سوال یہ ہے کہ کیا بانی¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ سیکولر تھے۔سیکولر کے لغاتی معانی ہیں لادین، دنیاوی، لیکن عام مفہوم کے مطابق سیکولر ایسے شخص کو سمجھاجاتا ہے جو دین اور دنیا کو الگ الگ تصور کرتا ہویعنی مذہب کو محض ذاتی معاملہ سمجھتا ہو اور قومی سیاست کو اپنے مذہب یا دین سے بالکل پاک اور علیحدہ رکھنے کا قائل ہو۔اس ضمن میں مغربی ممالک کی مثال دی جاتی ہے جہاں چرچ اور ریاست جدا جدا ہیں اور سیاست پر مذہب کی پرچھائیاں نہیں پڑتیں۔ پاکستان میں ایک عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ کیا قائداعظمؒ پاکستان میں سیکولر نظام قائم کرناچاہتے تھے؟ ایک اقلیتی دانشور حلقہ یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ قائداعظمؒ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو اسلام سے بالکل پاک اور صاف رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک قیام پاکستان کا مقصد ایک سیکولر جمہوری ریاست کا قیام تھا۔یہاں اقلیتی حلقہ سے مراد چھوٹا گروہ ہے۔دوسری طرف اکثریتی حلقے کا اصرار ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر ہی معرض وجود میں آیا، مذہب ہی پاکستان کے مطالبے کا طاقتور ترین محرک تھا اس لئے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور آئین و سیاست کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کرکے ہی تصور پاکستان کو شرمندہ تعبیر کیاجاسکتا ہے۔نظریاتی حلقے کے دانشوروں کا خیال ہے کہ اگرچہ تحریک پاکستان کے محرکات میں معاشی،سیاسی،سماجی اور تاریخی عوامل وغیرہ نے اہم کردارسرانجام دیا لیکن ان میں سب سے زیادہ موثر فیکٹر مذہب کا تھا جس کے سبب عوام نے بے پناہ قربانیاں دیں، صعوبتیں برداشت کیں، آگ اور خون کے سمندر سے گزر کر پاکستان پہنچے۔اس سے قطع نظر اگر پاک و ہند کے مسلمانوں کے اجتماعی لاشعور کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ احساس پوری طرح جاگزیں ہوچکا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کی صحیح معنوں میں بقاءکیلئے ایک مسلمان ریاست کا قیام ضروری ہے۔ دراصل یہ احساس ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے تجربات کا نتیجہ تھا۔خود قائداعظمؒ نے بھی اپنی تقریروں میں یہ بات کئی بار کہی۔
کسی بھی شخصیت کے نظریات اور تصورات کو سمجھنے کیلئے اس کی ذاتی زندگی میں جھانکنا اور اس کی عوامی زندگی کا مطالعہ ناگزیر ہوتا ہے اور عوامی زندگی کو سمجھنے کیلئے تقریریں،تحریریں، رجحانات اور سرگرمیاں مشعل راہ کا کام دیتی ہیں۔ مثلا ہم نے قائداعظمؒ کی ہر سوانح عمری میں یہ واقعہ پڑھا ہے کہ جب وہ لندن میں بیرسٹری کیلئے داخلہ لیناچاہتے تھے تو انہوں نے لنکزان کو اپنی درسگاہ کے طورپر اس لیے منتخب کیا کہ لنکز ان میں دنیا کے عظیم ترین آئین یا نظام قانون دینے والوں(Greatest Law Givers) کی فہرست میں ہمارے نبی آخر الزمان حضرت محمد کا نام گرامی بھی شامل تھا۔چنانچہ قائداعظم ؒ نے اس سے متاثر ہوکر لنکز ان میں داخلہ لیا اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا چونکہ اس واقعہ کا انکشاف خود قائداعظمؒ نے کراچی میں عید میلاد النبی کے موقع پر کیا تھا اس لیے یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے۔اسی حوالے سے میں خود بھی لندن میں خاص طور پر لنکز ان دیکھنے گیا تھا۔
