• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا قائد اعظم سیکولر تھے ۔ از ڈاکٹر صفدر محمود

جواد

رکن
شمولیت
اپریل 16، 2011
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
42
قاری صاحب کی بات سے سو فیصد اتفاق۔ مگر جہاں لوگوں کا رجحان عمارت تعمیر کرنے والے کے مقصد کی طرف ہو، تو اس کو مطلقا ترک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے اصلا تو ہمیں اس دنیا اور کائنات کے بنانے والے کے مقصد کی طرف زیادہ غور کرنا چاہیے کہ وہ اس کا اس دنیا کو بنانے کا کیا مقصد تھا؟ اور یقینا پاکستان بھی اسی کا دیا ہوا ہے، اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس نے کیوں دیا تھا؟ جو لوگ اسے قائد کا دیا ہوا سمجھ رہے ہیں تو (کیا یہ کھلا شرک نہیں؟)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
قائداعظم کی قرآن پاک سے رغبت۔
ڈاکٹر صفدر محمود کے قلم سے​

اکثر محفلوں میں یہ سوال پوچھا جاتاہے کہ قائداعظمؒ کی تقاریر میں جابجا قرآن حکیم سے رہنمائی کا ذکر ملتا ہے۔ کیا انہوں نے قرآن مجید پڑھاہوا تھا اور کیا وہ قرآن مجید سے رہنمائی لیتے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہےتو اس کےشواہد یا ثبوت دیجئے۔ رضوان احمد مرحوم نے گہری تحقیق اور محنت سے قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی سالوں پر کتاب لکھی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے قائداعظم ؒ کے قریبی رشتے داروں کے انٹرویو بھی کئے۔ رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظمؒ کو بچپن میں قرآن مجید پڑھایا گیا جس طرح سارے مسلمان بچوں کو اس دور میں پڑھایا جاتا تھا۔ وزیرآباد کے طوسی صاحب کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا اور وہ اعلیٰ درجے کی انگریزی لکھتے تھے۔ قیام پاکستان سے چند برس قبل انہوں نے بڑے جوش و خروش سے پاکستان کے حق میں نہایت مدلل مضامین لکھے جو انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ملازمت کے سبب طوسی صاحب نے یہ مضامین قلمی نام سے لکھے تھے۔ قائداعظمؒ ان کے مضامین سے متاثر ہوئے اور انہیں ڈھونڈ کر بمبئی بلایا۔ قائداعظم ان سے کچھ کام لینا چاہتے تھے

چنانچہ طوسی صاحب چند ماہ ان کے مہمان رہے جہاں وہ دن بھر قائداعظم ؒ کی لائبریری میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ قائداعظمؒ کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی انگریزی تراجم، اسلامی و شرعی قوانین، اسلامی تاریخ اور خلفائے راشدین پر اعلیٰ درجے کی کتب موجود تھیں اور وہ اکثر سید امیر علی کا قرآن کا ترجمہ شوق سے پڑھاکرتے تھے۔ انہیں مولاناشبلی نعمانی کی ''الفاروق'' کا انگریزی ترجمہ بھی بہت پسند تھا جس پر کئی مقامات پر قائداعظمؒ نے نشانات لگا رکھے تھے۔ کئی دہائیاں قبل طوسی صاحب کے مضامین لاہور کے ایک معاصر اخبار میں شائع ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا یا نہیں۔

اس حوالے سے عینی شاہدین کی یادیں ہی بہترین شہادت ہوسکتی ہیں۔ ایک روز میں جنرل محمد اکبر خان، آرمی پی اے نمبر Iکی سوانح عمری ''میری آخری منزل'' پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک دلچسپ اور چشم کشا واقعہ نظر سےگزرا۔ جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ جن دنوں قائداعظم ؒ زیارت میں بیماری سے برسرپیکار تھے انہوں نے جنرل اکبر اور ان کی بیگم کو تین دن کے لئے زیارت میں بطور مہمان بلایا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔ جنرل اکبر 25جون 1948 کو وہاں پہنچے ان کی قائداعظمؒ سے کئی ملاقائیں ہوئیں۔ ایک ملاقات کاذکر ان کی زبانی سنئے۔

