414 مراسلات کے باوجود آپ کا رویہ قابل افسوس ھے.عمر اثری صاحب نے کہا کہ؛
بہتر ھوگا کہ اس تھریڈ کو ھی مقفل کر دیا جاۓ.
محترم! اس کی وجہ؟ اور یہ ڈیمانڈ ۔۔۔ آپ ۔۔۔کیوں کر رہے ہیں؟
یہ تھرید آپ کا شروع کردہ نہیں۔ شکریہ
اچھی طرح یاد ھے. لیکن ھٹ دھرمی دکھانے کے لۓ نہیں کہا تھاایک دوسرے تھریڈ میں آپ نے خود ہی کہا تھا کہ اسی تھریڈ میں جواب دیں۔ کچھ یاد ہے کہ بھول گئے ۔۔۔ ابتسامہ!
تو کس لئے کہا تھا؟اچھی طرح یاد ھے. لیکن ھٹ دھرمی دکھانے کے لۓ نہیں کہا تھا
کیفیت کا ابہام اس بات پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔ نماز میں ہاتھ جس کیفیت کے ساتھ بھی اٹھائے جائیں وہ منع ہوگئے۔ خواہ وہ دعاء کی کیفیت میں ہوں یا رفع الیدین کی دوسری مختلف کیفیات کی حامل، بہر حال وہ منع ہوگئیں۔ اب اس کے جواز کی کوئی صورت نہ رہی۔دوسری دلیل:
رفع الیدین (ہاتھ اٹھانے) کی کیفیت مبہم ہے۔
اورہاتھ اٹھا نا کئی طرح کا ہوتا ہے، مثلا:
الف: دعاء کے لئے رفع الیدین یعنی ہاتھ اٹھانا، چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:
وَقَالَ أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ: «دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ» وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ» صحيح البخاري ( 8/ 74)
نیزصحیح بخاری حدیث نمبر4323 کے تحت ایک ایک روایت کا ٹکڑا ہے:
فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ
(صحيح البخاري 5/ 156 رقم 4323 )
ب: سلام کے لئے ہاتھ اٹھانا ، امام طبرانی فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ ور السَّلَامُ عَلَيْکُمْاورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔
یہ کس " حکیم " کے فارمولے سے ثابت ہوا کہ "ابتدائے اسلام میں رفع یدین یوں تھا "ابتداء اسلام میں نماز میں صرف چار جگہ ہی نہیں بلکہ ہر اونچ نیچ پر رفع الیدین کی جاتی تھی۔
مسند أحمد: بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ: مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ مِنْ الصَّلَاةِ
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے۔
زبردست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نماز میں ہاتھ جس کیفیت کے ساتھ بھی اٹھائے جائیں وہ منع ہوگئے۔
آپ نے جو حدیث المعجم الكبير للطبراني سے پیش کی ہے وہ صحیح مسلم کی حدیث کی تفسیر کیوں کر ہے جب کہ دونوں کا موقع محل الگ الگ ہے؟ صحیح مسلم کی زیرِ بحث حدیث میں صحابہ کرام انفراداً نماز پڑھ رہے تھے اور اس میں رفع الیدین کرتے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا۔ آپ نے جو تفسیر کے لئے روایت پیش کی وہ الگ موقع محل کی ہے۔ اس مذعومہ تفسیری روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں باجماعت نماز پڑھ رہے تھے نہ کہ انفراداً۔تیسری دلیل:
قران قران کی تفسیر ہے اسی طرح حدیث حدیث کی تفسیرہے ۔
اورصحیح مسلم کی زیربحث راویت کی تشریح درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہے کہ اس کا تعلق بوقت سلام والے رفع الیدین سے ہے:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ ور السَّلَامُ عَلَيْکُمْاورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔
تنبیہ بلیغ:
یہی حدیث صحیح مسلم میں اسی سند متن کے ساتھ ہیں لیکن اس میں ’’مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کی جگہ ’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورجب ہم زیربحث روایت کی تشریح میں مسلم کی اس دوسری روایت کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو صحیح مسلم ہی میں اس دوسری حدیث کی تشریح موجود ہے کہ اس سے مراد بوقت سلام والا رفع الیدین ہے۔
تو حنفی حضرات چیخنے لگتے ہیں کہ نہیں مسلم کی اس اگلی حدیث میں تو’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورپہلی حدیث میں ’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ ہیں، یہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ پہلی روایت میں رفع الیدین کی بات ہے اوردوسری روایت میں اشارہ کی بات ہے۔
اسی لئے ہم نے مسلم والی دوسری حدیث کے الفاظ نہ نقل کرکے طبرانی کے الفاظ نقل کئے ہیں جسم میں رفع الیدین(يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ ) کی صراحت ہے اوریہ روایت بعینہ اس سند متن سے ہے جو مسلم میں آگے موجودہے۔
اورطبرانی کی یہ روایت اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ مسلم کی اگلی روایت میں ’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کے الفاظ اورپہلی روایت میں’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ میںکوئی فرق نہیں ہے۔
طبرانی کی اس روایت اورمسلم میں اگلی والی روایت دونوں کی سند یکساں ہے:
مسلم کی اگلی والی روایت کی سند یہ ہے:
وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا۔۔۔۔۔۔۔الخ
اورطبرانی والی روایت کی سند یہ ہے:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا ۔۔۔۔۔الخ
نہیں ۔۔ہر گز نہیںبہتر ھوگا کہ اس تھریڈ کو ھی مقفل کر دیا جاۓ.