دیکھو بھائ جان ......مسلم کی جو حدیث آپ نے دی ہے میں اس کو جھٹلاتا نہیں نہ ہی ایسا کر سکتا ہوں.
تو پھر اقرار کر لو کہ سورۃ النجم اور سورۃ التکویر میں جس رؤیت کا ذکر ہے، وہ جبریل کی رؤیت ہے، نبی کریمﷺ نے انہیں اپنی اصل شکل میں دو مرتبہ دیکھا۔
دعویٰ تو آپ کا یہ ہے کہ میں صحیح مسلم کی حدیث کو نہیں جھٹلاتا، لیکن پھر بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ سورۃ النجم کی آیات میں جس رؤیت کا ذکر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ہے، نہ کہ جبریل کی۔
تو یہ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کا انکار ہوا یا اقرار؟!! عجیب تضاد ہے آپ کے موقف میں۔ منہ سے بار بار کہتے ہیں کہ میں صحیح مسلم کی روایت کو مانتا ہوں، لیکن پھر بحث کیے جا رہے ہیں کہ ان آیات میں اللہ کی رؤیت کا ذکر ہے۔
ہاں البتہ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی روایت سے تو جبریل کی رؤیت ہی ثابت ہوتی ہے، لیکن آپ کے پاس اس موقف کے دیگر دلائل ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اس کے علاوہ اللہ کو دیکھا تھا۔ تب آپ کی بات معقول ہوگی۔
میں بات کر رہا ہوں سدرۃ لمنتہیٰ سے اوپر کی.جب جبرائیل وہاں سے آگے گیا ہی نہیں تو آپ اس حدیث کو ذبر دستی جبرایئل پر کیوں ٹھو نس رہے ہیں. اللہ تو اس مقام سے اوپر ملا تھا اور جبراہیل وہان تک گیا تک نہیں تو آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں.بات کو سمجھیں .
بھائی!! میں تو اس حدیث کو جبریل پر زبردستی نہیں ٹھونس رہا، نبی کریمﷺ کا فرمان بیان کیا ہے کہ ان آیات میں جبریل کی رؤیت مراد ہے، نہ کہ اللہ کی۔
اور آپ کتنے سچے عاشق ہیں کہ نبی کریمﷺ کی بات آپ کو تسلیم ہی نہیں۔
یہ عقیدہ امت مسلمہ کا ابتدا سے ہے مگر سواے آپ کے مسلک کے لوگوں کے امت کا اس پر اجتماع ہے. آپ کے عقیدے کی بنیاد ہی ١١١٥ ہجری میں ہوئ. محمد بن وہاب نجدی سے ہوئ.جس نے سارے دین کا بیڑا غلط عقائد اور غلط نظریت کی بنا پر غرق کر دیا.صحابہ کی قبریں اور باقی اولیا کی قبروں اور مزارات کو تہس نہس کر دیا. اسی لیے تو میرے آقا نے نجد کے لیے دعا نہیں کی کی وہاں سے وہ لوگ اٹھیں گے جو انبیا اور اولیا کے بے ادب ہوں گے.اور بات واضع ہے .کبھی غیب کے علم پر نقطہ چینی کبھی رویت باری تعالیٰ، کبھی نور و بشر کبھی کیا کبھی کیا.
آپ نے پھر فضول باتیں ہانکنا شروع کر دیں!
محترم! موضوع پر بات کریں!
پھر وہ( رب العزت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور قریب ہوگیا (نجم 53:8)
اب اس ہی معنی کے ساتھ اس آیت کا ترجمعہ امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ سے جاممع الصحیح میں روایت کیا ہے۔اس کے علاوہ اسی معنی کے ساتھ خضرت عبد اللہ بن عباس ، امام حسن بصریِ امام جعفر صادق، محمد بن کعب قرظی التابعی اور ضحاک رضی اللہ کے علاوہ کئ تابعی تابعین سے یہ معنی مروی ہے۔
اب آپ نے صحیح بخاری کی سیدنا انس کی حدیث مبارکہ بیان کر دی ہے، اس حدیث مبارکہ پر بھی بات کریں گے، ضرور کریں گے، ان شاء اللہ!
پہلے آپ پیچھے پیش کی گئی احادیث مبارکہ (خاص طور پر صحیح مسلم کی روایت جس میں نبی کریمﷺ نے بذاتِ تصریح فرمائی کہ میں نے جبریل کو دیکھا۔) کے بارے میں کوئی فائنل فیصلہ کر لیں۔
دعویٰ تو آپ کا بار بار یہ ہے کہ میں ان روایات کو جھٹلاتا نہیں، جبکہ عمل سراسر جھٹلانے پر ہے، جو ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔
یا تو آپ ان احادیث مبارکہ کو جھوٹا گھڑا ہوا ثابت کریں! یا پھر تسلیم کر لیں کہ ان آیات کریمہ میں جبریل کی رؤیت کا ذکر ہے۔
اگر آپ کا اس پر اتفاق ہے تو پھر دیگر دلائل پر بات شروع کرتے ہیں۔
اگر نہیں، تو ازراہِ کرم مجھے مزید گفتگو سے معذور سمجھیں۔
نام نہاد عاشقوں کی نبی کریمﷺ سے محبت کا پول ضرور میرے سامنے کھل گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی عاشقی سے ہم سب کو محفوظ رکھیں!
﴿ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ٣١ قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ ٣٢ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے (
31) کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منھ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا (
32)
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!