''ہمارے افسروں کے سکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔ میں نے قائداعظمؒ سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کااعلان فرمائیں۔ قائداعظمؒ نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حکم دیا کہ ''میرا کانفیڈریشن باکس لے آئو''جب بکس آ گیا تو قائداعظمؒ نے چابیوں کاگچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اوراسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ'' شراب و منشیات حرام ہیں'' کچھ تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا۔ قائداعظمؒ نے ایک مسودہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دے کر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر اپنےایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا۔ میں نے قائداعظمؒ سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ہم نے دفاعی نقطہ نظر پر ریسرچ شروع کردی ہے اور کچھ موادبھی جمع کرلیا ہے۔ قائداعظمؒ نے اس تحریک کو پسند فرمایا۔ ہماری ہمت افزائی ہوگئی۔ '' (صفحہ 282-281)

اس حوالے سے ایک عینی شاہد کاا ہم انٹرویو منیر احمد منیر کی کتاب ''دی گریٹ لیڈر'' حصہ اول میں شامل ہے۔ یہ انٹرویو عبدالرشید بٹلر کا ہے جو ان دنوں گورنر ہائوس پشاور میں بٹلر تھا جب قائداعظمؒ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہائوس پشاور میں قیام کیا۔ انٹرویو کے وقت عبدالرشید بٹلر بوڑھا ہو کر کئی امراض میں مبتلا ہوچکا تھا ۔ اس عینی شاہد کا بیان پڑھئے اور غور کیجئے ''میری ڈیوٹی ان کے کمرے پر تھی اور قائداعظمؒ کے سونے کے کمرے کے سامنے میرا کمرہ تھا اس لئے کہ جب وہ گھنٹی بجائیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں فوراً پہنچ جائوں۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز طلب کی ؟
جواب:اس اثنا میں انہوں نے کبھی پانی اور کبھی چائے مانگی۔
سوال: جب آپ ان کے لئے پانی چائے لے کر گئے وہ کیا کر رہے تھے؟
جواب: وہ بیٹھے خوب کام کر رہے تھے ۔دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نےآرام نہیں کیا۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے۔ میں نےخود دیکھا کہ انگیٹھی (مینٹل پیس) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے،اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے۔
سوال: قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، رو پڑتے ہیں اس دوران کوئی دعا بھی مانگتے تھے؟
جواب: میری موجودگی میں نہیں۔
سوال: اس موقع پر ان کا لباس ؟
جواب: شلوار اچکن۔ سوال:لیکن میں نے جو سنا ہے کہ رات گئے ان کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی۔ شبہ ہوا کوئی سرخ پوش نہ کمرے میں گھس آیا ہو؟
جواب:اسی رات۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہائوس کا سناٹا چیرنے لگی۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہرائو تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائداعظمؒ کے کمرے سے آرہی تھی۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی در شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی۔ اس سے اندر کی موومنٹ دیکھی جاسکتی تھی۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی پر رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوئوں سے تر ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پائوں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے۔ اس دوران میں وہ کوئی دعابھی مانگ رہے تھے۔'' (صفحات 239-40)

غور کیجئے جنرل اکبر سے گفتگو کے دوران بکس منگوانا اوراس سے قرآن مجیدنکالنا کا مطلب ہے قائداعظمؒ قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے تھے اور پھر فوراً نشان زدہ صفحہ نکالنے کا مطلب ہے وہ قرآن حکیم پڑھتے، غور کرتے اور نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ یہی باتیں عبدالرشید بٹلر نے بھی بتائیں جہاں تک شراب پر پابندی کا تعلق ہے قائداعظمؒ نے 27جولائی1944کو ہی راولپنڈی کی ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں اعلان کردیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی'' (بحوالہ قائداعظمؒ کے شب و روز، خورشید احمد خان مطبوعہ مقتدرہ قومی اسلام آباد صفحہ 10)

یہی وہ بات ہے جس سے روشن خیال بدکتے اور پریشان ہو کر سیکولرزم کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ قائداعظمؒ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ وہ وہی کہتے جوخلوص نیت سے محسوس کرتے اور جس پر یقین رکھتے تھے۔ 19اگست 1941کو ایک انٹرویو میں قائداعظم ؒ نے کہا ''میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ تصور محدود نہیں ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ماہر دینیات، البتہ میں نے قرآن مجید اوراسلامی قوانین کامطالعہ کیاہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا ہے۔کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات سے باہرہو۔''(گفتار ِقائداعظمؒاحمد سعید صفحہ 261)

