• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا وجہ ہے کہ احناف رفع الیدین والی صحیح احادیث کو قبول نہیں کرتے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا وجہ ہے کہ احناف رفع الیدین والی صحیح احادیث کو قبول نہیں کرتے؟


نماز میں رفع الیدین کرنا !

سوال:

میرا سوال رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین کی متواتر صحیح حدیث کے بارے میں ہے، یہ حدیث صحیح ہے، جو کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، اور ابو داود میں موجود ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ احناف اس حدیث کو قبول نہیں کرتے؟ اس حدیث کو مسترد کرنے کی کیا وجہ ہے؟

اسی موضوع سے متعلق ایک اور سوال ہے کہ کیا یہ حدیث اس وقت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو نہیں پہنچی تھی؟


الحمد للہ:

سائل نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کے الفاظ بخاری: (735) اور مسلم: (390) میں اس طرح ہیں: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، جس وقت رکوع کرتے اس وقت بھی، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت بھی کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے [رفع الیدین کرتے]۔

اس حدیث پر جمہور علمائے کرام نے عمل کیا ہے، چنانچہ انہوں نے حدیث میں مذکور ان جگہوں پر نمازی کیلئے رفع الیدین کرنے کو مستحب کہا ہے۔

بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے متعلق ایک الگ سے کتاب بھی تصنیف کی ہے، اور اس کا نام رکھا ہے: "جزء رفع الیدین" انہوں نے اس میں ان دونوں جگہوں پر رفع الیدین کرنے کو ثابت کیا ہے، اور اس موقف کی مخالفت کرنے والوں کی سختی سے تردید کی ہے۔

چنانچہ اسی جزء رفع الیدین میں نقل کیا ہے کہ :

حسن [بصری] رحمہ اللہ کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نماز میں رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کیا کرتے تھے"

امام بخاری اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"حسن بصری نے کسی بھی صحابی کو مستثنی نہیں کیا، اور نہ ہی کسی صحابی سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے رفع الیدین نہیں کیا ہو" انتہی

دیکھیں: "المجموع" از نووی: (3/399-406)

جبکہ رفع الیدین کی احادیث امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو پہنچی تھی یا نہیں تو اس بارے میں ہمیں علم نہیں ہے، تاہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکاروں کا ضرور پہنچی ہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے ان احادیث پر عمل نہیں کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ رفع الیدین والی احادیث دیگر ان احادیث سے معارض ہیں جن میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین چھوڑنے کا ذکر ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:

- ابو داود (479) نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے، اور پھر ایسا نہ کرتےتھے ۔

- ابو داود (748) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟" تو انہوں نے نماز پڑھائی، اور انہوں نے صرف ایک بار رفع الیدین کیا۔
مزید کیلئے دیکھیں: "نصب الرایہ "از زیلعی: (1/393-407)

لیکن ان احادیث کو محدثین اور حفاظ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔

چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کو سفیان بن عیینہ ، شافعی، امام بخاری کے استاد حمیدی، احمد بن حنبل، یحیی بن معین، دارمی، اور امام بخاری سمیت دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ جمیعا نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

جبکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو عبد اللہ بن مبارک، احمد بن حنبل، بخاری، بیہقی، اور دارقطنی سمیت متعدد علمائے کرام رحمہم اللہ جمیعا نے ضعیف قرار دیا ہے۔

اسی طرح کچھ صحابہ کرام سے ترک رفع الیدین سے متعلق مروی آثار بھی ضعیف ہیں، جیسے کہ پہلے امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ قول گزر چکا ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے رفع الیدین نہیں کیا" انتہی


دیکھیں: "تلخیص الحبیر" از حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (1/221-223)

چنانچہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ ترکِ رفع الیدین کے بارے میں تمام احادیث اور آثار ضعیف ہیں ، تو وہی احادیث رہ جاتی ہیں کہ جن میں رفع الیدین کرنا ثابت ہے، اور ان کی مخالفت میں کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔

اس لیے مؤمن کا شعار یہی ہونا چاہیے کہ احادیث میں ذکر کردہ جگہوں پر رفع الیدین کرے، اور بھر پور کوشش کرے کہ اپنی نماز ، نبوی نماز کی طرح بنائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے) بخاری: (631)

یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے تھے:

"مسلمانوں کا یہ حق بنتا ہے کہ رکوع میں جاتے ہوئے، اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کریں"

