سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی ان روایات میں موجود رفع الیدین کا محل اور مقام خود اسی مسند اور دیگر کتب میں موجود ان کی دوسری روایات کر رہیں کہ یہ نماز کے شروع ،اور رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کا رفع یدین تھا
جسے عبد الرحمن تقلیدی صاحب شریر گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے ؛
مسند احمدؒ میں ان کی واضح حدیث ہے :
عن وائل بن حجر الحضرمي قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: لأنظرن كيف يصلي، قال: " فاستقبل القبلة، فكبر، ورفع يديه حتى كانتا حذو منكبيه "، قال: " ثم أخذ شماله بيمينه "، قال: " فلما أراد أن يركع رفع يديه حتى كانتا حذو منكبيه، فلما ركع وضع يديه على ركبتيه، فلما رفع رأسه من الركوع رفع يديه حتى كانتا حذو منكبيه، فلما سجد وضع يديه من وجهه، بذلك الموضع،
ترجمہ :سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (اپنے ملک یمن سے مدینہ منورہ ) جناب نبی کریم ﷺ کی خدمت اس لئے حاضر ہوا کہ دیکھوں آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں ، تو میں نے دیکھا کہ آپ نماز کیلئے قبلہ رخ ہوئے ،
اور تکبیر کہی ،اور اپنے دونوں مبارک ہاتھ کندھوں تک اٹھائے ، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیا ، اور جب رکوع کا ارادہ کیا تو پھر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے،اور رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے ،اور جب رکوع سے سر مبارک اٹھایا تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے "))
اس اتنے محدثین نے نقل کیا ہے جن کا شمار نہیں ۔۔۔اس کی تخریج میں ایک حنفی عالم لکھتے ہیں :
إسناده صحيح، رجاله ثقات. عبد الواحد: هو ابن زياد العبدي.
وأخرجه البيهقي 2/72 من طريق مسدد، و2/111 من طريق صالح بن عبد الله الترمذي، كلاهما عن عبد الواحد، بهذا الإسناد.
وأخرجه الشافعي في "مسنده" 1/73 (بترتيب السندي) - ومن طريقه البيهقي 2/24- والحميدي (885) - ومن طريقه الطبراني 22/ (85) - والنسائي 2/236 و3/34-35، والدارقطني 1/290
وأخرجه مقطعا ابن أبي شيبة 1/244 و284 و390 و2/485-486، والبخاري في "رفع اليدين" (72) ، والترمذي (292) ، وابن ماجه (810) و (912) ، وابن خزيمة (690) و (713) ، والطبراني 22/ (79) و (89) و (92) و (94) من طرق عن عاصم، به. قال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح.