کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
۔اشاء اللہ کیازوراستدلال ہے!اللہ کرے ذراکم ہو۔جہاں سے آپ نے یہ سب میرے خیال کے مطابق اخذ کیاہے ۔ ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي. - ملتقى أهل الحديثتلاش کرنے پر مجھے یہ عبارت امام ذہبی کی طرف منسوب ضمیمہ ’’ذیل تاریخ الاسلام ‘‘ میں ملی، اس ذمیمہ کا دوسرا نام ’’ذيل سير النبلاء‘‘ بھی بتلایا گیا ہے ، الفاظ ملاحظہ ہوں:
وكان قوَّالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. ومن خالطه وعرفه؛ قد ينسبني إلى التقصير في وصفه، ومن نابذه وخالفه؛ ينسبني إلى التعالي فيه، وليس الأمر كذلك. مع أنني لا أعتقد فيه العصمة، كلا! فإنه مع سعة علمه، وفرط شجاعته، وسيلان ذهنه، وتعظيمه لحرمات الدين، بشرٌ من البشر، تعتريه حدة في البحث، وغضب وشظف للخصم؛ يزرع له عداوة في النفوس، ونفوراً عنه. وإلا؛ فلو لاطف الخصوم، ورفق بهم، ولزم المجاملة وحسن المكالمة؛ لكان كلمه إجماعاً؛ فإن كبارهم وأئمتهم خاضعون لعلومه وفقهه، معترفون بشفوفه وذكائه، مقرون بندور أخطائه.[ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]
اس کتاب کے ناسخ عبد القادر بن عبد الوهاب بن عبد المؤمن القرشي ہیں،ان کی پیدائش ٨٣٧ھ ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کی وفات ٧٤٨ھ میں ہوئی ہے، لہذا ظاہر ہے کہ ناسخ کو سند پیش کرنی ہوگی ، اورناسخ نے اپنی سند بیان کرتے ہوئے کہا ہے :
بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم صل على أشرف خلقك سيدنا محمد وآله وسلم، أخبرني غير واحد مشافهة وكتابة، عن الإمام الحافظ الكبير شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز رحمة الله تعالى عليه؛ قال: هذا مجلد ملحق " تاريخ الإسلام " شبه الذيل عليه۔
یہ سند کئی لحاظ سے محل نظر ہے :
اولا:
یہ غیر واحد کون ہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، لہذا اس ضمیمہ کی نسبت امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف محل نظر ہے۔
ثانیا:
٢: ناسخ کے مجہول شیوخ اسے امام ذہبی سے نقل کرتے ہیں اور ناسخ کے شیوخ کو امام ذہبی کی معاصرت حاصل نہیں ہے لہذا ناسخ کے شیوخ اور امام ذہبی کے مابین انقطاع ہے اور اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ ناسخ کے شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہے۔
ثانیا:
اس کتاب میں ہے :
ابن السباك عالم بغداد، الإمام تاج الدين علي بن سنجر بن السبالك..... توفي رحمه الله تعالى في سنة خمسين وسبعمائة ببغداد، رحمه الله تعالى وإيانا (ذيل تاريخ الإسلام:ص:494-495)
غورکرنے کی بات ہے کہ امام ذہبی خود ٧٤٨ھ میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کتاب میں لکھ رہے ہیں کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ھ میں ہوئی !!!
