آپ نے صرف حضرت عائشہ رضی اللہ سے ہی دلائل دئے ہیں اور ان کے علاوہ واضع حدیث لائیں جن میں صحابہ صاف فرما رہے ہوں کہ آقا علیہ سلام نے دیدار نہیں کیا .اور اس حدیث کی تفسیر خود امام بخاری کے شاگرد نے کی ہے جو اوپر میں نے دی ہے.آپ اپنی بات خود ان کے منہ میں نہ ڈالیں.
ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لان اللہ اعطی موسی الکلام واعطانی الرؤیۃ لوجہہ وفضلنی بالمقام المحمود والحوض المورود۲۔
بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔
(۲کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷
امام احمد اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی عزوجل۱ ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔
(۱مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵
بھائ صاحب آپ ایک ہی بات کو لیے بیٹھے ہیں اور کیا کہتے ہیں اس موضوع پر ......
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ والی حدیث کو امام عسقلانی نے شرع بخاری میں بیان کیا ہے جو حدیث آپ نے دی ہے اس کی ہی وہ تشریح ہے
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمد!مواجہ بخشا کہ بے پردہ وحجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا ۔
(۳تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء واجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶
محترم! لگتا ہے کہ اب آپ مزید بات چیت آگے نہیں بڑھانا چاہتے کیونکہ آپ نے
موضوع احادیث بھی بیان کرنا شروع کردی ہیں۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پہلے ہم آیت کریمہ
﴿ فكان قاب قوسين أو أدنى ﴾ پر کوئی اتفاق کریں گے تب ہی دیگر دلائل پر بات چیت ہوگی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ اس کریمہ پر گفتگو کیوں نہیں بڑھا رہے کیا یہ قرآنِ کریم کی آیت نہیں؟؟؟ حالانکہ یہ آیت کریمہ میں نے نہیں، بلکہ آپ نے ہی اپنے موقف کی دلیل کے طور پر پیش کی تھی، اب اسی دلیل کو ثابت کرنے کی بجائے آپ جان چھڑا کر ادھر ادھر کیوں بھاگنا چاہ رہے ہیں؟!!!
میں نے اس آیت کریمہ کی تشریح میں آپ کو بالکل صحیح وصریح حدیث سے ثابت کر دیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے بذاتِ خود اس آیت کریمہ سے سیدنا جبریل مراد لیے ہیں، دیکھئے پوسٹ نمبر 26
اب آپ بتائیے کہ آپ اپنے پیارے نبی مکرمﷺ کی بات مانیں گے یا اپنی عقل اور اپنے پیروں فقیروں اور بزرگوں کی؟؟!!
دوسرے الفاظ میں قرآن وسنت کی مانیں گے یا اندھی تقلید پر ہی عمل پیرا رہ کر دنیا وآخرت کھوٹی کریں گے۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ٣ ﴾ ۔۔۔ الأعراف
تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو (
3)
دیکھتے ہیں کہ آپ ما انزل اللہ کی پیروی کرتے ہیں یا اللہ کے علاوہ دیگر اولیاء کی؟؟؟!
میرے بھائی! اپنے موقف کے خلاف اللہ اور رسول کی بات ماننا کوئی ہار نہیں کوئی عیب نہیں، بلکہ حق کو قبول کرنا ہی سب سے بڑی بہادری ہے۔
ہر مسلمان کو بہادر ہونا چاہئے!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!