ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کا ۱۴ سال کے بعد رجوع اور اسکا جواب
http://ashabulhadith.com/main/wp-content/uploads/2016/01/Dr_Farhat_Hashmi_Ka_Apni_Ghalti_Sey_Rajoo_Ka_Jawaab.mp3
----------
ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کی کہی ہوی چند باتیں۔۔۔
قدیم مفسرین کی تفسیر سے چمٹے رہنا اور جدید تفسیر نہ کرنے سے مسلمانوں کو نقصان ہوا ہے۔ اور نوجوان دین سے دور ہو گئے ہیں۔ اور قرآن مجید کی قدیم تفاسیر اس ماحول و زمانہ کے اعتبار سے تھیں۔ نئی اور جدید تفسیر کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم ان ہی تفاسیر کو چھانٹتے رہیں گے تو کبھی کامیاب نہ ہو پائیں گے۔
ہمیں عقیدہ کے مسائل، نبی نور تھے یا بشر یا فقہی مسائل، آمین بلند آواز سے کہیں یا آہستہ، اسمیں نہیں پڑھنا چاہیے۔ قبر میں یہ سوالات نہیں ہونگے۔
شرک پر بھی خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے امت کی وحدت کے لیے۔
(ہارون علیہ السلام بچھڑے کی عبادت پر خاموش رہے تو ہم کیوں خاموش نہیں رہ سکتے امت کی وحدت کے لیے۔)
میں اہل حدیث نہیں ہوں ، یہ بھی ایک فرقہ ہے۔ اور میں کسی بھی فرقہ کو نہیں مانتی۔
اللہ تعالی نے ہمیں مسلمان بننے کا حکم دیا ہے۔ وہابی بننے کا حکم نہیں دیا۔
ایسے علماء جو جدید دور کے اعتبار سے تفسیر کر سکیں وہ میرے علم میں نہیں ہیں۔
علماء اور مجھ میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ میں جدید تفسیر اور آیت کا موجودہ دور میں کیا فائدہ ہے اس پر زور دیتی ہوں اور وہ قدیم تفاسیر ہی چھانتے رہتے ہیں۔
جو کوئی بھی کچھ تبدیلی ، انقلاب یا جدیدیت لانا چاہتا ہے اسے ہمارے دینی عناصر کی طرف سے مذمت کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے اور علماء کفر کے فتوے لگادیتے ہیں۔
اکثر علماء میرے خلاف ہیں لیکن مجھے کسی عالم سے احکامات لینے کی ضرورت نہیں کہ میں انکی مرضی کا اسلام پڑھاوں۔
میرے خلاف بولنے والوں کی جنگ مجھ سے نہیں بلکہ اللہ تعالی سے ہے کیونکہ میں اسکا کلام پڑھاتی ہوں۔
کسی فرقہ پر گمراہی کا حکم نہیں لگانا چاہیے یہ تو اللہ کا کام ہے۔
مولانا مودودی کی اچھی باتیں لے لی جائیں اور غلط باتیں چھوڑدی جائیں۔
اللہ تعالی ڈاکٹر صاحبہ کو، اور ہم سب کو حق کہنے کی، حق سمجھنے کی اور حق کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