کفایت اللہ صاحب جوش کی حالت میں ہوش پر قابونہیں رکھ پاتے۔بات کچھ اورہوتی ہے
وہ دلیل کچھ اورلاتے ہیں۔ویسے بھی کاپی پیسٹ کرناکافی آسان ہواکرتاہے۔
اسی بحث کے ماقبل میں وہ لکھتے ہیں۔
ذیل میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے کچھ فتاوے و اعمال دئے درج کئے جاتے ہیں اس بارے وضاحت کریں کہ احناف نظر میں یہ درست ہیں یا نہیں ؟؟؟اگر درست ہیں تو احناف کے یہاں یہ قابل قبول کیوں نہیں اوردرست نہیں ہیں ؟؟ تو احناف کو یہ حق کہاں سےملا کہ وہ فاروق رضی اللہ عنہ کی تغلیط کریں:
اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہے کہ یہاں پر وہ سوال کررہے ہیں اوردریافت کررہے ہیں کہ ان مسائل میں احناف کی رائے کیاہے۔پھرحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے منسوب اورمنقول یہ مسائل لکھتے لکھتے نہ جانے ا
نہیں کیاہوگیاکہ آخر میں حکم بھی فرمادیاکہ احناف ان مسائل میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے مخالف ہیں۔
عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ان اقوال یا اعمال کو تمام احناف یا جمہور احناف نہیں مانتے اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟؟ بتانے کی زحمت کریں !!
اگروہ اسی طرح کا طرفہ تماشاکرتے رہیں گے کہ شروع موضوع میں سوال کریں اورآخر میں خود جواب دے دیں تواس طرح کی دورنگی اورہفت رنگی تحریر کا کیاجواب دیاجاسکتاہے سوائے اس کے کہ ہم کفایت اللہ صاحب سے گزارش کریں کہ
دورنگی چھوڑدے یک رنگ ہوجا
سراپاسنگ ہویاموم ہوجا
چونکہ انہوں نے آخر میں یہ فیصلہ صادر کردیاہے کہ احناف یاجمہوراحناف ان مسائل کو نہیں مانتے اوراعتبار آخری کلام کا ہوتاہے اس لحاظ سے کچھ عرض ومعروض کرتاہوں۔لیکن اس سے پہلے ذرا احناف اورجمہوراحناف پر کچھ باتیں کرلیتاہوں۔
کہتے ہیں ہرحرف اپنے اندر ایک معنی رکھتاہے۔ہرلفظ جومعنی رکھتاہے اس کو اسی اعتبار سے استعمال کرناچاہئے نہ کہ اپنے معنی پیداکرنے چاہئیں ویسے آج کل کے متجددین فی الاجتہاد سے یہ کچھ بعید بھی نہیں کہ وہ لغت میں بھی اجتہاد کریں۔
کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں
احناف اورجمہوراحناف ان مسائل کو نہیں مانتے ۔
احناف عام ہے اورجمہور احناف خاص ہے۔اگرآپ نے کسی ایک عمومی چیز کی نفی کردی تواس کے اندر اس خصوصی چیز کی بھی نفی ہوگئی۔الگ سے اس کو کلام میں ذکر کرنا "سخن فہمی"کی اچھی دلیل ہے۔
صحابہ کرام سے مختلف مروی آراء میں سے کسی ایک کو اختیار توہردو رمیں علماء وفقہاء نے کیاہے لیکن کیابھی ایساہواہے کہ جس نے کسی صحابی کی رائے اختیار نہ کی ہو اس کی تغلیط کی ہو؟
یہ ہے زیر بحث موضوع ۔لیکن کفایت اللہ صاحب اس موضوع کوچھوڑ کر اپنی آسانی اورقارئین کو مغالطہ میں ڈالنے کیلئے لے آئے ہیں یہ موضوع کہ صحابہ کرام میں سے حضرت عمر کی ان آراء کو احناف نے اختیار نہیں کیا۔جب صحابہ کرام کسی مسئلہ میں مختلف الرائے ہوتے ہیں توہرایک کسی نہ کسی کی رائے کو اپنے فکر ونظرکے لحاظ سے اختیار کرتاہے لیکن دوسری رائے کے قائلین صحابہ کرام کی تغلیط نہیں کرتا۔
جب کہ زیر بحث موضوع میں امام ابن تیمیہ نے ایک موقع پر حضرت عمرفاروق اوردوسرے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تغلیط کی ہے ۔
ویسے کفایت اللہ صاحب کیلئے بہترہوتاکہ وہ حضرت عمرفاروق کا قول پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی کی کسی معتبر کتاب سے وہ مسئلہ بھی نقل کردیتے ۔جس کاان کے خیال میں احناف یاجمہور احناف قائل ہیں۔ ۔یہ نہ ہونے کی وجہ سے بعض مسائل کوانہوں نے احناف یاجمہور احناف کی طرف منسوب کرنے میں صراحتاغلطی کی ہے اوراس غلطی کا منشاء کسی کی تقلید ہے ؟اب کس کی تقلید ہے یہ وہ جانیں۔
(1) ٧: عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ام ولد لونڈی کی خرید وفروخت سے منع کیا۔
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى:275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «بِعْنَا أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ نَهَانَا فَانْتَهَيْنَا»[سنن أبي داود: 2/ 421]۔
احناف بھی اسی کے قائل ہیں۔کسی بھی معتبر فقہ حنفی کتاب میں دیکھ لیں یہی مسئلہ مذکور ملے گا۔
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بَيْعُ أُمِّ الْوَلَدِ بَاطِلٌ فِي قَوْلِ جُمْهُورِ الْفُقَهَاءِ وَكَانَ بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ وَدَاوُد وَمَنْ تَبِعَهُ مِنْ أَصْحَابِ الظَّوَاهِرِ - رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ - يُجَوِّزُونَ بَيْعَهَا(المبسوط للسرخسی7/149)
إذا ولدت الأمة من مولاها فقد صارت أم ولد لا يجوز بيعها(البنایہ شرح الھدایہ6/93)
آپ کو ہرفقہ حنفی کی کتاب میں یہی بات ملے گی کہ ام ولد کی بیع ناجائز ہے اوراگراس کی بیع کسی نے کی تویہ فاسد ہے۔
اس سلسلے میں مشہور حنفی امام ابوسعید البردعی کا تو مشہور ظاہری محدث وفقیہہ داؤد ظاہری سے مناظرہ بھی منقول ہے جس میں انہوں نے داؤد ظاہری کو خاموش کردیا۔
صورت واقعہ یہ ہے کہ امام ابوسعید البردعی حج کے ارادے سے نکلے۔ بغداد وہاں پہنچے۔وہاں وہ ایک دن داؤد ظاہری کی مجلس میں پہنچے۔ داؤد ظاہری اس وقت کسی حنفی سے گفتگو کررہے تھے اوربحث میں اس پر غالب آرہے تھے۔ امام ابوسعید البردعی داؤد ظاہری کے سامنے بیٹھے اوران سے پوچھابیع ام الولد کے بارے میں آپ کا کیانقطہ نظرہے۔انہوں نے کہاجائز ہے۔ابوسعید البردعی نے پوچھااس کی کیادلیل ہے؟داؤد ظاہری نے کہاکہ لونڈی کی بیع اس کے ام الولد ہونے سے قبل بالاتفاق جائز ہے۔اب ام الولد ہونے کے بعد اس کے بیع میں اختلاف ہوگیاچونکہ قبل ازیں بالاجماع اس کی بیع جائز تھی لہذا اس کی بیع باطل قراردینے کیلئے اس طرح کے اجماع کی ضرورت ہوگی۔
امام ابوسعید البردعی نے کہاکہ مسئلہ صورت دوسری ہے۔باندی کے حاملہ ہونے کے بعد اس کی بیع بالاجماع ناجائز ہے لہذاوضع حمل کے بعد اس کی بیع جائز قراردینے کیلئے اسی طرح کے اجماع کی ضرورت ہوگی۔یہ سن کر داؤد ظاہری خاموش ہوگئےاورکہاکہ ہم اس پر غورکریں گے۔
