک وقت حصہ پاتے ہیں، اسی طرح آپ کے بقول تو پوتے اور پوتیاں بھی اسی طرح وراثت کی حقدار ہیں، تو انہیں بھی بیک وقت ہی وراثت میں حصہ دیا جانا لازم آتا ہے!آپ آخر کیوں پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں! جبکہ آپ کے بقول پوتے اور پوتیوں اور دیگر ذریت کے لئے حق ميں اللہ تعالی کا تاکیدی حکم ہے، اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے! اس فریضہ سے روگرادنی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
الجواب: میں کسی پوتے کو ان کے حق سے محروم کئے جانے کی بات تو کرہی نہیں رہا ہوں۔ میں تو صرف یتیم پوتوں کے محروم نہ کئے جانے کی بات کر رہا ہوں۔ کیونکہ لوگ یتیم پوتوں کو محجوب الارث قرار دیکر محروم الارث کرتے ہیں۔ اور دیگر پوتوں کو دیتے ہیں۔
یہ آپ کا صریح جھوٹ ہے کہ دیگر پوتوں کو دیتے ہیں! اس طرح کا جھوٹ بولنے سے تو گریز کیجیئے!
کیونکہ لوگ یتیم پوتوں کو محجوب الارث قرار دیکر محروم الارث کرتے ہیں۔ اور دیگر پوتوں کو دیتے ہیں۔ کیونکہ جب یتیم پوتے کو نہیں دیا جائے گا۔ اور چچا تایوں کو دیا جائے گا تو ان کے توسط سے ان کے بیٹے بیٹیوں یعنی غیر یتیم پوتے پوتیوں میں سے ہر ایک کو مل جائے گا اور ان سب پوتے پوتیوں کو ان کے دادا کے ترکہ کا مال پہنچ جائے گا۔
یہ آپ کی اٹکل ہے، جو حقیقت کے خلاف ہے، اس کا بیان پہلے ہو چکا ہے، کہ وہ چچا اور تایوں کی ہی ملکیت ہوتا ہے، نہ کہ ان کے بیٹوں کی!
اور صرف یتیم پوتے پوتیاں محروم رہ جائیں گے۔ جب کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ہوتے یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ سے محروم نہیں کیا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے پوتیوں کا اسی وقت وراثت میں حصہ قرار دیا ہے، جب دادا یعنی میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو! اور ہم اسی کے قائل ہے!
یہ تو آپ جیسے لوگ ہیں جو یتیم پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں!
جب قرآن و حدیث سے دادا یعنی میت کی مذکر أولاد موجود ہو، تو پوتے پوتی کو اللہ اور اس کے رسول وراثت کا حقدار قرار نہیں دیتے، ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے تابع ہیں!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑
تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔
الجواب:
میری اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی جو ترتیب رکھی ہے پہلے بیٹا پھر اس کا بیٹا پھر اس کا بیٹا۔ یعنی بیٹا پوتا پڑپوتا درجہ بدرجہ نیچے تک۔ جیسے اللہ نے انہیں بنایا ہے اسی ترتیب سے درجہ بدرجہ انہیں حق و حصہ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چچا کی عمر زیادہ ہے یا پوتے کی عمر۔ لیکن آپ کی اعلیٰ فہم و فراست نے اس کو یوں سمجھ لیا جو آپ نے یوں تحریرکیا:
آپ ترتیب سے دے دیجئے، کہ پہلے اسے دیجئے، جو پہلے پیدا ہوا ہو! یعنی کہ اگر پہلے کوئی پوتا ہوا ہو، اور بعد میں اس کا کوئی چچا، یعنی کہ پوتا اگرچچا سے عمر میں بڑا ہو، تو پہلے پوتے کو دیں، بعد میں اس کے چچا کو!
یعنی کہ بالترتیب عمر تمام کو ان کا حصہ دیا جائے!تمام بیٹوں کو بھی، تمام بیٹیوں کو بھی، تمام پوتوں کو بھی، تمام پوتیوں کو بھی اور دیگر تمام ذریت کو بھی! لیکن ملنا سب کو چاہیئے، اگر کسی کو بھی محروم کیا، تو آپ کے بقول اللہ کے تاکیدی حکم اور فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر لازم آئے گا! مگر آپ ترتیب نہیں فرما رہے، آپ یہاں بعض کو حق وراثت سےمحروم کرنے کے درپر ہو! جن کے حق کو آپ نے اللہ کا حکم اور عائد کردہ فریضہ قرار دیا ہے!
الجواب:
یہ ہے آنجناب کی اعلیٰ فہم و فراست جس کی اگر داد نہ دی جائے تو ایسی اعلیٰ فہم و فراست اور قرآن و حدیث دانی کی توہین ہوگی۔
بات درجہ بدرجہ پیدا ہونے کی ترتیب کے لحاظ کی ہے لیکن سمجھا گیا عمر کے زیادہ و کم ہونے کے اعتبار سے ترتیب کا لحاظ رکھنا۔ کہاں کا تیر کہاں کا تکہ۔
یہ ''کہیں کا تیر کہیں کا تکہ'' ہمارا نہیں آپ کا تھا! اور یہ آپ کی ''اعلی فہم وفراست'' آپ نے بایں الفاظ رقم فرمائی تھی:
رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔
اور آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے پوتیاں اور ان کی ذریت بھی دادا کی ''حقیقی أولاد'' ہے، جیسے باپ، چچا اور تایا، بقول آپ کی ترتیب کے تو لازم آتا ہے کہ جس ترتیب سے ان کی پیدائش ہوئی ہے، انہیں اس ترتیب سے دیا جائے!
مگر آپ یہ نہیں کرتے، بلکہ آپ، آپ کے بقول بعض ''حقیقی أولاد'' کو دیتے ہیں، اور بعض ''حقیقی أولاد'' کو نہیں دیتے!
ہم نے آپ پر یہ اعتراض کیا تھا، کہ یہاں ترتیب کا معاملہ نہیں، معاملہ یہ ہے کہ آپ، آپ ہی کے بقول بعض ''حقیقی أولاد'' کو محروم کرتے ہیں!
(جاری ہے)