• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا؟

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب لکھتے ہیں :

’’حضرت جنید علیہ الرحمہ سے لوگوں نے پوچھا : حضرت کیا آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھیں؟

فرمایا نہیں چاہتا۔ عرض کیا گیا : کیوں؟ فرمایا : موسیٰ علیہ السلام نے چاہا تو نہ دیکھ سکے اور ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ چاہا تو دیکھ لیا۔ اس لئے کہ ہماری خواہش ہی دیدار کے لئے حجاب اعظم ہے‘‘۔

حضور داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

’’لوگ اختلاف میں ہیں کہ دیکھا یا نہیں دیکھا، جنہوں نے غور اور تامل سے کام لیا وہ مراد کو پہنچے یعنی جو آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے نہیں دیکھا تو وہ سر کی آنکھوں سے مراد نہیں ہے اور جو فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے وہ بچشم سر دیکھنا مراد ہے۔ اس لئے کہ ایک ان دونوں میں سے اہل ظاہر ہے اور ایک اہل باطن۔ ہر ایک سے اس کے حال کے موافق کلام فرمایا ہے‘‘۔ (کشف المحجوب : ص 531)
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا اور اس شان سے کیا کہ مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی ’’نہ آنکھ جھپکی نہ ٹیڑھی ہوئی‘‘۔

٭ جمہور ائمہ اور علماء امت کا موقف یہی ہے اور اس حوالے سے انہوں نے حدیث صحیح سے استدلال کیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے :

رايت ربی فی احسن صورته

’’میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا‘‘۔

٭ اہل معرفت صوفیاء کرام فرماتے ہیں :

شاهد بحق سبحانه و تعالیٰ القلوب، فلم يرٰی قلبا اشوق اليه من قلب محمد صلی الله عليه وآله وسلم فاکرمه بالمعراج تعجيلا لروية والمکالمة.

’’حق سبحانہ و تعالیٰ نے (اپنی مخلوق کے) دلوں کو ملاحظہ فرمایا تو کوئی دل قلب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اپنا مشتاق نہ پایا سو فوراً اسے معراج اور دیدار و مکالمہ کے شرف سے نواز دیا‘‘۔

٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی کثیر تعداد اور بے شمار محدثین و متکلمین اور صوفیاء کرام نے شب معراج رؤیت باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے۔ بلکہ بعض اہل علم نے بچشمِ سر رؤیت پر اجماع نقل کیا ہے۔ خصائص صغری میں ہے کہ

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کریم کی آیات کبریٰ کا مشاہدہ فرمایا یہاں تک کہ نہ آنکھ جھپکی اور نہ ٹیڑھی ہوئی اور دوبار رویت باری تعالیٰ کا شرف پایا۔

٭ حافظ ابوالخطاب ابن دحیہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن ہزارہا خصائص سے نوازا گیا ان میں سے ایک دیدار الہٰی اور قرب و دنو بھی ہے‘‘۔

٭ امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

والراجح عند اکثر العلماء ان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم رای ربه بعين رأسه.

’’اکثر علماء کے نزدیک ترجیح اس بات کو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘۔

اور ’’مَازَاغَ الْبَصَرُ وَ ماَ طَغٰی‘‘ سے اس سلسلہ میں استدلال کیا ہے کہ اگر آنکھ کی بجائے محض دل سے دیکھا ہوتا تو مَازَاغَ قَلْبه کہا جاتا۔

٭ حضرت ابن عباس، حضرت کعب اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہم کا یہی موقف ہے۔ صحابہ کی ایک کثیر جماعت، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور امام احمد بن حنبل بھی رویت کے قائل ہیں۔

٭ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ تو اس کے اثبات میں قسم کھایا کرتے تھے۔

٭ تحویل قبلہ کی طرح معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ ارشاد ہے :

وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ.

