- شمولیت
- اپریل 22، 2013
- پیغامات
- 65
- ری ایکشن اسکور
- 15
- پوائنٹ
- 57
جناب من کب تک آپ کا یہ (جاری ہے) جاری رہے گا۔
میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا:
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔ یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
آپ لکھنے سے پہلے کچھ سوچتے بھی ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں؟
جناب من اگر میں نے سوچا سمجھا نہ ہوتا تو یہ سب لکھتا۔ یہ آپ ہیں کہ نہ تو سوچتے ہی ہیں اور نہ ہی سمجھ رہے ہیں یہ جملہ آپ پر فٹ ہوتا ہے۔ یہ آپ ہیں کہ آپ کے اعلیٰ دماغ اور اعلیٰ فہم و فراست میں جو آتا ہے بلا سوچے سمجھے بکتے چلے جارہے ہیں ۔
یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ لکھ دیا اور کوئی لکیر کھینچ دی تو اسے پیٹے جارہے ہیں۔ یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ بلا سوچے سمجھے قریب سے قریب تر کا ایک پہاڑہ پڑھا دیا ہے اور رٹا دیا ہے تو آپ جیسے لوگ ان کی تقلید میں ان کے رٹائے ہوئے ایک جملہ کی رٹ لگا رکھی ہے کہ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
اب آپ جیسے لوگوں کے سامنے قرآن و حدیث کی دلیلیں دی جارہی ہیں ثبوت پیش کیا جارہا ہے پھر بھی کوئی توجہ نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی سنوائی ہو رہی ہے۔
بس ایک ہی رٹ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
جب قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت اور دلیل مانگی جاتی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔
اور اتنی معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ جو جس کاوالد وہ اس کی اولاد ہے یہ بالکل سمپل اور سیدھی سی بات ہے جب دادا والد ہے تو پوتا اس کی اولاد ہوا ۔
ایک والد کی مختلف اولادیں ہوتیں البتہ مختلف اولادوں کا ایک والد ہوتا ہے۔ اولاد و والد کے مختلف درجات و طبقات ہیں ۔ باپ، دادا، پردادا اوپر آدم علیہ السلام تک درجہ بدرجہ سب والد ہیں اسی طرح بیٹا، پوتا، پڑپوتا درجہ بدرجہ سبھی اولاد آدم ہیں۔
یہ سب تو اللہ کی کتاب قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے۔ لیکن یہ آپ کو سمجھ میں تو آنہیں رہا ہے۔
البتہ شیطان نے جو وسوسہ آپ جیسے لوگوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے اور رٹا دیا ہے کہ صرف بیٹا ہی اولاد ہو سکتا ہے اور وہی قریب تر ہو سکتا ہے تو وہی بات آپ جیسے لوگوں کے ذہن و دماغ پر بھوت بن کر سوار ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
(الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ (21) فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (23) أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (24) إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ (25) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ (26) فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ (27) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (28) أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ (29) [سورة محمد]
ان رٹی رٹائی باتوں کا اللہ کے دین و شریعت (کتاب و سنت) میں کوئی حیثت اور مقام نہیں ہے۔
آپ نے کہا:
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو!
ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے جو ان کے واسطوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے اور اسے ان تک پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے جس کی دلیل اللہ کا یہی فرمان و کلام ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) ہے کیونکہ سبھی اولاد ہیں اور اللہ کا فرمان سب کو شامل سب کا جامع اور کامل و مکمل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) کہا وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ)) (سورة النساء: 11) کہا ہے اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے۔ اور بکواس کا کوئی جواب نہیں ہوا کرتا ہے جواب معقول بات کا دیا جاتا ہے نامعقول بات کا نہیں دیا جاتا ہے۔ لہذا ہر کسی کی ہر ہر بکواس کا جواب دینا ممکن بھی نہیں۔
لوگ لاکھوں کروڑوں تاویلات بیجا کریں پھر بھی پوتا اپنے دادا کی اولاد ہی رہے گا کیونکہ دادا اس کا والد ہے۔
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت جس طرح بیٹے کے لئے ہے اسی طرح یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا
اور بفرمان الٰہی :
(آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
اللہ تعالیٰ نے (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں (اولادکم ) کا لفظ استعمال کیا ہے (ابنائکم) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ البتہ جہاں (آباؤکم ) کہا ہے وہیں پر اس پر عطف کرتے ہوئے (ابناؤکم ) کہا ہے اور دونوں کے تعلق سے (اقرب) کی بھی نفی کردی ہے چنانچہ فرمایا:
(آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ)
یہ بات تو آپ اور آپ جیسے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے کیونکہ شیطان نے کسی کے ذریعہ یہ سمجھا رکھا ہےکہ بیٹا قریبی عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے اللہ کے ان احکام و فرامین کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جاؤگے اور تمہاری خود ساختہ شریعت مٹی میں مل جائے گی۔ آپ کی اپنی سمجھ تو ہے نہیں آپ تو دوسروں کی سمجھ سے سمجھے ہوئے ہیں اور انہیں کی تقلید میں اس طرح کی ساری باتیں کئے جارہے ہیں تو جو انہوں نے کہا بتایا اور سمجھایا ہے وہی آپ کہہ بتا رہے ہیں اور مجھے سمجھانا چاہتے ہیں۔
اس پر آپ نے فرمایا:آپ نے کہا:
یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!