قائداعظمؒ نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور قرآن حکیم پر غور کا ذکر سینکڑوں مرتبہ کیاا ور اگر وہ قرآن مجید کا مطالعہ اوراس پر غور کرنے کے عادی نہ ہوتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے۔ 12جون 1938کو انہوں نےجو کہا اسے وہ مرتے دم تک مختلف انداز سے دہراتے رہے ۔ان کے الفاظ پر غور کیجئے ۔مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔ (ہفت روزہ انقلاب 12جون 1938ب حوالہ احمد سعید صفحہ 216)

قرآن فہمی کا فیض ہوتا ہے روشن باطن، جوابدہی کاخوف اور زندہ ضمیر۔ قائداعظمؒ نے ایک بار اپنے باطن کو تھوڑا سا آشکارہ کیا۔ ان الفاظ میں اس کی جھلک دیکھئے اور محمد علی جناح قائداعظم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آل انڈیامسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے(انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 بحوالہ احمد سعید صفحہ 233)

قائداعظمؒ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ روشن باطن، زندہ ضمیر، اسلام اورمسلمانوں سے محبت اور خوف ِ الٰہی قرآ ن فہمی ہی کا اعجاز تھا اور مسلمانان ہند و پاکستان کتنے خوش قسمت تھے جنہیں ایسا رہنما ملا۔ اسی لئے تو اقبالؒ، جیسا عظیم مسلمان فلسفی، مفسر قرآن اور زندہ کلام کاشاعر قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتا تھا۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل ہندو تھے؛اسلامی ریاست کا اساسی اور اہم ترین عہدہ انھیں کیوں کر دے دیا گیا ؟یا یہ بھی جائز ہے؟؟بہ راہ کرم اسلام کو اس کے ساتھ نتھی نہ کریں؛میرے خیال میں وہ مسلمانوں کا الگ وطن ضرور چاہتے تھے تاکہ ان کے معاشی مفادات کا تحفظ ہو سکے،لیکن صحیح معنوں میں اسلامی ریاست کا قیام شاید ان کے پیش نظر تھا ہی نہیں۔
پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”اہل حدیث علماء“ نے ”کس پاکستان“ کے لئے قربانیاں دی تھیں۔ کیا ان کا ”تحریک پاکستان“ الگ تھا یا یہ بھی حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں برپا ہونے والی تحریک پاکستان میں شامل تھے ؟
untitled.GIF
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”اہل حدیث علماء“ نے ”کس پاکستان“ کے لئے قربانیاں دی تھیں۔ کیا ان کا ”تحریک پاکستان“ الگ تھا یا یہ بھی حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں برپا ہونے والی تحریک پاکستان میں شامل تھے ۔


