• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
علمائے اہل حدیث سے چند سوالات:
تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھی؟ اور کیا اللہ کے رسول کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے، اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟ یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔
آپ کے یہ سوالات بیوقوفی کی معراج قرار دیئے جا سکتے ہیں!
یہ آپ کا جھوٹ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو بیٹیوں کے فریضہ میں سے حصہ دیا!
جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہی نہیں، تو یہ تمام اعتراض باطل قرار پاتے ہیں!
اور یہ ہفوات آپ کی کج فہمی، کم علمی، گمراہی اور قرآن کی معنوی تحریف کی بنا پر ہے!
میرے یہ سوالات صرف آپ سے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔ میں مشکور ہونگا اور وہ آخرت میں اجر ثواب کے مستحق ہونگے
آپ کے ان سوالات کا ہی باطل ہونا ثابت کیا جا چکا ہے، اور سوالات کا بطلان خود سوالات کا جواب ہوتا ہے!
اب آپ سےکوئی پوچھے، کہ آپ کے سر پر کتنے سینگ ہیں، اور دعوی کرے، کہ اگر آپ انسان ہو، تواپنے سر پر سینگ کی تعداد بتاو! اگر آپ نے تعداد نہیں بتائی، تو آپ انسان نہیں! بلکہ شیطان ہو!
تو کیا آپ اس کے سوال کے جواب میں اپنے سر پر موجود سینگ کی تعداد بتلائیں گے؟
نہیں آپ یہ کہیں گے، کہ انسان کے سر پر سینگ نہیں ہوتے، لہذا انسان کے سر پر سینگ کی تعدا پوچھنا ہی باطل ہے!
آپ کے سوالات بھی اسی قبیل سے ہیں!
الجواب:
محترم کفایت اللہ صاحب!
میں نے یہ سوال کیا تھا: (تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔)
اور اصل سوال یہ تھا کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ
اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔
آپ کے سوال کا جواب دیا گیا ہے، اور ایک بار پھر بالتفصیل بیان ہو گا!
آپ میرے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا مجھے علم میراث سیکھنے کا مشورہ دینے لگ گئے۔ یہ سمجھ کر کہ میں نے غلام پرویز جیسے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر یہ بحث چھیڑی ہے۔ تو میرے محترم آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں۔
ممکن ہے، کہ آپ کو شیطان نے ''بالواسطہ'' نہیں، ''بلا واسطہ'' گمراہ کیا ہو!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں یہاں سے آپ کے اس مراسلہ کے جواب کو موخر کرتا ہوں، کیونکہ آپ نے یہاں ایک نئی بات کا آغاز کیا ہے! اس نئی بات کو شروع کرنے سے قبل میں ان باتوں کو مکمل کرنا چاہتا ہوں، جو پہلے زیر بحث آ چکی ہیں۔

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے امام بخاری کے أبواب کے حوالہ سے بحث کا سیاق خود نقل فرمایا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے محترم مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے حق و حصہ کے اثبات کے لئے ہی باندھا ہے انکار کے لئے نہیں۔ ہے
اس کے جواب میں ہمارا کلام بھی آپ نے خود ہی پیش کیا:
ابن داود نے کہا:
جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں!
درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!
اور پھر اس کا جواب دینے کے لیئے ''الجواب'' کا عنوان باندھا:
الجواب:
''الجواب'' کا عنوان باندھنے کے بعد آپ کا جواب نہ جانے کہاں غائب ہو گیا، اور آپ نے وہی تکرار سوال کی رٹ لگانا شروع کر دی، اور اس پر ''ہانکنے'' کی ہفوات شروع کردی، مگر اس بات کا ذکر تک نہ کیا کہ امام بخاری نے ''إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ'' کی شرط پر پوتے کی وراثت کا اثبات کیاہے!
محترم ابن داود صاحب!
میں نے یہ سوال کیا تھا:

میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا ہےجو صرف بیٹیاں ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا حق و حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
میرے اس سوال کا جواب کسی سے بن نہیں پڑ رہا ہے تو میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے لوگ ادھر ادھر کی ہانکے جاتے ہیں اور الٹا مجھے علم میراث سیکھنے کا مشورہ دینے لگ گئے جیسا کہ کفایت اللہ صاحب نے مشورہ دیا ہے اور آپ اور کفایت اللہ صاحب تو میرے جاہل، بےوقوف، کج فہم،کم فہم، گمراہ، گمراہ فکر وغیرہ وغیرہ ہونے کا فتویٰ لگا ہی چکے ہیں یہ سمجھ کر کہ میں نے غلام پرویز جیسے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر یہ بحث چھیڑی ہے۔
تو میرے محترم آپ سے میرے بنیادی سوال کاجواب تو نہیں بن پڑ رہا ہے اس لئے آپ میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں۔ تو گپ بازی چھوڑیئے اور میرے بنیادی سوال کا جواب عنایت فرمائیے عین نوازش ہوگی۔
آپ کے اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے، ایک بار پھر تفصیل سے بیان کیا جائے گا!
مگر یہ بتلائیے کہ جس بات کے جواب کے لیئے آپ نے ''الجواب'' کا عنوان باندھا ہے، اس کا جواب کجا است؟
جناب من! امام بخاری کے ابواب آپ کے مطابق اس مسئلہ میں آپ کی سب سے بڑی دلیل ہے، اور ہم نے آپ کی زعم کردہ دلیل کا بطلان ثابت کیا ہے!
اور جب آپ سے آپ کی پیش کردہ سب سے بڑی دلیل وثبوت کے بطلان کا جواب نہیں بن پا رہا تو لگے ہیں ادھر ادھر کی۔۔۔۔۔

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے ابن حجر عسقلانی کے کلام پر بحث کا سیاق نقل کیا:
میں نے کہا :
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' نے جو شرح کی ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار ہونے کے اثبات کے باب کےتحت ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس یتیم پوتے کے چچا تائے موجود ہوں۔اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔
اس پر ہمارا جواب آپ نے نقل کیا:
جس پر آپ نےلکھا :
پہلے تو یہ ذہن نشین رہے کہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبارت آپ نے اپنے حق میں پیش کی تھی، کہ جب آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئی عربی شارح و فقیہ نے بھی وہی سمجھا ہے، جو آپ نے، تب آپ نے ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت اپنی تعلیق کے ساتھ پیش کی:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(وَقَوْلُهُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ)(
فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: (باب مِيرَاث ابن الابْن)
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا (والعیاذ باللہ)
میری اس بات پرآپ نے لکھا :
ابن داود نے کہا ہے:

ابن حجر العسقلانی نے تویہ بات نہیں کی! یہ تو عربی عبارت پر آپ کی اپنی فہم کا تڑکہ ہے!
ابن حجر العسقلانی نے یہاں
''دُونَهُمْ'' کے معنی کو مفسر کیا ہے کہ ''أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ'' !
ابن حجر العسقلانی تو یہاں سب سے پہلے ہی ان الفاظ میں آپ کے مؤقف کی تردید کرتے ہیں:

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
اور اب ہم اس پر گفتگو کر رہے ہیں؛
آ پ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو بھی غلط معنی پہنانے کی کوشش کی ہے، ابن حجر عسقلانی نے یہ نہیں کہا کہ کسی پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا، تایا موجود ہوں تو وہ دادا کی وراثت کا حقدار ٹھہرتا ہے! بلکہ ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے کہ پوتے کے وراثت کے حقدار ہونے کی
جو شرط ہے، ''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ''جب اس کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کا صلب نہ ہو'' پھر اس صلب کو بیان کیا ہے ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّه'' ''برابر ہے کہ پوتے کا باپ ہو، یا چچا، تایا!
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛
دیکھیئے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی جگہ کیا فرماتے ہیں:

(قَوْله مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
وَقَوْلُهُ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ
وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ.

اس پر آپ نے لکھا:
ویسے آپ کو اپنے ہی کلام کا مقتضی سمجھنے میں دشواری ہے، ابن حجر کا کلام سمجھنا شاید آپ کے لئے اور مشکل ہو!
اب ہمارے اس جواب پر آپ یوں فرماتے ہیں:
محترم ابن داود صاحب!
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔
یہ تو وہی بات ہوئی جو ہم نے پہلے بیان کی تھی کہ:
بکری نے مارا ہے بکرے کو سینگ
تو بکرا بھی مارے گا بکری کو سینگ
آپ کا یہ حال ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہے، نہ (یوصیکم اللہ فی اولادکم) کا معنی مفہوم معلوم ہے۔نہ ہی (فریضۃ من اللہ) ہی سمجھتے ہیں۔ نہ (دُونَ)اور (من دُونَ) کا ہی معنی مفہوم اور فرق آپ کو معلوم ہے۔
ہم آپ کشید کردہ معنی و مفہوم و مطالب سے متفق نہیں، بلکہ یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت کی جاچکی ہے، کہ آپ کا کشید کردہ ''أولاد'' کا معنی ومفہوم باطل ہے!
لہٰذا یوں کہیئے کہ آپ کے کشید کردہ باطل معنی ومفہوم کے ہم انکاری ہیں! اور آپ کا حال یہ ہے کہ ایک طرف پوتے کو دادا کی ''حقیقی أولاد'' گردانتے ہیں، اور پھر ''اسے ہی ''بمنزلہ أولاد'' بھی قرار دینا چاہتے ہیں!
آپ کا حال تو یہ ہے کہ اپنے ہی کلام کا یہ مقتضی سمجھ نہیں آتا، کہ اگر پوتے کو دادا کی ''حقیقی أولاد'' کہا جائے، تو پھر اسے ''بمنزلہ أولاد'' کہنا عبث ہے!
دیکھیں؛ اگر آپ نے ہمارے کلام پر اور ہم پر نقد کرنا ہے، تو اس طرح دلیل کے ساتھ کیجئے!
یہ ہوائی باتیں نہ کیجیئے!

اسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔
جناب من! دلائل وثبوت سے اپ کے موقف کاببلان کرنا، کٹھ حجتی نہیں!
جبکہ آپ خود بلا دلیل الفاظ کے خود تراشیدہ معنی ومفہوم دوسروں کو منوانے کے لیئے کٹھ حجتی اختیار کیئے ہوئے ہیں!