میں کہتا ہوں :
آخر آپ کو لفظ یتیم سے اتنی چڑ کیوں ہے؟
میں آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتا ہوں
اور اس بات کی وضاحت کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے یتیم پوتا کا لفظ جو استعمال کیا ہے وہ منکرین حدیث کی طرح نہیں جن کے پاس محض جذباتیت تھی جس کے چلتے انہوں نے لفظ یتیم استعمال کیا کیونکہ ان کے پاس علم ہی نہیں تھا۔
میں جو یتیم کا لفظ استعمال کر رہا ہوں تو صرف اس معنی میں کہ جس پوتے کا باپ زندہ نہ ہو قطع نظر اس سے کہ وہ بالغ ہو یا نابالغ اور بطور اختصار استعمال کیا ہے۔
جذباتیت کی غرض سے نہیں کیونکہ میرے نزدیک پوتے کا نابالغ یا بالغ ہونا مسئلہ نہیں ہے
کہ جو پوتا نابالغ ہو اسے یتیم کے نام پر بذریعہ وصیت بھیک دلوائے جانے کی تجویز پیش کی جائے اور چچا تایوں سے ہاتھ پاؤں جوڑا جائے کہ اس بے چارے کو کچھ بھیک دیدو اور دادا سے یہ کہا جائے کہ بیچارے اپنے یتیم پوتے کو وصیت کرجاؤ۔
میں تو دادا کا وصیت کرنا حرام سمجھتا ہوں بلکہ کفر اور شرک جانتا ہوں۔
میں جذباتیت کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات نہیں کرتا بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات کررہا ہوں۔
اس کا استحقاق قرآن وحدیث سے ثابت شدہ ہے لہذا یتیمی کے نام پر یتیم پوتے کو بھیک نہ دی جائے بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کو حق و حصہ دیا جائے
کیونکہ اس کا حصہ بموجب فرمان الٰہی:
(لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) (سورة النساء: 7)
(نَصِيبًا مَفْرُوضًا) یعنی اللہ کا فرض کیا ہوا حصہ(فریضہ الٰہی) ہے۔
اور بموجب فرمان الٰہی:
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ............. آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) (سورة النساء: 11)
(فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ) یعنی اللہ کی جانب سے مقرر کیا ہوا فریضہ (فریضہ الٰہی) ہے۔
میں نے لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
اس کا مطلب میں نے بتایا تھا کہ یتیم پوتے کا مسئلہ دو صورتوں میں پیش آتا ہے ایک اس صورت میں جب کہ یتیم پوتے کا صرف باپ نہ ہو اور اس کی دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ جب یتیم پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہو۔ تو دونوں صورتوں میں یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے تو جب باپ نہ رہے اور چچا تائے رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ اور جب اس کے چچا تائے بھی نہ رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ یہی اس عبارت کا مفہوم ہے۔
حافظ ابن حجر نے لفظ (ابن) کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابن سے مراد میت کی صلبی اولاد یعنی اس کا بیٹا جو پوتے کا باپ بھی ہو سکتا ہے اور اس کا چچا تایا بھی ہو سکتا ہے تو جب پوتے کا باپ نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ اور جب چچا تائے بھی نہ ہونگے تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ پہلی صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام بیٹے کے اپنے باپ کی جگہ ہوگا۔ اور دوسری صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام نہیں بلکہ مثل ایک بیٹے کے ہوگا۔
میں نے لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو۔ خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔
اول تو آپ کو کس نے کہا کہ آپ اس کا معنی و مفہوم لکھیں!میں نے پورے باب کا یہ معنی ومفہوم لکھا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار اس وقت ہو جاتا ہے جب میت کا بیٹا نہ ہو، جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلب سے ہو خواہ وہ یتیم پوتے کا باپ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں بہر دو صورت یتیم پوتا میت (اپنے دادا) کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہوگا۔
میت کے صلب سے کس کی شرح کی ہے!جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلب سے ہو خواہ وہ یتیم پوتے کا باپ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں
اول تو یہ بات ابن حجر عسقلانی نے نہیں کہی! یہ آپ کے دماغ کی اختراء ہے!جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلب سے ہو خواہ وہ یتیم پوتے کا باپ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں بہر دو صورت یتیم پوتا میت (اپنے دادا) کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہوگا۔
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
اس کے بعد آگے، آپ کا دماغ مفلوج ہو جاتا ہے!جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
ہم نے کوئی آدھی ادھوری بات کو نہیں لیا، اور نہ ہی دو حصوں میں تقسیم کیا!چونکہ آپ کی فہم اتنی اعلیٰ ہے کہ یہ سیدھی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہ آ سکی اور آپ بات سمجھ نہ پائے اور لگے تبصرہ کرنے اور ایک بات کا حصہ بخرہ کرنے اور اس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھی ادھوری بات پر تبصرہ کرنے۔ جب ایک بات کا آدھا حصہ لیا جائے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ مفہوم الٹا پلٹا نکلے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں آیا ہوا ہے کہ (لاتقربوا الصلاۃ و انتم سکاریٰ) تو کوئی شخص (لاتقربوا الصلاۃ) کو لیکر کہے کہ دیکھو قرآن میں آیا ہوا ہے کہ نماز کے قریب مت جاؤ۔
چنانچہ یہی حال آپ کا بھی ہے کہ آپ بات تو سمجھ نہ پائے اور حقیقت یہ ہے کہ سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں۔ آپ نے آدھا جملہ (خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔) لے لیا اور تبصرہ کرنے بیٹھ گئے:
یتیم پوتے کا باپ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب اس کا باپ موجودہے، تو وہ یتیم کیونکر ہوا!