میں نے بھی جب یہ واقعہ پڑھا تو اسے اس کے صحیح تناظر میں نہ سمجھ سکا کیونکہ بظاہر قائداعظمؒ مغربی طرز حیات کا نمونہ نظر آتے تھے، وہی مغربی لباس، وہی انگریزی زبان، وہی اطوار.... اس کے برعکس اس بنیاد پر لنکز ان کو منتخب کرنے کا فیصلہ صرف وہی شخص کرسکتا تھا جس کا دل حب رسول سے منور ہو کیونکہ عام حالات میں ایک سترہ سالہ کم سن نوجوان اور پھر لندن کی آزاد فضا میں کون ان باتوں کی پرواہ کرتا ہے۔ خاص طور پر جبکہ قائداعظمؒ کا تعلق ایک تجارت پیشہ خوجہ فیملی سے تھانہ کہ علامہ اقبال کی مانند ایک ٹھوس مذہبی گھرانے سے.... بچپن کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کہ عام طورپر نوعمری کی تربیت کے شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے قائداعظمؒ کے لنکز ان کے انتخاب کا صحیح پس منظر اور مفہوم اس وقت سمجھ میں آیا جب میں نے سید رضوان احمد کی کتاب ”قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی تیس(30) سال“ پڑھی۔اس کتاب میں مصنف نے گہری تحقیق کے بعد قائداعظمؒ کے بچپن کے بارے میں کچھ ایسی معلومات کا انکشاف کیا ہے جو اس سے قبل منظر عام پر نہیں آئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ قائداعظمؒ کے والد گرامی تجارت کے ساتھ ساتھ مشن ہائی سکول کراچی میں پڑھاتے بھی تھے لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو شروع میں سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کروایا کیونکہ مشن سکول میں عیسائیت کا پرچار بھی کیا جاتا تھا جبکہ سندھ مدرستہ الاسلام میں بچوں کی دینی تربیت پر توجہ دی جاتی تھی۔ مدرستہ الاسلام کے ریکارڈ کے مطابق محمد علی جناح کے نام کے سامنے والے خانے میں حسب رواج خوجہ لکھنے کی بجائے محمڈن لکھایاگیا۔ قائداعظمؒ سندھ مدرستہ الاسلام چھوڑ کربمبئی گئے تو وہاں بھی انجمن اسلامیہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں لندن جانے سے قبل وہ مختصر سے عرصہ کیلئے کراچی کے مشن سکول میں بھی طالب علم رہے۔سید رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح کے والد جناح بھائی پونجا مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور شام کے وقت محلے کے بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے جبکہ قائداعظمؒ کی والدہ بچوں کو تاریخی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ کی تربیت قدرے مذہبی ماحول میں ہوئی اور اسی مذہبی تربیت کا اثر تھا کہ قائداعظمؒ نے لندن میں لنکز ان کا انتخاب کیا۔
حصول تعلیم کے بعد عملی زندگی کا آغاز کرنے کیلئے قائداعظمؒ1896ءمیں بمبئی پہنچے۔اس وقت ان کی عمر بیس برس تھی۔اسلام اور مسلمانوں سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے بمبئی میں فروکش ہوتے ہی انجمن اسلامی بمبئی کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس کی میٹنگوں میں شرکت کرنے لگے۔ انہوں نے انجمن اسلامی بمبئی کی میٹنگ میں پہلی بار8جولائی 1897ءکو شرکت کی اور پھر اسی سال 14اگست کو انجمن اسلامی نے عید میلاد النبی کے ضمن میں جلسہ کیا تو قائداعظمؒ اس میں بھی شریک ہوئے۔عید میلاد النبی کی تقریب کی نواب محسن الملک نے صدارت کی اور اس تقریب میں سیرت النبی پر تقریروں کے علاوہ نعتیں پڑھی گئیں اور سرور کائنات کی خدمت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ قائداعظمؒ کی حضور نبی کریم سے عقیدت کا اس سے پتا چلتا ہے کہ سیاسی و قانونی زندگی کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اکثر عید میلاد النبی کی تقریبات میں شرکت کرتے رہے۔
قائداعظمؒ1910ءمیں امپیریل لیجسلیٹو کونسل(اعلیٰ ترین قانون ساز اسمبلی) کے رکن منتخب ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ایک دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ پریوی کونسل کے ایک فیصلے کے نتیجے کے طورپر مسلمانوں کے روایتی نظام وقف علی الاولاد پر زد پڑی تھی جس سے نہ صرف مسلمانوں کے مفادات متاثر ہوئے تھے بلکہ ان کا ایک صدیوں پرانا سسٹم بھی غیر موثر ہوکر رہ گیا تھا۔چنانچہ مسلمان نہایت پریشان تھے اور برطانوی حکومت کے سامنے اپنے آپکو بے بس محسوس کرتے تھے۔