آئیے ہم آپ کو سمجھاتے ہیں:
دیکھتے ہیں؛ اب ہمیں آپ سمجھناے کا نام پر کیا باور کروانا چاہتے ہیں!
(قَوْله مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
صحیح بخاری کے باب اور حافظ ابن حجر عسقلانی نےجو شرح کی ہے(إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
تو متن مع الشرح عبارت یوں ہوئی:
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
یہ بات یاد رکھیئے گا!
کہ آپ نے یہاں صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ نقل کیئے ہیں:

''باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن''

اب ہم آپ کے اس ترجمہ کا جائزہ لیتے ہیں، کہ کہاں تک یہ اس عربی عبارت کا ترجمہ ہے، اور اس میں آپ نے اپنی فقہ تڑکہ لگاتے ہوئے اس کے معنی میں کتنی تحریف کی ہے!
''(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔''
آپ نے اس اردو ترجمہ کے آغاز میں ''یتیم'' کے جو الفاظ لکھے ہیں، وہ عربی عبارت پر اضافہ ہیں؛
اور یہ اضافہ اس لیئے ہے، امام بخاری کے الفاظ
''ميراث ابن الابن'' کے ہیں، یعنی بیٹے کے بیٹے، یعنی پوتے کی میراث، اورجب پوتے یعنی بیٹے کے بیٹے کی میراث کا ذکر ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ''پوتے کے لیئے دادا کے ترکہ میں میراث'' اس میں ہر ایک شامل ہے، جو بھی میت کا ''ابن الابن'' یعنی پوتا ہے! اور معلوم ہونا چاہیئے کہ دادا اس پوتے کا بھی دادا ہے، جس کا باپ وفات پا چکا، اور اس پوتے کا بھی دادا ہے، جس کا باپ حیات ہے! لہٰذا یہاں ''یتیم کے الفاظ کی زیادتی سوائے جذباتی تڑکہ کے اور کچھ نہیں! دوم کہ جس پوتے کا باپ فوت ہو چکا ہو، اس پر بھی لازماً ''یتیم کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہوتا! اور یہ بات آپ کو معلوم بھی ہے، آگے آپ نے یہ مانا بھی ہے، پھر بھی آپ بار بار ''یتیم'' کے الفاظ استعمال کیئے جارہے ہیں، اور جذبات کے جوش میں یہ خیال نہیں رہتا کہ اگر اس باب کو ''یتیم'' کے لئے مانا جائے، تو اس باب سے ''غیر یتیم'' یعنی وہ پوتے بھی خارج قرار پائیں گی، جن کا باپ فوت ہو چکا مگر وہ یتیم نہیں، یعنی کہ بالغ ہوں!
آپ کے ترجمہ میں ''یتیم'' کے لفظ کے تڑکہ کا فساد یہ ہے، کہ پھر صرف وہی پوتے دادا کی وراثت کے حقدار قرار پاسکتے ہیں، جن کا پاب فوت ہو چکا ہو، اور دادا کی وفات کے وقت وہ نابالغ ہوں، اور کوئی بھی بالغ پوتا دادا کی وراثت کا حقدار نہیں ٹھہرتا، خواہ اس کا باپ حیات ہو، یا فوت ہو چکا ہو، کیونکہ وہ ''یتیم'' نہیں ہوتا!
آپ کو یتیم کے لفظ کا مقتضی ہی سمجھ نہیں آرہا، آور آپ ہمیں اپنی سمجھ کا برحق ہونا باور کروانا چاہتے ہیں!
آپ نے ''یتیم'' کے حوالہ سے اک وضاحت تحریر فرمائی:
میں جو یتیم کا لفظ استعمال کر رہا ہوں تو صرف اس معنی میں کہ جس پوتے کا باپ زندہ نہ ہو قطع نظر اس سے کہ وہ بالغ ہو یا نابالغ اور بطور اختصار استعمال کیا ہے۔
تو جناب! ''الفاظ'' کو آپ نے اپنے گھر کی لونڈی سمجھ رکھا ہے، کہ اسے جیسے چاہیں گے استعمال کریں گے؟ یہ اختیار آپ کو حاصل نہیں ہے، کہ آپ اپنے تئیں، الفاظ کو خود تراشیدہ مفہوم و مطالب کا جامہ پہنا کر استعمال کریں!
آپ کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ آپ ''یتیم'' کے معنی ومفہوم سے قطع نظر کرتے ہوئے، اسے استعمال کریں!
آپ ہیں کون؟ کہ چاہیں تو ''یتیم'' کے معنی و مفہوم کو اپنی خواہش کے موافق مختصر کردیں، اور ''اولاد''، ''ولد'' اور ''والد'' کے معنی کو اپنی خواہش کے موافق وسعت دے دیں!
اسے کہتے ہیں، معنوی تحریف!
اور دوسروں پر بے بنیاد تحریف لفظی ومعنوی کی تہمتیں دھرنے سے باز نہیں آتے!
یہی معاملہ آپ نے ''أولاد''، ''ولد''، ''والد'' اور دیگر الفاظ کے ساتھ کیا ہے!
اور پھر اس پر طرہ یہ کہ مصر ہیں کہ ہم آپ کے تراشیدہ معنی ومفہوم کو تسلیم کریں!
بالفرض آپ نے اسے اپنے کلام میں اپنے مفہوم میں استعمال کر ہی لیا، تو یہ نقص آپ کے کلام کے ساتھ تھا، لیکن ایک تو کریلہ اوپر سے نیم چڑھا کے مصداق آپ اپنے اس خود تراشیدہ مفہوم کا اطلاق دوسروں کے کلام پر کرتے ہوئے، دوسروں کے کلام میں معنوی تحریف کرتے ہیں، اور پھر ہمیں سمجھانے لگے ہیں کہ امام بخاری اور امام ابن حجر عسقلانی کے کلام کا مطلب و مفہوم کیا ہے!
آخر میں آپ نے مجھے اردو ادب سیکھنے کا مشورہ دیا تھا!

اس سے پہلے اپنے اردو ادب کو درست کیجئے۔
کیا یہ ہے آپ کا درست اردو ادب؟ کہ اپنے تئیں، الفاظ کو اس کے معنی ومطالب ومفہوم کے خلاف استعمال کیئے جاؤ!
آپ نے تو ہر فن میں کھلواڑ کرنے کو فن بنا لیا ہے!

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کی زیر بحث عبارت درج ذیل ہے:
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
آپ نے ترجمہ یہ کیا کہ:
''یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو!''
جب آپ نے یتیم پوتا کہہ ہی دیا ہے، تو لازم آتا ہے کہ اس کا باپ نہیں ہے، اسی لئے تو وہ یتیم ہے، اس لئے آگئے جو شرط ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' بیان ہوئی ہے، وہ اس اس کے باپ کے وجود کی نفی کے لیئے نہیں ہو سکتی، کیونکہ ''یتیم'' تو ہوتا ہی اس وقت ہے، لہٰذا اس شرط ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' میں یتیم کے باپ کی شرط لغو اور محال ہے، لہٰذا لازم آتا ہے، کہ اسے ''یتیم'' کے باپ کے نہ ہونا قرار نہ دیا جائے، بلکہ اسے میت یعنی دادا کے کوئی صلبی بیٹے نہ ہونے کی شرط قرار دیا جائے! یعنی نہ اس کا کوئی چچا ہو، نہ اس کا کوئی تایا ہو!
اب آپ نے اگر زبردستی ''یتیم'' کی نعرے بازی نہ کی ہوتی، تو ایک امکان موجود تھا، کہ یہاں دادا کے بیٹے کے لئے، جس شرط کا بیان ہے، اس میں پوتے کے باپ کا نہ ہونا ہے۔
مگر وہ بھی کہ یوں کہ ''پوتے کے باپ کا نہ ہونا'' بھی اس شرط میں شامل ہے! محض پوتے کے باپ کے نہ ہونے سے شرط مکمل نہیں ہوتی! کیونکہ صرف پوتے کا باپ دادا کا صلبی بیٹا ہے، بلکہ پوتے کا تایا بھی صلبی بیٹا ہے، اور پوتے کا چچا بھی صلبی بیٹا ہے!
اور پاب، تایا ہو، یا چچا ہو، ان میں سے کوئی ایک بھی ہو، تو دادا کے صلبی بیٹے کا وجود ہوتا ہے، اور دادا کے صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط مفقود ہو چاتی ہے!
لہذا یہاں تک یہ بات ہے کہ آپ کے درج ذیل ترجمہ:

یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
سے ''یتیم'' کو نکال دیا جائے، تو
''پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' درست ہے!

اس کے بعد آپ نے یعنی کرکے اگلی ترجمہ کے نام پر عبارت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے، اس کے کیا ہی کہنے:
آپ کی عبارت پھر پیش کرتا ہوں:
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔

آپ کے اس ترجمہ کے اگلے حصہ کا جسے ملون کیا گیا ہے، اس کا بھی لغو ہونا بتلاتے ہیں!
آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو، اور تایا چچا ہوں تب بھی دادا کا وارث، اور یا تایا چچا نہ ہوں تب بھی دادا کا وارث!
اب آپ کو کون یہ سمجھائے کہ اب اگر چچا تایا کے ہوتے ہوئے بھی پوتا دادا کا وارث بنتا ہے، تو تایا اور چچا کے نہ ہونے پر دادا کا وارث بننے کا ذکر کرنا ہی لغو ولایعنی ہے!
میرے بھائی!یہ لغو اور لایعنی بات آ کے ذہن کے اخترا ہے، امام ابن حجر عسقلانی نے یہ لا یعنی بات نہیں کہی!
پہلے تو یہ بتلائیے کہ آپ نے اس ملون فقرے میں پاپ کے اور چچا کے ہونے کی نفی پر کیوں تعبیر کیا ہے؟
عربی عبارت تو یوں ہے:

''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
اس میں تو ''ہونے'' کا بیان ہے، ''نہ ہونے'' کا بیان تو نہیں!
آپ عبارت کا ترجمہ نہیں فرمارہے، آپ عبارت پر زبردستی اپنی خواہش کو ٹھوسنا چاہتے ہیں!
اور آپ نے یہاں ''یعنی'' کہاں سے اخذ کیا؟ جہاں یعنی تھا،

''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ''
''جب میت کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کے لئے اس کا صلبی (نہ ہو)''
آپ نے اس کا ترجمہ کیا:

جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
یہاں تو آپ نے ترجمہ کرتے ہوئے یعنی کو حذف کر دیا، لیکن خیر آپ نے ''صلبی بیٹا'' لکھا تو مفہوم ادا ہو گیا!
مگر
''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' میں آپ نے ''یعنی'' کو داخل کرکے اس کا ''بلا واسطہ'' ''إِذا لم يكن ابن'' سے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
حالانکہ
''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' کا تعلق ''لِصُلْبِهِ'' سے ہے۔
عبارت یوں ہے کہ:

''أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
ابن حجر عسقلانی کی یہ عبارت ''إِذا لم يكن ابن'' میں ''ابن'' کو بیان کر رہی ہے!
مطلب کہ ابن یعنی میت کے لیئے صلبی، (صلب ہونے میں ) برابر ہے، کہ وہ اس کا (پوتے کا) باپ ہو، یا اس کا (پوتے کا) چچا تایا ہو!
مطلب کہ جب پوتے کا پاب ہو گا، تو میت کا ''ابن'' یعنی صلبی بیٹا موجود ہے، یا جب میت کا چچا تایا ہو، میت کا صلبی بیٹا موجود ہے۔
اور جب صلبی بیٹا ہے، تو
''إِذا لم يكن ابن'' مفقود ہے۔
اس عبارت کا ترجمہ یوں درست ہے:
پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا بیٹا نہ ہو یعنی میت کا صلبی بیٹا، خواہ وہ پوتے کا باپ ہو، یا پوتے کا چچا تایا!
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
پھر اس میں ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ ''یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں'' کا تقاضا ہے، کہ چچا تایا کی موجودگی سے کوئی فرق نہ پڑے، لیکن اس سے قبل جو شرط ہے، وہ پوری نہیں ہوتی، کہ ''میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' بلکہ اس شرط کا کی نفی اور انکار لازم آتا ہے!
یہ نفی اور انکار ابن حجر عسقالانی نے نہیں کیا، بلکہ آپ فرما رہے ہیں!
اب آپ ''أولاد'' میں ''تمام ذریت'' کو تو شامل قرار دیتے ہیں، اور نہ جانے پوتے کے چچا تایا کو دادا کے صلبی بیٹا ماننے سے انکار کیوں ہے!
چچا تائے کا وجود صلبی بیٹے کے وجود کو متحقق ہے، اور صلبی بیٹے کے ہوتے پوتا دادا کی وراثت کا حقدار نہیں!