میں نے باپ کے موجود نہ ہونے کی بات کی اور آپ کی اعلیٰ فہم میں الٹا معنی اس کا موجود ہونا سمجھ میں آرہا ہے۔
اسی مراسلہ میں آپ نے اپنے اس اعلی کلام کو نقل بھی کیا ہے!یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
مسئلہ صرف یتیم پوتے کی وراثت کا پیش نہیں آتا، مسئلہ ان پوتوں کا بھی پیش آتا ہے، جو ''یتیم'' نہیں اور ان کے والد حیات نہیں! امام بخاری نے صرف ''یتیم پوتے کی وراثت'' کا باب نہیں باندھا! بلکہ پوتے کی وراثت کا باب باندھا ہے!میرے بھائی پوتے کا مسئلہ پیدا ہی اسی لئے ہوا کہ اس کا باپ نہیں ہے لہذا امام بخاری کو اس مسئلہ پر اس کے حق کے ثابت کرنے کے لئے باب باندھنا پڑا اگر اس کا باپ ہوتا تو مسئلہ ہی کھڑا نہ ہوتا اور امام بخاری کو باب نہ باندھنا پڑتا۔
یہ کوئی آدھی ادھوری عبارت نہیں! شرط یہ ہے کہ ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' اور چچا تایا دادا کے صلبی بیٹے ہیں، اگر یہ ہیں، تو شرط پوری نہیں ہوگی!جناب من ! آپ کی فہم اعلی کا یہ عالم ہے لکھتے ہیں :
اور جب آپ نے خود یہ کہا ہے کہ ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' تو اور چچا میت کا صلبی بیٹا ہے! لہٰذا پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حصہ نہیں پائیں گے!
جناب آدھی ادھوری بات لیکر اس پر تبصرہ کرنے لگ جانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسی صورت میں مفہوم الٹا پلٹا ہی نکلے گا۔ جو نکلا۔
پوری عبارت یوں ہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)
اس پر ہمارے کلام سے اقتباس پیش کیا:اسی طرح میں نے کہا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑
اصل بحث دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے استحقاق کی ہی ہے۔ ایک طرف دادا اپنے بیٹے کا والد ہے تو یتیم پوتے کا بھی والد ہے۔ اسی کے بالمقابل جس طرح بیٹا (چچا تایا ) میت کی اولاد ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتا بھی میت (دادا) کی اولاد و ذریت میں سے ہے۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ والدین کے ترکہ میں اس کی جملہ اولادوں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں سب کا حق و حصہ ہے جو اللہ کا فرض کیا ہوا (فریضہ الہی) ہے۔
اس پر آپ لکھتے ہیں:
اس پر آپ فرماتے ہیں:اس پر آپ لکھتے ہیں:
تو پھر صرف یتیم پوتا ہی کیوں، یوں تو دادا تمام پوتے پوتیوں کا اسی طرح والد ٹھہرتا ہے، جیسے بقول آپ کے وہ چچا اور تایا کا والد ہے، اور پھر دادا کی وراثت میں اللہ کا فرض کیئے ہوئے، فریضہ الہی میں جملہ اولادوں میں تمام پوتے پوتیاں کا حصہ اسی طرح لازم آتا ہے، جیسے دادا کے بیٹے بیٹیوں کا!
میرے بھائی! آپ ''اولاد '' کے اپنے خود ساختہ مفہوم کی وجہ سے ایسی بے سرو پا باتیں کیئے جا رہے ہیں!
میرے محترم ابن داود صاحب!
