القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھتا ہے کہ جب مسلمان علماء دین کو چھوڑ کر اہل ظن و فلسفہ کے گرد جمع ہوتے ہیں تو پھر دین میں بگاڑ کی ایسی ایسی شکلیں پیدا ہوتی ہیں کہ جن کی اصلاح مشکلات سے لبریز ہوتی ہے۔ ایک طرف تو یہ فلسفی حضرات اپنے فن کی وجہ سے مسلمانوں کو پھانستے ہیں تو دوسری جانب علماء کے بارے حیلوں بہانوں سے ایسے شبہات اور اتہمات ، کبھی براہ راست اور کبھی دائیں بائیں سے ایسے حملے جاری رکھتے ہیں کہ معاشروں میں علماء کو نیچ ، لاعلم ، بکاو مال ، حکومتی ایجنٹ اور گمراہ شمار کروانے لگتے ہیں۔اس سے انکو دوہرا فائدہ ہوتا ہے ایک تو انکے نام کا خوب ڈنکا بجتا ہے کہ "واہ بھئی واہ اتنے بڑے عالم کو زیر کردیا ہمارے حضرت نے" تو دوسری جانب عام مسلمان ان چکمہ سازوں کے خوش لحان بیانات اور خوشنماء تحریروں سے پریشانی اور تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
اس موضوع پر پھر کسی اور وقت گفتگو کریں گے، ابھی ہمارا مطلوب ایسے "خود ساختہ مجددین اور مصلحین" کے ایک ایسے شبہ کا رد پیش کرنا ہے کہ جس سےمسلمانوں کو الجھانے حتی المکان کوشش میں وہ دن رات مصروف ہیں۔
وہ ہے کہ "تحکیم بغیر ما انزل اللہ" کے مسئلے میں استحلال قلبی، جہود و انکار کی قرآنی نصوص کو باطل قرار دیتے ہوئے ، ہر حکم بغیر ماانزل اللہ کے مرتکب کو کفر اکبر کا اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا اور ان شروط کو پیش کرنے اور ملحوظ خاطر رکھنے والوں پر طعن اور انکو ارجاء کی وجہ و بنیاد اور امام قرار دینا۔
یاد رہے ، یہ شروط صحابہ و سلف صالحین اور آئمہ محدثین ومفسرین کے نزدیک تو ٹھیک تھیں اور وہ انکی موجودگی میں ہی کسی کے شریعت کے سوا فیصلے کو ہی کفر اکبر سے تعبیر کرتے تھے ، اور اگر کوئی شخص اللہ کی شریعت کے علاوہ کسی قانون سے فیصلہ تو کرتا ہو مگر اس کام کے کرنے کو اپنے لئے حلال و جائز نہ مانتا ہواور نہ ہی وہ قانون الہیہ سے انکار ہو تو پھر یہ دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث نہیں بنتا مگر ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ کہ جس کو بولنے ، جملوں سے گھائل کرنے اور تحریر میں تیر چلانے کا فن آتا ہے وہ سب پر بھاری، وہی رہنماء و مقتدا اور پیشوا۔۔
اور اب لوگوں کو یہ باور کروانے کی ایک منظم مہم کا آغاز کیا جاچکا ہے کہ ان شروط کا وجود ہی نہیں ہے ، یہ "جدید ارجائی ایجاد" ہے۔۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ
ہم ان شاء اللہ اس موضوع پر جلد ایک تفصیلی مضمون یہاں فورم پر پیش کریں گے ، مگر فی الحال ہم اس مسئلے پر اقوال سلف صالحین پر اکتفاء کرتے ہوئے ان نام نہاد مفکرین کی گمراہی کی کو یہاں واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ
اللہ تمام مسلمانوں کو قرب قیامت اٹھنے والے رنگین و خوشنماء فتنوں سے محفوظ رکھے اور دین اسلام کو فہم سلف صالحین کے تحت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھتا ہے کہ جب مسلمان علماء دین کو چھوڑ کر اہل ظن و فلسفہ کے گرد جمع ہوتے ہیں تو پھر دین میں بگاڑ کی ایسی ایسی شکلیں پیدا ہوتی ہیں کہ جن کی اصلاح مشکلات سے لبریز ہوتی ہے۔ ایک طرف تو یہ فلسفی حضرات اپنے فن کی وجہ سے مسلمانوں کو پھانستے ہیں تو دوسری جانب علماء کے بارے حیلوں بہانوں سے ایسے شبہات اور اتہمات ، کبھی براہ راست اور کبھی دائیں بائیں سے ایسے حملے جاری رکھتے ہیں کہ معاشروں میں علماء کو نیچ ، لاعلم ، بکاو مال ، حکومتی ایجنٹ اور گمراہ شمار کروانے لگتے ہیں۔اس سے انکو دوہرا فائدہ ہوتا ہے ایک تو انکے نام کا خوب ڈنکا بجتا ہے کہ "واہ بھئی واہ اتنے بڑے عالم کو زیر کردیا ہمارے حضرت نے" تو دوسری جانب عام مسلمان ان چکمہ سازوں کے خوش لحان بیانات اور خوشنماء تحریروں سے پریشانی اور تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
اس موضوع پر پھر کسی اور وقت گفتگو کریں گے، ابھی ہمارا مطلوب ایسے "خود ساختہ مجددین اور مصلحین" کے ایک ایسے شبہ کا رد پیش کرنا ہے کہ جس سےمسلمانوں کو الجھانے حتی المکان کوشش میں وہ دن رات مصروف ہیں۔
وہ ہے کہ "تحکیم بغیر ما انزل اللہ" کے مسئلے میں استحلال قلبی، جہود و انکار کی قرآنی نصوص کو باطل قرار دیتے ہوئے ، ہر حکم بغیر ماانزل اللہ کے مرتکب کو کفر اکبر کا اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا اور ان شروط کو پیش کرنے اور ملحوظ خاطر رکھنے والوں پر طعن اور انکو ارجاء کی وجہ و بنیاد اور امام قرار دینا۔
یاد رہے ، یہ شروط صحابہ و سلف صالحین اور آئمہ محدثین ومفسرین کے نزدیک تو ٹھیک تھیں اور وہ انکی موجودگی میں ہی کسی کے شریعت کے سوا فیصلے کو ہی کفر اکبر سے تعبیر کرتے تھے ، اور اگر کوئی شخص اللہ کی شریعت کے علاوہ کسی قانون سے فیصلہ تو کرتا ہو مگر اس کام کے کرنے کو اپنے لئے حلال و جائز نہ مانتا ہواور نہ ہی وہ قانون الہیہ سے انکار ہو تو پھر یہ دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث نہیں بنتا مگر ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ کہ جس کو بولنے ، جملوں سے گھائل کرنے اور تحریر میں تیر چلانے کا فن آتا ہے وہ سب پر بھاری، وہی رہنماء و مقتدا اور پیشوا۔۔
اور اب لوگوں کو یہ باور کروانے کی ایک منظم مہم کا آغاز کیا جاچکا ہے کہ ان شروط کا وجود ہی نہیں ہے ، یہ "جدید ارجائی ایجاد" ہے۔۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ
ہم ان شاء اللہ اس موضوع پر جلد ایک تفصیلی مضمون یہاں فورم پر پیش کریں گے ، مگر فی الحال ہم اس مسئلے پر اقوال سلف صالحین پر اکتفاء کرتے ہوئے ان نام نہاد مفکرین کی گمراہی کی کو یہاں واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ
تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے بارے سلف صالحین کی رائے
اللہ کے فضل سے ہم نے سلف صالحین سے یہ بات ثابت کی کہ جو بھی شخص اگر اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا تو وہ گناہ گار تو ضرور ہوگا مگر دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔ ایسا شخص تب ہی دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا جب وہ اللہ کی شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے کو اپنے لئے جائز و حلال سمجھتا ہو یا اللہ کے قانون کا ہی انکاری ہو۔جمیع سلف صالحین نے ما انزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کو عملی یا مجازی کفر قرار دیا ہے یعنی یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث نہیں بنتا ہے جب تک کہ فاعل اس فعل کو حلال اور جائز نہ سمجھتا ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے 'ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون' کی تفسیر میں مروی ہے:
