عکسی تصاویر یا فوٹو کی شرعی حیثیت
از قلم: ابو الوفاء طارق عادل خان
سے اقتباس
خلاصہ کلام
اس موضوع سے متعلق ہماری تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ مجسمات جنہیں تماثیل اور تصاویر کہا جاتا ہے مطلقا حرام ہیں جبکہ فوٹو یعنی صورۃ شمسیہ جس کے لیے اردو زبان میں کوئی متبادل لفظ موجود نہیں اسکا حکم مختلف صورتوں میں مختلف ہے اس فوٹو کو ہم عکسی تصاویر سے تعبیر کریں گے۔ پس موجودہ دور کی عکسی تصاویر کو ہم قرآن، اس موضوع سے متعلق تمام احادیث اور عربی لغت کے دقیق مطالعہ کے بعد مندرجہ ذیل تین اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
اولا حرام عکسی تصاویر: اس کی تین قسمیں ہیں۔
1- وہ عکسی تصاویر جو آویزاں کی گئی ہوں خواہ اسکے آویزاں کرنے کا مقصد کچھ بھی ہو مثلا گھروں میں آویزاں کیے جانے والے پورٹریٹ یا کسی قومی یا سیاسی رہنما کی تجارتی مراکز اور دفاتر میں آویزاں کی جانے والی تصاویر وغیرہ۔
2- وہ عکسی تصاویر جو کسی مذہب میں قابل تعظیم ہوں خواہ وہ تصاویر جاندار اجسام کی ہوں یا بے جان کی مثلا صلیب کی تصویر یا کسی مذہبی رہنما کے مزار کی تصویر وغیرہ۔
3- وہ عکسی تصاویر جو کسی ایسے قومی یا مذہبی راہنما کی ہوں جس کی تکریم کی جاتی ہو مثلا کرنسی نوٹ پر طبع شدہ کسی قومی رہنما کی عکسی تصاویر یا کسی انگوٹھی میں نقش کسی مذہبی رہنما کی عکسی تصویر وغیرہ۔
ثانیا مکرو عکسی تصاویر: اس کی تین اقسام ہیں۔
1- وہ عکسی تصاویر جو غیر ذی روح اجسام کی ہوں مگر کسی ایسی جگہ آویزاں ہوں جہاں نماز میں نگاہ پڑتی ہو اور توجہ کو مبذول کرتی ہوں۔
2- وہ عکسی تصاویر جو پامال فرش ہوں ایسی تصاویر اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہیں مگر چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ان سے بھی کراہیت کا اظہار کیا ہے اس لیے مکروہ ہیں۔
3- وہ عکسی تصاویر جو شوقیہ بنائی گئ ہوں اور اتنی چھوٹی ہوں کہ اگر ان کو آویزاں کیا جائے تو دیکھنے والا کچھ فاصلے سے دیکھ کر پہچان نہ سکے کہ یہ تصاویر کس شخص کی ہیں البتہ اسکے باوجود بھی اگر کوئی آویزاں کرے تو مکروہ نہیں بلکہ یہی تصاویر حرام کے درجہ میں داخل ہوجائیں گی۔
ثالثا جائز عکسی تصاویر: اس کی بھی تین قسمیں ہیں۔
1- وہ عکسی تصاویر جو بچوں کے کھلونوں کی صورت میں ہوں جائز ہیں مگر اس وقت تک جب تک کہ ان کو سجاوٹ کے مقصد سے استعمال نہ کیا جائے یعنی کھلونوں کو شوکیس میں سجا دینے سے ان کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔
2- وہ عکسی تصاویر جو کسی معاشی، معاشرتی، سماجی یا دینی ضرورت کے تحت بنوائی گئی ہوں جائز ہیں مگر اس وقت تک جب تک کہ ان کو آویزاں نہ کیا جائے یعنی اگر آویزاں کیا جائے تو ان کا حکم تبدیل ہوجائے گا۔
3- وہ عکسی تصاویر جو غیر ذی روح اجسام کی ہوں ہر صورت اور سائز میں جائز ہیں البتہ کسی ایسی جگہ نہ ہوں جہاں نماز کی حالت میں توجہ مبذول ہوتی ہو ورنہ ان کا حکم بھی تبدیل ہوجائے گا۔
مندرجہ بالا تمام تفصیلات ہم نے نہایت عرق ریزی اور ہر دو جانت یعنی عکسی تصاویر کے مخالفین اور موافقین کے دلائل کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ترتیب دی ہیں جس میں بتقاضہ بشری خطاء و ثواب کا امکان بہرحال باقی رہتا ہے اس لیے ہم اپنی تحقیق کو ہرگز اس دعوے کے ساتھ پیش نہیں کررہے کہ جو کچھ ہم نے لکھا وہ حرف آخر ہے بلکہ اس مسئلہ کے ضمن میں حق اور درست موقف کو عوام الناس کے سامنے لانے کی یہ محض ایک کوشش ہے۔
واللہ اعلم وما علینا الابلاغ۔