بتایہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حکم کے بعد یمن میں حوثی شیعوں کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کردی ہے۔العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق سعودی طیاروں کی بمباری سے دارالحکومت صنعا میں حوثی ملیشیا کے زیر قبضہ ایک ائیربیس تباہ ہوگیا ہے اوراس کی فضائی دفاعی صلاحیت پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے الریاض کے معیاری وقت کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات بارہ بجے ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا پر فضائی حملوں کا حکم دیا تھا۔العربیہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی عرب کی شاہی فضائیہ کا یمن کی فضائی حدود پر مکمل کنٹرول ہے۔
یہ ساری اطلاعات ہماری نہیں ہیں خود سعودی اور اسکے زیر اثر میڈیا کی ہیں۔
چلو مخالفوں کی تصدیق نے ہم سنیوں کے دل ٹھنڈے کر دئے کہ یمن کی فضائی حدود مکمل طور پر سعودی عرب کے کنٹرول میں ہے اور شیطان ایران کے چیلوں کو اب پتا چلا ہے کہ ہم کیا کر بیٹھے کہ سنی شیروں کو چھیڑ بیٹھے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت- اب ان کی چالبازیوں کا کوئی فائدہ نہیں کہ جو وہ سنیوں کو متحد کرنے سے روکنے کے لئے کر رہے ہیں کیونکہ انکو تو گھٹی بھی تقیہ کی ہی ملی ہوتی ہے
اسی تقیہ کی وجہ سے ایک طرف وہ پاکستانی، ایرانی اور عالمی میڈیا (جسکی اکثریت شیعہ ہے) م اس یمنی جنگ کو شیعہ سنی جنگ اور امریکی اسرائیلی سازش کہ کر سنیوں کو اس میں فریق بنے سے روکنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف انکے ایرانی، حوثی اور حزب اللہ کے ملعونوں کے کھلے عام حرمین پر شیعہ قبضے کی خواہشات کے موجود ہیں اور خمینی کے اپنے بھی کئی ایسے بیان موجود ہیں مثلا وہ فرانس میں بیٹھ کر انقلاب کو کامیاب ہوتا دیکھ کرکہتا تھا کہ ہمارا اصل ہدف تو حرمین ہے اسی طرح حزب اللہ والے بھی یہی کہتے ہیں اور پورے ایران میں سنیوں پر جو ظلم ڈھائے جاتے ہیں اس پر کوئی بات نہیں کرتا وہ جو مرضی کرتا رہے اسی طرح عراق اور شام میں اپنی شیعہ حکومتوں کو بچانے کے لئے ایران اور حزب اللہ جو مرضی کرتی رہے وہاں شیعہ سنی مسئلہ نہیں اٹھے گا
یہ یہودی نسل عبداللہ بن سباء کی اولاد کا کام ہی یہی ہے کہ جب یہودیوں نے دیکھا کہ ہم خیبر کا بدلہ اب لڑ کر نہیں لے سکتے تو تقیہ کرتے ہوئے مسلمان ہو گیا اور وہی تقیہ کا بیج ان ملعونوں میں بھی بو دیا جس وجہ سے آج امت مسلمہ ان سے دھوکا کھا رہی ہے
میں سمجھتا ہوں کہ عراق اور شام کی جنگ نے ان شیعوں کی خباثتوں کو ہم مسلمانوں پر اتنے ظاہر نہیں کیے تھے جتنے یہ یمن کی جنگ کر رہی ہے اور الحمد للہ کرے گی کیونکہ اس میں حکمران بھی ساتھ شامل ہیں اور اسی پر یہ معلون اب سوچ رہے ہیں کہ یہ کیا ہم نے اپنے پاوں پر کلہاڑی مار دی ہے
