• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا متقدمین فقہا کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ نے میرے اس قول کی تصدیق فرمادی:

خدا آپ کو جزاےخیر سے نوازے؛کل یعمل علی شاکلتہ
آمین

شاید آپ یہ چاہتے ہوں کہ میں آپ کی بات پڑھتے ہی ان پر مخالف حدیث، کافر اور مشرک کا فتوی لگا دوں تو آپ کی بات میرے لیے قابل احترام ضرور لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔
البتہ اگر آپ کسی دلیل سے یہ ثابت کر دیں کہ مرجوح قول پر عمل نہیں ہو سکتا تو درست ہے۔

ویسے ذرا اس مسئلہ کی تفصیل بھی بیان کر دوں:
امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک جب کسی نے دوسرے سے کہا کہ میں نے فلاں چیز خریدی اور دوسرے نے کہا کہ قبول ہے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے اور اب رد کرنے کا اختیار نہیں رہتا۔
امام شافعیؒ کے نزدیک قبول کرنے کے بعد بھی اسی مجلس میں رد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
اس پر دونوں کا اتفاق ہے کہ قبول کرنے سے پہلے رد کر سکتا ہے۔
اب اگر کوئی شخص ابو حنیفہؒ کے قول پر عمل کرے تو امام شافعیؒ کے قول کے ایک حصے پر عمل باقی رہتا ہے کیوں کہ شافعیؒ بھی قبول سے پہلے رد کے قائل ہیں۔ اور اگر شافعیؒ کے قول پر عمل کرے تو ابو حنیفہؒ کے قول پر عمل باقی نہیں رہتا کیوں کہ وہ قبول کے بعد رد کے قائل نہیں۔
تو ترجیح اگر مذہب شافعی کو بھی ہو تب بھی دونوں اقوال پر عمل کرنا ایک پر عمل کرنے سے بہتر ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
ایک حقیقی مسلمان اور پیغمبراعظمﷺکے سچے امتی کا طریق کار تو یہ ہوتا ہے کہ جب کسی مسئلے میں شریعت کی قوی دلیل اس کے سامنے آجائے ،تو وہ اسی پر عمل کرتا ہے؛وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس کا قول اس کے مخالف ہے اور کس کاموافق ؛وہ ہر حال میں اسی پہلو کو لائق عمل گردانتا ہے،جسے دلیل و برہان کی تائید حاصل ہو؛الحمدللہ اہل حدیث اسی پر عامل ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ
باقی سب کہانیاں ہیں!
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
شاید آپ یہ چاہتے ہوں کہ میں آپ کی بات پڑھتے ہی ان پر مخالف حدیث، کافر اور مشرک کا فتوی لگا دوں۔
میں ہر گز ایسا نہیں چاہتا ؛صرف یہ چاہتا ہوں کہ جب کسی معاملے میں نصوص شریعت کا کوئی پہلو دلائل کی بنیاد پر راجح ہو ،تو اسے تسلیم کرلیں؛تقلید کا عذر کر کے اسے رد نہ کردیں؛یہ درست طرز عمل نہیں؛اللہ ہم سب کو تعصبات سے محفوظ رکھے اور کتاب و سنت کی غیر مشروط پیروی کی توفیق مرحمت فرمائے،آمین۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آپ نے کن قیود و حدود کا ذکر کیا ہے؟
تجربہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد مطلق کی ضرورت نہیں وہ کافی ہے اور جدید مسائل کے لیے کسی حد تک اجتہاد فی المذہب کی ضرورت پیش آئے گی۔
اجتہاد بہ ہر آئینہ اجتہاد ہی ہوتا ہے؛یہ قیود و حدود بھی ارباب تقلید نے دائرہ تقلید کو برقرار رکھنے ہی کی خاطر لگائی ہیں:ما انزل اللہ بھا من سلطان
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آپ اگر کہتے ہیں کہ تقلید کی چنداں ضرورت نہیں تو پھر اسے حل کیجیے۔
اس کے لیے تقلید کی کوئی ضرورت نہیں؛یہ مسئلہ اجتہاد ہی سے حل ہو سکتا ہے۔
ارباب تقلید کے ہاں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ اہل حدیث فقہ کے منکر ہیں؛یہ بھی غلط ہے؛وہ مطلقاً فقہ کے انکاری نہیں،بل کہ اس فقہ کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ،جس میں نصوص قرآن و حدیث کے بجاے غیر معصوم افراد کے اقوال و آرا کو مدار استدلال ٹھیرایا جائے اور صحیح دلائل کو راجح تسلیم کرنے کے باوجود اپنی پسندیدہ شخصیت کے فتوے ہی کو قابل عمل گردانا جائے ۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
کوئی بھی مقلد صحیح صریح غیر متعارض غیر معلول نص کے مقابلے میں کسی کے قول کو ترجیح نہیں دیتا اور نہ ہی ائمہ کے اقوال ایسی نص کے خلاف ملتے ہیں۔ تقلید تب ہی ہوتی ہے جب تھوڑا بھی اجمال یا تعارض وغیرہ پیدا ہونا شروع ہو اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایسے مسائل میں غیر مقلد بھی تقلید کرتے ہیں۔ اور کسی کی نہیں تو اپنے علماء کی۔
تقلید کا تصور کیا ہے آپ کے نزدیک؟اس کی تھوڑی وضاحت کریں؛پھر دیکھیں گے کہ اہل حدیث تقلید کرتے ہیں یا نہیں؟
اچھا جب کبھی تعارض پیدا ہوا تو سب سے پہلے کس نے اس کا حل پیش کیا؟وہ مقلد تھا یا غیر مقلد؟
اگر مقلد تھا تو اس کا مطلب ہے کہ مقلد خود بھی تعارض حل کر سکتا ہے؛پس اسے تقلید کی کیا حاجت؟
اگر وہ غیر مقلد تھا ،تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی دوسرے کی تقلید کے بغیر بھی اس کا حل پیش کر سکتا ہے؛اس صورت میں بھی تقلید کی ضرورت نہ رہی۔
اب رہ گیا وہ عامی جو بالکل استعداد نہیں رکھتا؛وہ علما سے حکم شریعت پوچھ لے،بہ فحواے:فاسئلوا اھل الذکر اور انما شفاء العی السوال
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
کمپنی کے مسئلے میں آپ کی تحقیق کا ابھی تک منتظر ہوں۔ تا کہ مجھے کچھ سمجھ تو آئے کہ آپ کس طرح یہ بات کہنا چاہ رہے ہیں۔
صریح معاملات و احکام میں تقلید تو کوئی بھی نہیں کرتا۔
تو پھر مولانا شبیر احمد عثمانی﷫ نے قرآن کریم کی آیت کریمہ - جس میں دو سال رضاعت کا ذکر ہے - کی تشریح کرتے ہوئے حاشیے میں یہ کیوں کہا؟:

’’دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی باعتبار غالب واکثری عادت کے ہے۔ امام ابو حنیفہ جو اکثر مدت اڑھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔‘‘
حوالہ

انا للہ وانا الیہ راجعون!

سامنے نص صحیح وصریح (آیت کریمہ) موجود ہے جس کی تشریح ہورہی ہے۔ عثمانی صاحب اس کے صریح مخالف قولِ امام ذکر کرتے ہیں۔ لیکن پھر قولِ امام کو ٹھکرانے کی بجائے کہتے ہیں کہ امام صاحب کے پاس اپنے قرآن مخالف موقف کی کوئی دلیل ہوگی؟؟؟

اسے ’تقلید ناسدید‘ کے علاوہ اور کیا کہا جاتا ہے؟؟؟

اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تو پھر مولانا شبیر احمد عثمانی﷫ نے قرآن کریم کی آیت کریمہ - جس میں دو سال رضاعت کا ذکر ہے - کی تشریح کرتے ہوئے حاشیے میں یہ کیوں کہا؟:


حوالہ

انا للہ وانا الیہ راجعون!

سامنے نص صحیح وصریح (آیت کریمہ) موجود ہے جس کی تشریح ہورہی ہے۔ عثمانی صاحب اس کے صریح مخالف قولِ امام ذکر کرتے ہیں۔ لیکن پھر قولِ امام کو ٹھکرانے کی بجائے کہتے ہیں کہ امام صاحب کے پاس اپنے قرآن مخالف موقف کی کوئی دلیل ہوگی؟؟؟

اسے ’تقلید ناسدید‘ کے علاوہ اور کیا کہا جاتا ہے؟؟؟

اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائیں!
محترم انس بھائی آپ تو غالبا علمی شخصیت ہیں۔ کسی رکن نے آپ کو استاد کہا تھا کسی جگہ اس لیے میرا یہ اندازہ ہے۔
اس بات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ عثمانیؒ کو امامؒ کی دلیل مستحضر نہیں ہوگی یا ان کے نزدیک دلیل کی دلالت درست نہیں ہوگی۔
نہ کہ یہ کہ ابو حنیفہؒ کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں تھی۔ اور انہوں نے اس صریح آیت کو جھٹلا دیا۔ ہدایہ میں امام اعظمؒ کی دلیل مذکور ہے:۔
ثم مدة الرضاع ثلاثون شهرا عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا سنتان " وهو قول الشافعي رحمه الله وقال زفر رحمه الله ثلاثة أحوال لأن الحول حسن للتحول من حال إلى حال ولا بد من الزيادة على الحولين لما نبين فيقدر به ولهما قوله تعالى: {وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْراً} [الاحقاف: 15] ومدة الحمل أدناها ستة أشهر فبقي للفصال حولان وقال النبي عليه الصلاة والسلام " لا رضاع بعد حولين " وله هذه الآية ووجهه أنه تعالى ذكر شيئين وضرب لهما مدة فكانت لكل واحد منهما بكمالها كالأجل المضروب للدينين إلا انه قام المنقص في أحدهما فبقي في الثاني على ظاهره
ہدایہ 1۔217 ط دار احیاء التراث العربی
اس کی شرح علامہ بابرتی، علامہ عینی اور محقق ابن ہمام نے یوں کی ہے:۔


ولأبي حنيفة - رحمه الله - هذه الآية) يعني: قوله تعالى {وحمله وفصاله ثلاثون شهرا} [الأحقاف: 15] (ووجهه ما ذكره أن الله تعالى ذكر شيئين) يعني الحمل والفصال، (وضرب لهما مدة) وهو قوله تعالى {ثلاثون شهرا} [الأحقاف: 15] وكل ما كان كذلك كانت المدة لكل واحدة منهما بكمالها كما في الأجل المضروب للدينين مثل أن يقول: لفلان علي ألف درهم وخمسة أقفزة حنطة إلى شهرين، يكون الشهران أجلا لكل واحد من الدينين بكماله إلا أنه قام المنقص في أحدهما: يعني الحمل وهو حديث عائشة: «الولد لا يبقى في بطن أمه أكثر من سنتين ولو بفلكة مغزل» .
العنایہ 3۔442 ط دار الفکر



م: (وله) ش: أي ولأبي حنيفة م: (هذه الآية) ش: يعني قَوْله تَعَالَى: {وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ} [الأحقاف: 15] م: (ووجهه) ش: أي وجه الاستدلال بها م: (أنه ذكر شيئين) ش: يعني الحمل والفصال م: (وضرب لهما مدة) ش: وهو قَوْله تَعَالَى: ثلاثون شهرا، فكل ما كان كذلك م: (فكانت) ش: أي المدة م: (لكل واحدة منهما لكمالها، كالأجل المضروب للدينين) ش: بأن قال: جعلت الدين الذي على فلان، والدين الذي على فلان سنة، يفهم منه تقدير المدة في كل واحد من الدينين
البنایہ 5۔261 ط دار الکتب العلمیہ




ولأبي حنيفة - رحمه الله - هذه الآية. ووجهه أنه سبحانه ذكر شيئين وضرب لهما مدة فكانت لكل واحد منهما بكمالها كالأجل المضروب للدينين على شخصين بأن قال أجلت الدين الذي لي على فلان والدين الذي لي على فلان سنة يفهم منه أن السنة بكمالها لكل، أو على شخص فيقول لفلان علي ألف درهم وعشرة أقفزة إلى سنة فصدقه المقر له في الأجل، فإذا مضت السنة يتم أجلهما جميعا إلا أنه أقام المنقص في أحدهما: يعني في مدة الحمل، وهو قول عائشة - رضي الله عنها -: " الولد لا يبقى في بطن أمه أكثر من سنتين ولو بقدر فلكة مغزل ". وفي رواية: " ولو بقدر ظل مغزل ". ومثله مما لا يقال إلا سماعا؛ لأن المقدرات لا يهتدي العقل إليها وسنخرجه في موضعه إن شاء الله تعالى. وروي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - «الولد لا يبقى في بطن أمه أكثر من سنتين» فتبقى مدة الفصال على ظاهرها
فتح القدیر 3۔443 ط دار الفکر

تو ان سے پتا چلتا ہے کہ امام اعظمؒ کے پاس بھی دلیل ہے اپنے قول کی۔ اگرچہ اس دلیل پر کلام کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ یہ آیت جس میں دو سال کا ذکر ہے صریح تو ہے لیکن غیر معارض نہیں ہے جس کی وجہ سے اس میں عامی کو تقلید کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس مدت میں صرف امام اعظمؒ ہی دو سال سے زائد کے قائل نہیں بلکہ امام مالکؒ بھی دو سال سے زائد کے قائل ہیں۔ ان کے علماء کے مختلف اقوال عینیؒ نے ذکر کیے ہیں۔

اب آخر میں میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہو رہا ہے اگر آپ دور کر دیں؟ احناف کا مفتی بہ قول غالبا دو سال کا ہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس پر یہ اشکال کیوں کیا گیا کہ احناف صریح نص کے خلاف تقلید کر رہے ہیں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
سامنے نص صحیح وصریح (آیت کریمہ) موجود ہے جس کی تشریح ہورہی ہے۔ عثمانی صاحب اس کے صریح مخالف قولِ امام ذکر کرتے ہیں۔ لیکن پھر قولِ امام کو ٹھکرانے کی بجائے کہتے ہیں کہ امام صاحب کے پاس اپنے قرآن مخالف موقف کی کوئی دلیل ہوگی؟؟؟

اسے ’تقلید ناسدید‘ کے علاوہ اور کیا کہا جاتا ہے؟؟؟

اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائیں!
ایک بات ویسے سمجھ نہیں آتی۔ جب ہم امام اعظمؒ کے تقوی اور علم دونوں کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر یہ کیسے سوچیں کہ امام اعظمؒ نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا ہے؟
اور آپ لوگوں کا سارا زور اسی پر کیوں ہوتا ہے کہ ہم اس قسم کے الفاظ ادا کریں "ابو حنیفہ نے قرآن کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔ جاہل کو یہ بھی نہیں پتا کہ قرآن میں کیا ہے اس پر لعنت ہو" وغیرہ؟
بھائی جب ایک مسئلہ میں دلیل نہ پائیں یا کمزور پائیں تو قول کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس کے لیے ان پر تبرا ضروری ہے؟ آپ نے یقینا رفع الملام پڑھی ہوگی لیکن میرے خیال میں مناسب ہوگا کہ آپ اس کی طرف دوبارہ مراجعت فرما لیں۔
ٹھکرانے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے آپ کے خیال میں؟؟
میری کوئی بات سخت لگی ہو تو معذرت لیکن آپ نے عام لوگوں کی طرح کمنٹ دیا تھا اس لیے ایسے عرض کیا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محترم انس بھائی آپ تو غالبا علمی شخصیت ہیں۔ کسی رکن نے آپ کو استاد کہا تھا کسی جگہ اس لیے میرا یہ اندازہ ہے۔
میں ایک طالب علم اور علمائے کرام کا خادِم ہوں۔
رب توفني مسلما وألحقني بالصالحين

اس بات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ عثمانیؒ کو امامؒ کی دلیل مستحضر نہیں ہوگی یا ان کے نزدیک دلیل کی دلالت درست نہیں ہوگی۔
نہ کہ یہ کہ ابو حنیفہؒ کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں تھی۔ اور انہوں نے اس صریح آیت کو جھٹلا دیا۔ ہدایہ میں امام اعظمؒ کی دلیل مذکور ہے:۔
عزیز بھائی! آپ نے شائد توجہ نہیں کی۔ میں نے اپنی پوسٹ میں کہیں نہیں کہا کہ حضرت امام ابو حنیفہ﷫ نے صریح آیت کو جھٹلایا یا ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں تھی۔ جس کا جواب دینے کی آپ نے کوشش کی ہے۔

میں نے اپنی دونوں پوسٹس آپ کے ایک جملے کے جواب میں لکھی تھیں۔ اور جس بات کے جواب میں لکھی تھی اسے ہائی لائٹ بھی کیا تھا۔ (دیکھئے میری پوسٹ نمبر 44 اور 57)

آپ نے کہا تھا:
صریح معاملات و احکام میں تقلید تو کوئی بھی نہیں کرتا۔
میں نے آپ کے اس دعویٰ کے جواب میں دو مثالیں پیش کی ہیں۔ جن میں دونوں حضرات نے صریح نص کو چھوڑ کر تقلید سے کام لیا ہے۔

ايك صاحب کو اقرار ہے کہ خیار مجلس میں امام شافعی﷫ کا موقف نصوص کے مطابق ہے لیکن اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ہم مقلد ہیں ہم پر نبی کریمﷺ کی احادیث کی نہیں، امام ابو حنیفہ﷫ کی تقلید واجب ہے۔

دوسرے مولانا عثمانی﷫ قرآن کریم کی تشریح فرما رہے ہیں رضاعت کے متعلق ایک نہایت صریح آیت کریمہ (جس میں دو سال رضاعت کا ذکر ہے: وفصاله في عامين) کی تشریح کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ﷫ کا قول ذکر کرتے ہیں اور بقول آپ کے انہیں امام صاحب کی دلیل کا پتہ نہیں یا پتہ تو ہے لیکن اس کی دلالت ان کے نزدیک درست نہیں۔ اس سب کے باوجود وہ امام صاحب﷫ کے قول کو ردّ کرکے قرآن کریم پر عمل کرنے کی بجائے قاری کو یہی مغالطہ دیتے ہیں کہ امام صاحب کے پاس اڑھائی سال رضاعت کی کوئی دلیل ہوگی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون!

اللہ تعالیٰ ان کی لغزشیں معاف اور قبریں منوّر فرمائیں اور ہم سب کو کتاب وسنت کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

اب آخر میں میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہو رہا ہے اگر آپ دور کر دیں؟ احناف کا مفتی بہ قول غالبا دو سال کا ہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس پر یہ اشکال کیوں کیا گیا کہ احناف صریح نص کے خلاف تقلید کر رہے ہیں؟
میں نے واضح کر دیا ہے کہ میرا اعتراض امام ابو حنیفہ﷫ یا ان احناف پر نہیں جن کے نزدیک مدت رضاعت دو سال ہے۔ میرا اعتراض مولانا محمود الحسن دیوبندی اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہما اللہ پر ہے۔
 
Top