قائداعظمؒ نے کونسل کارکن منتخب ہونے کے بعد وقف علی الاولاد کابل کونسل میں پیش کیا اور پھر انکی کئی برس کی محنت اور مسلسل کوشش سے وہ قانون بن گیا۔ امپیریل لیجسلیٹو اسمبلی میں یہ پہلا بل تھا جو کسی مسلمان رکن نے مسلمانوں کے بارے میں پیش کیا اور وہ قانون بنا۔
1918ءمیں انہوں نے بمبئی کی ممتاز شخصیت سرڈنشا کی بیٹی رتی سے شادی کی تو شادی سے قبل قبول اسلام کی شرط رکھی۔ رتی ڈنشا پہلے مسلمان ہوئیں اور پھر ان کا نکاح محمد علی جناح ؒ سے ہوا۔میں نے اس حقیقت کی مولانا شاہ احمد نورانی سے تصدیق کی ہے کہ محمد علی جناحؒ رتی ڈنشا کو مولانا نورانی کے سگے تایا مولانا نذیراحمد صدیقی کے پاس لیکر گئے جنہوںنے انہیں مسلمان کیا اور ان کا نکاح قائداعظمؒ سے پڑھوایا۔ مولانا نذیر احمد صدیقی اہل سنت تھے اور مولانا نورانی صاحب کے بقول قائداعظم ؒ ان سے مذہبی معاملات میں رہنمائی لیا کرتے تھے۔ ان کا انتقا ل مدینہ منورہ میں ہوا اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ قائداعظم ؒ نہایت ذہین اور محتاط انسان تھے اور ہر قدم سوچ کر اٹھاتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اثنائے عشری سے تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انکے خاندان کا مذہبی پس منظر یہی تھا تو پھر انہوں نے اپنی ہونے والی بیوی کو قبول اسلام اور اپنے عقد میں لینے کیلئے اور نکاح پڑھوانے کیلئے کسی ایسی مذہبی شخصیت کا انتخاب کیوں نہ کیا جس کا تعلق اثنائے عشری سے ہوتا۔ ظاہر ہے کہ شیعہ علما کی بمبئی میںکوئی کمی نہ تھی اگرچہ میرے نزدیک یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظمؒ مذہبی فرقہ پرستی سے ماوراءتھے اور اس صورت حال کی بہتر وضاحت انکے ایک جواب میں ملتی ہے ۔
اس پوسٹ کو پڑھ کر سمجھ آتی ہے کہ بریلوی اپنے پیروں اور شیعہ اپنے اماموں کے بارے میں کیسے محیر العقول واقعے گھڑتے ہیں اور ایسے خانہ ساز قصے لاتے ہیں جن کے اندر واضح اندرونی تضاد ہوتا ہے
مثلا
مثلاً یہ کہ قائداعظمؒ کے والد گرامی تجارت کے ساتھ ساتھ مشن ہائی سکول کراچی میں پڑھاتے بھی تھے لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو شروع میں سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کروایا کیونکہ مشن سکول میں عیسائیت کا پرچار بھی کیا جاتا تھا جبکہ سندھ مدرستہ الاسلام میں بچوں کی دینی تربیت پر توجہ دی جاتی تھی۔ مدرستہ الاسلام کے ریکارڈ کے مطابق محمد علی جناح کے نام کے سامنے والے خانے میں حسب رواج خوجہ لکھنے کی بجائے محمڈن لکھایاگیا۔ قائداعظمؒ سندھ مدرستہ الاسلام چھوڑ کربمبئی گئے تو وہاں بھی انجمن اسلامیہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں لندن جانے سے قبل وہ مختصر سے عرصہ کیلئے کراچی کے مشن سکول میں بھی طالب علم رہے۔
پہلے بچے کو مشن سکول سے بچا کر دینی تربیت کے لیے سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرایا
لیکن لندن جانے سے پہلے پھر مشن سکول میں تعلیم ؟
کالم لکھنے والے اور اسکو یہاں پوسٹ کرنے والے کو یہ تضاد کیوں نظر نہیں آیا ؟ اس لیے بریلویوں اور شیعوں کی طرح انکی آنکھیں بھی عقیدت اور عقیدے نے بند کی ہوئی تھیں
سید رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح کے والد جناح بھائی پونجا مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور شام کے وقت محلے کے بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے جبکہ قائداعظمؒ کی والدہ بچوں کو تاریخی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ کی تربیت قدرے مذہبی ماحول میں ہوئی اور اسی مذہبی تربیت کا اثر تھا کہ قائداعظمؒ نے لندن میں لنکز ان کا انتخاب کیا۔
جناح کا والد اسماعیلی تھا اسی اسماعیلی مذہب کی تعلیم دیتا ہو گا، اسکی والدہ بھی اسی اسماعیلیت کی کہانیاں سنایا کرتی ہو گی، اب اندازہ لگا لیں کہ جناح کی تربیت کس مذہب پر ہوئی ہو گی