مکرم من ! بات جناح صاحب کے ذاتی نظریات کی ہو رہی ہے کہ ان کا نظریہ کیا تھا؛علما اور عوام کی بڑی اکثریت نےتو بلا شبہہ اسلامی ریاست کے قیام ہی کے لیے قربانیاں دی تھیں،جیسا کہ بیان میں بھی ہے کہ ملک اسلام کے نام پر بناتھا لیکن کیا علما کے پیش نظرایسی اسلامی ریاست تھی جس میں ہندو ،مسلم اور عیسائی سیاسی اعتبار سے یک ساں حیثیت کے مالک ہوں اور عدل و قضا سے لے کر حکومت و وزارت تک ہر معاملے میں مساوی طور پر شریک ہوں؟؟؟ کسی ایک عالم سے بھی اآپ اس کی تائید و توثیق دکھا سکتے ہیں؟؟
میں نے اب ارادہ کر لیا ہے کہ اس پر مفصل لکھوں گا ،ان شا ءاللہ ،سردست چند اشارات پر اکتفا کرتا ہوں:
میری نظر میں جناح صاحب سیکولر تھے ،اس پر جو لوگ متوحش ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیکولرازم سے مراد مذہب کا انکار یا مذہب بے زاری لیتے ہیں حالاں کہ یہ غلط فہمی ہے؛سیکولرازم کے کئی شیڈز ہیں ،انکار مذہب یا دین کی تحقیر کا رویہ آخری درجہ ہے۔مذہب کے دائرہ ٔ کار کو انتہائی محدود کر دینا بھی سیکولرازم ہے بل کہ اس کا اصل مفہوم ہی یہ ہے کہ امورسیاست وریاست اور آئین وقانون کے معاملات کو مذہب سے علاحدہ کر دیا جائے؛اس میں بھی یہ ضروری نہیں کہ کلی علاحدگی کا نظریہ ہو بل کہ مذہب کی اصل حیثیت کو کم کردینا بھی سیکولرازم ہی کہلائے گا؛اس اعتبار سے غور کریں تو جناح صاحب سیکولر ہی قرار پاتے ہیں،چناں چہ :
ایک طرف وہ اسلام کا نام لیتے ہیں اور دوسری طرف وہ یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ یہاں سیاسی اعتبار سے کوئی ہندو ،ہندو نہیں اور مسلمان ،مسلمان نہیں رہے گا اور یہ کہ مذہب ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے!! یہ سیکولرازم نہیں تو اور کیا ہے؟؟
پھر عملاً جب وہ اسلامی ریاست کے سربراہ بن جاتے ہیں تو سیکولرازم کا عملی نفاذ یوں کرتے ہیں کہ ہندوؤں اور قادیانیوں کو ریاست کے اساسی ترین مناصب(قانون اور امور خارجہ) پر فائز کر دیتے ہیں،کیا اسلامی ریاست میں ایسا ممکن ہے؟؟پوری اسلامی تاریخ اور قرآن و حدیث یا ذخیرۂ فقہ واجتہاد میں سے اس کی نظیر مل سکتی ہے؟ حضرت عمرؓ کے کسی گورنر نے ،جو خود بھی صحابی تھے ،ایک مرتبہ کسی عیسائی کو کاتب (سیکرٹری )رکھ لیا تو امیرالمومنین نے اس سے منع کردیا کہ یہ قرآن کی رو سے جائز ہی نہیں،یہ کیسی اسلامی ریاست ہے جہاں مشرک وکافر ہندو وزیرقانون بن جاتا ہے؟!!
ظاہر ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ جناح صاحب ان معاملات میں مذہب کے عمل دخل کے قائل ہی نہ تھے ،اب آپ ہی فرمائیں کہ اگر یہ سیکولرازم نہیں تو پھر وہ آخر کس چڑیا کا نام ہے؟؟
اس سلسلے میں جناح صاحب کے جتنے بھی بیانات یا تقاریر اسلامی قانون کے نفاذ کے حق میں پیش کی جاتی ہیں ،ان میں جناح صاحب کے پیش نظر اسلامی قانون و شریعت کا یہی سمٹا ہوا اور محدود سا تصور ہوتا ہے جو ان کے سیکولر ہونے کے منافی نہیں۔
ہمارے یہاں جب بھی یہ بحث ہوتی ہے تو خلط مبحث پیدا ہوجاتا ہے ؛کچھ لوگ جناح صاحب کو ملحد اور منکر مذہب سیکولر کے طور پر پیش کرتے ہیں تو ان کے جواب میں بعض لوگ مذہب کے حق میں ان کے اقوال وارشادات کو پیش کرکے انھیں پکا اسلامی مفکر یا مذہبی جوش سے لبریز رہ نما ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛یہ دونوں ہی رویے افراط وتفریط پر مبنی ہیں،عدل واعتدال کی راہ وہی ہے جس کی نشان دہی اوپر کی گئی ۔
آخر میں یہ اشارہ بھی مناسب ہو گا کہ میں جناح صاحب کو ایک دیانت دار ،ذہین ، جفاکش اور مستقل مزاج سیاسی لیڈر سمجھتا ہوں جنھوں نے ایک بڑی تحریک کی کام یابی سے قیادت کرتے ہوئے اپنا ہدف و مقصد حاصل کر کے دم لیا اور کسی موڑ پرمداہنت یا بزدلی کا ہر گز مظاہرہ نہیں کیا۔
امید ہے میری گزارشوں پر ٹھنڈے دل سےزحمت غور وفکر گوارا فرمائیں گے۔والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جواب شکوہ