امام ابوسعید البردعی یہ دیکھ کر کہ بغداد میں ظاہریوں کاغلبہ ہے۔وہاں کے باشندوں کو فقہ کی تعلیم دینے کیلئے وہاں ٹھہرگئےاورایک مدت تک وہاں فقہ کی تعلیم دیتے رہے۔ ایک مرتبہ خواب میں دیکھاکہ کوئی قرآن کی آیت پڑھ رہاہے وفاماالزبد فیذھب جفاء واماماینفع الناس فیمکث فی الارض ۔اسی اثناء میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔دورازہ کھولاتوخبرملی کہ داؤد ظاہری کا انتقال ہوگیاہے۔رحمہ اللہ۔
اس کے بعد وہ حج کیلئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اورقرامطہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔رحمہ اللہ ۔
وَكَانَ قدم بغداد حاجا فدخل الجامع ووقف على دَاوُد بْن عَلِيّ صاحب الظاهر وهو يكلم رجلا من أصحاب أَبِي حنيفة، وقد ضعف في يده الحنفي، فجلس فسأله عَنْ بيع أمهات الأولاد فَقَالَ يجوز. فَقَالَ لَهُ لم قلت؟ قَالَ: لأنا أجمعنا على جواز بيعهن قَبْلَ العلوق، فلا نزول عن هذا الإجماع إلا إجماع مثله، فَقَالَ لَهُ: أجمعنا بعد العلوق قَبْلَ وضع الحمل أنه لا يجوز بيعها، فيجب أن نتمسك بهذا الإجماع ولا نزول عَنْهُ إلا بإجماع مثله فأنقطع دَاوُد. قَالَ ننظر فِي هَذَا. وقام أَبُو سَعِيد فعزم على القعود بِبَغْدَادَ والتدريس لما رأى من غلبة أصحاب الظاهر، فلما كَانَ بعد مديدة رأى فِي المنام كَانَ قائلا يَقُولُ لَهُ: فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ
[الرعد 17] فانتبه بدق الباب، وإذا قائل يَقُولُ لَهُ: قد مات دَاوُد بْن عَلِيّ صاحب المذهب، فإن أردت أن تصلى عَلَيْهِ فاحضر. وأقام أَبُو سَعِيد بِبَغْدَادَ سنين كثيرة يدرس، ثم خرج إِلَى الحج فقتل فِي وقعة القرامطة مع الحاج.
(تاریخ بغداد/4/321۔العبر فی خبر من غبر1/474۔الوافی بالوفیات6/207۔الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ1/66)
(2)عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مزارعہ (بٹائی پر کھیت دینا) جائزہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْمُزَارَعَةِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، فَقَالَ: «إِنْ نَظَرْتَ فِي آلِ أَبِي بَكْرٍ، وَآلِ عُمَرَ، وَآلِ عَلِيٍّ وَجَدْتُهُمْ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ»
[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 377]۔
صاحبین کا یہی مسلک ہے اوراسی پر فتویٰ ہے۔
كتاب الْمُزَارعَة
وَهَذَا ثَلَاثَة اشياء،الْمُزَارعَة وَالْمُخَابَرَة وقفيز الطَّحَّان۔أما المخابرة فجائزة بِلَا اخْتِلَاف،وقفيز الطَّحَّان فَاسد بِلَا اخْتِلَاف لما جاءفي الْخَبَر ان رَسُول الله
صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نهى عَن قفيز الطَّحَّان وَعَن عسب التيس،وَأما الْمُزَارعَة فَفِيهَا اخْتِلَاف،قَالَ أَبُو حنيفَة وَالشَّافِعِيّ وَمَالك هِيَ فَاسِدَة وَلَا تجوز،وَجَازَت فِي قَول ابي يُوسُف وَمُحَمّد وابي عبد الله
(النتف فی الفتاوی للسغدی2/547)
