• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا قائد اعظم سیکولر تھے ۔ از ڈاکٹر صفدر محمود

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کسی پاکستانی مسلمان کی جانب سے پاکستان میں رہتے ہوئے تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ کی ”تحقیر ، مخالفت یا نفی“ اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی اس حیثیت کی ”تردید“ کہ انہوں نے قیام پاکستان کے ذریعہ برصغیر کے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا ۔۔۔ پر کم سے کم الفاظ میں سیاسی ناعاقبت اندیشی، اور زیادہ سے زیادہ الفاظ میں یہود و ہنود کی پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہاں کے مسلمانوں کو از سر نِو کفار کی غلامی میں دینے کی عالمی سازش کی دانستہ یا غیر دانستہ حمایت ہی قراردیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں رہ کر نظریہ پاکستان اور بانیان پاکستان کی مخالفت، جس تھالی میں کھانا، اسی میں چھید کرنے کے مترادف ہے۔ غالباً ہم ایسا کرکے ہندوؤں کے ”اکھنڈ بھارت“ کے منصوبہ کو بھی پروان چڑھانا چاہتے ہیں تاکہ بھارت کے متعصب ہندو برصغیر میں مسلمانوں کی سینکڑوں سالہ حکمرانی کا کھل کر” بدلہ“ لے سکیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
سوال یہ ہے کہ کیا بانی¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ سیکولر تھے۔سیکولر کے لغاتی معانی ہیں لادین، دنیاوی، لیکن عام مفہوم کے مطابق سیکولر ایسے شخص کو سمجھاجاتا ہے جو دین اور دنیا کو الگ الگ تصور کرتا ہویعنی مذہب کو محض ذاتی معاملہ سمجھتا ہو اور قومی سیاست کو اپنے مذہب یا دین سے بالکل پاک اور علیحدہ رکھنے کا قائل ہو۔اس ضمن میں مغربی ممالک کی مثال دی جاتی ہے جہاں چرچ اور ریاست جدا جدا ہیں اور سیاست پر مذہب کی پرچھائیاں نہیں پڑتیں۔ پاکستان میں ایک عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ کیا قائداعظمؒ پاکستان میں سیکولر نظام قائم کرناچاہتے تھے؟ ایک اقلیتی دانشور حلقہ یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ قائداعظمؒ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو اسلام سے بالکل پاک اور صاف رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک قیام پاکستان کا مقصد ایک سیکولر جمہوری ریاست کا قیام تھا۔یہاں اقلیتی حلقہ سے مراد چھوٹا گروہ ہے۔دوسری طرف اکثریتی حلقے کا اصرار ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر ہی معرض وجود میں آیا، مذہب ہی پاکستان کے مطالبے کا طاقتور ترین محرک تھا اس لئے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور آئین و سیاست کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کرکے ہی تصور پاکستان کو شرمندہ تعبیر کیاجاسکتا ہے۔نظریاتی حلقے کے دانشوروں کا خیال ہے کہ اگرچہ تحریک پاکستان کے محرکات میں معاشی،سیاسی،سماجی اور تاریخی عوامل وغیرہ نے اہم کردارسرانجام دیا لیکن ان میں سب سے زیادہ موثر فیکٹر مذہب کا تھا جس کے سبب عوام نے بے پناہ قربانیاں دیں، صعوبتیں برداشت کیں، آگ اور خون کے سمندر سے گزر کر پاکستان پہنچے۔اس سے قطع نظر اگر پاک و ہند کے مسلمانوں کے اجتماعی لاشعور کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ احساس پوری طرح جاگزیں ہوچکا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کی صحیح معنوں میں بقاءکیلئے ایک مسلمان ریاست کا قیام ضروری ہے۔ دراصل یہ احساس ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے تجربات کا نتیجہ تھا۔خود قائداعظمؒ نے بھی اپنی تقریروں میں یہ بات کئی بار کہی۔
