• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تعاون کرنا چاھیے؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اھل علم سے عرض ہے کے اس پر کچھ کھیں:
محترم بھائی ہم الحمد للہ تحمل سے سننے اور جواب دینے والے ہیں غصہ کرنے والوں میں سے نہیں اگر غصہ کریں گے تو لوگوں کو سمجھا کیسے سکیں گے
آپ کی ویڈیو کے ساتھ آپ نے کچھ لکھا نہیں ہے جس کی وجہ سے اعتراضآت کا پتا نہیں چل سکتا جو آپ نے اہل علم سے پوچھے ہیں
البتہ اہل علم سے پہلے میں نے سوچا کہ کچھ تکا لگا کر جواب دے دوں کہ آپ کے کیا اعتراضات ہو سکتے ہیں میرے خیال میں یہ مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں
1۔سعودی بادشاہوں کا امریکہ وغیرہ سے موالات
2۔شیخ توصیف الرحمن بھائی کا کافروں کی موالات کو حرام کہتے ہوئے خلاف واقعہ انہی بادشاہوں کی مثال اس سلسلے میں دے
تو محترم بھائی پہلی بات یہ کہ شاہد ان سعودی بادشاہوں کا کام موالات میں آ سکتا ہے جو حرام اور گناہ کبیرہ کام ہے مگر التولی میں سے نہیں جو بعض کے نزدیک کفر اور بعض کے نزدیک کبیرہ گناہ ہے پس اس پر انکو سعودی علماء حق تنبیہ کرتے رہتے ہیں جیسا کہ ایک جگہ شاید محترم خضر بھائی نے ویڈیو لگائی تھی
جہاں تک شیخ توصیف الرحمن کے مثال دینے کا تعلق ہے تو کلپ میں ایسی کوئی بات مکمل ہے ہی نہیں کہ جس سے شیخ پر منافقت کا الزام لگایا جا سکے
البتہ جہاں تک یہ بات کہ انہوں نے شیخ عبداللہ کی تعریف کی ہے اور شیخ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی بھی تو اس میں کوئی غلط بات نہیں جب یزید کو ہم رحمہ اللہ کہ سکتے ہیں اور ایسا کرنے پر کوئی عالم منافق نہیں ہوتا تو پھر یہاں کیا معاملہ ہے واللہ اعلم
عبدہ بھائی جزاکم اللہ خیرا ، اس ویڈیو میں جو تصویریں لگائی گئی ہیں اگر سب نہیں تو اکثر فوٹو شاپ کا کمال ہیں ، ورنہ یہ سرکاری ویب سائٹس یا کم ازکم معتمد اخباری سائٹس پر موجود ہونی چاہییں ۔
اور پھر دوسری بات :
ہم کسی حکمران کو معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتے ،اور نہ ہی ہمارا یہ تقاضا ہے کہ مسند حکم پر فرشتے ہونے چاہییں ، لہذا اگر کسی نے اس طرح کا کوئی خلاف شریعت کام کیا ہے ، تو ہم اسے غلط کہیں گے ، جبکہ اس کے دیگر صحیح کاموں کی تعریف و توصیف اور حمایت کریں گے ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
عبدہ بھائی جزاکم اللہ خیرا ، اس ویڈیو میں جو تصویریں لگائی گئی ہیں اگر سب نہیں تو اکثر فوٹو شاپ کا کمال ہیں ، ورنہ یہ سرکاری ویب سائٹس یا کم ازکم معتمد اخباری سائٹس پر موجود ہونی چاہییں ۔
اور پھر دوسری بات :
ہم کسی حکمران کو معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتے ،اور نہ ہی ہمارا یہ تقاضا ہے کہ مسند حکم پر فرشتے ہونے چاہییں ، لہذا اگر کسی نے اس طرح کا کوئی خلاف شریعت کام کیا ہے ، تو ہم اسے غلط کہیں گے ، جبکہ اس کے دیگر صحیح کاموں کی تعریف و توصیف اور حمایت کریں گے ۔
@خضرحیات بھائی بّعض لوگ یہ اعترض کر رہے ہیں

’’پاکستانی فوج اور سعودی عرب کی حفاظت‘‘

کیا ’’ابرہہ اور ابابیل‘‘ کا واقعہ جھوٹ ہے؟
یا
مذہب کے ٹھیکے دار خاندان
بیت الحرام کی آڑ میں
اپنے ’’حرم‘‘ بچانا چاہتے ہیں ؟
اور ان کے
’’حرم‘‘ کو ’’مال‘‘ سپلائی کرنے والے دلال
اپنے ذریعۂ معاش کے تحفظ کی کوشش کررہے ہیں؟
https://fbcdn-sphotos-g-a.akamaihd.net/hphotos-ak-xaf1/v/t1.0-9/s720x720/21251_568738459896463_8749374206527911997_n.jpg?oh=1f1bea4645d5c781b99306f9c6211929&oe=55BB6321&__gda__=1438342707_d4b1ae1288e81a6bae95b32f7d18bf6a
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
عبدہ بھائی جزاکم اللہ خیرا ، اس ویڈیو میں جو تصویریں لگائی گئی ہیں اگر سب نہیں تو اکثر فوٹو شاپ کا کمال ہیں ، ورنہ یہ سرکاری ویب سائٹس یا کم ازکم معتمد اخباری سائٹس پر موجود ہونی چاہییں ۔
اور پھر دوسری بات :
ہم کسی حکمران کو معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتے ،اور نہ ہی ہمارا یہ تقاضا ہے کہ مسند حکم پر فرشتے ہونے چاہییں ، لہذا اگر کسی نے اس طرح کا کوئی خلاف شریعت کام کیا ہے ، تو ہم اسے غلط کہیں گے ، جبکہ اس کے دیگر صحیح کاموں کی تعریف و توصیف اور حمایت کریں گے ۔
کعبہ کے بارے میں چند معلومات:

١. رسول عربی کے بعد عبدالله ابن الزبیر اور بنو أمية کی جنگ میں مکہ کے پہلے محاصرے کے دوران کعبہ ٣ اکتوبر، ٦٨٣ صدی عیسوی بروز اتوار آگ سے جل کر تباہ ہو گیا تھا. عبدالله ابن الزبیر نے کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا.

