• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا وجہ ہے کہ احناف رفع الیدین والی صحیح احادیث کو قبول نہیں کرتے؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
مصنف ابن أبي شيبة
حدثنا أبو بكر قال حدثنا وكيع عن حماد بن سلمة عن يحيى بن أبي إسحاق عن أنس أنه كان يرفع يديه بين السجدتين.

انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرتے تھے۔
۔
upload_2015-10-17_15-40-53.png
۔
upload_2015-10-17_15-41-19.png
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
مصنف ابن أبي شيبة
حدثنا أبو بكر قال نا أبو أسامة عن عبيدالله عن نافع عن ابن عمر أنه كان يرفع يديه إذا رفع رأسه من السجدة الاولى.

ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔
upload_2015-10-17_15-43-49.png
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃاللہ
آپ کوشش کریں کے آپکے پیش کردہ دلائل الکتاب والسنہ سے هی هوں ۔
الله آپکو جزائے خیر دے ۔
محترم! آپ نے جو مشورہ دیا وہ بالکل ٹھیک تھا اس سے مجھے اختلاف نہیں بلکہ اتفاق ہے۔ مگر آپ کی نصیحت کا جو ردِ عمل تھا میں نےاس سلسلہ میں کچھ عرض کرنے کی کوشش کی تھی اگر گراں گزری ہے تو معذرت خواہ ہوں۔ آپ کی نصیحت کا جواب ذیل میں دیکھ لیں
بھائی جو لوگ رفع الیدین کو منسوخ کہتے ہیں انکو دکھانے کے لئے یہ پوسٹ کی ہے -
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
برادر محترم انهوں نے وه جواب مجهے دیا تها اور میری مداخلت میں پیش کردہ نقطہ کی انکی جانب سے وضاحت تهی ۔ جواب دینے والے کو بخوبی علم هوگا کے ایسے نقاط احناف نهیں اٹهاتے هیں ۔ المختصر انهوں نے مجهے جواب دیا آپ نے انکے جواب پر پورے فورم پر دهر دیا ۔ دیکهیں نا کتنا واضح فرق هے میری مداخلت میں اور آپکی مداخلت میں !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! انکی جانب سے وضاحت ہی یہ بتا رہی ہے کہ اس فورم کا مقصد کیا ہے۔ خصوصاً ابوداؤد کی پوسٹس کو ملاحظہ فرمالیں۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! آپ شائد بات کو سمجھے نہیں یا بات کو خواہ مخواہ الجھنا چاہتے ہو۔ میں نے فرض کی تھی کہ اثبات ممناعت پر فائق ہوتا ہے اور میں نے سجدوں می کی جانے والی رفع الیدین کے اثبات کی احادیث پیش کی ہیں ان کے بارے میں ارشاد فرمائیں۔ سجود میں رفع الیدین نہ کرنے کی احادیث مخفی نہیں۔
والسلام
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اہل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! آپ شائد بات کو سمجھے نہیں یا بات کو خواہ مخواہ الجھنا چاہتے ہو۔ میں نے فرض کی تھی کہ اثبات ممناعت پر فائق ہوتا ہے اور میں نے سجدوں می کی جانے والی رفع الیدین کے اثبات کی احادیث پیش کی ہیں ان کے بارے میں ارشاد فرمائیں۔ سجود میں رفع الیدین نہ کرنے کی احادیث مخفی نہیں۔
والسلام
اس کا مختصر جواب یہ ہے ۔ اثبات نفی پر مقدم ہے۔لیکن بخاری کی حدیث ہونے کی صورت میں یہ اصول قبول نہیں کیا جائے گا ہے ۔
حدیث کے اصول پڑھنے کے لیے آپ اس کتاب کا مطالعے کریں ۔اس میں اس مسئلے کی مکمل بحث ہے
http://download1490.mediafire.com/zn5g7s13enwg/w1l65h97v6wclfz/Merrat+ul+Bukhari.pdf
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
مصنف ابن أبي شيبة
حدثنا أبو بكر قال حدثنا وكيع عن حماد بن سلمة عن يحيى بن أبي إسحاق عن أنس أنه كان يرفع يديه بين السجدتين.

انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرتے تھے۔
پہلے راوی عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان بن خواستي
ان کا مشور نام : أبو بكر بن أبي شيبة-ابن أبي شيبة-عبد الله بن أبي شيبة- ہے ثقہ جلیل القدر ہیں۔وكيع بن الجراح بن مليح الرؤاسى ثقہ حافظ عابد ہیں،حماد بن سلمة بن دينار البصرى
ثقة عابد أثبت الناس فى ثابت ، وتغير حفظه بأخرة آخری عمر میں حافظہ میں کچھ تغیر آگیا تھا،اور یحی بن ابی اسحاق کی بعض روایتوں میں ضعف ہے ویسے ثقہ ہیں اور باقی راوی ثقہ ہیں۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
واللہ اعلم
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
السلام علیکم ورحمۃ اللہ


محترم س کے بارے میں بھی کچھ ارشاد ہو؛

سنن أبي داود كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ
كُنْتُ غُلَامًا لَا أَعْقِلُ صَلَاةَ أَبِي قَالَ فَحَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ أَبِي وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَالَ ثُمَّ الْتَحَفَ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ وَأَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي ثَوْبِهِ قَالَ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ سَجَدَ وَوَضَعَ وَجْهَهُ بَيْنَ كَفَّيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ أَيْضًا رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ


وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب وہ تکبیر تحریمہ کہتے رفع الیدین کرتے ــــــــــــــــــــ اور جب سجدوں سے سر اٹھاتے اس طرح رفع الیدین کرتے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوتے (اسی طرح کرتے) الحدیث۔

اس حدیث کی تائید درج ذیل جلیل القدر ہستیاں بھی کرتی ہیں؛

مصنف ابن أبي شيبة
حدثنا أبو بكر قال حدثنا وكيع عن حماد بن سلمة عن يحيى بن أبي إسحاق عن أنس أنه كان يرفع يديه بين السجدتين.


انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرتے تھے۔

مصنف ابن أبي شيبة
حدثنا أبو بكر قال نا أبو أسامة عن عبيدالله عن نافع عن ابن عمر أنه كان يرفع يديه إذا رفع رأسه من السجدة الاولى.


ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔

مصنف ابن أبي شيبة
حدثنا أبو بكر قال نا ابن علية عن أيوب قال رأيت نافعا وطاوسا يرفعان أيديهما بين السجدتين.


نافع رحمۃ اللہ علیہ اور طاؤس رحمۃ اللہ علیہ سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرتے تھے۔

والسلام
حكم رفع اليدين في السجود .
السؤال :
هل في السنة ما يثبت صحة رفع اليدين بين السجدتين ؟ فالإمام الألباني رحمه الله ذكر خمسة أحاديث تنص على أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه بين السجدتين ، لكننا نجد حديثاً آخر في صحيح البخاري ، والبيهقي من رواية بن عمر ذكر فيه أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع يديه بين السجدتين مطلقاً ، فما توجيهكم ؟

الجواب :
الحمد لله
أولا :
روى البخاري (735) ، ومسلم (390) عن ابن عمر : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ )
وروى البخاري (739) عَنْ نَافِعٍ : " أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا قَامَ مِنْ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .
" فَاتَّفَقَ الشَّافِعِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَالرَّفْعِ مِنْهُ ، وَأَنَّهُ مِنْ سُنَنِ الصَّلاَةِ ، وَقَال السُّيُوطِيُّ : الرَّفْعُ ثَابِتٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ رِوَايَةِ خَمْسِينَ صَحَابِيًّا.
وَذَهَبَ الشَّافِعِيَّةُ إِلَى أَنَّهُ يُنْدَبُ رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الْقِيَامِ مِنَ التَّشَهُّدِ لِلرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ ، وَهِيَ رِوَايَةٌ عَنِ الإْمَامِ أَحْمَدَ " انتهى من " الموسوعة الفقهية " (27 /95) .
قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :
" مواضع رَفْع اليدين أربعة :
عند تكبيرة الإحرام ، وعند الرُّكوعِ ، وعند الرَّفْعِ منه ، وإذا قام من التشهُّدِ الأول " .
انتهى من " الشرح الممتع " (3 /214) .
راجع جواب السؤال رقم : (3267) .

تنبيه : ما نسب في "الموسوعة الفقهية" ، إلى الشافعية من استحباب رفع اليدين عن القيام من التشهد للركعة الثالثة : غير صحيح ، فالمشهور من المذهب ، وعليه أكثر الأصحاب : أنه لا يرفع اليدين إلا في تكبيرة الإحرام ، والركوع ، والرفع منه .
ينظر : " المجموع شرح المهذب " للنووي (3/425) .

ثانيا :
روى البخاري (737) ، ومسلم (391) - واللفظ له - عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ " .
ورواه النسائي (1085) وزاد : " وَإِذَا سَجَدَ ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ ، حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ " وصححه الألباني في "صحيح النسائي" .
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله :
" وأصح ما وقفت عليه من الأحاديث في الرفع في السجود ما رواه النسائي ... " ثم ذكر هذا الحديث .
ورواه أحمد (20014) ولفظه : عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِيَالَ فُرُوعِ أُذُنَيْهِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ " .
وروى ابن أبي شيبة (2449) عَنْ أَنَسٍ " أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ " وصححه الألباني في " الإرواء " (2/68) .

فاختلف العلماء في الجمع بين حديث ابن عمر الذي ينفي فيه الرفع في السجود ، وبين حديث مالك بن الحويرث ، وحديث أنس ، وما روي في معناهما مما يفيد الرفع في السجود :

- فذهب بعضهم إلى أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يرفع أحيانا ، ولكن كان أكثر حاله على عدم الرفع .
وقد ذكر ابن رجب رحمه الله بعض الروايات التي فيها الرفع في السجود ثم قال : " ويجاب عن هذه الروايات كلها ، على تقدير أن يكون ذكر الرفع فيها محفوظا، ولم يكن قد اشتبه بذكر التكبير بالرفع = بأن مالك بن الحويرث ، ووائل بن حجر : لم يكونا من أهل المدينة ، وإنما كانا قد قدما إليها مرة أو مرتين ، فلعلهما رأيا النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فعل ذَلِكَ مرة ، وقد عارض ذَلِكَ نفي ابن عمر، مع ملازمته للنبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وشدة حرصه على حفظ أفعاله واقتدائه به فيها ، فهذا يدل على أن أكثر أمر النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كانَ ترك الرفع فيما عدا المواضع الثلاثة والقيام من الركعتين ، وقد روي في الرفع عندَ السجود وغيره أحاديث معلولة " .انتهى من "فتح الباري" لابن رجب (6/ 354)
وقال السندي رحمه الله :
" الظَّاهِر أَنَّهُ كَانَ يَفْعَل ذَلِكَ أَحْيَانًا وَيَتْرُك أَحْيَانًا ، لَكِنَّ غَالِب الْعُلَمَاء عَلَى تَرْك الرَّفْع وَقْت السُّجُود ، وَكَأَنَّهُمْ أَخَذُوا بِذَلِكَ بِنَاء عَلَى أَنَّ الْأَصْل هُوَ الْعَدَم ، فَحِين تَعَارَضَتْ رِوَايَتَا الْفِعْل وَالتَّرْك : أَخَذُوا بِالْأَصْلِ . وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ " انتهى .

- وذهب الأكثرون إلى ترجيح عدم الرفع ؛ لأنه المحفوظ رواية ودراية ، وحكموا على روايات الرفع بالشذوذ ، وأن الراوي أخطأ فذكر الرفع بدل التكبير ؛ لأن الصحيح أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يكبر في كل خفض ورفع ، كما في البخاري (785) ، ومسلم (392) .
وروى الترمذي (253) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ وَقِيَامٍ وَقُعُودٍ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ " .
قال الترمذي عقبه : " حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَغَيْرُهُمْ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ ، وَعَلَيْهِ عَامَّةُ الْفُقَهَاءِ وَالْعُلَمَاءِ " انتهى .
وفي "العلل" ، للإمام الدارقطني (1763) : أنه َسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ ، وَيَقُولُ: لَوْ قُطِعَتْ يَدِي لَرَفَعْتُ ذِرَاعِي ، وَلَوْ قُطِعَتْ ذِرَاعِي لَرَفَعْتُ عَضُدِي.
فَقَالَ: هَذَا رَوَاهُ رَفْدَةُ بْنُ قُضَاعَةَ الْغَسَّانِيُّ ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي سَلَمَةَ كَذَلِكَ.
وَخَالَفَهُ مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَغَيْرُهُ ، فَرَوَوْهُ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ : " رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكَبِّرُ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ وَفِي آخِرِهِ : إِنَّهَا لَصَلَاةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا هُوَ الصَّوَابُ.
وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛
فَرَوَاهُ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عن أبي هُرَيْرَةَ ؛ أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خفض ورفع ، ويقول: " أَنَا أَشْبَهُكُمْ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
وَلَمْ يُتَابِعْ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ عَلَى ذَلِكَ.
وَغَيْرُهُ يَرْوِيهِ: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ وَهُوَ الصَّحِيحُ " .انتهى من "العلل" (9/283) .

