آپ نے پیارے نبی ﷺ کی سنت رفع الیدین کو شریر گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دینے کیلئے درجنوں پوسٹیں لگادیں،
اور خیر سے آپ کو یہ بھی نہیں پتا کہ:
سید المحدثین جناب امام بخاری ؒ نے یہ حدیث کہیں نقل فرمائی ہے۔۔یا۔۔نہیں ،
اور ان کا اس بارے کیا موقف ہے ،
لیکن آپ کا بھی قصور نہیں ۔۔۔دراصل اوکاڑوی بس میں سوار مقلدین کو بخاری اور صحیح بخاری سے کچھ زیادہ ہی پرہیز ہے ،
خیر آپ کی پسند ، اور مرضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دیگر قارئین کیلئے سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق جناب امام بخاریؒ کی توضیح و بیان نقل کرتے ہیں :
امام بخاری رحمہ اللہ " قرة العينين برفع اليدين في الصلاة " میں اس حدیث کو بالاسناد نقل کرکے فرماتے ہیں :
قال البخاري: وأما احتجاج بعض من لا يعلم بحديث وكيع عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن تميم بن طرفة عن جابر بن سمرة قال: دخل علينا النبي صلى الله عليه وسلم , ونحن رافعي أيدينا في الصلاة فقال:
«ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا في الصلاة،
فإنما كان هذا في التشهد لا في القيام» كان يسلم بعضهم على بعض فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن رفع الأيدي في التشهد , ولا يحتج بمثل هذا من له حظ من العلم، هذا معروف مشهور لا اختلاف فيه , ولو كان كما ذهب إليه لكان رفع الأيدي في أول التكبيرة , وأيضا تكبيرات صلاة العيد منهيا عنها؛ لأنه لم يستثن رفعا دون رفع "
یعنی "جہاں تک علم حدیث سے محروم کچھ لوگوں کا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرنا
جس میں ہے کہ :
جابر بن سمرہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم نماز میں اپنے ہاتھ اٹھا رہے تھے ،تو فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں گویا کہ سرکش گھوڑوں کی ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو "
بخاری ؒ فرماتے ہیں : یہ عمل ( نماز کے آخری قعدہ کے ) تشہد میں تھا ،کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کررہے تھے ،
تو اس واقعہ کے حکم سے (رکوع والے رفع یدین کے خلاف ) کوئی اہل علم دلیل نہیں لیتا ،
یہ معروف و مشہور بات ہے (کہ یہ واقعہ سلام والے تشہد کے وقت سے متعلق ہے ) اس میں کوئی اختلاف نہیں ،
اور اگر واقعی ایسا ہوتا ،جیسا کہ علم حدیث سے تہی دامن کچھ لوگوں کا استدلال ہے تو نماز کی افتتاحی تکبیر کے ساتھ رفع الیدین ،اور عیدین کی نمازوں میں (تکبیرات زوائد ) میں رفع الیدین بھی منع ہوتی "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ نے دیکھا امام بخاریؒ نے اس حدیث کو باقاعدہ اس کی سند کے ساتھ نقل فرماکر
وضاحت فرمائی کہ اس کا رکوع والے مسنون رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں ، یہ نماز کے سلام کے وقت دائیں ،بائیں موجود نمازیوں کو ہاتھوں کے اشارے سے سلام کرنے کے بارے میں ہے ،
اور ساتھ ہی فرمایا کہ اس حدیث سے رکوع جانے ،اور رکوع سے اٹھنے کے وقت والے رفع الیدین کی ممانعت کیلئے استدلال کرنے والا ،علم حدیث سے محروم ہے ،،
اس لئے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کرنے والو :
اس سنت کو بڑی محبت اور اہتمام سے اپناؤ ۔۔اور دوسرں تک بھی پہنچاؤ ۔