آجکل کے طالبعلموں کا یہ حال ہے کہ جب تک آپ ان کے شیوخ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں آپ ہمارے ساتھ ہیں اور ایک بھی بات میں غلطی سے بھی اختلاف کر لیا تو سمجھ لو کہ آپ کی ساری کاوشیں برباد ہیں اور آپ کو جہنم کی ٹکٹ مل چکی ہے۔ حالانکہ اللہ نے ہر کسی کو ایک جیسا فہم نہیں دیا، اگر ہر کسی کو ایک ہی فہم پر جواب دہ ٹھہرانا ہوتا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ مجتہد کو غلطی پر بھی جزا نہ دیتا۔
ایک طرف اللہ کی ذات ہے جو بندے کی بڑی سے بڑی کوتاہیوں کو معاف کرنے میں دیر نہیں کرتی اور اگر کوئی اللہ کی محبت میں جذباتی ہر کر کفریہ کلمہ بھی کہہ دے تو اللہ بُرا نہیں مانتا اور ایک طرف ہمارے آجکل کہ یہ مولوی اور مُلّے ہیں جو اللہ کے نام پر لوگوں پر دین کو مشکل سے مشکل تر کرنے میں مصروف ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے جو کہہ دیا بس اسی پر عمل ہونا چاہیے دوسرا کسی کو اختلاف کا کوئی حق نہیں ہے!
ایک طرف ہمارے نبی ﷺ ہیں جو یہودی کو مسجد میں پیشاپ کرنے پر بھی اس سے نرمی سے پیش آتے ہیں، اور ایک صحابی کا نماز میں کلام کرنے پر اسے اتنے پیار سے سمجھاتے ہیں، اور دوسری طرف یہ دین کے ٹھیکیدار ہیں جو ذرا سا بھی اختلاف کرنے پر اگلے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں!
اختلاف ہر دور سے چلتا آ رہا ہے لیکن ان علماء اور آجکل کے مولویوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس دور کے علماء نے شدید اختلافات ہونے کے باوجود بھی ادب واخلاق کا دامن کبھی چھوٹنے نہیں دیا۔ اور آجکل کے دور میں ایک عالم دوسرے عالم کی تحقیق پر اپنے دلائل کی روشنی میں سوال بھی اٹھا لے تو ایک دوسرے کو کذاب، جھوٹا ناجانے کیا کیا القابات سے نواز دیتے ہیں۔ اور اسی لئے یہ عادتیں اب ان شیوخ کے چیلوں میں بھی کوٹ کوٹ کر بھر چکی ہیں۔
افسوس کہ ان لوگوں نے اپنے من پسند شیخ سے آگے کچھ پڑھا ہی نہیں، اگر اپنے ہی نبی اور سلف کی سیرت پڑھ لیتے تو اتنے بےوقوف نہ ہوتے۔
امیر المؤمنین فی الحدیث امام سفیان الثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ذا رأيت الرجل يعمل العمل الذي قد اختلف فيه، وأنت ترى غيره، فلا تَنْهَه
"جب تم کسی شخص کو ایسا عمل کرتے دیکھو جس میں اختلاف ہے، اور تم اس کے علاوہ کوئی رائے رکھتے ہو، تو اس سے دست بردار مت ہونا"
(حلیۃ الاولیاء: ج 6 ص 368 واسنادہ صحیح)