اس حکم کے بعد واشنگٹن میں متعیّن سعودی سفیر عادل الجبیر نے یمن میں حوثیوں کے خلاف فوجی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کہ اس کارروائی کے تحت حوثیوں کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کردی گئی ہے اور اس فوجی مہم کے لیے تشکیل پانے والے اتحاد میں دس ممالک شامل ہوگئے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ''اس کارروائی کا مقصد یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی جائز اور قانونی حکومت کا تحفظ اور دفاع ہے۔ہم یمن میں اس جائز حکومت کو بچانے کے لیے جو بھی بن پڑا،کریں گے''۔انھوں نے کہا کہ امریکا اس مہم میں شریک نہیں ہے لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا یمن میں فوجی کارروائیوں کے لیے سعودی عرب کی معاونت کررہا ہے
امریکہ خالی باتوں کی حد تک شامل ہے ورنہ عملی طور پر وہ بالکل شامل نہیں ہو گا کیونکہ دوسری طرف اسکی اپنی اولاد اسرائیل اور ایران ہے اگر امریکہ کو اپنی اولاد شیعوں کا دکھ ہوا تو اسنے داعش پر بمباری کی اور اگر یہاں دکھ ہوتا تو لازمی وہ بھی بمباری کرتا یہ تو اسکے دکھانے کے دانت ہیں کھانے کے اور ہیں سعودی عرب کو بھی اس بات کا علم ہے اور وہ حقیقت میں امریکہ کو دوست بالکل نہیں سمجھتا تبھی تو پاکستان سے زیادہ قریبی ہونے کے باوجود اسنے امریکہ کو مدد کے لئے نہیں کہا
یہی سب سے بڑی گواہی ہے کہ قرینی ہی قریبی کو جانتا ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے پس سعودی عرب ہی جانتا ہے کہ امریکہ کے دل میں اپنے ایرانی بچوں کو لئے کیا کچھ چھپا ہے
سعودی عرب کی پراکسی وار کی تاریخ کوئی نئی بات نہیں وہ پاکستان میں بھی شیعہ کشی میں کئی سال سے شامل ہے اور اب یمن میں پاکستان کو بھی اسی کام کے لیئے استعمال کرنا چاہتا ہے
نواز شریف جلا وطنی کے زمانے کے احسان کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں اور پھر انکی سیاسی تربیت آمر مطلق ضیا الحق کی گود میں ہوئی ہے جس نے اردن میں فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔
اس فریب کو میں ایک مثال سے سمجھاتا چلو تاکہ لوگوں پر حقیقت کھل جائے
دیکھیں پاکستان میں فوجی بھی مسلمان ہیں اور طالبان بھی مسلمان ہیں اب فوج اور طالبان آپس میں لڑ رہے ہیں اب تمام علماء یہ احادیث پیش کرتے ہیں کہ جو خارجی وہ ہوتا ہے جو مسلمان کو مارے اور اھل الاوثان یعنی مشرکوں کافروں کو چھوڑ دے اب جب فوج طالبان پر اسی کے تحت خارجی ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو وہ بھی جوابا اسی کے تحت فوج پر یہ الزام لگاتے ہیں لیکن ہم کو اللہ تعالی نے عقل دی ہے اور ہم انکی بات کو فراڈ اور دھوکہ بازی ہی سمجھتے ہیں پس بچہ بچہ جانتا ہے کہ اصل خارجی کون ہے
اسی طرح ایران نے پوری دنیا میں شیعہ سنی وار شروع کی ویسے بھی وہ اقلیت میں ہیں اسکے جواب میں سنی ان سے لڑتے ہیں تو جوابا جب سعودی عرب یا دوسرے مسلم ممالک انکو بچانے یا دفاع کا کام کرتے ہیں تو یہ تقیہ کرتے ہوئے دوسروں کو متحد نہیں ہونے دیتے اور کہتے ہیں کہ تم شیعہ سنی وار میں نہ پڑو اور خود سارے اثنا عشریہ شیعہ پوری دنیا میں سنیوں کے خلاف متحد ہیں