قومی جھوٹ بولنے والے...ذراہٹ کے…یاسر پیر زادہ
پچھلے دنو ں ایک سینئر کالم نگار کا کالم نظر سے گزرا جس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ قائد اعظمؒ کی 11اگست 1947کی شہرہ آفاق تقریر کا کوئی وجود نہیں ،جو ’’دلائل‘‘ انہوں نے اس ضمن میں دئیے وہ کچھ یوں تھے کہ انہوں نے 12اگست کا سول اینڈ ملٹری گزٹ دیکھا ہے جس میں 11اگست کی اسمبلی کی کارروائی کی انتہائی مختصر روداد چھپی تھی اور قائد اعظمؒ کے حوالے سے فقط چند رسمی جملے شائع ہوئے تھے اوران فقروں کا کوئی تذکرہ نہ تھا جو بڑے زور و شور سے بیان کئے جاتے ہیں ،دوسری دلیل انہوںنے یہ بیان فرمائی کہ مذکورہ اخبار کا پہلا شمارہ 15اگست 1947کو شائع ہوا اور یوں وہ تین دن پہلے کی تقریر کیسے چھاپ سکتا تھا (اس بات کا پتہ چلنے کے بعد انہیں ہنسی بھی بہت آئی)،تیسری دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اس تقریر کی کوئی ریکارڈنگ یا ہینڈ آئوٹ کسی جگہ میسر نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ تقریر کا کوئی وجود نہیں ،اور اب ان کی ’’تحقیق‘‘ جاری ہے کہ 11اگست کی تقریر کس نے تخلیق کی اور کس نے اس جھوٹ کو عام کیا؟ان کے بقول یہ ایک قومی جھوٹ ہے جو بولا گیا ہے۔
کالم نگار چونکہ مجھ سے(ہر لحاظ سے) سینئر ہیں اس لئے نہایت احترام سے ان کی خدمت میں گذارش ہے کہ اپنے دفتر لاٹ صاحب سے باہر نکلیں اور ایک سالم تانگہ ہائر کریں ،کوچوان کو کہیں کہ انہیں پنجاب اسمبلی لے جائے،مجھے یقین ہے کہ ان کی رعب دار شخصیت کو دیکھ کر کوئی مائی کا لعل ٹریفک وارڈن تانگے کو مال روڈ پر نہیں روکے گا ،ویسے بھی ان کے قبضے میں ایک جلالی قسم کے بزرگ ہیں جو گاہے بگاہے موصوف کے ’’تھرو‘‘ اس قوم کو عذاب کی ’’بشارتیں‘‘ دیتے رہتے ہیں ،لہٰذا اگر کوئی گستاخ تانگے کو روکنے کی کوشش کرے گا تو خود ہی جل کر بھسم ہو جائے گا۔پنجاب اسمبلی کے دروازے پر پہنچ کر کوچوان کو وہیں رکنے کا حکم دیں اور خود اسمبلی کے اندر تشریف لے جائیں ،اسمبلی کی لائبریری میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کی تقاریر کا سرکاری ریکارڈ موجود ہے ،اس ریکارڈ کی پہلی جلد میں قائد اعظم ؒکی یہ پوری تقریر انہیں مل جائے گی، قانون ساز اسمبلی کی یہ سرکاری رپورٹ، منیجر پبلیکیشنز حکومت پاکستان ،کراچی نے 1947میں شائع کی اور اس وقت اس کی قیمت پانچ آنہ تھی جو اس دستاویز پر درج ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ سرکاری دستاویز قائد اعظمؒ کی زندگی میں ہی شائع ہو چکی تھی اور مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ قائد کی تقریر کے دوران اسمبلی کے اراکین نے جہاں جہاں تالیاں بجائیں اس کا ذکر بھی ملتا ہے ۔اس دستاویز کا عکس فدوی کے پاس محفوظ ہے اور اب قوم کے وسیع تر مفاد میں اس عاجز نے اسے
www.facebook.com/yasir.pirzada1
پر اپ لوڈ بھی کر دیا ہے ۔جب میرے محترم کالم نگار اپنی پاکباز آنکھوں سے خود یہ دستاویز دیکھ لیں تو فوراً ایک گلاس ٹھنڈا پانی پئیں ،اور اسی سالم تانگے سے اپنے دفتر واپس آ جائیں ۔یوں تو ان کے اپنے دفتر میں بھی یہ سارا ریکارڈ موجود ہے ،مگرانہوں نے غالباً اپنے دفتر کو اس قابل نہیں سمجھا کہ تحقیق کا آغاز وہاں سے کیا جائے۔اس سارے عمل سے فراغت کے بعد اگر وہ چاہیں تو سیکرٹریٹ تا پنجاب اسمبلی سفر کا ٹی اے ڈی بل اس عاجز کو بھجوا سکتے ہیں، میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہو کر reimburse کر دوں گا۔