لَمْ يَجُزْ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - لِأَنَّهُ لَا يَرَى جَوَازَ الْمُزَارَعَةِ أَصْلًا،وَتَجُوزُ عِنْدَهُمَا
(المبسوط للسرخسی19/134)
(3) عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک ضب حلال ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «ضَبٌّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ دَجَاجَةٍ»[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 125]۔
ضب احناف کے نزدیک بھی حرام نہیں ہے بلکہ انہوں نے اس کے مختلف حلت وحرمت کے آثار کو نظر میں رکھتے ہوئے اوردونوں طرح کی روایتوں میں تطبیق دیتے ہوئے اسے مکروہ قراردیاہے۔
قال: "ويكره أكل الضبع والضب والسلحفاة والزنبور والحشرات كلها" أما الضبع فلما ذكرنا، وأما الضب فلأن النبي عليه الصلاة والسلام "نهى عائشة رضي الله عنها حين سألته عن أكله". وهي حجة على الشافعي في إباحته، والزنبور من المؤذيات. والسلحفاة من خبائث الحشرات ولهذا لا يجب على المحرم بقتله شيء، وإنما تكره الحشرات كلها استدلالا بالضب لأنه منها.
(الھدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی4/352)
(بَاب يكره (أكل) لحم الضَّب)
مُحَمَّد بن الْحسن: عَن الْأسود، عَن عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا: " أَن النَّبِي [صلى الله عَلَيْهِ وَسلم] أهدي لَهُ ضَب فَلم يَأْكُلهُ فَقَامَ عَلَيْهِم سَائل، فَأَرَادَتْ عَائِشَة أَن تعطيه، فَقَالَ رَسُول الله [صلى الله عَلَيْهِ وَسلم] : تعطيه مَا لَا تأكلين ".قَالَ مُحَمَّد: " فَدلَّ ذَلِك على أَن رَسُول الله [صلى الله عَلَيْهِ وَسلم] كرهه لنَفسِهِ وَلغيره ".قَالَ: " فبذلك نَأْخُذ ".
(اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب2/619)
ویسے فقہاء احناف کی ایک رائے اس کی حرمت کی بھی ہے ۔
(4)عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک اپنی بیوی کو’’ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ‘‘ کہنے سے تین طلاقیں پڑجائیں گی۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211)نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: رُفِعَ إِلَى عُمَرَ رَجُلٌ فَارَقَ امْرَأَتَهُ بِتَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ قَالَ: «مَا كُنْتُ لِأَرُدُّهَا عَلَيْهِ أَبَدًا»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 405]۔
یہ احناف کابھی قول ہے لیکن اس کو انہوں نے نیت پر معلق کیاہے۔دیکھئے۔
(قَالَ) - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ فَإِنَّهُ يُسْأَلُ عَنْ نِيَّتِهِ لِأَنَّهُ تَكَلَّمَ بِكَلَامٍ مُبْهَمٍ مُحْتَمِلٍ لِمَعَانٍ وَكَلَامُ الْمُتَكَلِّمِ مَحْمُولٌ عَلَى مُرَادِهِ وَمُرَادُهُ إنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ جِهَتِهِ فَيُسْأَلُ عَنْ نِيَّتِهِ فَإِنْ نَوَى الطَّلَاقَ فَهُوَ طَلَاقٌ لِأَنَّهُ نَوَى مَا يَحْتَمِلُهُ كَلَامُهُ فَإِنَّهُ وَصَفَهَا بِالْحُرْمَةِ عَلَيْهِ وَحُرْمَتُهَا عَلَيْهِ مِنْ مُوجِبَاتِ الطَّلَاقِ ثُمَّ إنْ نَوَى ثَلَاثًا فَهُوَ ثَلَاثٌ لِأَنَّ حُرْمَتَهَا عَلَيْهِ عِنْدَ وُقُوعِ الثَّلَاثِ فَقَدْ نَوَى نَوْعًا مِنْ أَنْوَاعِ الْحُرْمَةِ وَإِنْ نَوَى وَاحِدَةً بَائِنَةً فَهِيَ وَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ لِأَنَّهُ نَوَى الْحُرْمَةَ بِزَوَالِ الْمِلْكِ وَلَا يَحْصُلُ ذَلِكَ إلَّا بِالتَّطْلِيقَةِ الْبَائِنَةِ