٢. ٦٩٢ صدی عیسوی میں کعبہ کے دوسرے محاصرے کے دوران بنو أمية کے حجاج بن یوسف کی قیادت میں کعبہ پر پتھر برسائے گئے. اسی جنگ میں عبدالله ابن الزبیر قتل ہو گیا. ٦٩٣ صدی عیسوی میں امیر عبدل مالک ابن مروان نے عبدالله ابن الزبیر کے تباہ شدہ کعبہ کی باقیات صاف کر کے اس کو دوبارہ تعمیر کیا.

٣. ٩٣٠ صدی عیسوی کے حج کے دوران قرامطة عربوں نے مکہ پر حملہ کیا، حاجیوں کو قتل کر کے زمزم کے کنویں میں پھینک دیا اور حجر اسود کو چرا کر مشرقی عرب کے علاقے ال احسہ لے گئے جہاں یہ پتھر بائیس سال رہا. ٩٥٢ صدی عیسوی میں عباسی خلیفہ حجر اسود کو خرید کر واپس لے آئے.

٤. ١٦٢٩ صدی عیسوی کی بارشوں اور سیلاب میں کعبہ منہدم ہو گیا اور مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچا. اسی سال سلطنت عثمانیہ کے ترک خلیفہ مراد چہارم نے بھربھرے پتھر سے کعبہ اور مسجد کی تعمیر نو کروائی.
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یمن کے دارالحکومت صنعاء پر قبضے اور پھر سعودیہ کی جانب سے فضائی حملوں کے آغاز کے بعد یمن کے حوثی قبیلہ دنیا بھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ عوام تو عوام ہمارے خاصے صاحب علم افراد کے پاس بھی حوثی قبیلے کی تاریخ اور مذہب کے بارے میں مستند معلومات نہیں ہیں۔ اہل صحافت خصوصا ٹی وی اینکرز اس بارے میں عجیب و غریب خود ساختہ حقائق پھیلا کر لوگوں کو مزید کنفیوز کر رہے ہیں۔

حوثیوں کے بارے میں عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ یہ شعیہ مذہب کے زیدی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات ماضی کے حوالے سے کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظر زیدی فرقے کے مذہبی عقائد پر ڈال لیتے ہیں۔ زیدی شیعہ عقائد کے اعتبار سے اثنا عشری (بارہ امامی) اور اسماعیلی شیعوں سے مختلف ہیں۔ اثنا عشری اور اسماعیلی شیعہ امامت پر نص کے اصول کے قائل ہیں۔ جس کے مطابق امام کے انتخاب کا حق اُمت کی بجائے خدا کو حاصل ہے۔ جبکہ زیدی شیعوں کا ماننا ہے کہ امامت اگرچہ اہل بیعت اور اولاد فاطمہؓ میں ہے تاہم اُمت اہل بیعت میں سے کسی بھی ایسے راہنما کو امام مان سکتی ہے جس کا عدل مشہور ہو اور جو ظلم کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔ فقہی اعتبار سے بھی زیدی شیعہ حنفی اور مالکی سنی مکاتب فکر سے قریب ہے۔

معاملات کو سمجھنے کے لیے ہم یمن کی پچھلی ایک دو صدیوں کی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے شمالی یمن زیدی شیعہ اکثریتی علاقہ رہا ہے۔ زیدی شیعوں کے سیاسی تسلط کی تاریخ شمالی یمن میں کوئی ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ایسے ادوار بھی ہیں جن میں یہ تسلط شمالی یمن سے بڑھ کے تقریباً پورے یمن میں موجود رہا ہے۔

اس کے برعکس جنوبی یمن جس کا سیاسی دارالحکومت بالعموم عدن کی بندرگاہ ہے تاریخی اعتبار سے سنیوں کے شافعی مکتبہ فکر کی اکثریت کا گہوارا رہا ہے۔ عدن کی بندرگاہ اور جنوبی یمن کے اکثر حصے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں پہلے سلطنت عثمانیہ اور بعد میں براہ راست برطانوی سلطنت کے زیر اختیار چلے گئے تھے۔ تاہم شمالی یمن میں دو صدیوں سے قائم شیعہ زیدی امامت میں کسی نہ کسی طرح 1962ء تک اپنی سلطنت کو برقرار رکھا اگرچہ اُس کی حیثیت کئی ادوار میں علامتی ہی تھی۔