جہاں تک موصوف کے ’’دلائل ‘‘ کا تعلق ہے کہ چونکہ انہیں یہ تقریر فلاں فلاں اخبار میں نہیں ملی لہٰذا اس کا وجود ہی نہیں ،اس بارے میں عرض یہ ہے کہ مغالطے کی ایک شکل ہوتی ہے جسے انگریزی میں hasty generalizationیا شتابی چھلانگ کہا جاتا ہے ،مثلاً میں پچھلے برس امریکہ گیا ،مجھے کسی نے بتایا تھا کہ امریکی صدر واشنگٹن میں رہتا ہے ،چنانچہ میں واشنگٹن چلا گیا تاکہ اس دعویٰ کی تصدیق ہو سکے ،مگر واشنگٹن کی تمام مرکزی شاہراہوں پر مٹر گشت کرنے کے باوجود مجھے صدر اوبامہ کہیں نظر نہیں آیا،پھر کسی نے بتایا کہ وہ وہائٹ ہائوس میں رہتا ہے ،میں وہاں بھی گیا ،مگراوبامہ نہیں ملا،حتیٰ کہ میں نے وہائٹ ہائوس کے اندر واقع اس کے اوول آفس میں بھی جھانک کر دیکھا مگر اوبامہ وہاں بھی موجود نہیں تھا،پس ثابت ہوا کہ اوبامہ نام کے صدر کا کوئی وجود نہیں، یہ دراصل یہودیوں کی سازش ہے ،وہ دنیا کو بیوقوف بنانے کے لئے ایک کالی رنگت کے شخص کو ٹی وی پر دکھاتے رہتے ہیں حالانکہ ایسا کوئی شخص امریکہ میں نہیں ،میں تو اوول آفس تک سے ہو کرآ چکا ہوں۔اسی طرح موصوف نے بھی شتابی چھلانگ لگائی اور فرمایاکہ قائد اعظمؒ کی تقریر چونکہ سول اینڈ ملٹری گزٹ یا ڈان وغیرہ میں شائع نہیں ہوئی اور انہیں اس کا کوئی ہینڈ آئوٹ بھی نہیں ملا لہٰذ ثابت ہوا کہ تقریر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین ساز اسمبلی کی کارروائی جس میں قائدؒ کی تقریر کی مفصل رپورٹنگ ہے، اگلے روز کے The Hinduمیں شائع ہوئی اور اس دستاویز کو بھی خاکسار نے اپنے فیس بک پیج پر اپ لوڈ کر دیا ہے ۔
میں کوئی مذہبی عالم ہوں نا پارسائی کا دعویدار ،مجھے اپنے کالموں کو ہیجان انگیز طریقے سے بیچنے کا فن آتاہے اور نہ ہی مذہبی جذبات بھڑکا کر لوگوں کو مشتعل کرنے میں لذت محسوس کرتا ہوں ،البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ خدا اور اس کے رسولﷺ نے جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے والوں کے بارے میں کس قدر سخت الفاظ استعمال کئے ہیں ،مجھے یقین ہے کہ موصوف نے بھی جھوٹوں کے بارے قرانی آیات اور احادیث پڑھ رکھی ہوںگی ،لہٰذا اب ان پر واجب ہے کہ توبہ کریں اور کھلے دل کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کریں ،اور آئندہ اس قسم کی ’’تحقیقی‘‘ بد دیانتی سے پرہیز فرمائیں ۔یہاں ایک نوٹ کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ اب تک موصوف نے جتنی بھی خود ساختہ تھیوریاں نام نہاد تاریخی حوالوں کی مدد سے وائرس کی طرح پھیلائی ہیں ، ان سب کے آگے اب ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے لہٰذاجس قطعیت اور حتمی لب و لہجے کے ساتھ وہ گفتگو فرماتے رہے ہیں ،آئندہ اس سے اجتناب برتیں اور کسی دوسرے کو جاہل اورجھوٹا کہنے سے پہلے اپنے نظریات کی اچھی طرح پڑتال کر لیں ایسا نہ ہو کل کو دوبارہ کوئی سر پھرا اٹھ کر انہیں پنجاب اسمبلی کا راستہ دکھا دے ۔
اور آخر میں قائدؒ کی اس تاریخی تقریر سے کچھ اقتباسات جو روز اول سے ہمارے ان دانشوروں کے سینوں پر مونگ دل رہی ہے :’’ اب آپ آزاد ہیں؛ آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں ؛آپ اِس مملکت پاکستان میں اپنی مسجدوں یا عبادت کی دیگر جگہوں پر جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدے سے ہو سکتا ہے، مگر کاروبار ریاست کو اِس سے کوئی سروکار نہیں۔(تالیاں)… ہم اُن حالات میں آغاز کر رہے ہیں جب کوئی امتیازی رویہ ، کسی ایک یا دوسری کمیونٹی کے خلاف کوئی تفاوت اور کسی ایک یا دوسری ذات یا عقیدے کے خلاف کوئی جانبدارانہ رویہ موجود نہیں۔ ہم اِس بنیادی اُصول کے ساتھ آغاز کر رہے ہیں کہ ہم ایک ہی ریاست کے شہری اور یکساں حیثیت رکھنے والے شہری ہیں۔ ‘‘(زور دار تالیاں)… آپ کو پتا چلے گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا؛مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے،بلکہ سیاسی معنوں میں ریاست کے شہری کے طور پر۔… اِنصاف اور مکمل غیر جانبداری میرے راہنما اُصول رہیں گے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی مدد اور تعاون کی بدولت میں پاکستان کو دُنیا کی عظیم ترین قوموں میں سے ایک بننے کی اُمیدرکھ سکتا ہوں۔(زور دار تالیاں)۔‘‘ہور کی حال اے!