(الاسراء : 60)

’’اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظّارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لیے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین الجھ گئے)‘‘۔

٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : الرویا العین رویت عینی مراد ہے۔

٭ عروۃ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی اس کا اثبات فرماتے ہیں :

حضرت جمال دہلوی رحمۃ اللہ نے کیا خوب کہا ہے :

موسیٰ زہوش رفت پیکر جلوہ صفات
تو عین ذات می نگری در تبسّمی

’’موسیٰ علیہ السلام تو ایک صفاتی تجلی کی تاب نہ لاسکے اور مستغرق ہوگئے اور آپ نے عین ذات کو تبسم فرماتے ہوئے دیکھا‘‘۔

٭ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے بھی اس سلسلہ میں بہترین تحقیق فرمائی ہے اور اس حوالے سے جزو مرتب فرمایا ہے
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
محترم Asim Mehmood صاحب
جاری بحث میں جو سوالات واعتراضات کیے گئے ہوں اسی کےمتعلق ہی لکھنے کی کوشش کیا کریں اور یہ بھی دیکھ لیا کریں کہ بات کتنی پوچھی گئی ہے اور اس کا کتنا جواب ہے۔دوسری تیسری سائٹس سے آرٹیکل کے آرٹیکل کاپی پیسٹ نہ کیا کریں۔یہ آرٹیکل وغیرہ بھی آپ نے یہاں سے کاپی کیا ہوا ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
حضرت عائشہ رضی اللہ نے جب یہ بات کی کے آپ علیہ سلام ے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تو اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ ان کے پاس گے اور پوچھا یہ دلہل کہاں سے دی ہے اور کیسے اور حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا " مجھے اللہ کی عزت کی قسم آج بھی وہ دن اور وقت یاد ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے تو ہم نے پوچھا یا رسولاللہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تو فرمایا ہاں میں نے اپنے رب کو دو بار صہیح اور اس کی اصلی صورت میں دیکھآ"
بھائی! پہلے بھی آپ کو عرض کیا تھا کہ لمبی لمبی پوسٹ کاپی پیسٹ کرنے کی بجائے اس میں اپنی مطلب کے صحیح وصریح دلائل ایک ایک کرکے بیان کریں!
آپ نے درج بالا اپنی ایک دلیل بیان تو کی، لیکن اس کا کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا نہ ہی یہ بتایا کہ روایت صحیح ہے یا ضعیف؟؟!! اور پھر اس کے بعد پھر کاپی پیسٹ شروع کر دیا۔
ازراہِ کرام اپنی درج بالا دلیل کا حوالہ اور صحت وضعف بیان کریں! جب اس پر بات مکمل ہوجائے تو اگلی دلیل حوالہ کے ساتھ بیان کیجئے گا۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
اب آپکی بات کی دو صورتیں ہیں یا تو رویت باری تعالیٰ ممکن ہی نہیں نہ اس جہاں میں نہ وہاں .اور اگر ہے تو پھر آقاعلیہ سلام نے دیکھا.اور اپنی آنکھوں سے دیکھا.
میری جاں آپ کہہ رہے ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں کہ اس ذات کا احاطہ کوئ نہیں کرسکتا مگر احاطہ اور چیز ہے ، دیدار اور چیز ہے. دونوں کو آپ ملا نہیں سکتے اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے. اس کی مثال ہوں ہے کہ ایک ان پڑھ آدنی ایک عام خواندہ شخص کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا ارو ایک عام خواندہ آدمی ایک زیادہ علم والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا.مَّ دَنَا فَتَدَلَّىO
ثُمَّ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO

(النجم : 8 تا 10)

’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پھر (جلوہِ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)۔ پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بھائی! آپ نے پہلے بھی ایک روایت پیش کی تھی، جب آپ سے اس کا حوالہ مانگا گیا تو آپ نے نہ دیا، شائد آپ کو خود ہی اندازہ ہو گیا ہو کہ آپ نے غلط شے پیش کر دی تھی۔ خیر ۔۔۔۔۔

اب آپکی بات کی دو صورتیں ہیں یا تو رویت باری تعالیٰ ممکن ہی نہیں نہ اس جہاں میں نہ وہاں .اور اگر ہے تو پھر آقاعلیہ سلام نے دیکھا.اور اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
میری جاں آپ کہہ رہے ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں کہ اس ذات کا احاطہ کوئ نہیں کرسکتا مگر احاطہ اور چیز ہے ، دیدار اور چیز ہے. دونوں کو آپ ملا نہیں سکتے اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے. اس کی مثال ہوں ہے کہ ایک ان پڑھ آدنی ایک عام خواندہ شخص کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا ارو ایک عام خواندہ آدمی ایک زیادہ علم والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا.
ہمارا موقف بڑا واضح ہے کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر یا اس کے علاوہ اپنی حقیقی آنکھوں سے، جاگتے ہوئے اپنے رب کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی اور اس فانی دُنیا میں جاگتی آنکھوں سے اللہ رب العٰلمین کا دیدار کر سکتا ہے۔ البتہ جنت میں مؤمن اپنے رب کو واضح طور پر دیکھیں گے، جیسے ہم دُنیا میں سورج یا چودھویں کے چاند کو واضح طور پر دیکھتے ہیں۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَ‌ةٌ ٢٢ إِلَىٰ رَ‌بِّهَا نَاظِرَ‌ةٌ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ سورة القيامة
اس روز بہت سے چہرے تروتازه اور بارونق ہوں گے (22) اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے (23)