واضح رہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ہجری میں ہوئی ہے ، چنانچہ امام تقی الدین الفاسی فرماتے ہیں:
علي بن سنجر بن السباك البغدادي تاج الدين عالم بغداد الحنفي، وسمع من الرشيد بن ابي القاسم من "صحيح البخاري"۔۔۔۔۔توفي سنة خمسين وسبعمائة
[ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد 2/ 193]
سوال یہ ہے کہ جب ابن السماک کی وفات سے دو سال قبل خود امام ذھبی اس دنیا سے چلے گئے تو پھر انہوں نے اپنی موت کے بعد مرنے والے کی تاریخ وفات کیسے لکھ دی؟؟؟؟
حیرت ہے کہ کتاب کے محقق نے بھی اس بارے میں کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے واضح رہے کہ اصل مخطوطہ میں بھی یہی عبارت موجود ہے
معلوم ہوا کہ یہ کتاب امام ذہبی کی ہے ہی نہیں ، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی سے مذکورہ قول نقل کرنے میں اسی کتاب کو ماخذ بنا یا ہے جیسا کہ وہ کتاب کے شروع میں ماخذ کی فہرست دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وتاريخ مصر لشيخ شيوخنا الحافظ قطب الدين الحلبي وذيل سير النبلاء للحافظ شمس الدين الذهبي [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 3]
ایک حصہ کا کلام نقل کرلیااوردوسراحصہ جواس سے زیادہ وقیع اورقابل قدر تھا۔اس کو سرے سے نظرانداز کردیا۔
جوعربی جانتے ہیں وہ عبدالرحمن الفقیہ کی اس تحریر کو غورسے پڑھیں اوربطورخاص کفایت اللہ صاحب اگرانہوں نے جلد بازی میں صرف اپنے مفید مطلب عبارت اخذ کرنے کی روش کی طرح صرف پہلامراسلہ پڑھاہو اوردوسرامراسلہ پڑھنے سے رہ گیاہو توپھر دوبارہ غورکرین اورپڑھ لیں۔
پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کو یہ کشف کہاں سے ہوگیا کہ میں نے مذکوہ بات آپ کے دئے گئے لنک سے اخذ کی ہے ؟
آپ کے ذریعہ دئے گئے لنک پر میرے مذکورہ طویل اقتباس میں سے صرف ایک بات ہے ابن السباک کی تاریخ وفات والی ، اس کے علاوہ بقیہ باتیں تو یہاں موجود نہیں ۔
اور یہ ایک بات صرف ملتقی کے اسی لنک پر نہیں ہیں نیٹ متعدد صفحات پر موجود ہیں مثلا یہ لنک ملاحظہ ہو:
ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي.
اوریہاں عبدالرحمن کے مراسلہ کا نام ونشان نہیں ہے پھر آن جناب نے پورے وثوق سے کیسے کہہ دیا کہ میں نے عبدالرحمن الفقیہ کے مراسلے کو نظرانداز کردیا ؟؟؟
نیز کیا اس دوسرے مراسلہ کا تعلق میرے اشکالات سے ہے ؟؟؟ اس دوسرے مراسلہ کا موضوع ہی الگ ہے اور اس میں اس کے نام پر بحث ہے نہ کہ اس نسخہ کی صحت سے۔
۔ابن السباک کے تذکرہ کو ذیل تاریخ الاسلام کومشتبہ بنانے کیلئے بطور دلیل کافی نہیں ہے۔ حافظ ذہبی نے ابن کثیر،ابن قیم ،اوراپنے کئی دیگر معاصرین کا ذکر کیاہے۔ اس میں توکوئی شک نہیں ہے ابن السباک حافظ ذہبی کے معاصر تھے۔ معاصر کے طورپر انہوں نے ابن السماک کا تذکرہ کیاہو ،بعد میں کسی نے حاشیہ پر ابن السماک کی وفات کی تاریخ بھی لکھ دی ہو اورکتابت کے وقت یاابھی طباعت کے وقت غلطی سے وہ مضمون میں شامل ہوگیاہو۔ایسی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔
ایسی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان غلطیوں کا ثبوت چاہیے ، ہم نے جس غلطی کی نشاندہی کی ہے وہ اصل متن میں نہ کہ حاشیہ پر ؟ کتاب کے محقق نے اس مقام پر کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے، لہٰذا یہ کسی اور کی غلطی ہے اس کا ثبوت چاہئے، نیز جب اس طرح کی خلاف واقعہ بات اصل متن میں درج ہے تو اس بات کی کیا گیارنٹی ہے شیخ الاسلام کے ترجمہ میں اس طرح کی بے بنیاد باتوں کا اضافہ نہ کیا گیا ہو؟؟؟
نیز ہم نے اس نسخہ کی سند پر جو اعتراض کیا ہے موصوف نے اس کا کوئی جواب نہ دیا !!