بشکریہ اخبار جنگ
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں روشن خیال معاشرے کے قیام کےلیے جدوجہد کر رہے ہیں ، اقتدار میں آئے تو آئین میں ترمیم کر کے اقلیت کا لفظ نکال دیں گے۔
کراچی: (دنیا نیوز) اے پی ایم ایس او کے چھتیسویں یوم تاسیس پر ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ ایم کیو ایم ہر قسم کے تشدد کے خلاف ہے اور ملک میں امن چاہتی ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا تمام شہریوں کو یک ساں حقوق حاصل ہیں ۔ ایم کیو ایم اقتدار میں آئی تو آئین میں ترمیم کر کے لفظ اقلیت ختم کر دیں گے ۔ الطاف حسین نے کہا کہ انھوں نے ہمیشہ کارکوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ تشدد سے نفرت اور امن سے محبت کرتی ہے ۔ انھیں پہلے بھی جھوٹے مقدمات میں کئی بار گرفتار کیا گیا ۔ اب بھی تمام مقدمات جھوٹے ہیں کارکن ہمت نہ ہاریں ۔ الطاف حسین نے کہا کہ وہ پاکستان میں روشن خیال معاشرے کے قیام کےلیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ امریکا ، برطانیہ ہو یا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہو وہ ان کا سرکاٹ سکتے ہیں ، جھکا نہیں سکتے ۔ انھوں نے کارکنوں کو یقین دلایا کہ وہ کبھی نہیں جھکیں گے۔(حوالہ)
@یوسف ثانی ! جناح صاحب کے بیان سے یہ استدلال بنتا تو ہے،کیا خیال ہے؟؟
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”اہل حدیث علماء“ نے ”کس پاکستان“ کے لئے قربانیاں دی تھیں۔ کیا ان کا ”تحریک پاکستان“ الگ تھا یا یہ بھی حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں برپا ہونے والی تحریک پاکستان میں شامل تھے ؟
7645 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
مکرم من ! بات جناح صاحب کے ذاتی نظریات کی ہو رہی ہے کہ ان کا نظریہ کیا تھا؛علما اور عوام کی بڑی اکثریت نےتو بلا شبہہ اسلامی ریاست کے قیام ہی کے لیے قربانیاں دی تھیں،جیسا کہ بیان میں بھی ہے کہ ملک اسلام کے نام پر بناتھا لیکن کیا علما کے پیش نظرایسی اسلامی ریاست تھی جس میں ہندو ،مسلم اور عیسائی سیاسی اعتبار سے یک ساں حیثیت کے مالک ہوں اور عدل و قضا سے لے کر حکومت و وزارت تک ہر معاملے میں مساوی طور پر شریک ہوں؟؟؟ کسی ایک عالم سے بھی اآپ اس کی تائید و توثیق دکھا سکتے ہیں؟؟
میں نے اب ارادہ کر لیا ہے کہ اس پر مفصل لکھوں گا ،ان شا ءاللہ ،سردست چند اشارات پر اکتفا کرتا ہوں:
میری نظر میں جناح صاحب سیکولر تھے ،اس پر جو لوگ متوحش ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیکولرازم سے مراد مذہب کا انکار یا مذہب بے زاری لیتے ہیں حالاں کہ یہ غلط فہمی ہے؛سیکولرازم کے کئی شیڈز ہیں ،انکار مذہب یا دین کی تحقیر کا رویہ آخری درجہ ہے۔مذہب کے دائرہ ٔ کار کو انتہائی محدود کر دینا بھی سیکولرازم ہے بل کہ اس کا اصل مفہوم ہی یہ ہے کہ امورسیاست وریاست اور آئین وقانون کے معاملات کو مذہب سے علاحدہ کر دیا جائے؛اس میں بھی یہ ضروری نہیں کہ کلی علاحدگی کا نظریہ ہو بل کہ مذہب کی اصل حیثیت کو کم کردینا بھی سیکولرازم ہی کہلائے گا؛اس اعتبار سے غور کریں تو جناح صاحب سیکولر ہی قرار پاتے ہیں،چناں چہ :
