• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا؟

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
موسیٰ علیہ سلام کو اللہ نے فرمایا تھا کہ اے موسیٰ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا .کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو مجھے نہیں دیکھ سکتا. قرآن کہتا ہے ہم نے بعضوں پر بعضوں کو فضیلت دی. تو موسیٰ اور آقا علیہ سلام میں فرق بھی ہے. نگاہ موسیٰ نہیں دیدار کے قابل تو نگاہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قابل ہے.

اللہ نے یہ کہاں فرمایا ھے کہ " اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو مجھے دیکھ سکتا ھے؟"

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ﴿١١-٥٣﴾

نظر نے جو کچھ دیکھا، دل نے اُس میں جھوٹ نہ ملایا ۔

لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ ﴿١٨﴾

اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں


ان آیات میں یہ کہاں لکھا ھے کہ " اللہ کو دیکھا"
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
اور ان میں یہ کہاں لکھا ہا ہے کہ اللہ کے علاوہ دیکھا ؟



مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىO

(النجم، 53 : 17)

اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی.

اگر ان میں جبرائیل مراد ہے تو جبرائیل کو تو روزانہ دیکتے تھے وہ وحی لاتا تھا......
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
اور ان میں یہ کہاں لکھا ہا ہے کہ اللہ کے علاوہ دیکھا.....



لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ ﴿١٨﴾

اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
موسیٰ علیہ سلام کی تو نفی ہوئ ہوئ ہے مگر آپ آقا علیہ سلام کی نفی کر کہ دیں. موسیٰ کو تو ان کے اصرار پر اللہ نے جلوہ دیا بھی تھا مگر ان کی آنکھ کی وہ طاقت نہ تھی اور جب آقا علیہ سلام کی باری آئ تو موسیٰ علیہ سلام نے جو ٩ بار کہا تھا کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں تو اس کا حساب بھی ٤٥ نمازیں کم کر کے باری باری چہرہ مصطفیٰ کو دیکھ کر پورا کیا.
جہاں بات آتی ہے کہ ابراہیم علیہ سلام کو دیکھا کوئ موسیٰ کا کہتا ہے مگر وہ سدرۃالمنتہیٰ سے پہلے کی بات ہے. سدرۃ المنتہیٰ سے اوپع تو جبرائیل گیا ہی نہیں.اور اب اس پہ یہ آیت دلیل کرتی ہے کہ

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىO

(النجم، 53 : 17)

اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی.

وہاں ایک ہی ذات تھی جس پر سے نظر نہ ہٹی نہ ادھر ادھر ہوئ........صرف ایک رویت لی ہوئ ہے حضرت عائشہ والی اور اس کو بھی بار بار لے آتے ہیں. اب اس کی تفسیر بھی میں نے بتا دی ہے......

اور آپ نے صحیح مسلم کی روایت نمبر 2٩١ دی کی آقا نے فرمایا میں اس تو کو کیسے دیکھ سکتا تھا.....مگر پھر انہوں نے خود ہی اس کو کھول دیا وہ میں آپ کو ٣ بار بتا چکا ہوں حدیث نمبر 2٩2 میں کہ فرمایا میں نے اس نور کو دیکھا.....
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
جلتے ہیں جبرائیل کے پر جس مقام پر . . . . ..
اس کی حقیقتوں کے شناسا تم ہی تو ہو......... یا رسوال اللہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جناب میں بات کو آگے لے کر جانا چاہتا ہوں. مگر آپ لوگوں سے ذیاداہ ان آیات کو وہ سمجھتے تھے جن کے سامنے نازل ہوئ ہیں. میں آپکو اتنا کہہ رہا ہوں کہ جو روایت آپ نے امام بخاری کی دی ہے وہ ٹھیک ہے حضر ت عائشہ رضی اللہ والی حدیث صحیح ہے.
مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ صحابہ کرام﷢ ہم سے بہت ت ت ت ت زیادہ جانتے ہیں۔ ہم کیا اور ہماری حیثیت کیا! اور صحابہ کرام ﷢ میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہا کہ نبی کریمﷺ نے اپنے رب کو جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ نبی کریمﷺ سب سے زیادہ جانتے تھے، جب نبی کریمﷺ نے ہی وضاحت فرما دی کہ وہ جبریل تھے، تو پھر آئیں بائیں شائیں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟؟!!!! کیا یہ نبی کریمﷺ کی شدید گستاخی نہیں کہ اس سلسلے میں ان کی وضاحت کو در خور ِ اعتناء ہی نہ سمجھا جائے؟؟!!!

