میڈیا کا ازدہا سعودی عرب کے اخلاص و دوستی کو نگل گیا ۔
عاصم حفیظ
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔پاکستان اب یمن تنازعے میں غیر جانبدار رہے گا۔سعودی عرب کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ یمنی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے باز رہے بلکہ معاملے کو بات چیت سے حل کرے اور پاکستانی ثالثی کے لئے تیار ہے ۔ ہر مشکل گھڑی میں اپنے وسائل اور اخلاص کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہنے والے سعودیوں کو شائد کچھ عجیب سا لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی میڈیا کے زیر اثر سیکولر اور مغرب نواز حلقے اپنا موقف منوانے اور اسے مقبول بنوانے میں کامیاب رہے ہیں ۔پاکستان کو سب سے زیادہ تعاون فراہم کرنیوالا ، چالیس لاکھ پاکستانیوں کے دوسرا گھر ،مذہب اورسماجی تعلقات کی سانجھ رکھنے والا اور ایٹمی پلانٹ و عسکری منصوبوں کے لئے بے حساب فنڈز فراہم کرنیوالا سعودی عرب آج پاکستان میں سب سے زیادہ ” اجنبی“ اور کسی حد تک متنازعہ اور مجرم بنانظر آتا ہے۔سعودی عرب کا قصور یہ ہے کہ اس نے پاک بھارت جنگوں ، افغان جنگ ، ایٹمی دھماکوں کے بعدلگنے والی پابندیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موقعے پر بغیر کسی حساب کتاب کے بے لوث تعاون فراہم کرتے ہوئے کبھی خیال ہی نہیں کیا کہ پاکستانی تو خوب سیانے ہیں یہ اس وقت پوراحساب کتاب لگائیں گے اور عالمی سیاست کے اصول و ضوابط کو پرکھیں گے کہ جب سعودی عرب کو ان کی ضرورت پڑے گی ۔ پاکستانی سعودی عرب کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اس کی سلامتی کے لئے خطرہ بن جانے والے دہشت گردوں کو فرقہ وارانہ نظر سے دیکھتے ہوئے خود اسے ہی معاملے کو بات چیت سے حل کرنے کا قیمتی مشورہ بھی دیں گے۔ سنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ہم خیال بہت سے ممالک صرف دوستی نبھانے کے لئے جنگ میں کود پڑے تھے ۔ خیر وہ تو دوست ممالک تھے ۔یہاں معاملہ کچھ اور ہے میڈیا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ سعودی عرب کو کسی پرانے دوست کے روپ میں دیکھنے کی بجائے فرقہ واریت کی عینک لگا کر دیکھنا ہوگا ۔اوریہی حقیقت ہے کہ میڈیا کے تجزئیہ نگاروں اور ان کے زیر اثر سیاستدانوں نے ایسا ہی کیا جس کا مظاہرہ مشترکہ قرارداد میں کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کا قصور یہ بھی ہے کہ اس نے زلزلے و سیلاب سے متاثر غریب پاکستانیوں کی خوب دل کھول کر مدد کی ، سکالرشپس دیگر غریبوں کے بچوں کو پڑھاتا رہا ، عام شہریوں کی ملازمتوں اور روزگار کے لئے اپنے دروازے کھولے رکھے لیکن میڈیا ، طاقتور بیوروکریسی اور سیاسی رہنماوں کو خوش کرنا بھول گیا اور اسی کا خمیازہ آج بھگت بھی رہا ہے کہ کوئی پاکستان میں اس کی بات کرنے ، اس کے مسائل سمجھنے اور اس کا موقف پیش کرنے پر تیار نہیں ۔اور تو اور سعودی عرب کے تعلقات بھی تو پاکستان کی دینی جماعتوں کے ساتھ ہی ہیں جن بیچاریوں کو ملکی سیاست میں کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔اب عربوں کو کون سمجھائے کہ پاکستان میں قیمتی تحائف ، عیاشی کے لئے مغربی عشرت کدوں کی زیارت ، عوامی بہبود کے ہر منصوبے میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے حصے اور طاقتور میڈیا گروپس کو خوش کرنے کا رواج ہے جبکہ سعودی عرب کے بھولے بادشاہ پاکستانیوں کو حج و عمرے کے بابرکت سفر سے رام کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔سعودی عرب شائد واحد ملک ہوگا کہ جو ڈیڑھ ارب ڈالر فراہم کرنے کے باوجود اظہار تشکر کی بجائے متنازعہ بنا دیا گیا۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ممالک ہمارے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اربوں ڈالر ادا نہ کرنے کے باوجود میڈیا کے ذریعے اپنا مثبت تاثر بنانے اور ہم خیال اینکرز و کالم نگاروں کے باعث اپنا موقف بھرپور طریقے سے پیش کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ابھی کہانی ختم تو نہیں ہوئی لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ پاکستان اپنا یہ پرانا اور دیرینہ دوست کھونے جا رہا ہے۔حیران کن طور پر پوری پاکستانی پارلیمنٹ ایک ایسے ہمسایہ ملک سے خوفزدہ نظر آئی جو کہ کھل کر اس مسئلے کا فریق بھی نہیں ہے۔اور اگر تو وہ خود عالمی و علاقائی قوانین کی شدید خلاف ورزی کر رہا ہے۔پاکستانی میڈیا کے تجزئیہ نگار اور ارکان پارلیمنٹ کافی سیانے اور معاملہ فہم ثابت ہوئے ہیں حکومت کوچاہیے کہ ایک اور جوائنٹ سیشن جلد از جلد بلائے کہ جس میں ان سے اس بارے میں تجاویز مانگی جائیں کہ کس طرح عرب ممالک میں موجود پچپن لاکھ پاکستانیوں کوفوری واپس بلا کر سمجھداری اور غیرت کا مظاہرہ کیا جائے جبکہ سستے اور مفت تیل کو بھی عربوں کے منہ پر دے مارنا چاہیے بلکہ ارکان اسمبلی کو چاہیے کہ اپنی دولت سے تھوڑا تھوڑا حصہ ملا کر اب تک سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو فراہم کیا جانیوالا سارے کا سارا تعاون ہی واپس کر ڈالیں۔