1962ء میں مشرقِ وسطیٰ میں جاری عرب سوشلسٹ نیشنلسٹ تحریک کے نتیجے میں مصر کے جمال عبدالناصر کے حامی فوجی افسران نے شمالی یمن میں شیعہ زیدی امامت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اس موقعہ پر سعودی عرب کی حکومت نے زیدی امام کا ساتھ دیا تھا جبکہ باغیوں کی امداد کے لئے مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے مصری فوج اور بڑی مقدار میں اسلحہ یمن بھیجا تھا۔ یمن کی یہ خانہ جنگی 5 سال تک جاری رہی۔ 1967ء میں اسرائیل جنگ میں بدترین شکست کے نتیجے میں جمال عبدالناصر شمالی یمن سے مصری افواج کے انخلا پر مجبور ہوگیا تھا۔ یوں سعودی عرب اور مصر کے درمیان ایک مفاہمت کے نتیجے میں یمن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ایک طرف شمال میں جمہوریۂ یمن معرض وجود میں آیا تو دوسری طرف جنوبی یمن میں جاری نیشنلسٹ سوشلسٹ گوریلا تحریک کے نتیجے میں برطانیہ کا عدن اور جنوبی یمن کی دوسری نوآبادیوں سے انخلا عمل میں آیا۔ جس کی بدولت عوامی جمہوریۂ یمن یا سوشلسٹ یمن کا قیام عمل میں آیا جو سرد جنگ کے زمانے میں عرب دنیا کی واحد سوشلسٹ جمہوریہ تھی۔

1990 میں ایک معاہدے کے تحت شمالی اور جنوبی یمن میں اتحاد ہو گیا۔ یوں 22 مئی 1990 کو علی عبداللہ الصالح متحدہ یمن کا پہلا صدر بن گیا۔

*****

22 مئی 1990 سے 27 فروری 2012 تک یمن پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے علی عبداللہ صالح کا تعلق متحدہ یمن کے دارالحکومت صنعاء کے نواع میں مقیم احمر قبیلے سے ہے جس کی اکثریت مذہبا” زیدی شیعہ ہے۔ خود عبداللہ کا تعلق بھی اسی مذہب ہے۔ عبداللہ الصالح کی متحدہ یمن پر حکومت کے قیام کو چند ماہ بعد ہی گزرے تھے کہ اگست 1990ء میں کویت پر عراق نے قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد عرب کی تمام ریاستوں نے صدام حسین کی عراقی حکومت کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ لیکن یمن کا عمومی جھکاؤ عراق کی جانب تھا۔ جس کی وجہ سے یمن اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ خصوصا خلیج کی دوسری جنگ کے موقعہ پر یمن نے کھل کر اپنا وزن عرب اتحاد کے مخالف پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ یمن کی خارجہ پالیسی کے رد عمل میں سعودی عرب، کویت اور دیگر خلیجی ممالک کی عاقبت نااندیش قیادت نے اپنے ہاں سے بڑی تعداد میں یمنی شہریوں کو نکال دیا۔ یاد رہے کہ اس جنگ سے پہلے کویت اور سعودی عرب سمیت دیگر تیل پیدا کرنے والی ریاستوں کی یمن اور یمنیوں پر بڑی عنایات تھیں۔ تعلیم، صحت، اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں یمن کو ان ریاستوں سے بڑے پیمانے پر تعاوّن ملتا تھا۔ ان ملکوں میں یمنیوں کو کام کرنے اور رہنے کے لئے غیر معمولی سہولیات میسر تھیں۔ خلیجی ممالک سے بڑے پیمانے پر انخلاء کی وجہ سے یمن میں عوام بہت زیادہ معاشی مشکلات کا شکار ہو گئے، خصوصا یمن میں بے روز گاری میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ اس معاشی ناگفتہ بہ صورت حال میں یمن کی عوام میں عرب حکومتوں کے خلاف جذبات کا پیدا ہونا فطری عمل تھا، جس کا فائدہ ایران نے اٹھایا۔

اگرچہ 1960ء کی دہائی میں شیعہ زیدی امامت کے خاتمے کے بعد سے ہی شیعہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ حالات سے ناخوش تھا۔ تاہم 1990 میں عرب ممالک کی جانب سے یمن کی اقتصادی امداد کی کٹوتی اور عمومی سرد مہری کے رجحان سے فائدہ اٹھانے کے لئے حسین بدرالدین حوثی نے ایران کے تعاون سے نے ’شباب المومنین‘ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ حسین ایک زبردست خطیب اور اپنے ساتھ لوگوں کو لے کر چلنے میں ماہر تھا۔ اس نے سب سے پہلے نوجوانوں کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ ایران کی امداد سے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ہسپتال، سکولز اور سوشل ویلفیئر کے دوسرے منصوبے شروع کیے۔ ان تمام اداروں میں خاص طور پر “امامی شیعہ دینیات” کے پڑھنے اور پڑھانے کا نظام قائم کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں زیدی شعیوں کو امامی یا اثناء عشری بنانے کا آغاز ہوا۔ ’شباب المومنین‘ کے زیر اہتمام طلبہ اور طالبات کو بڑی تعداد میں ایرانی یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوایا گیا۔ جو ایران سے عمومی تعلیم کے علاوہ مالی تعاون عسکری تربیت بھی حاصل کرتے تھے۔ یوں وہ ایران سے شیعہ انقلاب اور خیمنی کے سپاہی بن کر یمن واپس آتے تھے۔ حسین بدر الدین حوثی نے اپنی خطیبانہ مہارت اور انقلابی نعروں سے اور ایرانی پیسے کی مدد سے حوثی قبیلے کے شیعہ قائدین اور عوام کو اپنے گرد جمع کرلیا۔ بہت سے فوجی کمانڈروں اور حزب مخالف کے لیڈروں کو بھی اپنے پیسے کے لالچ سے اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا۔