کسی بھی شخصیت کے نظریات اور تصورات کو سمجھنے کیلئے اس کی ذاتی زندگی میں جھانکنا اور اس کی عوامی زندگی کا مطالعہ ناگزیر ہوتا ہے اور عوامی زندگی کو سمجھنے کیلئے تقریریں،تحریریں، رجحانات اور سرگرمیاں مشعل راہ کا کام دیتی ہیں۔ مثلا ہم نے قائداعظمؒ کی ہر سوانح عمری میں یہ واقعہ پڑھا ہے کہ جب وہ لندن میں بیرسٹری کیلئے داخلہ لیناچاہتے تھے تو انہوں نے لنکزان کو اپنی درسگاہ کے طورپر اس لیے منتخب کیا کہ لنکز ان میں دنیا کے عظیم ترین آئین یا نظام قانون دینے والوں(Greatest Law Givers) کی فہرست میں ہمارے نبی آخر الزمان حضرت محمد کا نام گرامی بھی شامل تھا۔چنانچہ قائداعظم ؒ نے اس سے متاثر ہوکر لنکز ان میں داخلہ لیا اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا چونکہ اس واقعہ کا انکشاف خود قائداعظمؒ نے کراچی میں عید میلاد النبی کے موقع پر کیا تھا اس لیے یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے۔اسی حوالے سے میں خود بھی لندن میں خاص طور پر لنکز ان دیکھنے گیا تھا۔
میں نے بھی جب یہ واقعہ پڑھا تو اسے اس کے صحیح تناظر میں نہ سمجھ سکا کیونکہ بظاہر قائداعظمؒ مغربی طرز حیات کا نمونہ نظر آتے تھے، وہی مغربی لباس، وہی انگریزی زبان، وہی اطوار.... اس کے برعکس اس بنیاد پر لنکز ان کو منتخب کرنے کا فیصلہ صرف وہی شخص کرسکتا تھا جس کا دل حب رسول سے منور ہو کیونکہ عام حالات میں ایک سترہ سالہ کم سن نوجوان اور پھر لندن کی آزاد فضا میں کون ان باتوں کی پرواہ کرتا ہے۔ خاص طور پر جبکہ قائداعظمؒ کا تعلق ایک تجارت پیشہ خوجہ فیملی سے تھانہ کہ علامہ اقبال کی مانند ایک ٹھوس مذہبی گھرانے سے.... بچپن کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کہ عام طورپر نوعمری کی تربیت کے شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے قائداعظمؒ کے لنکز ان کے انتخاب کا صحیح پس منظر اور مفہوم اس وقت سمجھ میں آیا جب میں نے سید رضوان احمد کی کتاب ”قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی تیس(30) سال“ پڑھی۔اس کتاب میں مصنف نے گہری تحقیق کے بعد قائداعظمؒ کے بچپن کے بارے میں کچھ ایسی معلومات کا انکشاف کیا ہے جو اس سے قبل منظر عام پر نہیں آئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ قائداعظمؒ کے والد گرامی تجارت کے ساتھ ساتھ مشن ہائی سکول کراچی میں پڑھاتے بھی تھے لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو شروع میں سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کروایا کیونکہ مشن سکول میں عیسائیت کا پرچار بھی کیا جاتا تھا جبکہ سندھ مدرستہ الاسلام میں بچوں کی دینی تربیت پر توجہ دی جاتی تھی۔ مدرستہ الاسلام کے ریکارڈ کے مطابق محمد علی جناح کے نام کے سامنے والے خانے میں حسب رواج خوجہ لکھنے کی بجائے محمڈن لکھایاگیا۔ قائداعظمؒ سندھ مدرستہ الاسلام چھوڑ کربمبئی گئے تو وہاں بھی انجمن اسلامیہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں لندن جانے سے قبل وہ مختصر سے عرصہ کیلئے کراچی کے مشن سکول میں بھی طالب علم رہے۔سید رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح کے والد جناح بھائی پونجا مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور شام کے وقت محلے کے بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے جبکہ قائداعظمؒ کی والدہ بچوں کو تاریخی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ کی تربیت قدرے مذہبی ماحول میں ہوئی اور اسی مذہبی تربیت کا اثر تھا کہ قائداعظمؒ نے لندن میں لنکز ان کا انتخاب کیا۔