(المبسوط للسرخسی6/70)
وَلَا خلاف فِي الْكِنَايَات المنبئة عَن الْبَيْنُونَة وَالْحُرْمَة نَحْو قَوْلك أَنْت بَائِن أَنْت عَليّ حرَام وَنوى الثَّلَاث فَإِنَّهُ يَقع الثَّلَاث وَالْمَسْأَلَة مَعْرُوفَة
(تحفۃ الفقہاء کتاب الطلاق2/176)
وَلَوْ نَوَى فِي شَيْءٍ مِنْ الْكِنَايَاتِ الَّتِي هِيَ بَوَائِنُ أَنْ يَكُونَ ثَلَاثًا مِثْلُ قَوْلِهِ: أَنْتِ بَائِنٌ أَوْ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ يَكُونُ ثَلَاثًا
وَكَذَا قَوْلُهُ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ يَحْتَمِلُ الْحُرْمَةَ الْغَلِيظَةَ وَالْخَفِيفَةَ فَإِذَا نَوَى الثَّلَاثَ فَقَدْ نَوَى إحْدَى نَوْعَيْ الْحُرْمَةِ فَتَصِحُّ نِيَّتُهُ
(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع3/108)
"وإ ذا قال لامرأته أنت علي حرام سئل عن نيته فإن قال أردت الكذب فهو كما قال " لأنه نوى حقيقة كلامه وقيل لا يصدق في القضاء لأنه يمين ظاهرا " وإن قال أردت الطلاق فهي تطليقة بائنة إلا أن ينوي الثلاث
(الھدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی2/260)
یہ کچھ مثالیں میں نے پیش کی ہیں کہ بعض مسائل کواحناف کی جانب منسوب کرنے میں کفایت اللہ صاحب سے غلطی ہوئی ہے۔
اب کچھ مثالیں سند پر زوردینے والے کفایت اللہ صاحب کی کہ اپنے مطلب برآری کیلئے سند کی ان کے نزدیک کوئی ضرورت اوراہمیت نہیں رہ جاتی۔
اعمش مدلس ہیں اورمدلسین میں تیسرے طبقہ کے ہیں۔اس پر ان کا بڑازور رہاہے اس سلسلے میں کچھ ان کے فرمودات ملاحظہ کیجئے۔
پہلی علت:
امام اعمش رحمہ اللہ مدلس ہیں اور روایت عن سے ہیں۔نبیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے لیکن یاد رہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سے رجوع کرلیا ہے کوقنکہ النکت میں آپ نے امام اعمش رحمہ اللہ کو تیسرے طبقہ میں ذکر کا ہے اور تلخیص میں ان کے عنعنہ کی وجہ سے ایک روایت کو ضعیف بھی کہا ہے۔
دکتور عواد الخلف نے صحیحین کے مدلسین پر دو الگ الگ کتاب میں لکھی ہے ان میں دکتور رموصوف نے امام اعمش کے بارے میں یہ تحقیق پیش کی ہے وہ طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں ، دکتور موصوف نے یہ بھی کہا ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے تو یہ ان کا سہہو ہے اور نکت میں انہوں نے درست بات لکھی ہے اوروہی معتبر ہے کوکنکہ نکت کو حافظ ابن حجر نے طبقات کے بعد تصنیف کاہ ہے۔
دکتور مسفر الدمینی نے بھی مدلسین پر ایک مستقل کتاب لکھ رکھی ہے انہوں نے بھی اعمش کو تیسرے طبقہ میں رکھا ہے اور طبقات میں حافظ ابن حجر کی تقسیم کو غلط قرار دیا ہے۔