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔ آپ کا تو حال یہ ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم اور مصداق جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہے۔ آپ نہ تو حدود الٰہی کا معنی و مفہوم جانتے سمجھتے ہیں اور نہ ہی فریضہ الٰہی کو ہی سمجھ پا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔
بے سروپا باتیں تو آپ کیئے جارہے ہیں اور ایک ایسے مسئلہ میں جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ ہی پیر۔ جو نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی احادیث رسول سے ۔ بلکہ یہ تو بالکل ہی ایک منگھڑت مسئلہ ہے۔
آپ سے اس مسئلہ پر دلیل مانگی جاتی ہے تو آپ وہ دے نہیں پارہے ہیں البتہ ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں۔
آپ اولاد کے جس معنی و مفہوم کو خود ساختہ قرار دے رہے ہیں اور اسے بے سر و پا باتیں کہہ رہے ہیں وہ محض اس لئے ہے کہ آپ نہ قرآن کی آیتوں پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی احادیث پر اور آپ تقلید جیسی مہلک بیماری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کو قرآن و حدیث کی سیدھی سادی باتیں نہیں سمجھ آرہی ہیں۔آپ تو صحیح ڈھنگ سے اردو بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ آپ تو (آپ و تم، ہیں اورہو ) میں بھی فرق وتمیز نہیں کر پارہے ہیں۔ تو قرآن و حدیث کیا خاک سمجھیں گے۔
اولاد کا جو مفہوم و معنی ہم نے بیان کیا ہے وہ میرا اپنا گھڑا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث اور تفاسیر و شروح احادیث میں لکھا ہو اہے اور وہ مفہوم عربی لغات میں بھی لکھا ہوا موجود ہے کہ اولاد و والد میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کا تعلق توالد و تناسل کی بنیاد پر ہو اب وہ خواہ مذکر ہو (یعنی بیٹا، پوتا نواسا، پڑ پوتا، پڑنواسا درجہ بدرجہ نیچے تک)۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہم سب کو (یا بنی آدم ) کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرمایا ہے۔
اسی طرح مونث (یعنی بیٹی، پوتی نواسی، پڑپوتی پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک اور ان کی اولادیں) بھی اولاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو (ابنای) یعنی میرے دونوں بیٹے اور حسن کو (ابنی ہذا) یعنی میرا یہ بیٹا جبکہ وہ ان کے نواسے تھے
اور خود اپنے بارے میں فرمایا: (انا ابن عبد المطلب) یعنی میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ جب کہ عبد المطلب ان کے دادا تھے۔
یہ سب قرآن و حدیث کی باتیں ہیں میری خود ساختہ نہیں یہ آپ کی میرے اوپر افترا پردازی ہے۔ جس کا آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔
کسی کا کسی کا والد یا اولاد ہونا اور والدیت اور ولدیت کا رشتہ توالد و تواسل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ زندگی و موت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ جب تک ان میں کا کوئی زندہ ہو تا وہ والد و اولاد رہے اور کوئی وفات پا جائے، مر جائے تو پھر وہ ختم ہوجائے۔ آپ یہ بات بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں۔تو کیا کیا جاسکتا ہے۔
جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے راہ راست پر نہیں لا سکتی ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔
اور میرے بنیادی سوال کا جواب نہیں دے پا رہے ہیں کہ (جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا تھا جو بیٹا نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟)
میں نے صحیح بخاری کے یتیم پوتی کواس کی پھوپھی کے ہوتے ہوئے حصہ دیئے جانے سے متعلق ایک حدیث پیش کی اور لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
یہ بات بھی آپ کے پلے نہیں پڑی اور آپ اس پر تبصرہ کرنے بیٹھ گئے
چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں:
میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پہلے یہ تو بتائیے کہ اس حدیث میں جس کی وراثت تقسیم ہوئی، اس کا کوئی بیٹا موجود تھا؟ جب دادا کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا، تو مذکورہ شرط تو اسی طرح پوری ہوئی، جیسے ہم نے بیان کیا ہے! کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو!
اس پر آپ فرماتے ہیں:پھر آنجناب لکھتے ہیں:
اس حدیث میں آپ کو میت کا کوئی بیٹا نظر آرہا ہے، کہ ہمارا مدعا اس حدیث سے غلط ثابت ہو، اور آپ کا درست ثابت ہو جائے! آپ میت کی، یعنی کہ دادا کی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کی وراثت کے ثبوت پر، بیٹے کی موجودگی میں بھی پوتے، پوتی کی وراثت کے کو قیاس فرما رہے ہیں! اور آپ کا یہ قیاس باطل ہے!
آنجناب کا مبلغ علم بس صرف اتنا ہی ہے اور آپ کی اعلیٰ فہم و فراست کا یہ عالم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا کہ جب میت کی صرف مونث اولادیں ہوں(نساء) اور کوئی مذکر اولاد نہ ہو تب ایسی صورت میں ان کا مجموعی حصہ دو تہائی(ثلثان) ہے اور آپ ہیں کہ اس میں بیٹا تلاش کر رہے ہیں۔
آپ تو قیاس کا بھی معنی و مفہوم نہیں سمجھ رہے ہیں۔