ایک طرف وہ اسلام کا نام لیتے ہیں اور دوسری طرف وہ یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ یہاں سیاسی اعتبار سے کوئی ہندو ،ہندو نہیں اور مسلمان ،مسلمان نہیں رہے گا اور یہ کہ مذہب ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے!! یہ سیکولرازم نہیں تو اور کیا ہے؟؟
پھر عملاً جب وہ اسلامی ریاست کے سربراہ بن جاتے ہیں تو سیکولرازم کا عملی نفاذ یوں کرتے ہیں کہ ہندوؤں اور قادیانیوں کو ریاست کے اساسی ترین مناصب(قانون اور امور خارجہ) پر فائز کر دیتے ہیں،کیا اسلامی ریاست میں ایسا ممکن ہے؟؟پوری اسلامی تاریخ اور قرآن و حدیث یا ذخیرۂ فقہ واجتہاد میں سے اس کی نظیر مل سکتی ہے؟ حضرت عمرؓ کے کسی گورنر نے ،جو خود بھی صحابی تھے ،ایک مرتبہ کسی عیسائی کو کاتب (سیکرٹری )رکھ لیا تو امیرالمومنین نے اس سے منع کردیا کہ یہ قرآن کی رو سے جائز ہی نہیں،یہ کیسی اسلامی ریاست ہے جہاں مشرک وکافر ہندو وزیرقانون بن جاتا ہے؟!!
ظاہر ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ جناح صاحب ان معاملات میں مذہب کے عمل دخل کے قائل ہی نہ تھے ،اب آپ ہی فرمائیں کہ اگر یہ سیکولرازم نہیں تو پھر وہ آخر کس چڑیا کا نام ہے؟؟
اس سلسلے میں جناح صاحب کے جتنے بھی بیانات یا تقاریر اسلامی قانون کے نفاذ کے حق میں پیش کی جاتی ہیں ،ان میں جناح صاحب کے پیش نظر اسلامی قانون و شریعت کا یہی سمٹا ہوا اور محدود سا تصور ہوتا ہے جو ان کے سیکولر ہونے کے منافی نہیں۔
ہمارے یہاں جب بھی یہ بحث ہوتی ہے تو خلط مبحث پیدا ہوجاتا ہے ؛کچھ لوگ جناح صاحب کو ملحد اور منکر مذہب سیکولر کے طور پر پیش کرتے ہیں تو ان کے جواب میں بعض لوگ مذہب کے حق میں ان کے اقوال وارشادات کو پیش کرکے انھیں پکا اسلامی مفکر یا مذہبی جوش سے لبریز رہ نما ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛یہ دونوں ہی رویے افراط وتفریط پر مبنی ہیں،عدل واعتدال کی راہ وہی ہے جس کی نشان دہی اوپر کی گئی ۔
آخر میں یہ اشارہ بھی مناسب ہو گا کہ میں جناح صاحب کو ایک دیانت دار ،ذہین ، جفاکش اور مستقل مزاج سیاسی لیڈر سمجھتا ہوں جنھوں نے ایک بڑی تحریک کی کام یابی سے قیادت کرتے ہوئے اپنا ہدف و مقصد حاصل کر کے دم لیا اور کسی موڑ پرمداہنت یا بزدلی کا ہر گز مظاہرہ نہیں کیا۔
امید ہے میری گزارشوں پر ٹھنڈے دل سے غور وفکر کی زحمت گوارا فرمائیں گے۔والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بقول اوریا جان مقبول کے" پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں جوگندر ناتھ منڈل کو اس اسمبلی کا پہلا اسپیکر منتخب کیا گیا "
اب میری یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایک ہندو کس طرح قرآن سے رہنمائی حاصل کرکے اس قانون ساز اسمبلی میں قانون بنانے میں قائداعظم کی مدد کرسکتا تھا جو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کا ایسے اسپیکر منتخب کیا گیا ؟؟؟
 
Top