• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جب تک ''ختم شد'' نہیں آتا!
خیر یہ تو از راہ مزاح کہا ہے!
کوشش ہے، کہ ان شاء اللہ weekend تک مکمل کر لوں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے گفتگو کا سیاق نقل کیا:
میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا:
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے
(إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔ یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
اس پر ہمارے جواب سے ایک جملہ نقل کیا:
آپ لکھنے سے پہلے کچھ سوچتے بھی ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں؟
اس پر آپ فرماتے ہیں:
جناب من اگر میں نے سوچا سمجھا نہ ہوتا تو یہ سب لکھتا۔ یہ آپ ہیں کہ نہ تو سوچتے ہی ہیں اور نہ ہی سمجھ رہے ہیں یہ جملہ آپ پر فٹ ہوتا ہے۔ یہ آپ ہیں کہ آپ کے اعلیٰ دماغ اور اعلیٰ فہم و فراست میں جو آتا ہے بلا سوچے سمجھے بکتے چلے جارہے ہیں ۔
معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ کی پٹاری میں کچھ رہا نہیں، کہ آپ اب ''بکنے'' کی گردان ''بکے'' چلے جا رہے ہیں!
ہم اگر یہ کہتے ہیں، کہ آپ بغیر سوچے سمجھے لکھ رہے ہیں، تو آپ کے کلام کا تضاد دم تحریر میں لاتے ہیں!
آپ ایسی بے تکی کی ''ہانکنے'' اور خواہ مخواہ کی ''بکنے'' کی ''بکواس'' سے باز ہی رہیں تو بہتر ہے!
یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ لکھ دیا اور کوئی لکیر کھینچ دی تو اسے پیٹے جارہے ہیں۔ یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ بلا سوچے سمجھے قریب سے قریب تر کا ایک پہاڑہ پڑھا دیا ہے اور رٹا دیا ہے تو آپ جیسے لوگ ان کی تقلید میں ان کے رٹائے ہوئے ایک جملہ کی رٹ لگا رکھی ہے کہ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
اب معاملہ تو ایسا ہی ہے، کہ بیٹا عصبہ ہے، اور پوتا عصبہ بعید، اب کسی نے یا یوں کہیئے کہ امت کے علماء وفقہاء نے قرآن وحدیث کے موافق بات کہی ہے، تو مجھے کیا کسی باؤلے نے کاٹا ہے کہ میں ان کی مخالفت کروں! یہ تو وہ کریں کہ جنہوں نے نئے اپی خواہشات کو اپنا دین بنا لیاہے!
اب آپ جیسے لوگوں کے سامنے قرآن و حدیث کی دلیلیں دی جارہی ہیں ثبوت پیش کیا جارہا ہے پھر بھی کوئی توجہ نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی سنوائی ہو رہی ہے۔
اول تو آپ اپنے موقف پر قرآن وحدیث کی دلائل پیش کر رہے ہیں، وہ آپ کے موقف پر دلیل وثبوت نہیں، بلکہ آپ کے موقف کے بطلان پر دلیل وثبوت ہیں!
دوم کہ آپ کے موقف سنوائی تو خوب کر رہے ہیں، حتی کہ آپ کو اتنی طویل سنوائی پر اعتراض بھی ہوا کہ کب تک یہ سنوائی ''جاری ہے''!
اور اس ''سنوائی'' میں آپ کا موقف باطل ثابت ہوتا ہے!
بس ایک ہی رٹ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
دیکھیں میاں! جب ایک بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے، تو پھر اس بتلایا جائے گا، اور بار بار بتلایا جائے گا! خواہ اس سے کسی کوتکلیف ہو، یا اس کا کلیجہ چھلنی ہو جائے! مگر کسی کی خواہشات پر قرآن وحدیث کے احکام تبدیل نہیں ہو سکتے!
آپ کے پاس آپ کے موقف پر کوئی دلیل وثبوت قرآن وحدیث سے نہیں!
اگر آپ کے پاس ہے، تو بتلائیے، کہ قرآن کی کس آیت میں بیٹے کا کتنا حصہ متعین ہے!
یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی، کہ بیٹا کا حصہ متعین نہیں، بلکہ بیٹا اپنے وجود سے بیٹیوں کو بھی عصبہ بنا دیتا ہے، کہ پھر بیٹے بیٹیا، أصحاب الفرائض، یعنی جن کے حصہ کا تعین قرآن میں ہے، اسکے بعد بچے ہوئے مال کے وارث بنتے ہیں!
اب آپ بتلائیے کہ قرآن میں بیٹے کا کتنا حصہ بیان ہوا ہے! نصف، ثلث، ربع، سدس، کتنا حصہ ہے، بحوالہ بتلائیے!
اور یہ آپ کبھی نہیں بتلا سکتے، کیوں کہ قرآن میں یہ ہے ہی نہیں!
لہٰذا قرآن وحدیث پر جھوٹ بولنے سے باز آجائیں! اور اللہ کے حضور توبہ کریں!

جب قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت اور دلیل مانگی جاتی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔
جواب تو اس کا دیا جا چکا ہے، لیکن آپ کو اس جواب کو سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق نہیں!
اور اتنی معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ جو جس کاوالد وہ اس کی اولاد ہے یہ بالکل سمپل اور سیدھی سی بات ہے جب دادا والد ہے تو پوتا اس کی اولاد ہوا ۔
آپ کی اتنی سمپل سے بات باطل ہے!
آپ کو پہلے بھی بتلایا تھا کہ ہمارا آپ کے موقف کو باطل کہنا، اس امر کو لازم نہیں آتا کہ نہیں آتا کہ ہمیں آپ کی بات سمجھ نہیں آئی! بلکہ معاملہ یہ ہے، کہ ہمیں آپ کی بات سمجھ آئی ہے، اور ہم آپ کی بات کو باطل قرار دیتے ہیں!
اور یہ آ نے جو کہا ہے کہ ''جب دادا والد ہے تو پوتا اس کی أولاد ہوا''
تو متعدد بار آپ کو یہ بتلایا گیا ہے کہ دادا ''والد'' نہیں!
لہٰذا ''جب دادا والد نہیں، تو پوتا اس کی أولاد نہیں''
آپ نے اب تک دادا کے ''والد'' یعنی ''حقیقی والد'' ہونے پر کوئی دلیل و ثبوت پیش نہیں کیا، اور بات ایسے کرتے ہیں، جیسے کہ آپ کا کہا ''دلیل وثبوت ہے!

ایک والد کی مختلف اولادیں ہوتیں البتہ مختلف اولادوں کا ایک والد ہوتا ہے۔ اولاد و والد کے مختلف درجات و طبقات ہیں ۔ باپ، دادا، پردادا اوپر آدم علیہ السلام تک درجہ بدرجہ سب والد ہیں اسی طرح بیٹا، پوتا، پڑپوتا درجہ بدرجہ سبھی اولاد آدم ہیں۔
یہ ''أولاد آدم'' معنی مجاز میں کہتے ہیں! وگرنہ ہر مرد، ہر عورت کا حقیقی بھائی قرار پائے، اور ان کے مابین نکاح ممنوع وحرام!
ایسی بے تکی باتیں کرنے سے گریز ہی فرمائیں تو بہتر ہے!
یہ سب تو اللہ کی کتاب قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے۔ لیکن یہ آپ کو سمجھ میں تو آنہیں رہا ہے۔
کہاں لکھا ہے یہ اللہ کی کتاب قرآن میں؟
آپ کیوں اپنے تخیل کو قرآن سے منسوب کرتے ہوئے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں!
آپ کو ہی پہلے ''ولد'' اور ''ابن'' کے فرق کا فر بتلاتے ہیں، پھر ''ابن'' سے ''ولد'' ہونے کو لازم قرار دیتے ہیں! آپ کو خود اپنے ہی کلام کا تضاد سمجھ ہیں آرہا، اور ناسمجھی کا الزام دوسروں کو دیتے ہیں!
البتہ شیطان نے جو وسوسہ آپ جیسے لوگوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے اور رٹا دیا ہے کہ صرف بیٹا ہی اولاد ہو سکتا ہے اور وہی قریب تر ہو سکتا ہے تو وہی بات آپ جیسے لوگوں کے ذہن و دماغ پر بھوت بن کر سوار ہے۔
اس ایک جملہ میں آپ نے ہم پر دو جھوٹ بولے ہیں!
اول تو ہم نے کہیں یہ نہیں کہا کہ ''صرف بیٹا'' ہی أولاد ہو سکتا ہے، بلکہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ بیٹیاں بھی أولاد ہیں!
دوم کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ وہی یعنی بیٹا ہی قریب تر ہو ہو سکتا ہے، بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ بیٹا نہ ہو تو پوتا قریب تر ہو سکتا ہے!
جہاں تک رہی بات کہ شیطان نے کس کو وحی کی، اور کس کے سر پر وہ وحی بن کر سوار ہے، تو اسکے مصداق آپ خود ہی قرار پاتے ہیں، کہ قرآن وحدیث پر جھوٹ بول کر اپنی خواہشات کو شریعت باور کروانے کے لئے شیطان نے آپ کو وسوسوں میں مبتلا کردیا ہے، کہ آپ ان وساوس کو قرآن وحدیث کا جامہ پہنانے کی سعی کرنے میں مصروف و مشغول ہیں!

اور اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
(
الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ (21) فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (23) أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (24) إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ (25) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ (26) فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ (27) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (28) أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ (29) [سورة محمد]
ان رٹی رٹائی باتوں کا اللہ کے دین و شریعت (کتاب و سنت) میں کوئی حیثت اور مقام نہیں ہے۔
اب ہر مسلمان نے ایک کلمہ رٹا ہوا ہے، ''لا إله إلا الله محمد رسول الله''، تو آپ کی اٹکل کے مواق تو یہ کلمہ پڑھنے والے بھی اس آیت کے مصداق ٹھہریں گے؟
آپ کچھ سوچ سمجھ کر لکھا کریں میاں!
آپ نے ٹھان رکھی ہے کہ آپ نے علماء وفقہاء کی بات کو ہر صورت رد کرنا ہے، خواہ وہ قرآن کو موافق ہو!
اسی کے پیش نظر ہم نے کہا تھا، کہ علماء وفقہاء کی آراء و فقہ کو مطلقاً رد کرنا زندیقیت ہے!
آپ نے ہمارا کلام سے اقتباس پیش کیا:
آپ نے کہا:
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو!
اس پر آپ فرماتے ہیں:
ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے جو ان کے واسطوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے اور اسے ان تک پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے جس کی دلیل اللہ کا یہی فرمان و کلام ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) ہے کیونکہ سبھی اولاد ہیں اور اللہ کا فرمان سب کو شامل سب کا جامع اور کامل و مکمل ہے۔

آپ کے کیا ہی کہنے!
آپ تو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں،
اس کے مصداق کہ، ''کہنے میں کیا حرج ہے''
اگر ہر ہر پوتے پوتی کا اور نواسے نواسی کا دادا دادی اور نانا نانی کے ترکہ سے حصہ ہوتا ہے، تو انہیں ان کی ملکیت میں دینا لازم آتا ہے!
اور آپ یہ نہیں کرتے! لہٰذا آپ کا کہا فریب ہے، اور خود فریبی سے حقیقت نہیں بدل جاتی!
ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں، کہ آپ خود فریبی سے بھی بچیئے، اور دوسروں کو فریب دینے سے بھی باز رہیں!
اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) کہا وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ)) (سورة النساء: 11) کہا ہے اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے۔ اور بکواس کا کوئی جواب نہیں ہوا کرتا ہے جواب معقول بات کا دیا جاتا ہے نامعقول بات کا نہیں دیا جاتا ہے۔ لہذا ہر کسی کی ہر ہر بکواس کا جواب دینا ممکن بھی نہیں۔
اب تو آپ اپنی پوشاک پھاڑ کر باہر نکل رہے ہیں!
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ شیطان کے وساوس کے آپ اس قدر گرویدہ ہو چکے ہیں، کہ قرآن وحدیث کے موافق بات آپ کو ''بکواس'' معلوم ہوتی ہے، اور قرآن وحدیث کے نام پر شیطان کو وساوس کو آپ نے عین وحی الہٰی سمجھ لیا ہے!
لوگ لاکھوں کروڑوں تاویلات بیجا کریں پھر بھی پوتا اپنے دادا کی اولاد ہی رہے گا کیونکہ دادا اس کا والد ہے۔
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت جس طرح بیٹے کے لئے ہے اسی طرح یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا

آپ کی ان ہفوات کا ازالہ اوپر بیان کیا گیا ہے!
اور بفرمان الٰہی :
(آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
اللہ تعالیٰ نے (
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں (اولادکم ) کا لفظ استعمال کیا ہے (ابنائکم) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ البتہ جہاں (آباؤکم ) کہا ہے وہیں پر اس پر عطف کرتے ہوئے (ابناؤکم ) کہا ہے اور دونوں کے تعلق سے (اقرب) کی بھی نفی کردی ہے چنانچہ فرمایا:
(
آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ)
یہ بات تو آپ اور آپ جیسے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے کیونکہ شیطان نے کسی کے ذریعہ یہ سمجھا رکھا ہےکہ بیٹا قریبی عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے اللہ کے ان احکام و فرامین کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جاؤگے اور تمہاری خود ساختہ شریعت مٹی میں مل جائے گی۔ آپ کی اپنی سمجھ تو ہے نہیں آپ تو دوسروں کی سمجھ سے سمجھے ہوئے ہیں اور انہیں کی تقلید میں اس طرح کی ساری باتیں کئے جارہے ہیں تو جو انہوں نے کہا بتایا اور سمجھایا ہے وہی آپ کہہ بتا رہے ہیں اور مجھے سمجھانا چاہتے ہیں۔
اس کا ازالہ بھی اوپر کیا جا چکا ہے، اور بتلایا گیا ہے کہ یہاں تو آپ نے قرآن میں واضح معنوی تحریف کی ہے!
جناب من معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حق کو اسی لئے حق نا ماننے کی ٹھان رکھی ہے، کہ یہ دوسرے نے بیان کی، ہے، اور آپ نے دوسرے کے بیان کیئے ہوئے حق کو حق قبول کرنے کو ''تقلید'' سمجھ لیا ہے!
نجانے شیطان نے آپ کو اس خبط میں کیسے مبتلا کیا، کہ آپ نے حق اسی کو گمان کیا ہوا ہے، جو پہلے کسی نے نہ کہا ہو، اور آپ کا خود ساختہ ہی ہو! اور اگر خود ساختہ نہ ہو، تو بقول آپ کے تقلید لازم آجائے گی!
ویسے تقلید کے متعلق مقلدین ایسی ہفوات ضرور کیا کرتے ہیں! آپ یہ کہیں مقلدین کی تقلید میں تو نہیں فرما رہے!