یہ کفایت اللہ صاحب کی سلیمان بن المہران الاعمش کی تدلیس پر چند تحریریں تھیں جس میں پورے زوروشور سے یہ دعویٰ کیاگیاتھاکہ وہ تیسرے درجہ کے مدلس ہیں اورتیسرے درجہ کے مدلس کی تدلیس قابل قبول نہیں۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ اسی تیسرے درجہ کے مدلس کی بات انہوں نے یہاں پربغیر کسی اعتراض اورردوکد کے پیش کردی ہے "گویامستند ہے میرافرمایاہوا"دیکھئے۔
عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَمَعْمَرٍ،
عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسْدِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «لَا أُوتَى بِمُحَلِّلٍ وَلَا بِمُحَلَّلَةٍ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 265]۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، نا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ،
عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لَا أَجِدُ مُحِلًّا وَلَا مُحَلَّلًا لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُ»[سنن سعيد بن منصور: 2/ 75]۔
ان دونوں مقامات پر شاید اعمش کی تدلیس قابل قبول ہے کیونکہ اپنے موقف میں ہے۔اس سلسلے کی کفایت اللہ صاحب نے تیسری روایت جو پیش کی ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «لَا أُوتِيَ بِمُحَلِّلٍ وَلَا مُحَلَّلٍ لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف ابن أبي شيبة: 7/ 292]۔
کفایت اللہ صاحب نے اس تیسری روایت میں غورکرلیاہوتااورمجالد کے سلسلے میں جو ائمہ کے اقوال مذکور ہیں۔ انہی کو ایک نگاہ دیکھ لیاہوتاتوشاید وہ اس روایت کو پیش نہ کرتے۔
اسی طرح کفایت اللہ صاحب نے قتادہ کے واسطے سے بھی ایک روایت پیش کی ہے جب کہ یہ بات معروف ہے کہ قتادہ مدلس ہیں۔
١٧: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک دس دینار سے کم یعنی ربع دینار یا اس سے زائد کی چوری پرہاتھ کاٹنا درست ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «تُقْطَعُ فِي رُبْعِ دِينَارٍ» وَقَالَتْ عَمْرَةُ: قَطَعَ عُمَرُ فِي أُتْرُجَّةٍ "[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 475]۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ، أنبأ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثنا أَبُو يَعْلَى، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: ثنا شَيْبَانُ، ثنا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَطَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي مِجَنٍّ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ يُسَاوِي؟ قَالَ: خَمْسَةَ دَرَاهِمَ " [السنن الكبرى للبيهقي: 8/ 260]۔
اس میں بھی کفایت اللہ صاحب نے جوکچھ فرمایاہے وہ مدعاعنقاء ہے اپنے عالم تقریر کا۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک
دس دینار سے کم یعنی ربع دینار یا اس سے زائد کی چوری پرہاتھ کاٹنا درست ہے۔
دس دینار سے کم کا مطلب
ربع دینارپہلی مرتبہ دیکھاہےاورشاید اہل عرب کے نزدیک بھی یہ انکشاف ہواکہ ربع دیناردس دینار ہواکرتاہے۔اگربات دوسری ہے یعنی دس دینار غلطی سے لکھاگیااصل لفظ دس درہم ہوناچاہئے تھاویسے اگرکفایت اللہ صاحب دس درہم لکھناچاہتے تھے تویہ بھی غلط تھا کیونکہ دس درہم کبھی ربع دینار نہیں رہاہے۔ ایک دینار کی قیمت دس درہم کے برابر تورہی ہے لیکن ربع دینار کی قیمت دس درہم کے برابر ہو یہ اس دور میں معروف نہیں تھا۔بہرحال انہوں نے کچھ بھی سمجھ کرلکھاہواحناف کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ دس درہم سے کم پر ہاتھ نہیں کاٹاجاتا۔
اس کیلئے دیکھئے۔
ثُمَّ اخْتَلَفُوا فِي مِقْدَارِ النِّصَابِ فَقَالَ عُلَمَاؤُنَا رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى: عَشَرَةُ دَرَاهِمَ أَوْ دِينَارٌ
(المبسوط للسرخسی9/137)
وَمِنْهَا أَن يكون المَال الْمَسْرُوق مُقَدرا عندنَا بِعشْرَة دَرَاهِم
(تحفۃ الفقہاء3/149)
وَلَنَا) مَا رَوَى مُحَمَّدٌ فِي الْكِتَابِ بِإِسْنَادِهِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «أَنَّهُ كَانَ لَا يَقْطَعُ إلَّا فِي ثَمَنِ مِجَنٍّ» ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ يُسَاوِي عَشَرَةَ دَرَاهِمَ، وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا قَطْعَ فِيمَا دُونَ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ» .
وَعَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - عَنْ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَنَّهُ قَالَ: «لَا تُقْطَعُ الْيَدُ إلَّا فِي دِينَارٍ، أَوْ فِي عَشَرَةِ دَرَاهِمَ» ، وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَنَّهُ قَالَ: «لَا يُقْطَعُ السَّارِقُ إلَّا فِي ثَمَنِ الْمِجَنِّ» ، وَكَانَ يُقَوَّمُ يَوْمَئِذٍ بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَعَنْ ابْنِ أُمِّ أَيْمَنَ أَنَّهُ قَالَ «مَا قُطِعَتْ يَدٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إلَّا فِي ثَمَنِ الْمِجَنِّ:» ، وَكَانَ يُسَاوِي يَوْمَئِذٍ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ، وَذَكَرَ مُحَمَّدٌ فِي الْأَصْلِ أَنَّ - سَيِّدَنَا - عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَمَرَ بِقَطْعِ يَدِ سَارِقِ ثَوْبٍ بَلَغَتْ قِيمَتُهُ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ فَمَرَّ بِهِ - سَيِّدُنَا - عُثْمَانُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فَقَالَ: إنَّ هَذَا لَا يُسَاوِي إلَّا ثَمَانِيَةً فَدَرَأَ - سَيِّدُنَا - عُمَرُ الْقَطْعَ عَنْهُ، وَعَنْ - سَيِّدِنَا - عُمَرَ، وَسَيِّدِنَا عُثْمَانَ، وَسَيِّدِنَا عَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - مِثْلُ مَذْهَبِنَا، وَالْأَصْلُ أَنَّ الْإِجْمَاعَ انْعَقَدَ عَلَى وُجُوبِ الْقَطْعِ فِي الْعَشَرَةِ.