میرے بھائی! جب دو چیزیں ایک جیسی ہوتی ہیں تو ایک کو دوسرے پرقیاس کیا جاتا ہے۔ یتیم پوتے پر ہی قیاس کرکے دادا کو اس کا والد و باپ مان کر اس کے یتیم پوتے کا وارث حقدار و حصہ دار قرار دیا گیا اور اجماع و اتفاق ہوا۔ یہ سب تو آپ کو معلوم ہی نہیں اور نہ ہی سمجھ میں آتا ہے۔ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں جانتے سمجھتے کچھ نہیں۔ بس آپ کو جواب دینے کا شوق ہے اسی لئے میرا جواب دینے بیٹھ گئے اور لکھنا شروع کردیا۔
میرے بھائی جس آیت سے بیٹے کا حق و حصہ ثابت ہوتا ہے اسی آیت سے بیٹی کا بھی ثابت ہوتا ہے اور اسی آیت سے یتیم پوتے پوتیوں کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔ اور اسی آیت سے ماں باپ، دادا دای کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔
لہذا میرے محترم ! پہلے آپ فرائض و مواریث کو صحیح ڈھنگ سے پڑھئے سمجھئےپھر بحث کیجئے۔
لہذا میرے محترم ! پہلے آپ فرائض و مواریث کو صحیح ڈھنگ سے پڑھئے سمجھئےپھر بحث کیجئے۔
اور اللہ کا یہ فرمان یاد رکھیئے:
(وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا) (34) (وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا) (35) (وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا) (36) [سورة الاسراء]
یعنی یتیم کے مال کے بھی قریب نہ جاؤ۔ اور انصاف کے ترازو سے تولو۔ اور جس چیز کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگو۔ کیونکہ انسان کے سارے اعضاء و جوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے۔
جب آپ کو والد و اولاد کا معنی و مفہوم اور اس کا مصداق ہی معلوم نہیں ہے تو کج بحثی کیوں کئے جا رہے ہیں۔
میں نے جو بنیا دی سوال کیا اس کا جواب دیجئے اور کج بحثی چھوڑیئے۔ صرف لفاظی کرنے اور طول طویل بکواس کر دینے سے کوئی بات صحیح نہیں ہو جاتی اور نہ ہی مسئلہ حل ہو پاتا ہے۔
کوئی بھی بات اسی وقت صحیح مانی جاتی ہے جب وہ اصولی ہو اور قرآن و صحیح حدیث سے ثابت ہو ۔
رہا علماء و فقہاء کے اقوال، آراء ، قیاسات اور فتوے تو یہ سب ہوا ہوائی ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ظنون یعنی گمان اور خرص یعنی اٹکل بازیاں کہا ہے۔ اور جو کچھ آپ نے اب تک کہا یا پیش کیا ہے وہ محض گمان اور اٹکل بازیاں ہی ہیں کوئی قرآن و حدیث کی باتیں نہیں ہیں۔
چنانچہ میں نے لکھا :
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑
جیساکہ اللہ کے رسول کا وہ فیصلہ جس کے تحت آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ بحیثیت اولاد و بیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا۔
اس پر آپ فرماتے ہیں:اسکے جواب میں آنجناب نے لکھا :
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، اس کا بیان اوپر گزا! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے پوتی کو بحثیت اولاد وبیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا ہوتا، تو پوتی کی پھوپھی، اور پوتی دونوں کو برابر حصہ ملتا! مگر ایسا ہوا نہیں!
ارےاللہ کے بندے!
آپ کو اتنی بھی عقل اور سمجھ نہیں ہے کہ جب میت کی صرف مونث اولاد ہو تو ان سب کا مشترکہ حصہ ثلثان(دوتہائی حصہ) ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ)
تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (ثلثان) میں سے ہی یتیم پوتی کو حصہ دیا تھا کوئی بھیک، خیرات، یا دادا کی کی ہوئی وصیت نہیں تھی۔
اور یہ ثلثان(دوتہائی حصہ) صرف بیٹیوں کے لئے ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے (بنات ) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے بلکہ (نساء اور فوق) جس میں درجہ بدرجہ بیٹیاں، پوتیاں پڑپوتیاں وغیرہ سب داخل و شامل ہیں۔
تو اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو چھٹا حصہ دینا اور بیٹی کو آدھا دینا ان کی حکمت و مصلحت کے تحت تھی۔ اور اللہ کے اس فرمان (وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ) اور (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) کے بموجب تھا۔
چونکہ ایک طبقہ میں صرف ایک یعنی بیٹی تھی تو اس کو آدھا دیدیا۔ جس کے بعد صرف چھٹا حصہ ہی باقی بچ رہا تو باقی بچا ہوا چھٹا حصہ پوتی کو دیدیا اس طرح بیٹی پوتی کا مجموعی حصہ (ثلثان) دوتہائی ہوگیا اس طرح اللہ کا (نساء ) کے حق میں جو فریضہ تھا وہ پورا ہوگیا۔
اب جو باقی بچا وہ بہن کو دیدیا۔ تو پوتی کو جتنا کچھ ملا وہ اللہ کے مقرر کردہ فریضہ (ثُلُثَا مَا تَرَكَ) میں سے ہی تھا جو کہ (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) کے بموجب فریضہ الٰہی ہی تھا۔بھیک، خیرات نہیں تھی۔
اگر اتنی سیدھی سی بات بھی آپ کے اعلیٰ دماغ اور فہم میں نہیں آپارہی ہے اور سمجھ نہیں پارہے ہیں تو مجھے فالتو باتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آپ پہلے تقلید کی بھول بھلیوں سے نکلئے اور تحقیق کے کھلے میدان میں آئیے پھر بات کیجئے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری ہوں یا شیخ الحدیث عبید اللہ مبارک پوری ہوں یا اور کوئی بڑے سے بڑا عالم محدث، فقیہ ہو اس کی لکھی و کہی ہوئی باتیں اور فتوے کوئی وحی الٰہی نہیں ہیں کہ اس کو بلا چون و چرا مان لینا اور اس پرآنکھ بند کرکے ایمان لانا ہم پر واجب و فرض ہو اور یہ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے جو کہا اور فتویٰ دیا وہ سو فیصدی صحیح ہی ہو۔
