الباکستانی
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 06، 2013
- پیغامات
- 44
- ری ایکشن اسکور
- 47
- پوائنٹ
- 20
اپنی اپنی رائے اور اس کی وجوھات سے آگاہ فرمائیں-
لیکن مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ اورصحافہ واسلاف کے فتاوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے سائل کو صرف جواب دیا اورسائل نے دلیل کی تحقیق نہیں کی نہ پوچھ گچھ کی۔ اس سے کیانیتجہ اخذ کیاجائے۔لیکن اختلافی مسائل میں پوچھ گوچھ ، چھان بین اور تحقیق کرنی چاہیے۔ جیسا کہ '' فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون'' سے بھی ثابت ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حتی الوسع پوچھ گوچھ ہوگی۔ کیونکہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا بھی درس اسلام ہے۔
یہ بات واضح طور پر بہت کم بولی جاتی ہے- مگر طرز عمل کے اعتبار سے بےحد عام ہے-اختلافی مسائل میں پوچھ گوچھ ، چھان بین اور تحقیق کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی استطاعت کے مطابق کوئی بھی کسی اختلافی مسئلہ میں تحقیق کرتا ہے۔ اس کے بعد بھی وہ ایسے مسئلہ پر تاحیات عمل کرتا رہتا ہے۔ جو اصل دین نہیں ہوتا، تو (واللہ اعلم) رب تعالیٰ اس سے در گزر فرما دیں گے۔ ان شاءاللہ
لیکن جب صورت حال اس کے مخالف ہوگی، تو ضرور رب کبریا کی دربار میں پوچھ گوچھ ہوگی۔ اور سزا وجزا کا بھی حساب ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم
ہم سب خود کو سلف کی طرف منسوب کرتے ہیں- ان کی راہ پر چلنے کے لازمی ہونے کے قائل ہیں- کیا سلف کی تفاسیر یا طرز عمل سے ہمیں عوام پر تحقیق لازم ہونے کا پتہ چلتا ہے-جیسا کہ '' فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون'' سے بھی ثابت ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حتی الوسع پوچھ گوچھ ہوگی۔ کیونکہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا بھی درس اسلام ہے۔
اس سوال کے جواب کی مجھے بھی تلاش ہے۔ دیکھیںہم سب خود کو سلف کی طرف منسوب کرتے ہیں- ان کی راہ پر چلنے کے لازمی ہونے کے قائل ہیں- کیا سلف کی تفاسیر یا طرز عمل سے ہمیں عوام پر تحقیق لازم ہونے کا پتہ چلتا ہے-
اسی دور سے ہی دلیل کی تحقیق کی مثالیں بھی اگر دے دی جائیں تو؟لیکن مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ اورصحافہ واسلاف کے فتاوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے سائل کو صرف جواب دیا اورسائل نے دلیل کی تحقیق نہیں کی نہ پوچھ گچھ کی۔ اس سے کیانیتجہ اخذ کیاجائے۔
یہ سوال مجھے ہمیشہ یہ بات یاد دلاتا ہے کہ اگر عامی تحقیق کے بجائے علماء کی بات پر اعتماد کرے، تو اگر یہ عامی ہندو ہے، تو کبھی مسلمان نہ ہوگا۔ اگر یہ عامی شیعہ یا بریلوی ہے تو کبھی شرک کی نجاست سے نجات نہ پائے گا۔ اگر یہ عامی دیوبندی ہے تو گمراہ کن عقائد سے کبھی خود کو نہ بچا پائے گا۔ عامی دیوبندی کو چھوڑ دیجئے، کیونکہ آپ کا اس سے متفق ہونا ممکن نہیں، لیکن کہئے باقی جو عامی ہیں، ان کے بارے میں یہ بات درست ہے یا نہیں؟یہ بھی سوال ہے کہ اگرایک عامی تحقیق نہیں کرتاہے ۔علماء کی بات پر اعتماد کرتاہے تو اس کایہ عمل درست ہے یاغلط ہے۔