'' عن علی ابن أبی طلحة عن ابن عباس ...قال : من جحد ما أنزل اللہ فقد کفر ومن أقر بہ ولم یحکم فھو ظالم فاسق.'' (تفسیر طبری : المائدة : ٤٤)
'' حضرت علی بن ابی طلحہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے آیت تحکیم کی تفسیر میں کہا:
جس نے جانتے بوجھتے ما أنزل اللہ کا انکار کیا تو اس نے کفر کیا اور جس نے ما أنزل اللہ کو تو مان لیا لیکن اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ' جیدفی الشواہد ' کہا ہے۔(السلسلة الصحیحة : ١١٠٦)۔
بعض لوگ اس روایت کو اس بنیاد پر ضعیف قرار دیتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طلحہ کا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
شیخ سلیم الہلالی نے اس اثر کے صحیح ہونے میں ایک کتاب 'قرة العیون فی تصحیح تفسیر عبد اللہ بن عباس' کے نام سے تالیف کی ہے کہ جس میں اس اثر کے بارے شبہات کا کافی وشافی رد موجود ہے۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ان اللہ تعالی عم بالخبر بذلک عن قوم کانوا بحکم اللہ الذی حکم بہ فی کتابہ جاحدین ' فأخبر عنھم أنھم بترکھم الحکم علی سبیل ما ترکوہ کافرون' وکذلک القول فی کل من لم یحکم بما أنزل اللہ جاحدا بہ' ھو باللہ کافر؛ کما قال ابن عباس.''(تفسیر طبری : المائدة : ٤٥)
'' بلاشبہ اللہ تعالی نے اس حکم کے ذریعے اس خبر کو عام کیا ہے کہ اہل کتاب اللہ کے اس حکم کا جانتے بوجھتے انکار کرنے والے تھے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کیا تھا۔ پس اللہ تعالی نے ان کے بارے یہ خبر دی ہے کہ جس طرح انہوں نے اللہ کے حکم کو چھوڑا ہے (یعنی انکار کے رستے سے)تو اس سے وہ کافر ہو گئے ہیں۔ پس اسی طرح کا معاملہ ہر اس شخص کا بھی ہے جو اللہ کے حکم کا جانتے بوجھتے انکار کر دے تواس کا یہ فعل اللہ کے انکار کے مترادف ہے جیسا کہ ابن عباس کا قول ہے۔''
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون یحتج بظاہرہ من یکفر بالذنوب وھم الخوارج ! ولا حجة لھم فیہ لأن ھذہ الآیات نزلت فی الیھود المحرفین کلام اللہ تعالی کما جاء فی الحدیث وھم کفار فیشارکھم فی حکمھا من یشارکھم فی سبب النزول.''(المفھم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم' کتاب الحدود' باب قامة الحد ملی من ترافع لینا من زناة أھل الذمة)
'' اور جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ کافر ہیں۔ اس آیت مبارکہ کو خوارج نے اپنے اس موقف کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جس کے ذریعے وہ گناہ کبیرہ کے مرتکبین کی تکفیر کرتے ہیں حالانکہ اس آیت میں خوارجیوں کے موقف کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ آیات ان یہود کے بارے نازل ہوئی ہیں جو اللہ کے کلام میں تحریف کرنے والے تھے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے اور ایسے یہود بلاشبہ کافر ہیں ۔ پس ان یہود کے حکم (یعنی کفر)میں وہ شخص ان کا شریک ہو گا جو ان کے ساتھ سبب نزول(یعنی اللہ کی آیت کی تحریف)میں بھی شریک ہو۔''