14 سال کی محنت اور ایران سے آنے والے بے پناہ وسائل کی بدولت بدالدین نے اتنی عسکری قوت مہیا کی کہ اُس نے 2004ء میں یمن پر قبضہ کرنے کے لئے بغاوت کر دی۔ یہ پہلی حوثی بغاوت کہلاتی ہے جو شمالی یمن کے سعودی سرحد سے متصل صوبے صعدہ میں واقع ہوئی تھی۔ حوثیوں کی یہ بغاوت بُری طرح ناکام ہو گئی تھی جس میں شباب المومنین کا بانی حسین بدرالدین اور اُس کے بہت سے اہم رفقاء یمنی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ خیال رہے کہ اس وقت یمن پر زیدی مذہب سے تعلق رکھنے والے علی عبداللہ الصالح کی حکومت تھی۔ حسین بدر الدین کے مارے جانے کے بعد تحریک کی قیادت اُس کے بھائی عبدالمالک الحوثی کے پاس آگئی۔ عبدالمالک الحوثی نے قیادت سنبھالتے ہی زیدی شعیوں سے تعلق مکمل طور پر ختم کر دیا۔ شباب المومنین کی تنظیم کو تحلیل کر کے اس کی جگہ نئی تنظیم انصار اللہ قائم کی جسے عرف عام میں الحوثی تحریک کہا جاتا ہے۔ اس تحریک میں صرف اور صرف اثناء عشری مذہب اختیار کرنے والوں کو شامل کیا گیا جن میں اکثریت حوثی قبیلے کے افراد کی ہے۔

عبدالمالک الحوثی کی خوش قسمتی تھی کہ جب اُس کے پاس قیادت آئی تو اُس وقت امریکہ اور مغربی ممالک یمن میں القاعدہ کے فروغ اور استحکام سے سخت پریشان تھے۔ امریکہ اور نیٹو نے القاعدہ کے یمن میں روز بروز فروغ پانے والے اثر و رسوخ کے سامنے بند باندھنے کے لئے حوثی تحریک کا انتخاب کیا۔ یوں اسے بیک وقت ایران اور مغربی ممالک کا مالی اور عسکری تعاون حاصل ہو گیا۔ جبکہ امریکہ کی سرپرستی کی وجہ سے سعویوں اور دیگر خلیجی حکومتوں نے بھی اس کی سرگرمیوں سے چشم پوشی اختیار کر لی۔

*****

امریکہ، مغربی طاقتوں اور اُن کے خلیجی اتحادیوں کے نزدیک یمن میں طاقتور ہوتی ہوئی القاعدہ کی مقامی شاخ “انصارالشریعہ” القاعدہ کے دیگر گروپوں کی نسبت بہت زیادہ خطرناک تھی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ان طاقتوں نے دو دھاری پالیسی کی بنیاد رکھی۔ ایک طرف یمن کے حکمران علی عبداللہ الصالح کی وفادار فوج ری پبلکن گارڈز (جس کی قیادت علی عبداللہ الصالح کے بیٹے احمد علی الصالح کے پاس تھی) کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ 2004 سے لے کر 2011 تک یمنی ری پبلکن گارڈز کو امریکہ کی جانب سے 326 ملین ڈالر سے زائد مالیت کا اسلحہ اور نقد رقوم مہیا کی گئیں، اسی عرصے میں اس کے فوجی کمانڈروں کی تربیت کے کئی پروگرامات پایہ تکمیل تک پہنچ چکے تھے۔ “انسدادِ دہشت گردی” سلسلے میں 2004 کی بغاوت کے وقت سے معتوب چلی آنے والی حوثی تحریک کی حکومت سے صلح کرائی گئی۔ 2008 میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت بغاوت کے جرم میں قید تمام حوثی قائدین کو نہ صرف رہا کر دیا گیا، بلکہ ان کا تمام ضبط شدہ اسلحہ اور گولہ بارود واپس کر دیا گیا۔ اور ایران سے ملنے والی عسکری امداد پر بھی آنکھیں بند کر لی گئیں، جس کا امریکی حکام یہ جواز پیش کرتے تھے کہ اگر انہیں ایران سے امداد مل رہی ہے تو یہ القاعدہ سے لڑ بھی رہے ہیں۔

دوسری جانب القاعدہ کے خلاف یمنی فوج اور امریکہ نے براہ راست جنگ کا بھی آغاز کر دیا۔ یمنی فوج زمینی کاروائیوں کی ذمہ دار تھی جبکہ اسے سعودیہ کی سرزمین سے پرواز کرنے والے امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے فضائی امداد مہیا کی جاتی تھی۔ امریکی ڈرون طیاروں کی ان کاروائیوں کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان، عراق اور صومالیہ کی نسبت کہیں زیادہ ڈرون حملے یمن پر کیے۔ بظاہر یہ ڈرون حملے اور زمینی عسکری کاروائیاں القاعدہ اور اس سے تعاون کرنے والوں پر کیے جاتے تھے، لیکن عملا ان کے نتیجے میں یمن کے تمام ہی سنّی قبائل کی عسکری قوت کو کمزور کر دیا گیا کیونکہ مغربی طاقتوں کا خیال تھا کہ القاعدہ کو سنّی قبائل سے اجتماعی یا انفرادی طور پر تعاوّن ملتا ہے۔