آپ اس خبط میں مبتلا ہیں، کہ کسی کی قرآن وحدیث موافق بات تسلیم کرے سے تقلید لازم آتی ہے، لہٰذا آپ نے تمام علماء کی حق بات کو جو قرآن وحدیث کوموافق ہیں، انہیں بھی رد کرکے قرآن وحدیث کی مخالف خود ساختہ بات کو اپنا دین و ایمان سمجھ لیا ہے!جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ))
((وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ)) (170) ((وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ)) (171) [سورة البقرة]
تو آپ ان آیات کا مصداق نہ بنئے۔ آپ کیا ہیں آپ کا عقیدہ منہج کیا ہے مجھے نہیں معلوم ۔ لیکن بہر حال یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں ہے جو آپ نے اختیار کیا ہوا ہےکہ قرآنی آیات اور احادیث کا انکار کرکے اپنے علماء اور بزرگوں کی اندھی تقلید میں ان کی کہی ہوئی باتوں پر آنکھ بند کرکے ایمان و یقین کیا ہوا ہے۔ اور اس کو حق اور سچ جان کر اس کی بے جا تائید و حمایت اور مدافعت کر رہے ہیں
آپ کا مذکوہ بالا قول ''صرح طور پر بے بنیاد، غیر اصولی، غیر عادلانہ، غیر منصفانہ ہے اور قرآن وحدیث کے صریح طور پر منافی ومخالف ہے اور اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ شریعت کے سراسر خلاف ہے، اس لئے باطل ومردود ہے اور آ پ کے اس قول پر نہ صرف عمل ناجائز و حرام ہے، بلکہ اسے درست تصور کرنا بھی ناجائز وحرام ہے!''یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث کا فتویٰ خواہ جس کسی نے بھی دیا ہو وہ صریحی طور پر بے بنیاد، غیر اصولی، غیر عادلانہ، غیر منصفانہ ہے اور قرآن و حدیث کے صریحی طور پر منافی و مخالف ہے اور اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ شریعت کے سراسر خلاف ہے اس لئے باطل و مردود ہے اور اس پر عمل ناجائز و حرام ہے۔
اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا!اب اگر آپ جیسے اعلیٰ فہم وفراست کے دعویدار لوگوں کی عقل و دماغ اور فہم میں یہ بات نہیں آرہی ہے تو یہ آپ کی اعلیٰ فہم و فراست، عقل اور دماغ کا قصور ہے اس کے لئے کوئی کیا کر سکتا ہے ۔
الزام در الزام! وہ بھی جھوٹ پر جھوٹ!آپ جس چیز کی طرف ہمیں بلانا، سمجھانا، لے آنا اور باور کرانا چاہتے ہیں اور ہم سے زور زبردستی سے منوانا چاہتے ہیں
علماء وفقہاء کی یہ بات کہ ''پوتا دادا کے ترکمہ میں اسی صورت وراثت کا حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی نرینہ أولاد نہ ہو'' اللہ کی نازل کردہ قرآن وحدیث کے موافق ہے، اور اس پر قرآن وحدیث کے دلائل ہیں!وہ سب لوگوں کی باتیں ہیں اللہ ورسول کلام و فرمان نہیں ہے سب قیاسی اور اٹکل پچو باتیں ہیں جس پر اللہ کی جانب سے نازل کردہ کوئی دلیل نہیں ہے۔
لہذا برائے مہر بانی ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں اور میرے اس بنیادی سوال کا جواب فراہم کریں جو ہم نے اٹھایا ہے:۔
(جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو بیٹے نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟)
میں نے کہا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑
یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
اس کے جواب میں آپ لکھ رہے ہیں:
آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو! یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!
میرے بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کا یہ جملہ (آپ تو یوں فرما رہے ہیں) بالکل ہی غلط اور اللہ رسول کی شان میں بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے کیونکہ فرمانا تو صرف اللہ و رسول کا کام ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: (((إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ)) (57)، ((أَلَا لَهُ الْحُكْمُ)) (62) [الأنعام]، ((مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (40))، ((إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (67)) [يوسف]، ((يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44))) [المائدة]
یعنی حکم اور فرمان تو صرف اللہ کا ہے اور فرمانے کا کام تو صرف اللہ و رسول کی شان ہے کسی بندے کی شان نہیں ہے تو برائے مہربانی میرے تعلق سے یہ جملہ آئندہ استعمال نہ کیجئے گا۔
میں نے لکھا :
جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ چچا تائے مانع اور حاجب نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا کی اولاد اس کے وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہیں۔
اور خود اصول فرائض میں حجب کا پہلا اصول ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہو تو وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے جیسے باپ کے ہوتے دادا محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے ۔ یتیم پوتے کے ترکہ میں تو دادا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اور دادا کے ترکہ میں وہی پوتا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہے۔ یہ کونسی شریعت اور کونسا دین ہے؟۔
آنجناب لکھتے ہیں:
''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا جیسا کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کے باپ کی عدم موجود گی میں حصہ دیا۔ اسی طرح جب اس کا چچا بھی نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