حصول تعلیم کے بعد عملی زندگی کا آغاز کرنے کیلئے قائداعظمؒ1896ءمیں بمبئی پہنچے۔اس وقت ان کی عمر بیس برس تھی۔اسلام اور مسلمانوں سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے بمبئی میں فروکش ہوتے ہی انجمن اسلامی بمبئی کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس کی میٹنگوں میں شرکت کرنے لگے۔ انہوں نے انجمن اسلامی بمبئی کی میٹنگ میں پہلی بار8جولائی 1897ءکو شرکت کی اور پھر اسی سال 14اگست کو انجمن اسلامی نے عید میلاد النبی کے ضمن میں جلسہ کیا تو قائداعظمؒ اس میں بھی شریک ہوئے۔عید میلاد النبی کی تقریب کی نواب محسن الملک نے صدارت کی اور اس تقریب میں سیرت النبی پر تقریروں کے علاوہ نعتیں پڑھی گئیں اور سرور کائنات کی خدمت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ قائداعظمؒ کی حضور نبی کریم سے عقیدت کا اس سے پتا چلتا ہے کہ سیاسی و قانونی زندگی کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اکثر عید میلاد النبی کی تقریبات میں شرکت کرتے رہے۔
قائداعظمؒ1910ءمیں امپیریل لیجسلیٹو کونسل(اعلیٰ ترین قانون ساز اسمبلی) کے رکن منتخب ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ایک دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ پریوی کونسل کے ایک فیصلے کے نتیجے کے طورپر مسلمانوں کے روایتی نظام وقف علی الاولاد پر زد پڑی تھی جس سے نہ صرف مسلمانوں کے مفادات متاثر ہوئے تھے بلکہ ان کا ایک صدیوں پرانا سسٹم بھی غیر موثر ہوکر رہ گیا تھا۔چنانچہ مسلمان نہایت پریشان تھے اور برطانوی حکومت کے سامنے اپنے آپکو بے بس محسوس کرتے تھے۔
قائداعظمؒ نے کونسل کارکن منتخب ہونے کے بعد وقف علی الاولاد کابل کونسل میں پیش کیا اور پھر انکی کئی برس کی محنت اور مسلسل کوشش سے وہ قانون بن گیا۔ امپیریل لیجسلیٹو اسمبلی میں یہ پہلا بل تھا جو کسی مسلمان رکن نے مسلمانوں کے بارے میں پیش کیا اور وہ قانون بنا۔
1918ءمیں انہوں نے بمبئی کی ممتاز شخصیت سرڈنشا کی بیٹی رتی سے شادی کی تو شادی سے قبل قبول اسلام کی شرط رکھی۔ رتی ڈنشا پہلے مسلمان ہوئیں اور پھر ان کا نکاح محمد علی جناح ؒ سے ہوا۔میں نے اس حقیقت کی مولانا شاہ احمد نورانی سے تصدیق کی ہے کہ محمد علی جناحؒ رتی ڈنشا کو مولانا نورانی کے سگے تایا مولانا نذیراحمد صدیقی کے پاس لیکر گئے جنہوںنے انہیں مسلمان کیا اور ان کا نکاح قائداعظمؒ سے پڑھوایا۔ مولانا نذیر احمد صدیقی اہل سنت تھے اور مولانا نورانی صاحب کے بقول قائداعظم ؒ ان سے مذہبی معاملات میں رہنمائی لیا کرتے تھے۔ ان کا انتقا ل مدینہ منورہ میں ہوا اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ قائداعظم ؒ نہایت ذہین اور محتاط انسان تھے اور ہر قدم سوچ کر اٹھاتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اثنائے عشری سے تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انکے خاندان کا مذہبی پس منظر یہی تھا تو پھر انہوں نے اپنی ہونے والی بیوی کو قبول اسلام اور اپنے عقد میں لینے کیلئے اور نکاح پڑھوانے کیلئے کسی ایسی مذہبی شخصیت کا انتخاب کیوں نہ کیا جس کا تعلق اثنائے عشری سے ہوتا۔ ظاہر ہے کہ شیعہ علما کی بمبئی میںکوئی کمی نہ تھی اگرچہ میرے نزدیک یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظمؒ مذہبی فرقہ پرستی سے ماوراءتھے اور اس صورت حال کی بہتر وضاحت انکے ایک جواب میں ملتی ہے ۔