ایران اس صورت حال میں اگر حوثیوں کی مدد کر رہا ہے تو اصولی طور پر کیا غلط کر رہا ہے جب سعودی عرب خود اور اسکے حواری حوثیوں کے قتل عام میں شامل ہیں۔ میں نہ ایران کی مداخلت کے حق میں ہوں اور نہ ہی سعودیہ کی مداخلت کے حق میں
کہا گیا ہے کہ ایران کی مداخلت درست نہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ایران مداخلت کر رہا ہے ایران اگر انکار کرتا ہے تو وہ تقیہ کی وجہ سے ہو گا اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے شیعہ کی اکثر کتابوں میں جب ہم شیخین (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما) کی فضیلت دکھاتے ہیں تو یہ ملعون کہتے ہیں کہ ہمارے معصوم اماموں نے یہ سب کچھ تقیہ کے تحت کہا تھا اصل قول انکا دوسرا ہے پس جب ہم ملعون خمینی کے ارشادات دیکھتے ہیں کہ ہمرا اصل انقلاب حرمین کی فتح ہے اور حزب اللہ کی ویڈیو دیکھتے ہیں جو یہا فورم پر بھی ہے جس میں حرمین پر قبضہ کا ذکر ہے اور بہت سی جگہوں پر انہیں لوگوں کا یہ بھی قول ذکر ہے کہ ہم مدینہ پر قبضہ کر کے اس میں دو بت (یعنی شیخین) کو نعوذ باللہ نکال دیں گے تو ایک صاحب عقل سنی پر یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ایران کا تقیہ کیا ہے اور اسکے دل میں کیا ہے
۔ یہ یمن کا مسلہ ہے اور انکو خود حل کرنا چاہیئے۔ یمن ایک آزاد ملک ہے اور اسکی اپنی فوج ہے اور پھر کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کے معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم میں سے کچھ لوگ یہود و نصاری کی پیروی کریں گے پس آج ان میں سب سے بڑھ کر آج عبداللہ بن سبا یہودی کی اولاد ہی یہ کر رہی ہے چنانچہ جب ہم اللہ کے حکم اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کو دیکھتے ہیں جو یہودیوں کو کہا گیا کہ تم لوگوں کو تو کہتے ہو کہ فلاں غلط کام ہے نہ کرو مگر خود سارے غلط کام ہی کرتے ہو پس یہ یہودیوں کی نسلا و مذہبا اولاد بھی یہی کر رہی ہے کہ یمن میں کہتی ہے کہ وہ یمن کا اپنا معاملہ ہے اور عراق اور شام میں جب اسکے معلون شیعوں کو سنی مجاہد مزا چکھاتے ہیں تو پھر انکی حالت وہی ہوتی ہے کہ دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت
ذرا یہ تو بتائیں کہ شام اور عراق میں بھی تو حکومتوں کے خلاف بغاوت ہجاری ہے جس میں ایرانی لڑ رہے ہیں اور پوری طاقت صرف کر رہے ہیں بھلا وہاں کہیں اتامرون الناس والی آیت کی پیروی کر کے اپنے یہودی النسل ہونے کا ثبوت تو نہیں دیا جا رہا
مغربی ، پاکستانی اور سعودی نواز میڈیا حوثیوں کو برابر باغی لکھ رہا اور کہہ رہا ہے۔ اسی کو دوہرا معیار کہتے ہیں، یمن میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے حوثی اگر باغی ہیں تو معاف کیجئے پھر امن کے اور انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیداروں کو حق کی تشریح اور تعریف بدلنی ہو گی
ایک عقل کے اندھے سے بھی کوئی پوچھے کہ یہ ملعون حوثی اپنے حقوق تلاش کرنے عدن کیوں گئے تھے جہاں انہوں نے پرانے صدر منصور ھادی کا پیچھا کیا اور ان ملعونوں کا کون سا حق مارا گیا ہے کوئی اسکی بھی وضاحت کر دے
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کہ حقوق تو پورے ایران میں سنیوں کے چھینے جا رہے ہیں اس دفعہ کا جرار میں امیر حمزہ کا کالم دیکھیں اس میں انہوں نے ایران کی اصلیت واضح کی ہوئی ہے اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ ایک دفعہ ایران جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ہر طرف حرمین کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے اور انکو کافر کہا ہوا تھا اور جب سعودی عرب گیا تو وہاں ایران کے خلاف کچھ لکھا ہوا نہیں دیکھا
اسکے علاوہ حقوق کی آواز نیوٹرل ہو کر اٹھانی ہے تو کبھی افغانستان میں طالبان کے حق کو جو چھینا گیا ہے اسکی بھی آواز اٹھا لیتے
میں ان شیعوں کو ہی چیلنج دیتا ہوں کہ وہ ہی حق کی تعریف کر دیں جس میں فرقہ وارایت نہ ہو اور وہ یہ بغیر تقیہ کیے ہر جگہ اپلائی کرنے پر تیار ہوں تو پھر اس پر بات کر لیتے ہیں کہ یمن اور ایران اور عراق اور شام اور افغانستان میں اس تعریف کے مطابق ہمیں کیا کرنا چاہئے ہم سب آپ کے ساتھ متفق ہوں گے اگر آپ بھی اس تعریف پر عمل کریں گے اور اتامرون الناس والی خصلت ترک کر دیں گے
یاد رکھیں اکثریت کو کچھ عرصہ تو محکوم رکھا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیئے اقلیت اکثریت پر حکمرانی نہیں کر سکتی اور یہ ہم عراق کے معاملے میں دیکھ چکے ہیں۔ جمہوریت جمہوریت کا شور مچانے والے اکثریت کے اس حق کو یمن میں کیوں نہین تسلیم کرتے
اسکو کہتے ہیں چٹ بھی اپنی پٹ بھی اپنی- میرا خیال ہے کہ اب تو استاد یہودی بھی اپنے شاگردوں کی استادی پر رشک کر رہے ہوں گے
یعنی عراق میں اکثریت کے حقوق ان ملعون اقلیت نے غضب کیے ہوئے ہیں اور ادھر مکمل یمن میں بھی اقلیت میں ہونے کے باوجود یہ حقوق غضب کرنا چاہتی ہے اور دعوی کر رہی ہے پورے یمن میں اپنی اکثریت کا-
یہ کہ رہی ہے کہ تم اگر عراق میں ہمارے خلاف اکثریت سنیوں کے حقوق غضب کرنے پر شور مچا رہے ہو تو تم پھر یہاں یمن میں ہمارے اکثریت شیعوں (جو کہ اقلیت میں ہیں) کے حقوق کیوں نہیں دلوانے دیتے
اور پاکستانی شیعوں کو تو اس کی فکر کرنی چاہئے اور آواز اٹھانی چاہئے جو ایران اکثریتی سنی صوبوں میں سنیوں کے ساتھ کر رہا ہے پاکستان کے کسی بھی اکثریتی شیعہ محلہ ہی چلے جائیں تو آپ کو وہاں کھلے عام واہیات کی بھرمار نظر آئے گی مگر ایران میں سنیوں کے اکثریتی صوبوں میں بھی کس طرح سختی ہے اور انکو تبلیغ میں کس طرح رکاوٹیں ہیں اس پر بھی بات کر سکتے ہیں یا یہ حقوق کھٹے ہیں انگوروں کی طرح
جب سعودی فرمانروا نواز شریف کے استقبال کو خود ہوائی اڈے پر ائے تھے تو سیاسیات اور صحافت کے مجھ جیسے طالب علم نے بھی اسوقت یہ لکھا تھا کہ سعودی عرب کو پاکستان سے کوئی بہت بڑا غیر قانونی کام لینا ہے اور اب یہ عقدہ کھل گیا ہے
تھوڑے سے پٹرول اور خیرات کے ریالوں کے عوض ملکی غیرت اور حمیت کو سعودیہ کے ہاتھ رہن رکھنے والے ظالم حکمران تاریخ میں کس نام سے یاد رکھے جائیں گے۔ یہ فیصلہ آپ کیجئے۔
یہاں پر پاکستانی ملعونوں کی ایک اور منافقت واضح کرتا چلوں پھر تاریخ پر بھی بات کر لیتے ہیں
اگر ان شیعوں کو واقعی لگ رہا ہے کہ پاکستان سعودیہ کا ساتھ ریال کے لئے دے رہا ہے تو ذرا اس سے پہلے امریکہ کا ساتھ بھی تو افغانستان کے خلاف مشرف نے دیا تھا جسکو تمام سنی دینی جماعتوں نے غلط کہا تھا مگر شیعوں نے اسکو درست کہا تھا تو کیا وہاں بھی آپ کہتے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کا ساتھ ڈالر کے لئے دیا کیونکہ وہاں یہ شبہ زیادہ ہے کیونکہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ ڈالر کے علاوہ کوئی مفاد ہی نہیں مگر سعودی عرب کے ساتھ ریال کے علاوہ ایک اور بہت بڑا مفاد ہے جو مکہ اور مدینہ کی صورت میں ہے جس پر یہ پاکستانی حکمران بھی اپنے ظلموں کے باوجود شاید کمرومائیز نہیں کرتے
پس یہ واضح ہے کہ ان کو پاکستان کی حکومت کا ریال یا ڈالر لے کر کچھ کرنے پر اعتراض نہیں بلکہ اس وقت شیعہ حمایت تنگ نہیں کر رہی ہے پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یہ منہ سے تو فرقہ واریت کی نفی کرتے ہیں کیونکہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے انکے مفاد کے خلاف ہے مگر اصل میں اعمال فرقہ واریت والے ہی کر رہے ہیں اور ان اعمال پر ہمیں حیرت ہو رہی ہے مگر اللہ نے کہا کہ وما تخفی صدورھم اکبر کہ جو انکے دلوں میں ہے وہ بہت بڑا فساد ہے
اب تاریخ کی بات کرتے ہیں کہ اگر انکو شیعہ کی لکھی ہوئی تاریخ کی فکر ہے کہ اس میں ہم پاکستانیوں کے لئے اچھا نہیں لکھا جائے گا تو پہلے ان سے ہمیں کون سی اچھائی کی امید ہے اللہ نے تو کہا ہے کہ ولن ترضی عنک الیھود ولن النصاری ------ پس یہ بھی انہیں کے پیروکار ہیں تو جب تک ہم شیعہ کی پیروی نہیں کریں گے ایران خوش نہیں ہو گا اسی وجہ سے ان ملعونوں نے اپنی تاریخ میں نصیر الدین طوسی معلون کو کیا کیا لکھا ہوا ہے جس نے تقیہ کر کے عباسی خلیفہ کی تعریفیں کر کے وزارت لی اور اسکے ساتھ مکار شیعہ وزیر موید الدین وزارت عظمی پر تھا طوسی نے پھر تاتاریوں میں شمولیت اختیار کر لی تاکہ شیعہ اسلام کا بہت بڑا فائدہ ہو اور خلافت عباسیہ ختم ہو لیکن ساتھ اسنے شیعہ وزیر موید الدین سے رابطہ رکھا اور اسی وجہ سے تاتاریوں نے عباسی خلیفہ اور سارے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی تھیں اس نصیر الدین طوسی کے کرتوت تو میں جلد یہاں لکھوں گا پہلے خمینی کا اسکے بارے قول لکھ دوں وہ کہتے ہیں
"خوجہ نصیر الدین طوسی اور ان جیسے ہستیاں جنہوں نے اسلام (شیعہ ) کی جلیل القدر خدمات انجام دیں انکی موت کو لوگ خسارہ محسوس کرتے ہیں"
اور جگہ لکھتے ہیں
"اگر محض ظاہری طور (ظالموں کی حکومت میں) شامل ہونے سے اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی خدمت ہو سکتی ہے تو ایسے موقع پر تقیہ درست ہے جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ، بن بقطین اور نصیر الدین طوسی شامل ہوئے تھے"
حوالہ خمینی کی الحکومۃ الاسلامیۃ ص 142
اور اگر سنیوں کی لکھی تاریخ کی بات ہو رہی ہے تو اس میں ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ س میں ہم نے ان ملعون طوسیوں اور علقمیوں کو اچھی طرح پڑھ رکھا ہے