میں نے لکھا :
جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ چچا تائے مانع اور حاجب نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا کی اولاد اس کے وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہیں۔
اور خود اصول فرائض میں حجب کا پہلا اصول ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہو تو وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے جیسے باپ کے ہوتے دادا محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے ۔ یتیم پوتے کے ترکہ میں تو دادا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اور دادا کے ترکہ میں وہی پوتا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہے۔ یہ کونسی شریعت اور کونسا دین ہے؟۔
یہ آپ کا جھوٹ ہے، یہ آپ نے پہلے، نہیں لکھا تھا، یہ آپ نے اب لکھا ہے!یہ ہے آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست۔ میں نے تو لکھا تھا کہ جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے اور جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے۔
دیکھیں میاں! یہ احمقانہ عبارت آپ کی ہے، اور ہم نے آپ کی عبارت کا احمقانہ ہونا ہی بتلایا اور بیان کیا ہے!آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست کا یہ عالم ہے کہ اس کا معنی و مفہوم یہ نکال رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ (گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!) اب اس احمقانہ بات کا کیا جواب دیا جائے۔ سچ کہا کسی نے کہ (جواب جاہلاں باشد خموشی) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا) (الفرقان: 63)
جب آپ کو اتنی سمجھ ہے، تو آپ اپنے کلام میں بھی اس کا لحاظ کیا کریں! ایسے احمقانہ فقرے کہ''جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو'' لکھنے سے گریز کریں!اب آنجناب کے پاس اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ جب پوتے کا باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی حقدار وحصہ دار ہی ہوگا ایسے پوتے کا توکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
یہ مسئلہ آپ نے پہلی بار درست تحریر کیا ہے! وگرنہ اس سے قبل تو ''یتیم'' کی نعرے بازی آپ کو مسئلہ بھی درست تحریر کرنے سے مانع تھی!مسئلہ تو اس پوتے کا ہے جس کا باپ نہیں ہے اور اس کے چچا تائے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہے یا نہیں ہے۔
اور اتنی سی بات آپ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے! کہ پوتے کا دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کی کوئی نرینہ أولاد موجود نہ ہو!بس اتنی سی بات ہے
آپ کو واقعی شرعی مسائل میں گفتگو نہیں، کرنی چاہئے، کہ آپ ایک جملہ تو ڈھنگ سے لکھ نہیں پا رہے! ''یتیم'' کی نعرے بازی پھر آڑے آ گئی!رہا یہ مسئلہ کہ یتیم پوتے کا نہ تو باپ ہی ہے اور نہ چچا تائے ہی ہیں تو ایسی صورت میں یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ جس شخص کو نہ تو بات ڈھنگ سے کہنے کا ہی شعور ہو اور نہ ہی بات کو ڈھنگ سے سمجھنے کا ہی شعور ہو تو ایسے شخص کو اس جیسے نازک اور خطرناک شرعی مسئلہ میں بولنےاور لکھنے کی جرات ہی نہیں کرنی چاہئے۔
ہاں میں کہتا ہوں :
ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے
ویسے میں آپ کی ''خود اعتمادی'' کی داد دیتا ہوں! کہ اس قدر لا یعنی، اور تضاد سے بھرپور کلام کرنے بعد بھی، دوسروں پر الزام عائد کرنا! واقعی کمال بات ہے!یہ کوئی شوقیہ چیز اور تفریحی مسئلہ نہیں ہے کہ چلو تھوڑا تفریح کرلیتے ہیں اور یہ آپ کا کام نہیں ہے اور آپ کو زیبا نہیں دیتا کہ آپ اس نازک اور خطرناک مسئلہ میں کچھ بھی لکھیں۔ لہذا یہ تفریح بند کردیں۔
ہم تو اپنا زور قلم کہیں اور بھی صرف کر لیں گے!اور کسی دوسرے موضوع میں اپنا زور قلم صرف کریں۔
گھتگو ریختہ میں نہ کر ہم سےآپ کی اردو دانی کا یہ حال ہے کہ جملہ آپ کے (لفظ ) سے شروع کرتے ہیں اور جملہ ختم کرتے کرتے تم پر آ جاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی تمیز نہیں ہے جب جملہ آپ سے شروع کیا جاتا ہے تو ہیں پر ختم کیا جاتا ہے۔ اور جب تم سے شروع کیا جاتا ہے تو ہو پر ختم ہوتا ہے۔
یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ لکھتے ہیں :
(گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!)
یہ انتہائی احمقانہ بات ہے پوتا جب یتیم ہوگا تو اس کا باپ نہیں ہوگا اور جب باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی اس کی وراثت کا مسئلہ ہی درپیش ہوگا۔
یہ ہے آپ کی اردو دانی اور معاملہ فہمی جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
اب آتے ہیں آپ کی اس خوش فہمی کا جائزہ لیتے ہیں آپ نے کہا:
میرے بھائی! یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا! اس کےورثاء اس کے مالک ہو گئے، اور یہ یتیم پوتا بھی اس مال کا مالک بن گیا تھا! میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا، چہ جائیکہ وہ کسی کے مال کا ترکہ وصول کرے! جس کی وفات ہو گئی، اس کادنیا کے مال میں کوئی حق و حصہ نہیں! یہ صرف اٹکل کے گھوڑے ہیں، کہ اگر وہ زندہ ہوتا! تو اپنا حصہ پاتا! حقیقت یہ ہے کہ نہ تو زندہ ہے، اور نہ اس کا کوئی حصہ ہے!
