• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا صحیح مسلم میں مسنون رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
یہ کس " حکیم " کے فارمولے سے ثابت ہوا کہ "ابتدائے اسلام میں رفع یدین یوں تھا "
آپ نے صرف اس کا حوالہ دینا ہے،
محترم! میں آپ کی بات سمجھ نہیں پایا ذرا وضاحت فرما دیں۔ شکریہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ابتداء اسلام میں نماز میں صرف چار جگہ ہی نہیں بلکہ ہر اونچ نیچ پر رفع الیدین کی جاتی تھی۔
مسند أحمد: بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ: مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ مِنْ الصَّلَاةِ
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے۔
یہ بے بنیاد ،کھوکھلا دعویٰ ہے ،کہ :
"ابتداء اسلام میں نماز میں صرف چار جگہ ہی نہیں بلکہ ہر اونچ نیچ پر رفع الیدین کی جاتی تھی۔
اس روایت سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ نماز میں رفع یدین ابتدائے اسلام میں تھا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری بات یہ کہ مسند میں سیدنا جابر سے یہ روایت بھی ضعیف ہے ،
مسند میں اس کی سند یوں ہے :حدثنا نصر بن باب، عن حجاج، عن الذيال بن حرملة، قال: سألت جابر بن عبد الله الأنصاري،
اس کا پہلا روای نصر بن باب جھوٹا ہے ،
میزان الاعتدال میں علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں :
قال البخاري، يرمونه بالكذب ، وقال ابن معين: ليس حديثه بشئ ، وقال ابن حبان: لا يحتج به )
اور دوسرا راوی حجاج بن ارطاۃ مدلس ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری بات یہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے بعد بھی عند الرکوع و عند الرفع منہ رفع یدین کرتے تھے ،
سنن ابن ماجہ میں بسند صحیح موجود ہے کہ ابو الزبیر تابعی فرماتے ہیں :
عن أبي الزبير، أن جابر بن عبد الله، " كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع فعل مثل ذلك، ويقول: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل ذلك "
کہابو الزبیر تابعیؒ فرماتے ہیں :کہ جناب جابر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع جاتے ،اور اسی طرح جب رکوع سے اٹھتے تو رفع یدین کرتے "
اور فرماتے تھے کہ :میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح رفع یدین کرتے دیکھا ہے "
اس کی تعلیق میں محمد فؤاد عبد الباقي فرماتے ہیں ( في الزوائد رجاله ثقات) کہ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس کی سند صحیح ہے ؛
اس لئے مسند احمد کی سیدنا جابر والی روایت سے جو کہ سنداً صحیح بھی نہیں اس سے "ابتدائے اسلام " کشید کرنا محض مقلدانہ زبر دستی ہے ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحیح مسلم کی حدیث میں نماز میں رفع الیدین کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ نماز میں جو بھی رفع الیدین ہو وہی اس سے مراد ہیں۔
صحیح مسلم کی اس حدیث سے اگر نماز میں ہر طرح کی رفع یدین منع ہوگئی ، تو مقلدین حنفیہ
نماز وتر کے قنوت میں ہاتھ اٹھا کر کیوں شریر گھوڑے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ؟
اور اس طرح نماز عیدین کی تکبیرات زوائد میں اپنے ہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دم بنالیتے ہیں ؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس لئے مسند احمد کی سیدنا جابر والی روایت سے جو کہ سنداً صحیح بھی نہیں اس سے "ابتدائے اسلام " کشید کرنا محض مقلدانہ زبر دستی ہے ،
مسند أحمد: مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْبَخْتَرِيِّ الطَّائِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْيَحْصُبِيِّ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ

صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ يُكَبِّرُ إِذَا خَفَضَ وَإِذَا رَفَعَ وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ وَيُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ
وائل بن حجر الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے جب جھکتے اور اٹھتے اور ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے اور دائیں اور بائیں سلام پھیرتے تھے۔

مسند أحمد: مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنِ الْمَسْعُودِيِّ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ حَدَّثَنِي أَهْلُ بَيْتِي عَنْ أَبِي أَنَّهُ
رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ التَّكْبِيرَةِ وَيَضَعُ يَمِينَهُ عَلَى يَسَارِهِ فِي الصَّلَاةِ
وائل بن حجر الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے ہوئے رفع الیدین کرتے تھے اور سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر باندھتے تھے۔