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب یہاں باپ نے نہ ہونے کی صورت میں مسئلہ کی دو صورت بنتی ہے:
ایک یہ کہ صرف باپ نہ ہو البتہ چچا تائے ہوں۔
اور دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ باپ بھی نہ ہو اور نہ ہی چچا تائے ہی ہوں۔
دونوں ہی صورتوں میں یتیم پوتا اپنے باپ کے نہ رہنے پر بمنزلہ اولاد وبیٹے کے اپنے دادا کے ترکہ میں وارث، حقدار اور حصہ دار ہے۔
یہ آپ کا وہم ہے؛
نہ قرآن وحدیث میں یہ بیان ہے، نہ امام بخاری اور امام ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے، کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے پوتا دادا کی وراثت کا حقدار اور حصہ دار ہے، بلکہ ابھی ہم تفصیل سے یہ بتلا آئیں ہیں، کہ امام ابن حجر عسقلانی نے امام بخاری کی بیان کردہ شرط
''إِذا لم يكن ابن'' میں ''ابن'' کا ''صلبی بیٹا'' ہونا بتلایا ہے، اور صلبی بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت کا حقدار نہیں!
آپ بھی ویسے کمال کرتے ہیں: ایک طرف تو ''تمام ذریت'' کو ''حقیقی أولاد'' قرار دیتے ہیں، اور یہاں نجانے کیوں آپ تایا چچا کو ''صلبی بیٹا'' ماننے سے گریزاں ہے!

اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو کیا یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔ تو اسی سوال کا جواب امام بخاری نے باب باندھ کر دیا کہ وہ وارث حقدار اور حصہ دار ہے۔
امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ یہ ہے کہ پوتا دادا کی وراثت سے اس وقت وراثت کا حقدار ہو گا، جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!
اور آپ امام بخاری پر جھوٹ باندھنے سے گریز کریں!
اب اس کے بعد ایک مسئلہ یہ ہے کہ باپ تو نہیں ہے البتہ اس کے چچا تائے ہیں تو کیا وہ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے یا نہیں تو اس اغماض کو حافظ ابن حجر نے ان الفاظ میں دور کردیا ہے:
(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
یعنی ایک صورت یہ کہ صرف باپ نہیں ہے البتہ چچا تائے تو بھی وہ حقدار و حصہ دار ہے دوسرے یہ کہ باپ بھی نہیں ہے اور چچا تائے بھی نہیں ہیں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
آپ کے اس بیان کا بطلان اوپر تفصیل سے بیان ہوا!
کا تعلق صلبی أولاد کے ہونے سے ہے، کہ باپ ہو یا تایا چچا، دونوں بہر صورت صلبی أولاد کا وجود ہوتا ہے!
حافظ ابن حجر نے (أَوْ) کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ (وَ) لفظ استعمال کیا۔ ہے جس کا معنی ہوتا ہے یا یہ یعنی اس کا باپ نہ ہو۔ یا پھر یہ یعنی اس کا چچا تایا بھی نہ ہو چنانچہ کہا کہ(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
یعنی خواہ اس کا باپ نہ ہو تب بھی وہ بمنزلہ اولاد میت ہونے کے اپنے دادا کا وارث حقدار وحصہ دار ہے۔
خواہ اس کا چچا تایا بھی نہ ہو تب بھی وہ بمنزلہ اولاد میت ہونے کے اپنے دادا کا وارث حقدار وحصہ دار ہے۔
میرے بھائی جان! یہاں نہ ہونے کاذکر نہیں، بلکہ ہونے کا ہے، کہ ان کے ہونے سے دادا کا صلبی بیٹا کا وجود پایا جاتا ہے، لہٰذا ہر دو صورت کہ پاب ہو یا چچا یاتا ہوں، پوتا دادا کی وراثت کو حقدار وحصہ دار نہیں!
چونکہ مسئلہ یتیم پوتے کے باپ کے نہ ہونے پر اس کے دادا کے ترکہ میں ہونے حقدار و حصہ دار ہونے یا نہ ہونے کا ہے اور امام بخاری نے اس کی توریث کے اثبات کا باب باندھا ہے انکار کا نہیں۔
متعدد بار آپ کو بتلایا ہے، کہ امام بخاری نے یہ پوتے کی وراثت کے مشروط ہونے کا باب باندھا ہے، اور وہ شرط ہے، ''إِذا لم يكن ابن''
جس میں ابن حجر عسقلانی کی نے وضاحت کی ہے، کہ ''ابن'' یعنی صلبی بیٹا''
اور امام بخاری نے یہ باب
''يتیم پوتے'' کی وراثت کا نہیں باندھا بلکہ ''پوتے'' کی وراثت کا باندھا ہے، خواہ وہ یتیم ہو یا نہ ہو!
جیسا کہ اس کے بعد والا باب یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں حق وحصہ ہونے کے اثبات کا ہے۔
اس باب میں بھی دادا کے صلبی بیٹا نہ ہونے شرط پوری ہوتی ہے!
ویسے ایک بات بتلائیں! اس حدیث میں، یا اس باب میں کہیں ذکر ہے کہ پوتی ''یتیم'' تھی!
یعنی کے بالغ نہ تھی!، اس کا والد حیات نہیں تھا، یہ تو اس حدیث سے ثابت ہے، اور اس کا کوئی تایا چچا بھی موجود نہیں تھا، یہ بھی اس حدیث سے ثابت ہے!
لیکن اس حدیث میں مجھے تو یہ بات نظر نہیں آئی کہ وہ ''یتیم'' بھی تھی!
آپ کے پاس سوائے ''یتیم'' کی نعرے بازی کے کچھ بھی نہیں!



(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہاں تو آپ نے کمال ہی کردیا، کہ اپنی خواہش کے مطابق ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں بنانے کی مذموم کوشش کی ہے؛
اول تو یہ بتلایا جا چکا ہے کہ کا
''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' تعلق سے ''ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ہے، نہ کہ ''لم يكن'' سے، اسی کج فہمی کی بنیاد پر آپ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو دو لا یعنی جملوں میں تقسیم کر دیا!
[1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔
یہ بالکل ہی لغو، اور عبس بات ہے!
کہ جب یتیم ہوتا کہہ رہے ہو، تو اس پر یہ شرط''یعنی پوتے کا پاب نہ ہو'' یہ شرط بالکل لغو اور عبس ہے، اور اس کا شرط ہونا ہی محال ہے! کیونکہ یہ تو یتیم، تو ہوتا ہی وہ ہے، جس کا باپ نہ ہو!
دوسرابطلان اس میں یہ ہے، کہ شرط ہے ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' اور صرف پوتے کا باپ ہی صلبی بیٹا نہیں ہوتا! بلکہ پوتے کے چاچا اور تایا بھی صلبی بیٹے ہوتے ہیں!

اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔
اس کا سیدھا سا جواب ہے، نہیں پائے گا، کیونکہ میت کا صلبی بیٹا موجود ہے! اور پوتے کے وارث ہونے کے لئے شرط ہے، کہ میت کا صلبی بیٹا نہ ہو!
[2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔
آپ کی اس عربی عبارت میں کہیں بھی ''یتیم'' کا ذکر تک نہیں! اور آپ نے یہاں بھی ترجمہ میں ''یتیم'' کا نعرہ لگا دیا!
یہ بھی درست نہیں، اس صورت میں تو پوتے کے باپ کا نہ ہونا لازم ہی نہیں آتا، بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے، کہ جب پوتے کے چچا تایا نہ ہو، اس میں باپ کے نہ ہونے کی بات ہی نہیں!
اگر یہ بات مان لی جائے تو پوتے کو چچا تایا کہ عدم موجودگی میں دادا کی وراثت کا حقدار قرار دینا چاہیئے، خواہ اس کا باپ حیات ہو، یا فوت ہو چکا ہو!
کیونکہ یہاں بھی یتیم ہونے کا ذکر عبارت میں نہیں، یہ آپ کی محض نعرے بازی ہے!
آپ کی اس عبارت کا ترجمہ یوں ہوگا:

''(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).''
''پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو، یعنی پوتے کے چچا تائے نہ ہوں۔''
اور یہاں آپ نے پوتے کے تایا کو صلبی بیٹا ہونے کا انکار کردیا ہے، کہ چچا تائے کہ نہ ہونے سے دادا کا صلبی بیٹے کا وجود نہ ہو گا!
آپ نے یہاں ''أؤ'' یعنی ''يا'' سے دو جملے بنائے ہیں! یعنی یا باپ نہ ہو یا چچا تایا نہ ہوں!
یوں نہیں کہ'' یا باپ نہ ہو''، ''یا پھر باپ بھی نہ ہو، اور چچا تایا بھی نہ ہوں''!
اور یہ آپ کے کلام کا نقص ہے، نہ کہ ہمارا مدعا!