یہ بھی آنجناب کی خوش فہمی اور اعلیٰ فہم و فراست کا ایک اور نمونہ۔ یہاں بحث ابا جان اور اما جان کے ترکہ کی نہیں ہورہی ہے بلکہ دادا کے ترکہ کی اور دادا کا ترکہ کسی ایرے غیرے کا مال اور ترکہ نہیں ہے بلکہ اس کے والد دادا جان کا ترکہ ہے جس کی وہ اولاد و ذریت میں سے ہے اور وہ اس کے باپ کی وفات کے بعد اس کی جگہ اب اسکا والد و باپ ہے جو اسے چھوڑ کر مرگیا ہے
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد 'عبد اللہ'' تھے، نہ کہ ''عبد المطلب''، عبد المطلب، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے، ''والد '' نہیں!جیسے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے والد عبد اللہ جب انہیں چھوڑ کر مرگئے تو ان کے دادا عبد المطلب نے بطور والد و باپ کے ان کی پرورش و پرداخت کی اور باپ کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں انہیں ادا کی۔
آپ نے لکھا:
(یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا!)۔
(میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا)۔
آپ کے بقول جب یتیم پوتے کے ابا جان اور دادا جان کا مال مرتے ہی ان کا نہیں رہا تو پھر نہ تو یتیم پوتے کے ابا جان کا ترکہ بنا اور نہ ہی دادا جان کا ترکہ بنا لہذا اس میں نہ تو اس کا کوئی حصہ بنتا ہے اور نہ ہی اس کے چچا تایوں کا ہی کوئی حصہ بنتا ہے ۔ کیونکہ جب یتیم پوتے کے باپ کا اور اس کے چچا تائے کے باپ کا مال ہی نہیں رہا تو پھر ترکہ بننے اور وراثت منتقل ہونے کا سوال ہی نہیں بنتا ہے۔
لیکن آپ بہت غلط فہمی میں مبتلا ہو!آپ کی اعلیٰ فہم و فراست ایسا ہی کہتی ہے۔ آئے آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتے ہیں۔
آپ ایسا کیجیئے، کہ قریبی داوخانہ سے رجوع کریں!جناب من! آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جبتک مرنے والے کا ترکہ تقسیم نہیں ہوجاتا ہے تب تک اس کا چھوڑا ہوا مال اسی کا رہتا ہے جو اللہ کی امان میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا نگراں و محافظ ہوتا ہے۔
جس کے حقدار و حصہ دار اس نے بنا و متعین کر رکھے ہیں اور ان کے حصے بھی مقرر کردئے ہیں جنہیں ان کو دیدیئے جانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: (وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا) (سورة النساء: 33)
جناب من! پہلے آپ ڈھنگ سے قرآن و حدیث پڑھیئے ۔ اور فرائض و مواریث کا علم اللہ کی کتاب قرآن مجید اور سنت رسول اللہ سے سیکھئے اس کے بعد پھر بحث مباحثہ کا شوق پورا کیجئے۔
معلوم ہوتا ہے، کہ صاحب کو یہ گمان ہے کہ اردو وہی ہے، جو انہیں آتی ہے!اور اس سے پہلے اپنے اردو ادب کو درست کیجئے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
جس میں پوتے کی وراثت کے لئے شرط ''إِذا لم يكن إبن'' مذکور ہے۔حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
[1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔
یہاں بھی آپ نے صحیح بخاری میں مذکور شرط کے یہی ''إِذا لم يكن إبن'' الفاظ لکھے۔[2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔
مگر آپ کو لاحق نسیان کا مرض بہت سنگین ہے، اس کے باوجود آپ نے صحیح بخاری میں باب کے درج ذیل الفاظ نقل کئے:یہ بات یاد رکھیئے گا!
کہ آپ نے یہاں صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ نقل کیئے ہیں:
''باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن''
پیش خدمت ہے صحیح بخاری کے ابواب یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے تعلق سے:
[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
آپ کی پیش کردہ اس عبارت میں زیر بحث شرط کے الفاظ تبدیل ہوگئے؛[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
اس کا آپ نے یہ جواب دیا:یہ ضرور بتائیے گا کہ صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ باب ہے!
اول تو ہم نے آپ سے سوال کیا تھا، کہ صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ عبارت ہے، تو آپ نے صحیح بخاری کے کسی نسخہ کا حوالہ نہیں دیا، بلکہ صحیح بخاری کی ایک شرح کے حوالہ نقل کردیا!7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر]
ؐ-----------------------------
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).
امام بخاری لکھتے ہیں:
صحیح بخاری کے یتیم پوتے اور پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے الگ الگ دو ابواب
پہلا باب: یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا باب
[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو
آئیے ہم آنجناب کی اس خوش فہمی کو دور کیئے دیتے ہیں۔ صحیح بخاری : کتاب الفرائض کا باب کچھ اس طرح ہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر]
ؐ-----------------------------
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).
امام بخاری نے یہ باب باندھا اور اس کے تحت حدیث رسول پیش کی جیسا کہ باب کے عنوان سے ظاہر ہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.
6735 - حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ» [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]
__________
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).
پوری عبارت یوں ہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)