جہاں تک احاطہ کرنے کی بات ہے تو کوئی مخلوق بھی اپنے حقیقی خالق ومالک اللہ رب العٰلمین کا احاطہ نہ اس دُنیا میں کر سکتی ہے، نہ آخرت میں!!

مَّ دَنَا فَتَدَلَّىO
ثُمَّ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO

(النجم : 8 تا 10)

’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پھر (جلوہِ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)۔ پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
پہلے آپ نے ایک حدیث دلیل کے طور پر پیش کی تھی، اس کا حوالہ مانگا گیا تو اسے چھوڑ کر آپ نے یہ آیت کریمہ پیش کردی۔
اول تو آپ نے آیت کریمہ صحیح نہیں لکھی۔
دوم آپ نے آیت کریمہ کے ترجمے میں بریکٹوں میں اپنا ذاتی مفہوم لکھا ہے، جو نبی کریمﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کرام﷢ کے فہم کے خلاف ہے۔

صحیح آیت کریمہ اور اس کا ترجمہ یہ ہے:
﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم
پھر وہ نزدیک ہوا اور اُتر آیا (8) پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (9) پس اس نے اس کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (10)

اس آیت کریمہ کا مفہوم کیا ہے؟؟؟ کون نزدیک آیا؟ کس کس میں دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی نزدیک کا فاصلہ باقی رہ گیا؟ کس نے کس کے بندے کو وحی پہنچائی؟؟؟
اس سب سوالوں کا جواب نبی کریمﷺ اور ان کے صحابہ کرام﷢ کی زبانی ہی لیجئے:
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ سیدنا مسروق﷫ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیات کریمہ: ﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ٨ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کا معنیٰ پوچھا تو انہوں نے فرمایا: إنما ذاك جبريل! كان يأتيه في صورة الرجال، وإنه أتاه هذه المرة في صورته التي هي صورته فسد أفق السماء کہ اس سے مراد جبریل﷤ ہیں، عام طور پر وہ نبی کریمﷺ کے پاس آدمی کی صورت میں آتے تھے، اس مرتبہ وہ نبی کریمﷺ کے پاس اپنی اصل (فرشتوں والی) صورت میں آئے تھے اور انہوں آسمان کا افق گھیر رکھا تھا۔‘‘

صحیح مسلم میں لمبی حدیث ہے کہ
سیدنا مسروق﷫ روایت کرتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ نے فرمایا: تین باتیں جس نے کہیں اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولا۔
میں نے عرض کیا: کونسی تین باتیں؟ سیدہ عائشہ نے فرمایا:
پہلی بات: جس نے کہا کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔
سیدنا مسروق﷫ نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین، ذرا غور کیجئے! جلدی نہ کریں! کیا اللہ نے نہیں فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٢٣ ﴾ ۔۔۔ التكوير ’’اور البتہ اس نے اسے آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔‘‘ اور ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم ’’اور البتہ تحقیق اس نے اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا۔‘‘
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: « إنما هو جبريل. لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين. رأيته منهبطا من السماء. سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض » کہ ’’وہ تو جبریل تھے، میں نے جبریل کو ان کی اصل صورت جس پر انہیں پیدا کیا گیا ان دو مرتبہ کے علاوہ نہیں دیکھا، میں نے انہیں آسمان سے اُترتے دیکھا اس حال میں کہ اپنی عظیم خلقت وجسامت سے انہوں نے زمین وآسمان کے درمیان جگہ کو پُر کیا ہوا تھا۔‘‘
پھر سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ تم نے فرمانِ باری تعالیٰ نہیں سنا: ﴿ لَّا تُدْرِ‌كُهُ الْأَبْصَارُ‌ وَهُوَ يُدْرِ‌كُ الْأَبْصَارَ‌ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ‌ ١٠٣ ﴾ ۔۔۔ الأنعام کہ ’’ اس کو تو کسی کی نگاه محیط نہیں ہوسکتی اور وه سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔‘‘ (103) اور کیا اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا؟: ﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ‌ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْ‌سِلَ رَ‌سُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ٥١ ﴾ ۔۔۔ الشوریٰ کہ ’’ناممکن ہے کہ کسی بنده سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وه اللہ کے حکم سے جو وه چاہے وحی کرے، بیشک وه برتر ہے حکمت والا ہے۔‘‘ (51)
دوسری بات: جس نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کی کتاب میں سے کسی شے کو چھپایا (اور امت کو نہیں بتایا) تو اس نے بھی اللہ پر بہت بڑا جھوٹ بولا، حالانکہ فرمانِ باری ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّ‌سُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِ‌سَالَتَهُ ۚ ۔۔۔ ٦٧ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة کہ ’’اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی۔‘‘
تیسری بات: اور جس نے کہا کہ نبی کریمﷺ اس بات کی خبر دے سکتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے (یعنی رسول کریمﷺ غیب جانتے ہیں) تو اس نے بھی اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ ٦٥ ﴾ ۔۔۔ النملکہ ’’کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔‘‘