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' والصحیح : أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ یتناول الکفرین : الأصغر والأکبر بحسب حال الحاکم فانہ ا ن اعتقد وجوب الحکم بما أنزل اللہ فی ھذہ الواقعة وعدل عنہ عصیانا مع اعترافہ بأنہ مستحق للعقوبة فھذا کفر أصغر وان اعتقد أنہ غیر واجب وأنہ مخیر فیہ مع تیقنہ أنہ حکم اللہ فھذا کفر أکبر ان جھلہ وأخطأہ فھذا مخطیء لہ حکم المخطئین.''(مدارج السالکین' باب فی أجناس ما یتاب منہ ولایستحق العبد اسم التائب حتی یتخلص منھا،دار الکتاب العربی' بیروت)
''صحیح قول یہ ہے کہ ما أنزل اللہ کے بغیر فیصلہ کرنا دو قسم کے کفر پر مشتمل ہوتا ہے: کفر اصغر اور کفر اکبر۔(ان دونوں میں کسی ایک کا حکم) فیصلہ کرنے والے کے حالات کے مطابق عائد ہو گا۔ پس اگر کوئی حکمران کسی مسئلہ میں ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ کو واجب سمجھتا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتااور اپنے آپ کو گناہ گار بھی سمجھتا ہے تواس حکمران کا کفر ' کفر اصغر ہے ۔ اور اگر حکمران کا عقیدہ یہ ہو کہ ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا لازم نہیں ہے یا اختیاری معاملہ ہے ' چاہے وہ اسے یقینی طور پر اللہ کا حکم ہی سمجھتا ہو تو یہ کفر اکبر ہے ۔ اور اگر حکمران نے کوئی فیصلہ جہالت (یعنی شرع حکم سے عدم واقفیت)کی بنیاد پر کیا تو وہ خطاکار ہے اور اس کے لیے خطاکاروں کا حکم ہے(یعنی اگر مجتہد تھا تو ایک گناہ اجر وثواب ملے گا ورنہ خطا کی جزا ہو گی)۔''
امام سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' واعلم أن الخوارج یستدلون بھذہ الآیة ویقولون: من لم یحکم بما أنزل اللہ فھو کافر وأھل السنة قالوا: لا یکفر بترک الحکم وللآیة تاویلان: أحدھما معناہ ومن لم یحکم بما أنزل اللہ ردا وجحدا فأولئک ھم الکفرون والثانی معناہ ومن لم یحکم بکل ما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون والکافر ھو الذی یترک الحکم بکل ما أنزل اللہ دون المسلم.''(تفسیر سمعانی : المائدة : ٤٤)
'' یہ جان لیں!کہ خوارج اس آیت مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں : جو ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ جبکہ اہل سنت کا یہ قول ہے کہ صرف ما أنزل اللہ کو ترک کر دینے سے کافر نہیں ہوگا(جب تک اس کا عقیدہ نہ رکھے)۔اور اس آیت کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ جو شخص ماأنزل اللہ کے مطابق اس کا انکار اور رد کرتے ہوئے فیصلہ نہ کرے تو یہ کافر ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ جو ماأنزل اللہ کے مطابق کلی طور پر فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر ہے کیونکہ کافر اپنی زندگی میں اللہ کے حکم کو کلی طور پر چھوڑ دیتا ہے جبکہ مسلمان کا معاملہ ایسا نہیں ہوتاہے۔''
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' أن من لم یحکم بما أنزل اللہ جاحدا لہ وھو یعلم أن اللہ أنزلہ کما فعلت الیھود فھو کافر ومن لم یحکم بہ میلاا لی الھوی من غیر جحود فھو ظالم فاسق.''(زاد المسیر : المائدة : ٤٤)
'' جو ما أنزل اللہ کے مطابق اس کا انکار کرتے ہوئے فیصلہ نہ کرے ' جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہو کہ اس حکم کو اللہ نے نازل کیا ہے جیسا کہ یہود کا معاملہ تھا تو وہ کافر ہے اور جو ما أنزل اللہ کے مطابق اپنی خواہش نفس کی اتباع میں فیصلہ نہ کرے اور اس کا انکار کرنے والا نہ ہو تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔''