(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے ہمارے کلام سے اقتباس نقل کیا:
آپ نے کہا:
یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!
اس پر آپ نے فرمایا:
میں کہتا ہوں :
آخر آپ کو لفظ یتیم سے اتنی چڑ کیوں ہے؟
ہمیں کسی لفظ سے کوئی مسئلہ نہیں! لیکن الفاظ کا غلط اور بے محل استعمال ، نہ صرف یہ کہ معیوب ہوتا ہے، بلکہ بسا أوقات باطل بھی ہوتا ہے!
ہمیں آپ کے ''یتیم'' کے لفظ کے غلط استعمال پر اعتراض ہے!
میں آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتا ہوں
یہ بھی خوب کہی! ''یتیم'' کے لفظ کو غلط آپ استعمال کر رہے ہیں، اور ہمیں کہتے ہیں کہ ''آپ کی اس خوش فہمی''!
آگے خود اس بات کا اعتراف بھی فرما رہے ہیں، کہ ''یتیم'' کا لفظ آپ نے اپنے خود ساختہ معنی میں استعمال کیا ہے، اور اس کے باوجود ہمیں کہتے ہیں کہ ''آ پ کی اس فہمی کو بھی دور کر کئے دیتا ہوں''

اور اس بات کی وضاحت کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے یتیم پوتا کا لفظ جو استعمال کیا ہے وہ منکرین حدیث کی طرح نہیں جن کے پاس محض جذباتیت تھی جس کے چلتے انہوں نے لفظ یتیم استعمال کیا کیونکہ ان کے پاس علم ہی نہیں تھا۔
ویسے یہ اوصاف آپ میں بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں! اور آپ نے بھی ''یتیم'' کے لفظ کو اپنے خود ساختہ معنی میں استعمال کرکے جذباتی نعرے بازی ہی کی ہے!
میں جو یتیم کا لفظ استعمال کر رہا ہوں تو صرف اس معنی میں کہ جس پوتے کا باپ زندہ نہ ہو قطع نظر اس سے کہ وہ بالغ ہو یا نابالغ اور بطور اختصار استعمال کیا ہے۔

آپ ہوتے کون ہیں، کسی لفظ کو اس کے معنی کے مخالف بطور ''اختصار'' استعمال کرنے والے؟
آپ الفاظ کے کے معنی سے قطع نظر کرتے ہوئے، خود فریبی میں مبتلا ہوتے ہیں، اور دوسروں کو فریب میں مبتلا کرتے ہیں!
یہ زبردست بھی کہی کہ الفاظ کے معنی ومطالب سے قطع نظر کرتے ہیں!
یہی وجہ ہے کہ آ پ کو اپنے ہی کلام کی سمجھ نہیں، کہ آپ کلام کے معنی سے قطع نظر کرتے ہیں! اور اس کے مقتضی سے واقف نہیں ہوتے!
بقول شاعر:
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
میاں جی! آپ نے اپنی زبان ایجاد کی ہو، جسے آپ کے سوا اللہ ہے جانتا ہے، کہ آپ جس لفظ کو چاہیں، اس کے معنی ومطالب کے خلاف اختصاراً استعمال کر لیں!
یہی معاملہ آپ کا لفظ ''ولد'' اور ''أولاد'' کے ساتھ ہے۱
مگر چلیں! آپ نے اپنے کلام میں تو یہ بیوقوفی کر ہی لی! لیکن دوسروں کے کلام پر تو اپنی خود ساختہ لغت کا اطلاق نہ کریں!
جذباتیت کی غرض سے نہیں کیونکہ میرے نزدیک پوتے کا نابالغ یا بالغ ہونا مسئلہ نہیں ہے
آپ کے نزدیک یہ مسئلہ ہو یا نہ ہو، مگر ''یتیم'' کے لفظ میں یہ مسئلہ شامل ہے، جب اس لفظ میں یہ مسئلہ شامل ہے، تو آپ کا اس لفظ کو اس کے معنی مفہوم کے خلاف استعمال کرنا لغت کے ساتھ کھلواڑ ہے!
کہ جو پوتا نابالغ ہو اسے یتیم کے نام پر بذریعہ وصیت بھیک دلوائے جانے کی تجویز پیش کی جائے اور چچا تایوں سے ہاتھ پاؤں جوڑا جائے کہ اس بے چارے کو کچھ بھیک دیدو اور دادا سے یہ کہا جائے کہ بیچارے اپنے یتیم پوتے کو وصیت کرجاؤ۔
اب دیکھیں، یہاں آپ نے محض جذباتی نعرے بازی کی ہے، اور اسی سے متصل آپ نے کہا تھا، کہ ''جذباتیت کی غرض سے نہیں''۔ آپ کے اس کلام میں جذباتیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں!
''بھیک دلوانے''، ''ہاتھ پاؤں جوڑا جائے''، ''کچھ بھیک دیدو'' بیچارے یتیم'' اس کے باوجود بھی بندہ کہے کہ جذباتیت نہیں!
میں تو دادا کا وصیت کرنا حرام سمجھتا ہوں بلکہ کفر اور شرک جانتا ہوں۔
آپ کا کیا ہے! آپ اپنی کج فہمی میں کچھ بھی سمجھ سکتے ہیں! کفر اور شرک کیا، آپ نے تو اللہ اور رسول کی توہین وگستاخی بھی خود ساختہ بنائی ہوئی ہے۔ آگے اس کا بیان آئے گا!
میں جذباتیت کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات نہیں کرتا بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات کررہا ہوں۔
استحقاق اسی صورت ثابت ہو گا، جب قرآن و حدیث سے ثابت ہو، وگرنہ محض جذباتی نعرے بازے ہی قرار پائے گی! اور قرآن و حدیث سے پوتے، پوتیوں کا دادا کی وراثت میں استحقاق اسی صورت ثابت ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی نرینہ أولاد نہ ہو!
اس کا استحقاق قرآن وحدیث سے ثابت شدہ ہے لہذا یتیمی کے نام پر یتیم پوتے کو بھیک نہ دی جائے بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کو حق و حصہ دیا جائے
یہ آپ کا قرآن وحدیث پر جھوٹ ہے! دانستہ نہیں، تو غیر دانستہ !
کیونکہ اس کا حصہ بموجب فرمان الٰہی:
(لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) (سورة النساء: 7)
(نَصِيبًا مَفْرُوضًا)
یعنی اللہ کا فرض کیا ہوا حصہ(فریضہ الٰہی) ہے۔
اور بموجب فرمان الٰہی:

(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ............. آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) (سورة النساء: 11)
(فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ
) یعنی اللہ کی جانب سے مقرر کیا ہوا فریضہ (فریضہ الٰہی) ہے۔
متعدد بار بتلایا ہے، کہ اس میں پوتے پوتیاں شامل نہیں،
اور بالفرض محال آپ کے بقول ''یتیم پوتے'' کو اس میں شامل مانا جائے، تو لازم آتا ہے کہ دیگر پوتے پوتیاں بھی اس میں شامل ہوں، کیونکہ دادا ، دادا ہونے میں دیگر پوتے پوتیوں کا بھی اسی طرح دادا ہے، جیسے ''یتیم پوتا'' اور ''یتیم پوتا'' دادا کی ''أولاد'' میں شامل ہے، تو دیگر پوتے پوتیوں کا بھی دادا کی ''أولاد'' ہونا لازم آتا ہے، اور دیگر پوتے پوتیاں کا بھی ''یتیم پوتے'' کی طرح دادا کے ترکہ میں استحقاق لازم آتا ہے!
اور یہ آپ مانتے نہیں!
لہٰذا آپ ''یتیم پوتے'' کے استحقاق کو بیجا ثابت کرنے کی ضد میں قرآن پر اپنی خواہش کو مسلط فرمانے کی کوشش کر رہے ہیں!
میں نے لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
اس کا مطلب میں نے بتایا تھا کہ یتیم پوتے کا مسئلہ دو صورتوں میں پیش آتا ہے ایک اس صورت میں جب کہ یتیم پوتے کا صرف باپ نہ ہو اور اس کی دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ جب یتیم پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہو۔ تو دونوں صورتوں میں یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے تو جب باپ نہ رہے اور چچا تائے رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ اور جب اس کے چچا تائے بھی نہ رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ یہی اس عبارت کا مفہوم ہے۔

آپ کا بیان کردہ مطلب باطل ہے، اس کا بطلان تفصیل کے ساتھ اوپر بیان ہوا!
حافظ ابن حجر نے لفظ (ابن) کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابن سے مراد میت کی صلبی اولاد یعنی اس کا بیٹا جو پوتے کا باپ بھی ہو سکتا ہے اور اس کا چچا تایا بھی ہو سکتا ہے تو جب پوتے کا باپ نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ اور جب چچا تائے بھی نہ ہونگے تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ پہلی صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام بیٹے کے اپنے باپ کی جگہ ہوگا۔ اور دوسری صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام نہیں بلکہ مثل ایک بیٹے کے ہوگا۔
حافظ اب حجر کی شرح کی پر مفصل بحث ہو چکی، اور اس پر آپ کی فہم کا بطلان بھی تفصیلاً بیان کیا جا چکا!
آپ نے اپنے کلام سے اقتباس نقل کیا:
میں نے لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو۔ خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔
اپنے ہی اس کلام پر آپ کہتے ہیں:

میں نے پورے باب کا یہ معنی ومفہوم لکھا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار اس وقت ہو جاتا ہے جب میت کا بیٹا نہ ہو، جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلب سے ہو خواہ وہ یتیم پوتے کا باپ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں بہر دو صورت یتیم پوتا میت (اپنے دادا) کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہوگا۔
اول تو آپ کو کس نے کہا کہ آپ اس کا معنی و مفہوم لکھیں!
آپ کو عبارت کا ترجمہ کرنا چاہیئے تھا! اور اس عبارت کا ترجمہ آپ اس لئے نہیں کر رہے، کہ اس عبارت کے ترجمہ سے آپ کا خود کشید معنی ومفہوم باطل قرار پائے گا!
اب یہاں بھی آپ نے انتہائی بیوقوفی والی بات کی ہے،
آپ نے کہا کہ:
''یتیم پوتا'' اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ ومیراث میں حقدار و حصہ دار ہوتا ہے، جب میت کا بیٹا نہ ہو!
اس فقرے میں بھی ''جب میت کا بیٹا نہ ہو! لا یعنی وفضول ہے، کیونکہ ''یتیم پوتا'' اسی وقت ہو سکتا ہے، جب دادا کا کم از کم ایک بیٹا نہ ہو! یعنی ''یتیم پوتے'' کا باپ!
یا تو آپ یہ تسلیم کریں، کہ یہاں ''بیٹا نہ ہو''، یعنی ''کوئی بیٹا نہ ہو''
پھر بھی ''یتیم'' کہنا درست نہیں! کیونکہ ''یتیم'' اور ''غیر یتیم'' تمام پوتوں کی وراثت ثابت ہوتی ہے!
پھر آپ نے کہا:

جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلب سے ہو خواہ وہ یتیم پوتے کا باپ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں
میت کے صلب سے کس کی شرح کی ہے!
''ابن'' کی! یعنی بیٹے کی!

جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلب سے ہو خواہ وہ یتیم پوتے کا باپ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں بہر دو صورت یتیم پوتا میت (اپنے دادا) کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہوگا۔
اول تو یہ بات ابن حجر عسقلانی نے نہیں کہی! یہ آپ کے دماغ کی اختراء ہے!
کہ معنی و مفہوم کشید کرنے کے نام پر ابن حجر عسقلانی پر جھوٹ باندھا گیا ہے!
میاں جی! ابن جر عسقلانی نے شرح ''ابن'' کی ''صلب'' سے کی ہے،
یہ بات آپ نے بھی کہی ہے:
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''

اور یہ آپ نے بھی یہ کہا ہے:
جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
اس کے بعد آگے، آپ کا دماغ مفلوج ہو جاتا ہے!
کہ صلبی بیٹا، پوتے کا باپ بھی ہے، اور چچا تایا بھی!
لہٰذا خواہ باپ ہو، یا چچا تایا، کسی ایک کے وجود سے صلبی بیٹے کاوجود ثابت ہو گا! اور پوتا وراثت کے حقدار وحصہ دار قرار نہیں پائے گا!

چونکہ آپ کی فہم اتنی اعلیٰ ہے کہ یہ سیدھی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہ آ سکی اور آپ بات سمجھ نہ پائے اور لگے تبصرہ کرنے اور ایک بات کا حصہ بخرہ کرنے اور اس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھی ادھوری بات پر تبصرہ کرنے۔ جب ایک بات کا آدھا حصہ لیا جائے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ مفہوم الٹا پلٹا نکلے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں آیا ہوا ہے کہ (لاتقربوا الصلاۃ و انتم سکاریٰ) تو کوئی شخص (لاتقربوا الصلاۃ) کو لیکر کہے کہ دیکھو قرآن میں آیا ہوا ہے کہ نماز کے قریب مت جاؤ۔
ہم نے کوئی آدھی ادھوری بات کو نہیں لیا، اور نہ ہی دو حصوں میں تقسیم کیا!
یہ کام خود آپ نے بخوبی سر انجام دیا ہے، اور بڑے فخر سے إقرار کیا ہے، کہ ایک باب کے آپ نے دو باب بنا دیئے!
آگے اس کا ذکر تفصیل سے آئے گا!
چنانچہ یہی حال آپ کا بھی ہے کہ آپ بات تو سمجھ نہ پائے اور حقیقت یہ ہے کہ سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں۔ آپ نے آدھا جملہ (خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔) لے لیا اور تبصرہ کرنے بیٹھ گئے:
یتیم پوتے کا باپ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب اس کا باپ موجودہے، تو وہ یتیم کیونکر ہوا!
میں نے باپ کے موجود نہ ہونے کی بات کی اور آپ کی اعلیٰ فہم میں الٹا معنی اس کا موجود ہونا سمجھ میں آرہا ہے۔
اب آپ لا یعنی فضول کلمات لکھیں گے، تو اس کا نقص تو بتایا جائے گا!
آپ ''یتیم پوتے'' کے باپ کے نہ ہونے کی بات کر رہے ہیں، وہ بھی ''جب'' کے لفظ کے ساتھ!
ایسی صورت میں ''جب'' کا لفظ شرط بیان کرتا ہے!
اب دیکھیں آپ نے کہا:
یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
اسی مراسلہ میں آپ نے اپنے اس اعلی کلام کو نقل بھی کیا ہے!
یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
یہ کلام بیوقوفی پر مبنی ہے!
''جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو'' کیا مطلب؟
''یتیم'' تو ہوتا ہی اس وقت ہے، جب باپ فوت ہو چکا ہو!
دوم کہ تب بھی، کیا مطلب، گویا وہ باپ کے ہوتے ہوئے بھی ترکہ سے حصہ پائے گا!
اور آپ اپنے کلام کے نقص کا وبال ہم پر نہ ڈالیں!

میرے بھائی پوتے کا مسئلہ پیدا ہی اسی لئے ہوا کہ اس کا باپ نہیں ہے لہذا امام بخاری کو اس مسئلہ پر اس کے حق کے ثابت کرنے کے لئے باب باندھنا پڑا اگر اس کا باپ ہوتا تو مسئلہ ہی کھڑا نہ ہوتا اور امام بخاری کو باب نہ باندھنا پڑتا۔
مسئلہ صرف یتیم پوتے کی وراثت کا پیش نہیں آتا، مسئلہ ان پوتوں کا بھی پیش آتا ہے، جو ''یتیم'' نہیں اور ان کے والد حیات نہیں! امام بخاری نے صرف ''یتیم پوتے کی وراثت'' کا باب نہیں باندھا! بلکہ پوتے کی وراثت کا باب باندھا ہے!
اور امام بخاری نے باب یہ باندھا کہ ''پوتے کی وراثت کا باب، جب دادا کا بیٹا نہ ہو!
یہاں کوئی ''خاص بیٹا'' نہیں۱ بلکہ'' کوئی بھی بیٹا''
جناب من ! آپ کی فہم اعلی کا یہ عالم ہے لکھتے ہیں :
اور جب آپ نے خود یہ کہا ہے کہ ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' تو اور چچا میت کا صلبی بیٹا ہے! لہٰذا پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حصہ نہیں پائیں گے!
جناب آدھی ادھوری بات لیکر اس پر تبصرہ کرنے لگ جانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسی صورت میں مفہوم الٹا پلٹا ہی نکلے گا۔ جو نکلا۔
پوری عبارت یوں ہے:

7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)
یہ کوئی آدھی ادھوری عبارت نہیں! شرط یہ ہے کہ ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' اور چچا تایا دادا کے صلبی بیٹے ہیں، اگر یہ ہیں، تو شرط پوری نہیں ہوگی!
پوری عبارت یوں ہے:
یہاں آپ نے جو عبارت نقل کی ہے، اس پر تو بعد میں تفصیل سے گفتگو کریں گے، لیکن امام ابن حجر عسقلانی نے جو عبارت نقل کی ہے، آپ کی اب پیش کردہ عبارت اس سے الگ ہے!
تو آپ کا یہ کہنا کہ ''پوری عبارت یوں ہے'' یہ آپ کا صریح جھوٹ ہے!
بلکہ آپ تو اب عبارت بدلنے لگے ہیں!
اس پر تو عبارت پر آگے تفصیلی بحث آئے گی! ان شاء اللہ!

اسی طرح میں نے کہا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اصل بحث دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے استحقاق کی ہی ہے۔ ایک طرف دادا اپنے بیٹے کا والد ہے تو یتیم پوتے کا بھی والد ہے۔ اسی کے بالمقابل جس طرح بیٹا (چچا تایا ) میت کی اولاد ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتا بھی میت (دادا) کی اولاد و ذریت میں سے ہے۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ والدین کے ترکہ میں اس کی جملہ اولادوں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں سب کا حق و حصہ ہے جو اللہ کا فرض کیا ہوا (فریضہ الہی) ہے۔
اس پر آپ لکھتے ہیں:
اس پر ہمارے کلام سے اقتباس پیش کیا:
اس پر آپ لکھتے ہیں:
تو پھر صرف یتیم پوتا ہی کیوں، یوں تو دادا تمام پوتے پوتیوں کا اسی طرح والد ٹھہرتا ہے، جیسے بقول آپ کے وہ چچا اور تایا کا والد ہے، اور پھر دادا کی وراثت میں اللہ کا فرض کیئے ہوئے، فریضہ الہی میں جملہ اولادوں میں تمام پوتے پوتیاں کا حصہ اسی طرح لازم آتا ہے، جیسے دادا کے بیٹے بیٹیوں کا!
میرے بھائی! آپ ''اولاد '' کے اپنے خود ساختہ مفہوم کی وجہ سے ایسی بے سرو پا باتیں کیئے جا رہے ہیں!
اس پر آپ فرماتے ہیں:
میرے محترم ابن داود صاحب!
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔ آپ کا تو حال یہ ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم اور مصداق جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہے۔ آپ نہ تو حدود الٰہی کا معنی و مفہوم جانتے سمجھتے ہیں اور نہ ہی فریضہ الٰہی کو ہی سمجھ پا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔
آپ نے اپنی ان ہفوات کو پہلے بھی بیان کیا تھا، وہاں ہم نے اس پر کلام کیا ہے، دوبارہ اسے رقم کرنے کی حاجت نہیں!
بے سروپا باتیں تو آپ کیئے جارہے ہیں اور ایک ایسے مسئلہ میں جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ ہی پیر۔ جو نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی احادیث رسول سے ۔ بلکہ یہ تو بالکل ہی ایک منگھڑت مسئلہ ہے۔
اس پر مجھے ایک حکایت یاد آئی؛
یہ ایک خوبصورت و جوان مرد کا گزر ایک ایسے گاؤں سے ہوا، کہ جہاں سب نکٹے یعنی ناک کٹے رہتے تھے!
گاؤں والوں نے جب سوچا کہ یہ خوبصورت و جوان مرد کہیں ان کا مذاق نہ اڑائے، کہ وہ سب نکٹے ہیں، تو گاؤں والوں نے خود اس خوبصورت وجوان مرد کو ''نکٹا ہے، نکٹا ہے'' پکارنا شروع کر دیا!
یہی حال آپ کا ہے، کہ آپ نے ایک مسئلہ اپنی خواہشات کی پیروی میں گڑھ لیا، اور قرآن وحدیث سے ثابت مسئلہ کو منگھڑت کہنے لگے ہیں!