اس پوسٹ کو پڑھ کر سمجھ آتی ہے کہ بریلوی اپنے پیروں اور شیعہ اپنے اماموں کے بارے میں کیسے محیر العقول واقعے گھڑتے ہیں اور ایسے خانہ ساز قصے لاتے ہیں جن کے اندر واضح اندرونی تضاد ہوتا ہے
مثلا
مثلاً یہ کہ قائداعظمؒ کے والد گرامی تجارت کے ساتھ ساتھ مشن ہائی سکول کراچی میں پڑھاتے بھی تھے لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو شروع میں سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کروایا کیونکہ مشن سکول میں عیسائیت کا پرچار بھی کیا جاتا تھا جبکہ سندھ مدرستہ الاسلام میں بچوں کی دینی تربیت پر توجہ دی جاتی تھی۔ مدرستہ الاسلام کے ریکارڈ کے مطابق محمد علی جناح کے نام کے سامنے والے خانے میں حسب رواج خوجہ لکھنے کی بجائے محمڈن لکھایاگیا۔ قائداعظمؒ سندھ مدرستہ الاسلام چھوڑ کربمبئی گئے تو وہاں بھی انجمن اسلامیہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں لندن جانے سے قبل وہ مختصر سے عرصہ کیلئے کراچی کے مشن سکول میں بھی طالب علم رہے۔
پہلے بچے کو مشن سکول سے بچا کر دینی تربیت کے لیے سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرایا لیکن لندن جانے سے پہلے پھر مشن سکول میں تعلیم ؟
کالم لکھنے والے اور اسکو یہاں پوسٹ کرنے والے کو یہ تضاد کیوں نظر نہیں آیا ؟ اس لیے بریلویوں اور شیعوں کی طرح انکی آنکھیں بھی عقیدت اور عقیدے نے بند کی ہوئی تھیں
سید رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح کے والد جناح بھائی پونجا مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور شام کے وقت محلے کے بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے جبکہ قائداعظمؒ کی والدہ بچوں کو تاریخی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ کی تربیت قدرے مذہبی ماحول میں ہوئی اور اسی مذہبی تربیت کا اثر تھا کہ قائداعظمؒ نے لندن میں لنکز ان کا انتخاب کیا۔
جناح کا والد اسماعیلی تھا اسی اسماعیلی مذہب کی تعلیم دیتا ہو گا، اسکی والدہ بھی اسی اسماعیلیت کی کہانیاں سنایا کرتی ہو گی، اب اندازہ لگا لیں کہ جناح کی تربیت کس مذہب پر ہوئی ہو گی
اسلام اور مسلمانوں سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے بمبئی میں فروکش ہوتے ہی انجمن اسلامی بمبئی کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس کی میٹنگوں میں شرکت کرنے لگے۔ انہوں نے انجمن اسلامی بمبئی کی میٹنگ میں پہلی بار8جولائی 1897ءکو شرکت کی اور پھر اسی سال 14اگست کو انجمن اسلامی نے عید میلاد النبی کے ضمن میں جلسہ کیا تو قائداعظمؒ اس میں بھی شریک ہوئے۔عید میلاد النبی کی تقریب کی نواب محسن الملک نے صدارت کی اور اس تقریب میں سیرت النبی پر تقریروں کے علاوہ نعتیں پڑھی گئیں اور سرور کائنات کی خدمت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کیا گیا۔
بریلوی میلاد کرائیں تو بدعتی اور جناح کرائے تو قائداعظم ؟ سبحان اللہ- ما لکم کیف تحکمون
1918ءمیں انہوں نے بمبئی کی ممتاز شخصیت سرڈنشا کی بیٹی رتی سے شادی کی تو شادی سے قبل قبول اسلام کی شرط رکھی۔ رتی ڈنشا پہلے مسلمان ہوئیں اور پھر ان کا نکاح محمد علی جناح ؒ سے ہوا۔میں نے اس حقیقت کی مولانا شاہ احمد نورانی سے تصدیق کی ہے کہ محمد علی جناحؒ رتی ڈنشا کو مولانا نورانی کے سگے تایا مولانا نذیراحمد صدیقی کے پاس لیکر گئے جنہوںنے انہیں مسلمان کیا اور ان کا نکاح قائداعظمؒ سے پڑھوایا۔ مولانا نذیر احمد صدیقی اہل سنت تھے اور مولانا نورانی صاحب کے بقول قائداعظم ؒ ان سے مذہبی معاملات میں رہنمائی لیا کرتے تھے۔ ان کا انتقا ل مدینہ منورہ میں ہوا اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ قائداعظم ؒ نہایت ذہین اور محتاط انسان تھے اور ہر قدم سوچ کر اٹھاتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اثنائے عشری سے تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انکے خاندان کا مذہبی پس منظر یہی تھا تو پھر انہوں نے اپنی ہونے والی بیوی کو قبول اسلام اور اپنے عقد میں لینے کیلئے اور نکاح پڑھوانے کیلئے کسی ایسی مذہبی شخصیت کا انتخاب کیوں نہ کیا جس کا تعلق اثنائے عشری سے ہوتا۔ ظاہر ہے کہ شیعہ علما کی بمبئی میںکوئی کمی نہ تھی اگرچہ میرے نزدیک یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظمؒ مذہبی فرقہ پرستی سے ماوراءتھے اور اس صورت حال کی بہتر وضاحت انکے ایک جواب میں ملتی ہے ۔
یہ ثابت ہے جناح اول اسماعیلی اور بعد میں اثنا عشری شیعہ تھا اول
ثبوت اول : جناح کے مرنے کے بعد فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان نے کورٹ کو شیعہ فقہ کے تحت جناح کی وراثت کی تقسیم کی درخواست کی
The secular Mussalman
ثبوت دوم : جناح کا کورٹ میں جمع کرایا گیا اپنا حلف نامہ
ثبوت سوم : فاطمہ جناح کے مرنے بعد اسکی بہن شیریں بائی نے کورٹ کو شیعہ فقہ کے تحت تقسیم کی درخواست کی
ثبوت چہارم : فاطمہ جناح کے مرنے بعد اسکے سامان سے علم اور پنجہ کا ملنا
ثبوت پنجم : جناح کا غسل اور اول جنازہ شیعہ ذاکر انیس الحسنین کا پڑھانا
باقی جہاں تک نورانی بریلوی کے والد سے نکاح اور رہنمائی کی بات ہے تو
اول تو یہ ثابت ہی نہیں
دوم اگر ثابت ہو تو وہ بریلوی ہی ثابت ہوتا ہے
سوم یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہر فرقہ مفادات کے حصول کے لیے جناح کو اپنا بنانے پر تلا ہوا ہے اسماعیلی تو وہ تھا ہی، شیعہ ہونے کے قوی ثبوت موجود ہیں، بریلوی بھی ثابت کرنے کے لیے جھوٹی کہانیاں گھڑنے پر تلے ہوئے ہیں اور دیوبندیوں نے تو آفیشل جنازہ پڑھایا
اگر اب بھی سمجھ نہیں آئی تو اس مثال سے سمجھ لیں کہ "عامر چیمہ" کو اول اول جماعۃ الدعوۃ نے واہ واہ کرانے کے لیے اپنا اور اہلحدیث بنا کر پیش کیا یہاں تک کہ اسکے والد نے بیان دیا کہ ہم "یا رسول اللہﷺ" کہنے والے ہیں

وہ جو بھی تھا اہلحدیث کا بہرحال اس سے کوئی تعلق نہیں تھا الحمد للہ
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
کسی پاکستانی مسلمان کی جانب سے پاکستان میں رہتے ہوئے تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ کی ”تحقیر ، مخالفت یا نفی“ اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی اس حیثیت کی ”تردید“ کہ انہوں نے قیام پاکستان کے ذریعہ برصغیر کے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا
یہ اگر وطن پرستی نہیں تو اور کیا ہے ؟وطنی نظریہ، وطنی تحریک، بانی وطنی تحریک کی گستاخی برداشت نہیں اور اسلام دشمن اعمال شیر مادر کی طرح ہضم ؟
کسی پاکستانی مسلمان کی جانب سے پاکستان میں رہتے ہوئے تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ کی ”تحقیر ، مخالفت یا نفی“ اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی اس حیثیت کی ”تردید“ کہ انہوں نے قیام پاکستان کے ذریعہ برصغیر کے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا ۔۔۔ پر کم سے کم الفاظ میں سیاسی ناعاقبت اندیشی، اور زیادہ سے زیادہ الفاظ میں یہود و ہنود کی پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہاں کے مسلمانوں کو از سر نِو کفار کی غلامی میں دینے کی عالمی سازش کی دانستہ یا غیر دانستہ حمایت ہی قراردیا جاسکتا ہے۔
یہود،نصاری اور ھنود کی غلامی آپ کریں تو وہ شیر مادر کی طرح ہضم اور آپ اسی طرح دھاڑیں مارتے ہوئے اسلام کے ٹھیکیدار ؟
یہ وہی سرکاری زبان آپ بول رہے ہیں جس کو مجاہدین تو چھوڑیں ہر دینی تحریک جسکو سازش نظر آتی ہے
جماعت اسلامی 1948 سے سازش - امریکا کا پیسہ
قرارداد مقاصد مولانا شبیر احمد عثمانی کا اسمبلی میں الٹی میٹم دے کر پاس کرانا - وہ بھی سازش
1954 کی ختم نبوت میں مسلمانوں کا فوج کی طرف سے قتل عام - لیکن پھر بھی یہ سازش ہے
1962 میں تمام دینی جماعتوں کا گٹھ جوڑ لیکن حکومت کی نظر میں سازش
1971 میں بنگالی مسلمانوں کو انکے حقوق نہ دینا لیکن پھر بھی سازش
1994 میں دیر اور مالاکنڈ میں صوفی محمد اور تحریک نفاذ شریعت کے خلاف آپریشن لیکن پھر بھی سازش
2001 میں امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف یو ٹرن - لیکن سازش
؎2007 میں لال مسجد آپریشن لیکن وہ بھی سازش

او کچھ اپنے گریبان میں بھی جھانک لو
مجاہدین ان شاء اللہ اس باطل نظام کو ختم کرنے کے بعد یہاں کسی یہود ھنود کو قدم نہیں رکھنے دیں گے باذن اللہ

پاکستان میں رہ کر نظریہ پاکستان اور بانیان پاکستان کی مخالفت، جس تھالی میں کھانا، اسی میں چھید کرنے کے مترادف ہے۔
کیا ہم پاکستان کی دی ہوئی تھالی میں کھاتے ہیں یا اللہ کی دی ہوئی تھالی میں کھاتے ہیں ؟
وطن کو رب بنانا اور وطن پرستی یہ نہیں تو اور کیا ہے ؟
یہ قابض ٹولہ یہ وسائل پیسے معدنیات لوگ اپنے گھر سے نہیں لے کر آئے بلکہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے
ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے.
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
وہ جو بھی تھا اہلحدیث کا بہرحال اس سے کوئی تعلق نہیں تھا الحمد للہ
انا للہ و انا الیہ راجعون
یہی وہ ”خطرناک رجحان“ ہے، جو معاشرے میں ”عوامی سطح“ پر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ”اہل حدیث“ صرف انہی لوگوں کو ”مسلمان“ سمجھتے ہیں جو ”اہل حدیث کی چھتری تلے“ موجود ہیں۔ دوسری طرف ٹاپ لیڈرز ”اتحاد بین المسلمین“ کی خاطر شیعہ، سنی، دیوبندی، جماعتی، بریلوی سب کے ساتھ ”دینی یکجہتی“ کا کھلے عام ”پیغام“ دے رہے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ٹاپ لیڈرز راہ حق پر پیں یا ان لیڈرز کے عوامی فالوورز۔ دونوں بیک وقت تو نہیں ہوسکتے۔ ابھی پرسوں ہی کی بات ہے کہ ایک اہل حدیث مکتبہ میں کتب کی خریداری کے لئے گیا۔ کتب کی فہرست طلب کی تاکہ منتخب کتب خرید سکوں۔ ابتدائی گفت و شنید میں ہی کتب فروش فرمانے لگے کہ آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے۔ عرض کیا کہ میں تو صرف اور صرف مسلمان ہوں ۔ کہنے لگے، پھر بھی کسی فرقے سے تعلق تو ہوگا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْ‌ۚ (آل عِمرَان ۔١٠٣ )
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
دوسری طرف ٹاپ لیڈرز ”اتحاد بین المسلمین“ کی خاطر شیعہ، سنی، دیوبندی، جماعتی، بریلوی سب کے ساتھ ”دینی یکجہتی“ کا کھلے عام ”پیغام“ دے رہے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ٹاپ لیڈرز راہ حق پر پیں یا ان لیڈرز کے عوامی فالوورز۔ دونوں بیک وقت تو نہیں ہوسکتے۔
وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْ‌ۚ (آل عِمرَان ۔١٠٣ )
اسکا کیا مطلب ہے ؟ حبل اللہ کا مطلب پاکستان ہے ؟ تو پھر ہنددوں، عیسائیوں،سکھوں نے کیا جرم کیا ہے ؟ ان کو بھی اکٹھے کر لیں ؟
ابن العربی رحمہ اللہ کی تفسیر أحكام القرآن لابن العربي میں اس آیت کی تفسیر دیکھیے
الآية السادسة عشرة قوله تعالى : { واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا واذكروا نعمة الله عليكم إذ كنتم أعداء فألف بين قلوبكم فأصبحتم بنعمته إخوانا وكنتم على شفا حفرة من النار فأنقذكم منها كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تهتدون } فيها أربع مسائل :
المسألة الأولى : الحبل : لفظ لغوي ينطلق على معان كثيرة ; أعظمها السبب الواصل بين شيئين . وهو هاهنا مما اختلف العلماء فيه ; فمنهم من قال : هو عهد الله ، وقيل : كتابه ، وقيل : دينه .
وقد روى الأئمة في الصحيح أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر له حديث رؤيا الظلة التي تنطف عسلا وسمنا ، وفيه قال : { ورأيت شيئا واصلا من السماء [ ص: 381 ] إلى الأرض } الحديث إلى آخره ، وعبر الصديق بحضرته عليه السلام فقال : وأما السبب الواصل من السماء إلى الأرض فهو الحق الذي أنت عليه ، فضرب الله تعالى على يدي ملك الرؤيا مثلا للحق الذي بعث به الأنبياء بالحبل الواصل بين السماء والأرض ، وهذا لأنهما جميعا ينيران بمشكاة واحدة .
المسألة الثانية : إذا ثبت هذا فالأظهر أنه كتاب الله ، فإنه يتضمن عهده ودينه .

تفسیر سے واضح ہے کہ حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی کتاب اللہ ہے-
تو کیا وطنی اتحاد میں لوگ کتاب اللہ پر اکٹھے ہوتے ہیں یا وطن پر ؟

ابھی پرسوں ہی کی بات ہے کہ ایک اہل حدیث مکتبہ میں کتب کی خریداری کے لئے گیا۔ کتب کی فہرست طلب کی تاکہ منتخب کتب خرید سکوں۔ ابتدائی گفت و شنید میں ہی کتب فروش فرمانے لگے کہ آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے۔ عرض کیا کہ میں تو صرف اور صرف مسلمان ہوں ۔ کہنے لگے، پھر بھی کسی فرقے سے تعلق تو ہوگا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

تہتر میں سے کسی فرقے سے آپکا انتساب نہیں ؟ کیا فرقہ ناجیہ سے بھی نہیں ؟
کوئی اپسے پوچھے آپ شیعہ ہیں ؟ تو آپ کہیں گے نہیں - تو آپنے شیعہ کے ساتھ اپنا فرق تو کر لیا- شیعہ سے کاٹ کر اپنا ایک فرقہ تو بنا لیا
جو کہے کہ میں صرف مسلمان ہوں اسکا مطلب ہے کہ وہ مسلمانی کے نام پر جتنے فرقے بنے ہوئے ہیں ان سب کو صحیح مانتا ہے
اب سوال یہ ہے کہ پھر میں کس فرقے سے انتساب کروں ؟ اگر آپ اہلسنت و الجماعت کا نام نہیں لینا چاہتے تو یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ میں اس فرقے سے تعلق رکھتا جو صرف کتاب و سنت کو مانتا ہے
نوٹ : اپنا انتساب کسی فرقے سے کرنا ایک علیحدہ مسئلہ ہے اور باطل فرقوں سے کس قسم کا تعامل ہونا چاہیے یہ علیحدہ مسئلہ ہے- اس دوسرے مسئلہ کو اس تھریڈ میں مکس نہ کریں- اگر اس پر بات کرنی ہے تو علیحدہ تھریڈ بنا لیں
اس تھریڈ میں صرف جناح پر بات ہو رہی ہے۔

میں نے جو لکھا تھا "وہ جو بھی تھا اہلحدیث کا بہرحال اس سے کوئی تعلق نہیں تھا الحمد للہ " اسکی ایک تاویل یہ بھی تو ہو سکتی تھی کہ الحمد للہ کسی اہلحدیث عالم کا جناح کی گمراہیوں میں کوئی حصہ نہیں تھا، آپ معاملے کو دوسری طرف لے گئے

باقی آپنے صرف اہلحدیث کے مسئلے پر خامہ فرسائی کی ہے کیا آپ میری باقی باتوں کو تسلیم کرتے ہیں ؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اسکا کیا مطلب ہے ؟ حبل اللہ کا مطلب پاکستان ہے ؟ تو بھی ہنددوں، عیسائیوں،سکھوں نے کیا جرم کیا ہے ؟ ان کو بھی اکٹھے کر لیں ؟
ابن العربی کی تفسیر أحكام القرآن لابن العربي اس آیت کی تفسیر دیکھیے
الآية السادسة عشرة قوله تعالى : { واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا واذكروا نعمة الله عليكم إذ كنتم أعداء فألف بين قلوبكم فأصبحتم بنعمته إخوانا وكنتم على شفا حفرة من النار فأنقذكم منها كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تهتدون } فيها أربع مسائل :
المسألة الأولى : الحبل : لفظ لغوي ينطلق على معان كثيرة ; أعظمها السبب الواصل بين شيئين . وهو هاهنا مما اختلف العلماء فيه ; فمنهم من قال : هو عهد الله ، وقيل : كتابه ، وقيل : دينه .
وقد روى الأئمة في الصحيح أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر له حديث رؤيا الظلة التي تنطف عسلا وسمنا ، وفيه قال : { ورأيت شيئا واصلا من السماء [ ص: 381 ] إلى الأرض } الحديث إلى آخره ، وعبر الصديق بحضرته عليه السلام فقال : وأما السبب الواصل من السماء إلى الأرض فهو الحق الذي أنت عليه ، فضرب الله تعالى على يدي ملك الرؤيا مثلا للحق الذي بعث به الأنبياء بالحبل الواصل بين السماء والأرض ، وهذا لأنهما جميعا ينيران بمشكاة واحدة .
المسألة الثانية : إذا ثبت هذا فالأظهر أنه كتاب الله ، فإنه يتضمن عهده ودينه .

تفسیر سے واضح ہے کہ حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی کتاب اللہ ہے-
تو کیا وطنی اتحاد میں لوگ کتاب اللہ پر اکٹھے ہوتے ہیں یا وطن پر ؟
لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ۔ ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیا اللہ کے نبی ﷺ کی بجائے کسی دوسرے کو قائداعظم کہنا صحیح ہے یا غلط ؟
قسط- ٥ :
پاکستان کے پہلے وزیر قانون اور وزیرخارجہ کون تھے ؟؟
پروگرام کے شروع میں ایک مولانا صاحب تلاوت کے لیے اٹھے ان کو جناح صاحب نے ڈانٹ پلائی وہ کون تھے؟؟؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
  1. پاکستان کے پہلے زیر خارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی تھے۔ تحریک پاکستان کے سرکردہ لیڈروں میں آغاخانی ،شیعہ اور انگریزیوں کے بنائے ہوئے نواب ابن نواب بھی تھے۔ پاکستان “انہی لوگوں” نے بنایا تھا ۔ اور کوئی سوال؟
  2. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قائد اعظم کب اور کس نے کہا ہے؟ اور قرآن و حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ: اللہ کے نبی ﷺ کی بجائے کسی دوسرے کو قائداعظم کہنا غلط ہے ؟
 
Top