لہذا اس باب میں دو ٍصورتوں کو بیان کیا گیا ہےپہلی صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا باپ ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا چچا تایا ہے۔
اول تو یہاں پھر آپ کے ''یتیم'' کے الفاظ اضافی اور لغو ہیں!
آپ نے تو اپنی ہی بنائی ہوئی عربی عبارت کا ترجمہ غلط کر دیا تھا، جس پر ہم نے آپ ابھی اوپر متنبہ کیا ہے، اور یہی بات ہم نے آپ کو بتلائی ہے، کہ آپ نے دو صورتیں بیان کی ہیں!
ایک کہ پوتے کا باپ نہ ہو، اور دوسری کہ پوتے کا چچا تایا نہ ہو!
اور آپ کی بنائی ہوئی عربی عبارت کے مطابق دو صورتیں یہ ہیں:
اول: پوتے کا باپ نہ ہو اور
چچا تایا ہوں، تب بھی پوتا دادا کی وراثت میں حقدار قرار پاتا ہے،
دوم:
پوتے کا باپ ہو ، اور چچا تایا نہ ہوں، تب بھی وتا دادا کی وراثت میں حقدار قرار پاتا ہے۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے نہ ہوں۔
امام بخاری اور ابن حجر عسقلانی کی عبارت کا مطلب تو یہی ہے، اور یہ مطلب آپ کو قبول نہیں، تو یہ باور کروانا کا اس کا یہ مطلب نہیں، سوائے دھاندلی کے کچھ نہیں!
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ (أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) میں (أَوْ) کا لفظ آیا ہے جس کا معنی (یا) ہوتا ہے (اور ) نہیں ہوتا ہے۔ جو دو صورت حال پر دلالت کرتا ہے۔ اگر (أَبَاهُ وَ عَمَّهُ) ہوتا تب اس کا معنی ہوتا کہ اس کا باپ اور چچا دونوں نہ ہوں۔
یہاں ''أؤ'' یعنی ''یا'' نہ ہونے کے لئے نہیں، بلکہ ہونے کے لئے وارد ہوا ہے؛ ''أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' یعنی میت کا صلبی، خواہ باپ ہو، یا چچا تایا
بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔
اس کا جواب ہے؛ نہیں!
دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار و حصہ دار ہونے کے اثبات کا باب ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس کے چچا تائے موجود ہوں۔
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، بخاری میں ''پوتے کی وراثت'' کا باب ہے، محض ''يتیم پوتے کی وراثت'' کا باب نہیں! اور پوتے کی وراثت کا باب مشروط ہے کہ جب ''إِذا لم يكن ابن'' دادا کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو!
اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔
ایک بار پھر اس کا جواب ہے؛ نہیں!
اس کے بعد امام ابن حجر آگے شرح کرتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ.
اس کا معنی یہ ہوا کہ اولاد کی اولاد بمنزلہ صلبی اولاد کے ہے۔ یعنی صلبی اولاد (بیٹوں) کی اولادیں ان کے درجہ میں ہیں یعنی ان کے قائم مقام ان کی اولادیں ہیں۔ یعنی بیٹے کے قائم مقام اس کی اولادیں اور بیٹی کے قائم مقام اس کی اولادیں۔
زبردست! یعنی کہ اب آپ کو یہ بات تسلیم ہے، کہ پوتا پوتی دادا کی حقیقی أولاد نہیں!
اور پوتا اور پوتی داداکی صلبی أولاد نہیں!
بلکہ ''بمنزلہ'' ہے!
کوئی شخص کسی کا قائم مقام اسی وقت بنتا ہے جب اس کے اوپر کا وہ شخص نہ ہو جس کا وہ نائب ہے اور وہ اس کے نیچے کاہے تو جب اصل نہیں رہتا ہے تو اس کی جگہ اس کا نائب آتا ہے تو کہا جاتا ہے (قام مقامہ) یعنی وہ اس کی جگہ کھڑا ہو یعنی وہ اس کا قائم مقام بنا۔ مثال کے طور پر صدر کا ایک نائب صدر ہوتا ہے جو صدر کے نہ رہنے پر اس کا قائم مقام بنتا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کا نائب ہوتا ہے جو وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا ہے کہ صدر کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کا نائب، صدر کا قائم مقام بن جائے یا وزیر اعظم کے نہ رہنے پر صدر کا نائب وزیر اعظم کا قائم مقام بن جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کی حد بندی کی گئی ہے۔ باوجود یکہ ان میں کا ہر ایک حکومت کا حصہ ہوتے ہیں پھر بھی نائب صدر وزیر اعظم کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کی جگہ نہیں لیتا ہے اور نہ ہی وزیر اعظم کے نہ رہنے پر نائب صدر وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ بلکہ نائب صدر صدر کا قائم مقام بنتا ہے اور نائب وزیر اعظم وزیر اعظم کا قائم مقام بنتا ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی اپنی اپنی حدیں جس میں اس کو رہنا ہے۔
بعینہ یتیم پوتے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ یتیم پوتا چونکہ اپنے باپ کا نائب ہے اپنے چچا تائے کا نہیں ہے لہذا جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو وہ اس کا قائم مقام ہوگا اور اپنے باپ کی جگہ پر آئے گا اس کے چچا تائے اس کے باپ کی جگہ نہیں آسکتے ہیں۔
تو جناب من! سب سے پہلے ایک اعلان رقم فرمائیے کہ آپ پوتا پوتی کو دادا کی حقیقی أولاد کہنے سے رجوع فرماتے ہیں! بلکہ انہیں باپ کے نہ ہونے پر ''بمزلہ'' سمجھتے ہیں!
یہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں، کہ ''حقیقی أولاد'' بھی ہو، اور اسے ''بمنزلہ أولاد'' بھی کہا جائے!
پوتے کے چچا تائے، باپ کے نہ ہونے پر باپ کی جگہ نہیں آتے!
لیکن پوتے کے پاب کے نہ ہونے سے، پوتے کے چچا تائے، دادا کی صلبی أولاد سے خارج بھی نہیں ہوتے!
اور یہ بات آ نے خود رقم کی ہے کہ دادا کی وارثت میں پوتے کے حقدار ہونے کے لئے شرط ہے کہ دادا کی صلبی بیٹا نہ ہو!
جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
ویسے آپ کی صدر وزیر اعظم والی مثال بھی کافی ناقص ہے، ہر ملک میں نائب صدر نہیں ہوتا، کہ صدر کا قائم مقام بنے، کہیں، پالیمنٹ کا اسپیکر ، اور چیف جسٹس بھی قائم مقام بنتے ہیں! خیر اس مثال پر تو بحث کو رہنے ہیں دیں!
دوم کہ پوتا ''بمزلہ أولاد'' اس وقت قرار پاتا ہے، جب دادا کی مذکر أولاد نہ ہو، اور جب تایا چچا ہوں، تو وہ دادا کی ''بمزلہ أولاد'' قرار نہیں پاتا!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہی بات زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی کہی ہے:
(وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ)،
اس کے بعد امام ابن حجر آگے شرح کرتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ). [فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: باب مِيرَاث ابن الابْن]
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا نہ ہو جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے۔
آپ کو بتلایا جا چکا ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ''
جیسا کہ فتح الباری میں ہے:
إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ قَوْلُهُ وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ إِلَخْ وَصَلَهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِيهِ وَقَوْلُهُ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ وَقَوْلُهُ وَلَدٌ ذَكَرٌ احْتَرَزَ بِهِ عَنِ الْأُنْثَى وَسَقَطَ لَفْظُ ذَكَرٍ مِنْ رِوَايَةِ الْأَكْثَرِ وَثَبَتَ لِلْكُشْمِيهَنِيِّ وَهِيَ فِي رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْمَذْكُورَةِ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 439 جلد 15 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 17 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 – 13 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار إحياء التراث العربي، بيروت

ابن حجر عسقلانی نے یہاں ''وَقَوْلُهُ وَلَدٌ ذَكَر'' کی شرح کی ہے، ''احْتَرَزَ بِهِ عَنِ الْأُنْثَى'' اور اسے صحیح بخاری کی ''الْكُشْمِيهَنِيِّ'' کی روایت سے ثابت بتلایا ہے اور یہ بھی بتلایا کہ یہ الفاظ ''سَعِيدِ بْنِ مَنْصُور'' کی روایت میں موجود ہیں!
معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی عبارت ابن حجرعسقلانی یوں بیان کرتے ہیں:

''إذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُم وَلَدٌ ذَكَرٌ''
اسی طرح فتح الباری کے درج ذیل طبعات میں مطبوع ہے:
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 16 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 17 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 16 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – المكتبة السلفية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 317 جلد 21 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار الرسالة العالمية، دمشق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 13 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – طبع جديد المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق – مكتبة ابن تيمية، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2974 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – بيت الأفكار الدولية للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 21 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار السلام، الرياض

مزید کہ ابن حجر عسقلانی نے صحیح بخاری کی معلقات کی تحقیق پر تغليق التعليق على صحيح البخاري مرتب فرمائی ہے، اس میں اس روایت کو بایں الفاظ نقل کیا ہے:
بَاب مِيرَاث ابْن الابْن إِذا لم يكن ابْن
وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ ح 327 أ / دُونَهُمْ
وَلَدٌ ذَكَرٌ ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ وَلا يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ
قَالَ سعيد بن مَنْصُور فِي السّنَن حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ثَنَا أَبِي ثَنَا خَارِجَةُ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيه بِهَذَا

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 214 جلد 05 تغليق التعليق على صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – المكتب الإسلامي، بيروت – دار عمار، عمان


''وَلَدٌ ذَكَرٌ'' کے الفاظ صحیح بخاری کی درج ذیل طباعت میں حاشیہ میں بھی موجود ہے:
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 151 جلد 08 صحيح البخاري عن الطبعة الأميرية نسخة اليونيني بروايات الأصيلي وأبي ذر الهروي والسجزي وابن عساكر معزواً إلى تحفة الأشراف وفتح الباري وتغليق التعليق وعمدة القاري وإرشاد الساري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار طوق النجاة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 418 جلد 08 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار التأصيل، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 188 جلد 08 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الشعب، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2961 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – مكتبة البشری، كراتشي

یہی نہیں بلکہ صحیح بخاری کی یہ روایت درج ذیل مطبوعات میں کے الفاظ ''وَلَدٌ ذَكَرٌ'' کے ساتھ مطبوع ہے:
وَقَالَ زَيْدٌ: «وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ، وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ»
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1073 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الحضارة للنشر والتوزیع، الرياض

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1416 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – وزارة الشؤون الإسلامية والدعوة والإرشاد السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 06 جلد 08 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الطباعة العامرة - تركيا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2477 جلد 06 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار ابن كثير، (دمشق، بيروت) – اليمامة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1286 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – بيت الأفكار الدولية للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1692 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1669 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – دار ابن كثير، دمشق – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 238 جلد 04 الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري – أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري (المتوفى: 256هـ) – المطبعة السلفية ومكتبتها، القاهرة

مزید کہ أبو العباس القرطبي ضياء الدين أحمد بن عمر الأنصاري الأندلسي القرطبي (المتوفى: 656 هـ) نے اپنی کتاب اختصار صحيح البخاري وبيان غريبه میں بھی ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:
باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، وميراث ابنة الابن مع الابنة
قال زيد: ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم
ولد ذكر، ذَكَرُهم كَذَكَرِهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، وَيَحْجُبُون كما يَحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 131 جلد 05 اختصار صحيح البخاري وبيان غريبه – أبو العباس القرطبي ضياء الدين أحمد بن عمر الأنصاري الأندلسي القرطبي (المتوفى: 656 هـ) – دار النوادر، دمشق


اس میں پوتے، پوتیوں کو وراثت کے حقدار قرار پانے کی شرط یوں ہے:
''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ''
اب میں عربی لغت کی تفصیل میں تو نہیں جاتا، کہ ''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' صرف وَلَدٌ کے نکرہ ہونے کی وجہ سے بھی اسے خاص ولد قرار نہیں دیا جاسکتا تھا، جیسے کہ آپ اسے یتیم پوتے کے فوت شدہ والد قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اور جب کہ ذَكَرٌ بھی ساتھ شامل ہے، تو یہ تو اور بھی محال ہو گیا، کہ اسے دادا کا خاص بیٹا مراد لیا جائے، جو فوت ہو چکا ہے!
کیونکہ یہاں شرط یہ ہے میت کی نرینہ اولاد نہ ہو!
نرینہ اولاد صرف پوتے کا فوت شدہ والد ہی تو نہیں، کہ اس کے نہ ہونے سے شرط پوری ہوجائے! اگر چچا یا تایا موجود ہوں، تو وہ بھی نرینہ اولاد ہیں، لہٰذا پوتے کے چچا، اور تایا کہ موجودگی میں، مذکورہ شرط پوری نہیں ہوتی، خواہ ان کے والد فوت ہو چکے ہوں، اور جب شرط مفقود ہے، تو پوتے اور پوتیاں دادا کی وراثت میں حقدار نہیں ٹھہرتے!
یہی بات ابن حجر عسقلانی نے بیان کی ہے،