یمن کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی جب تیونس، مصر اور لیبیا میں عرب بہار کی کامیابی کے بعد یمن کے دارالحکومت صنعاء اور دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ حکومت نے مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ 22 ہزار شدید زخمی ہوئے، جبکہ 7 ہزار افراد جیلوں میں قید کردیے گئے۔ علی عبداللہ الصالح کی ری پبلکن گارڈز کی جانب سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود مظاہریں ڈٹے رہے۔ امریکہ اور اُس کے یورپی و خلیجی اتحادیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ افراتفری کے اس ماحول سے القاعدہ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ لہذا پُرامن انتقال اقتدار کا ایک فارمولہ تیار کیا گیا، جس کے تحت علی عبداللہ الصالح کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور یمن کے تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ نئی قائم ہونے والی حکومت کا صدر “عبد ربہ منصور ہادی” مسلک کے اعتبار سے شافعی تھا، جبکہ اس حکومت میں وزیر اعظم کا عہدہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنی مضبوط سیاسی پوزیشن کی وجہ سے اخوان المسلمون کی یمنی شاخ جماعت الاصلاح کے پاس آ گیا۔

یہاں حالات نے ایک اور کروٹ لی، عرب حکومتیں نہ صرف القاعدہ سے خائف تھیں، بلکہ وہ یمن میں اخوان کے نظریات رکھنے والے کسی شخص کو ملک کے اعلیٰ عہدے پر برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں تھیں۔ لہذا اس حکومت کے ساتھ ان کا رویہ ابتداء ہی سے بہت سرد مہری کا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں نے بھی اس حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی یمن کو دی جانے والی ہر قسم کی امداد بند کر دی۔ دوسری طرف علی عبد اللہ الصالح نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد یہ پراپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ 1911 میں یمن سے خلافت عثمانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر متحدہ یمن کے اقتدار پر اہل سنّت کا قبضہ ہو گیا ہے۔ اس نعرے کو اہل تشیع میں پذیرائی حاصل ہوئی، یمن کے شعیہ اکثریتی علاقوں میں اہل تشیع کے اقتدار کی بحالی کے نعرے بلند ہونا شروع ہو ئے۔ علی عبداللہ الصالح کے تعاون، عبد المالک حوثی کی قیادت اور ایرانی عسکری ماہرین کی رہنمائی میں حوثی قبائل کی فوجوں نے پیش قدمی کرنا شروع کر دی۔

دلچسب حقیقت یہ ہے کہ حوثیوں کی پیش قدمی کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں میں سب سے نمایاں نام سابق صدر علی عبداللہ کے زیدی مذہب کے حامل قبیلے الاحمر کا ہے۔ جس کے مسلح نوجوانوں نے جنرل علی محسن الاحمر کی زیر قیادت 6 مختلف مقامات پر حوثیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لیکن اس موقع پر 30 سال سے زیادہ عرصے تک یمن کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے علی عبداللہ الصالح کی وفادار ری پبلکن کارڈز (جسے نئی حکومت نے بحیثیت ادارہ تحلیل کر دیا تھا) اور دیگر سرکاری عہدے داروں نے حوثیوں کا ساتھ دیا اور وہ بغیر کسی بڑی مزاحمت کے دارالحکومت صنعاء پر قابض ہو گئے۔ جہاں اںہوں نے سب سے پہلے طاقت کے بل بوتے پر “جماعت الاصلاح” کے وزیراعظم “سلیم باسندوا” کو برطرف کر دیا۔ “جماعت الاصلاح” کی قیادت اور کارکنوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ یہاں تک سب کچھ پلان کے مطابق تھا اسی لئے یورپی اور خلیجی حکومتوں نے حوثیوں کے دارلحکومت صنعاء پر قبضے پر بھی کسی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔

*****

یمن کے دارالحکومت صنعاء پر حوثیوں کے مکمل قبضے اور وزیر اعظم کی جبری برطرفی کے بعد قصر صدارت میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بن عمر (امریکی ٹاؤٹ کے طور پر شہرت رکھنے والا مراکش کا سابق سیاستدان) کی زیر نگرانی اور خلیج تعاون کونسل کی ضمانت میں حزب الاصلاح کو ایک طرف رکھ کر حوثی نمائندوں اور باقی یمنی سیاسی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ہوئے۔ جسے “اتفاقیۃ السلم والشراکۃ” (معاہدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت سابق یمنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ فوری طور پر ایک ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام پر اتفاق ہوا، جس کا وزیراعظم حُوثی ہونا قرار پایا۔ “عبد ربہ ھادی منصور” کو اس مجوزہ حکومت کا عبوری صدر نامزد کیا گیا۔ حُوثیوں نے اس امن معاہدے کی سیاسی دستاویز پر دستخط کردیے۔ لیکن انہوں نے فوجی اور دفاعی امور سے متعلق دستاویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، جس کے تحت حوثیوں کو دارالحکومت صنعاء سے پیچھے ہٹ جانا تھا اور سکیورٹی سرکاری حکام کے حوالے کر دینی تھی۔

معاہدے کی شب کو حوثیوں نے یمن کے تمام زیر قبضہ شہروں اور قصبات میں زبردست آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہوئے ’’انقلاب آزادی‘‘ کی کامیابی کا جشن منایا۔ انہوں نے دارالحکومت کو خالی کرنے کے بجائے وزارت دفاع، داخلہ، فوجی مراکز سمیت دارالحکومت کے تمام اہم مقامات پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ صنعاء اور دیگر زیر قبضہ شہروں میں واقع اہم فوجی چھاؤنیوں سے ٹینکوں، توپوں اور بکتربندگاڑیوں پر مشتمل بھاری اسلحہ اپنے قبضے میں لے کر شمال میں واقع اپنے محفوظ فوجی ٹھکانوں میں منتقل کردیا۔ یہی نہیں بلکہ عبوری صدر کو اُس کے محل میں نظر بند رکھنے کے بعد صنعاء سے نکال دیا۔ تہران اور صنعاء کے درمیان براہ راست پروازوں کا غیر قانونی معاہدہ کر لیا۔ اسی دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خصوصی ایلچی علی شیرازی نے فارسی نیوز ویب پورٹل” دفاع پریس” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ حوثی گروپ “انصار اللہ”، لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی ایک نئی شکل ہے جو “یمن میں کامیابی کے بعد اسلام دشمنوں کے خلاف ایک نیا محاذ شروع کرے گا”۔ ادھر حوثی باغیوں نے صنعاء سے آگے پیش قدمی کرتے ہوئے یمن کے عارضی دارلحکومت عدن کو محاصرے میں لے لیا۔

عین یہی وہ وقت تھا جب ان پر سعودی طیاروں کے فضائی حملوں کا آغاز ہوا۔ خیال رہے کہ سعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل سرحد یمن سے ملتی ہے۔ حوثی یمن کے علاوہ سعودی عرب کے تین صوبوں “نجران جازان اور عسیر” کو یمن کی سابق شیعہ سلطنت کا حصہ قرار دے کر دوبارہ قبضے کے دعوے دار ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ یمن کی 70 فیصد آبادی سنّی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ 20 فیصد آبادی زیدی شیعہ کی ہے۔ جبکہ حوثی کل آبادی کا 5 فیصد بھی نہیں بنتے ہیں۔ اس لئے یمن پر ان کے مستقل قبضے کی کوئی صورت عملا نظر نہیں آتی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ حوثی اور ایران حوثیوں کے موجودہ قبضے کے ذریعے یمن میں ایک خود مختار علاقے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کے برقرار رہنے کی یقین دھانی کے علاوہ بحرین میں شیعہ حکومت کے قیام کے لئے سودےبازی کرنا چاہتے ہیں۔ (بشکریہ ایقاظ)
@Dua کے لئے پوسٹ نمبر 60 کے حوالے سے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
پاکستان نے فوج کا ایک دستہ سعودی عرب بھیجنے کا فیصلہ کرلیا،غیر ملکی ویب سائٹ کا دعویٰ

1اپریل‬‮2015

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سعودی عرب نے یمن میں فوجی کارروائی کے لیے پاکستان سے فوجی مدد مانگ لی ہے جس کا فیصلہ وفد کی واپسی کے بعد ہوگاجبکہ ایک عرب ویب سائیٹ نے دعویٰ کیاہے کہ پاکستان فوج کا ایک دستہ بھیجے گا۔تفصیلات کے مطابق یمن کی صورتحال کا جائزہ اور پاکستانی شہریوں کے انخلاسے متعلق تبادلہ خیال کے لیے سعودی عرب پہنچنے والے پاکستانی کے دفاعی وفد سے ملاقات میں سعودی حکام نے فوجی مدد دینے کا مطالبہ کردیا۔ ملاقات میں سعودی حکام کاکہناتھاکہ اس وقت ا±نہیں یمنی باغیوں کیخلاف اور سعودی مملکت کی حفاظت کیلئے پاکستانی فوجی مدد کی ضرورت ہے ، حکومت پاکستان اور پاک فوج ا±ن کے ساتھ تعاون کرے۔ بتایاگیاہے کہ وفد واپس پاکستان پہنچ کر سیاسی وعسکری قیادت کو بریفنگ دے گاجس کے بعد دیکھاجائے گاکہ آیا فوج بھیجنا ممکن ہے یانہیں کیونکہ پاکستان خود حالت جنگ میں ہے اور مشرقی و مغربی بارڈر پر بھی اڑھائی لاکھ سے زائد جوان تعینات ہیں۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق پاکستانی حکام یہ فیصلہ کریں گے کہ کیاسعودی عرب کے تعاون کیلئے فوج بھیجی جاسکتی ہے یاپھر صرف انٹیلی جنس تعاون ہی کیاجاسکتاہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد میں فوجی ماہرین بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف ایک عرب ویب سائیٹ نے دعویٰ کیاہے کہ پاکستان یمن میں سعودی عرب کی مدد کے لیے فوج کا ایک دستہ بھیجنے پر تیار ہوگیاہے جبکہ وزیردفاع خواجہ آصف نے کہاکہ پاکستان پہلے ہی واضح کرچکاہے کہ سعودی عرب میں فوج بھیجنے کاکوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف بحیرہ احمر کے قریب فیکٹری پر بمباری پر بمباری سے 23 مزدور جبکہ مغربی یمن میں ڈیری فارم پر بمباری میں 37 افراد مارے گئے۔

http://javedch.com/latest-news/2015/04/01/30366
 

muntazirrehmani

مبتدی
شمولیت
فروری 24، 2015
پیغامات
72
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
18
عرب دنیا پاکستان کو کیا سمجھتی ہے؟عرب صحافی نے پاکستانیوں کوحیران کردیا
31 مارچ 2015