اسی روایت میں اضافہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر نبی کریمﷺ نے کوئی آیت کریمہ چھپانی ہوتی تو وہ یہ آیت کریمہ چھپا لیتے: ﴿ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ ٣٧ ﴾ ۔۔۔ الأحزاب کہ ’’(یاد کرو) جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وه بات چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیاده حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے۔‘‘

اسی مسلم کی روایت سے اگلی روایت میں ہے کہ سیدنا مسروق﷫ نے سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریمﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ نے فرمایا: سبحان اللہ! تم نے جو کہا اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ (یعنی اللہ کے خوف سے!! یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں دیکھ سکے؟)

نبی کریمﷺ نے کسے دیکھا تھا؟ کیا اس بارے میں نبی کریمﷺ کی اپنی بات فیصل نہیں؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
سیدنا ابن مسعود﷜ سے آیات کریمہ ﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ٩ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم کی تفسیر میں مروی ہے: أنه رأى جبريل، له ست مائة جناح ۔۔۔ صحیح البخاری کہ نبی کریمﷺ نے جبریل﷤ کو دیکھا تھا اور ان کے چھ سو پر تھے۔

سیدنا ابو ہریرہ﷜ سے آیت کریمہ: ﴿ وَلَقَدْ رَ‌آهُ نَزْلَةً أُخْرَ‌ىٰ ١٣ ﴾ ۔۔۔ النجم کی تفسیر میں مروی ہے: رأى جبريل ۔۔۔ صحيح مسلمکہ نبی کریمﷺ نے جبریل﷤ کو دیکھا تھا۔
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
جبرائیل تو سدرۃ المنتہی سے آگے گے ہی نہیں وہاں کیوں پھر انہوں نے دیکھا.اور رب تو اس سے آگے تھا وہا ں تو صرف آق علیہ سلام اور رب کی ذات تھی
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا : یا محمد! میں نے عرض کیا : میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا : عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔‘‘
: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة ص، 5 / 366 - 368، الرقم : 3233 - 3235
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جبرائیل تو سدرۃ المنتہی سے آگے گے ہی نہیں وہاں کیوں پھر انہوں نے دیکھا.اور رب تو اس سے آگے تھا وہا ں تو صرف آق علیہ سلام اور رب کی ذات تھی
کیا صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیرہ میں موجود ان آیات کریمہ کی تشریح پر آپ کو اعتماد نہیں جو تشریح نبی کریمﷺ نے بذاتِ خود فرمائی ہے؟؟؟ دیکھئے پوسٹ نمبر 26 کے ہائی لائٹ الفاظ

کیا اس بارے میں نبی پاکﷺ کی اپنی بات اور تشریح آپ کو قابل قبول نہیں؟؟؟ کیا نبی کریمﷺ کی اپنی بات آنے کے بعد بھی آپ اٹکل پچو لگاتے رہیں گے؟ کیا یہ نبی کریمﷺ کی گستاخی نہیں؟
 
Top