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے
یہاں واسطے کی بات نہیں، بلکہ دادا کی مذکر أولاد کی بات ہے!
اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا۔ (والعیاذ باللہ)۔
متعدد بار بتلایا ہے، کہ اس حدیث میں دادا کی مذکر أولاد نہیں تھی! ہم تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فیصلہ بعین اسی طرح مانتے ہیں، لیکن آپ اس فیصلہ کے منکر ہو!
پھر آپ نے ہمارا کلام نقل کیا ہے:
میری اس بات پر آپ نے لکھا :
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛
اس پر آپ فرماتے ہیں:
آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں یتیم پوتے پوتی کے وارث ہونے کے لئے بنیادی شرط صرف یہ ہے کہ ان کا باپ موجود نہ ہو۔ چچا تایا کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے کیونکہ یتیم پوتے اور اس کے دادا کا توارث ایک دوسرے کے ترکہ میں اس وقت ثابت ہو جاتا ہے جب ان کا باپ وفات پاچکا ہوتا ہے اور جب تک وہ موجود رہتا ہے ان دونوں کے درمیان حجب قائم رہتا ہے۔ اس میں چچا تائے کا کوئی دخل نہیں ۔ نہ توارث کے سلسلہ میں اور نہ ہی حجب کے سلسلہ میں۔
یہ تو آپ نے جہالت کی انتہا کردی! جس مدعا پر بحث کی جا رہی ہے، اسی مدعا کو دلیل بنا کر کوسنے دینا شروع ہو گئے ہیں! معلوم ہوتاہے کہ آپ کی پٹاری میں نعرے بازی اور کوسنوں کے سوا کچھ نہیں!
ہمیں معلوم ہے، کہ یہ آپ کا مدعا ہے، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کے اس مدعا پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ آپ کے مدعا کے بطلان پر قرآن وحدیث کے دلائل موجود ہیں!
زور زبردستی سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔
زور زبردستی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ابھی آپ نے اس سے متصل ہی کیا ہے! ہماری بات کا کوئی جواب نہیں دیا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے پوتے کو دادا کی مذکر أولاد کے نہ ہونے ''بنزلہ أولاد'' کہا ہے، نہ کہ دادا کی مذکر أولاد کے ہونے پر! پاب، تایا، چچا، یہ سب دادا کی مذکر أولاد ہیں! اور مذکر أولاد کے ہونے پر پوتا ''بمزلہ أولاد'' نہیں ہوتا!
اس کا جواب آپ کے پاس ہے نہیں، اور نہ ہو سکتا، تو آپ نے کوسنے شروع کردیئے!
یتیم پوتے کا باپ، چچا اور تایا یتیم پوتے کے دادا کی علاحدہ علاحدہ شاخیں ہیں اور ہر ایک کی الگ الگ حدیں ہیں لہذا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ باپ کی جگہ چچا یا تایا آجائے ۔ باپ کی جگہ اگر کوئی لے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اس کے بیٹے اور بیٹیاں۔ بیٹے بیٹی کے ہوتے کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ جس طرح صدر و نائب صدر اور وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم حکومت کے دو علاحدہ علاحدہ عہدے ہیں اور ان کی اپنی اپنی حدیں و اختیارات ہیں اور کوئی ان سے تجاوز نہیں کرتا ہے ٹھیک اسی طرح سے ہر بیٹے بیٹی کی اپنی اپنی حد ہے جو اللہ نے بنائی و قائم کی ہوئی ہے۔
ہم نے تو کہیں یہ نہیں کہا کہ چچا تایا، باپ کی جگہ لے لیتے ہیں!
یہ فرضی باتیں کرکے آپ کیوں خلط مبحث فرما رہے ہیں!
اگر ایسا نہ ہو تو کسی بیٹے کے مرجانے پر باپ اس کی بیوہ سے شادی کر لے۔ یا دادا یا نانا کے مرنے پر یتیم پوتا یا نواسا اپنی دادی یا نانی سے نکاح کرلے۔
یہ تو عجب کہی! اب آ جس طرح پوتے کو باپ کا قائم مقام قرار دے رہے، ہو تو کیا وہ اپنے باپ کی زوج کے ساتھ بھی اہی اختیار رکھتا ہے، جو اس کا باپ رکھتا تھا؟
ایسی بیوقوفی کی باتیں کرنے سے گریز کریں!
اگر اتنی بھی سمجھ کسی کے اندر نہ ہو تو اس کو سمجھانا بیکار ہے۔
ضیا کو تیرگی اور تیرگی کو ضیا سمجھے
پڑیں پتھر عقل ایسی پہ وہ سمجھے تو کیا سمجھے

تو اس کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اللہ نے بیان فرمایا ہے:
(
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (170) وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (171) [البقرة]
اب آپ نے اپنے کلام کو ''مَا أَنْزَلَ اللَّهُ'' گمان کیا ہوا ہو، تو الگ بات ہے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے اپنے کلام کا قتباس پیش کیا:
میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا ہے:
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
اس پر ہمارا جواب نقل کرنا چاہا؛
اس کے جواب میں آپ کا ارشاد گرامی ہے:
مگر ہمارا جواب ادھورا ہی نقل کیا!
میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
آپ نے اس پر ہمارے جواب کو بھی آدھا ہی نقل فرمایا!
اور جو بات آپ سے کہی گئی، اس کا جواب نہ دینے میں ہی عافیت جانی!

ہم نے آپ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو یہاں اس حدیث میں میت کی کوئی نرینہ اولاد، مذکر اولاد نظر آرہی ہے۱
اور یہ بات بالتفصیل بیان کی جا چکی ہے، کہ اس حدیث میں پوتی کو وراثتکا حصہ اس صورت ملا کہ دادا یعنی میت کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی!
اس کا جواب دینے کہ بجائے آپ ادھر ادھر کی ۔۔۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا جو فتویٰ ہے وہ محض قیاسی ہی ہے۔ قرآن وحدیث کی اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
آنجناب کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ دادا کو یتیم پوتے پر قیاس کر کے ہی یتیم پوتے کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اور اس بات پر جملہ صحابہ کرام کا اجماع ہوا ہےکہ (الجد اب) یعنی دادا باپ اور والد ہے۔
اس کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی! اور معلوم ہونا چاہیئے، کہ دادا کے ''اب'' ہونے کا مسئلہ ''قیاسی'' نہیں! بلکہ ''مستدل بالقرآن'' ہے! اور یاد رہے، ''اب''' ہونے کا مسئلہ، نہ کہ ''والد'' ہونے کا!
تو جب یتیم پوتے کا دادا بالاجماع اس کا باپ و والد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا تو اس کا یتیم پوتا بھی اپنے دادا کا بالاجماع بیٹا وا ولاد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا ۔
آپ بھی کمال کرتے ہیں! پہلے دادا کا باپ کے نہ ہونے پر پوتے کا وارث قرار پانے کو قیاس اور پوتے کو دادا باپ کے نہ ہونے پر مقیس علیہ قرار دیتے ہیں، اور پھر اس کے ساتھ ہی قیاس یعنی دادا کا باپ کے نہ ہونے پر پوتے کا وارث قرار پانے کو مقیس علیہ قرار دے دے کر پوتے کو باپ کے نہ ہونے پر قیاس کرتے ہیں!
یعنی پہلے جسے مقیس علیہ بنا کر جو قیاس تھا، اسی قیاس کو پھر مقیس علیہ بنا رہے ہیں!
اور قیاسی مسئلہ کا الزام ہم پر لگاتے ہیں، کہ پوتے کا دادا کی وراثت میں دادا کی مذکر أولاد ہونے پر وراثت میں حقدار قرار نہ ہونا، قیاسی مسئلہ ہے!
اللہ کا فرمان ہے(مالکم کیف تحکمون) کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے کیسے فتوے دیتے اور حکم لگاتے ہو۔ (القرآن)
یہ کیسے ہو سکتا ہے ایک طرف دادا تو اپنے یتیم پوتے کا حقیقی باپ و والد اور وارث ہواور اس کے ترکہ کاحقدار و حصہ دار بنے۔ ان دونوں کے درمیان چچا تائے حاجب اور رکاوٹ نہ بنیں اور جب پوتے کا معاملہ ہو چچا تائے آڑے آجائیں اور حاجب بن جائیں۔
یہ آپ کے اٹکل بچو ہیں، قرآن وحدیث سے اس پر کوئی دلیل نہیں!
بلکہ اس کے برعکس کا اثبات قرآن و حدیچ سے کیا جا چکا ہے، اور ایک بار پھر تفصیل ذکر کیا جائے گا، ان شاء اللہ!

واہ یہ بڑی عادلانہ و منصفانہ بات ہے۔ دادا کا مال اس کے پوتے پر اس کے زندہ رہنے تک تو حلال تھا اور جیسے ہی دادا مرا اس کا مال اس کے پوتے پر حرام ہوگیا۔ جرم خود کا الزام اللہ کے اوپرکہ اللہ نے تو پوتے کا حق رکھا ہی نہیں ہے۔
آپ نے شاید اپنے اٹکل بچو کو شریعت گمان کر لیا ہے!
میرے بھائی! پڑوسی بھی اگر اس کی زندگی میں اپنا مال اس ''دادا کے پوتے'' پر خرچ کرے، تو وہ بھی حلال ہے، اب پوتا پڑوسی کے مرنے کے بعد دعوی کر دے کہ اس کی زندگی میں اس کا مال مجھ پر حلال تھا، لہٰذا اس کی وراثت میں مجھے بھی حصہ دو، میں بھی حقدار و حصہ دار ہوں، تو فوت شدہ پڑوسی کے ورثا کا حق ہے، کہ اس ''پوتے'' کو جوتے رسید کریں!

اللہ نے یتیم پوتے کو اس کے باپ کے واسطے سے پیدا کیا ہے اس کے چچا تائے کے واسطے سے پیدا نہیں کیا کہ وہ اس کے آڑے آئے اور اسے اس کے باپ اور دادا کی اولاد بنایا چچا تائے کی اولاد نہیں بنایا
صرف ''یتیم پوتے'' کو؟
یہ واسطہ تو ہر پوتے کے ساتھ ہے، خواہ وہ یتیم ہو یا نہ ہو!
اس کا باپ حیات ہو یا نہ ہو!
اور آپ اللہ پر جھوٹ بولنے سے باز رہیں!
آپ کے بقول ''أولاد'' ہمیشہ ''حقیقی'' ہوتی ہے، لہذا آپ کا یہ کہنا کہ اللہ نے پوتے کو دادا کی ''أولاد'' یعنی ''حقیقی أولاد'' بنایا، یہ اللہ سبحان اللہ تعالیٰ پر جھوٹ ہے!
چنانچہ خود فرمان باری تعالیٰ ہے:
(
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ) [سورة النحل: 72]
ہم نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے اور تمہارے جوڑوں میں سے تمہارے بیٹے پوتے نواسے پیدا کئے اور تمہیں بہترین روزی عطا کی تو کیا تم باطل پر ایمان و یقین رکھتے ہو اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو۔
اولاد اللہ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہے اور بیٹے کے بعد پوتے کا ہونا اس سے بھی بڑی نعمت ہے یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے اسحاق کے بعد پوتے یعقوب کی خوش خبری دی تھی اور اسے نافلہ یعنی خصوصی اور اضافی انعام کہا تھا۔ تو جس طرح بیٹا اللہ کی نعمت ہے اسی طرح پوتا بھی اللہ کا انعام ہے تو جس شخص کے پوتے ہوں وہ بڑا خوش قسمت انسان ہے اسے اللہ کے اس انعام کی قدر کرنی چاہئے اسے اس کا حق دیکر صلہ رحمی کرنی چاہئے اسے محجوب و محروم الارث قرار دیکر قطع رحمی نہیں کرنی چاہئے۔
بات اگر صلہ رحمہ کی ہے، تو صرف ''یتیم پوتے پوتیا'' کیوں!
کیا ان پوتے پوتیاں کو محجوب و محروم الإرث قرار دے کر قطع رحمی کرنے کا حکم ہے، جن کے والد حیات ہوں!
یہ جذباتی نعرے بازی ہے!
اب آپ خود ان پوتے پوتیوں کو محجوب و محروم الإرث قرار دیتے ہیں، تو کیا آپ ان سے قطع رحمی کرنے کو اللہ کا حکم ثابت کرتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ (سورة النساء: 11)) اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے ایسی ہی بکواسوں کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ (حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ)
یہ بحث تفصیل سے گزری کہ ''أَوْلَادِكُمْ'' میں پوتے پوتیاں شامل نہیں!
اور یہ بتلائیے!
اب آپ ''ہانکنے'' سے ''بکواس'' پر آگئے ہیں! اور ''بکنے'' لگے ہیں!
اور پھر جب ہم آپ کی ''بکواسیات'' کو ''بکواسیات'' کہیں گے، اور آپ کے ''بکنے'' پر اعتراض کریں گے، تو آپ کو منافق کی علامت نظر آئے گی!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ذرا درج ذیل آیات کو تنہائی میں بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ پڑھئے گا اور جو اللہ و رسول نے کہا ہے اس پر غور کیجئے گا۔ بقول شاعر: شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
(وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ) (16) (اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ) (17) (يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ) (18) (اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ) (19) (مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ) (20) (أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) (21) (تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ) (22) [الشورى]
میرے بھائی سب سے پہلے اللہ کا ڈر اور خوف پیدا کیجئےاور اللہ اور یوم آخرت سے ڈریئے۔ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے کہ الفاظ و معانی کے ہیر پھیر سے کوئی غلط چیز صحیح بنا لی جائے تو وہ صحیح ہوجائے گی۔ یہ فرائض و مواریث، حدود اللہ اور حلال و حرام کا معاملہ ہے اور کسی حلال کو حرام کردیا جائے اور حرام کو حلال ٹھہرا لیا جائے تو حلال حرام اور حرام حلال نہیں ہو جائے گا۔ لہذا یتیم پوتے کے حق و حصہ کا معاملہ بڑا ہی نازک اور انتہائی خطرناک ہے اگر آپ کی ذات سے کسی بھی وارث کا ادنیٰ سا بھی نقصان ہو ا تو پھر آپ کی خیر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے متنبہ کر کھا ہے:

(وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا) (النساء: 9)
ہم بھی آپ کو نصیحت کرتے ہیں، کہ قرآن وحدیث کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے باز آجائیں، اور اللہ کے حضور توبہ کریں!
الفاظ کے کو اپنے خود ساختی معنی ومفہوم پہنا کر قرآن وحدیث پر منطبق کرنے سے باز آجائیں، اور قرآن وھدیث کو اپنی خواہشات کے موافق ڈھالنے سے گریز فرمائیں!
اور اپنی خواہش کے موافق کسی ایسے شخص کو وارثت کا حقدار قرار دے کر قرآن وحدیث میں وارد احکامات و شریعت میں تبدیلی کرنے کوشش نہ کریں! اور کوئی ایک بھی آپ کی وجہ سے گمراہ ہوا، تو اس کاوبال بھی آپ کے سر ہی آئے گا!
یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب نے یتیم پوتے کے حق وراثت کی شدید مخالفت کی تھی اور انہوں نے ہی یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا فتویٰ دیا تھا
یہ آپ کی دوہری غلط فہمی ہے، کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے ''ہی'' '' یتیم'' پوتے کے دادا کی وراثت میں حقدار نہ ہونے کا فتوی دیا!
اول تو مولانا ثناء اللہ امرتسری نے دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی دادا کی وراثت میں پوتے کی وراثت کے حقدار نہ ہونے کا فتوی دیا، خواہ پوتے باپ حیات ہو، یا نہ ہو، اور خواہ پوتے یتیم ہو یا نہ ہو!
دوم کہ یہ فتوی ثناء اللہ امرتسری نے ''ہی'' نہیں دیا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثناء اللہ امرتسری تک، اور اس کے بعد سے آج تک یہی فتوی دیا جا رہا ہے!

اور منکر حدیث حافظ اسلم جیراجپوری (جو کہ اہل حدیث تھے لیکن بعد میں شاید اسی یتیم پوتے کے مسئلہ کو لیکر انکار حدیث کیا)، نے یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا انکار کیا (اس وقت جب کہ انہوں نے ابھی انکار حدیث نہیں کیا تھا) تو امرتسری صاحب نے اس کا رد کیا ۔ اور آپ ہوں یا کفایت اللہ صاحب ہوں یا اور کوئی بھی سب لوگ انہیں امرتسری صاحب کی ہی تقلید کر رہے ہیں اور انہیں کی سر میں سر ملا رہے ہیں۔
عجیب بیوقوف آدمی ہیں آپ!
آپ تو ایسے فرما رہے ہیں، کہ جیسے ثناء اللہ امرتسری پہلے شخص ہیں جس نے دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی، میں پوتے کو ورثت کا حقدار نہ سمجھا ہو، اور اس سے قبل تو ہر ایک عالم و فقیہ امت نے اس کے برخلاف کہا ہو!
ہم میں سے یہاں کسی نے بھی مولانا ثناء اللہ امرتسری کا نہ نام لیا، نہ ان کے حوالہ سے کوئی بات کی! اور آپ کے دماغ میں نجانے کیا آئی کہ ہمیں ثناء اللہ امرتسری کی تقلید کا الزام دے دیا!
ویسے ہم پر تقلید کا ایسا بیوقوفانہ الزام مقلدین ضرور لگاتے رہتے ہیں! ممکن ہے آپ نے انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ بیوقوفانہ حرکت کی ہو!

جبکہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تقسیم ہندو پاک میں ان کے تمام بیٹے مار دیئے گئے اور ان کے یتیم پوتے ہی ان کے اموال املاک متروکہ کے وارث بنے۔
ایسی صورت میں کہ جب میت کی کوئی نرینہ أولاد نہ ہو، پوتا وارث قرار پاتا ہے!
اس میں تو کوئی غیرشرعی بات نہیں!

بطور عبرت کے میں یہ باتیں لکھ رہا ہوں تاکہ آپ یا کفایت اللہ صاحب ہوں یا اور کوئی بھی اللہ سے ڈریں ان یتیم پوتوں کے بارے میں اور اس حادثہ سے عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔ (فاعتبروا یا اولی الابصار)
اس میں ''عبرت'' والی کون سی بات ہے!
یہ تو اللہ کی منشاء ہے، کسے کب موت دے!
اور جس بات سے عبرت حاصل کرنا چاہیئے، اور جو واقعتاً مقام عبرت ہے، کہ آپ کو ڈرنا چاہیئے، کہ آپ بھی اسلم جیراجپوری کی طرح انکار حدیث کے فتنہ میں بھی نہ پڑ جائیں! جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے، کہ اسلم جیراجپوری نے شاید اسی مسئلہ کی وجہ سے انکار حدیث کیا!
یہاں ایک نکتہ اور سمجھنے والا ہے!
کہ اسلم جیراجپوری بھی قرآن حدیث سے اس مسئلہ کو ثابت نہ کرسکا، کیوںکہ حدیث قرآن کو وہ معنی پہنانے میں حائل ہوتی ہے، جو اسلم جیراجپوری قرآن کو پہنانا چاہتا تھا، اس لئے اسے قرآن کو اپنی خواہشات کے موافق ڈھالنے کے لئے، احادیث کا انکار کرنا پڑا!
دادا کے مرتے ہی اس کے یتیم پوتے پر اس کے دادا کے مال کو کس نے حرام کیا جب کہ اس کی زندگی میں وہ اس کے لئے حلال تھا۔ اللہ نے یا جن کی تقلید میں آپ یہ لمبی چوڑی ہانکے جا رہے ہیں۔
ویسے ایک بات تو واضح ہو گئے ہے، کہ اپ کم علم، کج فہم، جاہل اور بیوقوف ہی، نہیں انتہائی بد تمیز انسان بھی ہیں!
آپ کے حواس پر اپنی بکواسیات کا اتنا اثر ہو چکا ہے، کہ آپ کو اپنی بکواسیات کے علاوہ سب ''ہانکی'' ہوئی لگتی ہے!
دادا کے مرتے ہی ''یتیم'' پوتے پر اس کے دادا کے مال کو اسی نے ''حرام'' کیا، جس نے دادا کے مرتے ہی، دادا کے ''غیر یتیم'' پوتوں، اور ان پوتوں پر کہ جن کے والد حیات ہیں، ''حرام'' کیا!
یعنی اللہ تعالیٰ نے!
جیسے دادا کے ''یتیم'' پوتے پر پڑوسی کے مرتے ہی، پڑوسی کا مال اللہ نے اس پر حرام کیا ہے!
یہ بات اوپر بیان کی جا چکی ہے!

جو لوگ یتیم پوتے کو بالجبر محجوب و محروم الارث قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ان کے اندر ذرا بھی اللہ کا ڈر اور خوف نہیں ہے وہ محض لفاظیاں کرکے اور اپنی کٹھ حجتی کے ذریعہ الفاظ کی ہیرا پھیری سے اپنی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں
معاملہ اس کے برعکس ہے، کہ جو اپنی خواہشات کی بنا پر قرآن وحدیث کے اس حکم کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، کہ پوتے دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی میں حق وراثت نہیں رکھتے، وہ الفاظ کو خود ساختہ معنی پہنا کر کٹھ حجتی کرتے ہیں، اور اللہ کے خوف سے عاری معلوم ہوتے ہیں!
کہ ان میں اللہ کا ڈر ہوتا، تو وہ قرآن وحدیث کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کرنے سے باز رہتے!