کراچی (قدرت نیوز) فلسطینی نژاد عرب صحافی اور الجزیرہ کے نمائندے عبدالرحمان مطہر نے کہاہے کہ عرب دنیا ہر مشکل میں پاکستان کی طرف دیکھتی ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان پوری مسلم دنیا میں واحد ایٹمی طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب دنیا مسلمان ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، عرب چاہتے ہیں کہ پاکستان آگے بڑھ کر مسلم امہ کی سربراہی کرے۔ ان کے بقول پاکستان نہ صرف ایٹمی طاقت ہے بلکہ اس کے پاس جدید ترین میزائل، ڈرون ٹیکنالوجی اور دنیا کی بہترین اور مسلم دنیا کی سب سے طاقتور فوج بھی ہے،۔ یمن کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ حوثی باغیوں نے تمام فریقوں کے اتفاق سے ہونے والے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور غیر مسلح ہونے کے بجائے دو سالوں میں ہتھیار جمع کر کے قریہ قریہ اور شہر شہر پر قبضہ کرنا شروع کردیا جس کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسے حالات میں پاکستان سعودی عرب کی درخواست پر یمن میں فوج بھیجتا ہے تو عرب دنیا اسے مثبت نظر سے دیکھے گی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
@خضرحیات بھائی بّعض لوگ یہ اعترض کر رہے ہیں
’’پاکستانی فوج اور سعودی عرب کی حفاظت‘‘
کیا ’’ابرہہ اور ابابیل‘‘ کا واقعہ جھوٹ ہے؟
یا
مذہب کے ٹھیکے دار خاندان
بیت الحرام کی آڑ میں
اپنے ’’حرم‘‘ بچانا چاہتے ہیں ؟
اور ان کے
’’حرم‘‘ کو ’’مال‘‘ سپلائی کرنے والے دلال
اپنے ذریعۂ معاش کے تحفظ کی کوشش کررہے ہیں؟
https://fbcdn-sphotos-g-a.akamaihd.net/hphotos-ak-xaf1/v/t1.0-9/s720x720/21251_568738459896463_8749374206527911997_n.jpg?oh=1f1bea4645d5c781b99306f9c6211929&oe=55BB6321&__gda__=1438342707_d4b1ae1288e81a6bae95b32f7d18bf6a
ابرہہ اور ابابیلوں کا واقعہ سچ ہے ، لیکن حرمین کی حفاظت کے لیے اللہ کے بندے موجود ہیں ، اللہ ان ابرہوں پر پرندے نازل کرنے کی بجائے اپنے بندوں کو مسلط کرے گا ۔ ان شاءاللہ ۔
’’ عباد الرحمن ‘‘ کی موجود گی میں اللہ کو پرندے بھیجنے کی ضرورت نہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہ بھی پڑھ لیجئے
عبداللہ طارق سہیل
خدا کا فضل ہے اور قوم کی خوش قسمتی ہے کہ معلومات اور وہ بھی ’’سچیّ ‘‘ جتنی ہمارے ہاں دستیاب ہیں دنیا کے کسی اور ریاست میں نہیں ہوں گی۔ درجنوں ٹی وی چینل ہیں اور ان پر دن رات معلومات کا بہاؤ بہاتے سینکڑوں اینکر پرسن، دانشور، تجزیہ نگار اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ جن کے نام کے شروع میں ریٹائرڈکا لفظ بھی لکھا ہوتا ہے۔ اس سے مراد ان کی سابقہ ذمہ داری سے فراغت ہے نہ کہ عقل سے۔ عقل کے اعتبار سے تو یہ عقل کل ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن کے نام کے ساتھ ریٹائرڈ نہیں لکھا ہوتا وہ عقل کل نہیں ہوتے۔ سچ پوچھئے تو سے مو خرالذکر ان اول الذکر سے بڑھ کر عقل والے ہیں۔
ان دنوں یمن کا بحران چینلز پر اور ان دانشوروں اینکر پر سنز اور تجز یہ نگاروں کے حواس پر چھایا ہوا ہے۔ درجنوں چینل ہیں اور ایک آدھ کو چھوڑ کرسبھی یمن پر سعودی عرب کی جار حیت کے خلاف مصروف گر یہ وبکا ہیں۔ اور ان میں سے پانچ چھ تو ایسے ہیں کہ لگتا ہے ، براہ راست جنرل قاسم سلیمانی کے سکرین پلے کے مطابق پلے کر رہے ہیں۔
ٰؓٓؓ پروگرام بہت دلچسپ ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ایک ایک چینل پر روزانہ تین تین بار گریہ و بکا کی محفل سجتی ہے۔ ہر پروگرام کی شروعات اس اصولی موقف سے ہوتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران دونوں دوست ملک ہیں۔ہمیں ایک ملک کی خاطر دوسرے دوست کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس اصولی موقف کے فوراََ بعد عملی موقف شروع ہوجاتا ہے اور پورا ،گھنٹہ اشتہارات کے وقفے کونکال کر سعودی عرب کی وہ دھلائی کی جاتی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔
عملی موقف میں ٹیپ کا بند ’’سعودی جارحیت ‘‘ ہوتی ہے۔ سعودی جارحیت یعنی یمن پر سعودی عرب کا حملہ۔ پاکستان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دو ملکوں کی جنگ میں خود کو غیر جانبدار رکھے۔