وفي " تذكرة الحفاظ " لابن القيسراني (89، رقم 192) :
" 192 – " إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ. . . ) الْحَدِيثَ.
رَوَاهُ رَفْدَةُ بْنُ قُضَاعَةَ الْغَسَّانِيُّ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ .
وَهَذَا خَبَرٌ إِسْنَادُهُ مَقْلُوبٌ وَحَدِيثُهُ مُنْكَرٌ ، مَا رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ قَطُّ.
وَإِخْبَارُ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ يُصَرِّحُ بِضِدِّهِ ؛ أِنَّهُ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.
وَرَفْدَةُ هَذَا ضَعِيفٌ، تَفَرَّدَ بِهَذَا الْحَدِيثِ " انتهى .
وينظر: "منهج الإمام أحمد في إعلال الحديث" ، بشير علي عمر (1/129-131) .

سئل علماء اللجنة :
ورد بعض الأحاديث برفع اليدين بين السجدتين وفي بعضها نهي عن الرفع بينهما، فما وجه الجمع بينهما ؟
فأجابوا : " سلك بعض العلماء مسلك الترجيح في ذلك ؛ فرجحوا ما رواه البخاري ومسلم عن ابن عمر رضي الله عنهما من عدم رفع اليدين عند السجود والرفع منه، واعتبروا رواية الرفع فيهما شاذة لمخالفتها لرواية الأوثق .
وسلك آخرون مسلك الجمع بين الروايات لكونه ممكنا فلا يعدل عنه إلى الترجيح ، لاقتضاء الجمع العمل بكل ما ثبت ، واقتضاء الترجيح رد بعض ما ثبت وهو خلاف الأصل . وبيان ذلك أن النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه في السجود والرفع منه أحيانا ، وتركه أحيانا فروى كل ما شاهد .
والعمل بالأول أولى للقاعدة التي ذكرت معه " انتهى من "فتاوى اللجنة الدائمة" (6 /345) .
وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :
" وإذا كان ابن عمر - رضي الله عنهما - وهو الحريص على تتبع فعل الرسول عليه الصلاة والسلام ، وقد تتبعه فعلا ، فرآه يرفع يديه في التكبير، والركوع، والرفع منه، والقيام من التشهد الأول ، وقال: "لا يفعل ذلك في السجود". فهذا أصح من حديث أن النبي صلى الله عليه وسلم "كان يرفع يديه كلما خفض وكلما رفع"، ولا يقال: إن هذا من باب المثبت والنافي، وأن من أثبت الرفع فهو مقدم على النافي في حديث ابن عمر ، رضي الله عنهما ؛ لأن حديث ابن عمر صريح في أن نفيه ليس لعدم علمه بالرفع ، بل لعلمه بعدم الرفع ، فقد تأكد ابن عمر من عدم الرفع ، وجزم بأنه لم يفعله في السجود ، مع أنه جزم بأنه فعله في الركوع ، والرفع منه ، وعند تكبيرة الإحرام ، والقيام من التشهد الأول.
فليست هذه المسألة من باب المثبت والنافي التي يقدم فيها المثبت لاحتمال أن النافي كان جاهلا بالأمر، لأن النافي هنا كان نفيه عن علم وتتبع وتقسيم ، فكان نفيه نفي علم ، لا احتمال للجهل فيه فتأمل هذا فإنه مهم مفيد " انتهى من " مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين" (13 /45-46) .