ان کے پاس سوائے اس لولی لنگڑی بات کے کہ بیٹا قریب تر عصبہ اور پوتا عصبہ بعید ہے جب کہ نہ بیٹا عصبہ ہے اور نہ ہی پوتا ہی عصبہ ہے کہ اس پر قریب سے قریب تر کا فقہی اصول فٹ ہو۔
اول یہ کہ قرآن وحدیث سے أصول تو آپ بھی اخذ کرنے کی سعی فرماتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آپ جو اخذ کرنا چاہتے ہیں، وہ ہوتا نہیں!
لہٰذا قرآن وحدیث سے اخذ شدہ أصول کو منطق کرنا عیب نہیں، بلکہ درست اور قرآن و حدیث یعنی شریعت کا تقاضا ہے!
دوم یہ کہ أصحاب الفرائض تو انہیں کہتے ہیں کہ جن کے حصہ کا تعین قرآن میں ہے!
بیٹے کا کتنا حصہ متعین ہے؟
میرے بھائی! بیٹے کا حصہ متعین نہیں، بلکہ وہ دیگر اہل الفرائض کے حصہ سے بچے مال سے پاتا ہے! جتنا بھی بچ جائے، اور وہ بیٹے بیٹیوں میں اس طرح تقسیم ہوتا ہے کہ بیٹے کو بیٹیوں کی نسبت دوگناہ ملتا ہے!
ایسی صورتمیں بیٹے اور بیٹیاں دونوں عصبہ ہوتے ہیں!
اگر بیٹا نہ ہو، تو بیٹیاں أصحاب الفرائض قرار پاتی ہیں، اور بیٹے کی موجودگی،بیٹی کو بھی عصبہ بنا دیتی ہے، اور وہ أصحاب الفرائض میں نہیں رہتی!
دیکھیں! بیٹی کے لئے متعین حصہ اس وقت ہے، جب یا تو وہ اکیلی ہو، اس کا کوئی بھائی یا بہن نہ ہو، تو نصف حصہ متعین ہے!
یاپھر اس کی بہنیں تو ہوں، لیکن کوئی بھائی نہ ہو، تو ان کا مجموعی حصہ دو تہائی متعین ہے!
لیکن اگر بھائی ہو، تو نہ ایک بیٹی کا نصف متعین ہے، اور نہ ایک سے زائد بیٹیوں کا دو تہائی متعین ہے! بلکہ بیٹے کی موجودگی، انہیں بھی عصبہ بنا دے گی، اور بیٹے بیٹیاں، أصحاب الفرائض سے بچا ہوا مال پائیں گے!
معلوم ہوا کہ بیٹا تو ہوتا ہی عصبہ ہے، اور وہ نہ صرف خود عصبہ ہوتا ہے، بلکہ بیٹیوں کو بھی عصبہ بنا دیتا ہے!
بیٹے کے حصہ کا تعین قرآن میں نہیں ہے، بلکہ بیٹیوں کی نسبت دو گناہ ہونا بتلایا گیا ہے!
لہٰذا بیٹے اور پوتے کے معاملہ میں عصبہ کا یہ أصول منطبق کرنا بالکل درست ہے!
ہاں! آپ نے جس طرح ''یتیم'' کے لفظ کو خود ساختہ معنی میں استعمال کرتے ہو، اسی طرح آپ نے ''عصبہ'' اور ''أصحاب الفرائض'' کی خود ساختہ تعریف بنائی ہو، تو اور بات ہے!

لہذا یہ کہنا کہ چونکہ وراثت قریب سے قریب تر کو منتقل ہوتی ہے بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے بیٹے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتاہے۔ یہی اصول شریعت ہے۔ لہذا مجبوری ہے۔
أصول تو یہی ہے، اور حکم شریعت بھی یہی ہے! ہمیں تو شریعت کے احکام کے آگے سرنگوں ہونا ہے!
اب اس مجبوری کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی بڑے خیر خواہ اور ہمدرد بن کر اب لوگ چلے دادا کے اوپر وصیت واجب کرنے کا فتویٰ دینے۔
غیر وارث کے لئے وصیت کا حکم قرآن وحدیث میں موجود ہے، اس کا استہزاء قرآن وحدیث کا استہزاء ہے! مسئلہ وصیت کے ''واجب'' ہونے کا ہے!
یہ لوگ کون ہوتے ہیں دادا کے اوپر یتیم پوتے کے حق میں وصیت واجب کرنے والے؟۔
آپ کو غالباً علم نہیں، کہ غیر وارث کے حق میں ایک تہائی تک کی وصیت کی اجازت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے!
اور یہ لازم نہیں ہے، بلکہ اجازت ہے!
اب یہ جو بعض ملکوں میں اسے ''وصیت واجبہ'' کے نام سے قانون ہے، اس کا تعلق وراثت کے حقدار ہونے سے نہیں، بلکہ اس قانون کے تحت حکومتوں نے اپنے شہریوں کو پابند کیا ہے، کہ ان کے مال سے ان پوتے پوتیوں کے لئے وصیت لازم ہے، جن کے والد دادا کی حیات میں فوت ہو چکے ہوں!
اور یہ بعض علماء وفقہاء کا مستدل مسئلہ ہے، کہ ان کے نزدیک ترکہ کی وصیت کا حکم اللہ تعالی نے ورثا کے حق میں منسوخ کیا ہے، اور اس کے علاوہ أقربا کے حق میں منسوخ نہیں!
گو کہ ہمارے نزدیک ان کا یہ موقف مرجوح ہے، لیکن وہ بھی اس بات پر متفق ہیں، کہ پوتا پوتی دادا کی وراثت کے ہمیشہ حقدار نہیں، بلکہ اسی صورت ہیں، کہ دادا کی کوئی نرینہ أولاد نہ ہو!
لہذا دادا کا اپنے پوتوں کے حق میں، ایک تہائی تک وصیت کرنا، درست اور جائز ہے، اختلاف اس پر ہے کہ اسے واجب کر دیا جائے!

بقول ان کے جب اللہ نے انہیں محروم ہی رکھا ہے انہیں کچھ دیا ہی نہیں ہے تو آپ اللہ سے بڑے ہمدرد بن کر بذریعہ خود ساختہ وصیت واجبہ انہیں دلانے والےکون ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے غیر وارث کے حق میں ایک تہائی تک کی وصیت کی اجازت رکھی ہے!
یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے کہ ''حاکم حالات کے پیش نظر'' کسی جائز امر کو، جو واجب وفرض نہ ہو، اسے لازم کر سکتا ہے، یا اس پر پابندی لگا سکتا ہے یا نہیں!''
ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ شریعت میں خیر خواہی واجب ہے! اوراگر دادا کو اندیشہ ہو، کہ اس کے بعد اس کے ''یتیم پوتے'' کی کفالت کی ذمہ داری میں اس کے بیٹے غفلت برتیں گے، تو اس اندیشہ کے پیش نظر اس پر واجب یہ واجب قرار دیا جاسکتا ہے، کہ وہ اپنے یتیم پوتے کے حق میں وصیت کر جائے، کیونکہ وہ اس کا وارث نہیں!
کیا اللہ تعالیٰ کی وصیت(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) ناکافی ہے جو دادا کے اوپر الگ سے وصیت کو واجب کیا جارہا ہے؟
کیا اللہ نے نہیں فرمایا ہے: (
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (الزمر: 36)) کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی اولاد کے حق میں کی ہوئی وصیت ناکافی ہے کہ دادا وصیت کرے۔
اب کہیں آپ یہ سوال نہ کر بیٹھیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کی وصیت ''يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ'' ناکافی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہائی تک کی وصیت کو جائز قرار دیا ہے!
ذرا ان آیات کو بھی غور سے پڑھ لیجئے گا شاید کہ اللہ کا ڈر پیدا ہوجائے:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (32) وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (33) لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (34) لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (35) أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (36) وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ (37) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (38) قُلْ يَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (39) مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ (40) [سورة الزمر]
کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے:
(
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ)
اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو چکا ہے جو انتہائی سچا، عادلانہ و منصفانہ ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت تاقیامت بدل نہیں سکتی ہے۔
میرے محترم! ذرا ان فرامین باری تعالیٰ کو بغور سنجیدگی سے تنہائی میں بیٹھ کر پڑھ لیجیئے گا۔ شاید ہماری بات کچھ سمجھ میں آ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:

(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ) (112) (وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ) (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الانعام]
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت ایک جامع کامل و شامل فرض وصیت ہے۔ جس کے ہوتے کسی وصیت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اولاد کے حق میں وصیت کرنا حرام کفر اور شرک ہے۔
ہم جس سے ڈر رہے تھے، وہی بات ہو گئی!
اول تو دادا کا اپنے پوتے حق میں وصیت کرنا، اس کی ''أولاد'' کے حق میں وصیت کرنا نہیں!
کیونکہ پوتا دادا کی ''أولاد'' نہیں!
اور پوتے کا دادا کی أولاد نہ ہونا اوپر قرآن وحدیث سے ثابت کیا جا چکا ہے!
دوم کہ اسی طرح اپنے اٹکل بچو کو بے لگام کرنے کا نتیجہ انکار حدیث کرتے ہوئے کافر ہونے پر منطبق ہوتا ہے!
آپ نے تو اپنے جوش کلام میں کہہ دیا کہ
''يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ'' جامع وکامل وشامل فرض ہے، اور اس کے ہوتے ہوئے نہ کسی وصیت کی ضرورت ہے، نہ وہ جائز ہے، بلکہ حرام و کفر ہے!
اب آپ کو یہ ادراک ہی نہیں کہ آپ کے اس کلام کے تحت کفر اور شرک کا الزام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا ہے، اسی طرح کی ہفوات کے باعث اسلم جیراجپوری انکار حدیث کے فتنہ میں مبتلا ہوا!
قرآن کی میں وارد قانون وراثت کے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہائی تک کی وصیت کو جائز قرار دیا ہے:

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَوْ غَضَّ النَّاسُ إِلَى الرُّبْعِ، لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ»
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کاش کہ لوگ مصیبت میں چوتھائی تک کمی کرلیں کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا: "ایک تہائی تک وصیت کرو۔ وصیت کی یہ مقدار بھی بہت زیادہ یا بہت بڑی ہے۔ "

صحيح البخاري: كِتَابُ الوَصَايَا (بَابُ الوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ)

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، كُلُّهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَوْ أَنَّ النَّاسَ غَضُّوا مِنَ الثُّلُثِ إِلَى الرُّبُعِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ»، وَفِي حَدِيثِ وَكِيعٍ: كَبِيرٌ أَوْ كَثِيرٌ

عیسیٰ بن یونس، وکیع اور ابن نمیر سب نے ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی، انہوں نے کہا: کاش لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے: "تہائی (تک کی وصیت کرو)، اور تہائی بھی زیادہ ہے وکیع کی حدیث میں "بڑا ہے" یا "زیادہ ہے" کے الفاظ ہیں.