مگر آپ اس حدیث پر ہونے والی تفسیر کو بھی سمجھیں اما م عسقلانی نے فتح الباری میں اس کی تفسیر کی ہے. اور بار بار یہی آپ سے کہہ رہا ہوں کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدار نہیں کیا تو ابو بکر صدیق نے پو چھا کہ اے عائشہ آپ نے یہ بات کیسے کہی تو انہوں نے یہ آیت پڑھی "


لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ.

(الانعام، 6 : 103)

نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے

تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی عزت کی قسم مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبی کی دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے اور فرمایا میں نے اپنے رب کو اس کی اصلی صورت میں دیکھا

امام عسقلانی نے اس کو فتح الباری میں فرمایا ہے
پہلے سورۃ النجم کی آیاتِ کریمہ پر اتفاق کر لیں کہ نبی کریمﷺ نے کسے دیکھا تھا؟ پوسٹ نمبر 26 میں موجود صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ میں وضاحت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب نبی کریمﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ وہ تو جبریل تھے۔
اگر آپ بھی نبی کریمﷺ کی بات مان کر یہ تسلیم کر لیں کہ ان آیات کریمہ سے اللہ تعالیٰ کی رؤیت نہیں بلکہ جبریل﷤ کی رؤیت مراد ہے۔ یا پھر آپ نبی کریمﷺ کی اس وضاحت کا دلائل سے ردّ کر دیں!! تو پھر آگے بڑھتے ہیں اور دیگر دلائل پر غور کرتے ہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بات کو مزید سمیٹتے ہیں۔

سورۃ النجم کی آیاتِ کریمہ میں نبی کریمﷺ کا کسی کو دیکھنے کا ذکر ہے۔
آپ کا موقف ہے کہ ان آیاتِ کریمہ میں اللہ رب العٰلمین کو دیکھنے کی بات ہوئی ہے۔
میرا موقف یہ ہے کہ ان آیات میں جبریل﷤ کو دیکھنے کی بات ہوئی ہے۔

ہم دونوں میں اس موضوع پر اختلاف ہو گیا۔

اختلاف کے حل کا طریقۂ کار اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ فیصلہ نبی کریمﷺ سے کرا لیا جائے، اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر اللہ نے قسم کھا کر فرمایا کہ ایمان نہیں ہے۔ بلکہ نبی کریمﷺ سے فیصلہ کرانے کے بعد اسے طوعا وکرہا بامر مجبوری ماننا بھی ایمان کے منافی ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ نبی کریمﷺ سے اپنے اختلافات کا فیصلہ کرایا جائے اور پھر اسے دل کے ساتھ بخوشی تسلیم کر لیا جائے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ فَلَا وَرَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ‌ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَ‌جًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ٦٥ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں (65)

میں نے پوسٹ نمبر 26 میں صحیح مسلم کی بالکل صحیح روایت سے نبی کریمﷺ کا فرمان عالی شان ذکر کر دیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل﷤ کو دیکھا تھا۔