بہت اچھی اپیل ہے۔ لیکن کون سے دو ملکوں کی جنگ؟ یمن پر منصور ہادی کی حکومت ہے اور صدر منصور ہادی کی حکومت نے سعودی عرب ہی نہیں، سارے عرب ملکوں سے اپیل کی ہے کی ہے کہ حوثیوں کی بغاوت ختم کرنے میں اسکی مدد کریں۔ یہ دو ملکوں کی جنگ کیسے ہو گئی؟۔
شام پربشارالاسد کی حکومت ہے۔ ملک۸۳ کی فیصد ٓبادی نے اقلیتی حکومت کیخلاف بغاوت کر رکھی ہے۔ ایران اس بغاوت کو ختم کرنے کیلئے بشارالاسد حکومت کی مدد کر رہا ہے۔ کیا یہ ایران اور شام کی جنگ ہے۔شام میں تیرہ فیصد الوائیٹ اور دو فیصد عیسائی ہیں۔ ۸۳فیصد سنی آبادی ہے اور پاسداران انقلاب کے دسیوں ہزار فوجی شام میں حکومتی فوج سے مل کر باغیوں کی سر کوبی کر رہے ہیں۔ کبھی نہیں سنا کہ کسی نے اسے شام پر ایران کی جارحیت کہا ہو۔
ایسا ہی منظر عراق میں ہے۔ وہاں بھی بغاوت ہے۔ ایک نہیں کئی قسم کی۔ داعش الگ قیامت برپا ہوئے ہے اور رمادی، فلوجہ میں کوئی اور گروہ لڑرہے ہیں۔ ایران نے نہ صرف اپنے جرنیل اور پاسداران ہزاروں کی تعداد میں بھیجے بلکہ اس کے طیاروں نے باغیوں پر بمباری بھی کی۔ کسی نے کہا کہ ایران نے عراق پر حملہ کر دیا؟
ابھی کل ہی ا مریکہ نے تکریت چھڑا کر عراقی حکومت کو دیا ہے ۔ کیا امریکہ نے جار حیت کی؟پاکستان میں طالبان اور فاٹا کی بغاوت پر امریکہ پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ امریکہ کی پاکستان سے جنگ ہورہی ہے؟ یا امریکہ نے پاکستان پر جارحیت کردی؟ بارہ برسوں سے امریکہ پاکستان کی مدد کر رہا ہے یا جارحیت؟
ایران اور سعودی عرب برابر کے دوست ہیں، یہ ایک نیا سچ ہے۔ ایران نے بلوچستان کی سرحد گرم کر رکھی ہے۔ پھر بھی وہ پاکستان کا برابر کا دوست ہے۔ اس کے سفیر نے سابق افسر اور حال تجزیہ نگار ھلالی کو بتایا کہ ہمارے ۷۰ ہزار آدمی ایک ہی کال پر پاکستانی حکومت کیخلاف میدان میں نکل آئیں گے۔ اسلام آباد کے دھرنوں میں یہ آئے بھی۔ ۷۰ ہزار تو نہیں لیکن کئی ہزار کی گنتی میں ضرور آئے۔ کیا سعودی عرب نے بھی ایسی کو ئیْ ْ۔۔ْْ ’’دوستانہ‘‘ کاروئی کی؟۔ خیر اس سے برابر کا دوست ہونے پر کیا فرق پڑتا ہے۔
یہ اینکر پرسن ، تجزیہ نگار اور دانشور اس درجے کے سچے ، دیانتدار اور نیکو کار ہیں اور ''امت'' کے اتحاد کا درد ان کے سینوں میں اس طرح موجیں مار رہا ہے کہ ازراہ احترام انہیں آ یت اللہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں ۔ یہ محض علامتی خطاب ہے۔ انہیں آپ جانتے ہیں، ہر روز دیکھتے ہیں، دن میں کئی کئی بار سنتے اور سر دھنتے ہیں۔ آیت اللہ مبشر زیدی کا شانی، آیت اللہ اعجازحیدرگورگانی، آیت اللہ حسن عسکری بندر عباسی، آیت اللہ شاہد لطیف نیشا پوری، آیت اللہ طلعت مسعودیزدگردی، آیت اللہ شیخ رشید گل پائیگانی، آیت اللہ ماریہ سلطان برد جروی ، آیت اللہ ایاز میر مشہدی ۔ کتنے نام گنوائے جائیں ایک سے پڑھ کر ایک ملے گا ۔ شام اور عراق میں بغاوت کی بات ہو تو کجری اور یمن میں بغاوت کی بات ہو تو ٹھمری۔ ہر راگ کے راگی ہیں۔اور تان ٹوٹتی ہے کہ سعودی عرب کو ٹھینگا دکھا دیا جاے۔ ضرور دکھا یا جائے لیکن ٹھینگا دکھانے سے پہلے پاکستان کے ایٹمی اسلحہ خانے کو اٹھا کر اسے واپس کرنا ہو گا کہ سارے کا سارا تو تقریباََ سعودی پیسے سے ہی بنا تھا ورنہ ہمارے پاس کہاں کے قارون کے خزانے تھے۔ اور صرف ایٹمی پروگرام پر ہی سعودی پیسہ نہیں لگا تھا بلکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر پابندیاں لگی تھیں تو ان کا تو ڑبھی سعودی عرب نے مفت تیل دے کر کیا تھا۔ اور سعودی عرب شروع ہی سے پاکستا ن کوملین بلین ڈالر دیتا رہا ہے۔ یہ لطیفہ پہلی بار ہوا کہ نواز حکومت کے دور میں جب سعودی عرب نے پاکستان کو بھاری رقم دی تو اربابِ یزدگردنے اودھم مچادیاکہ سعودی عرب نے یہ سب کیوں دیا،دال میں کچھ کالا ہے۔ یہ اودھم پہلے کبھی نہیں مچا۔ اس بار ہی کیوں مچا۔
شاید ا س لیے کہ پہلے کوئی جنرل قاسم سلیمانی تھا نہ اس کا سکرین پلے اور نہ اربابِ یزدگرد اس طر ح ٹی وی چینلز پر دھونیاں رما کر کبھی بیٹھے تھے۔
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
کعبہ کے بارے میں چند معلومات:

١. رسول عربی کے بعد عبدالله ابن الزبیر
.
رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم۔عبداللہ ابن االزبیر رضی اللہ عنہ
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(الاحزاب۔33)
رَّ‌ضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا عَنْهُ ۚ(المائدہ۔5)
 
Top