صحيح مسلم: كِتَابُ الْوَصِيَّةِ (بَابُ الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرِضْتُ، فَعَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ لاَ يَرُدَّنِي عَلَى عَقِبِي، قَالَ: «لَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ وَيَنْفَعُ بِكَ نَاسًا»، قُلْتُ: أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ، وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ، قُلْتُ: أُوصِي بِالنِّصْفِ؟ قَالَ: «النِّصْفُ كَثِيرٌ»، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ؟ قَالَ: «الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ»، قَالَ: فَأَوْصَى النَّاسُ بِالثُّلُثِ، وَجَازَ ذَلِكَ لَهُمْ

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں بیمار ہوا تو نبی کریم میری تیمار داری کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ایڑیوں کے بل واپس نہ کردے(مکہ میں مجھے موت نہ آئے) آپ نے فرمایا: "شاید اللہ تعالیٰ تمھیں دراز عمر دے اور لوگوں کو تم سے نفع پہنچائے۔ "میں نے عرض کیا: میرا وصیت کرنے کا ارادہ ہے اورمیری ایک ہی بیٹی ہے، کیا میں آدھے مال کی وصیت کردوں؟آپ نے فرمایا: "نصف مال تو زیادہ ہے۔ "میں نے عرض کیا: تہائی مال کی وصیت کر دوں؟آپ نے فرمایا: "ہاں ثلث ٹھیک ہے لیکن ثلث کی مقدار بھی زیادہ یا بڑی ہے۔ "راوی کہتا ہے کہ لوگ ایک تہائی مال کی وصیت کرنے لگے کیونکہ تہائی کی مقدار کو آپ نے ان کے لیے جائز قرار دیا۔

صحيح البخاري: كِتَابُ الوَصَايَا (بَابُ الوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: عَادَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، بَلَغَنِي مَا تَرَى مِنَ الْوَجَعِ، وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: «لَا»، قَالَ: قُلْتُ: أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ؟ قَالَ: «لَا، الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللهِ، إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ»، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي، قَالَ: «إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللهِ، إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يُنْفَعَ بِكَ أَقْوَامٌ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ»، قَالَ«رَثَى لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَنْ تُوُفِّيَ بِمَكَّةَ.

ابراہیم بن سعد (بن ابراہیم بن عبدالرحمان بن عوف) نے ہمیں ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے عامر بن سعد اور انہوں نے اپنے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: حجۃ الوداع کی موقع پر رسول اللہ نے ایسی بیماری میں میری عیادت کی جس کی وجہ سے میں موت کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے ایسی بیماری نے آ لیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور صرف ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں (بنتا۔) تو کیا میں اپنے مال کا دو تہائی حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں۔" میں نے عرض کی: کیا میں اس کا آدھا حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، (البتہ) ایک تہائی (صدقہ کر دو) اور ایک تہائی بہت ہے، بلاشبہ اگر تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ، وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں، اور تم کوئی چیز بھی خرچ نہیں کرتے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو، مگر تمہیں اس کا اجر دیا جاتا ہے حتی کہ اس لقمے کا بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔" کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنے ساتھیوں کے (مدینہ لوٹ جانے کے بعد) پیچھے (یہیں مکہ میں) چھوڑ دیا جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: "تمہیں پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا، پھر تم کوئی ایسا عمل نہیں کرو گے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو گے، مگر اس کی بنا پر تم درجے اور بلندی میں (اور) بڑھ جاؤ گے اور شاید تمہیں چھوڑ دیا جائے (لمبی عمر دی جائے) حتی کہ تمہارے ذریعے سے بہت سی قوموں کو نفع ملے اور دوسری بہت سی قوموں کو نقصان پہنچے۔ اے اللہ! میرے ساتھیوں کے لیے ان کی ہجرت کو جاری رکھ اور انہیں ان کی ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹا، لیکن بے چارے سعد بن خولہ ( وہ تو فوت ہو ہی گئے۔)کہا: رسول اللہ نے اس وجہ سے ان کے لیے غم کا اظہارِ افسوس کیا کہ وہ (اس سے پہلے ہی) مکہ میں (آ کر) فوت ہو گئے تھے۔

صحيح مسلم: كِتَابُ الْوَصِيَّةِ (بَابُ الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ)
جس طرح یہ وصیت بیٹے کے لئے ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں
ایک بات بتلائیے! یتیم ہونے پر پوتے کو سرخاب کے پر نکل آتے ہیں، کہ وہ تو دادا کی ''حقیقی اور شرعی أولاد'' قرار پاتا ہے، مگر وہ پوتے کہ جو یتیم نہیں، اور ان کے والد حیات ہیں، وہ کیا دادا کی آپ کے بقول ''حقیق اور شرعی أولاد'' نہیں ہیں؟ کہ ان کے لئے ''ٹھیک اسی طرح'' یہ وصیت نہیں، جیسے بیٹے کے لئے ہے!
اگر آپ کے بقول پوتوں کو دادا کی ''حقیقی اور شرعی أولاد'' مان لیا جائے، جیسے بیٹا حقیقی اور شرعی الاد ہے، تو لازم آتا ہے کہ ہر پوتا، خواہ وہ یتیم ہو، یا یتیم نہ ہو، خواہ اس کا باپ حیات ہو، اس کے حق میں بھی یہ وصیت ''ٹھیک اسی طرح'' قرار پائے، اور لازماً ان سب پوتوں کا، کہ جن کا باپ فوت ہو چکا ہو، یا حیات ہو، ان سب کو ''ٹھیک اسی طرح'' وراثت میں سے اتنا ہی حصہ ملنا چاہیئے، جتنا دادا کے بیٹوں کو ملتا ہے!
لیکن آپ خود بھی اس کے قائل نہیں، لہٰذا آپ کا یہ فلسفہ باطل ہے!

جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب بھی ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا
ابھی اس سے متصل تو آپ نے ایک علیحدہ ہی فلسفہ بیان فرمایا تھا!
ابھی، اس سے متصل جملوں میں، آپ نے فرمایا تھا کہ یہ وصیت میت کی ''حقیقی اور شرعی أولاد'' کے لئے ہے، اور آپ کے بقول أولاد ہمیشہ ''ھقیقی'' ہی ہوتی ہے! آپ تو پوتا، پوتی، نواسی نواسی ، اور تمام ذریت کو ''حقیقی أولاد'' کہتے ہیں! اور جب ''حقیقی أولاد'' ہے۔
تو ایک ''حقیقی أولاد'' یعنی بیٹے کو تو ہر صورت ترکہ میں حصہ دار قرار دینا، اور دوسری ''حقیقی أولاد'' کو صرف اس صورت ترکہ میں حصہ دار قرار دینا، جب اس کا باپ فوت ہو چکا ہو، حقیقی أولاد کے درمیان یہ فرق کہاں سے آگیا؟
آپ کے موقف کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ وراثت کا حقدار و حصہ دار اس لئے قرار پاتا ہے، کہ ''حقیقی أولاد'' ہے!
اور یہ وصیت ''ٹھیک اسی طرح'' منطبق کیجیئے! جیسے بیٹے کے لئے کرتے ہیں!
اب تو یہ سمجھ آجانا چاہئیے، کہ پوتا، دادا کہ ''ٹھیک اسی طرح'' ولد نہیں ہے، لہٰذا پوتے کا دادا ترکہ میں حصہ دار اور حقدار ہونا ''ٹھیک اسی طرح'' نہیں جیسے بیٹے کا اپنے پاب کے ترکہ میں حصہ دار و حقدار ہونا ہے۔
پوتے کا دادا کے ترکہ میں حصہ دار و حقدار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!
جب دادا کی حقیقی أولاد نہ ہوگی، تب پوتے اس کی بمزلہ أولاد قرار پائیں گے!
اگر اب بھی نہ تم سمجھے
تو پھر تم سے خدا سمجھے
اور بفرمان الٰہی :
(
آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
مجھے نہیں معلوم کہ قرآن کے ترجمہ نما کلام میں یہ ''تحریف'' آپ نے جان بوجھ کر کی ہے، یا کم علمی و غلط فہمی میں ہو گئی ہے!
آپ نے یہاں
''آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ '' کے بجائے بیٹا یا پوتا کہہ دیا، اس میں مسئلہ نہیں، کیو نکہ آپ نے ترجمہ نہیں کیا بلکہ یہ آپ کا ترجمہ نما کلام ہے! آپ نے باپ اور بیٹوں کے بجائے بیٹا اور پوتا کا کہا، یہ تو کہا جا سکتا ہے، کہ یہ مستدل ہوتا ہے!
لیکن آپ نے آگے جو کام کیا ہے، وہ تو قرآن کی معنوی تحریف ہے، کہ آیت مین الفاظ ہیں
''أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا '' یعنی ''کون تمہارے لئے نافع ہونے میں قریب تر ہے''
اور آپ نے کہا ''کون قریب تر اور کون نافع ہے''
آپ نے یہاں دو الگ امر قرار دے دیئے،
ایک کون قریب تر ہے، دوسرا کون نافع ہے!
آپ کے کلام کے مطابق قریب تر، اور نافع میں مغایرت ممکن ہے!
مگر قرآن نے جو بیان کیاہے، اس میں ایک ہی امر ہے، کہ کون نافع ہونے میں قریب تر ہے! اس میں مغایرت نہیں، ایک ہی ہے!
آپ نے قرآن کے کے معنی کو اپنی خواہشات کے تحت دانستہ پھیرا ہے، تو یہ یہودیوں والا کام ہے، جس کا الزام آپ دوسروں کو دیتے تھے، مگر حقیقت یہ نکلی کہ خود اس کے مرتب ثابت پائے!
بقول شاعر؛
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
اوراگر دانستہ نہیں، تو آپ کی خواہشات آپ کے حواس پر اس قدر طاری ہو چکی ہیں، کہ قرآن کے ترجمہ نما کلام میں آپ کی خواہشات قران کے معنی و مفہوم میں داخل ہو جاتی ہیں!
اور یہ آپ کی مجبوری ہے، کہ آپ نے یہاں سے یہ استدلال کشید کرنے کی ٹھانی کہ انسان کو تو معلوم ہی نہیں کہ اس کا ''اقرب'' کون ہے، اور اس سے، ''اقرب فالاقرب'' کے أصول کو رد کرنا ہے مقصود ہے!
خواہ اس کے لئے قرآن کے معنی کو پھیرنا پڑ جاے!
کچھ اللہ کاخوف کریں میاں!
یہاں ''اقرب فالاقرب'' ولا ''اقرب'' یعنی رشتہ داری'' والا اقرب نہیں، بلکہ یہاں
''أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا'' نافع ہونے میں اقرب ہے!
رہی بات فلسفہ اور حکمتوں کی، تو میاں جی! یہ ''فلسفہ والی حکمتیں'' تو آپ کے کلا م میں ظاہر ہے! کہ اپنے تئیں، اپنے فلسفہ کے موافق جسے چاہا ظلم قرار دے دیا، اور جسے چاہا عدل باور کروانے لگے!
ہم تو جن ''حکمتوں'' کو ماخذ دین سمجھتے ہیں، وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں!

ایک بار پھر عرض ہے کہ قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کرنے سے باز آجائیں! اور اللہ کے حضور توبہ کریں!

وگرنہ اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے!

(جاری ہے)
 
Top