والراجح من القولين - والله أعلم - هو القول بعدم الرفع ، وعليه أكثر أهل العلم ، لكن من ترجح عنده ثبوت رواية الرفع ، وأخذ بالقول الأول ، ورفع أحيانا : فلا ينكر عليه ؛ فهي مسألة اجتهادية .

والله تعالى أعلم .

http://islamqa.info/ar/186625
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
: نماز میں رفع الیدین کے بارے میں احناف کا موقف

سوال:


احناف کہتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائی زندگی میں باقاعدگی سے رفع الیدین کیا کرتے تھے، لیکن اپنی زندگی کے آخری ایام میں آپ نے رفع الیدین ترک کر دیا تھا، تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل ہونے کی وجہ سے ترک رفع الیدین پر عمل کرنا زیادہ اجر کا باعث ہوگا؟ اور کیا انکا یہ دعوی درست ہے یا نہیں؟ اور کیا خلفائے راشدین سے رفع الیدین ثابت ہے؟

الحمد للہ:

احناف کا یہ موقف ہے کہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع الیدین کرنا نماز کی سنن میں سے ہے، جبکہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ تمام تکبیرات میں رفع الیدین کو شرعی عمل قرار نہیں دیتے۔

چنانچہ " المبسوط " از: سرخسی (1 / 23) میں ہے:

"نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی بھی تکبیر پر رفع الیدین نہ کرے" انتہی

اسی طرح "بدائع الصنائع " (1 / 207) میں ہے کہ:

"فرض نمازوں میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ تکبیرات کے وقت رفع الیدین کرنا ہمارے نزدیک سنت نہیں ہے" انتہی

اپنے اس موقف کیلئے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی روایت کو دلیل بناتے ہیں، وہ کہتے ہیں: مجھے حماد نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے اور پھر دوبارہ ہاتھ نہ اٹھاتے" انتہی

" المبسوط " از سرخسی:(1 / 24)

جبکہ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیرات کیساتھ رفع الیدین سے متعلق مجموعہ احادیث کو احناف منسوخ سمجھتے ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین آخری عمر میں ترک کر دیا تھا، شروع میں آپ رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔

چنانچہ " بدائع الصنائع " (1 / 208) میں ہے کہ:

"یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ابتدا میں رفع الیدین کرتے تھے، پھر آپ نے رفع الیدین ترک کردیا، اس کی دلیل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، کہ انہوں نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا ہم نے بھی کیا، پھر آپ نے ترک کر دیا تو ہم نے بھی ترک کر دیا"" انتہی

یہ احناف کا موقف ہے۔

جبکہ راجح یہی ہے کہ نمازی کیلئے چار جگہوں میں رفع الیدین کرنا احادیث سے ثابت ہے، اور وہ چار مقامات یہ ہیں: تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے، اور تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہونے کے بعد، اس موقف کا بیان احادیث کی روشنی میں فتوی نمبر: (3267) میں گزر چکا ہے۔

اور جن احادیث کو احناف نے اس بات کیلئے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ دیگر تمام تکبیرات کیساتھ رفع الیدین نہیں فرمایا، تو وہ سب احادیث ضعیف ہیں، ان میں سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔

چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ " زاد المعاد في هدي خير العباد " (1 / 219) میں رفع الیدین کی احادیث ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

"رفع الیدین نہ کرنے کی احادیث کے مقابلے میں رفع الیدین کرنے کی احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہیں، یہ احادیث ثابت شدہ، واضح صریح ہیں، اور عمل بھی انہی پر کیا جاتا ہے" انتہی


انہوں نے اسی مسئلہ کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ:

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے کوچ کر جانے تک یہی عمل تھا[یعنی رفع الیدین کرتے تھے]" انتہی

"
زاد المعاد في هدي خير العباد " (1 / 219)

اور خلفائے راشدین کے متعلق کسی ایک خلیفہ راشد سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے رفع الیدین نہ کیا ہو، بلکہ ان سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے، حتی کہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"کسی بھی صحابی سے رفع الیدین نہ کرنا ثابت نہیں ہے" اور اس بات کا تفصیلی بیان فتوی نمبر: (224635) میں گزر چکا ہے۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/224616
 
Top