مسلمانوں کے مابین جب اختلاف کا نبی کریمﷺ فرما دیں تو اختلاف ختم ہوجانا چاہئے۔

میرے بھائی! اس اختلاف میں نبی کریمﷺ کے فیصلے کو آپ دل کی خوشی سے فوری تسلیم کیوں نہیں کر رہے؟؟!! نبی کریمﷺ کو فیصل کیوں نہیں مان رہے؟؟!!
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
دیکھو بھائ جان ......مسلم کی جو حدیث آپ نے دی ہے میں اس کو جھٹلاتا نہیں نہ ہی ایسا کر سکتا ہوں. میں بات کر رہا ہوں سدرۃ لمنتہیٰ سے اوپر کی.جب جبرائیل وہاں سے آگے گیا ہی نہیں تو آپ اس حدیث کو ذبر دستی جبرایئل پر کیوں ٹھو نس رہے ہیں. اللہ تو اس مقام سے اوپر ملا تھا اور جبراہیل وہان تک گیا تک نہیں تو آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں.بات کو سمجھیں .
یہ عقیدہ امت مسلمہ کا ابتدا سے ہے مگر سوا؁ے آپ کے مسلک کے لوگوں کے امت کا اس پر اجتماع ہے. آپ کے عقیدے کی بنیاد ہی ١١١٥ ہجری میں ہوئ. محمد بن وہاب نجدی سے ہوئ.جس نے سارے دین کا بیڑا غلط عقائد اور غلط نظریت کی بنا پر غرق کر دیا.صحابہ کی قبریں اور باقی اولیا کی قبروں اور مزارات کو تہس نہس کر دیا. اسی لیے تو میرے آقا نے نجد کے لیے دعا نہیں کی کی وہاں سے وہ لوگ اٹھیں گے جو انبیا اور اولیا کے بے ادب ہوں گے.اور بات واضع ہے .کبھی غیب کے علم پر نقطہ چینی کبھی رویت باری تعالیٰ، کبھی نور و بشر کبھی کیا کبھی کیا.

پھر وہ( رب العزت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور قریب ہوگیا (نجم 53:8)
اب اس ہی معنی کے ساتھ اس آیت کا ترجمعہ امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ سے جاممع الصحیح میں روایت کیا ہے۔اس کے علاوہ اسی معنی کے ساتھ خضرت عبد اللہ بن عباس ، امام حسن بصریِ امام جعفر صادق، محمد بن کعب قرظی التابعی اور ضحاک رضی اللہ کے علاوہ کئ تابعی تابعین سے یہ معنی مروی ہے۔
 

allahkabanda

رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
174
ری ایکشن اسکور
569
پوائنٹ
69
اللہ تو اس مقام سے اوپر ملا تھا
ثبوت قطعی دیجیے؟
ثبوت سے مراد ہے ایسی نص جو دین میں دلیل ہو
ثبوت قطعی سے مراد ہے ایسی نص جو جسکی مراد اور مفہوم واضح ہو متشابہات میں سے نہ ہو
اور اگر یہ آپکے پاس نہیں تو پھر اپنی خواہشات سے دین نہ گھڑیں
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
دیکھو بھائ جان ......مسلم کی جو حدیث آپ نے دی ہے میں اس کو جھٹلاتا نہیں نہ ہی ایسا کر سکتا ہوں.
تو پھر اقرار کر لو کہ سورۃ النجم اور سورۃ التکویر میں جس رؤیت کا ذکر ہے، وہ جبریل﷤ کی رؤیت ہے، نبی کریمﷺ نے انہیں اپنی اصل شکل میں دو مرتبہ دیکھا۔

دعویٰ تو آپ کا یہ ہے کہ میں صحیح مسلم کی حدیث کو نہیں جھٹلاتا، لیکن پھر بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ سورۃ النجم کی آیات میں جس رؤیت کا ذکر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ہے، نہ کہ جبریل﷤ کی۔
تو یہ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کا انکار ہوا یا اقرار؟!! عجیب تضاد ہے آپ کے موقف میں۔ منہ سے بار بار کہتے ہیں کہ میں صحیح مسلم کی روایت کو مانتا ہوں، لیکن پھر بحث کیے جا رہے ہیں کہ ان آیات میں اللہ کی رؤیت کا ذکر ہے۔

ہاں البتہ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی روایت سے تو جبریل کی رؤیت ہی ثابت ہوتی ہے، لیکن آپ کے پاس اس موقف کے دیگر دلائل ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اس کے علاوہ اللہ کو دیکھا تھا۔ تب آپ کی بات معقول ہوگی۔

میں بات کر رہا ہوں سدرۃ لمنتہیٰ سے اوپر کی.جب جبرائیل وہاں سے آگے گیا ہی نہیں تو آپ اس حدیث کو ذبر دستی جبرایئل پر کیوں ٹھو نس رہے ہیں. اللہ تو اس مقام سے اوپر ملا تھا اور جبراہیل وہان تک گیا تک نہیں تو آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں.بات کو سمجھیں .
بھائی!! میں تو اس حدیث کو جبریل پر زبردستی نہیں ٹھونس رہا، نبی کریمﷺ کا فرمان بیان کیا ہے کہ ان آیات میں جبریل کی رؤیت مراد ہے، نہ کہ اللہ کی۔
اور آپ کتنے سچے عاشق ہیں کہ نبی کریمﷺ کی بات آپ کو تسلیم ہی نہیں۔

یہ عقیدہ امت مسلمہ کا ابتدا سے ہے مگر سوا؁ے آپ کے مسلک کے لوگوں کے امت کا اس پر اجتماع ہے. آپ کے عقیدے کی بنیاد ہی ١١١٥ ہجری میں ہوئ. محمد بن وہاب نجدی سے ہوئ.جس نے سارے دین کا بیڑا غلط عقائد اور غلط نظریت کی بنا پر غرق کر دیا.صحابہ کی قبریں اور باقی اولیا کی قبروں اور مزارات کو تہس نہس کر دیا. اسی لیے تو میرے آقا نے نجد کے لیے دعا نہیں کی کی وہاں سے وہ لوگ اٹھیں گے جو انبیا اور اولیا کے بے ادب ہوں گے.اور بات واضع ہے .کبھی غیب کے علم پر نقطہ چینی کبھی رویت باری تعالیٰ، کبھی نور و بشر کبھی کیا کبھی کیا.
آپ نے پھر فضول باتیں ہانکنا شروع کر دیں!
محترم! موضوع پر بات کریں!

پھر وہ( رب العزت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور قریب ہوگیا (نجم 53:8)
اب اس ہی معنی کے ساتھ اس آیت کا ترجمعہ امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ سے جاممع الصحیح میں روایت کیا ہے۔اس کے علاوہ اسی معنی کے ساتھ خضرت عبد اللہ بن عباس ، امام حسن بصریِ امام جعفر صادق، محمد بن کعب قرظی التابعی اور ضحاک رضی اللہ کے علاوہ کئ تابعی تابعین سے یہ معنی مروی ہے۔
اب آپ نے صحیح بخاری کی سیدنا انس﷜ کی حدیث مبارکہ بیان کر دی ہے، اس حدیث مبارکہ پر بھی بات کریں گے، ضرور کریں گے، ان شاء اللہ!
پہلے آپ پیچھے پیش کی گئی احادیث مبارکہ (خاص طور پر صحیح مسلم کی روایت جس میں نبی کریمﷺ نے بذاتِ تصریح فرمائی کہ میں نے جبریل کو دیکھا۔) کے بارے میں کوئی فائنل فیصلہ کر لیں۔

دعویٰ تو آپ کا بار بار یہ ہے کہ میں ان روایات کو جھٹلاتا نہیں، جبکہ عمل سراسر جھٹلانے پر ہے، جو ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔

یا تو آپ ان احادیث مبارکہ کو جھوٹا گھڑا ہوا ثابت کریں! یا پھر تسلیم کر لیں کہ ان آیات کریمہ میں جبریل﷤ کی رؤیت کا ذکر ہے۔

اگر آپ کا اس پر اتفاق ہے تو پھر دیگر دلائل پر بات شروع کرتے ہیں۔
اگر نہیں، تو ازراہِ کرم مجھے مزید گفتگو سے معذور سمجھیں۔

نام نہاد عاشقوں کی نبی کریمﷺ سے محبت کا پول ضرور میرے سامنے کھل گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی عاشقی سے ہم سب کو محفوظ رکھیں!
﴿ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ٣١ قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِ‌ينَ ٣٢ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے (31) کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منھ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا (32)

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 
Top