آپ سے اس مسئلہ پر دلیل مانگی جاتی ہے تو آپ وہ دے نہیں پارہے ہیں البتہ ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں۔
دلیل تو آپ کو دی گئی ہے، مگر آپ کے دماغ پر اپنی بکواسیات اس قدر سوار ہیں، کہ آپ کو ان کے علاوہ سب ''ہانکی ہوئی'' گمان ہوتی ہیں!
آپ اولاد کے جس معنی و مفہوم کو خود ساختہ قرار دے رہے ہیں اور اسے بے سر و پا باتیں کہہ رہے ہیں وہ محض اس لئے ہے کہ آپ نہ قرآن کی آیتوں پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی احادیث پر اور آپ تقلید جیسی مہلک بیماری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کو قرآن و حدیث کی سیدھی سادی باتیں نہیں سمجھ آرہی ہیں۔آپ تو صحیح ڈھنگ سے اردو بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ آپ تو (آپ و تم، ہیں اورہو ) میں بھی فرق وتمیز نہیں کر پارہے ہیں۔ تو قرآن و حدیث کیا خاک سمجھیں گے۔

اس پر ہم کلام کر چکے ہیں! تقلید کی بیماری پر بھی، اردو پر بھی، اور قرآن وحدیث پر توجہ دینے پر بھی!
اولاد کا جو مفہوم و معنی ہم نے بیان کیا ہے وہ میرا اپنا گھڑا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث اور تفاسیر و شروح احادیث میں لکھا ہو اہے اور وہ مفہوم عربی لغات میں بھی لکھا ہوا موجود ہے کہ اولاد و والد میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کا تعلق توالد و تناسل کی بنیاد پر ہو اب وہ خواہ مذکر ہو (یعنی بیٹا، پوتا نواسا، پڑ پوتا، پڑنواسا درجہ بدرجہ نیچے تک)۔

قرآن وحدیث میں تو یہ معنی ومفہوم نہیں، اس پر تفصیلی بحث گزری!
تفاسیر وشرح سے آپ کیسے حجت قائم کر رہے ہیں؟
آپ کے نزدیک تو ان کی بات سے اتفاق بھی مفسرین و شارحین کی تقلید قرار پاتا ہے!
اور لغت اور وہ بھی عربی لغت کا تو آپ نام ہی نہ لیں! آپ تولغت میں بھی ''قطع نظر'' کرتے ہوئے ''اختصار'' فرماتے ہیں!
میاں جی! معاملہ یہ ہے کہ آپ تفاسیر، شرح و لغت میں ''معنی مجاز'' سے ''قطع نظر'' کرتے ہوئے ''اختصار'' فرماتے ہوئے، تمام ''ذریت'' کو ''حقیقی أولاد'' سمجھا ہوا ہے!
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہم سب کو (یا بنی آدم ) کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرمایا ہے۔
آپ کو لاحق نسیان کا مرض بھی بہت سنگین ہے!
آپ خود ''ابن'' اور ''ولد'' میں فرق بیان کر آئے ہیں، اور یہاں ''ابن'' سے ''ولد'' کا لازم آنا کشید فرما رہے ہیں!
اسی طرح مونث (یعنی بیٹی، پوتی نواسی، پڑپوتی پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک اور ان کی اولادیں) بھی اولاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو (ابنای) یعنی میرے دونوں بیٹے اور حسن کو (ابنی ہذا) یعنی میرا یہ بیٹا جبکہ وہ ان کے نواسے تھے
ایک بار پھر عرض ہے، یہاں ''ابن'' کہا ہے ''ولد'' نہیں!
اور خود اپنے بارے میں فرمایا: (انا ابن عبد المطلب) یعنی میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ جب کہ عبد المطلب ان کے دادا تھے۔
ایک بار اور عرض ہے، یہاں ''ابن'' ہے ''ولد'' نہیں!
یہ سب قرآن و حدیث کی باتیں ہیں میری خود ساختہ نہیں یہ آپ کی میرے اوپر افترا پردازی ہے۔ جس کا آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔
آپ کو اللہ کے سامنے ہم پر افترا پردازی کی تہمت دھرنے کا جوابدہ ہونا ہوگا!
کسی کا کسی کا والد یا اولاد ہونا اور والدیت اور ولدیت کا رشتہ توالد و تواسل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ زندگی و موت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ جب تک ان میں کا کوئی زندہ ہو تا وہ والد و اولاد رہے اور کوئی وفات پا جائے، مر جائے تو پھر وہ ختم ہوجائے۔ آپ یہ بات بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں۔تو کیا کیا جاسکتا ہے۔
یہ آپ کو کس نے کہا کہ مرنے کے بعد ولد و والد کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے؟
آپ اپنے تئیں ہی، ایک بات گما کرتے ہیں، اور دوسروں کو کوسنے دینے شروع کر دیتےٓ ہیں!
مجھے تو ڈر ہے کہ ہم نے اگر آپ سے ''توالد'' اور تواسل'' پر بحث کی تو آپ نے یہاں بھی ان کے معنی و مفہوم سے ''قطع نظر'' کرتے ہوئے، ''اختصار'' کے ساتھ اپنی خواہش کے موافق معنی و مفہوم کشید کرنے ہیں!
اب دیکھیں: قرآن میں اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے:

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿سورة الأنعام 101﴾
وه آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اللہ تعالیٰ کے اوﻻد کہاں ہوسکتی ہے حاﻻنکہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وه ہر چیز کو خوب جانتا ہے ﴿ترجمہ: محمد جونا گڑھی
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ اللہ کا ''ولد'' کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ اس کی ''صاحبہ'' یعنی بیوی ہی نہیں! معلوم ہوا کہ ''ولد'' کے وجود کے لئے ''صاحبہ'' یعنی بیوی کا وجود ضروری ہے!
اور ''ولد'' اس کا ہوگا، جس کی ''صاحبہ'' ہو گی!
اور ''ولد'' اسی کا ہو گا، جس کی وہ ''صاحبہ'' ہوگی!
''پوتا'' دادا کے بیٹے کا ''ولد'' ہے، کہ دادا کے بیٹے کی ''صاحبہ'' یعنی بیوی کے بطن سے پیدا ہوا!
لیکن ''دادا'' کا ''ولد'' نہیں، کہ وہ جس کے بطن سے پیدا ہوا، وہ ''دادا'' کی ''صاحبہ'' یعنی بیوی نہیں!
''پوتے'' کو دادا کا ''ولد'' کہنے سے لازم آتا ہے کہ جس کے بطن سے وہ پیدا ہوا، اسے دادا کی ''صاحبہ'' یعنی بیوی قرار دیا جائے! اور یہ محال ہے!
لہٰذا ''پوتا'' دادا کا ''ولد'' نہیں!
یعنی ''حقیق ولد'' نہیں، بلکہ بسا أوقات ''بمنزلہ ولد'' قرار پاتا ہے! یا معنی مجاز میں مستعمل ہے!
جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے راہ راست پر نہیں لا سکتی ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔
لا شك فيه!
آپ چونکہ مولانا امرتسری وغیرہ کی تقلید کر رہے ہیں اور ان کی تقلید میں اندھے ہوکر یہ ساری بکواس کئے جا رہے ہیں
مولانا امرتسری وغیرہ کے حوالہ سے تفصیل بیان ہو چکی!
آپ اپنی ان بکواسیات سے باز ہی رہیں، تو بہتر ہے!
اور میرے بنیادی سوال کا جواب نہیں دے پا رہے ہیں کہ (جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا تھا جو بیٹا نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟)
آپ کے اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے، مگر آپ کو اس کا ادراک ہی نہیں ہو پا رہا، ایک بار پھر اس کا مفصل بیان آئے گا!
میں نے صحیح بخاری کے یتیم پوتی کواس کی پھوپھی کے ہوتے ہوئے حصہ دیئے جانے سے متعلق ایک حدیث پیش کی اور لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
یہ بات بھی آپ کے پلے نہیں پڑی اور آپ اس پر تبصرہ کرنے بیٹھ گئے
چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں:
میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پہلے یہ تو بتائیے کہ اس حدیث میں جس کی وراثت تقسیم ہوئی، اس کا کوئی بیٹا موجود تھا؟ جب دادا کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا، تو مذکورہ شرط تو اسی طرح پوری ہوئی، جیسے ہم نے بیان کیا ہے! کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو!
پھر آنجناب لکھتے ہیں:
اس حدیث میں آپ کو میت کا کوئی بیٹا نظر آرہا ہے، کہ ہمارا مدعا اس حدیث سے غلط ثابت ہو، اور آپ کا درست ثابت ہو جائے! آپ میت کی، یعنی کہ دادا کی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کی وراثت کے ثبوت پر، بیٹے کی موجودگی میں بھی پوتے، پوتی کی وراثت کے کو قیاس فرما رہے ہیں! اور آپ کا یہ قیاس باطل ہے!
اس پر آپ فرماتے ہیں:
آنجناب کا مبلغ علم بس صرف اتنا ہی ہے اور آپ کی اعلیٰ فہم و فراست کا یہ عالم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا کہ جب میت کی صرف مونث اولادیں ہوں(نساء) اور کوئی مذکر اولاد نہ ہو تب ایسی صورت میں ان کا مجموعی حصہ دو تہائی(ثلثان) ہے اور آپ ہیں کہ اس میں بیٹا تلاش کر رہے ہیں۔
سیدھا سیدھا کہیئے، کہ یہاں دادا کی مذکر أولاد نہیں تھی، اور صرف ایک بیٹی تھی، یعنی پوتے پوتیوں کے حق وراثت کے اثبات کی شرط، کہ دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو، پوری ہوتی ہے، لہٰذا پوتی کا دادا کے ترکہ میں حصہ و حق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرار دیا!
یہ اگلی بحث ہے، کہ پوتے پوتیوں کا کتنا حصہ بنتا ہے! اور آپ اس معاملہ میں بھی ''قطع نظر'' فرما رہے ہیں!
آپ تو قیاس کا بھی معنی و مفہوم نہیں سمجھ رہے ہیں۔
میرے بھائی! جب دو چیزیں ایک جیسی ہوتی ہیں تو ایک کو دوسرے پرقیاس کیا جاتا ہے۔ یتیم پوتے پر ہی قیاس کرکے دادا کو اس کا والد و باپ مان کر اس کے یتیم پوتے کا وارث حقدار و حصہ دار قرار دیا گیا اور اجماع و اتفاق ہوا۔ یہ سب تو آپ کو معلوم ہی نہیں اور نہ ہی سمجھ میں آتا ہے۔ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں جانتے سمجھتے کچھ نہیں۔ بس آپ کو جواب دینے کا شوق ہے اسی لئے میرا جواب دینے بیٹھ گئے اور لکھنا شروع کردیا۔
اس معاملہ میں آپ کا قیاسی گڑبڑ گھٹالا اوپر بیان ہو چکا ہے!
ویسے آپ کے کلام میں اس قدر تضاد پایا جاتا ہے کہ بندہ کس کس کو بیان کرے!
ایک طرف آپ علماء وفقہاء کے اقوال و فتاوی کو ''قیاسی'' کہہ کر رد کرتے ہیں، اور دوسری طرف دادا کی پوتے کے ترکہ میں حصہ و حق کو ''قیاس'' سے ثابت کرتے ہیں، اور اب ہمیں قیاس سمجھانے لگے ہیں!
جب میں نے آپ کا جواب لکھنا شروع کیا تھا، خیال تھا کہ صاحب کچھ ''علمی لیاقت'' اور علمی دیانت'' کے حامل ہوں گے، مگر ہمارا یہ خیال باطل ثابت ہوا! اگر ہمیں پہلے سے یہ اندیشہ ہوتا، تو آپ کی بکواسیات کے پر اتنا کہہ دینا کافی سمجھتے:

﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾
اور اب بھی پیش نظر یہی نکتہ ہے، کہ آپ کے موقف کا بطلان قارئین کے لئے بیان کر دیا جائے! وگرنہ آپ کے کلام کے پیش نظر آپ سے تو کوئی امید نہیں، کہ آپ کا تو حال یوں معلوم ہوتا ہے کہ عقل و فہم سے دشمنی اختیار کی ہوئی ہے!
میرے بھائی جس آیت سے بیٹے کا حق و حصہ ثابت ہوتا ہے اسی آیت سے بیٹی کا بھی ثابت ہوتا ہے اور اسی آیت سے یتیم پوتے پوتیوں کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔ اور اسی آیت سے ماں باپ، دادا دای کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔
لہذا میرے محترم ! پہلے آپ فرائض و مواریث کو صحیح ڈھنگ سے پڑھئے سمجھئےپھر بحث کیجئے۔
یہ آپ کے ''ولد'' اور ''أولاد'' کے معنی ومفہوم میں خود ساختہ ''وسعت'' کا نتیجہ ہے، جیسے کہ آپ نے ''یتیم'' کے معنی ومفہوم میں خود ساختہ ''اختصار'' کیا ہے!
اور یہ ''وسعت'' اور یہ ''اختصار'' دونوں مردود ہیں!
لہذا میرے محترم ! پہلے آپ فرائض و مواریث کو صحیح ڈھنگ سے پڑھئے سمجھئےپھر بحث کیجئے۔
چلیں! ہم تو اپنا سبق دہرانے کو تیار ہیں! اور ہم دہراتے رہتے ہیں! علم المیراث میں نے قریباً آٹھ سال قبل پڑھا تھا، اور اب اسے دہرایا ہے!
لیکن جب آپ کو علم الفرائض پڑھنے کے لئے کہا گیا تھا، تو اس وقت سے آپ ایسا تلمائے ہوئے ہو، کہ سنبھلنے ہی نہیں پارہے! کہ ''ہانکنے'' سے ''بکنے'' اور ''بکواس'' تک آ چکے ہیں، آگے نجانے کہاں تک نکل جائیں!
اور اللہ کا یہ فرمان یاد رکھیئے:
(وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا) (34) (وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا) (35) (وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا) (36) [سورة الاسراء]
یعنی یتیم کے مال کے بھی قریب نہ جاؤ۔ اور انصاف کے ترازو سے تولو۔ اور جس چیز کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگو۔ کیونکہ انسان کے سارے اعضاء و جوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے۔
دادا کے ترکہ میں، دادا کی نرینہ أولاد ہوتے ہوئے، دادا کے کسی پوتے پوتی کا کوئی حصہ نہیں، خواہ وہ پوتاپوتی، یتیم ہوں، یا نہ ہوں!
لہٰذا قرآن وحدیث کے برخلاف کسی کو حصہ دار قرار دینا چھوڑ دیں، اور اللہ کے حضور توبہ تائب ہوں، ''کیونکہ انسان کے سارے أعضاء وجوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے''۔
جب آپ کو والد و اولاد کا معنی و مفہوم اور اس کا مصداق ہی معلوم نہیں ہے تو کج بحثی کیوں کئے جا رہے ہیں۔
ویسے آپ ایک عجیب بیوقوف آدمی ہیں!
آپ اس خبط میں مبتلا ہیں، کہ دیگر بھی الفاظ کے آپ کے خود ساختہ معنی ومفہوم کو قبول کریں، اور اگر نہ کریں، تو انہیں ان الفاظ کا معنی ومفہوم نہیں معلوم!
میاں جی! آپ کا خود ساختہ معنی ومفہوم مردود ہے!
میں نے جو بنیا دی سوال کیا اس کا جواب دیجئے اور کج بحثی چھوڑیئے۔ صرف لفاظی کرنے اور طول طویل بکواس کر دینے سے کوئی بات صحیح نہیں ہو جاتی اور نہ ہی مسئلہ حل ہو پاتا ہے۔
اول کہ آپ کے بنیادی سوال کا جواب دیا گیا ہے، مگر آپ کو اس کا ادراک نہیں ہو پا رہا!
دوم کہ اس پر آپ کو خود عمل پیرا ہونا چاہیئے کہ آپ کی بکواسیات سے ''يتیم پوتا'' دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی میں دادا کی وراثت میں حصہ دار وحقدار قرار نہیں پائے گا!
لہٰذا آپ اپنی ''بکواسیات'' سے گریز کریں! یہی آپ کے حق میں بہتر ہے!
کوئی بھی بات اسی وقت صحیح مانی جاتی ہے جب وہ اصولی ہو اور قرآن و صحیح حدیث سے ثابت ہو ۔
تو مان لیں کہ دادا کے ترکہ میں، دادا کی نرینہ أولاد ہوتے ہوئے، دادا کے کسی پوتے پوتی کا کوئی حصہ نہیں، خواہ وہ پوتاپوتی، یتیم ہوں، یا نہ ہوں!
کیونکہ قرآن وصحیح حدیث سے تو یہ ہی ثابت ہے!
مگر آپ یہ مانتے نہیں، اور اپنی خواہشات کو قرآن وحدیث کا جامہ پہنانے کی سعی میں مشغول ہیں!
رہا علماء و فقہاء کے اقوال، آراء ، قیاسات اور فتوے تو یہ سب ہوا ہوائی ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ظنون یعنی گمان اور خرص یعنی اٹکل بازیاں کہا ہے۔ اور جو کچھ آپ نے اب تک کہا یا پیش کیا ہے وہ محض گمان اور اٹکل بازیاں ہی ہیں کوئی قرآن و حدیث کی باتیں نہیں ہیں۔
''تمام علماء و فقہاء کے اقوال، آراء، قیاسیات اور فتوے'' کے متعلق تو آپ نے کہہ دیا کہ ''یہ سب ہوا ہوائی ہی ہیں''
تو آپ اقوال، آراء، قیاسیات اور فتوے'' کیا منزل من اللہ ہیں؟
دیکھیں! آپ کا ''تمام علماء و فقہاء کے اقوال، آراء، قیاسیات اور فتوے'' سے متعلق ''یہ سب ہوا ہوائی
ہی ہیں'' کہنا زندیقیت ہے!
اس پر کافی کلام ہم پہلے کر آئیں ہیں!
ہم نے تو اپنے موقف کو قرآن وحدیث سے مستدل پیش کیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ آپ کی اٹکل میں استدلال نہیں آرہا!
اگر ہمارے استدلال میں نقص بیان کیا ہوتا، تو کوئی بات بھی تھی! محض نعرے بازے سے استدلال باطل قرار نہیں پاتا!
اور آپ کے اٹکل پچو کا بطلان ہم نے بیان کیا ہے!

چنانچہ میں نے لکھا :
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جیساکہ اللہ کے رسول کا وہ فیصلہ جس کے تحت آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ بحیثیت اولاد و بیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا۔
اسکے جواب میں آنجناب نے لکھا :
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، اس کا بیان اوپر گزا! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے پوتی کو بحثیت اولاد وبیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا ہوتا، تو پوتی کی پھوپھی، اور پوتی دونوں کو برابر حصہ ملتا! مگر ایسا ہوا نہیں!
اس پر آپ فرماتے ہیں:
ارےاللہ کے بندے!
آپ کو اتنی بھی عقل اور سمجھ نہیں ہے کہ جب میت کی صرف مونث اولاد ہو تو ان سب کا مشترکہ حصہ ثلثان(دوتہائی حصہ) ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ)
تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (ثلثان) میں سے ہی یتیم پوتی کو حصہ دیا تھا کوئی بھیک، خیرات، یا دادا کی کی ہوئی وصیت نہیں تھی۔

ہماری بات کا رد تو آپ اب بھی نہ کر پائے! کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو''بحثیت أولاد وبیٹی'' کے حصہ دیا ہوتا تو، پوتی کی پھوپی، جو میت کی بیٹی ہے، اس کے برابر کا حصہ ملتا!
جبکہ میت کی بیٹی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف دیا، اور پوتی کو سدس! یعنی پوتی کو ''أولاد وبیٹی'' کے برابر نہیں دیا! مییت کی ''أولاد وبیٹی'' ایک ہی تھی جس کا نصف حصہ ہے، جو اسے دیا گیا!
اگر پوتی بھی ''أولاد و بیٹی'' قرار پاتی، تو پوتی کی پھوپی یعنی میت کی ''أولاد وبیٹی'' کے ساتھ دو عدد ''أولاد وبیٹی'' ہوتیں! اور اس صورت میں دو تہائی دونوں میں برابر تقسیم ہوتا! مگر ایسا ہوا نہیں!
یعنی کہ پوتی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ''پھوپی'' کی طرح ''أولاد وبیٹی'' قرار نہیں دیا!
اور یہ ثلثان(دوتہائی حصہ) صرف بیٹیوں کے لئے ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے (بنات ) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے بلکہ (نساء اور فوق) جس میں درجہ بدرجہ بیٹیاں، پوتیاں پڑپوتیاں وغیرہ سب داخل و شامل ہیں۔
ماشاء اللہ! یہ بھی عجیب لطیفہ ہے کہ اب تک تو دادا کے ''حقیقی باپ اور والد'' کی گردان نہیں چھوڑ رہے تھے، اب پوتیوں کو دادا کی بیٹیاں ماننے سے بھی انکاری ہیں!
اندیشہ ہے کہ آپ کو یہ لطیفہ سمجھ نہیں آیا ہو گا، تو ذرا بیان کردوں، ویسے یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ بیان کے بعد بھی سمجھ آئے گا!
آدمی جس کا باپ ہوتا ہے، وہ اس آدمی کا بیٹا یا بیٹی ہوتے ہیں!
اب آپ دادا کے ''حقیقی باپ اور والد'' کی گردان تو دہرائے جا رہے ہیں، لیکن یہاں آپ نے پوتی کو بیٹی ماننے سے انکار کر دیا، کہ یہاں ''بنات'' کا لفظ نہیں، کہ صرف بیٹیوں کے لئے ہو، بلکہ ''نساء اور فوق'' کے الفاظ ہیں، جس میں بیٹیاں، پوتیاں، اور پڑپوتیاں وغیرہ سب داخل ہیں!
تو اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو چھٹا حصہ دینا اور بیٹی کو آدھا دینا ان کی حکمت و مصلحت کے تحت تھی۔ اور اللہ کے اس فرمان (وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ) اور (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) کے بموجب تھا۔
چونکہ ایک طبقہ میں صرف ایک یعنی بیٹی تھی تو اس کو آدھا دیدیا۔ جس کے بعد صرف چھٹا حصہ ہی باقی بچ رہا تو باقی بچا ہوا چھٹا حصہ پوتی کو دیدیا اس طرح بیٹی پوتی کا مجموعی حصہ (ثلثان) دوتہائی ہوگیا اس طرح اللہ کا (نساء ) کے حق میں جو فریضہ تھا وہ پورا ہوگیا۔
''حکمت و مصلحت'' کی بحث نہیں، بحث یہ ہے کہ حکم کیا ثابت ہوا!
اس حدیث سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ ثابت ہوا کہ دادا کی نرینہ أولاد کی عدم مو جودگی میں پوتی دادا کے ترکہ میں حصہ دار ہے، اور وہ حصہ میت یعنی دادا کی ''حقیقی أولاد و بیٹی'' کے حصہ کے برابر نہیں! کیونکہ پوتی دادا کی ''حیقی أولاد وبیٹی'' نہیں!
اب جو باقی بچا وہ بہن کو دیدیا۔ تو پوتی کو جتنا کچھ ملا وہ اللہ کے مقرر کردہ فریضہ (ثُلُثَا مَا تَرَكَ) میں سے ہی تھا جو کہ (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) کے بموجب فریضہ الٰہی ہی تھا۔بھیک، خیرات نہیں تھی۔
پھر وہی نعرے بازی!
میاں جی! نعرے بازی سے دلیل قائم نہیں ہوتی!
پوتی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کی نرینہ أولاد کے نہ ہونے پر دیا ہے، اور یہی حکم قرآن وحدیث کا ہے!
اگر اتنی سیدھی سی بات بھی آپ کے اعلیٰ دماغ اور فہم میں نہیں آپارہی ہے اور سمجھ نہیں پارہے ہیں تو مجھے فالتو باتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آپ پہلے تقلید کی بھول بھلیوں سے نکلئے اور تحقیق کے کھلے میدان میں آئیے پھر بات کیجئے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری ہوں یا شیخ الحدیث عبید اللہ مبارک پوری ہوں یا اور کوئی بڑے سے بڑا عالم محدث، فقیہ ہو اس کی لکھی و کہی ہوئی باتیں اور فتوے کوئی وحی الٰہی نہیں ہیں کہ اس کو بلا چون و چرا مان لینا اور اس پرآنکھ بند کرکے ایمان لانا ہم پر واجب و فرض ہو اور یہ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے جو کہا اور فتویٰ دیا وہ سو فیصدی صحیح ہی ہو۔
جناب من! آپ کو کچھ لینا دینا نہیں! یہ محض ڈائیلاگ بازی ہے، حقیقت میں تو آپ ہماری باتوں کو بزعم خویش جواب دینے کے لئے اتاؤلے ہوئے جا رہے ہیں! اسی لئے تو پوچھا تھا کہ کب تک (جاری ہے) جاری رہے گا!
کوشش تو تھی کہ اس ویک اینڈ پر مکمل کر لیتا، لیکن ایسا ہوا نہیں، آج کل کام زیادہ ہے! کوشش یہی ہے کہ جلد از جلد مکمل کر لوں!
یہ تو ضروری نہیں، کہ کسی عالم و فقیہ کا ہر فتوی درست ہو، مگر یہ ضرور ہے کہ تمام عالم و فیہ کا متفقہ فتوی غلط نہیں ہوتا!
مگر آپ نے اپنے بارے میں گمان کیا ہوا ہے، کہ آپ اکیلے جو فرمائیں، وہ سو فیصدی صحیح ہے! جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے!
جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ))
((وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا
يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ)) (170) ((وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ)) (171) [سورة البقرة]

تو آپ ان آیات کا مصداق نہ بنئے۔ آپ کیا ہیں آپ کا عقیدہ منہج کیا ہے مجھے نہیں معلوم ۔ لیکن بہر حال یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں ہے جو آپ نے اختیار کیا ہوا ہےکہ قرآنی آیات اور احادیث کا انکار کرکے اپنے علماء اور بزرگوں کی اندھی تقلید میں ان کی کہی ہوئی باتوں پر آنکھ بند کرکے ایمان و یقین کیا ہوا ہے۔ اور اس کو حق اور سچ جان کر اس کی بے جا تائید و حمایت اور مدافعت کر رہے ہیں
آپ اس خبط میں مبتلا ہیں، کہ کسی کی قرآن وحدیث موافق بات تسلیم کرے سے تقلید لازم آتی ہے، لہٰذا آپ نے تمام علماء کی حق بات کو جو قرآن وحدیث کوموافق ہیں، انہیں بھی رد کرکے قرآن وحدیث کی مخالف خود ساختہ بات کو اپنا دین و ایمان سمجھ لیا ہے!
میں اہل الحدیث ہوں، میرا منہج میں بیان کر آیا ہوں، علماء وفقہاء کے اقوال قرآن وسنت کے موافق بھی ہوتے ہیں، اور مبنی بر خطاء بھی، کہ علماء وفقہاء مصیب بھی ہوتے ہیں، اور مخطئ بھی، لیکن علماء وفقہاء کے اقوال وفتاوی کو مطلقاً رد کرنا زندیقیت ہے!

نوٹ: اس مراسلہ میں ایک حصہ رہ گیا ہے، اس میں بعد میں اضافہ کیا جائے گی!
اضافہ کر دیا گیا ہے!
(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث کا فتویٰ خواہ جس کسی نے بھی دیا ہو وہ صریحی طور پر بے بنیاد، غیر اصولی، غیر عادلانہ، غیر منصفانہ ہے اور قرآن و حدیث کے صریحی طور پر منافی و مخالف ہے اور اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ شریعت کے سراسر خلاف ہے اس لئے باطل و مردود ہے اور اس پر عمل ناجائز و حرام ہے۔
آپ کا مذکوہ بالا قول ''صرح طور پر بے بنیاد، غیر اصولی، غیر عادلانہ، غیر منصفانہ ہے اور قرآن وحدیث کے صریح طور پر منافی ومخالف ہے اور اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ شریعت کے سراسر خلاف ہے، اس لئے باطل ومردود ہے اور آ پ کے اس قول پر نہ صرف عمل ناجائز و حرام ہے، بلکہ اسے درست تصور کرنا بھی ناجائز وحرام ہے!''
دیکھیں یہی باتیں ہم نے بھی لکھ دیں! لیکن صرف یہ دعوی کرنے سے کیا ہو گا!
بات تو تب ہے کہ دعوی پر دلیل بھی ہو!
اور ہمارے دعوی پر دلیل موجود ہے! جو بیان کی جا چکی ہے! اور ایک بار پھر تفصیل سے بیان ہو گی!
لیکن آپ کا نرا دعوی ہی ہے، دلیل ناباشد!

اب اگر آپ جیسے اعلیٰ فہم وفراست کے دعویدار لوگوں کی عقل و دماغ اور فہم میں یہ بات نہیں آرہی ہے تو یہ آپ کی اعلیٰ فہم و فراست، عقل اور دماغ کا قصور ہے اس کے لئے کوئی کیا کر سکتا ہے ۔
اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا!
پاگل خانہ میں پاگلوں کے ڈاکٹر سے ایک پاگل نے کہا:
ڈاکٹر صاحب! آپ اس پاگل خانہ سے باہر نہ جائیے گا، وہاں سب پاگل ہیں، اور سب پاگل مجھے پاگل کہتے ہیں!
آپ کا معاملہ اسی پاگل کی طرح ہے! کہ آپ کی عقل وخرد میں قرآن وحدیث کا درست مفہوم نہیں آرہا، تو آپ دوسروں کو الزام دیتے ہیں کہ انہیں درست سمجھ نہیں آیا! جبکہ آپ کا اپنا بیان ہی آپ کے موقف کے بطلان کو کافی ہے! اس کا اپنا تضاد یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کو قرآن وحدیث کا درست موقف سمجھ نہیں آیا!

آپ جس چیز کی طرف ہمیں بلانا، سمجھانا، لے آنا اور باور کرانا چاہتے ہیں اور ہم سے زور زبردستی سے منوانا چاہتے ہیں
الزام در الزام! وہ بھی جھوٹ پر جھوٹ!
کون آپ سے زبردستی منوا رہا ہے!
ہم تو صرف بتلا رہے ہیں، ماننا نہ ماننا، آپ کی مرضی!
ہم تو صرف بتلا سکتے ہیں، نہ منوا سکتے ہیں، نہ سمجھا سکتے ہیں!
آپ نے اگر قرآن وحدیث کی معنوی تحریف کرنے کی ٹھان ہی لی ہے، تو آپ کو ہم تو نہیں روک سکتے! ہم تو صرف نصیحت ہی کر سکتے ہیں! اور اس کے نتیجہ سے آگاہ ہی کر سکتے ہیں!
ہم نے آپ کو ساتھ کون سی ''زبردستی'' کر دی ہے؟
اب آپ بیوقوفی والی باتیں لکھیں گے، تو اسے تو بیوقفی کہا جائے گا!
آپ اپنی کم علمی وکج فہمی میں قرآن وحدیث میں معنوی تحریف کریں گے، تو یہ تو بتلایا جائے گا!
دیکھیں میرے بھائی! ہم آپ سے حسن ظن رکھتے ہوئے کہتے ہیں، کہ آپ قرآن وحدیث میں معنوی تحریف اپنی کم علمی وکج فہمی و بیوقوفی میں فرما رہے ہیں! اگر یہ حسن ظن نہ ہو تو آپ کو دانستہ قرآن وحدیث میں تحریف کا ارتکاب کرے کے کفر کے سبب کافر کہا جائے!

وہ سب لوگوں کی باتیں ہیں اللہ ورسول کلام و فرمان نہیں ہے سب قیاسی اور اٹکل پچو باتیں ہیں جس پر اللہ کی جانب سے نازل کردہ کوئی دلیل نہیں ہے۔
علماء وفقہاء کی یہ بات کہ ''پوتا دادا کے ترکمہ میں اسی صورت وراثت کا حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی نرینہ أولاد نہ ہو'' اللہ کی نازل کردہ قرآن وحدیث کے موافق ہے، اور اس پر قرآن وحدیث کے دلائل ہیں!
لہذا برائے مہر بانی ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں اور میرے اس بنیادی سوال کا جواب فراہم کریں جو ہم نے اٹھایا ہے:۔
(جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو بیٹے نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟)
آپ کے اس سوال کا جواب متعدد بار تفصیل سے دیا جا چکا ہے، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو دادا کی نرینہ أولاد نہ ہونے پر دادا کے ترکہ سے حصہ دیا تھا! اور آپ کا دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی کو زنانہ أولاد کی موجودگی پر قیاس کرنا باطل ہے!
کیونکہ قرآن وحدیث نرینہ أولاد کی موجودگی کا حکم موجود ہے، اور حکم کی موجودگی میں قیاس باطل ہوتا ہے!
میں نے کہا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
اس کے جواب میں آپ لکھ رہے ہیں:
آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو! یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!

میرے بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کا یہ جملہ (آپ تو یوں فرما رہے ہیں) بالکل ہی غلط اور اللہ رسول کی شان میں بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے کیونکہ فرمانا تو صرف اللہ و رسول کا کام ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: (((إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ)) (57)، ((أَلَا لَهُ الْحُكْمُ)) (62) [الأنعام]، ((مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (40))، ((إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (67)) [يوسف]، ((يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44))) [المائدة]
یعنی حکم اور فرمان تو صرف اللہ کا ہے اور فرمانے کا کام تو صرف اللہ و رسول کی شان ہے کسی بندے کی شان نہیں ہے تو برائے مہربانی میرے تعلق سے یہ جملہ آئندہ استعمال نہ کیجئے گا۔
ماشاء اللہ! آپ میں تو خوارج کے جراثیم و کیڑے بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں!
بعین وہی خوارجیوں واا نعرہ لگا دیا!
اللہ اور رسول کے علاوہ کسی کے حق میں ''حکم'' اور ''فرمان'' کے لفظ کے استعمال کو اللہ اور رسول اللہ کی گستاخی بھی قرار دے دیا!
اول کہ جناب کو اتنی بھی سمجھ نہیں، کہ ''آپ نے فرمایا'' کے معنی یہاں ''آپ نے حکم دیا'' نہیں بلکہ آپ نے کہا'' ہوتا ہے!
دوم کہ ''آپ نے فرمایا'' ادب و احترام کا صیغہ ہے!
ویسے اب ہم آپ کے لئے ''فرمایا'' کا لفظ استعمال نہیں کریں گے! وہ اس لئے کہ آپ ادب واحترام کے مستحق معلوم نہیں ہوتے! آپ تو اپنے کلام و اقوال کے لئے ''آپ نے بکا'' یا '' آپ نے بکواس کی'' کے الفاظ کے مستحق ہیں، مگر ہم یہ بھی نہیں کریں گے!
آئندہ ہم آپ کے لئے، ''آپ نے کہا'' کی طرح کے الفاظ ہی استعمال کریں گے، کہ آپ ادب واحترام کے مستحق نہیں!
میں نے لکھا :
جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ چچا تائے مانع اور حاجب نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا کی اولاد اس کے وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہیں۔
اور خود اصول فرائض میں حجب کا پہلا اصول ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہو تو وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے جیسے باپ کے ہوتے دادا محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے ۔ یتیم پوتے کے ترکہ میں تو دادا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اور دادا کے ترکہ میں وہی پوتا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہے۔ یہ کونسی شریعت اور کونسا دین ہے؟۔
اس پر ہمارا کلام نقل کیا:
آنجناب لکھتے ہیں:
''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
یہ آپ ہمارے کلام کو اس کے سیاق سے پھیر کر کیوں لکھتے ہیں؟
میرا یہ جملہ آپ کے درج ذیل کلام پر تھا!
یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا جیسا کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کے باپ کی عدم موجود گی میں حصہ دیا۔ اسی طرح جب اس کا چچا بھی نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
آپ نے ابھی جو بات کہی ہے:
میں نے لکھا :
جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ چچا تائے مانع اور حاجب نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا کی اولاد اس کے وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہیں۔
اور خود اصول فرائض میں حجب کا پہلا اصول ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہو تو وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے جیسے باپ کے ہوتے دادا محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے ۔ یتیم پوتے کے ترکہ میں تو دادا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اور دادا کے ترکہ میں وہی پوتا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہے۔ یہ کونسی شریعت اور کونسا دین ہے؟۔
اس پر ہم نے یہ نہیں لکھا تھا!
اور نہ ہی یہ کلام آپ کا اس ترتیب و الفاظ میں پہلے لکھا ہے، بلکہ یہ کلام آپ نے ابھی لکھا ہے!
اب آتے ہیں آپ کے اس کلام پر جس پر ہم نے یہ نقد کیا تھا:
آپ کا کلام درج ذیل ہے:

یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا جیسا کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کے باپ کی عدم موجود گی میں حصہ دیا۔ اسی طرح جب اس کا چچا بھی نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
آپ نے یہاں کہا کہ ''یتیم پوتا'' دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے، یعنی جب ''یتیم پعتے'' کا ''باپ نہ ہو'' تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا!
آپ کے اس جملہ میں تقص ہے، اس نقص کو ہم نے بیان کیا کہ:

آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
کوئی یتیم ہوتا ہی، اس وقت ہے، جب اس کا باپ نہ ہو!
اور کہ آپ نے ''بھی'' کا لفظ استعمال کیا ہے!
اس لفظ ''بھی'' کا تقاضا ہے کہ اس کے مخالف، یعنی ''باپ کے ہونے'' پر بھی یہی حکم صادر ہو!
مسئلہ آپ کا یہ ہے، کہ آپ ''یتیم'' کی نعرے بازی میں، یہ نہیں سمجھ پارہے، کہ جب آپ نے ''یتیم'' کہا ہے، تو پھر آگے، ''باپ کے نہ ہونے'' پر''بھی'' کہنے سے لازم آتا ہے، کہ ''پاب کے ہونے'' پر ''بھی'' وہی حکم صادر! کیوںکہ ''پاب کے نہ ہونے'' پر ''یتیم ہونے والے'' کی ''باپ کے ہونے'' سے ہستی میں فرق نہیں آتا، وہ وہی ہستی رہتی ہے!
معاملہ یہ ہے کہ یتیم کی نعرے بازی کے چکر میں آپ اپنا مدعا دم تحریر میں نہیں لا پا رہے؛
ہم آپ کو سکھلاتے ہیں، کہ آپ کا موقف کیسے دم تحریر میں لایا جا سکتا ہے!
آپ کو یوں لکھنا چاہیئے تھا:

''جب یتیم پوتے کے چچا تائے ہوں ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ ''
یہ ہے آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست۔ میں نے تو لکھا تھا کہ جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے اور جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے۔
یہ آپ کا جھوٹ ہے، یہ آپ نے پہلے، نہیں لکھا تھا، یہ آپ نے اب لکھا ہے!
دوم کہ اب بھی آپ کے کلام میں نقص ہے، کہ جب آپ نے ''یتیم پوتے'' لکھا ہے، تو پھر یہ کہنا کہ ''جب اس کا باپ نہ ہو'' لا یعنی وفضول ہے!
اور اتنی مختصر عبارت میں آپ نے دو بار اس لا یعنی وفضول بات کو دہرایا ہے!
اسی لئے ہم آپ سے عرض کر رہے ہیں، کہ آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں، ''گویا کہ باپ کی موجودگی میں وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پاتا'' یعنی کہ یتیم پوتا، اگر اس کا باپ ہوتا، یعنی وہ ''یتیم'' نہ ہوتا، تب بھی دادا کے ترکہ میں حصہ پاتا!

آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست کا یہ عالم ہے کہ اس کا معنی و مفہوم یہ نکال رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ (گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!) اب اس احمقانہ بات کا کیا جواب دیا جائے۔ سچ کہا کسی نے کہ (جواب جاہلاں باشد خموشی) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا) (الفرقان: 63)
دیکھیں میاں! یہ احمقانہ عبارت آپ کی ہے، اور ہم نے آپ کی عبارت کا احمقانہ ہونا ہی بتلایا اور بیان کیا ہے!
اب آنجناب کے پاس اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ جب پوتے کا باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی حقدار وحصہ دار ہی ہوگا ایسے پوتے کا توکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
جب آپ کو اتنی سمجھ ہے، تو آپ اپنے کلام میں بھی اس کا لحاظ کیا کریں! ایسے احمقانہ فقرے کہ''جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو'' لکھنے سے گریز کریں!
مگر معاملہ یہ ہے کہ امام بخاری نے جو باب قائم کیا ہے، اور امام ابن حجر نے جس کی شرح کی ہے، وہ محض ''یتیم'' پوتے کے متعلق نہیں،امام بخاری نے
''بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ'' یعنی پوتے کی میراث کا باب ''إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ'' یعنی جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو، قائم کیا ہے!
اور آپ اس میں ''یتیم'' کا تڑکہ لگا کر امام بخاری اور امام ابن حجر کے کلام کے معنی کو پھیرنے کی کوشش میں مشغول ہیں!
یہ الگ بات ہے کہ باب میں مذکور شرط سے یہ لازم آتا ہے، یعنی کے شرط میں شامل ہے کہ پوتا اسی صورت دادا کے ترکہ میں حصہ دار وحقدار قرار پاتا ہے، جب اس کا باپ حیات نہ ہو، خواہ وہ ''یتیم'' ہویا نہ ہو! اور باپ کے ہوتے ہوئے
''إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ'' کی شرط پوری نہیں ہوتی!
مزید کہ اس شرط کے پورا ہونے کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ پوتے کے چچا تائے بھی نہ ہوں! کیونکہ ان کے ہونے سے بھی ''اذا لم يکم ابن'' کی شرط پوری نہیں ہوتی!

مسئلہ تو اس پوتے کا ہے جس کا باپ نہیں ہے اور اس کے چچا تائے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہے یا نہیں ہے۔
یہ مسئلہ آپ نے پہلی بار درست تحریر کیا ہے! وگرنہ اس سے قبل تو ''یتیم'' کی نعرے بازی آپ کو مسئلہ بھی درست تحریر کرنے سے مانع تھی!
اس کا جواب ہے، نہیں!

بس اتنی سی بات ہے
اور اتنی سی بات آپ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے! کہ پوتے کا دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کی کوئی نرینہ أولاد موجود نہ ہو!
رہا یہ مسئلہ کہ یتیم پوتے کا نہ تو باپ ہی ہے اور نہ چچا تائے ہی ہیں تو ایسی صورت میں یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ جس شخص کو نہ تو بات ڈھنگ سے کہنے کا ہی شعور ہو اور نہ ہی بات کو ڈھنگ سے سمجھنے کا ہی شعور ہو تو ایسے شخص کو اس جیسے نازک اور خطرناک شرعی مسئلہ میں بولنےاور لکھنے کی جرات ہی نہیں کرنی چاہئے۔
آپ کو واقعی شرعی مسائل میں گفتگو نہیں، کرنی چاہئے، کہ آپ ایک جملہ تو ڈھنگ سے لکھ نہیں پا رہے! ''یتیم'' کی نعرے بازی پھر آڑے آ گئی!
متعدد بار آپ کو بتلایا ہے، کہ کہ جب ''یتیم'' کہہ دیا ہے، تو ''نہ تو باپ ہی ہے'' کہنا لا یعنی وفضول ہے!
آپ یہ ایک جملہ تو ڈھنگ سے لکھ نہیں پا رہے!
ہمیں معلوم ہے، کہ آپ کس مسئلہ میں اختلاف کر رہے ہیں، اور کہاں اختلاف نہیں کر رہے!
ہمیں تو یاد ہے، کہ آپ نے تو رہر صورت، ہر ہر پوتے، بلکہ نواسے نواسیوں کو بھی وراثت کا حصہ دار قرار دیا تھا! اب آپ یہ بھول گئے ہیں!
معالمہ یہ ہے کہ آپ اپنے موقف کے اثبات پر جو کلام کرتے ہیں، اس کا مقتضی یہ سارے مسائل پیدا کرتا ہے، مگر آپ کو اپنے ہی کلام کے مقتضی کی سمجھ نہیں! اس لئے آپ کو بتلایا جاتا ہے، کہ آپ کے کلام کا مقتضی تو یہ بنتا ہے، پوتے کو باپ کی موجودگی میں بھی دادا کی وراثت سے حصہ دیا جائے!
اور آپ نے تو جذبات میں کہا تھا اس کا پرزور إقرار کیا تھا!
اب آپ کو نسیان کا مرض بھی کافی سنگین ہے،
ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں: ہم نے آپ کے کلام کا مقتضی بیان کرتے ہوئے کہا تھا:

تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو!
ہاں میں کہتا ہوں :
ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے
ہاں میں کہتا ہوں :
ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے
اب آ پ اس بات کو بھول گئے، اور اس کے برخلاف کہتے ہیں، کہ مسئلہ ''اس پوتے کا ہے ، جس کا باپ نہیں''
آپ کے موقف کے مطابق تو باپ کا ہونا، نہ ہونا کوئی مسئلہ ہی نہیں! آپ تو کہہ رہے تھے کہ دادا کے ترکہ میں ہر ہر پوتے کا حصہ ہے!
اب یہ آپ کی تضاد بیانیاں ہیں!
آپ کو مشورہ ہے، کہ آپ ان أمور میں اٹکل پچو مارنا چھوڑیں، اور کوئی ایسا کام کریں، جس میں دماغ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہو!

یہ کوئی شوقیہ چیز اور تفریحی مسئلہ نہیں ہے کہ چلو تھوڑا تفریح کرلیتے ہیں اور یہ آپ کا کام نہیں ہے اور آپ کو زیبا نہیں دیتا کہ آپ اس نازک اور خطرناک مسئلہ میں کچھ بھی لکھیں۔ لہذا یہ تفریح بند کردیں۔
ویسے میں آپ کی ''خود اعتمادی'' کی داد دیتا ہوں! کہ اس قدر لا یعنی، اور تضاد سے بھرپور کلام کرنے بعد بھی، دوسروں پر الزام عائد کرنا! واقعی کمال بات ہے!
اور کسی دوسرے موضوع میں اپنا زور قلم صرف کریں۔
ہم تو اپنا زور قلم کہیں اور بھی صرف کر لیں گے!
مگر آپ تو قلمکاری سے گریز ہی کیجیئے، تو بہتر ہے! شاید یہی وجہ ہے، کہ ''کتاب'' چھپ نہ سکی!

آپ کی اردو دانی کا یہ حال ہے کہ جملہ آپ کے (لفظ ) سے شروع کرتے ہیں اور جملہ ختم کرتے کرتے تم پر آ جاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی تمیز نہیں ہے جب جملہ آپ سے شروع کیا جاتا ہے تو ہیں پر ختم کیا جاتا ہے۔ اور جب تم سے شروع کیا جاتا ہے تو ہو پر ختم ہوتا ہے۔
گھتگو ریختہ میں نہ کر ہم سے
یہ ہماری زبان ہے پیارے

اس حوالہ سے تو میں ایک شعر بھی نقل کر چکا ہوں!

یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ لکھتے ہیں :
(
گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!)
یہ انتہائی احمقانہ بات ہے پوتا جب یتیم ہوگا تو اس کا باپ نہیں ہوگا اور جب باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی اس کی وراثت کا مسئلہ ہی درپیش ہوگا۔
یہ ہے آپ کی اردو دانی اور معاملہ فہمی جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
یہ احمقانہ بات، ہماری نہیں، آپ کے کلام میں ہے، اور آپ کے کلام کا مقتضی ہے! اور اس پر مفصل بیان گزرا!
آپ اپنے کلام کا نقص ہمارے سر نہ ڈالیں میاں!
اب آتے ہیں آپ کی اس خوش فہمی کا جائزہ لیتے ہیں آپ نے کہا:
میرے بھائی! یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا! اس کےورثاء اس کے مالک ہو گئے، اور یہ یتیم پوتا بھی اس مال کا مالک بن گیا تھا! میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا، چہ جائیکہ وہ کسی کے مال کا ترکہ وصول کرے! جس کی وفات ہو گئی، اس کادنیا کے مال میں کوئی حق و حصہ نہیں! یہ صرف اٹکل کے گھوڑے ہیں، کہ اگر وہ زندہ ہوتا! تو اپنا حصہ پاتا! حقیقت یہ ہے کہ نہ تو زندہ ہے، اور نہ اس کا کوئی حصہ ہے!
یہ بھی آنجناب کی خوش فہمی اور اعلیٰ فہم و فراست کا ایک اور نمونہ۔ یہاں بحث ابا جان اور اما جان کے ترکہ کی نہیں ہورہی ہے بلکہ دادا کے ترکہ کی اور دادا کا ترکہ کسی ایرے غیرے کا مال اور ترکہ نہیں ہے بلکہ اس کے والد دادا جان کا ترکہ ہے جس کی وہ اولاد و ذریت میں سے ہے اور وہ اس کے باپ کی وفات کے بعد اس کی جگہ اب اسکا والد و باپ ہے جو اسے چھوڑ کر مرگیا ہے
یہ آپ کا خبط ہے، کہ دادا پوتے کا ''والد'' یعنی ''حقیقی والد'' ہے، کیونکہ آپ کے نزدیک تو ''والد حقیقی'' ہی ہوتا ہے!
ہم نے یہاں اماں جان اور أبا جان کے ترکہ کی بحث نہیں کی، بلکہ یہ بتلایا ہے، کہ فوت شدہ بیٹے کا دادا کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہوتا، کہ فوت شدہ بیٹے کا بیٹا اسے پائے!

جیسے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے والد عبد اللہ جب انہیں چھوڑ کر مرگئے تو ان کے دادا عبد المطلب نے بطور والد و باپ کے ان کی پرورش و پرداخت کی اور باپ کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں انہیں ادا کی۔
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد 'عبد اللہ'' تھے، نہ کہ ''عبد المطلب''، عبد المطلب، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے، ''والد '' نہیں!
عبد المطلب کے بعد جس نے پرورش وپرداخت کی اور باپ کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں، انہیں ادا کرنے والے کو بھی آپ ''والد'' کہہ دیں گے؟
عبد المطلب کے بعد یہ أمور أبو طالب نے ادا کیئے! تو انہیں آپ کیا کہیں گے؟
آپ نے لکھا:
(
یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا!
(
میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا
آپ کے بقول جب یتیم پوتے کے ابا جان اور دادا جان کا مال مرتے ہی ان کا نہیں رہا تو پھر نہ تو یتیم پوتے کے ابا جان کا ترکہ بنا اور نہ ہی دادا جان کا ترکہ بنا لہذا اس میں نہ تو اس کا کوئی حصہ بنتا ہے اور نہ ہی اس کے چچا تایوں کا ہی کوئی حصہ بنتا ہے ۔ کیونکہ جب یتیم پوتے کے باپ کا اور اس کے چچا تائے کے باپ کا مال ہی نہیں رہا تو پھر ترکہ بننے اور وراثت منتقل ہونے کا سوال ہی نہیں بنتا ہے۔
پڑیں پتھر عقل ایسی پہ کہ تم سمجھے تو کیا سمجھے!
جو مر جاتا ہے، وہ اپنا مال پیچھے چھوڑ جاتا ہے!
اب وہ مال مردے کی ملکیت نہیں رہتا، بلکہ اس کا ترکہ کہلاتا ہے، یعنی میت کا چھوڑا ہوا مال! اور اسی ترکہ ورثاء میں بانٹا جاتا ہے!
کم از کم ترکہ کے لفظ پر ہی غور کیا ہوتا، تو ایسی بے تکی نہ ۔۔۔۔۔۔

آپ کی اعلیٰ فہم و فراست ایسا ہی کہتی ہے۔ آئے آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتے ہیں۔
لیکن آپ بہت غلط فہمی میں مبتلا ہو!
جناب من! آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جبتک مرنے والے کا ترکہ تقسیم نہیں ہوجاتا ہے تب تک اس کا چھوڑا ہوا مال اسی کا رہتا ہے جو اللہ کی امان میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا نگراں و محافظ ہوتا ہے۔
آپ ایسا کیجیئے، کہ قریبی داوخانہ سے رجوع کریں!
حدہو گئی بیوقوفی کی!
''اس کا چھوڑا ہوا مال اسی کا رہتا ہے''
اسی کا رہتا ہے تو چھوڑا ہوا کیسے ہوا!
جس کے حقدار و حصہ دار اس نے بنا و متعین کر رکھے ہیں اور ان کے حصے بھی مقرر کردئے ہیں جنہیں ان کو دیدیئے جانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: (وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا) (سورة النساء: 33)
جناب من! پہلے آپ ڈھنگ سے قرآن و حدیث پڑھیئے ۔ اور فرائض و مواریث کا علم اللہ کی کتاب قرآن مجید اور سنت رسول اللہ سے سیکھئے اس کے بعد پھر بحث مباحثہ کا شوق پورا کیجئے۔
اللہ تعالیٰ نے جسے اور جس صورت حقدار وحصہ دار بنایا اور متعین کیا ہے، اسی طرح رہنے دیں، اس کے برخلاف اپنی خواہشات کے موافق کسی کو حقدار وحصہ دار قرار دینے کی سعی چھوڑ دیں، اور اللہ کے حضور توبہ کریں!
اور اس سے پہلے اپنے اردو ادب کو درست کیجئے۔
معلوم ہوتا ہے، کہ صاحب کو یہ گمان ہے کہ اردو وہی ہے، جو انہیں آتی ہے!
نہیں میاں! ایسا نہیں ہے، یہ تو غالب کو بھی کہنا پڑا تھا کہ:
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہماری بحث امام بخاری کی صحیح بخاری کے ایک باب اور اس پر حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح کے حوالہ سے ہو رہی تھی، آپ نے امام بخاری کی، اور ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری سے جو عبارت نقل کی تھی، وہ یہ تھی:
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
جس میں پوتے کی وراثت کے لئے شرط ''إِذا لم يكن إبن'' مذکور ہے۔
حتی کہ آپ نے اسے توڑ مڑوڑ کر دو أبواب میں تقسیم کرتے ہوئے یوں کہا:

[1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔
[2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔
یہاں بھی آپ نے صحیح بخاری میں مذکور شرط کے یہی ''إِذا لم يكن إبن'' الفاظ لکھے۔
ہم نے ایک مراسلہ میں آپ کو یہ بتلایا، کہ یہ نہ بھولئے گا، کہ آپ نے صحیح بخاری میں اس شرط کے کیا الفاظ نقل کئے ہیں:

یہ بات یاد رکھیئے گا!
کہ آپ نے یہاں صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ نقل کیئے ہیں:

''باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن''
مگر آپ کو لاحق نسیان کا مرض بہت سنگین ہے، اس کے باوجود آپ نے صحیح بخاری میں باب کے درج ذیل الفاظ نقل کئے:
پیش خدمت ہے صحیح بخاری کے ابواب یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے تعلق سے:
[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 -
باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).

[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 -
باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
آپ کی پیش کردہ اس عبارت میں زیر بحث شرط کے الفاظ تبدیل ہوگئے؛
پہلے یہ الفاظ تھے:

''إِذا لم يكن إبن''
اب یوں ہو گئے:
''إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)''
ان دونوں الفاظ میں بہت فرق ہے، کہ ''إبن'' کی جگہ له ''(له أبٌ)'' آگیا!
اور لطیفہ اس عبارت میں یہ ہے، کہ ''بریکٹ'' میں آیا ہے!

اس پر ہم نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کے پیش کردہ الفاظ کے ساتھ، صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ عبارت موجود ہے!

یہ ضرور بتائیے گا کہ صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ باب ہے!
اس کا آپ نے یہ جواب دیا:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر]

ؐ-----------------------------
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).
اول تو ہم نے آپ سے سوال کیا تھا، کہ صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ عبارت ہے، تو آپ نے صحیح بخاری کے کسی نسخہ کا حوالہ نہیں دیا، بلکہ صحیح بخاری کی ایک شرح کے حوالہ نقل کردیا!
اب اس حوالہ میں اس عبارت کی حثیت کیا ہے، یہ تو اگے بیان ہو گا ان شاء اللہ!
یہاں یہ بتلانا مقصود ہے، کہ آپ خود اس سے قبل صحیح بخاری کے حوالہ سے جو عبارت نقل کرتے رہے ہیں، وہ اس عبارت سے مختلف ہے!


امام بخاری لکھتے ہیں:
صحیح بخاری کے یتیم پوتے اور پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے الگ الگ دو ابواب
پہلا باب: یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا باب

[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 -
باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).

یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو

آئیے ہم آنجناب کی اس خوش فہمی کو دور کیئے دیتے ہیں۔ صحیح بخاری : کتاب الفرائض کا باب کچھ اس طرح ہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر]

ؐ-----------------------------
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).

امام بخاری نے یہ باب باندھا اور اس کے تحت حدیث رسول پیش کی جیسا کہ باب کے عنوان سے ظاہر ہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.
6735 - حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ» [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]
__________
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).

پوری عبارت یوں ہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)
مذکورہ بالا اقتباسات میں آپ نے امام بخاری کی صحیح بخاری کی طرف اس عبارت کو منسوب کیا ہے!
اور لطیفہ یہ ہے، کہ صحیح بخاری کے کسی نسخہ میں بھی یہ عبارت موجود نہیں!

آپ کی پیش کردہ عبارت
خالد الرباط اور جمعة فتحي کی تحقیق سے ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) کی کتاب صيح بخاری کی شرح، التوضيح لشرح الجامع الصحيح، میں اسی طرح موجود ہے، اور اس پر محققین کا حاشیہ بھی موجود ہے، جو آپ نے بھی نقل کیاہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)
۔۔۔
(1) كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).


اگر آپ میں کچھ علمی لیاقت ہوتی، تو آپ کو سمجھ آتا، کہ محققین نے یہاں
''(له أبٌ)'' کو خواہ مخواہ بریکٹ میں نہیں لکھا، بلکہ اس کی وجہ ہے، اور اس پر حاشیہ میں یہ خواہ مخواہ نہیں بتایا، کہ جس نسخہ کو اصل قرار دے کر یہ طباعت کی گئی ہے، اس نسخہ میں تو ''له أبٌ'' ہے، اور صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ میں ''ابن'' ہے!
اور یہاں اسے بریکٹ میں اس لئے لکھا ہے کہ یہ
''(له أبٌ)'' ان محققین کے نزدیک بھی درست و ثابت نہیں، بلکہ ابن ملقن کی صحیح بخاری کی شرح ''التوضيح لشرح الجامع الصحيح'' کے مخطوط میں تصحیف ہے! اور درست وہ ہے، جو صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ سے ذکر کیا یعنی ''ابن''۔

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن ملقن کی یہ کتاب جامعة أم القری سے متعدد أجزاء میں رسالة ماجستر کے تحت دراسة وتحقيق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس میں مذکورہ باب کی عبارت یوں ہے:

باب ميراث ابن الإبن اذا لم يكن له ابن
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 283 التوضيح لشرح الجامع الصحيح (من أول كتاب الأيمان والنذور إلى آخر كتاب الفرائض) – ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) – رسالة ماجستر ظافر بن عایض بن محمد الشهراني، بإشراف الدکتور عبد الودود مقبول حنيف – جامعة أم القری، مكة المكرمة

معلوم ہوا کہ آپ کی خالد الرباط اور جمعة فتحي کی تحقیق سے مطبوع اشاعت میں ''ابن'' کا ''ن'' ساقط ہے!
اور ان محققین نے اس کی نشاندہی بھی کر دی ہے! کیونکہ جس نسخہ سے اس اشاعت کو مرتب کیا گیا ہے، اس نسخہ میں
''ن'' ساقط ہے۔
اسی طرح جامعة أم القری سے شائع ہونے والی اشاعت میں بھی اس کی طرف نشاندہی یوں کی گئی ہے۔

(۵) ما بين المعكوفين نقله عن ابن بطال، باب ميراث ابن الإبن إذا لم يكن له اب.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 283 التوضيح لشرح الجامع الصحيح (من أول كتاب الأيمان والنذور إلى آخر كتاب الفرائض) – ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) – رسالة ماجستر ظافر بن عایض بن محمد الشهراني، بإشراف الدکتور عبد الودود مقبول حنيف – جامعة أم القری، مكة المكرمة

اب کسی کو یہ وہم نہ ہو جائے، کہ شرح صحيح البخارى لابن بطال میں، باب کی ''یہ عبارت'' مذکور ہے، لہٰذا ابن بطال سے بھی اس کو ثابت کرنے کے در پر ہو جائے!
شرح ابن بطال کی عبارت اس طرح ہے:

باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 349 جلد 08 شرح صحيح البخارى لابن بطال – ابن بطال أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك (المتوفى: 449هـ) – مكتبة الرشد، الرياض
معلوم ہوا کہ ابن ملقن نے باب کا نام ''باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ'' ہی رکھا تھا، لیکن نسخہ میں ''ن'' ساقط ہو گیا ہے!
ممکن ہے کہ اس کے باوجود بھی کوئی بضد ہو، اور ضد کرے کہ، یہ باب تو ابن بطال کی شرح کا ہے، اس سے ابن ملقن کی شرح کا باب یہی کیوں ہوا!
لہٰذا اس کے پیش نظر ابن بطال اور ابن ملقن کی شروحات سے اس باب کی عبارت کو نقل کرتے ہیں، تاکہ معلوم ہو جائے، کہ ابن ملقن نے اس باب میں درحقیقت ابن بطال کے الفاظ کو ہی نقل کیا ہے!

قول زيد هذا إجماع، وأما قوله: (ألحقوا الفرائض بأهلها) فإنه يريد إذا توفيت امرأة عن زوج وأب وبنت وابن ابن وبنت ابن فإن الفرائض هاهنا أن يبدأ الزوج بالربع، وللأب السدس، وللبنت النصف وما بقى فلابن الابن مع بنات الابن إن كن معه فى درجة واحدة أو كان أسفل منهن، فإن كن أسفل منه فالباقى له دونهن، وهذا قول مالك والشافعى وأكثر الفقهاء.
ومنهم من يقول: الباقى لابن الابن دون بنات الابن وسواء كن معه فى قُعدد واحد أو أرفع منه لا شىء لهن لقوله (صلى الله عليه وسلم) : (فما بقى فلأولى رجل ذكر) على ظاهر هذا الحديث. وقيل: يرد على من معه ولا يرد على من فوقه. وأماحجة زيد ومن ذهب مذهبه ممن يقول لأولى رجل ذكر مع إخوته فظاهر قول الله تعالى: (يوصيكم الله فى أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين) [النساء: 11] وأجمعوا أن بنى البنين عند عدم البنين إذا استووا فى القعدد ذكرهم كذكرهم وأنثاهم كأنثاهم. وكذلك إذا اختلفوا فى القعدد لا يضرهم؛ لأنهم كلهم بنو بنين يقع عليهم اسم أولاد، فالمال بينهم للذكر مثل حظ الأنثيين إلا ما أجمعوا عليه من الأعلى من بنى البنين الذكور يحجب من تحته من ذكر وأنثى.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 349 – 350 جلد 08 شرح صحيح البخارى لابن بطال – ابن بطال أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك (المتوفى: 449هـ) – مكتبة الرشد، الرياض

وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ. ثم ساق حديث ابن عباس - رضي الله عنهما - السالف.
وأثر زيد - رضي الله عنه - هذا أخرجه يزيد بن هارون، عن محمد بن سالم، عن الشعبي عنه.
وقول زيد هذا إجماع. وحديث ابن عباس سلف معناه، والمراد: إذا توفيت امرأة عن زوج وأب وبنت، (وابن ابن) وبنت ابن، فإن الفرائض ها هنا [تبدا] الزوج بالربع، وللأب السدس، وللبنت النصف، وما بقي فللباقي إن كن معه في درجة واحدة، أو كان أسفل منهن فالباقي له دونهن، وهذا قول مالك، والشافعي، وأكثر الفقهاء. ومنهم من يقول الباقي لابن الابن دون بنات الابن، وسواء كن معه في تعدد واحد أو أرفع منه لا شيء لهن لهذا الحديث بظاهره، وقيل: يرد على من معه ولا يرد على من فوقه.
وأما حجة زيد ومن ذهب مذهبه ممن يقول: لأولى رجل ذكر مع أخواته فظاهر قوله تعالى: ﴿يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾.
وأجمعوا أن بني البنين عند عدم
البنتين كالبنتين إذا استووا في التعدد، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، وكذا إذا اختلفوا في التعدد لا يضرهم لأنهم كلهم بنو بنين يقع عليهم اسم أولاد، فالمال بينهم لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ إلا ما أجمعوا عليه من أن الأعلى من بني البنين الذكور يحجب من تحته من ذكر وأنثى.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 283 – 284 التوضيح لشرح الجامع الصحيح (من أول كتاب الأيمان والنذور إلى آخر كتاب الفرائض) – ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) – رسالة ماجستر ظافر بن عایض بن محمد الشهراني، بإشراف الدکتور عبد الودود مقبول حنيف – جامعة أم القری، مكة المكرمة

ابن ملقن کی مذکورہ بالا عباررت میں دیکھا جا سکتا ہے، کہ سبز رنگ کے الفاظ بعین وہی الفاظ ہیں، جو ابن بطال کے ہیں، جامنی رنگ کے الفاظ ابن بطال کے الفاظ کے مترادف الفاظ ہیں، اور خاکی رنگ کے الفاظ اضافی ہیں!
معلوم ہوا کہ ابن ملقن نے بھی باب کا نام
''باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ'' ہی رکھا ہے!
بقول شاعر؛
اگر اب بھی نہ تم سمجھے
تو پھر تم سے خدا سمجھے

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مزید کہ ابن بطال کے نقل کرد الفاظ:

''باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ''
صحیح بخاری کے ایک نسخہ کے حاشیہ میں ''له'' کو دوسرے نسخہ کے حوالہ سے لکھا گیا ہے؛
ملاحظہ فرمائیں: نسخة البقاعي من صحيح البخاري (وهي معدومة النظير كما قال بن حجر) وهي منقولة من نسخة اليونيني المنقولة من نسخة الحافظ عبد الغني المقدسي – مكتبة كوبريلي، إسطنبول
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا ہے:
میرے محترم مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے حق و حصہ کے اثبات کے لئے ہی باندھا ہے انکار کے لئے نہیں ہے۔
اس کے جواب میں ابن داود نے کہا:
جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے! امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ
(بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں! درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!

الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
میں نے یہ سوال کیا تھا:
اور میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ

وہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔
جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔
میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔
جہاں تک صحیح بخاری کے کتاب الفرائض کے باب کا تعلق ہے تو پیش خدمت ہے صحیح بخاری کے ابواب یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے تعلق سے:
[صحيح بخاري: كتاب الفرائض]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -:
وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.
[صحيح بخاري: 6735] *-* حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -:
«أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]
[صحيح مسلم: 4 - (1615)] حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ».
[وأجمعوا أن بني البنين عند عدم البنين كالبنين إذا استووا في العدد، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم]
8 - باب مِيرَاثِ ابْنَةِ ابْنٍ مَعَ ابْنَةٍ
6736 - حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ: سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ: سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنِ ابْنَةٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ، فَقَالَ لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلِلأُخْتِ النِّصْفُ، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي. فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - «لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلاِبْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلأُخْتِ». فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لاَ تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ. [6742 - فتح 12/ 17}
[
ولا خلاف بين الفقهاء وأهل الفرائض في ميراث ابنة الابن مع الابنة].
[
وكان أبو بكر يقول: الجد أب ما لم يكن دونه أب، كما أن ابن الابن ابن ما لم يكن دونه ابن.]

اس حدیث کے پیش کرنے سے میرا مقصد صرف اتنا سا تھا کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دیا اور یتیم پوتی کے حصہ پانے میں بیٹی رکاوٹ نہ بنی غرض اس سے نہیں کہ اسے کتنا ملا ۔ اس سے بحث نہیں ہے بحث یہ ہے کہ یتیم پوتے کو اس کے چچا تائے کے ہوتے حصہ مل سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں مل سکتا ہے تو اس کی دلیل کون سی آیت یا حدیث ہے تو آپ کوئی آیت و حدیث پیش کرنے کے بجائے۔ ہمیں علم میراث پڑھانے لگ گئے۔ اور ہماری بنیادی بات کا جواب دینے سے قاصر رہے۔
ابن داود صاحب نے کہا:

جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں! درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!

الجواب:
آئیے ہم آنجناب کی اس خوش فہمی کو دور کیئے دیتے ہیں۔ صحیح بخاری : کتاب الفرائض کا باب کچھ اس طرح ہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر]

ؐ-----------------------------
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).
اس باب سے صاف ظاہر ہے کہ یہ باب اس پوتے کی میراث کے اثبات کا باب ہے جس کا باپ نہ ہو۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جب کوئی بیٹا نہ ہو تب یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہوگا۔ جیسا کہ آپ اور آپ جیسے لوگ سمجھے بیٹھے ہیں اور اس پر تلے ہوئے ہیں اور یہ طے کیئے بیٹھے ہیں کہ بہر صورت یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہونا ثابت کر کے رہیں گے۔
کیا اس سے بھی بڑھ کر اور کوئی ثبوت ہو سکتا ہے اس بات کا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہوتا ہے بلکہ وارث ، حقدار و حصہ دار ہوتا ہے۔

میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا ہے:
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
اس کے جواب میں آپ کا ارشاد گرامی ہے:

میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
الجواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا جو فتویٰ ہے وہ محض قیاسی ہی ہے۔ قرآن وحدیث کی اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ دادا کو یتیم پوتے پر قیاس کر کے ہی یتیم پوتے کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار مانا گیا ہے۔ اور اس بات پر اجماع ہوا ہےکہ (الجد اب) یعنی دادا باپ اور والد ہے۔ تو جب یتیم پوتے کا دادا بالاجماع اس کا باپ و والد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا تو اس کا یتیم پوتا اپنے دادا کا بالاجماع بیٹا وا ولاد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا ۔ اللہ کا فرمان ہےکہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے کیسے فتوے دیتے اور حکم لگاتے ہو۔ (القرآن)
یہ کیسے ہو سکتا ہے ایک طرف دادا تو اپنے یتیم پوتے کا حقیقی باپ و والد اور وارث ہواور اس کے ترکہ کاحقدار و حصہ دار بنے۔ ان دونوں کے درمیان چچا تائے حاجب اور رکاوٹ نہ بنیں اور جب پوتے کا معاملہ ہو چچا تائے آڑے آجائیں اور حاجب بن جائیں۔ واہ یہ بڑی عادلانہ و منصفانہ بات ہے۔ دادا کا مال اس کے پوتے پر اس کے زندہ رہنے تک تو حلال تھا اور جیسے ہی دادا مرا اس کا مال اس کے پوتے پر حرام ہوگیا۔ جرم خود کا الزام اللہ کے اوپر اللہ نے پوتے کا حق رکھا ہی نہیں ۔ اللہ نے یتیم پوتے کو اس کے باپ کے واسطے سے پیدا کیا اور اسے اس کے باپ دادا کی اولاد بنایا جیسا کہ خود فرمان باری تعالیٰ ہے:
(
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ (سورة النحل: 72))
ہم نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے اور تمہارے جوڑوں میں سے تمہارے بیٹے پوتے نواسے پیدا کئے اور تمہیں بہترین روزی عطا کی تو کیا تم باطل پر ایمان و یقین رکھتے ہو اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو۔
اولاد اللہ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہے اور بیٹے کے بعد پوتے کا ہونا اس سے بھی بڑی نعمت ہے یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے اسحاق کے بعد پوتے یعقوب کی خوش خبری دی تھی اور اسے نافلہ یعنی خصوصی اور اضافی انعام کہا تھا۔ تو جس طرح بیٹا اللہ کی نعمت ہے اسی طرح پوتا بھی اللہ کا انعام ہے تو جس شخص کے پوتے ہوں وہ بڑا خوش قسمت انسان ہے اسے اللہ کے اس انعام کی قدر کرنی چاہئے اسے اس کا حق دیکر صلہ رحمی کرنی چاہئے اسے محجوب و محروم الارث قرار دیکر قطع رحمی نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ (سورة النساء: 11)) اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے ایسی ہی بکواسوں کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ (حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ)
ذرا درج ذیل آیات کو تنہائی میں بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ پڑھئے گا اور جو اللہ و رسول نے کہا ہے اس پر غور کیجئے گا۔ بقول شاعر: شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ (16) اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ (17) يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (18) اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (19) مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ (20) أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (21) تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (22) [الشورى]
میرے بھائی سب سے پہلے اللہ کا ڈر اور خوف پیدا کیجئےاور اللہ اور یوم آخرت سے ڈریئے۔ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے کہ الفاظ و معانی کے ہیر پھیر سے کوئی غلط چیز صحیح بنا لی جائے تو وہ صحیح ہوجائے گی۔ یہ فرائض و مواریث، حدود اللہ اور حلال و حرام کا معاملہ ہے اور حلال کو حرام کردیا جائے اور حرام کو حلال ٹھہرا لیا جائے حلال حرام اور حرام حلال نہیں ہو جائے گا۔ لہذا یتیم پوتے کے حق و حصہ کا معاملہ بڑا ہی نازک اور انتہائی خطرناک ہے اگر آپ کی ذات سے کسی بھی وارث کا ادنیٰ سا بھی نقصان ہو ا تو پھر آپ کی خیر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے متنبہ کر کھا ہے:

(وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا) (النساء: 9)
یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب نے یتیم پوتے کے حق وراثت کی شدید مخالفت کی تھی اور انہوں نے ہی یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا فتویٰ دیا تھا اور منکر حدیث حافظ اسلم جیراجپوری (جو کہ اہل حدیث تھے لیکن بعد میں شاید اسی یتیم پوتے کے مسئلہ کو لیکر انکار حدیث کیا)، نے یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا انکار کیا (اس وقت جب کہ انہوں نے ابھی انکار حدیث نہیں کیا تھا) تو امرتسری صاحب نے اس کا رد کیا ۔ اور آپ ہوں یا کفایت اللہ صاحب ہوں سب لوگ امرتسری صاحب کی ہی تقلید کر رہے ہیں اور انہیں کی سر میں سر ملا رہے ہیں۔جبکہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تقسیم ہندو پاک میں ان کے تمام بیٹے مار دیئے گئے اور ان کے یتیم پوتے ہی ان کے اموال املاک متروکہ کے وارث بنے۔ بطور عبرت کے میں یہ باتیں لکھ رہا ہوں تاکہ آپ یا کفایت اللہ صاحب ہوں یا اور کوئی بھی اللہ سے ڈریں ان یتیم پوتوں کے بارے میں اور اس حادثہ سے عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔ (فاعتبروا یا اولی الابصار)
دادا کے مرتے ہی اس کے یتیم پوتے پر اس کے دادا کے مال کو کس نے حرام کیا جب کہ اس کی زندگی میں وہ اس کے لئے حلال تھا۔ اللہ نے یا جن کی تقلید میں آپ یہ لمبی چوڑی ہانکے جا رہے ہیں۔ جو لوگ یتیم پوتے کو بالجبر محجوب و محروم الارث قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ان کے اندر ذرا بھی اللہ کا ڈر اور خوف نہیں ہے وہ محض لفاظیاں کرکے اور اپنی کٹھ حجتی کے ذریعہ الفاظ کی ہیرا پھیری سے اپنی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں ان کے پاس سوائے اس لولی لنگڑی بات کے کہ بیٹا قریب تر عصبہ اور پوتا عصبہ بعید ہے اور چونکہ وراثت قریب سے قریب تر کو منتقل ہوتی ہے اس لئے بیٹے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا یہ اصول شریعت ہے۔ لہذا مجبوری ہے۔ اب اس مجبوری کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی بڑے خیر خواہ اور ہمدرد بن کر اب چلے دادا کے اوپر وصیت واجب کرنے ۔ یہ لوگ کون ہوتے ہیں دادا کے اوپر یتیم پوتے کے حق میں وصیت واجب کرنے والے۔ بقول ان کے جب اللہ نے انہیں محروم ہی رکھا ہے انہیں کچھ دیا ہی نہیں ہے تو آپ اللہ سے بڑے ہمدرد بن گئے جو بذریعہ خود ساختہ وصیت واجبہ انہیں دلانے والے؟ کیا اللہ تعالیٰ کی وصیت(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) ناکافی ہے جو دادا کے اوپر الگ سے وصیت کو واجب کیا جارہا ہے؟ کیا اللہ نے نہیں فرمایا ہے: (أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (الزمر: 36)) کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی اولاد کے حق میں کی ہوئی وصیت ناکافی ہے کہ دادا وصیت کرے۔
ذرا ان آیات کو بھی غور سے پڑھ لیجئے گا شاید کہ اللہ کا ڈر پیدا ہوجائے:

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (32) وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (33) لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (34) لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (35) أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (36) وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ (37) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (38) قُلْ يَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (39) مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ (40) [سورة الزمر]
کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ نہیں ہے؟:
()
اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو چکا ہے جو انتہائی سچا، عادلانہ و منصفانہ ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت تاقیامت بدل نہیں سکتی ہے۔ (
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت جس طرح بیٹے کے لئے ہے اسی طرح یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا اور بفرمان الٰہی : (آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (سورة النساء: 11)) بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا:
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے
(إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔ یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
جس کے جواب میں آنجناب لکھ رہے ہیں :

آپ لکھنے سے پہلے کچھ سوچتے بھی ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں؟
جناب من!
یہ جملہ تو آپ پر فٹ ہوتا ہے۔ اگر ہم سوچے نہ ہوتے تو کچھ لکھتے ہی نہیں اور آپ کو جواب دینے کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔
یہ آپ ہیں کہ آپ کے اعلیٰ دماغ اور اعلیٰ فہم و فراست میں جو آتا ہے بلا سوچے سمجھے بکتے چلے جارہے ہیں ۔ یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ لکھ دیا اور کوئی لکیر کھینچ دی تو اسے پیٹے جاؤ۔ جیسا کہ آپ کر رہے ہیں کہ کسی نے کچھ بلا سوچے سمجھے لکھ دیا ہے اور رٹا دیا ہے تو آپ جیسے لوگ ان کی تقلید میں لکھے جارہے ہیں ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔ اب لکھ ان کے سامنے قرآن و حدیث پیش دلیلیں دو ثبوت پیش کرو بس ایک ہی رٹ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
جب قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت اور دلیل مانگی جاتی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ اور اتنی معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ جو جس کاوالد وہ اس کی اولاد ہے یہ بالکل سمپل اور سیدھی سی بات ہے جب دادا والد ہے تو پوتا اس کی اولاد ہوا ۔ ایک والد کی مختلف اولادیں ہوا کرتی ہیں البتہ مختلف اولادوں کا ایک والد ہوتا ہے۔ اولاد و والد کے مختلف درجات و طبقات ہیں ۔ باپ، دادا، پردادا اوپر آدم علیہ السلام تک درجہ بدرجہ سب والد ہیں اسی طرح بیٹا، پوتاٗ پڑپوتا درجہ بدرجہ سبھی اولاد آدم ہیں۔ یہ سب تو اللہ کی کتاب قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے۔ لیکن یہ آپ کو سمجھ میں تو آنہیں رہا ہے۔ البتہ شیطان نے جو وسوسہ آپ جیسے لوگوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے اور رٹا دیا ہے کہ صرف بیٹا ہی اولاد ہو سکتا ہے اور وہی قریب تر ہو سکتا ہے تو وہی بات آپہ جیسے لوگوں کے ذہن و دماغ پر بھوت بن کر سوار ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
(
الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ)
(طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ (21) فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (23) أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (24) إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ (25) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ (26) فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ (27) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (28) أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ (29) [سورة محمد]
ان رٹی رٹائی باتوں کا اللہ کے دین و شریعت (کتاب و سنت) میں کوئی حیثت اور مقام نہیں ہے۔
آپ نے کہا:

تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو!
الجواب:
ہاں میں کہتا ہوں : ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے کا دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے جو ان کے واسطوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے اور اسے ان تک پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے جس کہ دلیل اللہ کا کلام ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) ہے کیونکہ سبھی اولاد ہیں اور اللہ کا فرمان سب کو شامل سب کا جامع اور کامل و مکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) کہا وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ)) (سورة النساء: 11) کہا ہے اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے۔ اور بکواس کا کوئی جواب نہیں ہوا کرتا ہے جواب معقول بات کا دیا جاتا ہے نامعقول بات کا نہیں دیا جاتا ہے۔ لہذا ہر کسی کی ہر ہر بکواس کا جواب دینا ممکن بھی نہیں۔ لوگ لاکھوں کروڑوں تاویلات بیجا کریں پھر بھی پوتا اپنے دادا کی اولاد ہی رہے گا کیونکہ دادا اس کا والد ہے۔
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت جس طرح بیٹے کے لئے ہے اسی طرح یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا اور بفرمان الٰہی : (آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (سورة النساء: 11)) بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
اللہ تعالیٰ نے (
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں (اولادکم ) کا لفظ استعمال کیا ہے (ابنائکم) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ البتہ جہاں (آباؤکم ) وہیں اس پر عطف کرتے ہوئے (ابناؤکم ) کہا ہے اور (اقرب) کی بھی نفی کردی ہے چنانچہ فرمایا: (آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ)
یہ بات تو آپ اور آپ جیسے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے کیونکہ شیطان نے کسی کے ذریعہ یہ سمجھا رکھا ہےکہ بیٹا قریبی عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے اللہ کے ان احکام و فرامین کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جاؤگے اور تمہاری خود ساختہ شریعت مٹی میں مل جائے گی۔ آپ کی اپنی سمجھ تو ہے نہیں آپ تو دوسروں کی سمجھ سے سمجھے ہوئے ہیں اور انہیں کی تقلید میں اس طرح کی ساری باتیں کئے جارہے ہیں تو جو انہوں نے کہا بتایا اور سمجھایا ہے وہی آپ کہہ بتا رہے ہیں اور مجھے سمجھانا چاہتے ہیں۔
آپ نے کہا:

یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!

الجواب:
میں کہتا ہوں :
آخر آپ کو لفظ یتیم سے اتنی چڑ کیوں ہے؟ میں آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتا ہوں اور اس بات کی وضاحت کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے یتیم پوتا کا لفظ جو استعمال کیا ہے وہ منکرین حدیث کی طرح نہیں جن کے پاس محض جذباتیت تھی جس کے چلتے انہوں نے لفظ یتیم استعمال کیا کیونکہ ان کے پاس علم ہی نہیں تھا۔ میں جو یتیم کا لفظ استعمال کر رہا ہوں تو صرف اس معنی میں کہ جس پوتے کا باپ زندہ نہ ہو قطع نظر اس سے کہ وہ بالغ ہو یا نابالغ اور بطور اختصار استعمال کیا ہے۔ جذباتیت کی غرض سے نہیں کیونکہ میرے نزدیک پوتے کا نابالغ یا بالغ ہونا مسئلہ نہیں ہے کہ جو پوتا نابالغ ہو اسے یتیم کے نام پر بذریعہ وصیت بھیک دلوائے جانے کی تجویز پیش کی جائے اور چچا تایوں سے ہاتھ پاؤں جوڑا جائے کہ اس بے چارے کو کچھ بھیک دیدو اور دادا سے یہ کہا جائے کہ بیچارے اپنے یتیم پوتے کو وصیت کرجاؤ۔ میں تو دادا کا وصیت کرنا حرام سمجھتا ہوں بلکہ کفر اور شرک جانتا ہوں۔ میں جذباتیت کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات نہیں کرتا بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات کررہا ہوں۔ اس کا استحقاق قرآن وحدیث سے ثابت شدہ ہے لہذا یتیمی کے نام پر یتیم پوتے کو بھیک نہ دی جائے بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کو حق و حصہ دیا جائے کیونکہ اس کا حصۃ بموجب فرمان الٰہی:
(لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) (سورة النساء: 7)
وہ (نَصِيبًا مَفْرُوضًا) یعنی اللہ کا فرض کیا ہوا حصہ(فریضہ الٰہی) ہے۔
اور بموجب فرمان الٰہی:

(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ............. آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) (سورة النساء: 11)
(فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ
) یعنی اللہ کی جانب سے مقرر کیا ہوا فریضہ (فریضہ الٰہی) ہے۔
میں نے لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
اس کا مطلب میں نے بتایا تھا کہ یتیم پوتے کا مسئلہ دو صورتوں میں پیش آتا ہے ایک اس صورت میں جب کہ یتیم پوتے کا صرف باپ نہ ہو اور اس کی دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ جب یتیم پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہو۔ تو دونوں صورتوں میں یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے تو جب باپ نہ رہے اور چچا تائے رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ اور جب اس کے چچا تائے بھی نہ رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ یہی اس عبارت کا مفہوم ہے۔ حافظ ابن حجر نے لفظ (ابن) کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابن سے مراد میت کی صلبی اولاد یعنی اس کا بیٹا جو پوتے کا باپ بھی ہو سکتا ہے اور اس کا چچا تایا بھی ہو سکتا ہے تو جب پوتے کا باپ نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ اور جب چچا تائے بھی نہ ہونگے تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ پہلی صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام بیٹے کے اپنے باپ کی جگہ ہوگا۔ اور دوسری صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام نہیں بلکہ مثل ایک بیٹے کے ہوگا۔
یہ مسئلہ اسی لئے تو پیدا ہوا کہ میت کا بیٹا نہیں ہے اور اس کی جگہ اس کا بیٹا (یتیم پوتا)ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو اس کے حق کے اثبات کے لئے امام بخاری نے یہ باب باندھا اور اس کے تحت حدیث رسول پیش کی جیسا کہ باب کے عنوان سے ظاہر ہے:

7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1)
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.

صحيح بخاري: حديث رقم: 6735 - حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ» [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]
__________
(1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).

یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ یتیم پوتا ہی ہے(خواہ بالغ ہو یا نابالغ) اس کا چچا تایا ہو یا نہ ہو اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ اور جب چچا تائے بھی نہ ہونگے تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اب جو لوگ اس کی محجوبیت و محرومی ارث کے دعویدار ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں انہیں قرآن کی آیت اور حدیث رسول سے دلیل دینا اور قرآن وحدیث سے ثابت کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ بہت زیا دہ بحث مباحثہ کی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو۔ خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔
میں نے پورے باب کا یہ معنی ومفہوم لکھا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار اس وقت ہو جاتا ہے جب میت کا بیٹا نہ ہو، جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلب سے ہو خواہ وہ یتیم پوتے کا باپ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں بہر دو صورت یتیم پوتا میت (اپنے دادا) کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہوگا۔
چونکہ آپ کی فہم اتنی اعلیٰ ہے کہ یہ سیدھی سی بات آپ اعلیٰ فہم میں نہ آ سکی اور آپ بات سمجھ نہ پائے اور لگے تبصرہ کرنے اور ایک بات کا حصہ بخرہ کرنے اور اس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھی ادھوری بات پر تبصرہ کرنے۔ جب ایک بات کا ادھا حصہ لیا جائے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ مفہوم الٹا پلٹا نکلے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں آیا ہوا ہے کہ (لاتقربوا الصلاۃ و انتم سکاریٰ) تو کوئی شخص (لاتقربوا الصلاۃ) کو لیکر کہے کہ دیکھو قرآن میں آیا ہوا ہے کہ نماز کے قریب مت جاؤ۔
چنانچہ یہی حال آپ کا بھی ہے کہ آپ بات تو سمجھ نہ پائے اور حقیقت یہ ہے کہ سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں۔ آپ نے آدھا جملہ (
خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔) لے لیا اور تبصرہ کرنے بیٹھ گئے:

یتیم پوتے کا باپ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب اس کا باپ موجودہے، تو وہ یتیم کیونکر ہوا!
میں نے باپ کے موجود نہ ہونے کی بات کی اور آپ کی اعلیٰ فہم میں الٹا معنی موجود ہونا سمجھ میں آرہا ہے۔
میرے بھائی پوتے کا مسئلہ پیدا ہی اسی لئے ہوا کہ اس کا باپ نہیں ہے لہذا امام بخاری کو اس مسئلہ پر اس کے حق کے ثابت کرنے کے لئے باب باندھنا پڑا اگر اس کا باپ ہوتا تو مسئلہ ہی کھڑا نہ ہوتا اور امام بخاری کو باب نہ باندھنا پڑتا۔
جناب من ! آپ کی فہم اعلی کا یہ عالم ہے لکھتے ہیں :

اور جب آپ نے خود یہ کہا ہے کہ ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' تو اور چچا میت کا صلبی بیٹا ہے! لہٰذا پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حصہ نہیں پائیں گے!
جناب آدھی ادھوری بات لیکر اس پر تبصرہ کرنے لگ جانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسی صورت میں مفہوم الٹا پلٹا ہی نکلے گا۔ جو نکلا۔
پوری عبارت یوں ہے:

7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)
پوتے کی میراث کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو۔ خواہ وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو یتیم پوتے کا باپ ہے یا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو یتیم پوتے کا چچا تایا ہے۔
میں نے پورے باب کا یہ معنی ومفہوم لکھا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار اس وقت ہو جاتا ہے جب میت کا بیٹا نہ ہو، جس کی امام ابن حجر نے شرح کی ہے کہ میت کی صلب سے ہو خواہ وہ یتیم پوتے کا باپ ہو خواہ اس کے چچا تائے ہوں بہر دو صورت یتیم پوتا میت (اپنے دادا) کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہوگا۔
اسی طرح میں نے کہا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اصل بحث دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے استحقاق کی ہی ہے۔ ایک طرف دادا اپنے بیٹے کا والد ہے تو یتیم پوتے کا بھی والد ہے۔ اسی کے بالمقابل جس طرح بیٹا (چچا تایا ) میت کی اولاد ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتا بھی میت (دادا) کی اولاد و ذریت میں سے ہے۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ والدین کے ترکہ میں اس کی جملہ اولادوں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں سب کا حق و حصہ ہے جو اللہ کا فرض کیا ہوا (فریضہ الہی) ہے۔
اس پر آپ لکھتے ہیں:

تو پھر صرف یتیم پوتا ہی کیوں، یوں تو دادا تمام پوتے پوتیوں کا اسی طرح والد ٹھہرتا ہے، جیسے بقول آپ کے وہ چچا اور تایا کا والد ہے، اور پھر دادا کی وراثت میں اللہ کا فرض کیئے ہوئے، فریضہ الہی میں جملہ اولادوں میں تمام پوتے پوتیاں کا حصہ اسی طرح لازم آتا ہے، جیسے دادا کے بیٹے بیٹیوں کا!
میرے بھائی! آپ ''اولاد '' کے اپنے خود ساختہ مفہوم کی وجہ سے ایسی بے سرو پا باتیں کیئے جا رہے ہیں!

الجواب:
میرے محترم ابن داود صاحب!
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔ آپ کا تو حال یہ ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم اور مصداق جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہے۔ آپ نہ تو حدود الٰہی کا معنی و مفہوم جانتے سمجھتے ہیں اور نہ ہی فریضہ الٰہی کو ہی سمجھ پا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔
بے سروپا باتیں تو آپ کیئے جارہے ہیں اور ایک ایسے مسئلہ میں جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ ہی پیر۔ جو نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی احادیث رسول سے ۔ بلکہ یہ تو بالکل ہی ایک منگھڑت مسئلہ ہے۔ آپ سے اس مسئلہ پر دلیل مانگی جاتی ہے تو آپ وہ دے نہیں پارہے ہیں البتہ ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں۔ آپ اولاد کے جس معنی و مفہوم کو خود ساختہ قرار دے رہے ہیں اور اسے بے سر و پا باتیں کہہ رہے ہیں وہ محض اس لئے ہے کہ آپ نہ قرآن کی آیتوں پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی احادیث پر اور آپ تقلید جیسی مہلک بیماری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کو قرآن و حدیث کی سیدھی سادی باتیں نہیں سمجھ آرہی ہیں۔آپ تو صحیح ڈھنگ سے اردو بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ آپ تو (آپ و تم، ہیں اورہو ) میں بھی فرق وتمیز نہیں کر پارہے ہیں۔ تو قرآن و حدیث کیا خاک سمجھیں گے۔ اولاد کا جو مفہوم و معنی ہم نے بیان کیا ہے وہ میرا اپنا گھڑا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث اور تفاسیر و شروح احادیث میں لکھا ہو اہے اور وہ مفہوم عربی لغات میں بھی لکھا ہوا موجود ہے کہ اولاد و والد میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کا تعلق توالد و تناسل کی بنیاد پر ہو اب وہ خواہ مذکر ہو یعنی بیٹا، پوتا نواسا، پڑ پوتا، پڑنواسا درجہ بدرجہ نیچے تک یہی وجہ ہے کہ ہمیں (یا بنی آدم ) کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرمایا ہے اسی طرح مونث یعنی بیٹی، پوتی نواسی، پڑپوتی پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو (ابنای) یعنی میرے دونوں بیٹے اور حسن کو (ابنی ہذا) یعنی میرا یہ بیٹا جبکہ وہ ان کے نواسے تھےاور خود اپنے بارے میں فرمایا: (انا ابن عبد المطلب) یعنی میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ جب کہ عبد المطلب ان کے دادا تھے۔ یہ سب قرآن و حدیث کی باتیں ہیں میری خود ساختہ نہیں یہ آپ کی میرے اوپر افترا پردازی ہے۔ جس کا آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔
آپ چونکہ مولانا امرتسری وغیرہ کی تقلید کر رہے ہیں اور ان کی تقلید میں اندھے ہوکر یہ ساری بکواس کئے جا رہے ہیں اور میرے بنیادی سوال کا جواب نہیں دے پا رہے ہیں کہ
(جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا تھا جو بیٹا نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟)
میں نے صحیح بخاری کے یتیم پوتی کواس کی پھوپھی کے ہوتے ہوئے حصہ دئے جانے سے متعلق ایک حدیث پیش کی اور لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
جس پر آنجناب لکھتے ہیں:

میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پہلے یہ تو بتائیے کہ اس حدیث میں جس کی وراثت تقسیم ہوئی، اس کا کوئی بیٹا موجود تھا؟ جب دادا کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا، تو مذکورہ شرط تو اسی طرح پوری ہوئی، جیسے ہم نے بیان کیا ہے! کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو!
پھر آنجناب لکھتے ہیں:
اس حدیث میں آپ کو میت کا کوئی بیٹا نظر آرہا ہے، کہ ہمارا مدعا اس حدیث سے غلط ثابت ہو، اور آپ کا درست ثابت ہو جائے! آپ میت کی، یعنی کہ دادا کی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کی وراثت کے ثبوت پر، بیٹے کی موجودگی میں بھی پوتے، پوتی کی وراثت کے کو قیاس فرما رہے ہیں! اور آپ کا یہ قیاس باطل ہے!
آنجناب کا مبلغ علم بس صرف اتنا ہی ہے اور آپ کی اعلیٰ فہم و فراست کا یہ عالم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا کہ جب میت کی صرف مونث اولادیں ہوں(نساء) اور کوئی مذکر اولاد نہ ہو تب ایسی صورت میں ان کا مجموعی حصہ دو تہائی(ثلثان) ہے اور آپ ہیں کہ اس میں بیٹا تلاش کر رہے ہیں۔ آپ تو قیاس کا بھی معنی و مفہوم نہیں سمجھ رہے ہیں۔ میرے بھائی! جب دو چیزیں ایک جیسی ہوتی ہیں تو ایک کو دوسرے پرقیاس کیا جاتا ہے۔ یتیم پوتے پر ہی قیاس کرکے دادا کو اس کا والد و باپ مان کر اس کے یتیم پوتے کا وارث حقدار و حصہ دار قرار دیا گیا اور اجماع و اتفاق ہوا۔ یہ سب تو آپ کو معلوم ہی نہیں اور نہ ہی سمجھ میں آتا ہے۔ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں جانتے سمجھتے کچھ نہیں۔ بس آپ کو جواب دینے کا شوق ہوا اور لکھنا شروع کردیا۔ میرے بھائی جس آیت سے بیٹے کا حق و حصہ ثابت ہوتا ہے اسی آیت سے بیٹی کا بھی ثابت ہوتا ہے اور اسی آیت سے یتیم پوتے پوتیوں کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔
لہذا میرے محترم ! پہلے آپ فرائض و مواریث کو صحیح ڈھنگ سے پڑھئے سمجھئےپھر بحث کیجئے۔
جب آپ کو والد و اولاد کا معنی و مفہوم اور اس کا مصداق ہی معلوم نہیں ہے تو کج بحثی کیوں کئے جا رہے ہیں۔
میں نے جو بنیا دی سوال کیا اس کا جواب دیجئے اور کج بحثی چھوڑیئے۔ صرف لفاظی کرنے اور طول طویل بکواس کر دینے سے کوئی بات صحیح نہیں ہو جاتی اور نہ ہی مسئلہ حل ہو پاتا ہے۔ کوئی بھی بات اسی وقت صحیح مانی جاتی ہے جب وہ اصولی ہو اور قرآن و صحیح حدیث سے ثابت ہو ۔ رہا علماء و فقہاء کے اقوال، آراء اور فتاوے تو یہ سب ہوا ہوائی ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ظنون یعنی گمان اور خرص یعنی اٹکل بازیاں کہا ہے۔ اور جو کچھ آپ نے اب تک کہا یا پیش کیا ہے وہ محض گمان اور اٹکل بازیاں ہی ہیں کوئی قرآن و حدیث کی باتیں نہیں ہیں۔
چنانچہ میں نے لکھا :
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جیساکہ اللہ کے رسول کا وہ فیصلہ جس کے تحت آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ بحیثیت اولاد و بیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا۔
اسکے جواب میں آنجناب نے لکھا :
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، اس کا بیان اوپر گزا! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے پوتی کو بحثیت اولاد وبیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا ہوتا، تو پوتی کی پھوپھی، اور پوتی دونوں کو برابر حصہ ملتا! مگر ایسا ہوا نہیں!
الجواب:
ارےاللہ کے بندے!
آپ کو اتنی بھی عقل اور سمجھ نہیں ہے کہ جب میت کی صرف مونث اولاد ہو تو ان سب کا مشترکہ حصہ ثلثان(دوتہائی حصہ) ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: (
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ)
تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (ثلثان) میں سے ہی یتیم پوتی کو حصہ دیا تھا کوئی بھیک، خیرات، یا دادا کی کی ہوئی وصیت نہیں تھی۔ اور یہ ثلثان(دوتہائی حصہ) صرف بیٹیوں کے لئے ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے (بنات ) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے بلکہ (نساء اور فوق) جس میں درجہ بدرجہ بیٹیاں، پوتیاں پڑپوتیاں وغیرہ سب داخل و شامل ہیں۔ تو اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو چھٹا حصہ دینا اور بیٹی کو آدھا دینا ان کی حکمت و مصلحت کے تحت تھا۔ اور اللہ کے اس فرمان (
وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ) اور (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) کے بموجب تھا۔
چونکہ ایک طبقہ میں صرف ایک یعنی بیٹی تھی تو اس کو آدھا دیدیا۔ جس کے بعد صرف چھٹا حصہ ہی باقی بچ رہا تو باقی بچا ہوا چھٹا حصہ پوتی کو دیدیا اس طرح بیٹی پوتی کا مجموعی حصہ (ثلثان) دوتہائی ہوگیا اس طرح اللہ کا (نساء ) کے حق میں جو فریضہ تھا وہ پورا ہوگیا۔ تو پوتی کو جتنا کچھ ملا وہ اللہ کے مقرر کردہ فریضہ
(ثُلُثَا مَا تَرَكَ) میں سے ہی تھا جو کہ (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) یعنی فریضہ الٰہی ہی تھا۔
اگر اتنی سیدھی سی بات بھی آپ کے اعلیٰ دماغ اور فہم میں نہیں آپارہی ہے اور سمجھ نہیں پارہے ہیں تو مجھے فالتو باتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آپ پہلے تقلید کی بھول بھلیوں سے نکلئے اور تحقیق کے کھلے میدان میں آئیے پھر بات کیجئے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری ہوں یا شیخ الحدیث عبید اللہ مبارک پوری ہوں یا اور کوئی بڑے سے بڑا عالم محدث، فقیہ ہو اس کی لکھی و کہی ہوئی باتیں اور فتوے کوئی وحی الٰہی نہیں ہیں کہ اس کو بلا چون و چرا مان لینا اور اس پرآنکھ بند کرکے ایمان لانا ہم پر واجب و فرض ہو اور یہ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے جو کہا اور فتویٰ دیا وہ سو فیصدی صحیح ہی ہو۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((
أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ))
((وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ)) (170) ((وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ)) (171) [سورة البقرة]
تو آپ ان آیات کا مصداق نہ بنئے۔ آپ کیا ہیں آپ کا عقیدہ منہج کیا ہے مجھے نہیں معلوم ۔ لیکن بہر حال یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں ہے جو آپ نے اختیار کیا ہوا ہےکہ قرآنی آیات اور احادیث کا انکار کرکے اپنے علماء اور بزرگوں کی اندھی تقلید میں ان کی کہی ہوئی باتوں پر آنکھ بند کرکے ایمان لایا جائے اور اس کو حق اور سچ جان کر اس کی بے جا تائید و حمایت اور مدافعت کی جائے۔
یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث کا فتویٰ خواہ جس کسی نے بھی دیا ہو وہ صریحی طور پر بے بنیاد، غیر اصولی، غیر عادلانہ، غیر منصفانہ ہے اور قرآن و حدیث کے صریحی طور پر خلاف ہے۔
اب اگر آپ جیسے اعلیٰ فہم وفراست کے دعویدار لوگوں کی عقل اور دماغ میں یہ بات نہیں آرہی ہے تو یہ آپ کی اعلیٰ فہم و فراست، عقل اور دماغ کا قصور ہے اس کے لئے کوئی کیا کر سکتا ہے ۔ آپ جس چیز کی طرف ہمیں سمجھانا، لے آنا چاہتے ہیں اور ہم سے زور زبردستی سے منوانا چاہتے ہیں وہ سب لوگوں کی باتیں ہیں اللہ ورسول کلام و فرمان نہیں ہے سب قیاسی اور اٹکل پچو باتیں ہیں جس پر اللہ کی جانب سے نازل کردہ کوئی دلیل نہیں ہے۔
لہذا برائے مہر بانی ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں اور میرے اس بنیادی سوال کا جواب فراہم کریں جو ہم نے اٹھایا ہے:۔

(جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو بیٹے نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟)
*---------------------------------------------*
 
Top