اسلام اور مسلمانوں سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے بمبئی میں فروکش ہوتے ہی انجمن اسلامی بمبئی کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس کی میٹنگوں میں شرکت کرنے لگے۔ انہوں نے انجمن اسلامی بمبئی کی میٹنگ میں پہلی بار8جولائی 1897ءکو شرکت کی اور پھر اسی سال 14اگست کو انجمن اسلامی نے عید میلاد النبی کے ضمن میں جلسہ کیا تو قائداعظمؒ اس میں بھی شریک ہوئے۔عید میلاد النبی کی تقریب کی نواب محسن الملک نے صدارت کی اور اس تقریب میں سیرت النبی پر تقریروں کے علاوہ نعتیں پڑھی گئیں اور سرور کائنات کی خدمت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کیا گیا۔
بریلوی میلاد کرائیں تو بدعتی اور جناح کرائے تو قائداعظم ؟ سبحان اللہ-
ما لکم کیف تحکمون
1918ءمیں انہوں نے بمبئی کی ممتاز شخصیت سرڈنشا کی بیٹی رتی سے شادی کی تو شادی سے قبل قبول اسلام کی شرط رکھی۔ رتی ڈنشا پہلے مسلمان ہوئیں اور پھر ان کا نکاح محمد علی جناح ؒ سے ہوا۔میں نے اس حقیقت کی مولانا شاہ احمد نورانی سے تصدیق کی ہے کہ محمد علی جناحؒ رتی ڈنشا کو مولانا نورانی کے سگے تایا مولانا نذیراحمد صدیقی کے پاس لیکر گئے جنہوںنے انہیں مسلمان کیا اور ان کا نکاح قائداعظمؒ سے پڑھوایا۔ مولانا نذیر احمد صدیقی اہل سنت تھے اور مولانا نورانی صاحب کے بقول قائداعظم ؒ ان سے مذہبی معاملات میں رہنمائی لیا کرتے تھے۔ ان کا انتقا ل مدینہ منورہ میں ہوا اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ قائداعظم ؒ نہایت ذہین اور محتاط انسان تھے اور ہر قدم سوچ کر اٹھاتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اثنائے عشری سے تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انکے خاندان کا مذہبی پس منظر یہی تھا تو پھر انہوں نے اپنی ہونے والی بیوی کو قبول اسلام اور اپنے عقد میں لینے کیلئے اور نکاح پڑھوانے کیلئے کسی ایسی مذہبی شخصیت کا انتخاب کیوں نہ کیا جس کا تعلق اثنائے عشری سے ہوتا۔ ظاہر ہے کہ شیعہ علما کی بمبئی میںکوئی کمی نہ تھی اگرچہ میرے نزدیک یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظمؒ مذہبی فرقہ پرستی سے ماوراءتھے اور اس صورت حال کی بہتر وضاحت انکے ایک جواب میں ملتی ہے ۔
یہ ثابت ہے جناح اول اسماعیلی اور بعد میں اثنا عشری شیعہ تھا
اول
ثبوت اول : جناح کے مرنے کے بعد فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان نے کورٹ کو شیعہ فقہ کے تحت جناح کی وراثت کی تقسیم کی درخواست کی
The secular Mussalman
ثبوت دوم : جناح کا کورٹ میں جمع کرایا گیا اپنا حلف نامہ
ثبوت سوم : فاطمہ جناح کے مرنے بعد اسکی بہن شیریں بائی نے کورٹ کو شیعہ فقہ کے تحت تقسیم کی درخواست کی
ثبوت چہارم : فاطمہ جناح کے مرنے بعد اسکے سامان سے علم اور پنجہ کا ملنا
ثبوت پنجم : جناح کا غسل اور اول جنازہ شیعہ ذاکر انیس الحسنین کا پڑھانا
باقی جہاں تک نورانی بریلوی کے والد سے نکاح اور رہنمائی کی بات ہے تو
اول تو یہ ثابت ہی نہیں
دوم اگر ثابت ہو تو وہ بریلوی ہی ثابت ہوتا ہے
سوم یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہر فرقہ مفادات کے حصول کے لیے جناح کو اپنا بنانے پر تلا ہوا ہے اسماعیلی تو وہ تھا ہی، شیعہ ہونے کے قوی ثبوت موجود ہیں، بریلوی بھی ثابت کرنے کے لیے جھوٹی کہانیاں گھڑنے پر تلے ہوئے ہیں اور دیوبندیوں نے تو آفیشل جنازہ پڑھایا
اگر اب بھی سمجھ نہیں آئی تو اس مثال سے سمجھ لیں کہ "عامر چیمہ" کو اول اول جماعۃ الدعوۃ نے واہ واہ کرانے کے لیے اپنا اور اہلحدیث بنا کر پیش کیا یہاں تک کہ اسکے والد نے بیان دیا کہ ہم "یا رسول اللہﷺ" کہنے والے ہیں
وہ جو بھی تھا اہلحدیث کا بہرحال اس سے کوئی تعلق نہیں تھا الحمد للہ