اصل میں سوال ہی کو غلط سمجھاگیاہے۔ کتنے لوگوں نے تحقیق کے بعد اسلام قبول کیاہے۔ایسے افراد جنہوں نے تمام مذاہب کو پڑھنے کے بعد اسلام قبول کیاہے بہت کم ہیں ۔بیشتر افراد ہیں جنہوں نے اسلام کی کسی خوبی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیااوراس خوبی میں تحقیق سے زیادہ رنگ تاثر کاہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بھی اپنے ملفوظات میں ایک بار کہاتھاکہ لوگوں میں دعوت اسلام کیلئے دماغ سے زیادہ دل کومتاثر کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ دماغ ہربات کی کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کرلیتاہے بقول اقبال عقل عیار ہے سوبھیس بنالیتی ہے لیکن دل اگرمتاثر ہوگیاتو پھر وہ منواکر ہی دم لیتاہے۔قبول اسلام کے واقعات پڑھنے سے بھی اسی تاثر کی تائید ہوتی ہے ایسے افراد جنہوں نے تمام مذاہب کی تحقیق کے بعداسلام قبول کیاخال خال ہیں۔ اوردورحاضر میں قبول اسلام کے لاکھوں واقعات میں ایسے افراد کی تعداد نگلیوں پر گنے جانے تک محدود ہے۔ ورنہ تمام افراد وہی ہیں جنہوں نے کسی تاثر کے نتیجے میں اسلام قبول کیاہے۔یہ سوال مجھے ہمیشہ یہ بات یاد دلاتا ہے کہ اگر عامی تحقیق کے بجائے علماء کی بات پر اعتماد کرے، تو اگر یہ عامی ہندو ہے، تو کبھی مسلمان نہ ہوگا۔ اگر یہ عامی شیعہ یا بریلوی ہے تو کبھی شرک کی نجاست سے نجات نہ پائے گا۔ اگر یہ عامی دیوبندی ہے تو گمراہ کن عقائد سے کبھی خود کو نہ بچا پائے گا۔ عامی دیوبندی کو چھوڑ دیجئے، کیونکہ آپ کا اس سے متفق ہونا ممکن نہیں، لیکن کہئے باقی جو عامی ہیں، ان کے بارے میں یہ بات درست ہے یا نہیں؟
اس کا تعلق بھی ازقبیل غلط فہمی ہی ہے۔آپ جتنے بھی مثالیں تحقیق کی پیش کریں گے اس سے سوگنازیادہ بغیر تحقیق کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اورمیں پہلے کہہ چکاہوں کہ صحابہ اوراسلاف کے فتاوی جات میں 99فیصد حصہ ایساہے جہاں انہوں نے مسئلہ بیان کیالیکن اس کی دلیل بیان نہیں کی۔اسی دور سے ہی دلیل کی تحقیق کی مثالیں بھی اگر دے دی جائیں تو؟
پھر جتنے مسائل دور حاضر میں اختلافی ہیں، تب تو یہ صورتحال نہیں تھی، نا اتنے فتنے تھے۔ معدودے چند مسائل کے علاوہ دیگر مسائل میں سب لوگ متحد و متفق تھے۔ اختلاف تو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور تب دلائل کی اہمیت بھی بڑھتی گئی۔
میرے اس سوال کا براہ راست کوئی جواب دیناچاہئے تھا لیکن حسب سابق آپ نے ایک مرتبہ پھر براہ راست جواب دینے سے گریز کرلیا۔ عامی کا تحقیق نہ کرناصحیح ہے یاغلط ہے۔ اس پر اپناموقف واضح کریں۔یہ بھی سوال ہے کہ اگرایک عامی تحقیق نہیں کرتاہے ۔علماء کی بات پر اعتماد کرتاہے تو اس کایہ عمل درست ہے یاغلط ہے۔
اس قسم کے مسائل میں جب وہ لوگ لب کشائی کرتے ہیں جن کا سرمایہ علم چند اردو کی کتابیں ہیں اورجنہوں نے کچھ اختلافی مسائل پر کتابیں پڑھ رکھی ہیں توحیرت بھی ہوتی ہے اورعلماء کے گرتے وقار کو دیکھ کر افسوس ہوتاہے کہ دوہی بات ہوسکتی ہے کہ دورحاضر کاہرشخص اتناعلم رکھتاہے کہ وہ علماء کی طرح مسائل میں لب کشائی کرے یاپھر علماء نے خودکوپست کرکے عامیوں کی صف میں کھڑاکرلیاہے۔فالی اللہ المشتکیچار پانچ فیصد کو چھوڑ کر ، جو یا تو تھوڑے بیوقوف ہوتے ہیں کہ اندھا دھند سودا خریدتے ہیں ، یا پھر ان کو اس دوکاندار کی اس چیز کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کی کوالٹی کی ہے ۔
بقایہ پچانوے فیصد لوگ جب سودا سلف خریدنے بازار جاتا ہے تو وہ یقیناً تحقیق کرتے ہیں ۔ ایک ہی چیز کی وہ کئ دوکانوں سے ریٹ اور کوالٹی چیک کر یں گے ۔
تو دینی لحاظ سے ہمارا یہ عذر کیسے قبول کیا جائے گا ۔ جیسے کی اوپر ایک بھائی نے بتایا ۔ فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون ،
یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ عوام ، کن علماء سے پوچھے گا ۔ علماء کی بھی پہچان ہوسکتی ہے ، جیسا کہ دنیاوی مثال دی جاچکی ہے ۔
عوام کو تحقیق سے روکنے والے اکثر متعصب اور لالچی قسم کےمولوی ہوتے ہیں ، کہ اگر ان عوام کو پوری بات تفصیل اور دلائل سے بتادیں جائے گی تو سارا کام خراب ہوجائے گا ۔ پھر یہی لوگ کہیں گے کہ پچاس سال سے یہ مسئلہ کیوں نہیں بتایا تھا ۔ چل نکل مسجد سے ۔