اور انہی کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں: "علی بن مدینی اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے"

چنانچہ سنت ثابت اور واضح ہونے کے بعد کسی عالم کی تقلید کرتے ہوئے سنت ترک کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"تمام علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا ادراک ہو جائےتو پھر اس کے لئے اس سنت کو کسی غیر کے قول کی وجہ سے چھوڑ دینا جائز نہیں ہے" انتہی

"مدارج السالکین": (2/335)

"اور اگر کوئی شخص ابو حنیفہ، مالک، شافعی، یا احمد بن حنبل رحمہم اللہ جمیعا کا پیروکار ہو ، اور کچھ مسائل میں اسے یہ محسوس ہو کہ دوسروں کا موقف زیادہ قوی ہے، اور اسی کو اپنا لے ، تو یہ اچھا اقدام ہے، اس وجہ سے اس کی دینداری میں بالاتفاق کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، بلکہ ایسا کرنا واجب ، اور اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پسندیدہ بھی ہے" انتہی

یہ بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "مجموع الفتاوی"(22/247) میں کہی ہے۔

اور ایسے علمائے کرام کیلئے ہم عذر تلاش کرینگے جنہوں نے رفع الیدین نہ کرنے کا موقف اپنایا، کیونکہ انہوں نے اپنا اجتہاد کیا، اس لیے انہیں اپنے اجتہاد کی وجہ سے اجر ملے گا، اور حق تلاش کرنے پر ثواب بھی ہوگا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(تم میں سے کوئی جب فیصلہ کرتے ہوئے پوری محنت و کوشش کرے، اور درست فیصلہ صادر کر دے تو اسے دہرا اجر ملے گا، اور اگر فیصلہ کرتے ہوئے خوب محنت و کوشش کے با وجود غلطی ہو جائے تو اسے ایک اجر ملے گا) بخاری: (7352) مسلم: (1716)

مزید کیلئے دیکھیں: "رفع الملام عن الأئمة الأعلام " از ابن تیمیہ رحمہ اللہ

تنبیہ:

ایک چوتھی جگہ بھی ہے جہاں نماز میں رفع الیدین کرنا مستحب ہے، اور وہ ہے دوسری رکعت کے بعد تشہد سے تیسری رکعت کیلئے اٹھتے وقترفع الیدین کرنا، اس بارے میں مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (3667) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اللہ تعالی ہم سب کو تلاشِ حق، اور اتباعِ حق کی توفیق دے۔

واللہ اعلم.

شیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/21439
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سائل نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کے الفاظ بخاری: (735) اور مسلم: (390) میں اس طرح ہیں: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، جس وقت رکوع کرتے اس وقت بھی، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت بھی کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے [رفع الیدین کرتے]۔

اس حدیث پر جمہور علمائے کرام نے عمل کیا ہے، چنانچہ انہوں نے حدیث میں مذکور ان جگہوں پر نمازی کیلئے رفع الیدین کرنے کو مستحب کہا ہے۔
محترم جب یہ حدیث متواتر ہے اور شیخین نے روایت کی ہے تو یہ پھر بھی مستحب ہی کیوں ہے؟؟؟؟؟


حسن [بصری] رحمہ اللہ کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نماز میں رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کیا کرتے تھے"
چنانچہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ ترکِ رفع الیدین کے بارے میں تمام احادیث اور آثار ضعیف ہیں ، تو وہی احادیث رہ جاتی ہیں کہ جن میں رفع الیدین کرنا ثابت ہے، اور ان کی مخالفت میں کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔
محترم! جب ترکِ رفع الیدین کے بارے میں تمام احادیث اور آثار ضعیف ہیں تو وہی احادیث رہ جاتی ہیں کہ جن میں رفع الیدین کرنا ثابت ہے تو پھر یہ ثابت شدہ رفع الیدین کیوں نہیں کرتے؟