(بدائع الصنائع7/77)
یہ کچھ مثالیں پیش کی ہیں میں نے کہ کفایت اللہ صاحب نے کس عجلت میں یہ تحریر تریب دی ہے۔انسان کو چاہئے کہ جوکچھ لکھے اس میں سنجیدگی کوملحوظ رکھے ۔کتابت کی غلطیاں الگ چیز ہیں۔ وہ ہوتی رہتی ہیں لیکن معنی اورمفہوم کی ایسی غلطیاں اورغلط نسبتیں تونہیں ہونی چاہئین۔جس کے تعلق سے لکھ رہے ہیں۔پہلے اس کا موقف اورمذہب تومعلوم کرلین اوریہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ۔ماشاء اللہ کفایت اللہ صاحب مکتبہ الشاملہ کے استعمال سے بھی واقف ہیں اوراس واقفیت کو کام میں لاتے بھی رہتے ہیں جس پر ان کی تحریریں شاہد عدل ہیں۔
اب آخر میں پھر وہی بات دوہراناچاہوں گاکہ صحابہ کرام کے درمیان جب کسی امر اورمسئلہ میں اختلاف ہوتواس کاحق ہرایک کوہے کہ اپنے علم اورفکر ونظرکے اعتبار سے جو پسند ہے اس کو اختیار کرے لیکن یہ قطعامناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کی تغلیط کرے۔کیونکہ بہرحال یہ ادب کے خلاف ہے۔دیکھئے اس سلسلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ۔
نا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا أَبُو مُحَمَّدٍ الْبُسْتِيُّ، عَنْ أَبِي ثَوْرٍ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قُلْتُ لِبِشْرٍ الْمَرِيسِيِّ: " مَا تَقُولُ فِي رَجُلٍ قُتِلَ، وَلَهُ أَوْلِيَاءٌ صِغَارٌ وَكِبَارٌ، هَلْ لِلأَكَابِرِ أَنْ يَقْتُلُوا دُونَ الأَصَاغِرِ؟ فَقَالَ: لا ".فَقُلْتُ لَهُ: فَقَدْ قَتَلَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ابْنَ مُلْجَمٍ، وَلِعَلِيٍّ أَوْلادٌ صِغَارٌ؟ فَقَالَ: أَخْطَأَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ.فَقُلْتُ لَهُ: أَمَا كَانَ جَوَابٌ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا اللَّفِظِ؟ ! قَالَ: وَهَجَرْتُهُ مِنْ يَوْمِئِذٍ ۔
اس کا ترجمہ کردینابہترہے۔
ابوثور کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی کو فرماتے سنا۔میں(امام شافعی رضی اللہ عنہ)نے بشرالمریسی سے کہا۔اس مسئلہ کے بارے میں تم کیاکہتے ہو کہ ایک شخص قتل ہوگیااوراس کے اولیاء میں بڑے اورچھوٹے سبھی ہیں کیابڑوں کو اجازت ہے کہ وہ چھوٹوں سے پوچھے بغیر قاتل کو قتل کردیں۔بشرالمریسی نے کہانہیں!میں نے کہاکہ حسن بن علی بن ابی طالب نے ابن ملجم کو قتل کرادیا جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی موجود تھے۔اس پر بشرالمریسی نے کہاکہ حسن بن علی نے غلطی کی۔میں نے اس سے کہاکہ کیااس سے بہتر الفاظ میں جواب نہیں دیاجاسکتاتھا۔اوراس دن میں سےمیں نے اس کو چھوڑدیا۔
امام شافعی نے ایک شخص کواس بناء پر چھوڑدیاکہ اس نے حضرت حسن بن علی کے بارے میں کہاتھاکہ اخطاء اس نے اس بارے میں غلطی کی۔
صرف کسی بات کا درست اورصواب ہوناہی کافی نہیں ہوتابلکہ انداز کلام اورطرزتخاطب اورالفاظ کے انتخاب میں بھی حسن سلیقہ چاہئے ہوتاہے ورنہ غالب کو تو
شعروں کوانتخاب نے رسواکیاتھااوربہت سے لوگوں کو
"لفظوں کاانتخاب رسوا"کردیتاہے۔اوراندازکلام اگراچھاہوتوغلط بات بھی بسااوقات مخاطب پر گراں نہیں گزرتا۔
کلیم عاجز کہہ گئے ہیں
بات گرچہ بے سلیقہ ہوکلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے
ہمیں بھی یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ اگرچہ ابن تیمیہ کے نزدیک اس مسئلہ میں حضرت عمر سے اجتہادی غلطی واقع ہوئی ہوگی لیکن جن الفاظ میں انہوں نے اظہار خیال کیاوہ مناسب نہیں تھا جس کی بناء پر اس دور کے مشہور حنبلی صوفی نے بھی ان کو تنبیہ کی اورانہوں نے اس پر معذرت کردی ۔بات ختم