مسند أحمد: مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْيَحْصُبِيِّ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيِّ قَالَ
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ التَّكْبِيرِ
وائل بن حجر الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے ہوئے رفع الیدین کرتے تھے۔

مسند الحميدي - (ج 1 / ص 480)مسند عبد اللہ بن عمر
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَاقِدٍ يُحَدِّثُ عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا أَبْصَرَ رَجُلاً يُصَلِّى لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ حَصَبَهُ حَتَّى يَرْفَعَ يَدَيْهِ.

بے شک عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب کسی شخص کو دیکھتے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کو کنکر مارتے۔

ان تمام مذکورہ احادیث سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرناثابت ہے۔ اب اس کا زمانہ (ابتداء، درمیان یا آخری) آپ خود ہی متعین فرما لیجئےگا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
صحیح مسلم کی اس حدیث سے اگر نماز میں ہر طرح کی رفع یدین منع ہوگئی ، تو مقلدین حنفیہ
نماز وتر کے قنوت میں ہاتھ اٹھا کر کیوں شریر گھوڑے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ؟
اور اس طرح نماز عیدین کی تکبیرات زوائد میں اپنے ہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دم بنالیتے ہیں ؟
صحابہ کرام اس وقت نہ تو وتر پڑھ رہے تھے اور نہ ہی عیدین کی نماز۔ یا تو اس کا ثبوت فراہم کریں کہ وہ صلاۃ الوتر یا عیدین کی نماز پڑھ رہے تھے یا پھر صحیح مسلم کی مذکورہ ممانعت میں ان کو بھی شامل کرنے کے لئے کوئی ضابطہ درکار ہے۔
کیا آپ کو وتر کی اور عیدین کی رفع الیدین سے اختلاف ہے؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
چوتھی دلیل :
الفاظ حدیث ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کی دلالت:

اس حدیث میں جس رفع الیدین کا ذکرہے اسے سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے ، اوریہ مسنون رفع الیدین سے ایک الگ شکل ہے کیونکہ اس صورت میں ہاتھ دائیں بائیں ہلے گا جساکہ درج ذیل حدیث اس کی دلیل ہے:
عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ ور السَّلَامُ عَلَيْکُمْاورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔
اس حدیث‌ میں غورکریں یہاں یہ بات مسلم ہے کہ اس میں بوقت سلام والے رفع الیدین کا تذکرہ ہے ، اورہاتھ کو دائیں بائیں اٹھانے کی بھی صراحت ہے ، اوریہاں اس صورت کو ’’كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کہا گیا ہے۔
اس سے ثابت ہواکہ ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کی صورت جس رفع الیدین میں پائے جاتی ہے اس کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حدیث میں بھی لفظ ’ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ ‘ ہے اور ترجمہ بھی آپ نے ’ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں ‘ کیا ہے۔ یہ صورت کس رفع الیدین میں پائی جاتی جسے غیر مسنون کہا جائے؟
صحابہ جو عمل کر رہے تھے وہ مسنون تھا یا کہ بدعی؟
دلائل سے واضح کریں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
کن دلائل فقہی سے موافقت کر لینگے آپ ، امام شافعی رحمہ اللہ یا کہ امام احمد رحمہ اللہ ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا آپ کو وتر کی اور عیدین کی رفع الیدین سے اختلاف ہے؟
یہاں بات میرے اختلاف کی نہیں ،بلکہ حنفیہ کی مسلک کی ہے ،جس کی ترجمانی اس وقت ماشاء اللہ آپ
بیک ڈور چینل "کے سہارے انجام دے رہے ہیں ؛
آپ نے بقلم خود کئی پوسٹوں میں اس بات کو لکھا ہے کہ نماز میں رفع یدین کرنا " شریر گھوڑوں کی دموں "
کے مشابہ ہے ، اور ابھی اسی تھریڈ میں لکھا کہ :
صحیح مسلم کی حدیث میں نماز میں رفع الیدین کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ نماز میں جو بھی رفع الیدین ہو وہی اس سے مراد ہیں۔
تو بات صاف ہوگئی کہ :
نماز وتر کے قنوت والا رفع یدین ۔۔اور ۔۔نماز عیدین کی تکبیرات زوائد میں رفع یدین شریر گھوڑوں کی دُموں کی طرح ہے ، جو حنفیہ صدیوں سے بڑے اہتمام کیساتھ عبادت سمجھ کر رہے ہیں ،
اور اس طرح ثابت ہوگیا کہ حنفیہ میں صدیوں سے اس حدیث جابر بن سمرہ کو سمجھنے والا کوئی فقیہ عالمِ وجود میں نہیں آیا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
مسند أحمد: مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْبَخْتَرِيِّ الطَّائِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْيَحْصُبِيِّ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ

صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ يُكَبِّرُ إِذَا خَفَضَ وَإِذَا رَفَعَ وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ وَيُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ
وائل بن حجر الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے جب جھکتے اور اٹھتے اور ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے اور دائیں اور بائیں سلام پھیرتے تھے۔

مسند أحمد: مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنِ الْمَسْعُودِيِّ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ حَدَّثَنِي أَهْلُ بَيْتِي عَنْ أَبِي أَنَّهُ
رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ التَّكْبِيرَةِ وَيَضَعُ يَمِينَهُ عَلَى يَسَارِهِ فِي الصَّلَاةِ
وائل بن حجر الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے ہوئے رفع الیدین کرتے تھے اور سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر باندھتے تھے۔

مسند أحمد: مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْيَحْصُبِيِّ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيِّ قَالَ
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ التَّكْبِيرِ
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی ان روایات میں موجود رفع الیدین کا محل اور مقام خود اسی مسند اور دیگر کتب میں موجود ان کی دوسری روایات کر رہیں کہ یہ نماز کے شروع ،اور رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کا رفع یدین تھا
جسے عبد الرحمن تقلیدی صاحب شریر گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے ؛
مسند احمدؒ میں ان کی واضح حدیث ہے :
عن وائل بن حجر الحضرمي قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: لأنظرن كيف يصلي، قال: " فاستقبل القبلة، فكبر، ورفع يديه حتى كانتا حذو منكبيه "، قال: " ثم أخذ شماله بيمينه "، قال: " فلما أراد أن يركع رفع يديه حتى كانتا حذو منكبيه، فلما ركع وضع يديه على ركبتيه، فلما رفع رأسه من الركوع رفع يديه حتى كانتا حذو منكبيه، فلما سجد وضع يديه من وجهه، بذلك الموضع،

ترجمہ :سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (اپنے ملک یمن سے مدینہ منورہ ) جناب نبی کریم ﷺ کی خدمت اس لئے حاضر ہوا کہ دیکھوں آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں ، تو میں نے دیکھا کہ آپ نماز کیلئے قبلہ رخ ہوئے ،
اور تکبیر کہی ،اور اپنے دونوں مبارک ہاتھ کندھوں تک اٹھائے ، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیا ، اور جب رکوع کا ارادہ کیا تو پھر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے،اور رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے ،اور جب رکوع سے سر مبارک اٹھایا تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے "))

اس اتنے محدثین نے نقل کیا ہے جن کا شمار نہیں ۔۔۔اس کی تخریج میں ایک حنفی عالم لکھتے ہیں :

إسناده صحيح، رجاله ثقات. عبد الواحد: هو ابن زياد العبدي.
وأخرجه البيهقي 2/72 من طريق مسدد، و2/111 من طريق صالح بن عبد الله الترمذي، كلاهما عن عبد الواحد، بهذا الإسناد.
وأخرجه الشافعي في "مسنده" 1/73 (بترتيب السندي) - ومن طريقه البيهقي 2/24- والحميدي (885) - ومن طريقه الطبراني 22/ (85) - والنسائي 2/236 و3/34-35، والدارقطني 1/290
وأخرجه مقطعا ابن أبي شيبة 1/244 و284 و390 و2/485-486، والبخاري في "رفع اليدين" (72) ، والترمذي (292) ، وابن ماجه (810) و (912) ، وابن خزيمة (690) و (713) ، والطبراني 22/ (79) و (89) و (92) و (94) من طرق عن عاصم، به. قال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح.
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top