سنن النسائي: رکوع کے درمیان میں تطبیق کا بیان سجدے میں جاتے وقت رفع الیدین کرنا حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی نماز میں جب رکوع کرتے یا رکوع سے سر اٹھاتے یا سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتی کہ انھیں کانوں کے کناروں کے برابر کرتے۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سجدے میں جاتے وقت رفع الیدین کرنا
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی نماز میں جب رکوع کرتے یا رکوع سے سر اٹھاتے یا سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتی کہ انھیں کانوں کے کناروں کے برابر کرتے۔
اس حدیث کی سند سنن نسائی میں درج ذیل ہے :
’’ أخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن قتادة، عن نصر بن عاصم، عن مالك بن الحويرث ‘‘
اس میں ۔۔قتادہ ۔۔رحمہ اللہ مدلس ہیں اور عنعن سے روایت کر رہے ہیں ۔۔علامہ جلال الدین سیوطی ’’ اسماء المدلسین ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ قتادة۔۔مشهور بالتدليس‘‘ یعنی قتادہ مشہور مدلس ہیں ؛
لہذا یہ سند ضعیف ہے ؛
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس حدیث کی سند سنن نسائی میں درج ذیل ہے :
’’ أخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن قتادة، عن نصر بن عاصم، عن مالك بن الحويرث ‘‘
اس میں ۔۔قتادہ ۔۔رحمہ اللہ مدلس ہیں اور عنعن سے روایت کر رہے ہیں ۔۔علامہ جلال الدین سیوطی ’’ اسماء المدلسین ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ قتادة۔۔مشهور بالتدليس‘‘ یعنی قتادہ مشہور مدلس ہیں ؛
لہذا یہ سند ضعیف ہے ؛
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم!
مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ لوگ اندھی تقلید میں اتنے آگے نکل چکے ہو کہ یہ احساس ہی نہیں کہ انکارِ حدیث بھی کرتے ہو اور پھر بھی ’’اہلِ حدیث‘‘ ہی رہتے ہو۔
محترم! یہ ’ضعیف‘ کیا چیز ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کیا جھوٹی حدیث ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ حکم لگائیں تاکہ عامی بے چارے کو بھی کچھ سمجھ آسکے۔
محترم! یہ ’قتادہ مدلس‘ ہے اس کے بعد والا راوی’شعبۃ‘ یہ کیا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ جو ’قتادہ‘ سے روایت لے رہا ہے کیا اس کو معلوم نہیں کہ؛
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي كَبْشَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم کو بنالے۔
خیر پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا!!!!!!!جو جو اس حدیث کو روایت کرنے والا ہے۔ ان تمام روات پر ار محدثین کرام پر یہ حکم لگانے میں آپ حضرات کو کیا چیز مانع ہے؟؟؟؟؟
ان کتابوں کو ’صحاح ستہ‘ نہ کہیں بلکہ رافضی شیعوں کی طرح ’سیاہ ستہ‘ کہیئے!!! إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
ایک حدیث یہ بھی ہے اس کو بھی رد کرنے کے لئے کوئی راہ نکال لیجیئے گا؛

سنن أبي داود كِتَاب الصَّلَاةِبَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ حدیث نمبر 621
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ
كُنْتُ غُلَامًا لَا أَعْقِلُ صَلَاةَ أَبِي قَالَ فَحَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ أَبِي وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَالَ ثُمَّ الْتَحَفَ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ وَأَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي ثَوْبِهِ قَالَ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ سَجَدَ وَوَضَعَ وَجْهَهُ بَيْنَ كَفَّيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ أَيْضًا رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ


اس میں بھی ہے کہ جب سجدوں سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ لوگ اندھی تقلید میں اتنے آگے نکل چکے ہو کہ یہ احساس ہی نہیں کہ انکارِ حدیث بھی کرتے ہو اور پھر بھی ’’اہلِ حدیث‘‘ ہی رہتے ہو۔
حدیث رسول ﷺ سے محبت کرنے تمام مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ کون ۔۔انکار حدیث ۔۔کر رہا ہے؛
جنہیں رفع الیدین کرنے کی درجنوں احادیث صحیحہ دکھائی جاتی ہیں ۔۔لیکن وہ کچھ ضعیف روایات اور اپنے اکابر کے اقوال کی بنا پر ان صحیح احادیث کو نہیں مانتے ۔
اور شرمناک تقلید پر ڈٹے رہتے ہیں ؛؛

محترم! یہ ’ضعیف‘ کیا چیز ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کیا جھوٹی حدیث ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ حکم لگائیں تاکہ عامی بے چارے کو بھی کچھ سمجھ آسکے۔
محترم! یہ ’قتادہ مدلس‘ ہے اس کے بعد والا راوی’شعبۃ‘ یہ کیا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
حکم تو لگادیا ہے کہ اس حدیث ایک راوی مدلس ہے ۔۔جو جب تک سماع کی تصریح نہیں کرے گا ،اس وقت تک حدیث ثابت نہیں ہوسکتی۔
اگر آپ کو اصول حدیث کے مطابق یہ ’’ حکم ‘‘ سمجھ نہیں آیا ۔۔تو تقلید کا پٹہ اتار کر کسی محب حدیث کی صحبت و مجلس میں حاضری دیجئے
ان شاء اللہ فہم حدیث کی راہیں کھلیں گی ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سنن أبي داود كِتَاب الصَّلَاةِبَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ حدیث نمبر 621
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ
كُنْتُ غُلَامًا لَا أَعْقِلُ صَلَاةَ أَبِي قَالَ فَحَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ أَبِي وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَالَ ثُمَّ الْتَحَفَ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ وَأَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي ثَوْبِهِ قَالَ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ سَجَدَ وَوَضَعَ وَجْهَهُ بَيْنَ كَفَّيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ أَيْضًا رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ
امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں ،اور امام بخاری نے صحیح بخاری میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل فرمائی ہے ،
جس میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے شروع میں اور رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت
رفع الیدین کیا کرتے تھے ،مگر سجدوں میں رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔
چونکہ یہ حدیث متفق علیہ ہے اسلیئے صحیح بات یہی ہے کہ سجدوں میں رفع یدین نہیں کرنا چاہیئے ؛

أخبرنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سالم، عن أبيه، قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم «إذا افتتح الصلاة رفع يديه حتى يحاذي منكبيه، وقبل أن يركع، وإذا رفع من الركوع، ولا يرفعهما بين السجدتين»
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں ،اور امام بخاری نے صحیح بخاری میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل فرمائی ہے ،
جس میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے شروع میں اور رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت
رفع الیدین کیا کرتے تھے ،مگر سجدوں میں رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔
چونکہ یہ حدیث متفق علیہ ہے اسلیئے صحیح بات یہی ہے کہ سجدوں میں رفع یدین نہیں کرنا چاہیئے ؛
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سنن أبي داود كِتَاب الصَّلَاةِبَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ حدیث نمبر 621
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ
كُنْتُ غُلَامًا لَا أَعْقِلُ صَلَاةَ أَبِي قَالَ فَحَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ أَبِي وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَالَ ثُمَّ الْتَحَفَ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ وَأَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي ثَوْبِهِ قَالَ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ سَجَدَ وَوَضَعَ وَجْهَهُ بَيْنَ كَفَّيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ أَيْضًا رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ
وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ سجدوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین کرتے تھے اور عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نہیں کرتے تھے۔ اب فیصلہ کیسے ہو؟ کیا ’اثبات‘ نفی پر فوقیت نہیں رکھتا؟ ممکن ہے پہلے نہ کرتے ہوں پھر کرنے لگ گئے ہوں۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اب فیصلہ کیسے ہو؟ کیا ’اثبات‘ نفی پر فوقیت نہیں رکھتا؟ ممکن ہے پہلے نہ کرتے ہوں پھر کرنے لگ گئے ہوں۔
اس کا فیصلہ کرنا آسان ہے اگر تقلیدی ضد نہ ہو !
فیصلے کی مسلمہ صورت یہ ہے کہ :
امت کے علماء کا اجماع ہے کہ صحیح بخاری ۔۔اور۔۔ صحیح مسلم ،سب سے زیادہ صحیح ہیں ؛
اس لئے جو حدیث ان دونوں میں ایک ہی طریق سے موجود ہو اہل علم اسے ’’ متفق علیہ ‘‘ کا شاندار نام دیتے ہیں

علامہ نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں :
’’ اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول ‘‘
یعنی امت کے علماء کا اتفاق ہے کہ صحیح بخاری ۔۔اور۔۔ صحیح مسلم ،قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ صحیح ہیں ،‘‘
اور یہی بات دیوبندیوں کے محدث احمد علی سہارنپوری صحیح بخاری محشی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :

صحيح البخاري اصح.jpg


اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ سجدوں میں رفع الیدین نہ کرنا چاہیئے ،کیونکہ صحیح بخاری ۔۔اور۔۔ صحیح مسلم دونوں میں سجدوں میں رفع الیدین
کی نفی صراحت کے ساتھ موجود ہے ‘‘
 
Top