بھائی! آپ نے پہلے بھی ایک روایت پیش کی تھی، جب آپ سے اس کا حوالہ مانگا گیا تو آپ نے نہ دیا، شائد آپ کو خود ہی اندازہ ہو گیا ہو کہ آپ نے غلط شے پیش کر دی تھی۔ خیر ۔۔۔۔۔
اب آپکی بات کی دو صورتیں ہیں یا تو رویت باری تعالیٰ ممکن ہی نہیں نہ اس جہاں میں نہ وہاں .اور اگر ہے تو پھر آقاعلیہ سلام نے دیکھا.اور اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
میری جاں آپ کہہ رہے ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں کہ اس ذات کا احاطہ کوئ نہیں کرسکتا مگر احاطہ اور چیز ہے ، دیدار اور چیز ہے. دونوں کو آپ ملا نہیں سکتے اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے. اس کی مثال ہوں ہے کہ ایک ان پڑھ آدنی ایک عام خواندہ شخص کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا ارو ایک عام خواندہ آدمی ایک زیادہ علم والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا.
ہمارا موقف بڑا واضح ہے کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر یا اس کے علاوہ اپنی حقیقی آنکھوں سے، جاگتے ہوئے اپنے رب کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی اور اس فانی دُنیا میں جاگتی آنکھوں سے اللہ رب العٰلمین کا دیدار کر سکتا ہے۔ البتہ جنت میں مؤمن اپنے رب کو واضح طور پر دیکھیں گے، جیسے ہم دُنیا میں سورج یا چودھویں کے چاند کو واضح طور پر دیکھتے ہیں۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ٢٢ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ سورة القيامة
اس روز بہت سے چہرے تروتازه اور بارونق ہوں گے (
22) اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے (
23)
جہاں تک احاطہ کرنے کی بات ہے تو کوئی مخلوق بھی اپنے حقیقی خالق ومالک اللہ رب العٰلمین کا احاطہ نہ اس دُنیا میں کر سکتی ہے، نہ آخرت میں!!
مَّ دَنَا فَتَدَلَّىO
ثُمَّ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO
(النجم : 8 تا 10)
’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پھر (جلوہِ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)۔ پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
پہلے آپ نے ایک حدیث دلیل کے طور پر پیش کی تھی، اس کا حوالہ مانگا گیا تو اسے چھوڑ کر آپ نے یہ آیت کریمہ پیش کردی۔
اول تو آپ نے آیت کریمہ صحیح نہیں لکھی۔
دوم آپ نے آیت کریمہ کے ترجمے میں بریکٹوں میں اپنا ذاتی مفہوم لکھا ہے، جو نبی کریمﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کرام کے فہم کے خلاف ہے۔
صحیح آیت کریمہ اور اس کا ترجمہ یہ ہے:
﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم
پھر وہ نزدیک ہوا اور اُتر آیا (
8) پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (
9) پس اس نے اس کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (
10)
اس آیت کریمہ کا مفہوم کیا ہے؟؟؟ کون نزدیک آیا؟ کس کس میں دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی نزدیک کا فاصلہ باقی رہ گیا؟ کس نے کس کے بندے کو وحی پہنچائی؟؟؟
اس سب سوالوں کا جواب
نبی کریمﷺ اور ان کے صحابہ کرام کی زبانی ہی لیجئے:
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ سیدنا مسروق نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیات کریمہ:
﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کا معنیٰ پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
إنما ذاك جبريل! كان يأتيه في صورة الرجال، وإنه أتاه هذه المرة في صورته التي هي صورته فسد أفق السماء کہ اس سے مراد جبریل ہیں، عام طور پر وہ نبی کریمﷺ کے پاس آدمی کی صورت میں آتے تھے، اس مرتبہ وہ نبی کریمﷺ کے پاس اپنی اصل (فرشتوں والی) صورت میں آئے تھے اور انہوں آسمان کا افق گھیر رکھا تھا۔‘‘
صحیح مسلم میں لمبی حدیث ہے کہ
سیدنا مسروق روایت کرتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ نے فرمایا:
تین باتیں جس نے کہیں اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولا۔
میں نے عرض کیا: کونسی تین باتیں؟ سیدہ عائشہ نے فرمایا:
پہلی بات: جس نے کہا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔
سیدنا مسروق نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین، ذرا غور کیجئے! جلدی نہ کریں! کیا اللہ نے نہیں فرمایا:
﴿ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ التكوير ’’اور البتہ اس نے اسے آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔‘‘ اور
﴿ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم ’’اور البتہ تحقیق اس نے اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا۔‘‘
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا:
« إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’
وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘
پھر سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ تم نے فرمانِ باری تعالیٰ نہیں سنا:
﴿ لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ١٠٣ ﴾ ۔۔۔ الأنعام کہ ’’ اس کو تو کسی کی نگاه محیط نہیں ہوسکتی اور وه سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔‘‘ (
103) اور کیا اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا؟:
﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ٥١ ﴾ ۔۔۔ الشوریٰ کہ ’’ناممکن ہے کہ کسی بنده سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وه اللہ کے حکم سے جو وه چاہے وحی کرے، بیشک وه برتر ہے حکمت والا ہے۔‘‘ (
51)
دوسری بات: جس نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کی کتاب میں سے کسی شے کو چھپایا (اور امت کو نہیں بتایا) تو اس نے بھی اللہ پر بہت بڑا جھوٹ بولا، حالانکہ فرمانِ باری ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ ۔۔۔ ٦٧ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة کہ ’’اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی۔‘‘
تیسری بات: اور جس نے کہا کہ نبی کریمﷺ اس بات کی خبر دے سکتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے (یعنی رسول کریمﷺ غیب جانتے ہیں) تو اس نے بھی اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ ٦٥ ﴾ ۔۔۔ النملکہ ’’کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔‘‘
اسی روایت میں اضافہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر نبی کریمﷺ نے کوئی آیت کریمہ چھپانی ہوتی تو وہ یہ آیت کریمہ چھپا لیتے:
﴿ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ ٣٧ ﴾ ۔۔۔ الأحزاب کہ ’’(یاد کرو) جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وه بات چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیاده حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے۔‘‘
اسی مسلم کی روایت سے اگلی روایت میں ہے کہ سیدنا مسروق نے سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریمﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ نے فرمایا: سبحان اللہ! تم نے جو کہا اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ (یعنی اللہ کے خوف سے!! یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں دیکھ سکے؟)
نبی کریمﷺ نے کسے دیکھا تھا؟
کیا اس بارے میں نبی کریمﷺ کی اپنی بات فیصل نہیں؟؟؟