امام ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''ان حکم بما عندہ علی أنہ من عند اللہ فھو تبدیل لہ یوجب الکفر و ن حکم بہ ھوی ومعصیة فھو ذنب تدرکہ المغفرة علی أصل أھل السنة فی الغفران للمذنبین.''(أحکام القرآن : المائدة : ٤٤)
''اگر تو کسی حکمران نے اپنی کسی رائے اس طرح فیصلہ کرے کہ اسے اللہ کی طرف منسوب کرتا ہو تو یہ اللہ کی شریعت کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے اور سبب ِکفر ہے۔ اور اگر اس نے اپنی خواہش یا نافرمانی میں ماأنزل اللہ کے بغیر فیصلہ کیا تو یہ ایسا گناہ ہے جو قابل مغفرت ہے جیسا کہ گناہ گاروں کے لیے مغفرت کے بارے اہل سنت کا اصول ہے۔''
امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ومن لم یحکم بما أنزل اللہ مستھینا بہ منکرا لہ فأولئک ھم الکفرون.'' (تفسیر بیضاوی : المائدة : ٤٤)
'' اور جس نے ماأنزل اللہ کے مطابق اس کا انکار کرتے ہوئے اور اسے حقیر سمجھتے ہوئے فیصلہ نہ کیاتو وہ لوگ کافر ہیں ۔''
امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
'' ولھذا قال ھناک ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون لأنھم جحدوا حکم اللہ قصدا منھم وعنادا وعمدا.''(تفسیر ابن کثیر : المائدة : ٤٤)
'' یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں یہ کہا ہے کہ جو ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے کیونکہ انہوں(یعنی اہل کتاب)نے اللہ کے حکم کا جانتے بوجھتے' عمداً اور سرکشی سے انکار کیا دیاتھا۔''
ابو البرکات نسفی حنفی، شیخ أبومنصور ماتریدی رحمہما اللہ کی اس مسئلے میں رائے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' قال الشیخ أبو منصور رحمہ اللہ : یجوز أن یحمل علی الجحود فی الثلاث فیکون کافرا ظالما فاسقا لأن الفاسق المطلق والظالم المطلق ھو الکافر وقیل ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فھو کافر بنعمة اللہ ظالم فی حکمہ فاسق فی عملہ.''(تفسیر نسفی : المائدة : ٤٤)
'' شیخ ابو منصور ماتریدی کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہے کہ ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کو تینوں مقامات(یعنی کافرون' ظالمون اور فاسقون)پر انکار کے ساتھ فیصلہ نہ کرنے پر محمول کیا جائے۔ پس اس صورت میں فیصلہ نہ کرنے والا کافر ، ظالم اور فاسق تینوں صفات کا حامل ہو گا کیونکہ مطلق طور پر فاسق اور ظالم سے مراد بھی کافر ہی ہوتی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ جو ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ اللہ کی نعمت کا کافر (یعنی ناشکرا)اور اپنے حکم میں ظالم اور اپنے عمل میں فاسق ہے۔''
امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' المسألة الثانیة : قالت الخوارج : کل من عصی اللہ فھو کافر وقال جمھور الأئمة : لیس الأمر کذلک. أما الخوارج فقد احتجوا بھذہ الآیة وقالوا: انھا نص فی أن کل من حکم بغیر ما أنزل اللہ فھو کافر وکل من أذنب فقد حکم بغیر ما أنزل اللہ فوجب أن یکون کافرا وذکر المتکلمون و المفسرون أجوبة عن ھذہ الشبھة ...والخامس : قال عکرمة : قولہ ومن لم یحکم بما أنزل اللہ ا نما یتناول من أنکر بقلبہ وجحد بلسانہ أما من عرف بقلبہ کونہ حکم اللہ وأقر بلسانہ کونہ حکم اللہ لا أنہ أتی بما یضادہ فھو حاکم بما أنزل اللہ ولکنہ تارک لہ فلا یلزم دخولہ تحت ھذہ الآیةوھذا ھو الجواب الصحیح واللہ أعلم.''(تفسیر رازی : المائدة : ٤٤)''
