- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
عزیز بھائی! میں الحمد للہ امام صاحب کے تقویٰ اور علم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اور انہیں اہل سنت کے اساطین اہل علم میں سے ایک جلیل القدر امام مانتا ہوں جس پر شاہد فورم پر بکھری ہوئی میری پوسٹس ہیں، جس پر میرے کچھ ساتھی مجھ سے نالاں بھی ہیں۔ ابتسامہ! البتہ میں انہیں ’امام اعظم‘ کہنے کے حق میں نہیں۔ایک بات ویسے سمجھ نہیں آتی۔ جب ہم امام اعظمؒ کے تقوی اور علم دونوں کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر یہ کیسے سوچیں کہ امام اعظمؒ نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا ہے؟
اور آپ لوگوں کا سارا زور اسی پر کیوں ہوتا ہے کہ ہم اس قسم کے الفاظ ادا کریں "ابو حنیفہ نے قرآن کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔ جاہل کو یہ بھی نہیں پتا کہ قرآن میں کیا ہے اس پر لعنت ہو" وغیرہ؟
بھائی جب ایک مسئلہ میں دلیل نہ پائیں یا کمزور پائیں تو قول کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس کے لیے ان پر تبرا ضروری ہے؟ آپ نے یقینا رفع الملام پڑھی ہوگی لیکن میرے خیال میں مناسب ہوگا کہ آپ اس کی طرف دوبارہ مراجعت فرما لیں۔
ٹھکرانے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے آپ کے خیال میں؟؟
میری کوئی بات سخت لگی ہو تو معذرت لیکن آپ نے عام لوگوں کی طرح کمنٹ دیا تھا اس لیے ایسے عرض کیا۔
شائد میرے الفاظ میں ہی کوئی کمی ہوگی جس سے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی، بہرحال! یہ آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ میں نے کب کہا ہے کہ امام صاحب نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فیصلہ دیا ہے؟؟؟
میں نے امام صاحب کے قول (اڑھائی سالہ مدت رضاعت) کو قرآن کے مخالف کہا ہے کیونکہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر صراحت ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہے۔
اور کسی کا قول اگر قرآن کریم یا حدیث مبارکہ کے صریح مخالف ہو تو میرا نہیں خیال کہ یہ کہنے میں کوئی گستاخی یا کسی پر تبرا ہے کہ فلاں کا قول قرآن کریم یا حدیث مبارکہ کے مطابق نہیں۔
اور اسی طرح میں نے امام صاحب کو نہ ہی جاہل کہا ہے اور نہ ان پر لعنت کی ہے۔
طاہر اسلام صاحب نے ایک کمنٹ دیا تھا جس پر آپ نے اسی طرح کا تبصرہ کیا تھا:
شاید آپ یہ چاہتے ہوں کہ میں آپ کی بات پڑھتے ہی ان پر مخالف حدیث، کافر اور مشرک کا فتوی لگا دوں تو آپ کی بات میرے لیے قابل احترام ضرور لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