ناسخ مجہول لوگوں سے یہ نسخہ نقل کررہا ہے ، ان مجہول لوگوں کا تعارف کون پیش کرے گا!!!
واضح رہے کہ ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ کتاب بھی لکھی ہے لیکن ہمارے پیش نظر جو نسخہ ہے وہ مصدقہ نہیں ہے ، لہٰذا اس کی شاذ عبارتوں سے استدلال درست نہیں ہے۔
۔اس کی سب سے واضح مثال یہ ہے کہ جب میزان الاعتدال حیدرآباد دکن سے چھپی تھی تواس وقت کتاب کے محقق نے یہ صراحت کی تھی کہ مجھے میزان الاعتدال کے نسخوں میں امام ابوحنیفہ کاذکر نہیں ملا ایک نسخہ میں اصل کتاب سے باہر حاشیہ میں لکھاہے
جمشید صاحب !
آپ صریح جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ ’’ایک نسخہ میں اصل کتاب سے باہر حاشیہ میں لکھاہے‘‘۔ محقق نے ایسی کوئی صراحت نہیں کی تھی بلکہ اس کی صراحت یہ تھی کہ:
’’ لما لم تکن هذه الترجمة في نسخة وکانت في أخري أوردتها علي الحاشية‘‘ (بحوالہ تحقیق الکلام : ص ١٤٤)۔
یعنی چونکہ یہ ترجمہ ایک نسخہ میں نہیں تھا اور دوسرے نسخہ میں تھا اس لئے میں نے اسے حاشیہ پر رکھ دیا ہے۔
غورکریں محقق نے جمشید صاحب کی طرح یہ نہیں کہا ہے کہ یہ ترجمہ دوسرے نسخہ کے حاشیہ پر تھا بلکہ محقق نے یہ کہا ہے کہ یہ ترجمہ دوسرے نسخہ میں تھا لیکن اس محقق نے ہی اسے حاشیہ پر ڈال دیا۔
اوریہ احناف کی کوئی نئی حرکت نہیں ہے بلکہ یہی تو ان کا عام طور سے معمول ہے کہ جس عبارت کو اصل کتاب سے غائب کرنا ہوتا ہے سب سے پہلے اسے متن سے نکال کرحاشہ پر لاتے ہیں اور پھر ایک دو طباعت کے بعد اسے حاشیہ سے بھی غائب کردیتے ہیں ۔
۔چنانچہ حیدرآباد دکن سے شائع ہونے والے میزان الاعتدال میں حاشیہ پر ہی امام ابوحنیفہ کاتذکرہ لکھاگیا۔جب یہی کتاب کاپی کرکے مصر سے شائع ہوئی تواس کے محققین نے بغیرکسی وضاحت کے امام ابوحنیفہ کے تذکرہ کو نفس کتاب میں شامل کردیا۔
مصر سے شائع ہونے والے نسخہ کے محققین نے ایک نیک کام کیا ہے اس پر ثواب عظیم کی امید ہے ، کیونکہ پہلے یہ ترجمہ اصل متن میں تھا متعصب احناف نے اسے حاشیہ پر ڈال کے اس ترجمہ کے ساتھ ظلم کیا ہے ، اور پھر اللہ نے کسی کو یہ سعادت بخشی کی وہ اس ترجمہ کو اس کے اصل جگہ پر واپس لائے ، جزاہ اللہ خیرا والحمدللہ۔
۔میزان الاعتدال کے تعلق سے مزید معلومات کیلئے اسے پڑھئے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذ کرہ - URDU MAJLIS FORUM
یاپھر یہ پڑھئے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ
مذکورہ لنک پرجواب بھی دیا جاچکا ہے ، نیز آپ بھی یہ لنک ملاحظہ فرمائیں:
حقائق حول طبعة الرسالة العالمية لـ " ميزان الاعتدال "
جاری ہے ۔۔۔۔