(اس آیت میں) دوسر امسئلہ یہ ہے کہ خوارج کا کہنا یہ ہے کہ جس نے بھی اللہ کی نافرمانی کی وہ کافر ہے۔ جبکہ جمہور أئمہ کا قول یہ ہے کہ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ خوارج نے اپنے موقف کے حق میں اس آیت کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ اس بارے نص ہے کہ جو شخص بھی ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا (چاہے وہ اپنی نجی زندگی میں ہی ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو اور اللہ کا نافرمان ہو)تو وہ کافر ہے اور جس نے بھی کوئی گناہ کا کام کیا (یعنی اللہ کی شریعت کی بجائے اپنی خواہش نفس کو حَکم بنا لیا)تو اس نے ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔ پس ایسے شخص کا کافر ہونا لازم ٹھہرا۔ متکلمین اور مفسرین ان خوارج کے اس استدلال کے کئی ایک جوابات نقل کیے ہیں...(ان جوابات میں سے)پانچواں جواب یہ ہے کہ حضرت عکرمہ نے کہا ہے اللہ تعالی کا قول کہ جو ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا، اس کے بارے ہے جو اپنے دل سے اللہ کے حکم کا انکار کردے اور اپنی زبان سے بھی منکر ہوجائے۔ پس جو شخص اپنے دل اور زبان سے اسے اللہ کا حکم مانتا ہو اور پھر بھی اس کے خلاف چلے تو یہ ما أنزل اللہ کے مطابق ہی فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اگرچہ وہ ما أنزل اللہ کو چھوڑنے والا ضرور ہے۔ پس ایسا شخص اس آیت کے مفہوم میں داخل نہیں ہے اور یہی جواب صحیح ہے ۔ واللہ أعلم۔''
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی فرماتے ہیں:
'' والخلاصة : أن التکفیر ھو لمن استحل الحکم بغیر ما أنزل اللہ وأنکر بالقلب حکم اللہ وجحد باللسان فھذا ھو کافر أما من لم یحکم بما أنزل اللہ وھو مخطیء ومذنب فھو مقصر فاسق مؤاخذ علی رضاہ الحکم بغیر ما أنزل اللہ.'' (التفسیر المنیر: المائدة : ٤٤)
'' خلاصہ کلام یہی ہے تکفیر اس شخص کی ہو گی جوما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کو حلال سمجھتا ہو اور دل و زبان سے اللہ کے حکم کا انکاری بھی ہو تو پس ایسا شخص کافر ہے ۔ اور (اس یعنی انکار کے علاوہ) جو شخص ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ گناہ گار 'خطارکار اور فاسق ہے اور اس سے اس بات کا مواخذہ ہو گا کہ وہ ماأنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے پر کیوں راضی تھا۔''
علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ناظرین ! اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کبیرة گناہوں میں سے ہے۔ جسے امام ذہبی نے 'الکبائر' ص ١٤٦' گناہ نمبر ٣١ میں بیان کیا ہے۔
لیکن کبیرہ گناہ کے بسبب کسی مسلمان کو اسلام سے خارج نہیں کہہ سکتے جب تک کہ وہ اپنے اس کیے گئے فعل کے صحیح ہونے یا برحق ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا۔''(تحکیم قوانین کے متعلق اقوال سلف : ص ٢٧)
اللہ تمام مسلمانوں کو قرب قیامت اٹھنے والے رنگین و خوشنماء فتنوں سے محفوظ رکھے اور دین اسلام کو فہم سلف صالحین کے تحت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین